دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
رنگ ہے دل کا مرے

تم نہ آئے تھے تو ہر چیز وہی تھی کہ جو ہے
آسماں حدِّ نظر ، راہگزر راہگزر، شیشہ مَے شیشہ مے
اور اب شیشہ مَے ،راہگزر، رنگِ فلک
رنگ ہے دل کا مرے ،’’خون جگر ہونے تک‘‘
چمپئی رنگ کبھی راحتِ دیدار کا رنگ
سرمئی رنگ کہ ہے ساعتِ بیزار کا رنگ
زرد پتّوں کا ،خس وخار کا رنگ
سُرخ پُھولوں کا دہکتے ہوئے گلزار کا رنگ
زہر کا رنگ ، لہو رنگ ، شبِ تار کا رنگ
آسماں ، راہگزر،شیشہ مَے،
کوئی بھیگا ہُوا دامن ،کوئی دُکھتی ہوئی رگ
کوئی ہر لخطہ بدلتا ہُوا آئینہ ہے
اب جو آئے ہو تو ٹھہرو کہ کوئی رنگ ،کوئی رُت ،کوئی شے
ایک جگہ پر ٹھہرے،
پھر سے اک بار ہر اک چیز وہی ہو کہ جو ہے
آسماں حدِّ نظر ، راہگزر راہگزر، شیشہ مَے شیشہ مے


ماسکو اگست 1963
 

فرخ منظور

لائبریرین
پاس رہو

تم مرے پا س رہو
میرے قاتل ، مرے دِلدار،مرے پاس رہو
جس گھڑی رات چلے،
آسمانوں کا لہو پی کے سیہ رات چلے
مرہمِ مُشک لئے، نشترِالماس لئے
بَین کرتی ہوئی، ہنستی ہُوئی ، گاتی نکلے
درد کے کاسنی پازیب بجاتی نکلے
جس گھڑی سینوں میں ڈُوبے ہُوئے دل
آستینوں میں نہاں ہاتھوں کی رہ تکنے لگیں
آس لئے
اور بچوں کے بلکنے کی طرح قُلقُل مے
بہرِ ناسودگی مچلے تو منائے نہ مَنے
جب کوئی بات بنائے نہ بنے
جب نہ کوئی بات چلے
جس گھڑی رات چلے
جس گھڑی ماتمی ، سُنسان، سیہ رات چلے
پاس رہو
میرے قاتل، مرے دلِدار مرے پاس رہو!


ماسکو 1963[FONT=Urdu Naskh Asiatype,Andale Mono]
[/FONT]​
 

فرخ منظور

لائبریرین
تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے
کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گِلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
ہُوا ہے جب سے دلِ ناصبُور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے
اگر شررِ ہے تو بھڑکے ، جو پھول ہے تو کِھلے
طرح طرح کی طلب ، تیرے رنگِ لب سے ہے
کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے
ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے


بمبئی 1957
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہر سَمت پریشاں تری آمد کے قرینے
دھوکے دئیے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے
ہر منزلِ غربت پہ گماں ہوتا ہے گھر کا
بہلایا ہے ہر گام بہت در بدری نے
تھے بزم میں سب دودِ سرِ بزم سے شاداں
بیکار جلایا ہمیں روشن نظری نے
مَے خانے میں عاجز ہُوئے آزُردہ دِلی سے
مسجد کا نہ رکھا ہمیں آشفتہ سری نے
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیض، کبھی بخیہ گری نے


لندن 1962
 

فرخ منظور

لائبریرین
شرحِ فراق ، مدحِ لبِ مشکبو کریں
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں
یار آشنا نہیں کوئی ، ٹکرائیں کس سے جام
کس دل رُبا کے نام پہ خالی سَبُو کریں
سینے پہ ہاتھ ہے ، نہ نظر کو تلاشِ بام
دل ساتھ دے تو آج غمِ آرزو کریں
کب تک سنے گی رات ، کہاں تک سنائیں ہم
شکوے گِلے سب آج ترے رُو بُرو کریں
ہمدم حدیثِ کوئے ملامت سُنائیو
دل کو لہو کریں کہ گریباں رفو کریں
آشفتہ سر ہیں ، محتسبو، منہ نہ آئیو
سر بیچ دیں تو فکرِ دل و جاں عدو کریں
’’تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘‘
 

فرخ منظور

لائبریرین
منظر

رہ گزر ، سائے شجر ، منزل و در، حلقۂ بام
بام پر سینۂ مہتاب کھُلا، آہستہ
جس طرح کھولے کوئی بندِ قبا، آہستہ
حلقۂ بام تلے ،سایوں کا ٹھہرا ہُوا نیل
نِیل کی جِھیل
جِھیل میں چُپکے سے تَیرا، کسی پتّے کا حباب
ایک پل تیرا، چلا، پُھوٹ گیا، آہستہ
بہت آہستہ، بہت ہلکا، خنک رنگِ شراب
میرے شیشے میں ڈھلا، آہستہ
شیشہ و جام، صراحی، ترے ہاتھوں کے گلاب
جس طرح دور کسی خواب کا نقش
آپ ہی آپ بنا اور مِٹا آہستہ
دل نے دُہرایا کوئی حرفِ وفا، آہستہ
تم نے کہا ’’آہستہ‘‘
چاند نے جھک کے کہا
’’اور ذرا آہستہ‘‘


ماسکو 1964
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
پاس رہو

تم مرے پا س رہو
میرے قاتل ، مرے دِلدار،مرے پاس رہو
جس گھڑی رات چلے،
آسمانوں کا لہو پی کے سیہ رات چلے
مرہمِ مُشک لئے، نشترِالماس لئے
بَین کرتی ہوئی، ہنستی ہُوئی ، گاتی نکلے
درد کے کاسنی پازیب بجاتی نکلے
جس گھڑی سینوں میں ڈُوبے ہُوئے دل
آستینوں میں نہاں ہاتھوں کی رہ تکنے لگیں
آس لئے
اور بچوں کے بلکنے کی طرح قُلقُل مے
بہرِ ناسودگی مچلے تو منائے نہ مَنے
جب کوئی بات بنائے نہ بنے
جب نہ کوئی بات چلے
جس گھڑی رات چلے
جس گھڑی ماتمی ، سُنسان، سیہ رات چلے
پاس رہو
میرے قاتل، مرے دلِدار مرے پاس رہو!


ماسکو 1963
[FONT=Urdu Naskh Asiatype,Andale Mono]
[/FONT]​

بہت شکریہ محترم!
 
Top