درود شریف

ثناءاللہ

محفلین
جب نتجہ نکلہ، تو ورنیکلرفائنل کا وظیفہ تو مجھے صرف دو برس کے لئے ملا لیکن درود شریف کا وظیفہ میرے نام تا حیات لگ گیا۔
یہ ایک ایسی نعمت مجھے نصیب ہوئی ' جس کے سامنے کرم بخش کے سارے "اجیپھے" گرد تھے۔ اس کے لئے نہ پرانی باؤلی کے پانی میں رات کو دو دو پہر ایک ٹانگ پر کھڑا ہونا پڑتا تھا ۔ نہ کنویں میں الٹا لٹک کر چِلّہ معکوس کھینچنے کی ضرورت تھی۔ نہ گگا ماڑی میں ڈھول کی تال پر کئی کئی گھنٹے "حال" کھیلنے کی حاجت تھی۔ نہ مراقبے کی شدت تھی، نہ مجاہدے کی حدّت تھی، نہ ترک حیوانات، نہ ترک لذّات،نہ تقلیل طعام، نہ تقلیل منام، نہ تقلیل کلام، نہ تقلیل اختلاط مع الانام، نہ رجعت کا ڈر، نہ وساوس کی فکر، نہ خطرات کا خوف۔ یہ تو بس ایک تخت طاؤس تھا، جو ان دیکھی لہروں کے دوش پر سوار آگے ہی آگے، اوپر ہی اوپر رواں دواں رہتا تھا۔ درود شریف نے میرے وجود کے سارے کے سارے افقوں کو قوس قزح کی لطیف رداؤں میں لپیٹ لیا۔ گھپ اندھیروں میں مہین مہین سی شاعیں رچ گئیں، جنھیں نہ خوف ہراس کی آندھیاں بجھا سکتی تھیں نہ افکار و حوادث کے جھونکے ڈگمگا سکتے تھے۔ تنہائی میں انجمن آرائی ہونے لگی۔ بھری محفل میں حجروں کی خلوت سما گئی، دل شاد، روح آباد۔ جسم یوں گویا کشش ثقل سے بھی آزاد۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ درودشریف کی برکت سے پردہ خیال پر ایک ایسی بابرکت ذات کے ساتھ قربت کا احساس جاری و ساری رہتا تھا۔ جس کے پاؤں کی خاک اغواث اور اقطاب اور اوتار و ابدال کی آنکھ کا سرمہ۔ جس کے قدموں میں دنیا کامران اور عقبٰی بھی بامراد۔ جس کے ذکر کے نور سے عرش بھی سر بلند اور فرش بھی سرفراز۔ جس کا ثانی نہ پہلے پیدا ہوا، نہ آگے کبھی ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس کی آفرینش پر رب البدیع الخالق الباری المصور نے اپنی صناعی کی پوری شان تمام کر دی
بلغ العلٰی بکمالہ
کشف الدّ جٰی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلو علیہ و آلہ

از قدرت اللہ شہاب
 
Top