درسِ توحید جو دنیا کو سکھایا جاتا-------برائے اصلاح

الف عین
ظہیراحمدظہیر
سید عاطف علی
صابرہ امین
محمّد احسن سمیع :راحل:
----------
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
------------
درسِ توحید جو دنیا کو سکھایا جاتا
رب ہے معبودِ حقیقی یہ بتایا جاتا
-------
بتکدہ پھر نہ یہاں کوئی بھی بنتا ہرگز
رب کے در پر جو زمانے کو جھکایا جاتا
---------
پھیلتا دینِ محمّد ہی زمانے بھر میں
بن کے مومن جو اگر ان کو دکھایا جاتا
---------
لوگ بنتے نہ کبھی آج ہمارے دشمن
ان کی گردن پہ جو خنجر نہ چلایا جاتا
-----------یا
دوست ان کو جو محبّت سے بنایا جاتا
-----------
آگ نفرت کی جلاتی نہ ہمارے گھر کو
اس کے شعلوں کو محبّت سے بجایا جاتا
------------یا
گر محبّت سے ہی شعلوں کو بجھایا جاتا
----------
ہم جو پھرتے ہیں زمانے میں بھکاری بن کر
یوں نہ ہوتا جو خزانہ نہ لٹایا جاتا
------------
یوں لٹاتے نہ مرے دیس کی دولت ہرگز
گر لٹیروں کو محافظ نہ بنایا جاتا
------
تیری محفل سے کبھی اٹھ کے نہ جاتے ارشد
ہم کو چاہت سے اگر اس میں بٹھایا جاتا
----------
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
درسِ توحید جو دنیا کو سکھایا جاتا
رب ہے معبودِ حقیقی یہ بتایا جاتا
------- درس دیا جاتا ہے، سکھایا نہیں، سبق سکھایا جاتا ہے!
لیکن 'جو' کے ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ یہ ہوتا تو کیا ہوتا! اس کا کچھ ذکر نہیں

بتکدہ پھر نہ یہاں کوئی بھی بنتا ہرگز
رب کے در پر جو زمانے کو جھکایا جاتا
--------- درست

پھیلتا دینِ محمّد ہی زمانے بھر میں
بن کے مومن جو اگر ان کو دکھایا جاتا
--------- کن لوگوں کو؟ اس کا جواب نہیں دیا گیا
کون بنتا مومن، اس کا بھی جواب درکار ہے

لوگ بنتے نہ کبھی آج ہمارے دشمن
ان کی گردن پہ جو خنجر نہ چلایا جاتا
-----------یا
دوست ان کو جو محبّت سے بنایا جاتا
----------- دوسرا متبادل بہتر ہے

آگ نفرت کی جلاتی نہ ہمارے گھر کو
اس کے شعلوں کو محبّت سے بجایا جاتا
------------یا
گر محبّت سے ہی شعلوں کو بجھایا جاتا
---------- بجایا یا بجھایا؟ ویسے شعر کا خیال عجیب ہے

ہم جو پھرتے ہیں زمانے میں بھکاری بن کر
یوں نہ ہوتا جو خزانہ نہ لٹایا جاتا
------------ دوسرا مصرع بدل دو، 'یوں نہ ہوتا' اچھا بیانیہ نہیں،

یوں لٹاتے نہ مرے دیس کی دولت ہرگز
گر لٹیروں کو محافظ نہ بنایا جاتا
------ ٹھیک

تیری محفل سے کبھی اٹھ کے نہ جاتے ارشد
ہم کو چاہت سے اگر اس میں بٹھایا جاتا
---------- ٹھیک
ٹھیک سے مراد یہ ہے کہ تکنیکی طور پر کوئی سقم نہیں، لیکن فصاحت، بلاغت، خیال آرائی وغیرہ عنقا ہے۔
 
الف عین
)اصلاح شدہ اور کچھ نئے اشعار (
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔---------
کاش دنیا کو محبّت سے سجایا جاتا
ظلم کو مل کے زمانے سے مٹایا جاتا
---------
پھیلتا دینِ محمّد ہی زمانے بھر میں
خود پہ نافذ جو اسے کر کے دکھایا جاتا
-----------
آگ بڑھتی ہے اگر اس کو ہوا دی جائے
اس کو پانی سے ہمیشہ ہے بجایا جاتا
---------
کچھ نئے اشعار
------------
ہاتھ روکا نہ کسی نے بھی یہاں ظالم کا
کاش کمزور کو انصاف دلایا جاتا
-----------
کیوں ضروری ہے رقیبوں سے تمہارا ملنا
پیار ایسے تو نہیں یار نبھایا جاتا
--------
دل میں تیری جو محبّت ہے نکالوں کیسے
تیری یادوں کو نہیں دل سے بھلایا جاتا
------------
لوگ نفرت کا ترانا نہ سناتے ہم کو
پیار کا گیت جو ان کو سنایا جاتا
----------
آج گمراہ نہ ہوتیں یہ ہماری نسلیں
ان کے ذہنوں میں اگر دین بٹھایا جاتا
----------
تھی محبّت تو مجھے تم نے بھلایا کیسے
پیار ایسے تو نہیں دل سے بھلایا جاتا
---------
تم نہ لاتے جو رقیبوں کو مقابل میرے
مجھ کو محفل میں تماشا نہ بنایا جاتا
-----------
تیری دزدیدہ نگاہی نے سکھایا ہم کو
عشق کیسے ہے زمانے سے چھپایا جاتا
-------------
 

الف عین

لائبریرین
)اصلاح شدہ اور کچھ نئے اشعار (
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔---------
کاش دنیا کو محبّت سے سجایا جاتا
ظلم کو مل کے زمانے سے مٹایا جاتا
--------- مل کے؟ نا مکمل ہے 'ہم سب' کے بغیر، 'سارے زمانے' ہی کر دیں

پھیلتا دینِ محمّد ہی زمانے بھر میں
خود پہ نافذ جو اسے کر کے دکھایا جاتا
----------- درست ہو گیا

آگ بڑھتی ہے اگر اس کو ہوا دی جائے
اس کو پانی سے ہمیشہ ہے بجایا جاتا
--------- بجانا یا بجھانا؟ چلے گا شعر
کچھ نئے اشعار
------------
ہاتھ روکا نہ کسی نے بھی یہاں ظالم کا
کاش کمزور کو انصاف دلایا جاتا
----------- درست

کیوں ضروری ہے رقیبوں سے تمہارا ملنا
پیار ایسے تو نہیں یار نبھایا جاتا
-------- ٹجیک

دل میں تیری جو محبّت ہے نکالوں کیسے
تیری یادوں کو نہیں دل سے بھلایا جاتا
------------ 'تیری جو' یا 'جو تیری' ، ورنہ 'دل میں تیرے' بھی سمجھا جا سکتا ہے اور روانی بھی اچھی نہیں

لوگ نفرت کا ترانا نہ سناتے ہم کو
پیار کا گیت جو ان کو سنایا جاتا
---------- دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے، جو کی جگہ اگر سے بحر درست ہو سکتی ہے لیکن خیال بھی عجیب ہے، شعر نکال دیں

آج گمراہ نہ ہوتیں یہ ہماری نسلیں
ان کے ذہنوں میں اگر دین بٹھایا جاتا
---------- تھیک

تھی محبّت تو مجھے تم نے بھلایا کیسے
پیار ایسے تو نہیں دل سے بھلایا جاتا
--------- ٹھیک

تم نہ لاتے جو رقیبوں کو مقابل میرے
مجھ کو محفل میں تماشا نہ بنایا جاتا
----------- تھیک

تیری دزدیدہ نگاہی نے سکھایا ہم کو
عشق کیسے ہے زمانے سے چھپایا جاتا
------------- یہ اچھا شعر کہا ہے، مبارک ہو۔ بلکہ یہی اب تک کی شاعری کا حاصل لگ رہا ہے
 
سیما بہن پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ ۔میں ارشد چوہدری شاگردوں کا بھی شاگرد ہوں،ابھی کچھ نئے اشعار پیش کئے ہیں ،استادِ محترم چیک کر کے بتائیں گے
 

سیما علی

لائبریرین
یہ تو بھائی ارشد چوہدری کا کلام ہے، تمہارے پانچوں پھول ارشد بھائی کی خدمت میں ارسال ہیں
ہم جو پھرتے ہیں زمانے میں بھکاری بن کر
یوں نہ ہوتا جو خزانہ نہ لٹایا جاتا
------------ دوسرا مصرع بدل دو، 'یوں نہ ہوتا' اچھا بیانیہ نہیں،

یوں لٹاتے نہ مرے دیس کی دولت ہرگز
گر لٹیروں کو محافظ نہ بنایا جاتا
------ ٹھیک
اُستادِ محترم آپکے مصرعہ بدلنے سے چار چاند لگ گئے
ارشد بھائی کے لئے بھی داد وُتحسین ۔۔۔۔
اور 💐💐💐💐💐
 

Anees jan

محفلین
تیری محفل سے کبھی اٹھ کے نہ جاتے ارشد
ہم کو چاہت سے اگر اس میں بٹھایا جاتا
---------- ٹھیک
ٹھیک سے مراد یہ ہے کہ تکنیکی طور پر کوئی سقم نہیں، لیکن فصاحت، بلاغت، خیال آرائی وغیرہ عنقا ہے
مقطع میں شتر گربہ کا احساس ہوتا ہے
میری تجویز مقطع

اس کی محفل سے کبھی اٹھ کے نہ جاتے ارشد
ہم کو چاہت سے اگر پاس بٹھایا جاتا
 
Top