درد کی حد سے پرے۔۔۔ اختر الایمان

الف عین

لائبریرین
آمادگی

ایک اِک اینٹ گری پڑتی ہے
سب دیواریں کانپ رہی ہیں
ان تھک کوششیں معماروں کی
سر کو تھامے ہانپ رہی ہیں

موٹے موٹے شہتیروں کا
ریشہ ریشہ چھوٹ گیا ہے
بھاری بھاری جامد پتھر
ایک اِک کر کے ٹوٹ گیا ہے
لوہے کی زنجیریں گل کر
اب ہمّت ہی چھوڑ چکی ہیں
حلقہ حلقہ چھوٹ گیا ہے
بندش بندش توڑ چکی ہیں

چونے کی اِک پتلی سی تہہ
گرتے گرتے بیٹھ گئی ہے
نبضیں چھوٹ گئیں مٹّی کی
مٹّی سے سر جوڑ رہی ہے

سب کچھ ڈھیر ہے اب مٹّی کا
تصویریں وہ دلکش نقشے
پہچانو تو رو دو گی تم
گھر میں ہوں باہر ہوں گھر سے

اب آؤ تو رکھا کیا ہے
چشمے سارے سوکھ گئے ہیں
یوں چا ہو تو آ سکتی ہو
میں نے آنسو پونچھ لیے ہیں
***
 

الف عین

لائبریرین
مسجد

دور، برگد کی گھنی چھاؤں میں خاموش و ملول
جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے
ماضی و حال گنہگار نمازی کی طرح
اپنے اعمال پہ رو لیتے ہیں چپکے چپکے

ایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلس
پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے
اور ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھی
گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے

گرد آلود چراغوں کو ہوا کے جھونکے
روز مٹّی کی نئی تہہ میں دبا جاتے ہیں
اور جاتے ہوئے سورج کے وداعی انفاس
روشنی آ کے دریچوں کی بجھا جاتے ہیں
حسرت شام و سحر بیٹھ کے گنبد کے قریب
ان پریشان دُعاؤں کو سنا کرتی ہے
جو ترستی ہی رہںس رنگ اثر کی خاطر
اور ٹوٹا ہوا دل تھام لیا کرتی ہے

یا ابابیل کوئی آمد سرما کے قریب
اس کو مسکن کے لیے ڈھونڈ لیا کرتی ہے
اور محراب شکستہ میں سمٹ کر پہروں
داستاں سرد ممالک کی کہا کرتی ہے

ایک بوڑھا گدھا دیوار کے سائے میں کبھی
اونگھ لیتا ہے ذرا بیٹھ کے جاتے جاتے
یا مسافر کوئی آ جاتا ہے، وہ بھی ڈر کر
ایک لمحے کو ٹھہر جاتا ہے آتے آتے

فرش جاروب کشی کیا ہے سمجھتا ہی نہیں
کالعدم ہو گیا تسبیح کے دانوں کا نظام
طاق میں شمع کے آنسو ہیں ابھی تک باقی
اب مصلیٰ ہے نہ منبر، نہ مؤذن نہ امام!

آ چکے صاحب افلاک کے پیغام و سلام
کوہ و در اب نہ سنیں گے وہ صدائے جبریل
اب کسی کعبہ کی شاید نہ پڑے گی بنیاد
کھو گئی دشت فراموش میں آوازِ خلیل

چاند پھیکی سی ہنسی ہنس کے گزر جاتا ہے
ڈال دیتے ہیں ستارے دھُلی چادر اپنی
اس نگار دل یزداں کے جنازے پہ بس اِک
چشم نم کرتی ہے شبنم یہاں اکثر اپنی

ایک میلا سا، اکیلا سا، فسردہ سا دیا
روز رعشہ زدہ ہاتھوں سے کہا کرتا ہے
تم جلاتے ہو، کبھی آ کے بجھاتے بھی نہیں
ایک جلتا ہے، مگر ایک بجھا کرتا ہے!

تیز ندی کی ہر اِک موج تلاطم بردوش
چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی
کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کی قیود
اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی!
***
 

الف عین

لائبریرین
پرانی فصیل

مری تنہائیاں مانوس ہیں تاریک راتوں سے
مرے رخنوں میں ہے اُلجھا ہوا اوقات کا دامن
مرے سائے میں حال و ماضی رُک کر سانس لیتے ہیں
زمانہ جب گزرتا ہے بدل لیتا ہے پیراہن

یہاں سرگوشیاں کرتی ہے ویرانی سے ویرانی
فسردہ شمع اُمید و تمنّا لو نہیں دیتی
یہاں کی تیرہ بختی پر کوئی رونے نہیں آتا
یہاں جو چیز ہے ساکت، کوئی کروٹ نہیں لیتی
اس قسم کے بند بھی ملتے ہیں:
یہاں اسرار ہیں، سرگوشیاں ہیں، بے نیازی ہے
یہاں مفلوج تر ہیں تیز تر بازو ہواؤں کے
یہاں بھٹکی ہوئی روحیں کبھی سر جوڑ لیتی ہیں
یہاں پر دفن ہیں گزری ہوئی تہذیب کے نقشے

وہاں احساس کی جنس گراں قیمت نہیں رکھتی
وہاں کا ہر نفس مانگی ہوئی دُنیا میں رہتا ہے
مسرت تول کر لیتے ہیں چاندی کے ترازو میں
خوشامد زندگی کی ہر ادا میں کار فرما ہے!

وہاں عورت فقط اِک زہر آلودہ سا کانٹا ہے
جو چبھ سکتا ہے لیکن درد کا حاصل نہیں ہوتا
وہاں بھوکی نگاہیں گھورتی ہیں تنگنائے میں
مگر سب دیوتا ہیں کوئی اہلِ دل نہیں ہوتا!

وہاں ہر فکر کی جدت پہ طعنے پیش ہوتے ہیں
وہاں شاعر مشینوں کی طرح سانچوں میں ڈھلتے ہیں
وہی اگلے ہوئے لقمے طبائع کا سہارا ہیں
انھیں ویران را ہوں پر کھڑے ہیں، آنکھ ملتے ہیں!

کہیں روتے بھنکتے پھر رہے ہیں، ہر طرف ہر سو
غلاظت آشنا، جھلسے ہوئے انسان کے پلے
یہ وہ ہیں جو نہ ہوتے کوکھ پھٹ جاتی مشیت کی
تمنّاؤں میں ان کی رات دن کھینچے گئے چلے!
***
 

الف عین

لائبریرین
موت

’’کھٹکھٹاتا ہے کوئی دیر سے دروازے کو
ٹمٹماتا ہے مرے ساتھ نگاہوں کا چراغ‘‘

’’اس قدر ہوش سے بیگانہ ہوئے جاتے ہو‘‘
’’تم چیر جاؤ، یہ دیوار پہ کیا ہے رقصاں
میرے اجداد کی بھٹکی ہوئی روحیں تو نہیں؟
پھر نگاہوں پہ اُمنڈ آیا ہے، تاریک دھواں
ٹمٹماتا ہے مرے ساتھ یہ مایوس چراغ
آج ملتا نہیں افسوس پتگو،ں کا نشاں
میرے سینے میں اُلجھنے لگی فریاد مری
ٹوٹنے والی ہے انفاس کی، زنجیر گراں

توڑ ڈالے گا یہ کم بخت مکاں کی دیوار
اور میں دَب کے اسی ڈھیر میں رہ جاؤں گا!‘‘
 

الف عین

لائبریرین
تنہائی میں
میرے شانوں پہ ترا سر تھا، نگاہیں نمناک
اب تو اِک یاد سی باقی ہے سو وہ بھی کیا ہے

گھر گیا ذہن غم زیست کے اندازوں میں
سر ہتھیلی پہ دھرے سوچ رہا ہوں بیٹھا
کاش اس وقت کوئی پیر خمیدہ آ کر
کسی آزاد طبیعت کا فسانہ کہتا!

اِک دھُندلکا سا ہے، دم توڑ چکا ہے سورج
شب کے دامن پہ ہیں دھبّے سے سیہ کاری کے
اور مغرب کی فنا گاہ میں پھیلا ہوا خوں
دبا جاتا ہے سیاہی کی تہوں کے نیچے

دور تالاب کے نزدیک وہ سوکھی سی ببول
چند ٹوٹے ہوئے ویران مکانوں سے پرے
ہاتھ پھیلائے برہنہ سی کھڑی ہے خاموش
جیسے غربت میں مسافر کو سہارا نہ ملے

اس کے پیچھے سے جھجکتا ہوا اِک گول سا چاند
اُبھرا بے نور شعاعوں کے سفینہ کو لیے
میں ابھی سوچ رہا ہوں کہ اگر تو مل جائے
زندگی گو ہے گر انبار پہ اتنی نہ رہے

کوئی مرکز ہی نہیں میرے تخیل کے لیے
اس سے کیا فائدہ جیتے رہے اور جی نہ سکے

اب ارادہ ہے کہ پتھر کے صنم پوجوں گا
تاکہ گھبراؤں تو ٹکرا بھی سکوں مر بھی سکوں
ایسے انسانوں سے پتھر کے صنم اچھے ہیں
ان کے قدموں پہ مچلتا ہو دمکتا ہوا خوں
اور وہ میری محبت پہ کبھی ہنس نہ سکیں
میں بھی بے رنگ نگاہوں کی شکایت نہ کروں
یا کہیں گوشۂ اہرام کے سنّاٹے میں
جا کے خوابیدہ فراعین سے اتنا پوچھوں
ہر زمانے میں کئی تھے کہ خدا ایک ہی تھا
اب تو اتنے ہیں کہ حیران ہوں کس کو پوجوں
اب تو مغرب کی فنا گاہ میں وہ سوگ نہیں
عکس تحریر ہے اِک رات کا ہلکا ہلکا
اور پُر سوز دھُندلکے سے وہی گول سا چاند
اپنی بے نور شعاعوں کا سفینہ کھیتا
اُبھرا نمناک نگاہوں سے مجھے تکتا ہوا
جیسے گھل کر مرے آنسو میں بدل جائے گا
ہاتھ پھیلائے ادھر دیکھ رہی ہے وہ ببول
سوچتی ہو گی کوئی مجھ سا ہے یہ بھی تنہا
آئینہ بن کے شب و روز تکا کرتا ہے
کیسا تالاب ہے جو اس کو ہرا کر نہ سکا
***
 

الف عین

لائبریرین
تصور

پھر وہی مانگے ہوئے لمحے وہی جام شراب
پھر وہی تاریک راتوں میں خیال ماہتاب
پھر وہی تاروں کی پیشانی پہ اِک رنگ زوال
پھر وہی بھولی ہوئی باتوں کا دھُندلا سا خیال
پھر وہ آنکھیں بھیگی بھیگی دامن شب میں اُداس
پھر وہ اُمیدوں کے مدفن زندگی کے آس پاس
پھر وہی فردا کی بانہیں، پھر وہی میٹھے سراب
پھر وہی بیدار آنکھیں، پھر وہی بیدار خواب
پھر وہی وارفتگی، تنہائی افسانوں کا کھیل
پھر وہی سرگوشیاں ’سپنے ‘ وہ دیوانوں کا کھیل
پھر وہی رخسار، وہ آغوش، وہ زلف سیاہ
پھر وہی شہر تمنّا، پھر وہی تاریک راہ!
زندگی کی بے بسی اف وقت کے تاریک جال
درد بھی چھننے لگا، اُمید بھی چھننے لگی
پھر وہی تاریک ماضی، پھر وہی بے کیف حال
پھر وہی بے سوز لمحے، پھر وہی جام شراب
پھر وہی تاریک راتوں میں خیال ماہتاب!
***
 

الف عین

لائبریرین
زندگی کے دروازے پر

پا برہنہ و سراسیمہ سا اِک جمِ غفیر
اپنے ہاتھوں میں لیے مشعل بے شعلہ و دود
مضطرب ہوکے گھروندوں سے نکل آیا ہے
جیسے اب توڑ ہی ڈالے گا یہ برسوں کا جمود؟

ان پپوٹوں میں یہ پتھرائی ہوئی سی آنکھیں
جن میں فردا کا کوئی خواب اُجاگر ہی نہیں
کیسے ڈھونڈیں گی در زیست کہاں ڈھونڈیں گی
ان کو وہ تشنگیِ شوق میسر ہی نہیں!

جیسے صدیوں کے چٹانوں پہ تراشے ہوئے بت
ایک دیوانے مصور کی طبیعت کا اُبال
ناچتے ناچتے غاروں سے نکل آئے ہوں
اور واپس انھیں غاروں میں ہو جانے کا خیال

زندگی اپنے دریچوں میں ہے مشتاق ابھی
اور یہ رقص طلسمانہ کے رنگیں سائے
اس کی نظروں کو دیئے جاتے ہیں پیہم دھوکے
جیسے بس آنکھ جھپکنے میں وہ اُڑ کر آئے

شہپر موت کسی غول بیاباں کی طرح
قہقہے بھرتا ہے خاموش فضاؤں میں صدا
کانپتے کانپتے اِک بار سمٹ جاتی ہے
ایک تاریک سا پردہ یوں ہی آویزاں رہا

کوئی دروازہ پہ دستک ہے نہ قدموں کا نشاں
چند پُر ہول سے اسرار تہہ سایہ دار
خود ہی سرگوشیاں کرتے ہیں کوئی جیسے کہے
’’پھر پلٹ آئے یہ کمبخت وہی شام و سحر؟‘‘

ناچتا رہتا ہے دروازہ کے باہر یہ ہجوم
اپنے ہاتھوں میں لیے مشعل بے شعلہ و دود
زندگی اپنے دریچوں میں ہے مشتاق ابھی
کیا خبر توڑ ہی دے بڑھ کے کوئی قفل جمود؟
***
 

الف عین

لائبریرین
قلوبطرہ

شام کے دامن میں پیچاں نیم افرنگی حسیں
نقرئی پاروں میں اِک سونے کی لاگ
رہ گزر میں یا خراماں سرد آگ
یا کسی مطرب کی لے، اِک تشنۂ تکمیل راگ!

ایک بحر بے کراں کی جھلملاتی سطح پر

ضو فگن افسانہ ہائے رنگ و نور
نیلے نیلے دو کنول موجوں سے چور
بہتے بہتے جو نکل جائیں کہیں ساحل سے دور

چاند سی پیشانیوں پر زر فشاں لہروں کا جال

احمریں اُڑتا ہوا رنگ شراب
جم گئی ہیں اشعۂ صد آفتاب
گردنوں کے پیچ و خم میں گھل گیا ہے ماہتاب

عشرت پرویز میں کیا نالہ ہائے تیز تیز
اُڑ گیا دن کی جوانی کا خمار
شام کے چہرے پہ لوٹ آیا نکھار
ہو چکے ہیں ہو رہے ہیں اور دامن داغ دار
اس کا زریں تخت، سیمیں جسم ہے آنکھوں سے دور

جام زہر آلود سے اُٹھتے ہیں جھاگ
چونک کر انگڑائیاں لیتے ہیں ناگ
جاگ انطوفی محبت سو رہی ہے جاگ جاگ
***
 

الف عین

لائبریرین
جواری

گہرے سائے ناچ رہے ہیں دیواروں پر محرابوں میں
سہمے ہوئے ہیں ہار نے والے، جیتنے والے ہار رہے ہیں
پونجی نقدی جو کچھ بھی ہے لے کر داؤ مار رہے ہیں
چہروں پر ہے موت سی طاری آنکھیں ناؤ گردابوں میں

مٹتی آشا اُکساتی ہے، کھیل جواری کھیل جواری
جو بھی ہار ا ہار چکا ہے، اب کی بازی جیت سمجھنا
ہار بھی تیری ہار نہیں، یہ جیت نگر کی ریت سمجھنا
سانسیں قیدی خوف کے پہرے گھیرے ہے اِک چار دواری

تجھ سے پہلے اور کھلاڑی جیتے بھی ہیں ہارے بھی ہیں
ہار اور جیت کا سودا ہے یہ، دُبدھا کیسی ڈرنا کیسا
پانسا پھینک جھجکتا کیوں ہے جیتے جی ہی مرنا کیسا
ویرانوں میں طوفانوں میں سائے بھی ہیں سہارے بھی ہیں!

ایک ہی بازی، ایک ہی بازی، کوئی بیٹھا اُکساتا ہے
تن کے کپڑے، سر کی پگڑی بیچ، یہ بازی اپنانی ہے
ہم چشموں میں بات رہے گی، مایا تو آنی جانی ہے
ہار بھی تیری ہار نہیں ہے، من کو من ہی سمجھاتا ہے

ہونٹ چبائے پہلو بدلے سب کچھ بیچا بازی جیتی
پھر لالچ میں آ کر بیٹھے، آنکھیں چمکیں من لہرایا
ایسے کھوئے خود کو بھولے، کھیل میں کچھ بھی یاد نہ آیا
جب اٹھے تو جیب تھی خالی کون یہ پوچھے کیسی بیتی

گہرے سائے اندھے دیپک ناچ رہے ہیں جاگ رہے ہیں
دیواروں کے حلقے میں ہے بازی داؤ اور جواری
کیا جانے یہ اندھی بازی کس نے جیتی کس نے ہار ی
کیا جانے کیوں سانجھ سویرا آگے پیچھے بھاگ رہے ہیں

ہم تو اپنی سی کر ہارے، کوئی بھی تعمیر نہ ٹوٹی
سب ہی جواری، سب ہی لٹیرے کون کسی سے بازی جیتے
بیت گئی ہے جیسے بیتی، باقی چاہے جیسی بیتے
وہم و جنوں کی، رنگ و فسوں کی پاؤں سے زنجیر نہ ٹوٹی!
***
 

الف عین

لائبریرین
انجان

تم ہو کس بن کی پھلواری اتا پتا کچھ دیتی جاؤ
مجھ سے میرا بھید نہ پوچھو، میں کیا جانوں میں ہوں کون

چلتا پھرتا آ پہنچا ہوں، راہی ہوں، متوالا ہوں
ان رنگوں کا جن سے تم نے اپنا روپ سجایا ہے
ان رنگوں کا جن سے تم نے اپنا کھیل رچایا ہے
ان گیتوں کا جن کی دھن پر ناچ رہے ہیں میرے پران
ان لہروں کا جن کی رو میں ڈوب گیا ہے میرا مان
میرا روگ مٹانے والی اتا پتا کچھ دیتی جاؤ
مجھ سے میرا بھید نہ پوچھو میں کیا جانوں میں ہوں کون

میں ہوں ایسا راہی جس نے دیس دیس کی آہوں کو
لے لے کر پروان چڑھایا اور رسیلے گیت بنے
چنتے چنتے جگ کے آنسو اپنے دیپ بجھا ڈالے
میں ہوں وہ دیوانہ جس نے پھول لٹائے خار چنے!

میرے گیتوں اور پھولوں کا رس بھی سوکھ گیا تھا آج
میرے دیپ اندھیرا بن کر روک رہے تھے میرے کاج

میری جوت جگانے والی اتا پتا کچھ دیتی جاؤ
مجھ سے میرا بھید نہ پوچھو میں کیا جانوں میں ہوں کون

ایک گھڑی اِک پل بھی سکھ کا امرت ہے اس راہی کو
جیون جس کا بیت گیا ہو کانٹوں پر چلتے چلتے
سب کچھ پایا پیار کی ٹھنڈی چھاؤں جو پائی دنیا میں
اس نے جس کی بیت گئی ہو برسوں سے جلتے جلتے
میرا درد بٹانے والی اتا پتا کچھ دیتی جاؤ
مجھ سے میرا بھید نہ پوچھو، میں کیا جانوں میں ہوں کون
***
 

الف عین

لائبریرین
کتبے

کس کی یاد چمک اٹھی ہے، دھندلے خاکے ہوئے اُجاگر
یوں ہی چند پرانی قبریں کھود رہا ہوں تنہا بیٹھا
کہیں کسی کا ماس نہ ہڈی، کہیں کسی کا رُوپ نہ چھایا
کچھ کتبوں پر دھندلے دھندلے نام کھدے ہیں میں جیون بھر
ان کتبوں، ان قبروں ہی کو اپنے من کا بھید بتا کر
مستقبل اور حال کو چھوڑے، دکھ سکھ سب میں لیے پھرا ہوں
ماضی کی گھنگھور گھٹا میں چپکا بیٹھا سوچ رہا ہوں
کس کی یاد چمک اُٹھی ہے دھندلے خاکے ہوئے اُجاگر
بیٹھا قبریں کھود رہا ہوں، ہوک سی بن کر ایک اِک مورت
درد سا بن کر ایک اِک سایا، جاگ رہے ہیں دور کہیں سے
آوازیں سی آ جاتی ہیں، گزرے تھے اِک بار یہیں سے
حیرت بن کر دیکھ رہی ہے، ہر جانی پہچانی صورت
گویا جھوٹ ہیں یہ آوازیں کوئی میل نہ تھا ان سب سے
جن کا پیار کسی کے دل میں، اپنے گھاؤ چھوڑ گیا ہے
جن کا پیار کسی کے دل سے سارے رشتے توڑ گیا ہے
اور وہ پاگل ان رشتوں کو بیٹھا جوڑ رہا ہے کب سے!

میری نس نس ٹوٹ رہی ہے بوجھ سے ایسے درد کے جس کو
اپنی روح سمجھ کر اب تک لیے لیے پھرتا تھا ہر سو
لیکن آج اُڑی جاتی ہے اس مٹّی کی سوندھی خوشبو
جس میں آنسو بوئے تھے میں نے بیٹھا سوچ رہا ہوں جو ہو

ان کتبوں کو ان قبروں میں دفن کروں اور آنکھ بچا لوں
اس منظر کی تاریکی سے جو رہ جائے وہ اپنا لوں
***
 

الف عین

لائبریرین
محبت
رات میں دیر تک اُڑتے بادل کھلے چاند کی کشمش
ٹکٹکی باندھ کر ایسے دیکھا کیا جیسے یہ ماجرا
میری ہی داستاں کا کوئی پارہ ہے، کون آوارہ ہے
تو کہ میں ؟ ایک چھوٹا سا طائر فضا میں تھا نغمہ سرا
دور نزدیک پھر دور ہر سمت اِک تان کی گونج تھی
رات آہستہ آہستہ رُک رُک کے ایسے گزرتی رہی
جیسے میں اور تو وقت کی وادیوں سے گزرتے ہوئے
شہر کی سونی، سنسان خاموش گلیوں میں گم ہو گئے!
رات کی کالی دھاری سے دن کی سفیدی الگ ہو گئی
دونوں اِک دوسرے سے الگ ہو گئے ہاں وہ طائر مگر
یوں ہی گاتا رہا، اُڑتے بادل، کھلی چاندنی کا سماں
وقت کے ساتھ ساتھ آپ تبدیل تحلیل ہوتا رہا
میں تجھے تو مجھے ڈھونڈتی رہ گئی، وقت اُڑتا گیا
ان خنک سانولی بھیگی راتوں کی پر شوق تنہائیاں
صرف اِک داغ غم تاب کی شکل میں منجمد ہو گئیں
پر وہ نغمہ، وہ حسن زمین و زماں، روشنی
اس پرندے کی وہ دھیمی آواز، وہ میٹھی کلکاریاں
بنت آغاز و انجام کے با کرہ بطن میں رہ گئیں!
اور اِک نسل سے دوسری نسل تک عکس روح ازل
عکس روح ابد ایسے نشو و نما پائے گا خون میں
جیسے بنجر زمیں قطرۂ ابر سے سیر و شاداب ہو!
اُڑتے بادل کھلی چاندنی کا سماں، میٹھی تنہائیاں
سب کی سب بن کے مٹتی ہوئی پیاری تصویریں ہیں
صرف تبدیل ہوتی ہوئی روشنی کی جھلک زندہ ہے
صرف حسن ازل اور حسن ابد کی مہک زندہ ہے
صرف اس طائر خوش ادا خوش نوا کی لہک زندہ ہے
ایک دن آئے گا تو بھی مر جائے گی میں بھی مر جاؤں گا!
***
 

الف عین

لائبریرین
نیا شہر

جب نئے شہر میں جاتا ہوں، وہاں کے در و بام
لوگ وارفتہ، سراسیمہ، دکانیں، بازار
بت نئے، راہنماؤں کے، پرانے معبد
حزن آلود شفا خانے مریضوں کی قطار
تار گھر، ریل کے پل، بجلی کے کھمبے تھیٹر
راہ میں دونوں طرف نیم برہنہ اشجار
اشتہار ایسی دواؤں کے کے ہر اِک جا چسپاں
اچھے ہو جاتے ہیں ہر طرح کے جن سے بیمار
اس نئے شہر کی ہر چیز لبھاتی ہے مجھے
یہ نیا شہر نظر آتا ہے، خوابوں کا دیار
شاید اس واسطے ایسا ہے کہ اس بستی میں
کوئی ایسا نہیں جس پر ہو مری زیست کا بار
کوئی ایسا نہیں جو جانتا ہو میرے عیوب
آشنا، ساتھی، کوئی دشمن جاں، دوست شعار!
***
 

الف عین

لائبریرین
سبزۂ بیگانہ

حسب نسب ہے نہ تاریخ و جائے پیدائش
کہاں سے آیا تھا، مذہب نہ ولدیت معلوم
مقامی چھوٹے سے خیراتی اسپتال میں وہ
کہیں سے لایا گیا تھا وہاں یہ ہے مرقوم
مریض راتوں کا چلاتا ہے مرے اندر
اسیر زخمی پرندہ ہے اِک، نکالو اسے
گلو گرفتہ ہے یہ حبس دم ہے خائف ہے
ستم رسیدہ ہے، مظلوم ہے بچا لو اسے

غرض کہ نکتہ رسی میں گزر گیا سب وقت
وہ چیختا رہا اور درد کی دوا نہ ملی
نشست بعد نشست اور معائنے شب و روز
انھیں میں وقت گزرتا گیا شفا نہ ملی
پھر ایک شام وہاں سرمہ در گلو آئی
جو اس کے واسطے گویا طبیب حاذق تھی
کسی نے پھر نہ سنی درد سے بھری آواز
کراہتا تھا جو خاموش ہو گیا وہ ساز

برس گزر گئے اس واقعہ کو ماضی کی
اندھیری گود نے کب کا چھپا لیا اس کو
مگر سنا ہے شفا خانے کے در و دیوار
وہ گرد و پیش جہاں سے کبھی وہ گزرا تھا
خرابے، بستیاں، جنگل، اُجاڑ راہگزار
اسی کی چیخ کو دُہرائے جا رہے ہیں ابھی
کوئی مداوا کرو ظالموں مرے اندر
اسیر زخمی پرندہ ہے اِک نکالو اسے
گلو گرفتہ ہے یہ، حبس دم ہے، خائف ہے
ستم رسیدہ ہے، مظلوم ہے، بچا لو اسے!
***
 

الف عین

لائبریرین
دور کی آواز

نقرئی گھنٹیاں سی بجتی ہیں
دھیمی آواز میرے کانوں میں
دُور سے آ رہی ہے، تم شاید
بھولے بسرے ہوئے زمانوں میں
اپنی میری شرارتیں، شکوے
یاد کر کر کے ہنس رہی ہو کہیں!
***
 

الف عین

لائبریرین
آج اور کل

ہزار بار ہوا یوں کہ جب اُمید گئی
گلوں سے واسطہ ٹوٹا نہ خار اپنے رہے
گماں گزر نے لگا ہم کھڑے ہیں صحرا میں
فریب کھانے کو جا رہ گئی نہ سپنے رہے
نظر اٹھا کے کبھی دیکھ لیتے تھے اوپر
نہ جانے کون سے اعمال کی سزا ہے کہ آج
یہ واہمہ بھی گیا سر پہ آسماں ہے کوئی
***
 

الف عین

لائبریرین
کتبہ
دل ہے کہ اُجاڑ کوئی بسیو
ہر سمت مزار جا بجا ہیں
میں مرثیہ خواں نہیں کسی کا
لیکن وہ مزار لوح جس کی
شفّاف ہے آئینہ کی مانند
کس کا ہے چلو نہ آؤ دیکھیں
ہے ہے کوئی طفل آرزو ہے
کمسن ہے کلی ہے نو دمیدہ
***
 

الف عین

لائبریرین
پس و پیش
خلش ہے رنگ تبسم کی میرے پہلو میں
جلو میں رفتہ بہاروں کو لے کے آئی خزاں
کوئی نہیں بھری دنیا میں ہم نفس میرا
وہ راہبر و ہوں جسے ہر قدم پہ ہے یہ گماں
یہ سنگ میل کہیں سنگ رہ نہ بن جائے
کہیں فریب نہ ہو شوق منزل جاناں
کہیں نہ ظلمت شب گھیرے سر منزل
سیاہ رات نہیں میرے درد کا درماں
***
 

الف عین

لائبریرین
اتفاق

دیار غیر میں کوئی جہاں نہ اپنا ہو
شدید کرب کی گھڑیاں گزار چکنے پر
کچھ اتفاق ہو ایسا کہ ایک شام کہیں
کسی اِک ایسی جگہ سے ہو یوں ہی میرا گزر
جہاں ہجوم گریزاں میں تم نظر آ جاؤ
اور ایک ایک کو حیرت سے دیکھتا رہ جائے
***
 

الف عین

لائبریرین
سحر

کون سی راحت دوراں جو میسر آئی
داغ دے کر نہ گئی، کون سے لمحات نشاط
ٹیس بن کر نہ اٹھے، زہر نہ چھوڑا مجھ میں
ہر نیا واقعہ اِک حادثہ تھا، ہر نئی بات
فال بد نکلی، کیا زخم دروں کو گہرا
ہر نئے موڑ پہ دنیا ہوئی ثابت وہ بساط
جس پہ انسان فقط مہرے ہیں اُلٹے سیدھے
پھر بھی وہ کون سا جادو ہے جو ہر تازہ وفات
یوں بھلا دیتا ہے جی سے کہ نشاں بھی نہ ملیں؟
***
 
Top