داستان خواجہ بخارا کی

قیصرانی

لائبریرین
12142541ja5.jpg


سویت ادب کی لائبریری​
 

قیصرانی

لائبریرین
ترجمہ: حبیب الرحمن

ڈیزائن: کراسنی








پڑھنے والوں سے

دارلاشاعت ترقی آپ کا بہت شکر گزار ہوگا اگر آپ ہمیں اس کتاب، اس کے ترجمے، ڈیزائن اور طباعت کے بارے میں اپنی رائے لکھیں۔۔۔۔ اس کے علاوہ بھی اگر آپ کوئی مشورہ دے سکیں تو ہم ممنون ہوں گے۔۔۔

ہمارا پتہ: زوبوفسکی بلوار، نمبر ۲۱ ماسکو، سوویت یونین

21, Zubovsky Boulevard Moscow, USSR

 

قیصرانی

لائبریرین

فہرست




صفحہ

حصہ اول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۹
حصہ دوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۲۵
حصہ سوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۰۷


 

قیصرانی

لائبریرین
[align=left:483f5e7451]ہمیں یہ کہانی ابو عمر احمد ابن
محمد سے ملی جس کو اس نے محمد
ابن علی ابن رفع سے سنا تھا جو علی
ابن عبدالعزیز کا حوالہ دیتا ہے جو
ابوعبید القاسم ابن سلام کا حوالہ دیتا
ہے جس نے اس کو اپنے استادوں کی
زبانی سن کر بیان کیا تھا جن میں سے
آخری استاد عمر ابن الخطاب اور ان
کے بیٹے عبداللہ رحمۃ اللہ علیھ کو
سند کے طور پر پیش کرتا ہے

ابن حزم "قمری ہار"[/align:483f5e7451]

میں اس کتاب کو اپنے دوست مومن عادلوف کی پاکیزہ اور لافانی یاد سے موسوم کرتا ہوں جو ۱۸ اپریل۱۹۳۰ کو ایک دشمن کی مہلک گولی کا شکار ہوئے۔

ان میں خواجہ نصر الدین کی بہت سی خصوصیات تھیں۔ عوام کے لئے بےلوث ایثار، ہمت، شریفانہ فراست اور ایماندارانہ زکاوت۔ میں نے یہ کتب لکھتے وقت رات کے سناٹے میں کئی بار ایسا محسوس کیا کہ جیسے عادلوف کا سایہ میرے پاس کھڑا ہے اور میرے قلم کی رہنمائی کر رہا ہے۔ پہاڑی قشلاق (گاؤں) نانائی میں ان کا انتقال ہوا اور کانی بادم میں وہ آرام کر رہے ہیں۔ تھوڑے ہی دن ہوئے میں ان کی قبر پر گیا تھا۔ بہار کی گھاس اور پھولوں سے ڈھکی ہوئی قبر کے چاروں طرف بچے کھیل رہے تھے اور وہ ابدی نیند سو رہے تھے۔ وہ میرے دل کی پکار نہیں سن رہے تھے۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
[align=left:6059a86463]کہتے ہیں کہ ایک بیوقوف
اپنے گدھے کی باگ ڈور سنبھالے
چلا جا رہا تھا۔ گدھا اس کے
پیچھے چل رہا تھا۔
(شہرزاد کی ۳۸۸ویں رات)[/align:6059a86463]

(۱)​

خواجہ نصر الدین کی ۳۵ ویں سالگرہ سڑک ہی پر ہوئی۔

دس سال سے زیادہ انہوں نے جلاوطنی میں گزارے تھے، شہر شہر، ملک ملک کی سرگردانی کرتے، سمندروں اور ریگستانوں کو پار کرتے۔ جہاں رات آجاتی سوجاتے۔ ننگی زمین پر کسی گڈرئے کے چھوٹے سے الاؤ کے پاس کسی کھچاکھچ بھری ہوئی سرائے میں، جہاں تمام رات گرد آلود دھندلکے میں اونٹ لمبی لمبی سانسیں لیتے، اپنے کو کھجلاتے اور گھنٹیاں بج اٹھتیں یا کسی دھوئیں اور کالک سے بھرے چائے خانے میں ادھر ادھر لیٹے ہوئے سقوں، بھک منگوں، ساربانوں اور اسی طرح کے غریب لوگوں کے پاس جو پو پھٹتے ہی شہر کے بازاروں اور تنگ سڑکوں کو اپنی پرشور ھانک پکار سے بھر دیتے ہیں۔

بہت سی راتیں انھوں نے کسی امیر ایرانی عہدے دار کے حرم میں نرم ریشمی گدوں پر داد عیش دے کر بھی گذاری تھیں جبکہ گھر کا مالک اپنے برقندازوں کو ساتھ لے کر سارے چائے خانوں اور کارواں سرایوں میں ملحد اور آوارہ گرد خواجہ نصر الدین کی تلاش میں سرگرداں ھوتا تھا تاکہ اس کو پکڑ کر نوکیلے تیز چوبی ستون پر بٹھا سکے۔۔۔ کھڑکی کی جھلملی سے آسمان کی تنگ پٹی دکھائی دیتی، ستارے مرجھا جاتے، نرم اور نم باد صبا صبح کی آمد آمد کا اعلان کرتی ھوئی پتیوں میں سرسراتی اور کھڑکی کی کگر پر قمریاں خوشی سے کوکو کرکے چونچوں سے پر صاف کرتیں۔ خواجہ نصرالدین تھکی ھوئی حسینہ کو بوسہ دے کر کہتے:

"میرے در بےبہا، الوداع۔ اب جانے کا وقت آگیا۔ مجھے فراموش نہ کردینا۔"

حسینہ اپنے سڈول بازوؤں کو ان کی گردن میں حمائل کرکے التجا کرتی:

"ٹھہرو! کیا تم ھمیشہ کے لئے جدا ہو رہے ہو؟ لیکن کیوں؟ اچھا سنو، آج رات کو میں اندھیرا پھیلتے ہی بڑھیا کو تمھیں لانے کے لئے پھر بھیجونگی۔"

"نہیں، میں مدتوں ہوئے یہ بات بھول چکا ہوں کہ ایک چھت کے نیچے دو راتیں کیسے گذاری جاتی ہیں۔ مجھے جانا ہی ہے۔ بری عجلت ہے۔"

"جانا کہاں ہے؟ کیا کسی دوسرے شہر میں تم کو ضروری کام ہے؟ تم کہاں جا رہے ہو؟"

"میں نہیں جانتا۔ لیکن روشنی کافی پھیل چکی ہے۔ شہر کے پھاٹک کھل چکے ہیں اور پہلے کارواں باھر نکل رھے ہیں۔ سن رھی ھو نا، اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز؟ جب میں یہ آواز سنتا ھوں تو جیسے کوئی جن میرے پیروں میں سنیچر پیدا کردیتا ہے اور میں نچلا نہیں بیٹھ سکتا۔"

"اگر ایسا ہے تو جاؤ" ملول ھو کر حسینہ کہتی ھے، وہ اپنی لمبی لمبی پلکوں پر آنسوؤں کو چھپا نہیں پاتی " لیکن جانے سے پہلے کم از کم اپنا نام تو بتاتے جاؤں۔"

"میرا نام؟ اچھا تو سنو، تم نے یہ رات خواجہ نصرالدین کے ساتھ بتائی ہے۔ میں خواجہ نصرالدین ہوں، بےچینی پھیلانے اور نفاق کے بیج بونے والا، ایسی ھستی جس کے سر پر بڑا انعام ہے۔ ھر روز نقیب عام جگہوں اور بازاروں میں میرے بارے میں اعلان کرتے پھرتے ھیں۔ کل وہ تین ھزار تومان دے رھے تھے اور مجھے لالچ لگا کہ میں اس قیمت پر خود اپنا سر بیچ دوں۔ تم ھنس رھی ھو، میری پیاری۔ اچھا مجھے آخری بار اپنے ھونٹ چومنے دو۔ اگر میں تم کو تحفہ دے سکتا تو زمرد دیتا لیکن زمرد تو میرے پاس نہیں ھے۔ لو یہ ایک حقیر سا سفید پتھر بطور نشانی ھے!"

وہ اپنی پھٹی ہوئی قبا پہنتےھیں جو الاؤں کی چنگاریوں سے جا بجا جلی ھوئی ھے اور چپکے سے نکل کھڑے ھوتے ھیں۔ دروازے پر کاھل اور بیوقوف خواجہ سرا پگڑی باندھے اور اوپر اٹھی ھوئی خمدار نوکوں والی جوتیاں پہنے، پڑا خراٹے لے رھا ھے۔ وہ محل کے سب سے بیش بہا خزانے کا لاپروا نگہبان ہے۔ آگے چل کر بھی قالینوں اور نمدوں پر پہرے دار خراٹے بھر رھے ھیں۔ انھوں نے اپنے ننگے خنجروں کے تکئے بنا رکھے ہیں۔ خواجہ نصرالدین پنجوں کے بل رینگتے اس طرح صاف بچ نکلتے ہیں جیسے ذرا دیر کے لئے وہ کوئی نظر نہ آنے والا چھلاوہ بن گئے ھیں۔

اور پھر ایک بار سفید پتھریلی سڑک ان کے گدھے کے تیز رفتار سموں کے نیچے گونجتی اور چنگاریاں دیتی ہے۔ نیلے آسمان سے سورج دنیا کو منور کر رھا ھے۔ خواجہ نصرالدین اس سے آنکھ ملا سکتے ھیں۔ شبنم آلود کھیتوں، ویران ریگستانوں میں جہاں ریت کے تودوں کے درمیان اونٹوں کی سفید ہڈیاں چمکتی ھیں، ھرے بھرے باغون اور جھاگ دار دریاؤں، بے برگ و بے گیاہ پہاڑیوں اور مسکراتے ھوئے سبزہ زاروں میں خواجہ نصرالدین کے نغمے گونجتے ہیں۔ وہ پیچھے ایک نظر ڈالے بغیر، جو کچھ پیچھے چھٹ گیا ھے اسپر افسوس کئے بغیر اور پیش آنے والے خطرے سے ڈرے بغیر آگے بڑھتے چلے جاتے ھیں۔

لیکن جو شہر انھوں نے ابھی ابھی چھوڑا ھے اس میں ان کی یاد ھمیشہ تازہ رہتی ہے۔ ملا اور عمائدین کے چہرے ان کا نام سنتے ھی غصے سے سرخ ہو جاتے ھیں۔ سقے، ساربان، جولاھے، ٹھٹھیرے اور گھوڑوں کی کاٹھیاں بنانے والے راتوں کو چائے خانوں میں جمع ھوکرخواجہ نصرالدین کے بارے میں ایسی کہانیوں سے ایک دوسرے کا دل بہلاتے ہیں جن میں ھمیشہ خواجہ کی جیت ھوتی ھے۔ حرم کی افسردہ حسینہ سفید پتھر کو غور سے دیکھتی رہتیہے اور اپنے مالک کی آواز سنتے ھی اس کو ایک سیپ کے صندوقچے میں چھپا دیتی ہے۔

"اف" ھانپتا اور غراتا ھوا موٹا عہدے دار اپنی زربفت کی قبا اتارنے کی کوشش کرتے ھوئے کہتا ہے "اس کمبخت بدمعاش خواجہ نصرالدین نے تو ھم سب کو عاجز کردیا ھے۔ اس نے سارے ملک میں ھنگامہ اور تہلکہ مچا رکھا ھے۔ آج ھی مجھے اپنے پرانے دوست صوبہ خراساں کے لائق گورنر کا خط ملا ھے۔ سوچو تو ذرا، اس بدذات خواجہ نصرالدین نے ان کے شہر میں مشکل سے قدم رکھا ھی ھوگا کہ آھنگروں نے یکدم محاصل دینا بند کرئے، سرائے والوں نے پہرے داروں کو مفت کھلانے سے انکار کردیا۔ اور سب سے بڑھکر تو یہ کہ اسلام کو ناپاک کرنے والے، اس چور، ولدالزنا نے یہ جرآت کی کہ گورنر کے حرم میں داخل ہو کر ان کی محبوب بیوی کو ورغلایا۔ سچ مچ دنیا میں ایسا شریر آدمی کبھی نہیں ھوا تھا! افسوس کہ ناھنجار نے میرے حرم کا رخ نہیں کیا ورنہ اس کا سر اس وقت بڑے چوک پر کسی بانس سے لٹکتا ھوتا۔"

حسینہ پراسرار انداز سے مسکراتی ھے اور خاموش رھتی ھے۔

اس دوران میں خواجہ نصرالدین کے گدھے کے تیز رفتار سموں سے سڑک گونجتی اور چنگاریاں دیتی ھے اور خواجہ کے نغموں کی آواز اس میں گھل مل جاتی ھے۔

اس دس سال میں نہ جانے کہاں کہاں سرگردان رھے۔ بغداد، استنبول، طہران، بخشی سرائے، اچمی ادزین، طفلس، دمشق اور تریپیزوند۔ وہ ان شہروں سے بخوبی واقف ھو چکے تھے اور ان کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے شہروں کو جانتے تھے اور ھر جگہ اپنی ناقابل فراموش یادگارین چھوڑی تھیں۔

اب وہ اپنے شہر، بخارا شریف واپس جا رھے تھے۔ ان کو امید تھی کہ وہ اپنی لامحدود آوارہ گردی ترک کرکے کسی دوسرے نام سے سکھ چین سے وھاں رہ سکیں گے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۲)​

انھوں نے سوداگروں کے ایک بڑے کارواں کے ساتھ جس میں وہ شامل ھو گئے تھے بخارا کی سرحد میں قدم رکھا اور سفر کے آٹھویں دن بہت دور سامنے دھندلکے میں اس بڑے اور مشہور شہر کے جانے پہچانے مینار دیکھے۔

پیاس اور گرمی سے پریشان ساربانوں نے ایک زور دار نعرہ بلند کیا اور اونٹوں نے اپنی رفتار تیز کردی۔ سورج غروب ھو رھا تھا اور جلدی کی ضرورت تھی تاکہ پھاٹک بند ھونے سے پہلے بخارا میں داخل ھوا جاسکے۔ خواجہ نصرالدین کارواں میں سب سے پیچھے، گرد کے گھنے اور بھاری بادل میں لپٹے چل رھے تھے۔ یہ تو ان کی اپنی پاک گرد تھی جس کی مہک دوسرے دور دراز ملکوں کی گرد سے کہیں اچھی تھی۔ چھینکتے کھانستے ھوئے وہ اپنے گدھے سے برابر کہہ رہے تھے:

"دیکھ، ھم آخر کار گھر پہنچ گئے نا! خدا کی قسم یہاں کامیابیاں اور مسرتیں ھماری منتظر ہیں۔"

کارواں ٹھیک اس وقت شہر کی فصیل کے قریب پہنچا جب پہرے دار پھاٹک بند کر رہے تھے۔ "خدا کے لئے ٹھہریے!" ۔ کارواں کا سردار ایک طلائی سکہ دکھا کر دور ھی سے چلایا۔ لیکن پھاٹک بند ھوچکے تھے، زنجیریں جھنکار کے ساتھ چڑھا دی گئیں اور میناروں پر نگہبانوں نے توپوں کے مورچے سنبھال لئے۔ تازہ ہوا کے جھونکے آنے لگے، دھندلکے آسمان میں گلابی شفق مرجھا گئی، باریک ھلال بہت صاف ابھر آیا اور شام کی خاموشی میں بےشمار میناروں سے مؤذنوں کی تیز اور پرسوز آوازیں مومنوں کو مغرب کی نماز کی دعوت دینے لگیں۔

سوداگر اور ساربان نماز کے لئے جھک گئے اور خواجہ نصرالدین چپکے سے اپنے گدھے کو لیکر ایک کنارے چلے گئے۔

" یہ سوداگر تو بجا طور پر خدا کے شکرگزار ھیں" انھوں نے کہا "انھوں نے آج دن میں ڈٹ کر کھانا کھایا ھے اور رات کو بھی کھائیں گے لیکن میں نے اور تو نے، میرے وفادار گدھے، نہ تو دن کو کھانا کھایا ھے اور نہ رات ھی کو کھائیں گے۔ اگر اللہ ھمارے شکرئے کا خواھاں ھے تو وہ مجھ کو ایک قاب پلاؤ اور تجھ کو ایک گھٹا گھاس بھیج دے۔"

انھوں نے سڑک کے کنارے ایک درخت سے گدھے کو باندھ دیا اور خود بھی اس کے برابر ننگی زمین پر پتھر کا تکیہ بنا کر لیٹ گئے۔ آسمان کی اندھیری وسعتوں میں جھانکے ہوئے انھوں نے ستاروں کا جھلملاتا ھوا جال دیکھا۔ وہ ستاروں کے ھر جھرمٹ سے بخوبی واقف تھے۔ ان دس برسوں میں انھوں نے نہ جانے کتنی بار کھلے آسمان کو دیکھا تھا! ان کو ھمیشہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے خاموش غور و فکر کے ان دانش مندانہ خیالات نے ان کو امیروں سے بھی زیادہ امیر بنا دیا ھے۔ چاھے امیر آدمی سونے کے ظروف میں ھی کھانا کیوں نہ کھاتاھو پھر بھی وہ لازمی طور پر رات چھت کے نیچے گذارتا ھے۔ اس لئے وہ نصف شب کے سناٹے میں خنک، نیلگوں، ستاروں سے بھرے ھوئے دھندلکے کے درمیان زمین کی پرواز سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔

اس دوران میں شہر کی دندانے دار فصیل کے باھر کارواں سرایوں اور چائے خانوں میں بڑے برے کڑاھوں کے نیچے آگ روشن ہو چکی تھی اور بھیڑیں جو ذبح ھونے کے لئے کھینچی جا رھی تھیں بے حد غم آلود آواز میں ممیا رھی تھیں۔ تجربے کار خواجہ نصرالدین نے پہلے ھی سے سوچکر اپنے رات کے آرام کا انتظام ایسی جگہ کیا تھا جو ھوا کے رخ کے خلاف تھی تاکہ کھانے کی اشتہا آمیز خوشبو ان کو نہ چھیڑ سکے۔ بخارا کے قوانین کو اچھی طرح جانتے ھوئے انہوں اپنی تھوڑی سی جمع پونجی بچالی تھی تاکہ کل وہ شہر کے پھاٹک پر محصول ادا کرسکیں۔

کافی دیر تک وہ کروٹیں بدلتے تھے لیکن ان کو نیند نہ آئی۔ اس بے خوابی کا سبب بھوک نہ تھی بلکہ تلخ خیالات تھے جو ان کو بےچین اور پریشان کر رھے تھے۔

ان کو اپنے وطن سے محبت تھی۔ وہ اس کو سب سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ یہ سانولے تپے ھوئے چہرے پر سیاہ داڑھی رکھنے والاچالاک اور زندہ دل انسان جس کی صاف آنکھوں سے شرارت کی جھلک تھی، اپنی پھٹی پرانی قبا، داغ دھبوں سے بھری ٹوپی اور خستہ حال جوتے پہنے بخارا سے جتنا ھی زیادہ دور آوارہ گردی کرتا رھا اتنا ھی زیادہ وطن سے اس کا پیار بڑھتا چلا گیا اور وطن اس کو یاد آتا گیا۔ جلا وطنی کے زمانے میں اس کو ان تنگ سڑکوں کی یاد آتی جہاں دونوں طرف کی کچی دیواروں سے رگڑ کھائے بغیر ارابے نہیں گزر سکتے تھے، ان بلند میناروں کی جن کی روغن کی ھوئی اینٹوں کی ڈیزائن دار چوٹیاں طلوع و غروب آفتاب کے وقت عکس سے شعلہ ور ھو جاتی تھیں اور ان قدیم اور متبرک چنار کے درختوں کی جن کی شاخوں میں سارسوں کے بڑے بڑے کالے گھونسلے جھولتے تھے۔ اس کو حور کے سرسراتے ھوئے درختوں کے سائے میں نہروں کے کنارے چہل پہل والے چائے خانوے، بہت زیادہ گرم باورچی خانوں میں دھوئیں اور کھانے کی خوشبو اور بازاروں کی رنگین گہما گہمی یاد آتی۔ اس کو اپنے وطن کی پہاڑیاں اور جھرنے، گاؤں، کھیت، چراگاھیں، ریگستان ایک ایک یاد آتئے اور بغداد یا دمشق میں جب وہ اپنے کسی ھم وطن کو دیکھتا تو وہ اس کی ٹوپی یا لباس کی وضع قطع سے پہچان لیتا اور ایک لمحہ کے لئے خواجہ نصرالدین کے دل کی دھڑکن اور سانس کی آمد رفت رک جاتی۔
واپسی پر خواجہ نے اپنے ملک کو اس سے زیادہ بدحال پایا جیسا کہ چھوڑا تھا۔ بڈھے امیر کا زمانہ ھوئے انتقال ہو چکا تھا۔ پچھلے آٹھ سالوں میں نئے امیر نے بخارا کو تقریبا تباہ کردیا تھا۔ خواجہ نصرالدین نے ٹوٹے پھوٹے پل، سورج سے جھلسی، بری طرح سے بوئی ھوئی گیہوں اور جو کی کمزور فصلیں اور آبپاشی کی خشک نالیاں دیکھیں جو گرمی سی سوکھ کر چٹخ گئی تھیں۔ کھیتوں میں جھاڑ جھنکار اگے تھے اور ویران تھے، پانی کی کمیابی سے باغات خشک پڑے تھے، کسانوں کے پاس نہ تو اناج تھا اور نہ مویشی، سڑکوں پر فقیروں کی قطاریں ان لوگوں سے بھیک مانگتی نظر آتی تھیں جو خود انہی کی طرح محتاج تھے۔

نئے امیر نے ھر گاؤں میں سپاھیوں کا ایک ایک دستہ تعینات کردیا تھا اور حکم دیا تھا کہ اس کے مفت کھانے پینے کی ذمہ داری گاؤں والوں پر ھے۔ اس نے بہت سی مسجدوں کی بنیاد ڈلوا دی اور پھر حکم دیا کہ عام لوگ ان کو تکمیل تک پہنچائیں۔ نیا امیر بہت زاھدو پاکباز تھا اور سال میں دو بار انتہائی مقدس اور پاکیزہ بزرگ شیخ بہاالدین کے مزار کی زیارت میں ناغہ نہیں کرتا تھا جو بخارا کے قریب ھی تھا۔ چار رائچ ٹیکسوں میں اس نے تین اور محصولوں کا اضافہ کیا تھا۔ اس نے ھر پل پر چنگی ناکہ بنوا دیا تھا، تجارتی اور قانونی کاروائیوں کے لئے ٹیکس پر اضافہ کردیا تھا اور گھٹیا سکے بنوائے تھے۔۔۔ حرفتیں تباہ ھو رھی تھیں اور تجارت پر زوال آیا ھوا تھا۔ خواجہ نصرالدین کے لئے اپنے پیار وطن کو واپسی خوشک نہ تھی۔

۔۔۔ صبح سویرے مؤذنوں کی اذان پھر تمام میناروں سے گونجی۔ پھاٹک کھل گئے اور کارواں گھنٹیوں کی گونج میں آھستہ آھستہ شہر میں داخل ھوا۔

پھاٹک سے گذر کر کارواں ٹھہر گیا۔ سڑک کو پہرے داروں نے روک رکھا تھا۔ وہ بڑی تعدادم یں تھے۔ کچھ تو اچھے کپڑے اور جوتے پہنے تھے اور کچھ جن کو ابھی تک امیر کی ملازمت میں موٹے ہونے کا موقع نہیں ملا تھا ننگے پیر اور نیم عریاں تھے۔ وہ شور مچا کر ایک دوسرے کو ڈھکیل رھے تھے اور لوٹ مار کی تقسیم کے لئے پہلے سے جھگڑنے لگے تھے۔ آخرکار ٹیکس کلکٹر صاحب ایک چائے خانے سے برآمد ھوئے، لحیم شحیم، چہرے پر نیند کے آثار، ریشمی قبا پہنے جس کی آستیوں پر چکنئی کے داغ تھے، ننگے پیر سلیپروں میں ڈال لئے تھے۔ پھولا ھوا چہرہ بداعتدالیوں اور بدکاریوں کی چغلی کھا رھا تھا۔ اس نے سوداگروں پر للچائی ھوئی نگہ ڈالی اور بولا:

"خوش آمدید، سوداگرو! اللہ آپ کو کاروبار میں کامیاب کرے! یہ جان لیجئے کہ امیر کا حکم ھے کہ اگر کوئی بھی اپنے سامان کی چھوٹی سی چیز بھی چھپائے گا تو اس کو ڈنڈوں سے مار مار کر ھلاک کر دیا جائے گا۔"

حیران و پریشان سوداگروں نے خاموشی سے اپنی خضاب لگی ھوئی داڑھیوں کو سہلایا۔ ٹیکس کلکٹر پہرے دواروں کی طرف مڑا جو بے چین ھو رھے تھے اور اپنی موٹی انگلیوں سے اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ھی پہرے دار ھانکتے پکارتے اونٹوں پر ٹوٹ پڑے۔ بھیڑ بھاڑ اور عجلت میں ایک دوسرے سے دھکم دھکا کرکے انھوں نے اپنی تلواروں سے بالوں کے رسے کاٹ دئے اور شور مچاتے ھوئے گانٹھوں کو کاٹ کر کھول دیا۔ سڑک پر زربفت، ریشم اور مخمل کے کپڑے، مرچ، چا، عنبر کے باکس، گلاب کے قیمتی عطر کے کنٹر اور تبت کی دوائیں پھیل گئیں۔

خوف نے سوداگروں کی زبان میں قفل لگا دیا تھا۔ دو منٹ میں معائنہ ختم ھوگیا۔ پہرے دار اپنے افسر کے پیچھے صف آرا ھو گئے، ان کی قبائیں پھولی ھوئی تھیں۔ اب سامان اور شہر کے اندر داخل ہونے کی اجازت کے لئے ٹیکس وصول کیا جانے لگا۔ خواجہ نصرالدین کے پاس کوئی تجارتی سامان نہ تھا اور ان کو صرف داخلے کا ٹیکس ادا کرنا تھا۔

"تم کہاں سے آرھے ھو اور کس کام سے؟" ٹیکس کلکٹر نے دریافت کیا۔

محرر نے کلک کا قلم دوات میں ڈبویا اور خواجہ نصرالدین کا بیان رجسٹر میں قلم بند کرنے کے لئے تیار ھوگیا۔

"حضور عالی، میں ایران سے آرہا ہوں۔ یہاں بخارا میں میرے کچھ عزیز رھتے ہیں۔"

"اچھا" ٹیکس کلکٹر بولا۔ "تو تم اپنے عزیزوں سے ملنے آئے ھو۔ اس صورت میں تمھیں ملاقاتی کا محصول ادا کرنا ھوگا"۔

"لیکن میں ان سے ملاقات کرنے تھوڑی ھی آیا ھوں" خواجہ نصرالدین نے جلدی سے جواب دیا۔ " میں ضروری کام سے آیا ھوں۔"

"کام سے!" ٹیکس کلکٹر نے زور سے کہا اور اس کی آنکھیں جل اٹھیں۔ "تب تو تم ملاقات اور کام دونوں کے لئے آئے ھو۔ ملاقاتی کا ٹیکس ادا کرو، کام کا ٹیکس ادا کرو اور اس خدا کی راہ میں مسجدوں کی آرائش کے لئے عطیہ دو جس نے تم کو راستے میں رھزنوں سے محفوظ رکھا۔"

"اچھا تو یہ ھوتا کہ وہ اب مجھے محفوظ رکھتا کیونکہ رھزنوں سے بچنے کی تدبیر تو میں خود کرسکتا تھا" خواجہ نصرالدین نے سوچا لیکن اپنی زبان کو روکے رھے کیونکہ انھوں نے حساب لگایا کہ اس بات چیت کا ھر حرف ان کو دس تنگے سے زیادہ کا پڑ رھا ھے۔ انھوں نے اپنی پیٹی کھولی اور پہرے داروں کی گھورتی ھوئی حریصانہ آنکھوں کے سامنے شہر میں داخلے کا ٹیکس، مہمان ٹیکس، کاروباری ٹیکس اور مسجدوں کی آرائش کے لئے عطیہ کی رقم گنی۔ ٹیکس کلکٹر نے گھور کر پہرے داروں کو دیکھا جو ھٹ گئے۔ محرر اپنی ناک رجسٹر میں گھسیڑے کلک کے قلم سے لکھتا رھا۔

تمام محاصل ادا کرنے کے بعد خواجہ نصرالدین روانہ ھی ھونے والے تھے کہ ٹیکس کلکٹر نے دیکھا لیا کہ کچھ سکے ان کی پیٹی میں باقی رہ گئے ھیں۔

"ٹھہرو!" اس نے حکم دیا " اور تمھارے گدھے کا ٹیکس کون ادا کریگا؟ اگر تم اپنے عزیزوں سے ملنے جا رھے ھو تو اس کا یہ مطلب ھوا کہ گدھا بھی اپنے عزیزون سے ملنے جا رھا ھے۔"

"دانا افسر، آپ بجا فرماتے ھیں" خواجہ نصرالدین نے اپنی پیٹی پھر سے کھولتے ھوئے بڑی خاکساری سے کہا " واقعی، بخارا میں میرے گدھے کے عزیزوں کی بڑی اکثریت ھے ورنہ جیسا انتظام یہاں ھے اس سے تو آپ کے امیر کو کب کا تخت سے اتار دیا گیا ھوتا اور آپ، حضور، اپنے حرص کی وجہ سے بہت دن پہلے ھی چوبی ستون پر نظر آتے۔"

قبل اس کے کہ ٹیکس کلکٹر حواس مجتمع کرسکے خواجہ نصرالدین اچک کر اپنے گدھے پر آئے اور اس کو سرپٹ بھگاتے ھوئے قریب ترین گلی میں رفوچکر ھوگئے۔

"اور تیز، اور تیز" وہ برابر گدھے سے کہتے جارھے تھے "اور تیز، میرے وفادار گدھے، اور تیز ورنہ تیرے مالک کو ٹیکس میں اپنا سر دینا پڑجائے گا۔"

خواجہ نصرالدین کا گدھا بڑا سمجھدار تھا۔ وہ ھر بات سمجھتا تھا۔ اس کے لمبے کانوں نے شہر کے پھاٹک کا غل غپاڑہ اور پہرے داروں کی ھانک پکار سن لی تھی اس لئے وہ سڑک سے بےنیاز بھاگتا رھا اور اتنی تیز رفتاری سے کہ اس کا مالک کاٹھی سے چمٹا ھوا تھا، اس کے بازو گدھے کی گردن میں حمائل تھے اور اس کے پیر اوپر کھنچے ھوئے تھے۔ زور زور بھونکتے ھوئے کتے ان کے پیچھے دوڑتے، مرغیاں چاروں طرف بکھر جاتیں اور راھی دیواروں سے چپک کر کھڑے ھوجاتے، اپنا سرھلاتے اور ان کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے۔

اس دوران میں شہر کے پھاٹک پر پہرے داروں نے مجمع میں اس بے دھڑک آزاد خیال کی تلاش کررھے تے۔ سوداگر مسکرا رھے تھے اور ایک دوسرے سے چپکے چپکے کہہ رھے تھے:

" یہ جواب تو بس خواجہ نصرالدین ھی دے سکتے تھے۔"

دوپہر ھوتے ھوتے یہ قصہ سارے شہر میں پھیل گیا۔ بازار میں تاجر چپکے چپکے گاھکوں سے بیان کر نے لگے جو اس کو دوسروں تک پہنچاتے اور سب ھنستے اور ھمیشہ یہ کہتے:

"یہ الفاظ تو خواجہ نصرالدین ہی کو زیب دیتے ھیں۔"

کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ الفاظ خود خواجہ نصرالدین کے ھیں، کہ وھی مشہور و معروف لاثانی خواجہ نصرالدین اس وقت شہر میں بھوکا پیاسا، خالی جیب آوارہ گردی کر رھا ھے اور اپنے عزیزوں اور پرانے دوستوں کو تلاش کر رھا ھے جو اس کو کھلاتے پلاتے اور پناہ دیتے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۳)​
خواجہ نصرالدین کو بخارا میں نہ تو عزیز ملے اور نہ پرانے دوست ھی۔ ان کو اپنے باپ کا گھر تک نہ ملا جہاں وہ پیدا ھوئے تھے اور پل بڑھ کر جوان ھوئے تھے، نہ تو وھاں وہ سایہ دار باغ تھا جہاں خزاں کے صاف دنوں میں سنہری پتیاں ھوا میں سرسراتی تھیں اور پھل بھدابھد زمین پر گرتے تھے، جہاں چڑیاں چہچہاتی تھیں اور سورج کی کرنیں خوشبودار گھاس پر ناچتی تھیں، جہاں شہر کی مکھیاں مرجھاتے ھوئے پھولوں سے آخری خراج وصول کرتے ھوئے بھن بھناتی تھیں اور جہاں نہر گنگناتی ھوئی بہتی تھی اور لڑکے سے اپنی نہ ختم ھونے والی پراسرار کہانیاں کہتی رھتی تھی۔۔۔ اب یہ جگہ ویران تھی، کوڑے کرکٹ، خاردار جھاڑیوں سے بھری ھوئی، آگ سے جلی ھوئی اینٹوں، گرتی ھوئی دیواروں اور سڑتی ھوئی چنائی کے ٹکڑے پھیلے ھوئے تھے۔ خواجہ نصرالدین کو ایک چڑیا، ایک شہد کی مکھی تک نظر نہ آئی۔ صرف پتھروں کے ڈھیر کے نیچے سے جہاں انھوں نے ٹھوکر کھائی تھی اچانک ایک چکنی سی رسی برآمد ھوئی، سورج کی روشنی میں ھلکی سی چمکی اور پھر پتھروں کے نیچے غائب ھوگئی۔ یہ تھا سانپ، ایسی ویران جگہوں کا تنہا اور ڈراؤنا باسی جن کو ھمیشہ کے لئے انسان ترک کردیتا ھے۔

خواجہ نصرالدین بڑی دیر تک سر جھکائے کھڑے رھے۔ ان کے دل پر غم کے بادل چھا گئے ھتے۔

سخت کھانسی کی آواز سے چونک کر وہ مڑے۔

ایک بڈھا غربت و فکر سے جھکا ھوا اس ویرانے کے پار راستے پر چلا آتا تھا۔ خواجہ نصرالدین نے اس کو روکا:
"بڑے میاں، رحمت ھو تم پر، خدا تم کو صحت و خوشحالی کا طویل زمانہ عطا کرے۔ مجھے بتاؤ کہ اس ویران جگہ پر کس کا مکان تھا؟"

"یہ کاٹھی بنانے والے شیر محمد کا گھر تھا" بڈھے نے جواب دیا "میں اس کو اچھی طرح جانتا تھا۔ یہ شیر محمد مشہور خواجہ نصرالدین کا باپ تھا جس کے بارے میں، اے مسافر، تو نے یقینا بہت کچھ سنا ھوگا۔"
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ھاں میں نے کچھ تو اس کے بارے میں سنا ھے ۔ لیکن یہ تو بتاؤ یہ کاٹھی بنانے والا شیر محمد جو مشہور خواجہ نصرالدین کا باپ تھا کہاں چلا گیا اور اس کا خاندان کہاں ھے؟

اتنے زور سے نہیں ، میرے بیٹے ، بخارا میں لاکھوں جاسوس ھیں ۔ اگر انھوں نے کہیں ھماری بات سن لی تو بس مصیبتوں کا ٹھکانہ نہیں رھے گا ۔ شاید تم بہت دور سے آئے ھو اور نہیں جانتے کہ ھمارے شہر میں خواجہ نصرالدین کا نام لینا سخت منع ھے ۔ یہ بات آدمی کو جیل میں ڈالنے کے لئے کافی ھے ۔ ذرا قریب آ جاؤ ۔ میں تمھیں بتاؤں گا ۔

اپنی پریشانی چھپاتے ھوئے خواجہ نصرالدین اس کے قریب جھک گئے ۔

یہ بڈھے امیر کے زمانے کی بات ھے ۔ بڈھے نے کھانستے ھوئے شروع کیا۔ خواجہ نصرالدین کی جلاوطنی کو ڈیڑھ سال ھوئے تھے کہ بازار میں یہ افواہ پھیل گئی کہ وہ ناجائز طور پر چُھپکر بخارا واپس آ گئے ھیں اور یہاں ٹھہرے ھوئے ھیں اور امیر کے خلاف ھجویہ نظمیں لکھ رھے ھیں ۔ یہ افواہ امیر کے محل تک پہنچی اور پہرے داروں نے خواجہ نصرالدین کی تلاش شروع کر دی لیکن وہ نہیں ملے ۔ تب امیر نے حکم دیا کہ ان کے باپ ، دو بھائیوں ، چچا اور دور کے رشتے داروں اور دوستوں کو پکڑ لیا جائے ۔ ان کو اس وقت تک اذیت پہنچانا تھی جب تک وہ خواجہ نصرالدین کا پتہ نہ بتائیں ۔ الحمد لللہ ان کو اتنا ھمت و استقلال حاصل ھوا کہ انھوں نے اپنی زباں بند رکھی اور ھمارے خواجہ نصرالدین امیر کے ھاتھ نہ آئے ۔ لیکن ان کے باپ ، کاٹھی بنانے والے شیر محمد اذیتوں سے چُور ھو کر جلد ھی اس دُنیا سے چل بسے اور ان کے عزیزوں اور دوستوں نے امیر کے غیض و غضب سے بچنے کے لئے بخارا چھوڑ دیا اور پتہ نہیں کہ اب کہاں ھیں ۔ پھر امیر نے حکم دیا کہ ان کے گھر تباہ کر دئے جائیں اور ان کے باغ تہس نہس کر دئے جائیں تاکہ خواجہ نصرالدین کی یاد لوگوں کے ذھن سے یکسر محو ھو جائے ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” لیکن ان پر ظلم و ستم کیوں ڈھایا گیا؟ “ خواجہ نصرالدین نے چیخ کر کہا ۔ ان کے رُخساروں پر آنسو بہہ چلے لیکن بُڈھے نے یہ آنسو نہیں دیکھے کیونکہ اس کی نگاہ کمزور تھی ۔ ” ان پر کیوں ظلم و ستم ڈھایا گیا؟ خواجہ نصرالدین تو اس وقت بخارا میں تھے ھی نہیں ۔ میں یہ اچھی طرح جانتا ھوں! “

” کوئی نہیں کہہ سکتا“ بُڈھے نے کہا ”خواجہ نصرالدین کا جب جی چاھتا ھے آتے ھیں اور جب دل چاھتا ھے چلے جاتے ھیں ۔ وہ ھر جگہ ھیں اور کہیں نہیں ھیں ، ھمارے خواجہ نصرالدین کا جواب نہیں ھے ! “

یہ کہہ کر بُڈھا کراھتا اور کھانستا ھوا اپنے راستے پر ھو لیا ۔ خواجہ نصرالدین نے اپنا چہرہ ھاتھوں سے ڈھک لیا اور گدھے کے پاس چلے گئے۔

انھوں نے گدھے کے گلے میں باھیں ڈال دیں اور اپنا بھیگا ھوا چہرہ اس کی گرم اور بساھندی گردن سے دبا دیا ۔

” آہ ، میرے اچھے ، سچے دوست“ خواجہ نصرالدین نے کہا ” دیکھو اب میرا عزیز و قریب کوئی نہیں باقی رہ گیا ۔ صرف تُو اس آوارہ گردی میں میرا مستقل اور وفا دار ساتھی ھے۔“

جیسے گدھے نے اپنے مالک کے رنج و غم کو سمجھ لیا ھو ، وہ خاموش کھڑا ھو گیا ۔ بلکہ ایک تنکے کو جو اس کے ھونٹوں سے لٹک رھا تھا چبانا بند کر دیا ۔

بہر حال ایک گھنٹے بعد خواجہ نصرالدین اپنے غم پر قابو پاچکے تھے اور آنسو چہرے پر خُشک ھو گئے تھے ۔

” کوئی پرواہ نہیں !“ انھوں نے گدھے کی پیٹھ کو تھپ تھپاتے ھوئے کہا۔ ” کوئی پرواہ نہیں ! مجھے بخارا میں ابھی تک فراموش نہیں کیا گیا ھے۔ لوگ مجھ کو ابھی تک جانتے اور یاد کرتے ھیں۔ ھم کچھ دوست پا ھی لینگے۔ اور امیر کے بارے میں ایسی نظمیں لکھیں گے کہ وہ اپنے تخت پر غصے سے پُھولکر پھٹ ھی جائیگا اور اس کی گندی آنتیں محل کی آراستہ دیواروں کو داغدار بنا دیں گی۔ آ ! میرے وفادار گدھے ، آگے بڑھ !“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

(4)


سہ پہر کا سناٹے کا وقت تھا اور بڑی امس تھی ۔ گرد آلود سڑک ، پتھروں ، کچی دیواروں اور باڑوں سے امس پیدا کرنے والی گرمی نکل رھی تھی اور خواجہ نصرالدین کے چہرے کا پسینہ پونچھنے سے پہلے ھی خُشک ھو جاتا تھا۔

وہ جانی پہچانی سڑکوں ، چائے خانوں اور میناروں کو دیکھ کر متاثر ھو رھے تھے ۔ دس سال کے اندر بخارا میں کوئی تبدیلی نہیں ھوئی تھی ۔ ھمیشہ کی طرح کچھ خارشتئے کُتے پانی کے حوضوں کے کنارے پڑے سو رھے تھے، اور ایک عورت ادا کے ساتھ جُھکی ھوئی اور اپنے نقاب کو سانولے ھاتھ سے جس کے ناخون رنگے ھوئے تھے ایک طرف ھٹا کر تنگ گلے کی قلقل کرتی ھوئی صراحی میلے پانی میں ڈال رھی تھی ۔

کھانا کہاں سے اور کیسے حاصل کیا جائے ، یہ ایک مسئلہ تھا ۔ خواجہ نصرالدین نے کل سے تیسری بار اپنا پٹکا زور سے کسا۔

” کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا چاھئے“ انھوں نے کہا ” آ ، میرے وفادار گدھے ، ذرا رُک کر سوچیں اور یہاں خوش قسمتی سے ایک چائے خانہ بھی ھے ۔“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
انھوں نے اپنے گدھے کی لگام کھول دی اور گھوڑے باندھنے کی جگہ کے پاس جو گھاس پڑی تھی چرنے کے لئے اسے چھوڑ دیا ۔ پھر اپنی قبا کے دامنوں کو سمیٹتے ھوئے وہ نہر کے کنارے بیٹھ گئے جہاں گدلا پانی موڑوں پر قلقل کرتا اور جھاگ دیتا ھوا بہہ رھا تھا۔

” کہاں ، کیوں اور کہاں سے یہ پانی بہتا ھےِ پانی اس کی بابت نہ تو جانتا ھے اور نہ سوچتا ھے“ خواجہ نصرالدین نے افسردگی کے ساتھ سوچا۔ ”مٰن بھی آرام اور گھر سے بیگانہ ھوں اور نہ تو یہ جانتا ھوں کہ کہاں جا رھا ھوں ۔۔ میں بخارا کیوں آیا؟ میں کل کہاں جاؤں گا ؟ اور میں اپنے کھانے کے لئے آدھا تانگا کہاں سے لاؤں؟ کیا مجھے اب بھی بُھوکا رہنا پڑے گا ؟ لعنت ھو اس ٹیکس کلکٹر پر! اس نے تو مجھے صاف ھی کر دیا۔ اور پھر دیدہ دلیری تو دیکھو کہ مجھ سے رھزنوں کا ذکر کر رھا تھا !“

اسی لمحے انھوں نے اس آدمی کو دیکھا جو ان کی مصیبتوں کا باعث بنا تھا ٹیکس کلکٹر گھوڑے پر سوار چائے خانے آرھا تھا۔ اس کے خوبصورت عرب سرنگ گھوڑے کو دو پہرے دار لگاموں سے تھامے ھوئے تھے ۔ گھوڑے کی سیاہ آنکھوں میں شریفانہ سی چمک تھی ۔ اس کی گردن کمان کی طرح کشیدہ تھی اور وہ اپنے نازک پیروں پر اس نزاکت اور چھل بل سے چل رھا تھا کہ اس کے اُوپر مالک کا پُھولا پھالا بدن قابلِ نفرت بار معلوم ھو رھا تھا۔

پہرے داروں نے ادب کے ساتھ اپنے افسر کو گھوڑے سے اُترنے میں مدد دی۔ وہ چائے خانے میں چلا گیا جہاں انتہائی غلامانہ ذھنیت رکھنے والا چائے خانے کا مالک اس کو ریشمی گدوں تک لے گیا اور وہ بیٹھ گیا ۔ پھر چائے خانے کے مالک نے اپنی بہترین چاء تیار کی اور ایک نفیس پیالے میں جو چینی دستکاری کا نمونہ تھا ٹیکس کلکٹر کے سامنے چاء پیش کی۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” یہ سب میرے خرچ سے خاطر مدارات ھو رھی ھے“ خواجہ نصرالدین نے سوچا۔

ٹیکس کلکٹر نے خوب چاء پی اور جلد ھی گدوں پر ڈھیر ھو گیا۔ چائے خانہ اس کی غراھٹ ، اور ھونٹ چاٹنے کے چٹاخوں سے گونجنے لگا۔ دوسرے لوگوں نے اپنی آوازیں مدھم کر دیں کہ کہیں اس کی نیند میں خلل نہ پڑے۔ پہرے دار اس کے دونوں طرف بیٹھے ٹہنیوں سے مورچھل کر رھے تھے تاکہ مکھیاں اس کو پریشان نہ کر سکیں ۔ جب ان کو یقین ھو گیا کہ ٹیکس کلکٹر گہری نیند سو رھا ھے تو انھوں نے ایک دوسرے کی طرف آنکھ ماری ، گھوڑے کی لگام اُتار دی ، اس کے سامنے گھاس کا ایک گٹھ کھول دیا اور ایک حقہ اُٹھا کر چائے خانے کے اندر والے تاریک حصے میں چلے گئے ۔ ذرا دیر بعد خواجہ نصرالدین نے حشیش کی بھینی بو محسوس کی ۔ پہرے دار آزادی کے ساتھ اپنے مشغلے میں پڑے ھوئے تھے ۔

” اچھا ، اب یہاں سے چلتے پڑنا چاھئے“ شہر کے پھاٹک پر صبح کا واقعہ یاد کر کے یہ ڈرتے ھوئے کہ کہیں پہرے دار انھیں پہچان نہ لیں خواہ نصرالدین نے فیصلہ کیا ۔ ” پھر بھی مجھے آدھا تانگا کہاں سے ملے گا ؟ اے مسبب الاسباب تو نے نہ جانے کتنی بار خواجہ نصرالدین کی مدد کی ھے ، اس پر ایک نظر کرم اور!“

ٹھیک اسی وقت کسی نے ان کو پکارا ”ارے ، تم!“

خواجہ نصرالدین نے مُڑ کر دیکھا تو سڑک پر ایک بہت سجی ھوئی بند گاڑی دیکھی
 

قیصرانی

لائبریرین
اس کے پردوں سے ایک آدمی بڑا عمامہ اور قیمتی خلعت پہنے جھانک رھا تھا۔ قبل اس کے کہ یہ اجنبی، جو کوئی امیر سوداگر یا عہدےدار تھا کچھ کہے خواجہ نصرالدین سمجھ گئے کہ ان کی دعا رائگاں نہیں گئی۔ حسب معمول قسمت نے ان کی طرف مشکل کے دوران مسکرا کر دیکھا ھے۔

"مجھے یہ گھوڑا پسند ھے" امیر اجنبی نے عرب گھوڑے کو تعریف کی نگاہ سے دیکھتے ھوئے غرور سے کہا "کیا یہ گھوڑا بکاؤ ھے؟"

"دنیا میں کوئی ایسا گھوڑا نہیں جو بکاؤ نہ ھو" خواجہ نصرالدین نے مبہم سا جواب دیا۔

"غالبا تمھاری جیب بالکل خالی ھے" اجنبی کہتا گیا "میری بات غور سے سنو۔ مجھے نہیں معلوم یہ گھوڑا کس کا ھے، کہاں سے آیا ھے اور اس کا پہلا مالک کون تھا۔ میں تم سے یہ سب نہیں پوچھتا۔ تمھارے گردآلود کپڑوں کو دیکھ کر میں سمجھ سکتا ھوں کہ تم کہیں دور سے بخارا آئے ھو۔ بس یہی میرے لئے کافی ھے۔ سمجھتے ھو نا؟"

خواجہ نصرالدین نے خوشی سے سر ھلادیا۔ ان کی سمجھ میں فورا ھی آگیا کہ یہ امیر آدمی کیا کہنا چاھتا ھے۔ بس وہ یہ چاھتے تھے کہ کوئی احمق مکھی ٹیکس کلکٹر کی ناک یا گلے میں نہ رینگ جائے اور اس کو نہ جگا دے۔ ان کو پہرے داروں کی زیادہ فکر نہ تھی کیونکہ جو گھنا سبز دھواں چائے خانے کے اندورنی حصے سے نکل رھا تھا وہ پتہ دیتا تھا کہ پہرے دار اپنے مشغلے میں مستھیں۔

"تمھیں اچھی طرح سمجھ لینا چاھئے" امیر اجنبی نے غرور اور شان کے لہجے میں اپنی بات جاری رکھی "اس پھٹی پرانی قبا میں تم کو اس گھوڑے کی سواری زیب نہیں دیتی بلکہ یہ بات خطرناک بھی ھوگی کیونکہ ھر ایک کو تعجب ھوگا کہ اس بھک منگے کے پاس اتنا عمدہ گھوڑا کہاں سے آیا؟ تم کو آسانی سے جیل کا دروازہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔"

"حضور، آپ بجا فرماتے ہیں" خواجہ نصرالدین نے خاکساری سے ھاں میں ھاں ملائی " یہ گھوڑا یقینا میرے لئے بہت بڑی چیز ھے۔ میں اپنے پھٹے پرانے لباس میں ساری عمر گدھے کی سواری کرتا رھا ھوں۔ میں اس گھوڑے پر سواری کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔"

اس کا جواب امیر اجنبی کو پسند آیا۔

"یہ اچھی بات ہے کہ تم غریب ھوتے ھوئے غرور سے اندھے نہیں ھو۔ غریب آدمی کو خاکسار اور مسکین ھونا چاھئے کیونکہ خوبصورت پھول حسین بادام کے درخت کو زیب دیتے ھیں ویرانے کی خاردار جھاڑیوں کو نہیں۔ اب بتاؤ، تمھیں یہ تھیلی چاھئے؟ اس میں پورے پورے چاندی کے تیس سو تنگے ھیں۔"

"مجھے چاھئے!" خواجہ نصرالدین نے جلدی سے کہا اور اس کی سانس یکدم رک گئی کیونکہ ایک مکھی ٹیکس کلکٹر کی ناک میں رینگ گئی تھی جس سے اس کو چھینک آگئی تھی اور اس نے کروٹ لی تھی۔ " میرا خیال یہ تو یہی ھے! چاندی کے تین سو تانگوں سے کون انکار کر سکتا ھے؟ یہ تو ایسا ھی ھے جیسے سڑک پر تھیلی پڑی مل جائے!"

"ایسا معلوم ہوتا ھے جیسے تم کو کوئی اور چیز سڑک پر ملی ھے" اجنبی نے اس طرح مسکراتے ھوئے کہا جیسے وہ سب کچھ جانتا ھے۔ "لیکن سڑک پر جو کچھ تمھیں ملا ھے، میں اس سے اس تھیلی کا تبادلہ کرنے کو تیار ھوں۔ یہ رھے تین سو تانگے۔"

اس نے تھیلی خواجہ نصرالدین کو دے دی اور اپنے نوکر کو اشارہ کیا، جو خاموشی سے کھڑا یہ گفتگو سن رھا تھا اور اپنی پیٹھ چابک سے کھجلا رھا تھا۔ جب نوکر گھوڑے کی طرف جا رھا تھا تو خواجہ نصرالدین نے اس کی ھنسی اور اس کے چپٹے، چیچک سے داغدار چہرے اور تھرکتی ھوئی آنکھوں سے اندازہ لگایا کہ وہ بھی اپنے مالک سے کم بدمعاش نہیں ہے۔

"ایک ھی سڑک پر تین مکار، ذرا زیادہ ھوئے۔ بس مجھے یہاں سے چلتا بننا چاھئے" خواجہ نے فیصلہ کیا۔

امیر اجنبی کی شرافت اور فیاضی کو سراہتے ھوئے وہ اچک کر اپنے گدھے پر بیٹھے اور اس کو اتنی زور کی ایڑ لگائی کہ گدھا اپنی تمام کاھلی کے باوجود ھوا ھوگیا۔

جب خواجہ نصرالدین نے مڑ کر دیکھا تو نوکر عرب گھوڑے کو گاڑی میں باندھ رھا تھا اور جب دوبارہ وہ مڑے تو امیر اجنبی اور ٹیکس کلکٹر ایک دوسرے کی ریش مبارک نوچ رھے تھے اور پہرے دار ان دونوں کو الگ کرنے کی بے سود کوشش کر رھے تھے۔

عقلمند آدمی دوسروں کے جھگڑوں میں اپنی ٹانگ نہیں اڑاتا۔ خواجہ نصرالدین گلی کوچوں کا چکر لگاتے جا رھے تھے، یہاں تک کہ انھوں نے محسوس کیا کہ اب تعاقب کا کوئی خطرہ نہیں ھے اور انھوں نے گدھے کی لگام کھینچ کر رفتار کم کردی۔

"رک، ارے رک جا" انھوں نے کہنا شروع کیا "اب کوئی جلدی نہیں ھے۔۔۔"

اچانک انھوں نے بالکل قریب ھی تیز اور خطرناک ٹاپوں کی آواز سنی۔

"ارے، بھاگ میرے وفادار گدھے! بھاگ! مجھے یہاں سے جلدی لے چل!" انھوں نے للکار کر کہا۔ لیکن بہت دیر ھوچکی تھی۔ ایک موڑ سے گھوڑ سوار کود کر سڑک پر آگیا۔

یہ وھی چیچک رو نوکر تھا۔ وہ گاڑی سے کھولے ھوئے گھوڑے پر سوار تھا۔ اپنے پیر جھلاتے ھوئے وہ خواجہ نصرالدین سے آگے نکل گیا اور اچانک گھوڑے کو سڑک پر روک کر راست روک دیا۔

"بھلے آدمی، مجھے نکل جانے دو" خواجہ نصرالدین نے خاکساری سے التجا کی "ایسی تنگ سڑکوں پر گھوڑا سیدھا لے چلنا چاھئے، آرا بیڑا نہیں۔"

"اچھا" نوکر نے طنزیہ ٹھٹھا لگا کر کہا "اب تم کال کوٹھڑی سے نہیں بچ سکوگے! جانتے ھو اس عہدے دار نے جو گھوڑے کا مالک ھے، میرے مالک کی آدھی داڑھی نوچ لی ھے اور میرے مالک نے اس کی ناک لہولہان کر دی ھے؟ کل امیر کی عدالت میں تمھاری پیشی ھوگی۔ سچ مچ، تمھارے برے دن آگئے!"

"تم کہہ کیا رھے ھو؟" خواجہ نصرالدین نے حیرت سے کہا " یہ معزز لوگ کیوں اس بری طرح لڑ پڑے؟ اور تم نے مجھے کیوں روکا؟ میں نے کے جھگڑے میں ثالث نہیں بن سکتا۔ وہ خود جس طرح چاھیں اس کا فیصلہ کریں۔"

"اچھا، بس چپ کرو" نوکر نے کہا "لوٹو، تمھیں گھوڑے کے لئے جواب دھی کرنی ھوگی۔"

"کیسا گھوڑا؟"

"تم پوچھتے ھو؟ وھی گھوڑا جس کے لئے تم کو میرے مالک نے چاندی کے سکوں کی تھیلی دی ھے۔"

"خدا کی قسم تم غلطی کر رھے ھو" خواجہ نصرالدین نے جواب دیا۔ "اس معاملے سے گھوڑے کا کوئی سروکار نہیں۔ خود فیصلہ کرو۔ تم نے تو ساری گفتگو سنی ھے ۔ تمھارے مالک شریف اور فیاض آدمی ھیں۔ وہ ایک غریب کی مدد کرنا چاھتے تھے اور انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں چاندی کے تین سو تنگے لینا چاھتا ھوں اور میں نے کہا کہ ضرور۔ لیکن رقم دینے سے قبل انہوں نے میرے انکسار اور خاکساری کی یہ معلوم کرنے کے لئے آزمائش کی کہ آیا میں اس انعام کے لائق ھوں یا نہیں۔ انھوں نے کہا "میں یہ نہیں پوچھتا کہ یہ گھوڑا کس کا ھے اور کہاں سے آیا ھے۔" دیکھو نا، وہ جاننا چاھتے تھے کہ آیا جھوٹے غرور میں اس کو میں اپنا گھوڑا بتا دوں گا۔ میں چپ رھا اور یہ فیاض اور شریف انسان خوش ھوا۔ پھر انھوں نے کہا کہ ایسا گھوڑا میرے لئے ایک بہت بڑی چیز ھوگا اور میں نے ان سے اتفاق کیا۔ اس سے بھی وہ خوش ھوئے۔ پھر انھوں نے کہا کہ میں نے سڑک پر وہ چیز پائی ھے جس کا تبادلہ چاندی سے کیا جاسکتا ھے، ان کا اشارہ اسلام کے لئے میرے جوش اور مضبوط عقیدے کی طرف تھا، جو میں نے مقدس مقامات کی زیارت کے لئے سفر کرکے حاصل کیا تھا۔ اور اس کے بعد انھوں نے مجھے انعام دیا، اس نیک کام میں ان کی نیت یہ تھی کہ جنت میں ان کے داخلے کے لئے میں اس پل کے ذریعہ آسانی ھو جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ھے، جیسا کہ قرآن شریف ھم کو بتاتا ھے۔ میں اپنی سب سے پہلی دعا میں اللہ سے یہ درخواست کروں گا کہ اس کارخیر کیوجہ سے تمھارے مالک کے لئے اس پل پر کٹہرا لگوا دیا جائے۔ "

نوکر نے یہ لمبی تقریر غور سے سنی اور چابک سے اپنی پیٹھ کھجلاتا رھا۔ آخر ممیں اس نے چالاکی سے دانت نکالتے ھوئے کہا جس سے خواجہ نصرالدین گھبرا گئے:

"مسافر، تم ٹھیک ھی کہتے ھو۔ حیرت ھے کہ میں فورا ھی یہ کیوں نہیں سمجھ گیا کہ میرے مالک سے تمھاری بات چیت کا کیسا نیک مطلب ھے؟ لیکن چونکہ تم نے یہ فیصلہ کر لیا ھے کہ تم میرے مالک کو دوسری دنیا میں پل پار کرنے میں مدد دو گے، تو اگر یہ پل کے دونوں طرف کٹہرا ھو تو اس سے زیادہ حفاظت ھوگی۔ میں بھی بہت خوشی سے اپنے مالک کے لئے دعا کرونگا تاکہ اللہ پل کے دوسری طرف بھی ان کو کٹہرا عطا فرمائے۔"

"تو کرو نا دعا!" خواجہ نصرالدین نے زور سے کہا "تمھیں روکتا کون ھے؟ تمھارا تو ایک طرح سے یہ فرض بھی ھے۔ کیا قرآن میں ھدایت نہیں کی گئی ھے کہ غلاموں اور ملازموں کو روزانہ اپنے مالک کے لئے کسی خاص انعام کے مطالبے کے بغیر دعا کرنی چاھئے؟"

"اپنا گدھا موڑو" نوکر نے سختی سے چلا کر کہا اور اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر خواجہ نصرالدین کو دیوار تک دبا دیا۔ " اب جلدی کرو، میرا وقت ضائع مت کرو۔"

"رکو" خواجہ نصرالدین نے جلدی سے بات کاٹ کر کہا۔ "میں نے ابھی اپنی بات نہیں ختم کی ھے۔ میں تانگوں کی تعداد کے مطابق تیس سو الفاظ کی دعا پڑھنے والا تھا لیکن اب میں سوچتا ھوں کہ ڈھائی سو الفاظ کی دعا کافی ھوگی۔ میری طرف کا کٹہرا ذرا پتلا اور چھوٹا ھوگا۔ اور تم پچاس الفاظ کی دعا پڑھو گے اور خدا حکیم مطلق ھے، وہ بہتر جانتا ھے کہ تمھاری طرف کا کٹہرہ اسی لکڑی سے کیسے بنایا جائے۔"

"کیا" نوکر نے کہا "میرا کٹہرا تمھارے کٹہرے سے پانچ گنا چھوٹا کیوں ھو؟"

"لیکن وہ انتہائی خطرناک حصے میں ھوگا" خواجہ نصرالدین نے جلدی سے کہا۔

"نہیں" نوکر نے فیصلہ کن انداز طور پر کہا " میں ایسے چھوٹے کٹہرے پر رضامند نہیں ھوسکتا۔ اس کا مطلب یہ ھوا کہ پل کا ایک حصہ بلا کٹہرے کے ھوگا۔ میں اس خطرے کے خیال سے ھی کانپ اٹھتا ھوں جو میرے مالک کو ھوگا۔ میرے رائے میں ھم دونوں کو ڈیڑھ ڈیڑھ سو الفاظ کی دعا پڑھنی چاھئے تاکہ دونوں طرف کٹہرے کی لمبائی ایک ھی ھو۔ چاھے وہ پتلا ھی کیوں نہ ھو لیکن دونوں طرف سے حفاظت تو ھوگی۔ اور اگر تم اس پر تیار نہیں ھو تو اس کا مطلب یہ ھے کہ تم میرے مالک کی برائی کے خواھاں ھو اور چاھتے ھو کہ وہ پل سے گر پڑیں۔ اچھا، میں لوگوں کو پکارتا ھوں اور تم جلد ھی کال کوٹھری میں ھوگے۔"

"پتلا کٹہرہ!" خواجہ نصرالدین نے گرم ھو کر کہا، ان کو محسوس ھو رھا تھا گویا ان کے پٹکے میں تھیلی کلبلا رھی ھے۔ " جو کچھ تم کہہ رھے ھو اس سے تو یہی اچھا ھے کہ ٹہنیوں کا کٹہرہ بنا دیا جائے! تمھاری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ایک طرف کا کٹہرہ زیادہ موٹا اور مضبوط ھونا چاھئے تاکہ اگر تمھارے مالک کا پیر لڑکھڑائے اور وہ گرنے لگیں تو ان کو کچھ سہارا لینے کو تو مل جائے۔"

"تمھارے منہ سے تو سب سچ ھی سچ نکل رھا ھے" نوکر نے خوش ھو کر کہا "میری طرف کا کٹہرا موٹا ھونے دو اور میں دو سو الفاظ کی دعا پڑھنے کی تکلیف بھی گورا کر لوں گا۔"

"شاید تم اس کو تین سو تک لے جانا پسند کرو" خواجہ نصرالدین نے زھر میں بجھے ھوئے لہجے میں کہا۔

آخرکار جب وہ ایک دوسرے سے رخصت ھوئے تو خواجہ کی تھیلی آدھی ہلکی ھوچکی تھی۔ وہ دونوں اس پر راضی ھو گئے تھے کہ جنت کو جانے والے پل کی حفاظت اس آدمی کے مالک کے لئے دونوں طرف ایسے کٹہروں سے ھونی چاھئے جو مضبوطی اورموٹائی دو میں برابر ھوں۔

"خدا حافظ، اے انتہائی مہربان، وفادار اور نیک ملازم جو اپنے مالک کی روح کی بخشائش کے لئے اتنا فکرمند ھے۔ میں یہ کہنا چاھتا ھوں کہ بحث و مباحثے میں تم خواجہ نصرالدین سے مات نہیں کھاؤ گے۔"

"اس کا ذکر تم نے کیوں کیا؟" نوکر نے پوچھا، اس کے کان کھڑے ھوگئے تھے۔

"کچھ نہیں۔۔۔ بس خیال آگیا" خواجہ نصرالدین نےاپنے آپ سوچتے ھوئے جواب دیا "یہ معمولی آدمی نہیں ھے۔"

"ممکن ھے کہ تم اس کے دور کے رشتے دار ھو؟" نوکر نے پوچھا۔ "یا شاید تم اس کے خاندان کے کسی فرد کو جانتے ھو؟"

"نہیں، میری اس سے کبھی ملاقات نہیں ھوئی اور میں خواجہ نصرالدین کے کسی عزیز کو بھی نہیں جانتا۔"

"سنو، میں تمھیں کان میں ایک بات بتاؤں" نوکر نے کاٹھی سے جھکتے ھوئے کہا۔ "میں اس کا رشتے دار ھوں۔ دراصل اس کا چچیرا بھائی۔ ھم نے اپنا بچپن ساتھ ساتھ گذارا ھے۔"

خواجہ نصرالدین کے شبہے کی تصدیق ھوگئی اور انھوں نے اپنی زبان روک لی۔ نوکر اور قریب جھک آیا:

"اس کا باپ، دو بھائی اور چچا تو مرچکے ھیں۔ شاید تم نے اس کی بابتہ سنا ھو، مسافر؟"

لیکن خواجہ نصرالدین اب بھی چپ رھے۔

"امیر نے ایسا ظلم ڈھایا!" نوکر نے مکاری سے کہا۔

پھر بھی خواجہ چپ ھی رھے۔

"بخارا کے تمام وزیر احمق ھیں!" نوکر نے غیر متوقع طور پر کہا۔ وہ لالچ سے بالکل بے صبر ھو رھا تھا کیونکہ حکومت آزاد خیال لوگوں کی گرفتاری کے لئے کافی انعام دیتی تھی۔ لیکن خواجہ نصرالدین نے زبان پر مہر سکوت لگا لی۔

"اور ھمارا معزز امیر بھی احمق ھے!" اس آدمی نے کہا "اور یہ بھی یقینی نہیں ھے کہ اللہ کا وجود ھے!"

لیکن خواجہ نصرالدین نے اپنا منہ نہیں کھولا حالانکہ ایک تیز و تلخ جواب ان کی زبان پر تھا۔ نوکر کو بڑی ناامیدی ھوئی۔ اس نے زور سے کوستے ھوئے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دو چھلانگوں میں موڑ پر غائب ھوگیا۔ اب سناٹا ھوگیا۔ صرف ساکن ھوا میں گھوڑے کے سموں سے اٹھنے والی گرد سنہرے دھند کی طرح معلق تھی جس کو گرم اور ترچھی کرنیں چیر رھی تھیں۔

"اچھا، لیجئے مجھے رشتہ دار بھی مل گیا" خواجہ نصرالدین خود سوچکر مسکرائے۔ "بڈھے نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔ بخارا میں جاسوس مکھیوں کی طرح بھرے ھوئے ھیں۔ ذرا احتیاط کی ضرورت ھے۔ پرانی کہاوت ھے کہ "مجرم زبان کے ساتھ سر بھی کٹ جاتا ھے۔"

اس طرح وہ گدھے پر کافی دیر تک آگے چلتے تھے، کبھی اپنی تھیلی کی آدھی کائنات کھونے کے بارے میں سوچتے اور کبھی ٹیکس کلکٹر اور مغرور اجنبی کے درمیان جھگڑے کو یاد کرکے ھنستے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۵)​

جب خواجہ نصرالدین شہر کے دوسرے سرے پر پہنچ گئے تو وہ رکے، اپنا گدھا ایک چائے خانے کے مالک کے سپرد کیا اور تیزی کے ساتھ ایک طعام خانے پہنچے۔

وھاں بڑی بھیڑ تھی، کھانے کی مہک ھر طرف پھیلی تھی۔ تندور روشن تھے اور شعلے لپک رھے تھے جو باورچیوں کی پسینے سے تر پیٹھوں کو اور چمکا دیتے تھے۔ باورچی کمر تک ننگے کام کر رھے تھے۔ وہ ادھر ادھر دوڑ رھے تھے، شور کر رھے تھے، ایک دوسرے کو دھکیل رھے تھے اور باورچی خانے میں کام کرنے والے چھوکروں کی گدی پر دھپ بھی جما دیتے تھے۔ گھبرائی گھبرائی آنکھوں والے چھوکرے ادھر ادھر بھاگ بھاگ دھکا پیل، غل اور ہنگامے میں اضافہ کر رھے تھے۔ لکڑی کے ناچتے ھوئے ڈھکنوں والے بڑے بڑے دیگچوں سے کھدبدانے کی آواز آرھی تھی، چھت کے قریب بھاپ کے گھنے بادل جمع تھے جہاں لاتعداد مکھیاں بھنبھارھی تھیں۔ اس دھندلکے میں گھی زوروں سے سنسنا اور ابل رھا تھا، انگیٹھیوں کی دیواریں لال بھبھوکا ھو کر چمک رھی تھیں اور سیخوں سے چربی ٹپک کر کوئلے پر گر رھی تھی اور نیلگوں دھوئیں دار شعلے بھڑکا کر جل جاتی تھی۔ یہاں پلاؤ پک رھا تھا، بوٹی کے کباب بھونے جا رھے تھے، اوجھڑی ابل رھی تھی اور پیاز، مرچ، گوشت اور دنبے کی دم کی چربی سے بھرے ھوئے سموسے سینکے جا رھے تھے۔ چربی تندور میں پگھل کر سموسوں سے نکل پڑتی تھی اور چھوٹے چھوٹے بلبلے بناتی تھی۔

بڑی مشکل سے خواجہ نصرالدین کو ایک جگہ ملی جہاں ان کو اس طرح کسمسا کر بیٹھنا پڑا کہ جن لوگوں کو انھوں نے اپنی پیٹھ اور پہلو سے دبایا تھا وہ چیخ اٹھے۔ لیکن کوئی ناراض نہیں ھوا، کسی نے ایک لفظ بھی ان کو نہیں کہا اور نہ وہ خود ھی بڑبڑائے۔ ان کو ھمیشہ سے بازار کے طعام خانوں کی ایسی گرماگرم بھیڑ بھکڑ، یہ تمام چیخ پکار، ھنسی مذاق، قہقہے، غل غپاڑہ، دھکم دھکا، زوردار کھانس کھنکار اور ان سیکڑوں آدمیوں کے کھانا کھانےکی آوازیں جو دن بھر کی شدید محنت کے بعد کھانے میں انتخاب کی تاب نہیں رکھتے اور ان کے طاقتور جبڑے ھر چیز کو چبا ڈالتے ھیں، خواہ وہ گوشت ھو یا ھڈی۔ ھر سستی اورافراط سے ملنے والی چیز کو سخت معدہ قبول کرلیتا ھے۔ خواجہ نصرالدین نے بھی خوب جی بھر کر کھایا۔ وہ ایک جگہ بیٹھ کر تین پلیٹ شوربہ، تین پلیٹ پلاؤ اور دو درجن سموسے کھا گئے۔ سموسے ختم کرنے میں ذرا کوشش کرنی پڑی پھر بھی کھا لیا کیونکہ خواجہ کا یہ قاعدہ تھا کہ جس چیز کی قیمت ادا کرتے تھے اس کو پلیٹ میں نہیں چھوڑتے تھے۔

آخر کار انہوں نے دروازے کا رخ کیا اور جب کسی طرح کہنیوں سے راستہ بنا کر وہ کھلی ھوا میں پہنچے تو پسینے سے نہائے ھوئے تھے۔ ان کے بازو اور پیر ایسے کمزور اور نرم ھو رھے تھے جیسے وہ کسی حمام میں ابھی ابھی کسی ھٹے کٹے غسال کے ھاتھ سے چھٹکارا پاکر نکلے ھوں۔ کھانے اور گرمی سے بھاری پن محسوس کرتے ھوئے وہ اس چائے خانے تک پیر گھسیٹتے پہنچے جہاں انھوں نے اپنا گدھا چھوڑا تھا۔ انھوں نے چائے لانے کے لئے کہا اور نمدے پر مزے میں دراز ھوگئے۔ ان کی آنکھیں بند ھو گئیں اور ان کے دماغ میں پرسکون اور خوشگوار خیالات آنے لگے:

"اس وقت میرے پاس کافی رقم ھے۔ اس کو کسی دوکان میں لگا دینا اچھا رھے گا۔ ساز یا برتن بنانے کی دوکان میں۔ میں دونوں حرفتیں جانتا ھوں۔ اب آوارہ گردی چھوڑ دینا چاھئے۔ کیا میں دوسروں سے کم عقل ھوں؟ کیا میں کسی مہربان اور حسین لڑکی کو بیوی نہیں بنا سکتا؟ کیا میرے بیٹا نہیں ھوسکتا جس کو میں گود میں لے کر کھلاؤں؟ پیغمبر صاحب کی ریش مبارک کی قسم، ننھا شریر بڑھکر پکا بدمعاش ھوگا اور میں اس کو اپنی سوجھ بوجھ ضرور اس کو ادا کرسکوں گا۔ بس، میں نے طے کر لیا۔ خواجہ نصرالدین نے اپنی بے سکون زندگی ختم کردی۔ اب ابتدا کے لئے میں کمھار کا کام کروں یا ساز بنانے والے کا۔۔۔"

انھوں نے حساب لگانا شروع کیا۔ اچھی دوکان کے لئے کم از کم تین سو تانگوں کی ضرورت ھوگی لیکن ان کے پاس تو صرف ڈیڑھ سو تھے۔ انھوں نے چیچک رو ملازم پر لعنت بھیجی:

"اللہ اس لٹیرے کو اندھا کرے۔ اس نے مجھ سے وہ لے لیا جس کی مجھے زندگی شروع کرنے کے لئے ضرورت تھی!"

ایک مرتبہ پھر قسمت نے ان کا ساتھ دیا۔ "بیس تانگے" کسی نے اچانک زور سے کہا۔ پھر ایک تانبے کی تھالی میں پانسے کے گرنے کی آواز آئی۔

برساتی کے نالے کے کنارے اور بالکل اس جگہ کے قریب جہاں گھوڑے باندھے جاتے تھے اور جہاں ان کا گدھا بندھا تھا آدمیوں کا ایک چھوٹا سا حلقہ بنا ھوا تھا۔ چائے خانے کا مالک ان کے پیچھے کھڑا ان کے سر کے اوپر سے گردن بڑھا بڑھا کر دیکھ رھا تھا۔

"جوا ھو رھا ھے!" خواجہ نصرالدین نے اپنی کہنیوں پر اٹھتے ھوئے اندازہ لگایا۔ "وہ قطعی جوا کھیل رھے ھیں! ذرا دیکھوں تو دوسر ھی سے سہی۔ میں کھیلونگا نہیں۔ میں کوئی احمق ھوں؟ لیکن عقلمند آدمی احمقوں کو کھیلتے تو دیکھ ھی سکتا ھے۔"

وہ اٹھ کر جواریوں کے پاس گئے۔

"احمق ھیں یہ لوگ" انھوں نے چپکے سے چائے خانے کے مالک سے کہا "جیتے کے لالچ میں اپنی آخری کوڑی تک لگا دیتے ھیں۔ کیا پیغمبر صاحب نے جوے کی ممانعت نہیں کی ھے؟ خدا شکر ھے کہ میں اس مہلک برائی سے پاک ھوں۔۔۔ لیکن اس لال بالوں والے جواری کی قسمت کتنی اچھی ھے! اس کو متواتر چار بار جیت ھو چکی ھے۔۔ دیکھو، دیکھو۔ وہ پانچویں مرتبہ بھی جیت گیا! اس کو دولت کے جھوٹے تصور نے ورغلایا ھے جبکہ غربت اس کے راستے میں گڈھا کھود چکی ھے۔ ارے کیا؟ اس نے چھٹی مرتبہ بازی مار لی۔ میں نے ایسی قسمت کبھی نہیں دیکھی۔ دیکھو، وہ پھر داؤں لگا رھا ھے۔ سچ ھے، انسان کی حماقت کی کوئی انتہا نہیں۔ آخر کار وہ متواتر کب تک جیتا کریگا؟ اسی طرح لوگ جھوٹی قسمت پر بھروسہ کرکے تباہ ھوتے ھیں! اس لال بالوں والے آدمی کو سبق دینا چاھئے۔ اگر یہ ساتویں بار بھی جیتا تو میں اس کے خلاف داؤں لگاؤنگا حالانکہ میں دل سے ھر قسم کے جوے کے خلاف ھوں۔ا گر میں امیر بخارا ھوتا تو بہت دن ھوئے اس کو ممنوع قرار دے چکا ھوتا!"

لال بالوں والے جواری نے پانسہ پھینکا اور ساتویں بار بھی بازی اس کے ھاتھ رھی۔

خواجہ نصرالدین نے بڑے عزم کے ساتھ قدم بڑھایا۔ کھلاڑیوں کو کندھے سے الگ ھٹادیا اور حلقے میں کھیلنے کے لئے بیٹھ گئے۔

"میں تمھارے ساتھ کھیلنا چاھتا ھوں" انھوں نے خوش قسمت جیتے والے سے کہا، انھوں نے پانسے اٹھائے اور ان کا ھر رخ سے اپنی تجربے کار نگاھوں سے جائزہ لیا۔

"کتنے سے؟" لال بالوں والے نے بھاری آواز سے پوچھا۔ اس کے بدن میں جھرجھری دوڑ گئی۔ وہ اپنی خوش قسمتی سے فائدہ اٹھانا چاھتا تھا جو تھوڑی دیر کے لئے اس کو نصیب ھو گئی تھی۔

خواجہ نصرالدین نے جواب میں اپنی تھیلی نکالی۔ شدید ضرورتوں کے لئے پچیس تانگے الگ کر لئے اور پھر تھیلی خالی کرلی۔ تانبے کی تھالی پر چاندی کی جھنکار ھوئی۔ جواریوں نے داؤں کا پراشتیاق شور سے خیر مقدم کیا۔ اونچے داؤں سے کھیل شروع ھو رھا تھا۔

لال بالوں والے آدمی نے پانسے لیے اور ان کو بڑی دیر تک ھلایا، وہ ان کو پھینکتے ھوئے جھجک رھا تھا۔ ھر ایک سانس روکے تھا، حتی کہ گدھے نے بھی اپنا تھوتھن آگے بڑھا دیا تھا اور کان کھڑے کر لئے تھے۔ صرف جواری کی مٹھی میں پانسوں کی کھنکھناہٹ کی آواز ھو رھی تھی۔ اس خشک کھنکھناہٹ نے خواجہ نصرالدین کے پیروں اور پیٹ میں ایک تھکن آمیز کمزوری پیدا کردی۔ آخرکار لال بالوں والے نے پانسہ پھینکا۔ دوسرے کھلاڑیوں نے گردن بڑھا کر دیکھا اور پھر اس طرح پیچھے گرگئے جیسے وہ سب ایک ھی آدمی ھوں، ان کے سینوں سے نکل رھی ھو۔ لال بالوں والے جواری کا چہرہ زرد ھوگیا اور اس نے بھینچے ھوئے دانتوں سے ایک آہ کی۔ پانسے میں صرف تین نقطے نظر آرھے تھے یعنی ھار قطعی تھی کیونکہ دو کا پانسہ اسی طرح کم گرتا تھا جیسے بارہ کا۔ باقی ھر پانسہ خواجہ نصرالدین کے حق میں تھا۔

پانسے کو مٹھی میں ھلاتے ھوئے خواجہ نصرالدین نے دل ھی میں قسمت کا شکریہ ادا کیا کہ آج وہ اتنی مہربان تھی۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ قسمت بڑی متلون مزاج اور من موجی ھے اور اگر اس کو ذرا بھی تنگ کرو تو فورا دغا دے جاتی ھے۔ قسمت نے یہ فیصلہ کیا کہ خواجہ نصرالدین کو اس خود اعتمادی کے لئے سبق دے اور ان کےگدھے کو اپنا ھتھیار بنایا یا زیادہ ٹھیک یہ کہنا ھوگا کہ ان کے گدھے کی دم کو جس کا سرا کانٹوں اور گوکھروؤں سے مرصع تھا۔ گدھنے نے جواریوں کی طرف سے پیٹھ موڑ کر جو اپنی دم ھلائی، تو اس کے مالک کے ھاتھ میں جالگی۔ پانسہ ھاتھ سے چھوٹ کر گرا اور لال بالوں والا جواری ایک زوردار نعرہ لگا کر آنا فانا تھالی پر گرا اور ساری رقم پر چھا گیا۔

خواجہ نصرالدین نے دو پھینکے تھے۔

وہ بڑی دیر تک خاموش بیٹھے اپنے ھونٹ چلاتے رھے۔ ان کی تکتی ھوئی آنکھوں کے سامنے ساری دنیا ڈگمگا اور تیر رھی تھی اور کان عجیب آوازوں سے بج رھے تھے۔

اچانک وہ اچک کر اٹھے اور ڈنڈا لیکر بے تحاشہ گدھے کو پیٹنے لگے۔ وہ اسے کھونٹے کے چاروں طرف دوڑا رھے تھے۔

"منحوس گدھا! ولد الزنا! بدبودار جانور، دنیا کی تمام مخوقات کے لئے لعنت!" خواجہ نصرالدین گرج رھے تھے "اپنے مالک کے پیسے سے جوا ھی کھیلنا کیا کم تھا نہ کہ اس کو ھار بھی جانا۔ خدا کرے تیری شیطانی کھال پھٹ جائے! اللہ کرے تیرے راست میں ایساگڑھا آئے کہ تیرا پیر ٹوٹ جائے! نہ معلوم تو کب مرے گا کہ تیری منحوس صورت سے مجھے چھٹکارا ملے گا!"

گدھا رینکنے لگا۔ جواریوں میں قہقہہ پڑا اور لال بالوں والے نے تو سب سے زور کا قہقہہ لگایا۔ اس کو اپنی خوش قسمتی پر قطعی بھروسہ ھو چکا تھا۔

"آؤ پھر کھیلیں" اس نے خواجہ نصرالدین سے کہا جب تھک کر ان کی سانس پھول چکی اور انھوں نے ڈنڈا پھینک دیا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
" آؤ کچھ بازیاں اور ھو جائیں ۔ ابھی تو تمہارے پاس پچیس تانگے ھیں۔"

یہ کہہ کر اس نے اپنا بایاں پیر پھیلا کر اس کو ھلایا۔ گویا اس طرح اس نے خواجہ نصرالدین کے لئے حقارت کا اظہار کیا ۔

" کیوں نہیں؟" خواجہ نے یہ سوچتے ھوئے جواب دیا کہ اب ایک بیس تانگے تو ضایع ھو ھی چکے ، رھے باقی پچیس تانگے ، ان کا جو حشر ھو۔

انھوں نے لاپروائی سے پانسہ پھینکا اور جیت گئے۔

" پوری رقم رھی!" لال بالوں والے نے ھاری ھوئی رقم تھالی میں پھنیکتے ھوئے تجویز کی۔

خواجہ نصرالدین پھر جیت گئے۔

لال بالوں والے کو یقین ھی نہیں آتا تھا کہ قسمت نے اس سے اس طرح منہ پھیر لیا ھے " ساری رقم رھی!"

متواتر سات مرتبہ اس نے کہا اور ھر مرتبہ وہ ھارا۔ ساری تھالی رقم سے بھر گئی۔ جواری بالکل خاموش بیٹھے تھے ۔ ان کی شعلہ ور آنکھیں صرف اس اندرونی آگ کی آئینہ دار تھیں جو ان کو جلائے ڈال رھی تھی۔

"اگر شیطان تمہاری مدد نہیں کر رھا ھے تو تم ھر بار تو نہیں جیت سکتے!" لال بالوں والے نے چلا کر کہا " کبھی تو ھارو گے!" لو یہ تھالی میں رھے تمھارے ایک ھزار چھ سو تانگے۔ تم پھر ایک بار ساری رقم داؤں پر لگاؤ گے؟ یہ رھی وہ رقم جس سے کل میں اپنی دوکان کے لئے بازار سے سامان خریدنے والا تھا۔ میں تمھارے خلاف یہ ساری رقم داؤں پر لگاتا ھوں!"

اس نے ایک تھیلی نکالی جس میں سونے کے سکے بھرے تھے ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” اپنا سونا تھالی میں رکھو“ خواجہ نصرالدین نے جوش میں آ کر زور سے کہا۔

اس چائے خانے میں اتنا زبردست داؤں کبھی نہیں لگا تھا۔ چائے خانے کا مالک تو اپنی ابلتی ھوئی کیتلیوں کو بھی بھول گیا ۔ جواری زور زور سے ہانپ رھے تھے۔ لال بالوں والے نے پہلے پانسہ پھینکا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں کیونکہ وہ ڈر رھا تھا ۔

” گیارہ!“ سب ایک ساتھ مل کر چلائے۔ خواجہ نصرالدین نے سمجھ لیا کہ اب بازی ھاری ھی سمجھو۔ صرف بارہ کا پانسہ ھی اس کو بچا سکتا تھا ۔

” گیارہ ! گیارہ !“ لال بالوں والا جواری خوشی سے بے ساختہ دھرا رھا تھا۔ ” دیکھو نا ، میرے گیارہ ھیں ! تم ھار گئے ! تم ھار گئے!“

خواجہ نصرالدین سر سے پیر تک ٹھنڈے پڑ گئے ۔ انھوں نے پانسے لے کر ان کو پھینکنے کی تیاری کی ۔ پھر یکا یک انھوں نے اپنا ھاتھ روک لیا۔

” گھوم جا“ اس نے اپنے گدھے سے کہا ”تو نے تین کے پانسے کے خلاف ھرایا ھے تو اب گیارہ کے خلاف جتا، نہیں تو میں تجھے قصاب گھر دکھاؤنگا۔“

انھوں نے گدھے کی دُم بائیں ھاتھ سے پکڑ کر دائیں ھاتھ پر ماری جس میں پانسے تھے۔

سارے لوگوں کے غُل سے چائے خانہ گُونج گیا ۔ چائے خانے کے مالک نے اپنا دل تھام لیا اور زمین پر گر گیا ، وہ اتنے زبردست دھکے کو نہ برداشت کر سکا۔

پانسے میں بارہ دکھائی دے رھے تھے ۔

لال بالوں والے کی آنکھیں حلقوں سے نکلی پڑتی تھیں اور اس کے بے خون چہرے پر چمک رھی تھیں ۔ وہ آھستہ سے اُٹھا اور لڑکھڑاتا ھوا چلا۔ وہ بار بار چلا رھا تھا ”تباہ ھو گیا، تباہ ھو گیا میں!“

کہا جاتا ھے کہ اس دن سے لال بالوں والا پھر شہر میں نہیں دکھائی دیا۔ وہ ریگستان میں بھاگ گیا اور وھاں اس کے بال بڑھ گئے اور صورت وحشتناک ھو گئی۔ وہ ریت اور کٹیلی جھاڑیوں کے درمیان مارا مارا پھرتا اور برابر یہی چیختا رھتا ”تباہ ھو گیا میں!“ یہاں تک کہ گیدڑوں نے اس کا خاتمہ کر دیا ۔ لیکن کسی نے اس کا ماتم نہیں کیا کیونکہ وہ ظالم اور نا انصاف تھا اور اس نے اعتبار کرنے والے سیدھے سادے لوگوں کو ھرا کر بڑا نقصان پہنچایا تھا۔

جہاں تک خواجہ نصرالدین کا تعلق ھے انھوں نے اپنی جیتی ھوئی نئی دولت کو خورجینوں میں ڈالا اور اپنے گدھے کو لپٹا کر اس کے گرم تھوتھن کو زور سے چُوما ، اس کو کچھ مزےدار تاؤ ، تازہ نان کھلائی جس پر گدھے کو تعجب ھوا کیونکہ چند منٹ پہلے مالک کا برتاؤ برعکس رہ چکا تھا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


(6)



اس دانشمندانہ اصول پر عمل کرتے ھوئے کہ ان لوگوں سے دور ھی رھنا چاھئے جو یہ جانتے ھوں کہ تم اپنی پونجی کہاں رکھتے ھو خواجہ نصرالدین نے چائے خانے میں تضیعِ اوقات نہیں کیا اور بازار کی طرف روانہ ھو گئے۔ وہ بار بار پیچھے مُڑ کر دیکھتے جاتے تھے کہ کوئی ان کا پیچھا تو نہیں کر رھا ھے کیونکہ جواریوں اور چائے خانے کے مالک کے چہروں پر بد نیتی کے آثار نظر آرھے تھے ۔

حالات تو بہت خوشگوار تھے ۔ اب وہ کوئی بھی دوکان خرید سکیں گے ، دو دوکانیں ، تین دوکانیں اور انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ یہی کریں گے ۔


” میں چار دوکانیں خرید لوں گا ، برتن بنانے کی ، ساز بنانے کی ، درزی اور موچی کی دوکانیں ۔ ھر ایک میں دو کاریگر لگا دوں گا ، بس میرا کام پیسہ جمع کرنا رہ جائے گا ۔ دو سال میں امیر بن جاؤں گا ۔ ایک مکان خرید لوں گا جس کے باغ میں فوارے ھوں گے ۔ میں ھر جگہ چہچہاتی ھوئی چڑیوں کے سونے کے پنجرے ٹانگونگا ، اور میرے دو شاید تین بیویاں ھوں گی اور ھر ایک سے تین تین بیٹے۔۔۔“


انھوں نے اپنے کو خیالوں کے خوشگوار سیلاب میں بہنے دیا ۔ اس دوران میں گدھے نے لگام کی گرفت نہ محسوس کر کے اپنے مالک کے ھوائی قلعے سے فائدہ اُٹھایا۔ جب وہ ایک چھوٹے سے پُل پر پہنچے تو دوسرے گدھوں کی طرح اسے پار کرنے کی بجائے وہ ایک طرف مُڑا اور سیدھا خندق کے اُوپر سے جست لگا گیا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”۔۔۔اور جب میرے بچے بڑے ھو جائیں گے تو میں ان کو اکٹھا کر کے کہوں گا۔۔۔“ خواجہ نصرالدین خیالات کی دنیا میں اس طرح اُڑے چلے جارھے تھے ” لیکن میں ھوا میں اُڑ کیوں رھا ھوں؟ کیا خُدا نے مجھ کو فرشتہ بنا کر پَر عطا کر دئے ھیں؟“

دوسرے لمحے آنکھوں سے نکلتی ھوئی چنگاریوں نے خواجہ نصرالدین کو یقین دلا دیا کہ ان کے پَر نہیں ھیں۔ کاٹھی سے اچھل کر اپنی سواری سے کچھ گز آگے وہ سڑک پر دراز تھے ۔

جب وہ گرد میں لت پت کراھتے ھوئے سڑک سے اُٹھے تو گدھا ان کے پاس آگیا۔ وہ اپنے کان دوستانہ انداز میں ھلا رھا تھا اور اس کے چہرے پر انتہائی معصومانہ تاثرات تھے جیسے وہ اپنے مالک کو مدعو کر رھا ھو کہ وہ پھر کاٹھی پر واپس آ جائے۔

”ارے تو، جو میرے پلے پڑا ھے صرف میرے گناھوں کی سزا نہیں بلکہ میرے باپ ، دادا ، پردادا کے گناھوں کے لئے بھی ، کیونکہ اسلامی انصاف کے نقطہ نظر سے ایک آدمی کو صرف اپنے گناھوں کے لئے اتنی بھاری سزا دینا نامنصفانہ بات ھوگی!“ خواجہ نصرالدین نے کہا۔ ان کی آواز غصے سے کانپ رھی تھی ”مکڑے اور لکڑ بگھے کا بچہ ! ارے تو۔۔۔“

لیکن اب انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ تھوڑی ھی دُور پر ایک تباہ شدہ دیوار کے سائے میں بیٹھے ھوئے ھیں اور وہ چُپ ھو گئے۔
 
Top