(۲)
انھوں نے سوداگروں کے ایک بڑے کارواں کے ساتھ جس میں وہ شامل ھو گئے تھے بخارا کی سرحد میں قدم رکھا اور سفر کے آٹھویں دن بہت دور سامنے دھندلکے میں اس بڑے اور مشہور شہر کے جانے پہچانے مینار دیکھے۔
پیاس اور گرمی سے پریشان ساربانوں نے ایک زور دار نعرہ بلند کیا اور اونٹوں نے اپنی رفتار تیز کردی۔ سورج غروب ھو رھا تھا اور جلدی کی ضرورت تھی تاکہ پھاٹک بند ھونے سے پہلے بخارا میں داخل ھوا جاسکے۔ خواجہ نصرالدین کارواں میں سب سے پیچھے، گرد کے گھنے اور بھاری بادل میں لپٹے چل رھے تھے۔ یہ تو ان کی اپنی پاک گرد تھی جس کی مہک دوسرے دور دراز ملکوں کی گرد سے کہیں اچھی تھی۔ چھینکتے کھانستے ھوئے وہ اپنے گدھے سے برابر کہہ رہے تھے:
"دیکھ، ھم آخر کار گھر پہنچ گئے نا! خدا کی قسم یہاں کامیابیاں اور مسرتیں ھماری منتظر ہیں۔"
کارواں ٹھیک اس وقت شہر کی فصیل کے قریب پہنچا جب پہرے دار پھاٹک بند کر رہے تھے۔ "خدا کے لئے ٹھہریے!" ۔ کارواں کا سردار ایک طلائی سکہ دکھا کر دور ھی سے چلایا۔ لیکن پھاٹک بند ھوچکے تھے، زنجیریں جھنکار کے ساتھ چڑھا دی گئیں اور میناروں پر نگہبانوں نے توپوں کے مورچے سنبھال لئے۔ تازہ ہوا کے جھونکے آنے لگے، دھندلکے آسمان میں گلابی شفق مرجھا گئی، باریک ھلال بہت صاف ابھر آیا اور شام کی خاموشی میں بےشمار میناروں سے مؤذنوں کی تیز اور پرسوز آوازیں مومنوں کو مغرب کی نماز کی دعوت دینے لگیں۔
سوداگر اور ساربان نماز کے لئے جھک گئے اور خواجہ نصرالدین چپکے سے اپنے گدھے کو لیکر ایک کنارے چلے گئے۔
" یہ سوداگر تو بجا طور پر خدا کے شکرگزار ھیں" انھوں نے کہا "انھوں نے آج دن میں ڈٹ کر کھانا کھایا ھے اور رات کو بھی کھائیں گے لیکن میں نے اور تو نے، میرے وفادار گدھے، نہ تو دن کو کھانا کھایا ھے اور نہ رات ھی کو کھائیں گے۔ اگر اللہ ھمارے شکرئے کا خواھاں ھے تو وہ مجھ کو ایک قاب پلاؤ اور تجھ کو ایک گھٹا گھاس بھیج دے۔"
انھوں نے سڑک کے کنارے ایک درخت سے گدھے کو باندھ دیا اور خود بھی اس کے برابر ننگی زمین پر پتھر کا تکیہ بنا کر لیٹ گئے۔ آسمان کی اندھیری وسعتوں میں جھانکے ہوئے انھوں نے ستاروں کا جھلملاتا ھوا جال دیکھا۔ وہ ستاروں کے ھر جھرمٹ سے بخوبی واقف تھے۔ ان دس برسوں میں انھوں نے نہ جانے کتنی بار کھلے آسمان کو دیکھا تھا! ان کو ھمیشہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے خاموش غور و فکر کے ان دانش مندانہ خیالات نے ان کو امیروں سے بھی زیادہ امیر بنا دیا ھے۔ چاھے امیر آدمی سونے کے ظروف میں ھی کھانا کیوں نہ کھاتاھو پھر بھی وہ لازمی طور پر رات چھت کے نیچے گذارتا ھے۔ اس لئے وہ نصف شب کے سناٹے میں خنک، نیلگوں، ستاروں سے بھرے ھوئے دھندلکے کے درمیان زمین کی پرواز سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔
اس دوران میں شہر کی دندانے دار فصیل کے باھر کارواں سرایوں اور چائے خانوں میں بڑے برے کڑاھوں کے نیچے آگ روشن ہو چکی تھی اور بھیڑیں جو ذبح ھونے کے لئے کھینچی جا رھی تھیں بے حد غم آلود آواز میں ممیا رھی تھیں۔ تجربے کار خواجہ نصرالدین نے پہلے ھی سے سوچکر اپنے رات کے آرام کا انتظام ایسی جگہ کیا تھا جو ھوا کے رخ کے خلاف تھی تاکہ کھانے کی اشتہا آمیز خوشبو ان کو نہ چھیڑ سکے۔ بخارا کے قوانین کو اچھی طرح جانتے ھوئے انہوں اپنی تھوڑی سی جمع پونجی بچالی تھی تاکہ کل وہ شہر کے پھاٹک پر محصول ادا کرسکیں۔
کافی دیر تک وہ کروٹیں بدلتے تھے لیکن ان کو نیند نہ آئی۔ اس بے خوابی کا سبب بھوک نہ تھی بلکہ تلخ خیالات تھے جو ان کو بےچین اور پریشان کر رھے تھے۔
ان کو اپنے وطن سے محبت تھی۔ وہ اس کو سب سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ یہ سانولے تپے ھوئے چہرے پر سیاہ داڑھی رکھنے والاچالاک اور زندہ دل انسان جس کی صاف آنکھوں سے شرارت کی جھلک تھی، اپنی پھٹی پرانی قبا، داغ دھبوں سے بھری ٹوپی اور خستہ حال جوتے پہنے بخارا سے جتنا ھی زیادہ دور آوارہ گردی کرتا رھا اتنا ھی زیادہ وطن سے اس کا پیار بڑھتا چلا گیا اور وطن اس کو یاد آتا گیا۔ جلا وطنی کے زمانے میں اس کو ان تنگ سڑکوں کی یاد آتی جہاں دونوں طرف کی کچی دیواروں سے رگڑ کھائے بغیر ارابے نہیں گزر سکتے تھے، ان بلند میناروں کی جن کی روغن کی ھوئی اینٹوں کی ڈیزائن دار چوٹیاں طلوع و غروب آفتاب کے وقت عکس سے شعلہ ور ھو جاتی تھیں اور ان قدیم اور متبرک چنار کے درختوں کی جن کی شاخوں میں سارسوں کے بڑے بڑے کالے گھونسلے جھولتے تھے۔ اس کو حور کے سرسراتے ھوئے درختوں کے سائے میں نہروں کے کنارے چہل پہل والے چائے خانوے، بہت زیادہ گرم باورچی خانوں میں دھوئیں اور کھانے کی خوشبو اور بازاروں کی رنگین گہما گہمی یاد آتی۔ اس کو اپنے وطن کی پہاڑیاں اور جھرنے، گاؤں، کھیت، چراگاھیں، ریگستان ایک ایک یاد آتئے اور بغداد یا دمشق میں جب وہ اپنے کسی ھم وطن کو دیکھتا تو وہ اس کی ٹوپی یا لباس کی وضع قطع سے پہچان لیتا اور ایک لمحہ کے لئے خواجہ نصرالدین کے دل کی دھڑکن اور سانس کی آمد رفت رک جاتی۔
واپسی پر خواجہ نے اپنے ملک کو اس سے زیادہ بدحال پایا جیسا کہ چھوڑا تھا۔ بڈھے امیر کا زمانہ ھوئے انتقال ہو چکا تھا۔ پچھلے آٹھ سالوں میں نئے امیر نے بخارا کو تقریبا تباہ کردیا تھا۔ خواجہ نصرالدین نے ٹوٹے پھوٹے پل، سورج سے جھلسی، بری طرح سے بوئی ھوئی گیہوں اور جو کی کمزور فصلیں اور آبپاشی کی خشک نالیاں دیکھیں جو گرمی سی سوکھ کر چٹخ گئی تھیں۔ کھیتوں میں جھاڑ جھنکار اگے تھے اور ویران تھے، پانی کی کمیابی سے باغات خشک پڑے تھے، کسانوں کے پاس نہ تو اناج تھا اور نہ مویشی، سڑکوں پر فقیروں کی قطاریں ان لوگوں سے بھیک مانگتی نظر آتی تھیں جو خود انہی کی طرح محتاج تھے۔
نئے امیر نے ھر گاؤں میں سپاھیوں کا ایک ایک دستہ تعینات کردیا تھا اور حکم دیا تھا کہ اس کے مفت کھانے پینے کی ذمہ داری گاؤں والوں پر ھے۔ اس نے بہت سی مسجدوں کی بنیاد ڈلوا دی اور پھر حکم دیا کہ عام لوگ ان کو تکمیل تک پہنچائیں۔ نیا امیر بہت زاھدو پاکباز تھا اور سال میں دو بار انتہائی مقدس اور پاکیزہ بزرگ شیخ بہاالدین کے مزار کی زیارت میں ناغہ نہیں کرتا تھا جو بخارا کے قریب ھی تھا۔ چار رائچ ٹیکسوں میں اس نے تین اور محصولوں کا اضافہ کیا تھا۔ اس نے ھر پل پر چنگی ناکہ بنوا دیا تھا، تجارتی اور قانونی کاروائیوں کے لئے ٹیکس پر اضافہ کردیا تھا اور گھٹیا سکے بنوائے تھے۔۔۔ حرفتیں تباہ ھو رھی تھیں اور تجارت پر زوال آیا ھوا تھا۔ خواجہ نصرالدین کے لئے اپنے پیار وطن کو واپسی خوشک نہ تھی۔
۔۔۔ صبح سویرے مؤذنوں کی اذان پھر تمام میناروں سے گونجی۔ پھاٹک کھل گئے اور کارواں گھنٹیوں کی گونج میں آھستہ آھستہ شہر میں داخل ھوا۔
پھاٹک سے گذر کر کارواں ٹھہر گیا۔ سڑک کو پہرے داروں نے روک رکھا تھا۔ وہ بڑی تعدادم یں تھے۔ کچھ تو اچھے کپڑے اور جوتے پہنے تھے اور کچھ جن کو ابھی تک امیر کی ملازمت میں موٹے ہونے کا موقع نہیں ملا تھا ننگے پیر اور نیم عریاں تھے۔ وہ شور مچا کر ایک دوسرے کو ڈھکیل رھے تھے اور لوٹ مار کی تقسیم کے لئے پہلے سے جھگڑنے لگے تھے۔ آخرکار ٹیکس کلکٹر صاحب ایک چائے خانے سے برآمد ھوئے، لحیم شحیم، چہرے پر نیند کے آثار، ریشمی قبا پہنے جس کی آستیوں پر چکنئی کے داغ تھے، ننگے پیر سلیپروں میں ڈال لئے تھے۔ پھولا ھوا چہرہ بداعتدالیوں اور بدکاریوں کی چغلی کھا رھا تھا۔ اس نے سوداگروں پر للچائی ھوئی نگہ ڈالی اور بولا:
"خوش آمدید، سوداگرو! اللہ آپ کو کاروبار میں کامیاب کرے! یہ جان لیجئے کہ امیر کا حکم ھے کہ اگر کوئی بھی اپنے سامان کی چھوٹی سی چیز بھی چھپائے گا تو اس کو ڈنڈوں سے مار مار کر ھلاک کر دیا جائے گا۔"
حیران و پریشان سوداگروں نے خاموشی سے اپنی خضاب لگی ھوئی داڑھیوں کو سہلایا۔ ٹیکس کلکٹر پہرے دواروں کی طرف مڑا جو بے چین ھو رھے تھے اور اپنی موٹی انگلیوں سے اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ھی پہرے دار ھانکتے پکارتے اونٹوں پر ٹوٹ پڑے۔ بھیڑ بھاڑ اور عجلت میں ایک دوسرے سے دھکم دھکا کرکے انھوں نے اپنی تلواروں سے بالوں کے رسے کاٹ دئے اور شور مچاتے ھوئے گانٹھوں کو کاٹ کر کھول دیا۔ سڑک پر زربفت، ریشم اور مخمل کے کپڑے، مرچ، چا، عنبر کے باکس، گلاب کے قیمتی عطر کے کنٹر اور تبت کی دوائیں پھیل گئیں۔
خوف نے سوداگروں کی زبان میں قفل لگا دیا تھا۔ دو منٹ میں معائنہ ختم ھوگیا۔ پہرے دار اپنے افسر کے پیچھے صف آرا ھو گئے، ان کی قبائیں پھولی ھوئی تھیں۔ اب سامان اور شہر کے اندر داخل ہونے کی اجازت کے لئے ٹیکس وصول کیا جانے لگا۔ خواجہ نصرالدین کے پاس کوئی تجارتی سامان نہ تھا اور ان کو صرف داخلے کا ٹیکس ادا کرنا تھا۔
"تم کہاں سے آرھے ھو اور کس کام سے؟" ٹیکس کلکٹر نے دریافت کیا۔
محرر نے کلک کا قلم دوات میں ڈبویا اور خواجہ نصرالدین کا بیان رجسٹر میں قلم بند کرنے کے لئے تیار ھوگیا۔
"حضور عالی، میں ایران سے آرہا ہوں۔ یہاں بخارا میں میرے کچھ عزیز رھتے ہیں۔"
"اچھا" ٹیکس کلکٹر بولا۔ "تو تم اپنے عزیزوں سے ملنے آئے ھو۔ اس صورت میں تمھیں ملاقاتی کا محصول ادا کرنا ھوگا"۔
"لیکن میں ان سے ملاقات کرنے تھوڑی ھی آیا ھوں" خواجہ نصرالدین نے جلدی سے جواب دیا۔ " میں ضروری کام سے آیا ھوں۔"
"کام سے!" ٹیکس کلکٹر نے زور سے کہا اور اس کی آنکھیں جل اٹھیں۔ "تب تو تم ملاقات اور کام دونوں کے لئے آئے ھو۔ ملاقاتی کا ٹیکس ادا کرو، کام کا ٹیکس ادا کرو اور اس خدا کی راہ میں مسجدوں کی آرائش کے لئے عطیہ دو جس نے تم کو راستے میں رھزنوں سے محفوظ رکھا۔"
"اچھا تو یہ ھوتا کہ وہ اب مجھے محفوظ رکھتا کیونکہ رھزنوں سے بچنے کی تدبیر تو میں خود کرسکتا تھا" خواجہ نصرالدین نے سوچا لیکن اپنی زبان کو روکے رھے کیونکہ انھوں نے حساب لگایا کہ اس بات چیت کا ھر حرف ان کو دس تنگے سے زیادہ کا پڑ رھا ھے۔ انھوں نے اپنی پیٹی کھولی اور پہرے داروں کی گھورتی ھوئی حریصانہ آنکھوں کے سامنے شہر میں داخلے کا ٹیکس، مہمان ٹیکس، کاروباری ٹیکس اور مسجدوں کی آرائش کے لئے عطیہ کی رقم گنی۔ ٹیکس کلکٹر نے گھور کر پہرے داروں کو دیکھا جو ھٹ گئے۔ محرر اپنی ناک رجسٹر میں گھسیڑے کلک کے قلم سے لکھتا رھا۔
تمام محاصل ادا کرنے کے بعد خواجہ نصرالدین روانہ ھی ھونے والے تھے کہ ٹیکس کلکٹر نے دیکھا لیا کہ کچھ سکے ان کی پیٹی میں باقی رہ گئے ھیں۔
"ٹھہرو!" اس نے حکم دیا " اور تمھارے گدھے کا ٹیکس کون ادا کریگا؟ اگر تم اپنے عزیزوں سے ملنے جا رھے ھو تو اس کا یہ مطلب ھوا کہ گدھا بھی اپنے عزیزون سے ملنے جا رھا ھے۔"
"دانا افسر، آپ بجا فرماتے ھیں" خواجہ نصرالدین نے اپنی پیٹی پھر سے کھولتے ھوئے بڑی خاکساری سے کہا " واقعی، بخارا میں میرے گدھے کے عزیزوں کی بڑی اکثریت ھے ورنہ جیسا انتظام یہاں ھے اس سے تو آپ کے امیر کو کب کا تخت سے اتار دیا گیا ھوتا اور آپ، حضور، اپنے حرص کی وجہ سے بہت دن پہلے ھی چوبی ستون پر نظر آتے۔"
قبل اس کے کہ ٹیکس کلکٹر حواس مجتمع کرسکے خواجہ نصرالدین اچک کر اپنے گدھے پر آئے اور اس کو سرپٹ بھگاتے ھوئے قریب ترین گلی میں رفوچکر ھوگئے۔
"اور تیز، اور تیز" وہ برابر گدھے سے کہتے جارھے تھے "اور تیز، میرے وفادار گدھے، اور تیز ورنہ تیرے مالک کو ٹیکس میں اپنا سر دینا پڑجائے گا۔"
خواجہ نصرالدین کا گدھا بڑا سمجھدار تھا۔ وہ ھر بات سمجھتا تھا۔ اس کے لمبے کانوں نے شہر کے پھاٹک کا غل غپاڑہ اور پہرے داروں کی ھانک پکار سن لی تھی اس لئے وہ سڑک سے بےنیاز بھاگتا رھا اور اتنی تیز رفتاری سے کہ اس کا مالک کاٹھی سے چمٹا ھوا تھا، اس کے بازو گدھے کی گردن میں حمائل تھے اور اس کے پیر اوپر کھنچے ھوئے تھے۔ زور زور بھونکتے ھوئے کتے ان کے پیچھے دوڑتے، مرغیاں چاروں طرف بکھر جاتیں اور راھی دیواروں سے چپک کر کھڑے ھوجاتے، اپنا سرھلاتے اور ان کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے۔
اس دوران میں شہر کے پھاٹک پر پہرے داروں نے مجمع میں اس بے دھڑک آزاد خیال کی تلاش کررھے تے۔ سوداگر مسکرا رھے تھے اور ایک دوسرے سے چپکے چپکے کہہ رھے تھے:
" یہ جواب تو بس خواجہ نصرالدین ھی دے سکتے تھے۔"
دوپہر ھوتے ھوتے یہ قصہ سارے شہر میں پھیل گیا۔ بازار میں تاجر چپکے چپکے گاھکوں سے بیان کر نے لگے جو اس کو دوسروں تک پہنچاتے اور سب ھنستے اور ھمیشہ یہ کہتے:
"یہ الفاظ تو خواجہ نصرالدین ہی کو زیب دیتے ھیں۔"
کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ الفاظ خود خواجہ نصرالدین کے ھیں، کہ وھی مشہور و معروف لاثانی خواجہ نصرالدین اس وقت شہر میں بھوکا پیاسا، خالی جیب آوارہ گردی کر رھا ھے اور اپنے عزیزوں اور پرانے دوستوں کو تلاش کر رھا ھے جو اس کو کھلاتے پلاتے اور پناہ دیتے۔