سیدہ شگفتہ
لائبریرین
کوسنے اور گالیاں خواجہ نصرالدین کی زباں پر آ کر رُک گئیں۔ انھوں نے سوچا کہ ایسے آدمی کو جس کی دیکھنے والوں کی موجودگی میں ایسی مضحکہ انگیز اور بر گت بنی ھو اپنی حالت پر خود سب سے زور سے ھنسنا چاھئے۔ انھوں نے ان آدمیوں کی طرف جو بیٹھے تھے آنکھ ماری اور اپنی پوری سفید بتیسی نکال کر ھنس پڑے۔
”ارے“ انھوں نے زندہ دلی کے ساتھ زور سے کہا ”کتنی زور دار اُڑان رھی میری! اچھا بتاؤ کتنی قلابازیان میں نے کھائیں۔ مجھے تو ان کے شمار کرنے کا موقع نہیں ملا۔ بدمعاش کہیں کے!“ وہ خوش دلی کے ساتھ گدھے کو تھپ تھپانے لگے حالانکہ دل تو یہ چاھتا تھا کہ اس کو چار چوٹ کی مار دیں۔ ”یہ بڑا شریر ھے! بس ذرا نگاہ چُوکی اور یہ دکھا گیا اپنے ھتھکنڈے!“
خواجہ نصرالدین زندہ دلی کے ساتھ ھنسے لیکن ان کو یہ دیکھ کر حیرت ھوئی کہ کوئی اور ان کے ساتھ نہیں ھنسا۔ لوگ خاموش سر جھکائے اور اداس بیٹھے تھے اور عورتیں جن کی گود میں بچے تھے چُپکے چُپکے آنسو بہا رھی تھیں۔
” کچھ گڑبڑ ھے“ خواجہ نصرالدین نے سوچا۔
وہ ان آدمیوں کے پاس گئے اور ایک سفید ریش آدمی کو مخاطب کیا جس کا چہرہ مریل سا تھا ”معزز بزرگ ، مجھے بتائیے کیا بات ھے ؟ میں یہاں نہ تو مُسکراھٹ دیکھتا ھوں اور کوئی قہقہہ سنتا ھوں اور یہ عورتیں کیوں رو رھی ھیں؟ آپ لوگ سڑک کے کنارے اس گرد اور گرمی میں کیوں بیٹھے ھیں؟ کیا آپ لوگوں کو اپنے گھروں کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھنا نہیں سہاتا؟“
” گھروں میں ان لوگوں کے لئے بیٹھنا اچھا ھے جن کے گھر ھوتے ھیں“ بڈھے نے ملول ھو کر جواب دیا۔ ” ارے مسافر، ھمسے مت پوچھ۔ ھم پر بڑی بپتا ھے اور تُو کسی طرح بھی ھماری مدد نہیں کر سکتا ھے۔ جہاں تک میرا سوال ھے میں بُڑھا اور معزور ھوں اور خُدا سے دُعا کرتا ھوں کہ میرے لئے جلدی موت بھیج دے۔“
”ایسا کیوں کہتے ھیں آپ؟“ خواجہ نصرالدین نے ملامت کرتے ھوئے کہا ”انسان کو کبھی اس طرح نہیں سوچنا چاھئے ۔ مجھے اپنی مصیبت بتائیے اور میری بری حالت پر مت جائیے ۔ شاید میں آپ کی مدد کر سکوں۔“
” میری کہانی مختصر ھے ۔ صرف ایک گھنٹہ پہلے جعفر سود خور ھماری سڑک سے امیر کے دو پہرے داروں کے ساتھ گذرا۔ میں اس کا قرضدار ھوں اور کل اس کو ادا کرنا ھے۔ اس لئے انھوں نے مجھ کو اس گھر سے نکال دیا ھے جہاں میں نے اپنی پوری زندگی گذاری ھے۔ میرے نہ تو کوئی خاندان ھے اور نہ سر چھپانے کی کوئی جگہ۔۔۔ اور میری ساری پونجی۔۔۔میرا گھر ، باغ ، مویشی اور انگوروں کے چمن کل جعفر نیلام کر دے گا۔“
”ارے“ انھوں نے زندہ دلی کے ساتھ زور سے کہا ”کتنی زور دار اُڑان رھی میری! اچھا بتاؤ کتنی قلابازیان میں نے کھائیں۔ مجھے تو ان کے شمار کرنے کا موقع نہیں ملا۔ بدمعاش کہیں کے!“ وہ خوش دلی کے ساتھ گدھے کو تھپ تھپانے لگے حالانکہ دل تو یہ چاھتا تھا کہ اس کو چار چوٹ کی مار دیں۔ ”یہ بڑا شریر ھے! بس ذرا نگاہ چُوکی اور یہ دکھا گیا اپنے ھتھکنڈے!“
خواجہ نصرالدین زندہ دلی کے ساتھ ھنسے لیکن ان کو یہ دیکھ کر حیرت ھوئی کہ کوئی اور ان کے ساتھ نہیں ھنسا۔ لوگ خاموش سر جھکائے اور اداس بیٹھے تھے اور عورتیں جن کی گود میں بچے تھے چُپکے چُپکے آنسو بہا رھی تھیں۔
” کچھ گڑبڑ ھے“ خواجہ نصرالدین نے سوچا۔
وہ ان آدمیوں کے پاس گئے اور ایک سفید ریش آدمی کو مخاطب کیا جس کا چہرہ مریل سا تھا ”معزز بزرگ ، مجھے بتائیے کیا بات ھے ؟ میں یہاں نہ تو مُسکراھٹ دیکھتا ھوں اور کوئی قہقہہ سنتا ھوں اور یہ عورتیں کیوں رو رھی ھیں؟ آپ لوگ سڑک کے کنارے اس گرد اور گرمی میں کیوں بیٹھے ھیں؟ کیا آپ لوگوں کو اپنے گھروں کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھنا نہیں سہاتا؟“
” گھروں میں ان لوگوں کے لئے بیٹھنا اچھا ھے جن کے گھر ھوتے ھیں“ بڈھے نے ملول ھو کر جواب دیا۔ ” ارے مسافر، ھمسے مت پوچھ۔ ھم پر بڑی بپتا ھے اور تُو کسی طرح بھی ھماری مدد نہیں کر سکتا ھے۔ جہاں تک میرا سوال ھے میں بُڑھا اور معزور ھوں اور خُدا سے دُعا کرتا ھوں کہ میرے لئے جلدی موت بھیج دے۔“
”ایسا کیوں کہتے ھیں آپ؟“ خواجہ نصرالدین نے ملامت کرتے ھوئے کہا ”انسان کو کبھی اس طرح نہیں سوچنا چاھئے ۔ مجھے اپنی مصیبت بتائیے اور میری بری حالت پر مت جائیے ۔ شاید میں آپ کی مدد کر سکوں۔“
” میری کہانی مختصر ھے ۔ صرف ایک گھنٹہ پہلے جعفر سود خور ھماری سڑک سے امیر کے دو پہرے داروں کے ساتھ گذرا۔ میں اس کا قرضدار ھوں اور کل اس کو ادا کرنا ھے۔ اس لئے انھوں نے مجھ کو اس گھر سے نکال دیا ھے جہاں میں نے اپنی پوری زندگی گذاری ھے۔ میرے نہ تو کوئی خاندان ھے اور نہ سر چھپانے کی کوئی جگہ۔۔۔ اور میری ساری پونجی۔۔۔میرا گھر ، باغ ، مویشی اور انگوروں کے چمن کل جعفر نیلام کر دے گا۔“