داستان خواجہ بخارا کی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کوسنے اور گالیاں خواجہ نصرالدین کی زباں پر آ کر رُک گئیں۔ انھوں نے سوچا کہ ایسے آدمی کو جس کی دیکھنے والوں کی موجودگی میں ایسی مضحکہ انگیز اور بر گت بنی ھو اپنی حالت پر خود سب سے زور سے ھنسنا چاھئے۔ انھوں نے ان آدمیوں کی طرف جو بیٹھے تھے آنکھ ماری اور اپنی پوری سفید بتیسی نکال کر ھنس پڑے۔

”ارے“ انھوں نے زندہ دلی کے ساتھ زور سے کہا ”کتنی زور دار اُڑان رھی میری! اچھا بتاؤ کتنی قلابازیان میں نے کھائیں۔ مجھے تو ان کے شمار کرنے کا موقع نہیں ملا۔ بدمعاش کہیں کے!“ وہ خوش دلی کے ساتھ گدھے کو تھپ تھپانے لگے حالانکہ دل تو یہ چاھتا تھا کہ اس کو چار چوٹ کی مار دیں۔ ”یہ بڑا شریر ھے! بس ذرا نگاہ چُوکی اور یہ دکھا گیا اپنے ھتھکنڈے!“

خواجہ نصرالدین زندہ دلی کے ساتھ ھنسے لیکن ان کو یہ دیکھ کر حیرت ھوئی کہ کوئی اور ان کے ساتھ نہیں ھنسا۔ لوگ خاموش سر جھکائے اور اداس بیٹھے تھے اور عورتیں جن کی گود میں بچے تھے چُپکے چُپکے آنسو بہا رھی تھیں۔

” کچھ گڑبڑ ھے“ خواجہ نصرالدین نے سوچا۔

وہ ان آدمیوں کے پاس گئے اور ایک سفید ریش آدمی کو مخاطب کیا جس کا چہرہ مریل سا تھا ”معزز بزرگ ، مجھے بتائیے کیا بات ھے ؟ میں یہاں نہ تو مُسکراھٹ دیکھتا ھوں اور کوئی قہقہہ سنتا ھوں اور یہ عورتیں کیوں رو رھی ھیں؟ آپ لوگ سڑک کے کنارے اس گرد اور گرمی میں کیوں بیٹھے ھیں؟ کیا آپ لوگوں کو اپنے گھروں کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھنا نہیں سہاتا؟“

” گھروں میں ان لوگوں کے لئے بیٹھنا اچھا ھے جن کے گھر ھوتے ھیں“ بڈھے نے ملول ھو کر جواب دیا۔ ” ارے مسافر، ھمسے مت پوچھ۔ ھم پر بڑی بپتا ھے اور تُو کسی طرح بھی ھماری مدد نہیں کر سکتا ھے۔ جہاں تک میرا سوال ھے میں بُڑھا اور معزور ھوں اور خُدا سے دُعا کرتا ھوں کہ میرے لئے جلدی موت بھیج دے۔“

”ایسا کیوں کہتے ھیں آپ؟“ خواجہ نصرالدین نے ملامت کرتے ھوئے کہا ”انسان کو کبھی اس طرح نہیں سوچنا چاھئے ۔ مجھے اپنی مصیبت بتائیے اور میری بری حالت پر مت جائیے ۔ شاید میں آپ کی مدد کر سکوں۔“

” میری کہانی مختصر ھے ۔ صرف ایک گھنٹہ پہلے جعفر سود خور ھماری سڑک سے امیر کے دو پہرے داروں کے ساتھ گذرا۔ میں اس کا قرضدار ھوں اور کل اس کو ادا کرنا ھے۔ اس لئے انھوں نے مجھ کو اس گھر سے نکال دیا ھے جہاں میں نے اپنی پوری زندگی گذاری ھے۔ میرے نہ تو کوئی خاندان ھے اور نہ سر چھپانے کی کوئی جگہ۔۔۔ اور میری ساری پونجی۔۔۔میرا گھر ، باغ ، مویشی اور انگوروں کے چمن کل جعفر نیلام کر دے گا۔“
 

قیصرانی

لائبریرین
بڈھے کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس کی آواز کانپنے لگی۔

"اور کیا قرض بہت زیادہ ھے؟" خواجہ نصرالدین نے پوچھا۔

"بہت زیادہ! میں اس کا ڈھائی سو تانگوں کا قرضدار ھوں!"

"ڈھائی سو تانگے!" خواجہ نصرالدین نے حیرت سے کہا۔" اور ان کم بخت ڈھائی سو تانگوں کے لئے آدمی موت کی تمنا کرتا ھے۔ اچھا، اچھا، اب اپنے کو سنبھالو" انھوں نے گدھے کی طرف مڑ کر کہا اور خورجین کھولی "اچھا، میرے معزز دوست، یہ رھے ڈھائی سو تانگے، جاؤ، یہ سود خور کو دو اور لات مار کر اس کو اپنے گھر سے نکالدو، زندگی کے باقی دن امن چین اور ھنسی خوشی سے گذاردو۔"

چاندی کے سکوں کی جھنکار سن کر سارے گروہ میں جان پڑ گئی۔ بڈھے کی تو زبان ھی بند ھوگئی۔ اس نے آنسو بھری شکرگذار آنکھوں سے خواجہ کی طرف دیکھا۔

"دیکھو نا؟ اور تم اپنی مصیبت مجھے نہیں بتا رھے تھے" خواجہ نصرالدین نے آخری سکہ گنتے ھوئے کہا۔ ساتھ ھی وہ سوچ رھے تھے "کوئی بات نہیں، آٹھ کاریگروں کی بجائے میں صرف سات ھی نوکر رکھوں گا اور وہ بہت کافی ھی ھوں گے۔ "

اچانک ایک عورت جو بڈھے کے پاس ھی بیٹھی تھی خواجہ نصرالدین نے پیروں پر گرپڑی اور ڈاڑھیں مار کر روتے ھوئے اپنا لڑکا ان کی طرف بڑھا دیا: "دیکھئے" اس نے سسکیاں بھرتے ھوئے کہا "یہ بیمار ھے۔ اس کے ھونٹ خشک ھیں اور چہرہ جل رھا ھے۔ میرا بے کس ننھا سڑک پر مر جائے گا کیونکہ مجھے بھی گھر سے نکال دیا گیا ھے۔"

خواجہ نصرالدین نے لڑکے کا دبلا پتلا، زرد چہرہ دیکھا، پھر اس کے شفاف ھاتھ اور بیٹھے ھوئے لوگوں کے چہروں پر نظر ڈالی۔ اور ان کے جھریوں پڑے، مصیبتوں سے مرجھائے چہروں اور متواتر گریہ و زاری سے، دھندلی آنکھوں سے ان کو ایسا محسوس ھوا جیسے کوئی جلتی ھوئی چھری ان کے دل میں اتر گئی ھے۔ اچانک ان کا گلا رندہ گیا۔ غم و غصے سے خون کی گرم لہر ان کے چہرے پر دوڑ گئی۔ انھوں نے اپنا رخ موڑ لیا۔

"میں بیوہ ھوں" عورت نے اپنی داستان جاری رکھی "میرا شوھر چھ مہینے ھوئے مر گیا۔ وہ سود خور کا دوسو تانگوں کا قرضدار تھا۔ قانون کے مطابق میں اس قرض کی ذمےدار ھوں۔"

"واقعی لڑکا بیمار ھے" خواجہ نصرالدین نے کہا۔ "یہ رھے دو سو تانگے۔ جلدی سے گھر جاؤ اور اس کے سر پر ٹھنڈی پٹی رکھو اور یہ پچاس تانگے اور ھیں۔ جاؤ کسی حکیم کو بلاؤ اور دوا خریدو۔"

خود انھوں نے سوچا "میں چھ ھی کاریگروں سے کام چلاسکتا ھوں۔"

لیکن اسی لمحے ایک قد آور لمبی داڑھی والا پتھر کٹا ان کے قدموں پر گر پڑا۔ کل اس کا سارا خاندان جعفر کے چار سو تانگوں کے قرض کے لئے غلاموں کی طرح بکنے والا تھا۔

"پانچ کاریگر واقعی کم ھوئے" خواجہ نصرالدین نے ایک بار پھر اپنی خورجین کھولتے ھوئے سوچا۔ ابھی اس کو انھوں نے پھر باندھا ھی تھا کہ دو عورتیں ان کے پیروں پر تھیں۔ ان کی کہانیاں بھی ایسی دل دوز تھیں کہ خواجہ نصرالدین کا ھاتھ اتنی کافی رقم دینے سے نہ رکا جو سود خود کا قرض ادا کرنے کے لئے کافی تھی۔ پھر یہ دیکھ کر کہ باقی جو رقم رہ گئی ھے وہ تین کاریگر رکھنے کےک لئے مشکل سے کافی ھوگی، انھوں نے سوچا کہ اب دوکانوں کا خیال بےکار ھے اور انھوں نے فیاضی کے ساتھ جعفر سود خور کے دوسرے قرض داروں میں رقم بانٹ دی۔

اب خورجین میں پانچ سو سے زیادہ تانگے نہ رہ گئے ھوں گے۔ اس وقت خواجہ نصرالدین نے ایک طرف ایک ایسا آدمی بیٹھا دیکھا جس نے مدد کی التجا نہیں کی تھی اور وہ دیکھنے سے ھی مصیبت زدہ معلوم ھوتا تھا۔

"ارے تم، سننا تو!" خواجہ نصرالدین نے پکار کر کہا۔ "اگر تمھارے اوپر مہاجن کا قرض نہیں ھے تو تم یہاں کیوں بیٹھے ھو؟"

"میں اس کا قرض دار ھوں" آدمی نے بھاری آواز میں کہا "کل میں پابہ زنجیر غلاموں کے بازار تک جاؤنگا۔"

"تم خاموش کیوں رھے؟"

"اے فیاض اور مہربان مسافر! میں نہیں جانتا کہ آپ کون ھیں۔ ممکن ھے کہ آپ مقدس بزرگ بہاؤالدین ھوں جو غریبوں کی مدد کرنے کے لئے اپنے مزار سے اٹھ کر آئے ھیں یا خود ھارون رشید۔ میں نے آپ کی مدد نہیں مانگی کیوں کہ آپ ابھی تک کافی خرچ کرچکے ھیں اور میرا قرض سب سے زیادہ ھے یعنی پانچ سو تانگے۔ میں ڈر رھا تھا کہ اگر آپ نے مجھ کو یہ رقم دے دی تو بڈھوں اور عورتوں کے لئے کافی نہ بچے گا۔"

"تم حق پرست، شریف اور ایماندار انسان ھو" خواجہ نصرالدین نے بہت متائثر ھو کر کہا "لیکن میں بھی حق پرست، شریف اور ایماندار ھوں اور میں قسم کھا کر کہتا ھوں کہ کل تم پابہ زنجیر غلاموں کے بازار نہیں جاؤ گے۔ اپنا دامن بڑھاؤ۔"

انھوں نے اپنی خورجین کا آخری سکہ تک دے دیا۔ یہ آدمی اپنی قبا کا دامن بائیں ہاتھ سے سنبھال کر خواجہ نصرالدین سے دائیں ھاتھ سے لپٹ گیا اور اپنا آنسوؤں سے تر چہرہ ان کے سینے میں دبادیا۔

"واقعی تم نے اپنے گدھے پر سے مزے میں قلابازی کھائی تھی" اچانک قدآور لمبی داڑھی والے پتھر کٹے نے زور کا ٹھٹھا مار کر کہا۔ اس پر اور دوسرے لوگ بھی قہقہے لگانے لگے۔ مرد موٹھی بھاری آوازوں سے اور عورتیں اپنی باریک آواز، بچے مسکراکر خواجہ نصرالدین کی طرف ھاتھ پھیلانے لگے جو سب سے زور سے ھنس رھے تھے۔

"ھاھاھا!" خواجہ ھنس رھے تھے اور خوشی سے دھرے ھوئے جا رھے تھے۔ "تم نہیں جانتے کہ یہ کس قسم کا گدھا ھے! بڑا کمبخت ھے یہ گدھا!"

"نہیں، نہیں" بیمار بچے والی عورت نے کہا "اپنے گدھے کو ایسا نہ کہو۔ وہ سب سے زیادہ ھوشیار، انتہائی شریف اور دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی گدھا ھے۔ اس کا جیسا گدھا نہ کبھی ھوا ھے اور نہ ھوگا۔ میں تو اپنی ساری زندگی اس کی دیکھ بھال کرناپسند کروں گی، اس کو بہترین اناج کھانے کودوں گی، اس پر کام کا بوجھ کبھی نہ ڈالوں گی، اس کو کھرارے سے صاف کرونگی اور دم میں کنگھا کروں گی۔ کیونکہ اگر یہ لاجواب گدھا، جو گلاب کی سی خوبیاں رکھتا ھے، خندق کے اوپر سے جست نہ لگاتا اور تم کو کاٹھی سے نہ اتار پھینکتا تو اے مسافر، تم جو ھمارے لئے تاریکی میں سورج بن گئے ھو، ھم کو دیکھے بغیر یہاں سے گزر جاتے اور ھم تم کو روکنے کی جرآت بھی نہ کرسکتے۔"

"ٹھیک ھی کہتی ھے" بڈھے نے بڑی سنجیدگی سے کہا "ھم اپنی نجات کے لئے اس گدھے کے بہت کچھ احسان مند ھیں۔ سچ مچ یہ دنیا کے لئے باعث ناز ھے اور گدھوں کے درمیان ھیرے کی طرح درخشاں۔"

پھر سب نے گدھے کی خوب خوب تعریفیں شروع کردیں اور اس کے نان، جوار کے لائے، سوکھی خوبانیاں اور شفتالو کھلانے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ گدھا اپنے دم کی مورچھل سے پریشان کرنے والی مکھیوں کو اڑاتا جاتا اور سنجیدگی سے ان لوگوں کے ھدیے قبول کرتا رھا لیکن وہ گھبرا گھبرا کر اس چابک کو بھی دیکھتا جاتا تھا جو خواجہ نصرالدین چپکے چپکے اسے دکھا رھے تھے۔

دن ڈھل چلا تھا، سائے لمبے ھوتے جارھے تھے۔ لال ٹانگوں والی سارسیں غل مچاتی اور پر پھڑپھڑاتی اپنے گھونسلوں کو لوٹ رھی تھیں جہاں ان کے بچے اپنی حریص، کھلی ھوئی چونچیں ان کی طرف بڑھا دیتے تھے۔

خواجہ نصرالدین ان لوگوں سے رخصت ھوئے، سب نے جھک کر ان کا شکریہ ادا کیا۔

"ھم آپ کے شکرگذار ھیں، آپ نے ھمارے دکھ درد کو سمجھا۔"

"کیسے نہ سمجھتا؟" خواجہ نے جواب دیا "آج ھی چار دوکانیں اور آٹھ کاریگر جو میرے لئے کام کر رھے تھے، ایک مکان جس کے باغ میں فوارے اچھلتے تھے اور گانے والی چڑیاں سونے کے پنجروں میں درختوں سے لٹکی تھیں میرے ھاتھ سے جاتے رھے۔ میں تم لوگوں کی بات کیسے نہ سمجھتا!"

بڈھے نے اپنے پوپلے منہ سے کہا "مسافر، میرےپ اس تمھارا شکریہ ادا کرنے کے لئے کچھ نہیں ھے۔ صرف ایک چیز ھے جو میں نے گھر چھوڑتے وقت ساتھ لے لی تھی۔ یہ ھے قرآن پاک۔ لو اسے لے لو، یہ دنیا میں تمھارے لئے مشعل ھدایت بنے گا۔"

خواجہ نصرالدین کو مقدس کتابوں سے کوئی سرکار نہیں تھا۔ پھر بھی انھوں نے اس خیال سے قرآن لے لیا کہ بڈھے کے جذبات کو ٹھیس نہ لگے، اس کو اپنی خورجین میں رکھا اور اچک کر کاٹھی پر پہنچ گئے۔

"آپ کا نام؟ آپ کا نام؟" سب ایک ساتھ چلائے۔ "اپنا نام تو بتاتے جائیے تاکہ ھم آپ کے لئے دعا کرسکیں۔:

تم لوگوں کو میرا نام جاننے کی کیا ضرورت ھے؟ حقیقی نیکی کے لئے شہرت نہ چاھئے۔ جہاں تک دعا کا تعلق ھے تو اللہ کے پاس اچھے کاموں کی خبر پہنچانے کے لئے مقدس فرشتوں کی کثیر تعداد ھے۔ اگر یہ فرشتے سست اور لاپرواہ ھیں اور زمین پر نیک و بد اعمال کے شمار کی بجائے نرم بادلوں پر سوتے رھتے ھیں تو آپ کی دعائیں بھی بیکار ھوں گی کیونکہ اللہ معتبر اشخاص کی تصدیق کے بغیر ان کو نہیں سنے گا۔"

جب خواجہ بول رھے تھے تو ایک عورت نے گھٹی ھوئی آہ سی بھری۔ یہی دوسری عورت نے بھی کیا۔ پھر بڈھا چونکا اور خواجہ نصرالدین کو گھورنے لگا۔ لیکن خواجہ کو جلدی تھی اور انھوں نے کوئی توجہ نہ کی۔

"خدا حافظ! تم امن چین سے رھو اور خوشحال ھو۔"

لوگوں کی دعا کے ساتھ وہ سڑک کے موڑ پر غائب ھوگئے۔

باقی لوگ خاموش کھڑے تھے۔ صرف ایک خیال ان کی آنکھوں میں چمک رھا تھا۔ اس خاموشی کو بڈھے نے توڑا۔ اس نے بڑی سنجیدگی سے متائثر کن لہجے میں کہا:

"دنیا میں صرف ایک ھی آدمی یہ کام کر سکتا تھا۔ ھاں، اور دنیا میں صرف ایک آدمی ایسی باتیں کہہ سکتا تھا اور دنیا میں صرف ایک آدمی کی روح ایسی ھے جس کی روشنی اور گرمی غریبوں اور مظلوموں کے دلوں کو منور کرتی ھے اور گرمی بخشتی ھے اور یہ آدمی ھیں ھمارے۔۔۔"


"زبان بند رکھو!" ایک آدمی نے جلدی سے لقمہ دیا "کیا تم بھول گئے کہ دیواروں کی آنکھیں ھوتی ھیں اور پتھروں کے کان، ابھی ھزاروں کتے ان کے پیچھے پڑ جائیں گے۔"

"تم ٹھیک کہتے ھو" تیسرے آدمی نے کہا "ھمیں اپنی زبانیں بند رکھنی چاھیئں کیونکہ اس وقت ان کی حالت ایسی ھے کہ وہ ایک تنے ھوئے رسے پر چل رھے ھیں۔ ذرا سا دھکا بھی ان کی تباھی کا باعث ھو سکتا ھے۔"

"چاھے وہ میری زبان کھینچ لیں میں ان کا نام نہیں بتاؤنگی!" بیمار بچے والی عورت نے کہا۔

"میں بھی خاموش رھوں گی" دوسری عورت نے کہا "مجھے موت آجائے جو میں بھولے سے بھی ان کو رسے تک پہنچاؤں۔"

غرض سب نے اس طرح کی باتیں کہیں سوائے قد آور لمبی داڑھی والے پتھر کٹے کے جو ذرا ذود فہم نہ تھا۔ جو کچھ اس نے سنا تھا اس سے نہ کچھ سمجھ سکا کہ آخر اس مسافر کے پیچھے کتے کیوں پڑجائیں گے۔ وہ نہ تو کوئی قصاب ھے اور نہ قورم بیچنے والا۔ پھر اگر مسافر تنے ھوئے رسے پر چلنے والا ھے تو اس کا نام زور سے کیوں نہ لینا چاھئے۔ اور وہ عورت اپنے محسن کو رسے تک پہنچانے پر مرنے کو کیوں ترجیح دیتی ھے جو ان کے پیشے کے لئے ضروری ھے؟ اب پتھر کٹا بالکل حیران ھوچکا تھا۔ وہ زور سے کھنکھارا، ایک گہرہ سانس لیکر فیصلہ کیا کہ اس کے بارے میں بالکل نہ سوچے ورنہ وہ پاگل ھو جائے گا۔

اس دوران خواجہ نصرالدین کافی فاصلہ طے کرچکے تھے لیکن اب بھی ان کی آنکھوں کے سامنے ان غریبوں کے سوکھے ھوئے چہرے پھر رھے تھے۔ ان کو بیمار بچہ برابر یاد آرھا تھا، اس کے بخار سے تپتے ھوئے رخسار اور خشک ھونٹ۔ انھوں نے اس سفید ریش بڈھے کے بارے میں سوچا جس کو گھر سے نکال دیا گیا تھا اور ان کے دل کی گہرائیوں سے شدید غصے کا سیلاب امنڈ پڑا۔

"ذرا ٹھہر تو سہی، سود خور، ذرا ٹھہر!" وہ بڑبڑائے اور ان کی کالی آنکھوں میں ایک خطرناک شعلہ لپکا۔ "میں تھماری حالت بری بنادوں گا۔ اور امیر جہاں تک تیرا تعلق ھے" وہ بڑبڑاتے گئے" کانپ کر زرد پڑجا کیونکہ میں، خواجہ نصرالدین بخارا آگیا ھوں! میرے بدحال لوگوں کا خون چوسنے والی بدذات اور ھولناک جونکو! او خونخوار حریص بھیڑیو! اے گندے گیدڑو! تم ھمیشہ تو پروان نہیں چڑھوگے اور نہ لوگ ھی ھمیشہ پریشان حالی میں مبتلا رھیں گے! اور جہاں تک جعفر سود خور تیرا تعلق ھے، میرا نام ھمیشہ ھمیشہ کے لئے شرمسار رھے گا اگر میں ان تمام مصیبتوں کا عوض تجھ سے نہ چکا لوں جو تو غریبوں پر توڑتا ھے۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
(7)​

خواجہ نصرالدین نے جو دنیا کے بہت سے نرم گرم برداشت کرچکے تھے، اپنے وطن میں پہلا دن بہت بےچینی اور سانحوں سے بھرا ھوا گذارا۔ وہ تھک گئے تھے اور چاھتے تھے کہ کوئی ایسی الگ تھلگ جگہ مل جائے جہاں آرام کرسکیں۔

"نہیں" انھوں نے ایک تالاب کے گرد جمع لوگوں کا مجمع دیکھ کر ایک آہ بھری۔ "ایسا معلوم ھوتا ھے جیسے آج میری قسمت میں آرام نہیں ھے! یہاں کچھ ھوگیا ھے۔"

تالاب سڑک سے تھوڑے فاصلے پرتھا اور خواجہ نصرالدین آسانی سے اس کو چھوڑ کر آگے جاسکتے تھے لیکن وہ ایسے آدمی نہیں تھے کہ کسی لڑائی جھگڑے اور ھنگامے کے موقع کو ھاتھ سے جانے دیں۔

گدھا بھی جو ان کے ساتھ مدتوں رھتے رھتے اپنے مالک کے طور طریقوں سے خوب آشنا ھوچکا تھا خود ھی تالاب کی طرف مڑ گیا۔

"کیا معاملہ ھے؟" گدھے کو مجمع میں گھسیڑتے ھوئے خواجہ نے چلا کر پوچھا "کیا کسی کا قتل ھو گیا ھے؟ کیا کوئی لٹ گیا؟ راستہ دو، راستہ!"

وہ بھیڑ کو چیرتے ھوئے تالاب کے کنارے تک پہنچ گئے جو سبز کائی سے ڈھکا ھوا تھا۔ وھاں انھوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ کنارے سے چند قدم کے فاصلے پرایک آدمی ڈوب رھا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ پانی کے اوپر آتا اور پھر اندر چلا جاتا اور پانی سے بڑے بلبلے نکلنے لگتے۔

"ارے احمقو!" خواجہ نصرالدین نے کہا "یقینا تم اس کی قیمتی قبا اور ریشمی عمامے سے دیکھ سکتے ھو کہ یہ آدمی یا تو کوئی ملا ھے یا امیر عہدے دار؟ اور کیا تم کو ملاؤں اور عمائدین کے طریقے نہیں معلوم ھیں کہ ان کو پانی سے کس طرح گھسیٹا جائے؟"

"تم خود گھسیٹ لو نا اور اگر طریقہ جانتے ھو تو بچالو" مجمع میں شور ھوا "جاؤ، بچاؤ! وہ پھر اوپر آگیا ھے!"

"ٹھہرو" خواجہ نصرالدین نے کہا "میں نے ابھی اپنی تقریر ختم نہیں کی ھے۔ میں یہ پوچھتا ھوں کہ تم نے کبھی کسی ملا یا امیر عہدے دار کو کسی کو کچھ دیتے دیکھا ھے؟ تو اے جاھلو وہ صرف لیتے ھیں۔ اس لئے ان کو ذرا ترکیب سے بچانا چاھئے، یعنی ان کی مزاجی خصوصیات کے لحاظ سے۔ اب ذرا دیکھنا مجھے۔"

"لیکن اب بہت دیر ھوچکی ھے!" مجمع سے آوازیں آئیں "اب وہ اوپر نہیں آئے گا۔"

"کیا تمھارے خیال میں پانی کی دیویاں کسی ملا یابڑے افسر کو اتنی آسانی سے قبول کر لیں گی؟ نہیں تم غلطی پر ھو۔ پانی کی دیویاں اس سے نجات پانے کی پوری کوشش کرینگی۔"

خواجہ نصرالدین زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے اور اطمینان سے انتظار کرنے لگے۔ وہ تہہ سے بلبلوں کو اوپر آتے اور کنارے تک تیرتے دیکھ رھے تھے جن کو ھلکی ھوا اس طرف ڈھکیل رھی تھی۔

آخر کار وہ سیاہ شکل آھستہ آھستہ گہرائیوں سے ابھری۔ ڈوبتاآدمی سطح پر دکھائی دیا۔ اگر خواجہ نصرالدین نہ ھوتے تو وہ آخری بار اوپر آیا ھوتا۔

"ارے، یہ لو!" خواجہ نصرالدین ھاتھ بڑھا کر چلائے "یہ لو!"

ڈوبتے ھوئے آدمی نے انتہائی بدحواسی میں ھاتھ کو مضبوط پکڑ لیا۔ خواجہ نصرالدین کا اس کی مضبوط گرفت کیوجہ سے منہ بگڑ گیا۔

بچائے ھوئے آدمی نےانگلیاں چھڑانے میں کایف وقت لگ گیا۔

تھوڑی دیر تک وہ بے حس و حرکت پڑا رھا۔ وہ سیوار اور بدبودار کائی سے ڈھکا ھوا تھا جس سے اس کا چہرہ چھپ گیا تھا۔ پھر اس کے منہ، ناک اور کانوں سے پانی نکلنے لگا۔

"میرا بٹوہ!۔ میرا بٹوہ کہاں ھے؟" وہ کراہ رھا تھا اور اس وقت تک اسے چین نہ آیا جب تک بٹوہ اس کے پاس نہ پہنچ گیا۔ پھر آھستہ آھستہ اس نے گھاس پھونس جھاڑی اور اپنی قبا کے دامن سے چہرہ صاف کیا۔ خواجہ نصرالدین پیچھے ھٹ گئے۔ چپٹی ٹوٹی ناک، چوڑے چوڑے نتھنوں اور پھلی آنکھ نے اس کا چہرہ خوفناک بنا دیا تھا۔ آدمی کبڑا بھی تھا۔

"یہ رھے!" مجمع نے غل مچایا اور خواجہ نصرالدین کو آگے بڑھا دیا۔

"ادھر آؤ، میں تم کو انعام دینا چاھتا ھوں" آدمی نے اپنے پانی سے بھرے ھوئے بٹوے میں ھاتھ ڈالا اور مٹھی بھر چاندی کے سکے نکالے "حالانکہ یہ کوئی بہت ھی لاجواب یا غیر معمولی بات نہیں ھے کہ تم نے مجھ کو نکال لیا۔ میں خود ھی نکل آتا" اس نے ناشکرے پن سے اضافہ کیا۔

جب وہ بات کر رھا تھا تو معلوم نہیں کمزوری یا کسی دوسرے سبب سے اس کی مٹھی آھستہ سے کھلی اور سکے اس کی انگلیوں سے پھسل کر ھلکی جھن جھناھٹ کے ساتھ بٹوے میں پھر جا رھے۔ صرف ایک سکہ اس کے ھاتھ میں بچ رھا، نصف تانگے کا۔ا یک آہ سرد بھرتے ھوئے اس نے یہ سکہ خواجہ نصرالدین کی طرف بڑھایا۔

"یہ لو اور بازار جا کر اپنے لئے ایک قاب پلاؤ خرید لینا۔"

"یہ تو ایک قاب پلاؤ خریدنے کے لئے کافی نہیں ھے" خواجہ نصرالدین نے کہا۔

"اچھا، کوئی بات نہیں، بلا گوشت کے سادے چاول ھی سہی۔"

"دیکھتے ھو نا" خواجہ نصرالدین نے پاس کھڑے لوگوں کو مخاطب کیا " میں نے تو اس کی فطرت کے مطابق ترکیب سے اس کی جان بچائی۔"

پھر وہ اپنے گدھے کے پاس چلے گئے۔

راستے میں ان کو ایک لمبے، چھریرے اور مضبوط بازوؤں والے آدمی نے روکا، اس کا چہرہ روکھا تھا۔ اس کے بازو کالک اور کوئلے سے سیاہ ھورھے تھے اور اس کے پٹکے میں لوھار کی سنسی لگی ھوئی تھی۔

"کیا ھے، بھئی لوھار؟" خواجہ نصرالدین نے پوچھا۔

"دیکھو" لوھار نے ان کو ناراضگی کے ساتھ اوپر سے نیچے تک دیکھتے ھوئے کہا "تمھیں معلوم ھے کہ تم نے کسی کو بچایا ھے؟ اور وہ بھی آخری وقت، جب اس کو کوئی نہیں بچاسکتا تھا؟ تمھیں معلوم ھے کہ تمھارے اس فعل کیوجہ سے کتنے آنسو بہیں گے؟ پتہ ھے کہ کتنے آدمی اپنے گھر بار، کھیتوں اور انگور کے بغیچوں سے محروم ھو جائیں گے یا غلاموں کے بازار میں پہنچ جائیں گے اور وھاں سے پابہ زنجیر خیوا کی شاھراہ پر نظر آئیں گے!"

خواجہ نصرالدین حیرت سے اس کا منہ تک رھے تھے۔ انھوں نے کہا "بھائی لوھار! تمھاری بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ کیا کوئی انسان کہلانے کا مستحق اور مسلمان ڈوبتے ھوئے آدمی کے پاس سے گذر جائے گا اور اس کی مدد کے لئے ھاتھ نہ بڑھائے گا؟"

"تو تمھارا خیال ھے کہ آدمی کو تمام زھریلے سانپ بچھوؤں اور بھیڑیوں کو بچانا چاھئے؟" لوھار نے زور سے کہا۔ پھر اس کو کچھ خیال آیا اور اس نے کہا "کیا تم یہیں کے رھنے والے ھو؟"

"نہیں، میں دور دراز سے آیا ھوں۔"

"تو پھر تم نہیں جانتے کہ جس آدمی کی جان تم نے بچائی ھے وہ بہت بدذات اور خون چوسنے والا ھے اور بخارا کا ھر تیسرا آدمی اس کی وجہ سے نالاں اور گریاں ھے!"

خواجہ نصرالدین کے دماغ میں ایک ھولناک خیال چمک اتھا۔

"لوھار!" وہ یہ ڈرتے ھوئے رک گئے کہ کہیں ان کا خیال صحیح نہ ثابت ھو "اس آدمی کا نام مجھے بتا دو۔"

"تم نے جعفر سود خور کو بچایا ھے، خدا اس کی زندگی اور عاقبت دونوں خراب کرے! خدا کرے کہ اس کی چودہ نسلوں تک کے سڑے زخم ھوں!" لوھار نے جواب میں کہا۔

" کیا کہا؟" خواجہ نصرالدین چلائے "تم کیا کہہ رھے ھو؟ ھائے افسوس، افسوس! کیسی شرمناک بات میں نے کی! کیا میرے ھاتھوں نے اس سانپ کو پانی سے نکالا؟ سچ مچ اس گناہ کا کوئی ازالہ نہیں ھوسکتا! افسوس، شرف کی بات ھے!"

اس کی ندامت سے لوھار متائثر ھو کر ذرا نرم پڑا۔

"مسافر، چپ کرو، اب کیا ھو سکتا ھے۔ تم اس وقت تالاب تک کیوں پہنچے۔ تمھارا گدھا سڑک پر ھی اڑ کر کیوں نہیں رک گیا؟ سود خور کو ڈوبنے کا موقع مل جاتا۔"

"یہ گدھا!" خواجہ نصرالدین نے کہا "اگر یہ سڑک پر رکتا ھے تو صرف میری خورجینیں پیسے سے خالی کرانے کے لئے کیونکہ اگر وہ بھری ھوں تو اس کے لئے بھاری ھو جاتی ھیں۔ لیکن جب میری بدنامی کا سوال ھوتا ھے، سود خور کو بچانے کا، تو یقین کرو کہ یہ گدھا ضرور مجھے وقت پر وھاں پہنچائے گا!"

"ھاں" لوھار نے اتفاق کیا "لیکن جو کچھ ھوا وہ واپس نہیں لیا جاسکتا۔ سود خور کو اب تالاب میں واپس نہیں ڈھکیلا جاسکتا۔"

خواجہ نصرالدین چونک پڑے۔

"مجھ سے ایک برا کام ھوگیا لیکن میں اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرونگا! سنو! بھائی لوھار، میں قسم کھاتا ھوں کہ جعفر سودخور کو میں ڈبوؤں گا۔ میں اپنے والد کی ریش مبارک کی قسم کھا کر کہتا ھوں۔ ھاں، میں اس کو اسی تالاب میں ڈبوؤنگا! لوھار! میری قسم یاد رکھنا۔ کیونکہ میں فضول بات نہیں کرتا۔ سود خور ڈوبیگا! اور جب تم اس کے بارے میں بازار میں سننا تو یہ سمجھ لینا کہ میں نے بخارا شریف کے شہریوں کے سامنے اپنے جرم کا خمیازہ پورا کردیا ھے!"
 

قیصرانی

لائبریرین
(۸)

جب خواجہ نصرالدین بازار پہنچے تو شفق کی روشنی ٹھنڈے اور خوشبودار دھند کی طرح شہر پر چھاتی جا رھی تھی۔

چائے خانوں میں خوشگوار الاؤ جلنے لگے تھے اور جلد ھی پورے بازار کو روشنیوں نے اپنے آغوش میں لے لیا۔ کل ایک بڑا بازار ھونے والا تھا۔ اونٹوں کے کارواں جوق در جوق چلے آرھے تھے۔ جب کوئی کارواں اندھیرے میں غائب ھوجاتا تو اس کی سریلی، صاف اور اداس گھنٹیوں کی آواز بڑی دیر تک ھوا میں گونجتی رھتی اور جب دور یہ آواز غائب ھو جاتی تو دوسرا کارواں چوراھے پر آجاتا اور اس کی گھنٹیاں بجنے لگتیں اور اداس گیت سنانے لگتیں۔ یہ اس طرح جاری تھا جیسے رات خود دنیا کے کونے کونے سے لائی ھوئی آوازوں سے بھر گئی ھو اور آھستہ آھستہ گنگناتی، تھرتھراتی اور کراہتی ھو۔ ھندوستان، ایران، عرب، افغانستان اور مصر کی ان دیکھی گھنٹیاں گونج رھی تھیں۔ خواجہ نصرالدین ان کے نغمے سن رھے تھے اور یہ محسوس کر رھے تھے کہ وہ ان کو تاابد سن سکتے ھیں۔ قریب ایک چائے خانے میں طنبورہ بج رھا تھا اور اس کا ساتھ دوتارے کے تار دے رھے تھے۔ کسی ان دیکھے گائک نے اپنی صاف آواز ستاروں تک پہنچادی تھی۔ وہ اپنی محبوبہ کے بارے میں گاکر اس کا شکوہ کر رھا تھا۔

اس پرنغمہ فضا میں خواجہ نصرالدین رات بھر ٹھہرنے کی جگہ تلاش کر رھے تھے۔

"میرے پاس اپنے اور گدھے کے لئے آدھا تانگا ھے" انھوں نے ایک چائے خانے کے مالک سے کہا۔

"آدھے تنگے میں تم رات تو یہاں گذار سکتے ھو" مالک نے کہا "لیکن کمبل نہیں ملے گا۔"

"اور میں اپنا گدھا کہاں باندھوں؟"

"مجھے گدھے سے کیا مطلب؟"

چائے خانے کے قریب کوئی باندھنے کی جگہ نہ تھی۔ خواجہ نصرالدین نے دیھکا کہ برساتی کے نیچے ایک آنکڑہ نکلا ھوا ھے اور یہ بغیر دیکھے کہ آنکڑہ کس چیز میں لگا ھے انھوں نے اپنا گدھا اس میں باندھ دیا۔ چائے خانے کے اندر پہنچتے ھی وہ دراز ھوگئے کیونکہ وہ تھک کر چور ھو چکے تھے۔

وہ ابھی اونگھ ھی رھے تے کہ ان کو اپنا نام سنائی دیا اور انھوں نے آنکھیں کھول دیں۔

قریب ھی کچھ آدمی جو بازار آئے تھے ایک چھوٹے سے حلقے میں بیٹھے چا پی رھے تھے۔ ان میں ایک ساربان تھا، ایک گلہ باد اور دو کاریگر۔ ان میں ایک مدھم آواز میں کہہ رھا تھا:

"خواجہ نصرالدین سے یہ بھی موسوم ھے۔ ایک دن وہ بغداد میں بازار سے گذر رھے تھے کہ انھوں نے ایک باورچی خانے میں غل غپاڑہ سنا۔ جانتے ھی ھو کہ ھمارے خواجہ نصرالدین کتنے کھوجی آدمی ھیں وہ اندر پہنچ گئے۔ وھاں انھوں نے دیکھا کہ موٹا، لال چہرے والا باورچی خانے کا مالک ایک فقیر کی گدی میں ھاتھ دیکر اسے ھلا رھا تھا۔ وہ فقیر سے پیسے طلب کر رھا تھا لیکن فقیر کچھ دینے سے انکار کر رھا تھا۔

"یہ ھنگامہ کیوں ھے؟" ھمارے خواجہ نصرالدین نے پوچھا " تم دونوں کیوں جھگڑ رھے ھو؟"

یہ ہنگامہ کیوں ھے؟ ھمارے خواجہ نصرالدین نے پوچھا۔ "تم کیوںجھگڑ رھے ھو؟"
"یہ بدمعاش، کمینہ، چور، اس کی آنتیں سڑیں، مالک نے چیخ کر کہا "میرے باورچی خانے میںآیا، اپنی بغل سے نان کا ایک ٹکڑا نکالا اور بڑی دیر تک اس کو انگیٹھی کے اوپر سینکتا رھا یہاں تک کہ نان میں بوٹی کے کبابوں کی خوشبو آگئی اور وہ زیادہ نرم اور مزے دار ھوگئی۔ پھر یہ روٹی چٹ کرگیا۔ اور اب، اس کے دانت گریں، کھال پھٹ جائے، پیسے نہیں دیتا ھے!"
"یہ سچ ھے؟" خواجہ نصرالدین نے درشتی سے پوچھا۔ فقیر اتنا ڈرا ھوا تھا کہ اس کے منہ سے کوئ بات ھی نہ نکلی اور اس نے صرف سر ھلا دیا۔ "جانتے ھو، یہ غلط بات ھے" خواجہ نصرالدین نے کہا"یہ غلط بات ھے کہ کسی کی ملکیت کا مفت استعمال کیا جائے"۔
"سن رھا ھے نا، یہ معزز اور لائق صاحب کیا کہہ رھے ھیں؟" باورچی خانے کے مالک نے خوش ھو کر کہا۔
"تمھارے پاس پیسے ھیں؟" خواجہ نصرالدین نے فقیر سے پوچھا۔ فقیر نے اپنا ایک ایک پیسہ نکال کر خواجہ نصرالدین کے حوالے کر دیا۔ باورچی خانے کے مالک نے اپنا چکٹا ھاتھ پیسے لینے کے لئے بڑھایا۔
"حضت، ذرا رکئے" خواجہ نصڑالدین نے کہا۔ "پہلے اپنا ذرا اپنا کان ادھر لائیے۔"
"اور کافی دیر وہ سکوں کو مٹھی میںلئے مالک کے کان میں بجاتے رھے۔ پھر انھوں نے فقیر کو پیسے واپس دیتے ھوئے کہا "اطمینان سے جاؤ، سائیں جی!"
"کیا!" باورچی خانے کا مالک چلایا " "لیکن مجھے تو پیسے ملے ھی نہیں۔"
"اس نے تم کو پورے دام دئے ھیں" خواجہ نصرالدین نے کہا "اب تم دونوںبرابر ھو۔ اس نے تمھارے بوٹی کے کباب سونگھے اور تم نے اس کے سکوں کی جھنکار سنی"
سب سننے والے زور سے ٹھٹھا مار کر ھنسے۔ ان میں سے ایک آدمی نے جلدی سے سب کو روک کر کہا "اتنے زور سے نہیں ورنہ وہ سمجھ جائیں گے کہ ھم خواجہ نصرالدین کے بارے میں باتیں کر رھے ھیں۔"
"ان کو کیسے پتہ ھے؟" خواجہ نصرالدین نے مسکراتے ھوئے سوچا "دراصل یہ بغداد کا نہیں بلکہ استنبول کا واقعہ ھے۔ پھر ان کو کیسے معلوم ھوا؟"
پھر دوسرے آدمی نے، جو گلہ بان کے لباس میں تھا اور رنگین پگڑی باندھے ھوئے تھا جس سے معلوم ھوتا تھا کہ وہ بدخشاں کا رھنے والا ھے اپنا قصہ مدھم آواز میں شروع کیا:
"کہا جاتا ھے کہ ایک دن خواجہ نصرالدین ایک ملا کی باڑی کے پاس سے گذر رھے تھے۔ ملا کچھ کدو ایک بورے میں بھر رھا تھا۔ لالچ میں آکر اس نے بورے میں اتنے کدو بھر لئے تھے کہ بورے کو لے جانا تو الگ رھا اس کو اٹھانا تک ممکن نہ تھا۔ وہ ادھر ادھر تک رھا تھا کہ بورا گھر کیسے پہنچے۔ اس نے ایک راہ گیر کو دیکھا اور بہت خوش ھوا۔
"سنو بیٹے، کیا تم یہ بورا میرے گھر تک پہنچا دوگے؟"
اس وقت خواجہ نصرالدین کے پاس پیسے نہیں تھے۔ انھوں نے ملا سے پوچھا "تم مجھے کیا دو گے؟"
"بیٹا، پیسے کیوں مانگتے ھو؟ بورا لے جاتے وقت راستے میں تم کو میں تین انتہائی حکیمانہ قول بتاؤں گا جن سے تمھیں زندگی میںمسرت نصیب ھوگی۔"
"میں یہ قول ضرور سنوں گا" خواجہ نصرالدین نے سوچا۔ ان کو بڑا اشتیاق پیدا ھو گیا تھا۔ وہ بورے کو کاندھے پر لاد کر چل پڑے۔ راستہ پہاڑی پر تھا اور ڈھلوان کے پاس۔ خواجہ نصرالدین دم لینے کے لئے رکے۔ ملا نے بہت سنجیدہ اور پراسرار انداز میں کہا: "اچھا، پہلا قول سنو کیونکہ آدم کے زمانے سے لے کر اب تک اس سے بڑا حکیمانہ قول ساری دنیا میں نہیں پیدا ھوا ھے۔ اگر تم اس کے معنوں تک پہنچ گئے تو سمجھو کہ گویا الف لم کے رمز سے واقف آگاہ ھوگئے جس سے ھمارے پیغمبر اور ھادی حضرت محمد نے قرآن شریف کے دوسرے سورے کی ابتدا کی ھے۔ غور سے سنو! اگر تم سے کوئی یہ کہے کہ سواری پر چلنے سے پیدل چلنا بہتر ھے تو اس کی بات مت مانو۔ بیٹے میرے الفاظ نہ بھولنا اور برابر دن رات ان پر غور کرنا اور تب تم اس کی دانش مندی کی گہرائیوں تک پہنچ سکو گے۔ لیکن یہ قول تو دوسرے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیںھے جو مین تمھیں اس درخت کے قریب بتاؤں گا۔ دیکھو، وہ رھا آگے۔"
"ذرا ٹھہرو تو، ملا صاحب"خواجہ نصرالدین نے سوچا اور پسینے سے شرابور وہ بورے کو درخت تک لے گئے۔
ملا نے ایک انگلی اٹھا کر کہا: "دوسرا قول سنو کیونکہ اس کا انحصار پورے قرآن، نصف شریعت اور ایک چوتھائی طریقت پر ھے۔ جو آدمی اس کو سمجھ لیگا وہ نیکی اور سچائی کے راستے سے کبھی نہیں ھٹے گا۔ اس لئے بیٹے، اس قول کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنی خوش قسمتی پر نازاں ھو کہ یہ تمھیں مفت حاصل ھو رھا ھے۔ دوسرا قول یہ ھے کہ اگر کوئی تم سے یہ کہے کہ غریب کی زندگی امیر سے آسان ھے تو مت یقین کرو۔ لیکن یہ دوسرا قول تو تیسرے کے پاسنگ نہیں، تیسرا قول ایسا منور ھے کہ اس کا مقابلہ بس سورج کی چکا چوند کردینے والی روشنی اور بحر ذخار کی گہرائی سے کیا جاتا ھے۔ میں یہ قول تم کو اپنے گھر کے پھاٹک پر بتاؤنگا۔ آؤ جلدی کریں، کیونکہ اب میں دم لے چکا ھوں۔"
"مولانا ذرا ٹھہرئے!" خواجہ نصرالدین نے کہا۔ " میں آپ کا تیسرا قول بوجھ گیا۔ آپ اپنے گھر کے پھاٹک پر مجھے سے یہ کہیں گے کہ ھوشیار آدمی ھمیشہ بیوقوف آدمی سے اپنے کدو بھرے بورے مفت ڈھلوا لیتا ھے۔"
"ملا حیرت سے پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔ خواجہ نصرالدین نے ٹھیک کہا تھا۔
"اب ملا صاحب میرا واحد قول سنئے جو آپ کے تمام قولوں کے برابر ھے" خواجہ نصرالدین نے اپنی بات جاری رکھی " اور قسم ھے پیغمبر صاحب کی کہ میرا قول ایسا چکاچوند کرنے والا اور گہرا ھے کہ اس کا انحصار سارے اسلام، قرآن، شریعت اور طریقت اور بہت سی کتابوں پر ھے، بودھ، عیسائی اور یہودی مذاھب کی کتابوں پر بھی۔ ملا صاحب، سچے مذھب کی مجھے تعلیم اور ھدایت دینے والے بزرگ، اب میں آپ کے سامنے ایسے ناقابل تردید دانش مندانہ قول کا انکشاف کرونگا جس سے بہتر نہ تو پہلے کبھی تھا اور نہ آئندہ ھوگا۔ لیکن ذرا اس کے لئے پہلے سے تیاری کرلیجئے تاکہ آپ بےقابو نہ ھو جائیں کیونکہ اس سے آدمی آسانی سے پاگل بن سکتا ھے۔ یہ قول ایسا ھی متحیرکن، عجیب اور اتھاہ ھے۔ ملا صاحب، اپنے دماغ کو فولاد بنا کر اس کو سنئے۔ اگر کوئی آپ سے کہے کہ یہ کدو ٹوٹے نہیں ھیں تو اس کے منہ پر تھوک دیجئے، اس کو جھوٹا کہہ کر اپنے گھر سے نکال دیجئے!"
یہ کہہ کر خواجہ نصرالدین نے بورا اٹھایا اور اس کو ڈھلوان سے نیچے چھوڑ دیا۔ کدو بورے سے لنڈھک کر باھر آگئے اور پتھروں سے ٹکراتے، اچکتے اور کھڑکھڑاتے نیچے چلے گئے۔
"ارے ھائے، ھائے" ملا فریاد کرنے لگا "کیسا نقصان ھوا، تباہ ھوگیا!" پاگلوں کی طرح وہ چیخنے، گریہ و زاری کرنے اور اپنا چہرہ نوچنے لگا۔
"دیکھئے نا"خواجہ نصرالدین نے کہا "میں نے پہلے ھی کہہ دیا تھا کہ میرا قول ممکن ھے آپ کو پاگل بنا دے!"۔
سننے والوں میں پھر قہقہہ گونجا۔
کونے میں گرد آلود، جوئیں بھری چٹائی پر لیٹے لیٹے خواجہ نصرالدین نے سوچا:
"اچھا تو انھوں نے یہ بھی سن رکھا ھے! لیکن کیسے؟ راستے پر تو بس ھم دونوں تھے۔ ملا اور میں اور میں نے کسی سے بھی نہیں کہا۔ شاید جب ملا کو یہ پتہ چلا ھوگا کہ کون اس کے کدو لے جا رھا تھا تو اس نے لوگوں سے کہا ھوگا۔"
اب تیسرے نے اپنا قصہ شروع کردیا:
"ایک دن خواجہ نصرالدین شہر سے اس ترکی کے گاؤں لوٹ رھے تھے جہاں وہ رھنے لگے تھے۔ وہ تھک کر ایک چشمے کے کنارے لیٹ گئے اور پانی کی قلقل کی آواز اور بہار کی مہک دار ھوا میں بلاارادہ سوگئے۔ انھوں نے خواب میں یہ دیکھا کہ وہ مر گئے ھیں۔ "اگر میں مر گیا ھوں" انھوں نے فیصلہ کیا " تو تو مجھےحرکت کرنی چاھئے اور نہ آنکھیں کھولنی چاھئیں۔" اس لیے وہ بالکل ساکت نرم گھاس پر پڑے رھے اور انہیں یہ محسوس ھوا کہ مردہ ھونا کوئ یبری بات نہیں ھے کیونکہ اس طرح فانی دنیا کے وجود کی تمام فکروں اور جھگڑوں سے جو متواتر پریشان کرتی رھتی ھیں آزاد ھو کر اطمینان سے لیٹا جاسکتا ھے۔
"کچھ مسافروں نے جو ادھر سے گذر رھے تھے، خواجہ نصرالدین سے کو دیکھا۔
"دیکھو!" ایک نے کہا "مسلمان ھے۔"
"مر گیا ھے" دوسرا بولا۔
"ھمیں اسے قریب ترین گاؤں لے چلنا چاھئے" تیسرے نے کہا۔
یہ وھی گاؤں تھا جہاں خواجہ نصرالدین جا رھے تھے۔
آدمیوں نے کئی شاخیں کاٹ کر ایک اسٹریچر سا بنا لیا اور اس پرخواجہ نصرالدین کو لٹا دیا۔ وہ ان کو لے کر بہت دیر تک چلتے رئے اور خواجہ صاحب آنکھیں بند کئے ایسے مردے کی طرحپڑے رھے جس کی روح جنت کے دروازے تک پہنچ چکی ھو۔
اچانک اسٹریچر رک گیا۔ راھی ایک دریا پار کرنے کے بارے میں بحث کرنے لگے۔ ایک نے تجویز پیش کی کہ دائیں طرف جانا چاھئے، دوسرے نے کہا بائیں اور تیسرے نے کہا سیدھے دریا کے پار۔ خواجہ نصرالدین نے ذرا سی آنکھ کھول کر دیکھا کہ یہ لوگ دریا کے سب سے گہرے، انتہائی تیز باؤ والے اور بہت ھی خطرناک حصے کے پاس کھڑے ھیں جہاںبہت سے لاپروا لوگ ڈوب چکے تھے۔
"مجھے اپنی پروا نہیں"خواجہ نصرالدین نے سوچا "کیونکہ میں تو مر چکا ھوں اور اب میں چاھےقبر میںلیٹوں یا دریا کی تہہ میں، کوئی بات نہیں ھے۔ لیکن ان مسافروں کو ضرور آگاہ کردینا چاھئے کیونکہ وہ میرے اوپر مہربان ھونے کی وجہ سے اپنی جان گنوا سکتے ھیں۔ ان کو آگاہ نہ کرنا میرے لئے بڑی ناشکری کی بات ھوگی۔"
وہ اسٹریچر پر ذرا سا ابھرے اور ندی کی طرف اشارہ کرکے دھیمی آواز میںبولے "مسافرو، جب میںزندہ تھا تو میں دریا کو حور کے ان درختوں کے پاس پار کیا کرتا تھا۔" یہ کہہ کر انھوں نے اپنی آنکھیں پھر بندکرلیں۔ مسافروں نے خواجہ نصرالدین کا شکریہ ادا کیا اور بخشائش کی دعائیں کرتے ان کے اسٹریچر کو لیکر پھر آگے بڑھ گئے۔"
جب سننے والے اور کہانی کہنے والا دونوں ھنس رھے تھے اور ایک دوسرے کو کہنیاں مار رھے تھے، خواجہ نصرالدین ناراضھوکر بڑبڑا رھے تھے:
"ان لوگوں نے سب گڈ مڈ کردیا ھے۔ اول تو میں نے یہ خواب کبھی نہیںدیکھا کہ میں مر گیا ھوں۔ میں اتنا احمق نہیںھوںکہ میں یہ نہ سمجھ سکوں کہ مردہ ھوں یا زندہ۔ ارے، مجھے یہ تک یاد ھے کہ ایک پسو مجھے کاٹ رھا تھا اور میرا دل چاھتا تھا کہ کاش میں کھجلا سکتا۔ یقینا یہ اس بات کا صاف ثبوت ھے کہ میں زندہ تھا۔ اگر ایسا نہ ھوتا تو مجھے پسو کے کاٹنے کا احساس نہ ھوتا۔ بات صرف یہ تھی کہ میں بہت تھک گیا تھا اور چلنا نہیں چاھتا تھا۔ مسافر مضبوط تھے اور ان کے لئے یہ کوئی بات نہ تھی کہ وہ ذرا اپنے راستے سے ھٹ کر مجھے گاؤں پہنچا دیں۔ لیکن جب انھوںنے دریا کو ایسی جگہ سے پار کرنا چاھا جہاں تین آدمیوںکے ڈباؤ بھر پانی تھا تو میں نے ان کو روک دیا۔ مجھے تو ان کے خاندانوں کا خیال تھا اپنے خاندان کا نہیں کیونکہ میرا خاندان تو ھے ھی نہیں۔ اور مجھے فوراً اپنی ناشکری کا تلخ پھل چکھنا پڑا کیونکہ میرے بروقت انتباہ پر شکرگذار ھونے کی بجائے مجھے مسافروں نے اسٹریچر سے نکال پھینکا اور مکوں سے میری خاطرکی۔ وہ میری خوب مرمت کرتے اگر میرے تیزرفتار پیروں نے میری مدد نہ کی ھوتی۔واقعی، عجیب بات ھے، لوگ سچ کو کیسا توڑ موڑلیتے ھیں!"
اس دوران میں چوتھے آدمی نے اپنا قصہ چھیڑ دیا:
"خواجہ کے بارے میںیہ بھی کہا جاتا ھے۔ ایک بار وہ تقریباً چھ مہینے تک ایک گاؤں میں رھے جہاں وہ اپنی ذھانت اور حاضر جوابی کیوجہ سے کافی مشہور ھوگئے تھے۔۔۔"
خواجہ نصرالدین کے کان کھڑے ھوگئے۔ انھوں نے یہ آواز کہاں سنی تھی۔ بہت بلند نہیں لیکن صاف اور ذرا بھاری اور حال ھی میں۔۔۔ شاید آج ھی۔۔۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن یاد نہ آیا۔
آدمی نے اپنی داستان جاری رکھی:
"ایک دن صوبے کے گورنر نے اس گاؤں کو اپنا ھاتھی بھیجدیا جہاں خواجہ نصرالدین رھتے تھے۔ گاؤں والوں کو ھاتھی کی خوراک مہیا کرنی اور اس کی دیکھ بھال کرنی تھی۔ ھاتھی بڑا کھاؤ تھا۔ چوبیس گھنٹے میں اس نے پچاس دھرے جو، پچاس دھرے باجرہ، پچاس دھرے مکئی اور ایک سو گٹھے گھاس ھڑپ کر لی۔ دو ھفتے میںگاؤں والوں کا سارا ذخیرہ ھاتھی کی نذر ھوگیا۔ وہ بالکل تباہ اور سخت پریشان ھوگئے۔ آخر کار انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خواجہ نصرالدیین کو گورنر کے پاس یہ التجا لیکر بھیجیں گے کہ اپنا ھاتھی واپس بلالے۔
اب انھوں نے خواجہ نصرالدین سے درخواست کی اور وہ اس پر تیار ھوگئے۔ انھوں نے اپنے گدھے پر کاٹھی کسی، جس کے بارے میں سبھی جانتے ھیں کہ ضدی، بدمزاج اور کاھل ھونے میں وہ گیدڑ، مکڑی، سانپ اور مینڈک کا مجموعہ ھے۔ کاٹھی کس کر خواجہ نصرالدین گورنر سے ملنے چل دئے لیکن جانے سے پہلے وہ گاؤں والوں سے یہ طے کرنا نہیں بھولے کہ ان کی خدمات کا معاوضہ کیا ھوگا۔ دراصل انھوں نے اتنی بڑی رقم لی کہ بہتوںکو اپنا گھربار بیچنا پڑا اور خواجہ نصرالدین کیوجہ سے وہ محتاج ھوگئے۔"
"ھونہہ" اس کونے سے آواز آئی جہاں خواجہ نصرالدین نمدے پر پڑے اپنے غصے کو ضبط کرنے کے لئے کروٹیں بدل رھے تھے۔
آدمی نے داستان جاری رکھی:
"تو خواجہ نصرالدین محل پہنچے۔ وہ بڑی دیر تک خدمتگاروں اور ملازموں کے جمگھٹے میںکھڑے رھے جو اس بات کا انتظار کر رھے تھے کہ حضور گورنر صاحب ان پر بھی وہ نظر ڈالیں جو کسی کے لئے مسرتیں اور کسی کے لئے تباھی لاتی تھی۔ اور جب گورنر نے خواجہ نصرالدین کی طرف رخ کرنے کی عنایت فرمائی تو خواجہ نصرالدین ان کی شان وشوکت دیکھ کر ایسا ڈرے اور بدحواس ھوئے کہ ان کے پیر گیدڑ کی دم کی طرح کانپنے لگے اور ان کی رگوں میں خون جم سا گیا۔ وہ پسینے میں بالکل شرابور ھوگئے اور رنگ سفید پڑ گیا۔"
"ھونہہ" پھر کونے سے آواز آئی لیکن داستان گو نے اس کی پروا کئے بغیر بات جاری رکھی:
"تم کیا چاھتے ھو؟" گورنر نے اپنی بلند اور گونجدار آواز میں جس میں شیر کی گرج تھی، پوچھا۔ ڈر کی وجہ سے خواجہ نصرالدین کی زبان بند ھوگئی۔ لکربگھے جیسی گھگھیائی ھوئی آواز سے انھوں نے کہا "حضور عالی، ھمارے صوبے کو منور کرنے والے سورج اور چاند، ھمارے صوبے کے تمام باشندوں کو خوشیاں اور مسرتیں بخشنے والے، اپنے اس ادنی خادم کی، جو آپ کے محل کی چوکھٹ پر اپنی داڑھی سے جھاڑو دینے کے قابل بھی نہیںھے، ایک بات سنئے۔ اے آفتاب تاباں! ھمیں آپ نے یہ عزت بخشی ھے کہ اپنا ایک ھاتھی ھمارے گاؤں کو کھلانے پلانے اور دیکھ بھال کے لئے بھیج دیا ھے۔ اس لئے ھم لوگ ذرا پریشان ھیں۔۔۔"
گورنر نے غصے سے ناک بھوں چڑھائی۔ خواجہ نصرالدین اس کے سامنے اس طرح جھک گئے جیسے آندھی سے سرکنڈا جھک جاتا ھے۔
"تمجھے کیا پریشانی ھے؟" گورنر نے پوچھا۔ "بول، یا تیرے گندے اور ذلیل تالو میں زبان چپک گئی ھے؟"
"آ، آ، آپ۔۔۔ آپ" ڈرپوک خواجہ نصرالدین ھکلا رھے تھے "ھم لوگ پریشان ھیں، اے آفتاب تاباں، کہ ھاتھی تنہائی محسوس کر رھا ھے۔ بےچارہ بہت رنجیدہ ھے اور سارا گاؤں اس کو غمگین دیکھ کر ملول ھوگیا ھے۔ اے اشرف الاشرافین، زینت ارض اسی لئے میںحاضر ھوا ھوں کہ آپ ھمارے اوپر مزید عنایات کریں اور ایک ھتھنی بھیج بھی بھیج دیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
"گورنر اس درخواست سے بہت خوش ھوا اور فورا اس کی تکمیل کا حکم دیا۔ اپنی مسرت کا اظہار کرنے کے لئے اس نے خواجہ نصرالدین کو اپنے جوتے کا بوسہ لینے کی اجازت دی جس کو خواجہ نصرالدین نے اتنے جوش و خروش سے کیا کہ گورنر کے جوتے کی پالش اڑ گئی اور خواجہ نصرالدین کے ھونٹ کالے ھوگئے۔۔۔"

یہاں داستان گو کو خود خواجہ نصرالدین کی گرجتی ھوئی آواز نے روک دیا۔

"جھوٹا کہیں کا!" خواجہ نصرالدین چلائے۔ "گندے، خارشئےکتے، تیرے ھونٹ، تیری زبان اور اندر سے سارا بدن برسر اقتدارد لوگوں کے جوتے چاٹتے چاٹتے سیاہ ھو گئے ھیں۔ خواجہ نصرالدین نے کبھی اور کسی جگہ حاکموں کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ تو خواجہ نصرالدین کو بدنام کرتا ھے۔ مسلمانو، اس کی بات مت سنو! اس کو نکال دو!"
وہ اس افترا پرداز سے نبٹنے کے لئے لپکے لیکن چپٹے، چیچک بھرے چہرے اور زرد تھرکنے والی آنکھوں کو پہچان کر اچانک رک گئے۔ یہت و وھی نوکر تھا جس نے گلی میں ان سے جنت کے پل پر کٹہروں کی لمبائی کے بارے میں تکرار کی تھی۔
"اھا!" خواجہ نصرالدین نے زور سے کہا۔ "پہچان گیا تجھ کو اپنے مالک کے زر خرید اور خیرخواہ خادم! اور اب یہ بھی جان گیا تیرے ایک اور مالک بھی ھے جس کا نام تو نے چھپا رکھا ھے٬ بتا خواجہ نصرالدین کو چائے خانے میں برا بھلا کہنے کے لئے تجھ کو امیر سے کتے پیسے ملتے ھیں۔ کتنے پیسے خبر رسانی کے لئے ملتے ھیں اور ھر آدمی کے لئے جس کے ساتھ تو غداری کرتا ھے تجھ کو کیا ملتاھے؟ ھر سزا پانے والے اور جیل کی کال کوٹھری میں ڈالے جانے والے اور پابہ زنجیر کئے جانے والے اور غلام بنائے جانے والے کے لئے تجھے کیا دیا جاتا ھے؟ اے امیر کے جاسوس اور خبررساں میں تجھے پہچان گیا!"
جاسوس نے جو ابھی تک ڈر کے مارے بے حس اور خاموش تھا اچانک تالی بجائی اور زور سے کہا:
"پہرے دارو، ادھر آؤ!"
خواجہ نصرالدین نے اندھیرے میں پہرے داروں کے دوڑنے، نیزوں کی کھڑکھڑاھٹ اور ڈھالوں کی جھنکار سنی۔ ایک لمحہ ضایع کئے بغیر وہ کود کر ایک طرف ھو گئے، انھوں نے چیچک رو جاسوس کو جو ان کا راستہ روکے کھڑا تھا زمین پر گرا دیا تھا۔
لیکن اب انھوں نے چوک کے دوسری طرف سے پہرے داروں کے قدموں کی آواز سنی۔ جس سمت بھی وہ بھاگتے ان کا سامنا پہرے داروں سے ھوتا۔ ایک لمحے کے لئے انھوں نے سوچا کہ اب بچ کر نکلنا ممکن نہیں ھے۔
"مصیبت آگئی، پھنس گیا میں٬" وہ زور سے چلائے "الوداع میرے وفادار گدھے!"
لیکن اسی وقت ایک ایسا غیر متوقع واقعہ ھوا جو بخارا میں ھمیشہ یاد رکھا جائے گا اور کبھی فراموش نہ کیا جائے گا کیونکہ بڑا زبردست ھنگامہ ھوا اور تباھی آئی۔
اپنے مالک کی غم انگیز چیخیں سنکر گدھا ان کی طرف دوڑا لیکن اس کے پیچھے ایک بڑا پیپا بھی صحن میں اچھلتا کودتا چلا۔ خواجہ نصرالدین نے لاعلمی میں اپنے گدھے کو اس پیپے کے آنکڑے سے باندھ دیا تھا جو چا خانے کا مالک بڑے تہواروں پر گاھک بلانے کے لئے پیٹا کرتا تھا۔ پیپا ایک پتھر سے ٹکرایا اور بھڑبھڑایا اور گدھے نے پیچھے مڑ کر دیکھا، پیپا پھر بھڑبھڑایا۔ گدھے نے سوچا کہ بھوت پریت اس کے مالک کا خاتمہ کرکے اب اس کی بھوری کھال کے پیچھے پڑے ھیں۔ وہ دھشت سے رینکا اور اپنی دم اٹھا کر بےتحاشا چوک کے پار بھاگا۔
اسی وقت ایک کارواں کے آخری پچاس اونٹ جن پر چینی کے برتن اور تابنے کی چادریں لدی تھیں چوک میں داخل ھورھے تھے۔ رینکنے کی دھشتناک آؤاز اور ایک جانور کی اچھل کود سے جو اندھیرے مٰں سیدھا ان سے ٹکرا گیا خوفزدہ اونٹ ادھر ادھر بھاگے۔ چینی کے برتن اور جھن جھناتی ھوئی تانبے کی چادریں نیچے آرھیں۔
ایک لمحے میں پورے بازار میں اور ساتھ کی سڑکوں پر ایسا زبردست ھنگامہ اور گڑبڑ ھوا جس کی مثال نہیں ملتی۔ گرجنے، بجنے، ٹکرانے، چیخنے، بھونکنے، غرانے اور ٹوٹنے پھوٹنے کی آوازیں سب مل کر ایک ھنگامہ بن گئیں۔ ھر ایک بدحواس ھوگیا۔ سیکڑوں اونٹ، گھوڑے اور گدھے اپنے کھونٹوں سے تڑآ کر اندھیرے میں تانبے کی چادروں کے درمیان شور کرتے بھاگ رھے تھے اور ساربان و سائیس مشعلیں لئے شور و غل کرتے ادھر ادھر دوڑ رھے تھے۔
لوگ اس ھنگامے سے جاگ پڑے اور نیم عریاں ادھر ادھر دوڑنے لگے۔ وہ ایک دوسرے سے ٹکرا رھے تھے۔ ان کی رنج و غم اور مایوسی سے بھری ھوئی آوازیں اندھیرے میں گونج رھی تھیں کیونکہ وہ سوچ رھے تھے کہ قیامت آگئی ھے۔

مرغ بانگ دے رھے تھے اور اپنے پر پھڑپھڑا رھے تھے۔ ھنگامہ اتنا بڑھا کہ سارے شہر اور اس کے مضافات تک پھیل گیا۔ آخر کار شہر کی فصیل پر توپیں گرجنے لگیں کیونکہ شہر کے پہرےداروں نے سمجھا کہ دشمن نے بخارا پر حملہ کر دیا ھے اور محل کی توپیں بھی چھوٹنے لگیں کیونکہ محل کے پہرے داروں نے خیال کیا کہ بغاوت ھوگئی ھے۔ بےشمار میناروں سے مؤذنوں کی غم انگیز پریشان کن اذان گونجی۔ اندھیرے میں قطعی ھنگامہ برپا تھا، کسی کو پتہ نہ تھا کہ کدھر جائے۔

اور اس تاریکی اور ھنگامے کےقلب میں خواجہ نصرالدین بھاگ رھے تھے۔ وہ بڑی صفائی سے بھڑکے ھوئے گھوڑوں اور اونٹوں سے بچتے، پیپے کی آواز کے ذریعہ اپنے گدھے کا پیچھا کر رھے تھے۔ وہ گدھے کو اس وقت تک نہ پکڑ سکے جب تک کہ رسی ٹوٹ نہ گئی اور پیپا اونٹوں کے پیروں سے لگ کر کسی طرف لنڈھک نہ گیا۔ پیپے سے بچنے کے لئے جو اونٹ بدحواس ھوکر بھاگ رھے تھے انھوں نے شامیانے، چائے خانے اور چھوٹی چھوٹی دوکانیں گرا دیں۔

خواجہ نصرالدین کو گدھے کی تلاش میں بڑی دیر لگتی لیکن اتفاق سے ایک دوسرے سے سامنا ھوگیا۔ گدھا پسینے سے شرابور سر سے پیر تک کانپ رھا تھا۔

"چل، جلدی چل، یہاں بڑا غل غپاڑہ ھو رھا ھے" خواجہ نصرالدین نے گدھے کو کھینچتے ھوئے کہا "یہ دیکھ کر حیرت ھوتی ھے کہ اگر کسی چھوٹے گدھے سے کوئی پیپا باندھ دیا جائے تو بڑے شہر میں کتنا بڑا ھنگامہ کھڑا ھوسکتا ھے۔ دیکھ، تو نے کیا کیا ھے! یہ سچ ھے کہ تو نے مجھے پہرےداروں سے بچالیا، لیکن مجھے بخارا کے شہریوں پر افسوس آتا ھے۔ یہ سب گڑ بڑ ٹھیک کرنے میں ان کو صبح ھو جائے گی۔ ھمیں کہاں کوئی خاموش اور پرامن جگہ مل سکتی ھے؟"

خواجہ نصرالدین نے رات ایک قبرستان میں گذارنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی یہ دلیل بجا تھی کہ چاھے جتنا ھنگامہ کیوں نہ ھو، مردے نہ تو بھاگیں گے اور نہ چیخیں چلائیں گے یا مشعلیں لیکر دوڑیں گے۔

ھنگامہ پرور اور عوام کو اکسانے والے خواجہ نصرالدین نے اپنے شہر میں واپسی کا پہلا دن اسی طرح گذارا جو ان کے خطاب کے لئے سزاوار تھا۔ انھوں نے اپنے گدھے کو ایک قبر کے پتھر سے باندھ دیا اور خود ایک قبر پر دراز ھوگئے اور جلدی سوگئے۔ اس دوران میں شہر میں ھنگامہ، غل شور، گھڑگھڑاھٹ اور توپوں کی گرج کافی دیر تک جاری تھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
(۹)​

صبح سویرے جب ستارے دھندلے پڑنے لگے اور اندھیرے سے ھلکے ھلکے خط و خال ابھرنے لگے تو سیکڑوں جاروب کش، بڑھئی اور تھوئی بازار کے چوک میں جمع ھوگئے اور خوب زوروں سے کام شروع کردیا۔ انھوں نے گرے ھوئے شامیانے کھڑے کیے، پلوں کی مرمت کی، باڑوں میں ٹوٹی پھوٹی جگہیں ٹھیک کیں، تمام لکڑی کے ٹکڑے اور ٹوٹے برتن اس طرح صاف کجئے کہ سورج کی پہلی کرنوں کو بخارا میں اتنے بڑے ھنگامے کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔

بازار کھل گیا۔

قبرستان میں رات بھر اچھی طرح آرام کرنے کے بعد خواجہ نصرالدین اپنے گدھے پر سوار چوک آئے۔ وھاں خوب زوروں کی چہل پہل تھی اور بازار بہت سی زبانوں اور قوموں والے رنگین مجمع سے بھرا ھوا تھا۔ "ھٹو بچو، ھٹو بچو!" خواجہ نصرالدین کو اپنی آواز سوداگروں، ساربانوں، بہشتیوں، حجاموں، آوارہ درویشوں، فقیروں، بازار میں دانت اکھاڑنے والوں (جو اپنے پیشے کے زنگ آلود اور دھشتناک آلات لئے ھلا رھے تھے) کی آوازوں میں گم ھوگئی۔ رنگا رنگ قبائیں، عمامے، گھوڑے کی جھولیں اور قالین، چینی، عربی، ھندستانی، منگولیائی اور بہت سی دوسری زبانیں اس بھیڑ بھکڑ اور غل غپاڑے میں گڈ مڈ ھو رھی تھیں۔ ایسی گرد اڑ رھی تھی کہ آسمان چھپ گیا تھا۔ چوک میں لوگوں کا تانتا بندھا تھا جو اپنا سامان بازار میں لگا رھے تھے اور ان کی ھانکیں عام ھنگامے میں اضافہ کر رھی تھیں۔ کمھار چھوٹی چھوٹی چھڑیوں سے اپنے برتن بجا بجا کر اور راہ گیروں کا دامن تھا کر التجا کر رھے تھے کہ وہ ان برتنوں کی صاف کھنک سنیں۔ اس طرح وہ انھیں خریدنے کی ترغیب دے رھے تھے۔ ٹھٹھیروں کی قطار میں تانبے کی چمک چکاچوند کررھی تھی اور ان چھینیوں اور ھتھوڑیوں کی آواز فضا میں گونج رھی تھی جن سے وہ کشتیوں اور صراحیوں پر نقش و نگار بنا رھے تھے، ساتھ ھی وہ اپنی دستکاری کی تعریف بھی کرتے جاتے تھے اور پڑوسیوں کے کام کی برائی۔ سونار چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں چاندی پگھلا رھے تھے، سونے کے تار کھینچ رھے تھے اور چمڑے کے گولوں کے ذریعہ قیمتی ھندوستانی جواھرات کو جلا دے رھے تھے۔ کبھی کبھی ھوا کا ھلکا سا جھونکا آتا اور عطر سازوں کی طرف سے خوشبو کی زوردار لپٹ آتی جہاں گلاب کا عطر، عنبر اور مشک اور مختلف قسم کے مسالے فروخت ھوتے تھے۔ ایک طرف رنگا رنگ، پھول پتیاں اور شبیہیں بنے ھوئے ایران، دمشق اور کاشغر کے قالین، گھوڑے کی رنگین جھولیں، سستی اور بیش قیمت دونوں کی طرح کی یعنی معمولی اور بہترین گھوڑوں کےلئے لامحدود قطاروں میں چلی گئی تھیں۔

خواجہ نصرالدین ریشم والوں، ساز بنانے والوں، اسلحہ بیچنے والوں اور رنگ ریزوں کی لائنوں، غلاموں کے بازار اور اون تیار کرنے والوں کی طرف سے گذرے۔ اور یہ سب صرف بازار کی شروعات تھی کیونکہ سیکڑوں اور قطاریں آگے تھیں۔خواجہ نصرالدین اپنے گدھے پر مجمع میں جتنا ھی گھستے گئے اتنی غل غپاڑہ، طول تکرار، چیخ پکار اور طے توڑ کی آوازیں اور زیادہ کان پھاڑنے لگیں۔ ھاں یہ وھی بازار تھا۔ بخارا کا مشہور اور لاجواب بازار جس کی مثال نہ تو دمشق میں تھی اور نہ خود بغداد میں۔

آخر کار وہ ان قطاروں کے جھمیلے سے باھر نکلے اور امیر کا محل دیکھا جو ایک روزن دار فصیل سے گھرا ھوا تھا۔ چاروں کونوں کے کناروں پر عرب اور ایرانی کاریگروں نے بڑی مہارت سے برسوں میں رنگا رنگ پچی کاری کی تھی۔

محل کے پھاٹک کے باھر رنگ برنگی خیمے پھیلے ھوئے تھے۔ پھٹے پرانے شامیانوں کے نیچے لوگ گرمی سے تھک کر چٹائیوں پر لیٹے یا بیٹھے تھے۔ کچھ اکیلے ھی تھے اور کچھ اپنے خاندان کے ساتھ۔ عورتیں بچوں کو کھلا رھی تھیں، کھانا پکا رھی تھیں، پھٹی ھوئی قباؤں اور گدوں کی مرمت کر رھی تھیں۔ نیم عریاں بچے ادھر ادھر دوڑ رھے تھے، غل مچا رھے تھے۔ وہ آپس میں جھگڑتے اور ٹھوکر کھا کر گرتے تھے اور گستاخی سے اپنے بدن کا وہ حصہ محل کی طرف کیے ھوئے تھے جس کو چھپانا چاھئے۔ مرد سو رھے تھے یا کوئی گھریلو کام کر رھے تھے یا پھر چائے دانیوں کے گرد بیٹھ کر گپ لڑا رھے تھے۔ "ارے، یہ لوگ تو شاید یہاں کئی دن سے ھیں!"خواجہ نصرالدین نے سوچا۔

ان کی توجہ دو آدمیوں کی طرف گئی جن میں ایک گنجا اور دوسرا داڑھی والا تھا۔ دونوں اپنے اپنے شامیانوں کے نیچے کھری زمین پر لیٹے تھے۔ دونوں کے درمیان کھونٹے سے ایک سفید بکری بندھی تھی جو ایسی دبلی پتلی تھی کہ بس اس کی پسلیاں کھال پھاڑ کر نکلتی ھوئی معلوم ھوتی تھیں۔ وہ بڑے غمگین لہجے میں ممیا رھی تھی اور کھونٹے کو کتر رھی تھی جس کو وہ ابھی تک آدھا کھا چکی تھی۔

خواجہ نصرالدین فطرتا کھوجی واقع ھوئے تھے اس لئے وہ سوال کئے بغیر نہ رہ سکے:

"سلام علیکم، بخارا کے شہریو! بتائیے کہ آپ لوگ خانہ بدوشوں میں کب سے شامل ھوگئے ھیں؟"

"مسافر، ھماری ھنسی نہ اڑاؤ!" داڑھی والے نے جواب دیا "ھم خانہ بدوش نہیں ھیں بلکہ تمھاری ھی طرح نیک مسلمان ھیں۔"

"لیکن اگر آپ نیک مسلمان ھیں تو اپنے گھر میں کیوں نہیں رھتے؟ محل کے پھاٹک پر کیا انتظار ھے؟"

"ھم اپنے بادشاہ اور مالک امیر کے منصفانہ فیصلے کے منتظر ھیں جن کی آب و تاب آفتاب کو بھی شرماتی ھے۔"

"اچھا" خواجہ نصرالدین نے طنز کو چھپائے بغیر کہا۔ "تو کیا آپ اپنے بادشاہ اور مالک، امیر کے منصفانہ فیصلے کا جنکی آب و تاب آفتاب کو شرماتی ھے کافی دنوں سے انتظار کر رھے ھیں؟"

"مسافر، ھم چھ ھفتے سے انتطار کر رھے ھیں" گنجا بولا "یہ داڑھی والا جھگڑیلو، اللہ اس کو مارے، شیطان اس کو دفعان کرے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” یہ داڑھی والا جھگڑیلو میرا بڑا بھائی ھے۔ ھمارے والد کا انتقال ھوا ۔ انھوں نے کچھ ملکیت چھوڑی ۔ ھم نے سب کچھ تقسیم کر لیا ھے سوائے اس بکری کے ۔ اب امیر اس کا فیصلہ کریں گے کہ یہ کس کی ھونی چاھئے۔“

” لیکن وہ بقیہ ملکیت کہاں ھے جو تم کو وراثت میں ملی ھے؟“

” ھم نے وہ سب نقد کرلیا۔ درخواست لکھنے کے لئے عرضی نویس کو دینا پڑتا ھے پھر درخواست لینے والے منشی ، پہرے داروں اور بہت سے لوگوں کو۔۔“

گنجا یکایک اچک کر اُٹھا اور ایک گندے ، ننگے پیر درویش سے ملنے کے لئے لپکا جو مخروطی ٹوپی پہنے تھا اور اس کے پہلو سے کشکول لٹک رھی تھی۔

”میرے لئے دعا کیجئے، اے بزرگ! دعا کیجئے کہ فیصلہ میرے حق میں ھو!“

درویش نے پیسے لے لئے اور دعا شروع کر دی۔ جیسے ھی وہ اپنی دعا کے آخری الفاظ تک پہنچا گنجے نے اس کی کشکول میں ایک سکہ اور ڈال دیا تاکہ وہ دعا کو از سرِ نو شروع کر سکے۔

داڑھی والا بے چینی سے اُٹھا اور مجمع میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ کافی تلاش کے بعد اس کی نظر ایک اور درویش پر پڑی جو پہلے والے سے زیادہ گندا اور چیتھڑوں میں تھا اس لئے زیادہ بزرگ بھی تھا۔ اس درویش نے کافی بڑی رقم طلب کی۔ داڑھی والے نے کچھ طے توڑ کرنا چاھا لیکن درویش نے اپنی ٹوپی کے نیچے ٹٹول کرمٹھی بھر چیلڑ برآمد کئے۔ داڑھی والا یہ دیکھ کر فورا اس کی کرامات کا قائل ھو گیا اور مطلوبہ رقم مان لی۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی پر فاتحانہ نظر ڈالتے ھوئے رقم گنی۔

درویش نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر زور زور سے دعا شروع کی۔ اس کی بھاری بھرکم آواز میں پہلے درویش کی مدھم آواز غائب ھو گئی۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گنجے نے پریشان ھو کر اپنے درویش کو چند سکے اور دئے ، داڑھی والے نے بھی یہی کیا اور دونوں درویشوں نے ایک دوسرے کو شکست دینے کے لئے وہ چیخم دھاڑ کی کہ غالبا اللہ میاں نے فرشتوں کو آسمان کی کھڑکیاں بند کرنے کا حکم دے دیا ھوگا۔ بکری برابر کھونٹے کو کترے جا رھی تھی اورغمگین لہجے میں ممیا رھی تھی ۔

گنجے بھائی نے اس کے سامنے تھوڑی سی گھاس ڈال دی جس پر داڑھی والا زور سے چیخا:

”اپنی گندی بدبو دار گھاس میری بکری کے پاس سے لے جاؤ !“

اس نے لات مار کر گھاس الگ ھٹا دی اور بکری کے سامنے بھوسے کی ناند لگا دی۔

” نہیں!“ گنجا غصے میں چلایا۔ ”میری بکری تمھارا بھوسا نہیں کھائے گی!“

اب ناند بھی گھاس کے پاس پہنچ گئی۔ وہ ٹوٹ گئی اور بھوسا سڑک کی مٹی میں مل گیا۔

دونوں بھائی سخت غصے میں دست و گریباں ھو گئے۔ وہ زمین پر لوٹ رھے تھےاور ایک دوسرے کی گھونسوں اور گالیوں سے خاطر کر رھے تھے۔

”دو بیوقوف لڑ رھے ھیں، دو دھوکے باز دعا کر رھے ھیں اور بکری بے چاری بھوکوں مر رھی ھے“ خواجہ نصرالدین نے سر ھلاتے ھوئے کہا ”ارے نیک بخت اور محبت کرنے والے بھائیو ، اِدھر دیکھو! اللہ نے اس جھگڑے کا فیصلہ اپنے طور پر کر دیا۔ اس نے بکری کو تم سے لے لیا۔“

بھائیوں کو ھوش آیا اور انھوں نے ایک دوسرے کو چھوڑ دیا۔ وہ اپنے خون آلود چہرے لئے بڑی دیر تک مُردہ بکری کو گُھورتے رھے۔ آخر کار گنجے نے کہا:

” اس کی کھال تو نکال لینا چاھئے۔“

” یہ میں کرونگا“ داڑھی والا جلدی سے بولا ۔

” تم کیوں کرو گے؟“ دوسرے نے پوچھا۔ اس کا گنجا سر غصے سے سرخ ھو رھا تھا ۔

” بکری میری ھے اور اسی لئے اس کی کھال بھی۔“

” نہیں ، میری ھے! “

قبل اس کے کہ خواجہ نصرالدین کچھ بولیں دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا پھر زمین پر لوٹ رھے تھے۔ ایک لمحے کے لئے بھاری مٹھی میں سیاہ بالوں کا گچھا نظر آیا جس سے خواجہ نصرالدین نے نتیجہ اخذ کیا کہ بڑے بھائی کی داڑھی کا کچھ حصہ غائب ھو چکا ھے۔

نا امیدی سے ھاتھ جھٹک کے خواجہ نصرالدین آگے بڑھ گئے ۔

ایک لوھار ان کی طرف آرھا تھا۔ اس کے پٹکے میں ایک سنسی لگی ھوئی تھی ۔ یہ وھی لوھار تھا جس نے خواجہ نصرالدین سے ایک دن پہلے تالاب پر باتیں کی تھیں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” سلام علیکم، آھنگر!“ خواجہ نصرالدین نے خوشی سے کہا ۔ ” ھماری ملاقات پھر ھوگئی۔ حالانکہ مجھے ابھی اپنا وعدہ پورا کرنے کا موقع نہیں ملا ھے۔ آھنگر، تم یہاں کیا کر رھے ھو؟ کیا تم بھی امیر سے اپنے انصاف کا مطالبہ کرنے آئے ھو؟“


” ایسے انصاف سے بھلا کیا ھوسکتا ھے؟“ لوھار نے افسردگی سے کہا۔ ” میں لوھاروں کی لائن سے فریاد لے کر آیا ھوں۔ ھم کو پندرہ پہرے دار دئے گئے جنھیں ھمیں تین مہینے تک کھلانا پلانا تھا۔ “

” ایک سال گذر چکا ھے اور وہ اب بھی ھمارے اُوپر مسلط ھیں۔ اس وجہ سے ھم بڑا نقصان اُٹھا رھے ھیں۔“

” اور میں رنگریزوں کی طرف سے آیا ھوں“ ایک آدمی بیچ میں بولا جس کے ھاتھوں پر رنگ کے دھبے تھے اور جس کے چہرے کا رنگ زھر آلود بھاپ کی وجہ سے جس میں وہ صبح سے شام تک سانس لیتا تھا سبزی مائل ھو گیا تھا۔ ” میں بھی اسی طرح کی فریاد لے کر آیا ھوں۔ ھم کو پچیس پہرے دار ملے ھیں ۔ ھمارا کاروبار تباہ ھو گیا اور نفع بہت کم ھو گیا۔ شاید امیر ھمارے اُوپر رحم کھا کر ھمیں اس ناقابل برداشت بار سے چھٹکارا دلا دیں۔“

”آخر تم بیچارے پہرے داروں کو کیوں ناپسند کرتے ھو؟ “ خواجہ نصرالدین نے زور سے کہا ” سچ مچ، وہ بخارا کے سب سے زیادہ برے اور لالچی لوگ تو نہیں ھیں۔ تم لوگ بلا شکایت کئے امیر ، اس کے تمام وزراءاور عمائدین کو کھلاتے ھو، تم دو ھزار ملاؤں اور چھ ھزار درویشوں کو کھانا دیتے ھو۔ تو آخر پہرے دار ھی کیوں بھوکے رھیں؟کیا تمھیں یہ کہاوت معلوم نہیں کہ جہاں ایک گیدڑ کو کھانا ملا وھاں دس فورا اور آجاتے ھیں۔ آھنگر اور رنگ ریز تمھاری شکایت میری سمجھ میں نہیں آتی۔“‌

”آھستہ سے“ آھنگر نے چاروں طرف دیکھتے ھوئے کہا ۔

رنگ ریز نے خواجہ نصرالدین کی طرف ملامت آمیز نظروں سے دیھا اور کہا ” مسافر تم خطرناک آدمی ھو۔ تمھارے الفاظ میں نیکی نہیں ھے۔ لیکن ھمارے امیر عقلمند اور فیاض ھیں۔“

وہ رک گیا کیونکہ اچانک قرناؤں اور نقاروں کی آواز گونج اُٹھی ۔ جیسے ھی محل کے پھاٹک کے پیتل سے منڈھے دروازے آھستہ آھستہ کھلے خیموں کا سارا رنگا رنگ جنگل جاگ اُٹھا۔

”امیر ! امیر!“ ھر طرف غلغلہ ھوا اور لوگ اپنے امیر کو دیکھنے چاروں طرف سے محل کی طرف دوڑ پڑے ۔ خواجہ نصرالدین نے اگلی صفوں میں ایک معقول جگہ چن لی۔

پہلے پھاٹک سے نقیب اعلان کرتے ھوئے نکلے ” امیر کے لئے راستہ دو ، مقدس امیر کے لئے راستہ دو! مجاھدین کے لئے راستہ دو! “

ان کے بعد پہرے دار آئے جو اپنے ڈنڈوں سے دائیں بائیں ان لوگوں کی پیٹھوں اور سروں پر بارشیں کر رھے تھے جو اشتیاق میں بہت قریب آگئے تھے۔ مجمع کے درمیان ایک چوڑا راستہ بن گیا۔ اب نقارے ، شہنائیاں ، طنبورے اور قرنائیں لئے موسیقار آئے۔ اس کے بعد زریں ریشمی لباس میں ، مرصع مخملی نیاموں میں ھلالی شمشیریں لگائے دستہ برآمد ھوا ۔ پھر دو ھاتھی نکلے جن کے سروں پر لمبی کلغیاں تھیں۔ آخرمیں ایک بہت ھی مرصع اور سجی ھوئی پالکی نمودار ھوئی جس میں خود باعظمت امیر ایک بھاری زریں نمگیرے کے نیچے تشریف فرما تھے۔

اس منظر کو دیکھ کر مجمع سے ایک غلغلہ بلد ھوا جیسے کہ چوک پر کوئی ھوا کا جھونکا آ گیا ھو اور سب لوگ زمین پر سجدے میں جھک گئے کیونکہ امیر کا حکم تھا کہ اس کی تابعدار رعایا اپنے کو امیر کا بندہ بے دام خیال کرے اور اس سے آنکھیں نہ چار کرے ۔ پالکی کے آگے آگے خدام دوڑ دوڑ کر قالین بچھائے جاتے تھے ، دائیں طرف شاھی مورچھل بردار کاندھے پر مورچھل رکھے چل رھا تھا اور بائیں طرف بڑی سنجیدگی اور شان سے ترکی کا سنہرا حقہ لئے حقے بردار تھا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جلوس کے پیچھے حصے میں پیتل کے خودوں ، سپروں ، نیزوں ، تیر کمانوں اور ننگی تلواروں سے لیس پہرے دار تھے۔ سب سے آخر میں دو چھوٹی توپیں تھیں۔ سارا جلوس دوپہر کی تیز دھوپ سے چمچما رھا تھا۔ سورج نے جواھرات ، سونے چاندی کے زیورات ، پیتل خودوں ، سپروں اور سفید فولادی ، ننگی تلواروں کو آئنے کی طرح چمکا دیا تھا۔۔۔ لیکن اس سجدے میں پڑے ھوئے زبردست مجمع میں نہ تو جواھرات چمک رھے تھے اور نہ سونا حتٰی کہ تانبے تک کی چمک نہ تھی ۔ غرض کوئی ایسی چمک دمک نہ تھی جو دل کو خوش کرسکتی ھو۔ وھاں تو صرف چیتھڑے ، غربت اور بھوک تھی۔ اور جب امیر کا پُرتکلف جلوس اس گندے ، جاھل اور کچلے ھوئے لوگوں کے سمندر کے درمیان سے گذر رھا تھا تو ایسا معلوم ھوتا تھا جیسے گدڑی میں لعل ھو۔

قالینوں سے سجا ھوا اُونچا چبوترہ جہاں سے امیر اپنی وفادار رعایا پر عنایت کی بارش کرنے والے تھے پہلے ھی چاروں طرف سے پہرے داروں سے گِھر چکا تھا اور نیچے سولی کے میدان میں جلاد بڑے زوروں کے ساتھ امیر کے احکام کی تعمیل کے لئے تیاری کر رھے تھے ۔ وہ سلاخوں کی لچک اور ڈنڈوں کی مضبوطی کی جانچ کر رھے تھے، چمڑے کے کوڑے طشتوں میں بھگو رھے تھے ، سولیاں نصب کر رھے تھے ، کلہاڑیاں تیز کر رھے تھے اور زمین میں تیز نوکوں والے ستون گاڑ رھے تھے ۔ اس کا منتظم شاھی پہرے داروں کا داروغہ ارسلان بیک تھا جس کی بربریت کا چرچا بخارا سے باہر دُور دُور پھیل چکا تھا ۔ وہ لال چہرے ، بھاری جسم اور کالے بالوں والا آدمی تھا۔ اس کی داڑھی سینے پر اپنا گھنا سایہ کئے ھوئے ناف تک لٹک رھی تھی اور اس کی آواز اونٹ کی بلبلاھٹ سے ملتی جلتی تھی۔ وہ بڑی فیاضی کے ساتھ گھونسوں اور لاتوں کی بارش کر رھا تھا۔ اچانک وہ بہت نیچا جھکا اور چاپلوسی سے کانپنے لگا۔

آھستہ آھستہ جھولتی ھوئی پالکی چبوترے تک پہنچی اور امیر نے اس کے پردے ھٹاتے ھوئے اپنے درشن رعایا کو دئے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



(10)


تقدس مآب امیر بہر حال ایسا کچھ صورت دار نہیں تھا۔ اس کا چہرہ جس کی تشبیہ اکثر درباری شعراء تابدار ماہِ کامل سے دیتے تھے پلپلے خربوزے سے زیادہ مشابہہ تھا۔ وہ اپنے وزیروں کے سہارے سنہرے تخت پر جلوہ فرمانے کے لئے پالکی سے اُترا۔ خواجہ نصرالدین نے دیکھا کہ درباری شعراء کے دعوؤں کے برعکس وہ بالکل سرو سہی قد نہ تھا۔ اس کا جسم موٹا اور بھاری تھا ، اس کے ہاتھ چھوٹے اور پیر اتنے ٹیڑھے تھے کہ اس کی قبا سے بھی یہ عیب نہیں چھپ رھا تھا۔

وزراء اس کے دائیں طرف کھڑے ھوگئے ۔ ملاؤں اور عمائدین کو بائیں طرف جگہ ملی ، نیچے احکام نویس اپنے رجسٹر اور دواتیں لئے جمے تھے اور درباری شعراء نے تخت کے پیچھے اس طرح نیم حلقہ بنا لیا تھا کہ ان کی نظر اپنے آقا کی گدی پر رھے۔ شاھی مورچھل بردار مورچھل جھلنے لگا۔ حقے بردار نے شنہری نال اپنے مالک کے ھونٹوں سے لگا دی۔ چبوترے کو گھیرے ھوئے زبردست مجمع دم بخود کھڑا تھا۔ خواجہ نصرالدین رکابوں کے اُوپر اُٹھے اور اپنی گردن نکال کر غور سے سننے لگے۔

امیر نے اُونگھتے ھوئے سر ھلایا۔ پہرے داروں نے دو حصوں میں تقسیم ھوکر گنجے اور داڑھی والے دونوں بھائیوں کو راستہ دیا جن کی باری تھی۔ وہ گھٹنوں کے بل گھسٹتے ھوئے چبوترے تک گئے اور زمین تک لٹکتے ھوئے قالین کو بوسہ دیا۔

”اٹھو !“ وزیر اعظم بختیار نے کہا۔

دونوں بھائی اٹھے لیکن ان کی یہ جرات نہ ھوئی کہ وہ اپنی قباؤں کی دُھول جھاڑ دیں۔ خوف نے ان کی زبان اس طرح پکڑ لی تھی کہ وہ ھکلا رھے تھے اور ان کی بات سمجھ میں نہیں آرھی تھی ۔ لیکن بختیار آخر بہت تجربے کار وزیر تھا۔ وہ ایک نظر میں ساری صورت حال بھانپ گیا۔

” تمھاری بکری ھے کہاں؟“ اس نے بے چین ھو کر بیچ میں لقمہ دیا۔

گنجے بھائی نے جواب دیا ” وزیر اعلی نسب، وہ تو مر چکی، اللہ نے اس کو اپنے پاس بلا لیا ۔ لیکن کھال کا مالک کون ھے؟ “
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بختیار امیر کی طرف مڑا۔

” کیا حکم ھے اے شاہِ دانش وراں؟“

امیر نے بالکل بے تعلقی سے جمائی لیکر آنکھیں بند کر لیں ۔ بختیار بڑے ادب سے بھاری سفید دستار والا سر جھکایا

”مالک، میں نے فیصلہ آپ کے چہرے سے معلوم کر لیا ! سنو“ وزیر نے بھائیوں کی طرف مڑ کر کہا ۔ وہ گھٹنوں کے بل جھک گئے اور امیر کی عقل، انصاف اور مہربانی کا شکریہ ادا کرنے کے لئے کمر بستہ ھو گئے ۔ بختیار نے فیصلے کا اعلان کرنا شروع کیا اور احکام نویس اپنے اپنے بڑے رجسٹروں میں اس کے الفاظ لکھنے کے لئے اپنے قلم دوڑانے لگے۔

” امیر المومنین، آفتاب جہاں، باعظمت امیر، خدا ان پر رحمتیں نازل کرتا رھے ان کا یہ فیصلہ ھے کہ اگر بکری کو اللہ نے لے لیا ھے تو کھال انصاف کے مطابق زمین پر اللہ کے نائب یعنی خود عظیم ایر ی ملکیت ھونی چاھئے۔ اس لئے بکری کی کھال نکال کر اس کو کھانا اور پکانا چاھئے اور محل میں لا کر شاھی خزانے کے حوالے کرنا چاھئے۔“

بھائیوں نے بدحواس و کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا، مجمع میں چُپکے چُپکے کُھسر پُھسر ھونے لگی۔ بختیار نے اپنا حکم زوردار اور صاف آواز میں جاری رکھا

” اس کے علاوہ مدعیان دو سو تانگے مقدمے کے اخراجات ، ڈیڑھ سو تانگے محل کا ٹیکس ، پچاس تانگے احکام نویسوں کا خعچ ادا کریں اور مسجدوں کی آراستگی کے لئے بھی چندہ دیں۔ یہ تمام رقم نقدی یا لپڑوں یا کسی اور قسم کی جائداد کی صورت میں فورا وصول کی جائے۔ “

ابھی بختیار نے اپنی بات ختم بھی نہیں کی تھی کہ ارسلان بیک کے اشارے پر پہرے دار دونوں بھائیوں پر ٹوٹ پڑے ، ان کے پٹکے کھول دئے ، جیبیں باھر نکال کر جھاڑ لیں ، قبائیں تار تار کر دیں اور جوتے اتار کر ان کو ننگے پیر اور نیم عریاں کر کے گردن پکڑ کر ڈھکیل دیا۔

یہ سارا قصہ چُٹکی بجاتے ھو گیا ۔ فیصلہ کا اعلان ھوتے ھی درباری شاعروں نے تحسین و مرحبا کے نعرے لگائے

” دانا امیر، داناؤں کے دانا ! دانائے روزگار!“

تخت کی طرف اپنی گرنیں بڑھا بڑھا کر وہ اس طرح کی تعریفیں دیر تک کرتے رھے۔ ان میں سے ھر ایک چاھتا تھا کہ اس کی آواز سب سے بلند ھو کر امیر کے گوش گذار ھو سکے۔ اس دوران میں چبوترے کے چاروں طرف مجمع خاموش کھڑا ھمدردی اور افسوس کے ساتھ دونوں بھائیوں کو دیکھ رھا تھا۔

”پرواہ مت کرو! “ خواجہ نصرالدین نے بڑے سنجیدہ لہجے میں دونوں بھائیوں سے کہا جو ایک دوسرے سے چمٹے دھاڑیں مار کر رو رھے تھے ۔ ” بہر حال چوک پر چھ ھفتے انتظار کا وقت ضایع نہیں گیا۔ تمھارا فیصلہ منصفانہ اور رحیمانہ ھے کیونکہ کیونکہ ھر ایک جانتا ھے کہ دنیا بھر میں ھمارے امیر سے زیادہ دانشمند ، زیادہ رحیم اور کوئی نہیں ھے، اور اگر کسی کو اس میں شک ھو ۔۔۔“ یہاں انھوں نے چاروں طرف اپنے آس پاس کے لوگوں کو دیکھا اور کہا ” تو پہرے داروں کو بلانے میں دیر نہ لگے گی۔ اور وہ؟ ھاں ، وہ شبہ کرنے والے مردود کو جلادوں کے حوالے کر دیں گے جو آسانی سے اسے بتا دیں گے کہ وہ کس طرح غلط راستے پر چل رھا ھے۔ ارے بھائیو! اطمینان سے گھر جاؤ۔ اب کبھی اگر تمھاری لڑائی کسی مرغی کے بارے میں ھو تو پھر امیر کی عدالت میں آنا ۔ لیکن ذرا پہلے اپنے مکانات، انگور کے چمن اور کھیت بیچ لینا ، نہیں تو ٹیکس نہیں ادا کر سکو گےاور اس سے امیر کے خزانے کو نقصان ھوگا جس کا خیال ھی ھر وفادار رعایا کے لئے ناقابلِ برداشت ھونا چاھئے۔“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
” کاشکہ ھم اپنی بکری کے ساتھ ھی ختم ھو جاتے“ بھائیوں نے آنسو بہاتے ھوئے کہا ۔

” کیا تمھارے خیال میں آسمان پر بیوقوف کافی تعداد میں نہیں ھیں؟“ خواجہ نصرالدین نے پوچھا ۔ ” معتبر آدمیوں نے مجھے بتایا ھے کہ آجکل جنت و جہنم دونوں احمقوں سے بھرے پڑے ھیں اور اب اور نہیں لئے جارھے ھیں۔۔۔ بھائیو، میں تمھارے لئے ابدیت کی پیشین گائی کرتا ھوں۔۔۔ اب یہاں سے رفو چکر ھو جاؤ کیونکہ پہرے دار ادھر دیکھ رھے ھیںاور تمھاری طرح میں لافانی ھونے پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔“

دونوں بھائیوں نے زور زور سے سسکیاں بھرتے، اپنا چہرہ نوچتے اور سڑک کی زرد خاک اپنے سروں پر اُڑاتے چلے گئے۔

اب لوھار امیر کے سامنے حاضر ھوا۔ اس نے اپنی شکایت بھاری گرجدار آواز میں پیش کی ۔ وزیر اعظم بختیار نے امیر کی طرف دیکھا:

” اعلٰیٰ حضرت ، کیا حکم ھوتا ھے؟“

امیر سو رھا تھا اور اس کے کھلے ھوئے منہ سے خراٹے صادر ھو رھے تھے ۔ بختیار ذرا بھی نہ جھجکا اور بولا:

”جہاں پناہ ، میں نے آپ کا حکم چہرے سے معلوم کرلیا ھے۔ “

اور اس نے شان کے ساتھ اعلان کیا :

”خدا کی طرف سے جو رحیم و کریم ھے ، امیر المومنین اور ھمارے آقا نے جو اپنی رعایا کی فکر سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں رھتے اس کو یہ عزت دے کر بڑی مہربانی اور عنایت کا اظہار کیا ھے کہ وہ امیر کے پہرے داروں کی دیکھ بھال اور کھانے پینے کا انتظام کر سکے۔ یہ سہولت دیکر امیر نے بخارا شریف کے شہریوں کو یہ باعزت موقع دیا ھے کہ وہ ھر روز اور ھر گھنٹے اپنے امیر کے لئے جذبہ احسان و شکر کا اظہار کر سکیں۔ اس قسم کی عزت ھمرے پڑوسی ملکوں کے باشندوں کو حاصل نہیں ھے لیکن لوھاروں کی قطار نے اپنی سعادت مندی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس کے بر عکس آھنگر یوسف نے عقبٰی کے عذابوں اور گنہ گاروں کے لئے بال سے باریک پُل کی پرواہ کئے بغیر ڈھٹائی سے اپنی ناشکری کا اظہار کیا ھے۔ مزید برآں، اس کو یہ جرات ھوئی کہ وہ اپنی شکایت آقا و مولا ، تقدس مآب امیر کے سامنے لائے جن کا نور آفتاب کو بھی ماند کرتا ھے۔“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”اس لئے ھمارے تقدس مآب امیر نے عنایت فرما کر یہ فیصلہ صادر فرمایا ھے کہ آھنگر یوسف کو دو سو درے لگائے جائیں۔ اس سے اس کو بلاشبہ توبہ کا خیال آئے گا جس کے بغیر اس پر جنت کے دروازے کھلنا ممکن نہیں ھیں۔ جہاں تک آھنگروں کی قطار کا سوال ھے تقدس مآب امیر نے اپنی مزید عنایت و مہربانی کا اظہار کیا ھے اور بیس اور پہرے دار وھاں رھنے اور کھانے پینے کے لئے بھیج دئے ھیں۔ اس طرح وہ ھر روز اور ھر گھنٹے ھمارے امیر کی دانشمندی اور رحم و کرم کی تعریف کرنے کی خوش نصیبی سے محروم نہ ھوں گے۔ یہ ھے ان کا فیصلہ ، خدا ان کو اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے لئے بہت دنوں تک سلامت رکھے۔“

درباری خوشامدیوں کی تعریف و تحسین کا شور پھر بلند ھوا ۔ اس دوران میں پہرے داروں نے آھنگر یوسف کو پکڑ لیا اور اس کو سزا دینے کی جگہ تک گھسیٹ لے گئے جہاں جلاد اپنے خوفناک دانت نکالے ھوئے بھاری چابکوں کو تول رھے تھے۔

آھنگر ایک چٹائی پر پٹ گر پڑا ۔ درے سرسراتے ھوئے برسنے لگے اور آھنگر کی پیٹھ لہو لہان ھو گئی۔

جلادوں نے اس کو بری طرح پیٹا ، اس کی کھال کی دھجیاں اُڑادیں اور گوشت ھڈیوں تک کاٹ دیا ۔ لیکن آھنگر کے منہ سے ایک چیخ ایک آہ نہ نکلی ۔ جب وہ کھڑا ھوا تو اس کے منہ سے سیاہ جھاگ نکل رھا تھا ۔ سزا کے دوران اس نے اپنے دانت زمین میں پیوست کر لئے تھے تا کہ کوئی چیخ اس کے منہ سے نہ نکل سکے۔

”آھنگر بھولنے والا نہیں ھے“ خواجہ نصرالدین نے کہا ” وہ آخری دم تک امیر کی مہربانی کو یاد رکھے گا۔ رنگ ریز ، تم کیا انتظار کر رھے ھو؟ جاؤ نا ؟ اب تمھاری باری ھے۔“

رنگ ریز نے زمین پر تھوکا اور بلا پیچھے دیکھے مجمع سے چلا گیا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وزیر اعظم جلدی جلدی فیصلہ کرتا گیا اور ھر ایک سے اس نے امیر کے خزانے کے لئے حاصلات میں کوئی کمی نہیں کی۔ یہی ایک بات تھی جس نے اس کو تمام عمائدین سے ممتاز بنایا تھا۔

جلاد متوتر مصروف تھے ۔ ان کی طرف سے چیخوں اور رونے چلانے کی آوازین آ رہی تھیں۔ وزیر اعظم نئے نئے گنہ گاروں کو جلادوں کے پاس بھیجتا جا رھا تھا۔ ایک لمبی قطار اپنے نمبر کا انتظار کر رھی تھی ۔ ان میں بڈھے مرد اور عورتیں ، حتٰی کہ ایک دس سالہ لڑکا تھا جس کے خلاف یہ الزام تھا کہ اس نے بدتمیزی کی اور باغیانہ طور پر امیر کے محل کے سامنے پیشاب کیا ۔ وہ کانپ رھا تھا اور رو رھا تھا اور اپنا چہرہ آنسوؤں سے تر کر رھا تھا ۔ اس کو دیکھ کر خواجہ نصرالدین کا دل رحم اور غصے سے بھر آیا ۔

” واقعی یہ لڑکا بڑا خطرناک مجرم ھے“ انھوں نے زور سے کہا ۔ ”امیر کی دور اندیشی کی تعریف نہیں ھو سکتی کہ وہ اس طرح کے دشمنوں سے اپنے تخت کو محفوظ رکھتے ھیں کیونکہ ایسے لوگ زیادہ خطرناک ھوتے ھیں جو اپنی کمسنی سے ھی برے خیالات کو چھپائے رکھتے ھیں۔ صرف آج ھی میں نے ایک اور مجرم دیکھا ھے جو اس سے بھی برا اور خطر ناک تھا۔ اس دوسرے مجرم کی کرتوت۔ کیا آپ یقین کریں گے ؟ پہلے سے بھی بری تھیں اور پھر ٹھیک محل کی دیوار کے نیچے ! ایسی گستاخی کے لئے کوئی بھی سزا کم ھے ۔ اس کو تو نوکیلے ستون پر بٹھا کر ھلاک کر دینا چاھئے حالانکہ ستون اس کے اندر سے ایسا گذر جاتا جیسے سیخ چوزے کے جسم سے گذر جاتی ھے کیونکہ لڑکا صرف چار سال کا تھا۔ بہر حال جیسا کہ میں کہہ چکا ھوں ، اس کی عمر کوئی عذر نہیں ھو سکتی ۔ میرے دل کو ان زبردست برائیوں کے خیال سے سخت رنج ھوتا ھے جو ھمارے بخارا میں پھیل گئی ھیں۔ بہر نوع، ھمیں امید ھے کہ امیر کے جلادوں اور پہرے داروں کی مدد سے یہ برائیاں ختم ھو جائیں گی اور ان کی جگہ اچھائیاں لے لینگی۔“

انھوں نے اس طرح یہ سب کچھ کہا جیسے کوئی ملا وعظ دے رھا ھو۔ ان کا لہجہ اور الفاظ دونوں اچھے تھے لیکن جن کے کان تھے انھوں نے ان الفاظ کو سنا اور سمجھا اور چپکے چپکے اپنی داڑھیوں میں تلخی سے مسکرائے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


(11)



اچانک خواجہ نصرالدین نے دیکھا کہ مجمع چھٹنے لگا ۔ بہت سے لوگ جلدی جانے لگے اور کچھ تو بھاگ رھے تھے۔

” کیا پہرے دار میرا پیچھا کر رھے ھیں ؟“ انھوں نے گھبرا کر سوچا۔

لیکن وہ سود خور کو آتے دیکھ کر اس کا سبب سمجھ گئے ÷ اس کے پیچھے ، پہرے داروں کے محاصرے میں ، ایک نحیف سفید داڑھی والابڈھا تھا جس کی قبا مٹی سے لتھڑی ھوئی تھی اور ایک برقع پوش عورت یا یہ کہنا زیادہ صحیح ھو گا جوان لڑکی تھی جیسا کہ خواجہ نصرالدین کی تجربہ کار نگاھیں اس کی چال سے بھانپ سکیں۔

” اور ذاکر ، جورا ، محمد اور صادق کہاں ھیں ؟“ اپنی چچیاتی ھوئی آواز میں سودخور نے لوگوں کا کانی آنکھ سے جائزہ لیتے ھوئے پوچھا ۔ دوسری آنکھ دھندلی اور غیر متحرک تھی اور اسپر جالا چھایا ھوا تھا۔ ”وہ ابھی ابھی تو یہاں تھے ۔ میں نے ان کو دور سے دیکھا تھا ۔ ان کے قر جلد ھی واجب الادا ھیں ۔ ان کے لئے بھاگ کر چھپنا بے سود ھے۔“

اور اب یہ کبڑا لنگڑاتا ھوا آگے بڑھا ۔

لوگوں نے آپس میں کہنا شروع کیا :

” دیکھو ، یہ بڈھا کھوسٹ ، کمھار نیاز اور اس کی بیٹی کو امیر کے سامنے گھسیٹ لایا ھے۔“

” اس نے کمھار کو ایک دن کی بھی چھوٹ نہیں دی ۔“

” لعنت ھو اس پر، میرا قرض پندرہ دن میں واجب الادا ھے۔“

”اور میرا ایک ھفتے میں۔“

” دیکھو، لوگ اس کے آنے پر کس طرح بھاگتے اور چُھپتے ھیں جیسے وہ کُوڑھ یا ھیضے کی بیماری لایا ھو!“

” یہ سود خور کُوڑھ سے بھی بد تر ھے!“

خواجہ نصرالدین کی روح کو پشیمانی سے تکلیف تھی انھوں نے اپنی قسم کو دھرایا کہ ”میں اس کو اسی تالاب میں ڈبوؤنگا!“
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ارسلان بیک نے سود خور کو یہ اجازت دے دی کہ وہ اپنی باری کے بغیر آ جائے۔ اس کے پیچھے پیچھے کمھار اور اس کی بیٹی تھے ۔ انھوں نے گھٹنوں کے بل جھک کر قالین کے دامن کو بوسہ دیا ۔

” سلام علیک، لائق جعفر“ وزیر اعظم نے اخلاق سے کہا ” کیس آئے ؟ باعظمت امیر سے اپنا کام بتاؤ۔“

” اے باعظمت بادشاہ، میرے آقا!“ جعفر نے امیر کو مخاطب کر کے کہا جس نے نیند کی حالت میں سر ھلایا اور پھر خراٹے بھرے لگا۔ ” میں آپ سے انصاف مانگنے آیا ھوں۔ یہ آدمی جس کا نام نیاز ھے اور پیشے کا کمھار ھے میرا سو تانگے کا قرضدار ھے اور اس قرض پر تین سو تانگے کا مزید سود چڑھ گیا ھے۔ آج صبح یہ قرض واجب الادا تھا لیکن کمھار نے مجھے کچھ نہیں دیا۔ اے دانشور امیر، آفتابِ جہاں، آپ ھی ھمارا فیصلہ کیجئے۔“

احکام نویسوں نے سود خور کی شکایت اپنے رجسٹر میں درج کرلی۔ اب وزیر اعظم نے کمھار سے کہا:

” کمھار، باعظمت امیر کی بات کا جواب دو۔ کیا تم یہ قرض مانتے ھو؟ شاید تمھیں ادائیگی کے دن اور گھنٹے پر اعتراض ھے؟“

”نہیں“ کمھار نے کمزور آواز میں جواب دیا۔ ”نہیں، دانشور اور منصف وزیر ۔ مجھے کسی بات پر اعتراض نہیں ھے ۔ نہ تو قرض پر اور نہ دن اور گھنٹے پر۔ میں صرف ایک مہینے کی مہلت چاھتا ھوں۔ میں اپنے کو امیر کے رحم و کرم پر چھوڑتا ھوں۔“

”میرے آقا، مجھے فیصلے کا اعلان کرنے کی اجازت دیجئے جو میں نے آپ کے چہرے سے پڑھ لیا ھے“ بختیار نے کہا ” خداوند رحیم و کریم کے نام پر قانون کے مطابق جو بھی اپنا قرض ادا نہیں کرتا وہ اپنے مہاجن کا معہ اپنے خاندان کے غلام ھو جاتا ھے اور اس وقت تک غلام رھتا ھے جب تک وہ ساری مدت کے لئے ، جس میں غلامی کا زمانہ بھی شامل ھے ، سود اور اصل نہیں ادا کر دیتا۔“

کمھار کا سر جھکتا گیا اور وہ اچانک کانپنے لگا۔ مجمع میں بہت سے لوگوں نے اپنی آھیں روک کر منہ پھیر لیا ۔ لڑکی کے شانے کانپ رھے تھے وہ برقع میں رو رھی تھی ۔ خواجہ نصرالدین بار بار یہ بات اپنے آپ دھرا رھے تھے :

” میں غریبوں پر اس وحشیانہ مظالم کرنے والے کو ڈبو کر رھونگا!“

” لیکن ھمارے آقا کا رحم و کرم لا انتہا ھے ۔“ بختیار نے اپنی آواز بلند کرتے ھوئے کہا ۔

مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ بڈھے کمھار نے اپنا سر اُٹھایا ۔ اس کے چہرے پر امید کی کرن جھلک رھی تھی ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
”حالانکہ قرض ابھی واجب الادا ھے لیکن امیر کمھار نیاز کو مہلت دیتے ھیں۔۔ایک گھنٹے کی۔۔ اگر ایک گھنٹہ ختم ھونے پر نیاز مذھبی اصولوں سے لاپرواھی برتتا ھے اور پورا قرض معہ سود کے ادا نہیں کرتا تو قانون کی تکمیل ھوگی جیسا کہ کہا جا چکا ھے۔ جا ! اے کمھار ، امیر کی مہربانی تیرا ساتھ دے!“

بختیار نے فیصلہ ختم نہیں کیا کہ تخت کے پیچھے کھڑے ھوئے خوشامدیوں نے اپنا چرخہ چلایا:

”صاحب انصاف امیر، آپ کے انصاف کے سامنے تو انصاف خود شرمندہ ھے! اے رحیم اور دانشور امیر ! فیاض امیر، زمین و آسمان کی شان و شوکت ھمارے مقدس امیر!“

اس بار خاوشامدیوں نے تعریفوں سع اس طرح آسمان اٹھا لیا کہ امیر کی نیند ٹوٹ گئی اور اس نے غصے سے ڈانٹ کر ان کو چُپ رھنے کے لئے کہا۔ وہ سب ساناٹے میں آ گئے ۔ چوک پر مجمع بھی خاموش تھا ۔ اچانک زوردار ، سمع خراش رینگنے کی آواز نے اس عام خاموشی کو توڑا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ خواجہ نصرالدین کا گدھا تھا۔ یا تو وہ ایک جگہ کھڑے کھڑے تنگ آچکا تھا یا پھر اس نے اپنے کسی لمبے کانوں والے بھائی کو دیکھ لیا تھا جس سے وہ صاحب سلامت کرنا چاھتا تھا ۔ بھر حال ھوا یہ کہ وہ رینگنے لگا ، دُم اوپر اٹھا دی ، تھوتھن آگے بڑھا دیا اور زرد زرد دانت نکوس دئے ۔ اس کی آواز کان پھاڑ دینے والی اور قابو سے باھر تھی اور اگر وہ ایک لمحے کے رکتا بھی تھا تو محض سانس لینے کے لئے ، اپنے جبڑے زیادہ کشادہ کرنے اور زیادہ زور سے رینگنے اور چیخنے کے لئے۔

امیر نے اپنے کان بند کر لئے ۔ پہرے دار مجمع کی طرف جھپٹے۔ لیکن خواجہ نصرالدین وھاں سے دور تھے۔ انھوں نے اپنے رینگتے ھوئے گدھے کو کھیچتے اور دھکا دیتے ھوئے زور زور سے اسے ملامت کی۔

”بد ذات گدھے، تو کس بات پر خوش ھے۔ کیا تو ھمارے امیر کے رحم و کرم کی تعریف اتنا شور مچائے بغیر نہیں کرسکتا؟ شاید تو اس طرح دربار کا سب سے بڑا خوشامدی بننا چاھتا ھے؟“

مجمع میں ان باتوں پر زور سے قہقہہ پڑا اور لوگوں نے خواجہ کو نکلنے کا رستہ دیا اور قبل اس کے کہ پہرے دار ان تک پہنچ سکیں جگہ پھر گِھر گئی۔ اگر چہ وہ خواجہ نصرالدین کو پکڑ پاتے تو اس بدتمیزی سے بدامنی پیدا کرنے کے لئے ان کے دُرے لگاتے اور ان کا گدھا ضبط کر لیتے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


(12)



”فیصلہ ھو گیا اور اب تمھارے اوپر میرے اختیار کی کوئی حد نہیں“ سود خور جعفر نے کمھار نیاز اور اس کی بیٹی گل جان سے عدالت چھوڑنے کے بعد کہا ۔ ”میری حسینہ جب سے تجھے دیکھنے کا اتفاق ھوا میرے دل کا صبر و قرار جاتا رھا۔ مجھے نیند نہیں آتی۔ جلدی سے اپنا چہرہ دکھا۔ آج ٹھیک ایک گھنٹے میں تو میرے گھر میں ھوگی۔ اگر تو مجھ پر مہربان ھوئی تو میں تیرے باپ کو ھلکا کام اور اچھا کھانا دونگا۔ اگر تو نے ضد کی تو اپنی آنکھوں کی قسم میں اس کو کچے مٹر کھانے کو دونگا اور اس سے پتھر ڈھلواؤنگا اور خیوا والوں کے ہاتھ فروخت کر دونگا جو تجھے معلوم ھے اپنے غلاموں پر بڑا ظلم کرتے ھیں، ضد مت کر، پیاری گل جان ، اپنی صورت دکھا دے مجھے!“

اپنی ٹیڑھی عیاش انگلیوں سے اس نے گل جان کی نقاب ذرا کھسکائی ۔ اس نے غصے سے سود خور کا ہتھ جھٹک دیا ۔ گل جان کا چہرہ ایک لمحہ کے لئے کھلا لیکن یہ خواجہ نصرالدین کے لئے کافی تھا جو ادھر سے اپنے گدھے پر گذر رھے تھے ۔ لڑکی کا حُسن ایسا جانگداز تھا کہ خواجہ نصرلادین پر تقریبا غشی طاری ھوگئی۔ ان کی آنکھوں میں دنیا تاریک ھوگئی، دل کی دھڑکن رُک گئی، وہ خود زرد پڑگئے اور گدھے کی پیٹھ پر لڑکھڑائے۔ انھوں نے پریشان ھو کر اپنی آنکھیں ڈھک لیں۔ ان پر اچانک محبت نے اپنی بجلی گرا دی۔ سنبھلنے میں ذرا وقت لگا۔

”اور یہ لنگڑا، کبڑا ، کانا لنگور اس حسینہ کی محبت کا دم بھرتا ھے جس کا حُسن دنیا میں بے مثال ھے!“ انھوں نے اپنے آپ کہا ” ارے ، ھائے، میں نے اس کو کل پانی سے باھر کیوں نکالا؟ اب تو میں نے اپنے پیروں پر کلھاڑی مار لی۔ لیکن دیکھا جائے گا، بد ذات سود خور! ابھی تو تم کمھار اور اس کی بیٹی کے آقا نہیں ھو۔ ان کو ابھی ایک گھنٹے کی مہلت ھے اور خواجہ نصرالدین ایک گھنٹے میں اس سے زیادہ کرسکتا ھے جتنا کوئی اور ایک سال میں نہیں کر سکتا ھے۔“
 
Top