ناصر کاظمی خیالِ ترکِ تمنا نہ کر سکے تو بھی

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
خیالِ ترکِ تمنا نہ کر سکے تو بھی
اداسیوں کا مداوا نہ کر سکے تو بھی

کبھی وہ وقت بھی آئے کہ کوئی لمحہ عیش
مرے بغیر گوارا نہ کر سکے تو بھی

خدا وہ دن نہ دکھائے تجھے کہ میری طرح
مری وفا پہ بھروسا نہ کر سکے تو بھی

میں اپنا عقدہء دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں
بڑا مزہ ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی

تجھے یہ غم کہ مری زندگی کا کیا ہوگا
مجھے یہ ضد کہ مداوہ نہ کر سکے تو بھی

نہ کر خیالِ تلافی کہ میرا زخمِ وفا
وہ زخم ہے جسے اچھا نہ کر سکے تو بھی
 

طارق شاہ

محفلین
خیالِ ترکِ تمنا نہ کر سکے تو بھی
اداسیوں کا مداوا نہ کر سکے تُو بھی

کبھی وہ وقت بھی آئے کہ کوئی لمحۂ عیش
مِرے بغیر گوارا نہ کر سکے تُو بھی

خدا وہ دن نہ دکھائے تجھے کہ میری طرح
مری وفا پہ بھروسا نہ کر سکے تُو بھی

میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں
بڑا مزا ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی

تجھے یہ غم کہ مِری زندگی کا کیا ہوگا
مجھے یہ ضد کہ مداوا نہ کر سکے تُو بھی

نہ کر خیالِ تلافی کہ میرا زخمِ وفا !
وہ زخم ہے جسے اچھا نہ کر سکے تُو بھی
بہت خوب!
بہت سی داد قبول کیجئے اس انتخابِ خوب پر
بہت خوش رہیں
 
تجھے یہ غم کہ مری زندگی کا کیا ہوگا
مجھے یہ ضد کہ مداوہ نہ کر سکے تو بھی
ناصر کاظمی میرے پسند دیدہ شاعروں میں سے ایک ہیں۔ غزل میں سادگی رکھ کر بہت گہری باتیں کہہ جاتے ہیں .
شکریہ عینی اتنے اچھے انتخاب کے لیے :)
 
Top