خود کلامی - من کی باتیں

"صومالیہ کے قحط سے بچنے کے لئے بیتاب ایک ماں، اپنے دونوں بچوں کو باری باری گود میں لے کر چلتی رہی، تب تک جبتک وہ سب اتنے کمزور ہوگئے کے ماں کے اندر صرف ایک ہی بچے کی طاقت رہ گئی-
اس نے اپنے دونوں بچوں کی طرف دیکھا اور دعا مانگی، پھر اس نے ایک بچے کو راستے میں چھوڑ دینے کا انتہائی تکلیف دہ فیصلہ کیا تاکہ دوسرے بچے کو بچا سکے- "-- یو ایس ایڈ ایڈمنسٹریٹر، راجیو شاہ
" کیا وہ کسی بھی طور ہمارے بچوں سے کمتر تھے؟ کیا ان کے باپ ان سے کم محبّت کرتے تھے؟ کیا انکی مائیں ؟ کیا خدا کو وہ کم پیارے تھے؟ " شاہ نے چھ فروری کو واشنگٹن میں نیشنل پریئرز بریک فاسٹ (National Prayers Breakfast ) پر موجود سو ملکوں کے تین ہزار شرکاء سے سوال کیا- جواب کسی کے پاس نہیں تھا-
سنہ دو ہزار گیارہ کی ایسٹ افریقہ خشک سالی
صومالیہ، جبوتی، ایتھوپیا، کینیا، یوگنڈا
کل اموات: پچاس ہزار تا دو لاکھ ساٹھ ہزار
 
آخری تدوین:
ایک نئی سائنسی تحقیق کا نتیجہ ایسے بہت سے والدین کی غلط فہمی دور کر سکے گا جنہیں اپنے چہیتے بچوں سے شکایت رہتی ہے کہ وہ اپنے کسی مشغلے کے دوران جان بوجھ کر ان کی آواز کو نظرانداز کردیتے ہیں۔
لندن (نیٹ نیوز) ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچوں کو بالغوں کے مقابلے میں اردگرد کا ماحول اس وقت بالکل نظرنہیں آتا جب ان کی توجہ کسی ایک جگہ پر مرکوز ہوتی ہے ۔تحقیق کے مطابق 14 برس سے کم عمر بچوں میں بالغان کی نسبت اس بات کا امکان زیادہ ہوتا ہے کہ وہ کسی کام میں منہمک ہوکر اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھنے کے قابل نہیں رہتے یا ان کی نظریں نکتہ نظر سے ہٹ کر کچھ دیکھ نہیں سکتیں۔تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ بچوں میں توجہ کے مرکز سے باہر بیداری کی صلاحیت عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے ۔لہٰذا کم عمربچے دوسری طرف توجہ نہ دینے کا شکار رہتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
حضرت مجھے نہیں معلوم کہ آپکے نزدیک فحاشی کی کیا تعریف ہےمگر میرے نزدیک فحاشی وہ چیز ہے جو آپکو اپنے بچوں اور اپنے پیاروں کے حوالے سےخوفزدہ کردے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس پر اجماع کے نا ہونے کا سوال کیونکر پیدا ہوسکتا ہے
متفق۔۔۔میں تو خود سوچتی ہوں کہ میرے بچوں کے لئے میں کیسا پاکستان چھوڑ کے جاؤں گی؟
 

جاسمن

لائبریرین
"صومالیہ کے قحط سے بچنے کے لئے بیتاب ایک ماں، اپنے دونوں بچوں کو باری باری گود میں لے کر چلتی رہی، تب تک جبتک وہ سب اتنے کمزور ہوگئے کے ماں کے اندر صرف ایک ہی بچے کی طاقت رہ گئی-
اس نے اپنے دونوں بچوں کی طرف دیکھا اور دعا مانگی، پھر اس نے ایک بچے کو راستے میں چھوڑ دینے کا انتہائی تکلیف دہ فیصلہ کیا تاکہ دوسرے بچے کو بچا سکے- "-- یو ایس ایڈ ایڈمنسٹریٹر، راجیو شاہ
" کیا وہ کسی بھی طور ہمارے بچوں سے کمتر تھے؟ کیا ان کے باپ ان سے کم محبّت کرتے تھے؟ کیا انکی مائیں ؟ کیا خدا کو وہ کم پیارے تھے؟ " شاہ نے چھ فروری کو واشنگٹن میں نیشنل پریئرز بریک فاسٹ (National Prayers Breakfast ) پر موجود سو ملکوں کے تین ہزار شرکاء سے سوال کیا- جواب کسی کے پاس نہیں تھا-
سنہ دو ہزار گیارہ کی ایسٹ افریقہ خشک سالی
صومالیہ، جبوتی، ایتھوپیا، کینیا، یوگنڈا
کل اموات: پچاس ہزار تا دو لاکھ ساٹھ ہزار
نو کمنٹس
 
بیمار بچہ کا پروٹوکول
مجھے یاد ہے جب میں بچپن میں بیمار پڑتا تھا تو اسپیشل ٹریٹمنٹ ملتی تھی۔ امی آگے پیچھے ہوتیں، دادی پہلے سے زیادہ پیار کرتیں، داد ا پیٹھ پر لئے بہلانے کی کوشش کرتے اور ابو کی دبی ہوئی شفقت و نرمی عیاں ہوجاتی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ان دنوں میں نت نئے اور مہنگے کھلونے دلائے جاتے اور ہر قسم کی فرمائش پوری کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ منہ کی کڑواہٹ، جسم میں درد کی شدت، اعصاب کی کمزوری اورزود حسی چین نہیں لینے دیتی تھی ۔ اس بے چینی میں ماں کا پیار برا لگتا، دادا دادی کا لاڈ بے وقعت محسوس ہوتا اور ابو کی شفقت بے معنی محسوس ہوتی تھی۔ ان تکالیف کے سبب اس اسپیشل پروٹوکول کا احساس و ادراک ہی نہ ہوتا تھا ۔ لیکن جونہی صحت نصیب ہوتی تو ساری باتیں یاد آجاتی اور دوبارہ بیمار پڑنے کاجی چاہتا تھا۔
آج جب کوئی شخص معذور ہوتا تو وہ خود کو تکلیف میں گھرا محسوس کرتا ہے ۔ جب وہ کسی غم میں مبتلا ہوتا تو رنج و الم کو اوڑھنا بچھونا بنا تا، کسی صبر آزما مرض کا شکار ہوتا تو مایوسی کا دامن تھام لیتاہے۔ لیکن وہ اس حقیقت سے بے خبر ہےکہ وہ اسپیشل ہے، بہت اسپیشل ، بہت ہی خاص۔ اس کے گردخدا کے فرشتے کھڑے ہیں جو اپنے رب کے حکم پر اس کے لاڈ اٹھانے کے لئے تیار ہیں، جو اس کے لئے نعمتو ں کے کھلونے لئے حاضر ہیں، جو اس کی بلائیں لے رہے ، جو اس پر واری ہورہے ، اس پر خدا کی جانب سے شفقت و رحمت نچھاور کررہے ، اس کے ہر درد پر گناہ جھاڑ رہے اور ہر آہ کو نیکیوں میں بدل رہےہیں۔لیکن اس بیمار شخص کو یہ فرشتے نظر نہین آتے، اسے خدا کی شفقت محسوس نہیں ہوتی ، اسے ان دیکھی رحمتیں سمجھ نہیں آتیں ، اسے نعمتوں کے وعدے برے لگتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی بیماری، رنج ، الم اور پریشانی سے اٹھ کر دیکھنا ہی نہیں چاہتا۔
جب آخرت میں اس شخص پر یہ حقیقت واشگاف ہوگی تو وہ حیران رہ جائے گا۔ اسے نظر آجائے گا کہ اس کے ہر آنسو کے بدلے جنت کی نہریں تھیں، اس کی ہر آہ کا نتیجہ جنت کی باد صبا تھی، اس کی ہر بے چینی کا اجر فردو س کی بے خوف زندگی تھی، اس کے ہر صبر کی جزا رب کی محبت بھری نگاہ تھی۔وہ یہ سب جان کر اس بچے کی طرح خواہش کرے گا کہ کاش وہ دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے اور دوبارہ انہیں مصیبتوں میں گرفتا ر ہوکر صبر کرے تاکہ پھر فرشتے اس کے گرد طواف کریں ، پھر خدا کی شفقت کا نادیدہ ہاتھ اسے اپنے سر پر محسوس ہو اور پھر سے وہ خدا کی جانب سے دئیے گئے کھلونوں سے بہلایا جائے۔
professor Aqeel
 
کہتے ہیں سخت سردی میں کچھ خارپشت بیٹھے تھے. سردی سے انکا برا حال تھا تھوڑی سی حرارت پا لینے کی طمع میں ایک دوسرے کے قریب آئے تو انکے جسموں پہ لگے کانٹے ایک دوسرے کو زخمی کرنے لگے, دوبارہ ایک دوسرے سے ہٹ کر بیٹھے تو پھر سردی مارنے لگی . کوئی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایک دوسرے سے چپک کر بیٹھیں تو اپنے کانٹوں سے ایک دوسرے کو زخمی کر دیں یا پھر دور جاکر بیٹھیں اور سردی سے ٹھٹھر کر مر جائیں
بالآخر انہوں نے اس حقیقت کو پا لیا کہ قربت ہو مگر ایک حد کے اندر رہ کر.
ایک دوسرے کی حرارت تو پہنچتی رہے مگراس احتیاط کے ساتھ کہ کانٹے نہ چبھیں,
اور اسی طرح ہمیں انسانوں کی دنیا میں کرنا چاہئے کیونکہ لوگ بھی خار پشتوں کی طرح ہوتے ہیں____ اپنے جسم پہ لگے ہوئے غیر مرئی کانٹوں کے ساتھ_____ یہ کانٹے ہر اس شخص کو چبو کر زخمی کر دیتے ہیں جو بغیر کسی ضابطے کے نزدیکیاں چاہتے ہوں____ اور دوریوں کی اذیت اور فراق کے الم بھی مار ڈالتے ہیں.
دیکھ لینا چاہئے کہ لوگوں سے میل ملاپ میں کس قدر بے تکلفی مناسب رہے گی تاکہ قربت کے فوائد سے زیادہ اذیت نہ اٹھانی پڑے____ یا پھر دوری سے تعلقات پہ اوس نہ پڑے.
 
سوال : ہمارے علماء کی یہ حالت ہے کہ اگر ایک عام آدمی اسلام کی واقفیت حاصل کرنے یا اسلام کے مظابق زندگی بسر کرنے کا طریقہ سیکھنے کے لئے ایک عالم کے پاس جاتا ہے تو وہ جہاں اس کی راہنمائی کرتا ہے وہاں دوسروں کو خوب لتاڑتا ہے،دوسرے کے پاس جاتا ہے تو وہ پہلے کو کافر،گمراہ اور نہ جانے کیا کیا کہتا ہے،اس طرح ہر عالم دوسرے کے خلاف زہر اگلتا ہے توسوال پیدا ہوتا ہے کہ عام آدمی ایسے حالات میں اسلام پر عمل کرے تو کیسے اور سیکھے تو کہاں سے؟

جواب: اس عقدے کا حل کوئی زیادہ مشکل تو نہیں البتہ اس راہ کی ایک رکاوٹ عام ہے کہ انسان کے سامنے روزمرہ زندگی مین بے شمار ایسے مناظر آتے ہیں کہ وہ فی نفسہ ٹھوس حقائق ہوتے ہین اور انسان ان سے بڑے قیمتی سبق سیکھ سکتا ہے لیکن انسان ان مناظر پر کوءی توجہ نہیں دیتا اور سرسری نگاہ کرکے وہان سے گزر جاتا ہے اس عقدے کے حل کے ضمن میں بھی یہی صورت ھال پیش آئی ہے اس اجمال کی تفصیل کچھ یوں سمجھئے کہ آپ کسی قصبے میں گھوم جائیں وہاں آپ کو جا بہ جا ڈاکٹروں اور طبیبوں کی دکانیں نظر آئیں گی، کوئی ایلو پیتھ ہے کوئی ہومیو پیتھ ہے کسی نے حاذق الحکماء کا بورڈ لگایا ہوا ہے کوئی آیورویدک طریق علاج اپنائے بیٹھا ہے اب صورتحال یہ ہے کہ ایک عام مریض جب کسی ہومیوپیتھ کے پاس جات اہے تو وہ ایلو پیتھی اور یونانی طب پر یوں برستا ہے جیسے یہ لوگ صرف اس لیے دکان کھولے بیٹھے کہ مریضوں کہ موت کے ویزے جاری کرتے رہیں اسی طرح اگر وہ کسی ایلو پیتھ کے پاس جاتا ہے تو وہ ہومیو پیتھی کے وہ بخئیے ادھیڑتا ہے کہ خدا کی پناہ اور طب یونانی کہ وہ صلواتیں سناتا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے یہ حالات روزمرہ زنگی میں عام پیش آتے ہیں مگر ایک عام آدمی جو علاج کرانا چاہتا ہے یہ نہیں سوچتا کہ میں کہان جاوں اور کس سے علاج کراوں یا سرے سے علاج کرانے کے مجعلق سوچنا ہی چھوڑدوں یا یہ کہ اپنی اٹکل سے اپنا علاج کرنا کود ہی شروع کردوں- بلکہ عام آدمی یہ سوچتا ہے کہ یہ سب ڈاکٹر اور طبیب ایک دوسرے کے مخالف سہی مجھے اپنے علاج سے غرض ہے اس لیے اس کی فکر کروں چنانچہ اس غرج کے لیے وہ مختلف احتیاطی تدابیر کرتا ہے مثلا سب سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ طبیب یا ڈاکٹر کی شہرت اچھی ہے کس کا برتاؤ مریضوں کے ساتھ مشفقانہ ہے اور کس کے پاس آنے والے مریضوں میں سے اکثر شفایاب ہوتے ہیں- یعنی یہ دیکھتے ہیں کہ کس کے ہاتھ میں شفا ہے بس اس پر اعتماد کرے اس سے علاج کرانا شروع کردیتے ہیں-دین کے معاملے میں بھی یہی روش مناسب معلوم ہوتی ہے ایک عام آدمی کو جسے دیں سے واقفیت نہیں اسے یہ احساس ہونا چاہیئے کہ روح کی صحت کے لیے دین کی واقفیت ہونا اور اس کے مطابق عملی زندگی بسر کرنا ضروری ہے اور چونکہ مجھ میں ان دوںوں اوصاف کی کمی ہے لہذا میری حیثیت ایک بیمار کی ہے دوسرا اس کے اندر یہ احساس بیدار ہونا چاہیے کہ کھے اپنے علاج کی فکر کرنی چاہیے تیسرا مرحلہ معالج کی تلاش کا ہوگا علمائے ربانی کی حیثیت معالج کی ہے مگر جیسا کہ دیکھا گیا ہے کوئی چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے اس کی نقل تیار ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور جعل سازوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے اس لئے اس مقام پر نقلی اور اصلی معالج میں تمیز کرنے کا سلیقہ بھی آنا چاہیے جہاں علمائے ربانی سے دنیا خالی نہیں ہے وہاں علمائے سؤ یعنی نقلی علماء کی بھی کثرت ہے مگر نقلی کرنسی دیکھ کر اصلی سے بھی اعتماد اٹھ جانا اور سرے سے کرنسی کا ہی انکار کردینا اپنی روزمرہ زندگی کو دوبھر بنا دینا ہے ،رہا سوال کہ ان کی پہچان کیا ہے تو اس معاملے میں بھی عامی کو وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو جسمانی امراض کے علاج میں مروج ہے کہ یہ دیکھے اس عالم کے پاس بیٹھنے والوں کی سیرت مین کوئی خوشگوار تبدیلی آتی ہے یا نہیں اس کے شاگردوں میں دنیوی لذات میں محویت کا جنون سوار ہے یا فکر آخرت ان کی عملی زندگی میں غالب نظر آتا ہے اس کی مجلس میں بیٹھنے سے اللہ کی طرف دل کا رجوع ہوجاتا ہے یا نہیں، جہاں یہ باتیں پائی جائیں ایک عامی کو پورے اعتماد سے اللہ کے بھروسے پر ایسے عالم سے دین سیکھنا چاہیے

یہ سوال اکثر ان ذہنوں میں ابھرتا ہے جن کو دین کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوجانے کے حادثے کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں دین سے عملا جان چھڑانے کا بہانہ تلاش کرتے ہیں اور یہ بظاہر معقول بہانہ بن جاتا ہے کہ ہم کہاں جائیں یہ فلسفہ سمجھ میں نہیں آتا کہ " جب علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے تو دین سے ہی دست بردار ہوجانا چاہیے" بھلا یہ بھی عقل کا فیصلہ کہلا سکتا ہے-
 
لوگ کہتے ہیں علماء نے امت میں تفرقہ پیدا کیا۔

میں کہتا ہوں علماء تو چودہ سو سال سے ہیں،
اگر تفرقہ علماء کا پیدا کردہ ہے تو تفرقہ کی عمر بھی چودہ سو سال ، یا کم از کم ہزار سال تو ہونی چاہیئے تھی،

لیکن تفرقہ سو، ڈیڑھ سو سال ہپلے اس وقت پیدا ہوا جب علماء کی شایان شان ابحاث کو عوام نے اپنا وطیرہ بنالیا۔
اس کا احساس مجھے شدت سے اس وقت ہوا جب
کچھ روز پہلے میں ایک جگہ سے گزرا تو دیکھا کہ ایک میکنک اور کارپینٹر میں مذہبی بحث چھڑی ہوئی ہے اور سرد جنگ کی سی کیفیت ہے،
دیکھا تو دونوں انبیاء کے علم غیب پر بحث کر رہے تھے۔
شدید حیرانگی ہوئی کہ اتنی دقیق بحث کہاں بے آبرو ہورہی ہے،
بندہ کو پہلے اپنی بساط دیکھنی چاہیئے پھر پاؤں پھیلانے چاہیئیں۔
ورنہ آج کل تو ہر کوئی قران کی تفسیر لکھنے بیٹھ گیا ہے۔

تحریر: قاضی محمد حارث
 
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چوبیس آدمی ایک مقام پر جنگل میں درخت کاٹ رہے تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی ۔وہ نزدیک ہی ایک بڑے کمرے میں بارش سے بچنے کا انتظار کرنے لگے۔ اتنے میں آسمانی بجلی زور زور گھن گرج سے کمرے کی چھت پر سے ہو کر واپس چلی جاتی اور سلسلہ آسمانی بجلی کا تیز ہو گیا۔ چوبیس آدمیوں نے مشورہ کیا لگتا ہے کہ ہم میں سے بجلی کسی آدمی پر پڑنی ہے۔ اس طرح کرتے ہیں کہ ہر آدمی ایک ایک کر کے کمرے سے باہر جائے جس آدمی پر بجلی پڑنی ہو گی پڑ جائے گی۔ باقی بچ جائیں گے۔ اس طرح تمام آدمی کمرے سے باری باری باہر گئے اور بچ کر واپس آ گئے۔ آخر چوبیسویں آدمی کو مل کر اٹھایا اور باہر پھینکا اور کہنے لگے کہ اس کی وجہ سے ہم سب پریشان تھے۔ آسمانی بجلی بڑی زور سے کمرے پر پڑی تمام آدمی جل کر راکھ ہو گئے۔ صرف چوبیسویں آدمی کی زندگی کی وجہ سے 23 آدمی بچ رہے تھے۔ اور اب وہ تمام تو ختم ہو گئے مگر 24 واں آدمی بچ گیا۔ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے ہم دوسروں کو قصوروار سمجھ رہے ہوتے ہیں مگر قصور ہمارا اپنا ہوتا ہے اور ہم کسی اور کے سبب پریشانی اور مصیبت سے بچ رہے ہوتے ہیں لیکن ہم کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا -
 
تیس لاکھ آدمی بیت اللہ کا پردہ پکڑ کر روتے ھیں 29ویں رمضان کو۔ امام کعبہ ایک گھنٹہ دعا کرا کر رو رو کر ہلکان ھو جاتا ھے۔ پیچھے تیس لاکھ آدمی رو رو کر آمین کہتے ھیں۔ پھر بھی آسمان کے دروازے نہیں کھلتے۔ اللہ کو تو کوئی ایک پکارے تو عرش میں ھلچل شروع ھو جاتی ھے، آسمان کے دروازے کھڑکھڑانے لگتے ھیں۔۔۔۔
ساری رات ننگے ناچ اور فوٹو دیکھتی نسل،
تجارت سود پہ ھو،
اولادیں ماں باپ کی نافرمان ہوں،
راتوں کو شراب و زنا ہو،
بازراوں میں تجارت کی نام پر جوا، سود و سٹہ ھوں،
ھر ایک چیز میں ملاوٹ ھو،
ظلم و بربریت کا بازار گرم ھو،
دھوکہ دھی عام ھو،
جھوٹ کا بول بالا ھو،
مظلوم کی آہیں آسمان تک پہنچتی ھوں اور اسکی داد رسی کرنے والا کوئی نہ ھو،
لڑکیاں بے حجاب ھوں،
لڑکی کو پیار کے نام پر پھنسانا اعزاز ھو،
اپنی عزت اعلی اور دوسرے کی عزت کو ادنی جس معاشرے کا روز کا معمول ھو،
قتل و غارت عام ھوں،
حکومت کے نام پر فرعونیت ھو اور افسر شاہی کے نام پر خیانت اور بددیانیتی ھو ،
تو ھماری دعائیں کیسے قبول ھوں گی۔۔۔
طارق جمیل صاحب
 
بیٹی بد دل ہو کر میکے آ گئی باپ نے کہا تمہارے ہاتھ کا کھانا کھائے بہت دن ہو گئے ہیں، آج میرے لیے ایک انڈا اور ایک آلو ابال دو اور ساتھ میں گرما گرم کافی، لیکں بیس منٹ تک چولہے پر رکھنا
جب تیار ہو گیا تو کہا آلو چیک کر لو، ٹھیک سے گل کر نرم ہو گیا ہے، اب انڈا چھو کر دیکھو ہارڈ بوائل ہو گیا، کافی چیک کرو، رنگ اور خوشبو آ گئی ہے؟
بیٹی نے چیک کر کے بتایا کہ سب پرفیکٹ ہے
باپ نے کہا، دیکھو تینوں چیزوں نے گر م پانی میں یکساں وقت گزارا اور برابر کی تکلیف برداشت کی، آلو سخت ہوتا ہے اس آزمائش سے گزر کر نرم ہو گیا انڈہ نرم ہوتا ہے گرے تو ٹوٹ جائے لیکں اب سخت ہو گیا ہے اور اس کے اندر کا لیکوڈ بھی سخت ہو گیا ہے، کافی نے پانی کو خوش رنگ ، خوش ذائقہ اور خوشبودار بنا دیا ہے
تم کیا بننا چاہو گی آلو ، انڈہ یا کافی، یہ تمھیں سوچنا ہے یا خود کو تبدیل ہو جاو یا کسی کو تبدیل کر دو، ڈھل جاو یا ڈھال دو، یہی وقت گزارے کا فن ہے سیکھنا اپنانا تبدیل ہونا، تبدیل کرنا، ڈھالنا، ڈھل جانا یہ اسی وقت ممکن ہے جب نباہ کرنے کا عزم ہو، کم ہمت منزل تک نہیں پہنچتا، راستے میں ہلاک ہو جاتا ہے
 
ایک انمول حدیث قدسی کا مفہوم
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،اللہ تعالیٰ انسان سے فرماتا ہے کہ اے ابنِ آدم! ایک میر ی چا ہت ہے اور ایک تیری چاہت ہے، ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔ پس اگر تو نے سپرد کر دیا خود کو اس کے جو میری چاہت ہے تو وہ بھی میں تجھے دوں گا جو تیری چاہت ہے۔ اگر تو نے مخالفت کی اس کی جو میری چاہت ہے، تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں جو تیری چاہت ہے۔ ہوگا پھر وہی جو میری چاہت ہے۔
اور واقعی اللہ کا وعدہ سچا ہے ” اگر تو نے مخالفت کی اس کی جو میری چاہت ہے، تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں جو تیری چاہت ہے۔“ہم نے اللہ کی نافرمانی کی راہ اختیار کی اور ترقی کرنا چاہی،استحکام پیدا کرنا چاہا،معیشت مضبوط کرنا چاہی،خزانہ بھرنا چاہا،کشمیر آزاد کرانا چاہا لیکن کچھ بھی حاصل نہ ہوا،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمادیا کہ ’ہوگا وہی جو میری چاہت ہے
 
دین میں سختی نہیں نرمی ہے، احساس اس دین کا اثاثہ ہے، کبھی غریبوں کا
کبھی بیواؤں کا
کبھی یتیموں کا
کبھی بچوں کا
تو کبھی عورتوں کا۔
اس سے زیادہ میں اس دین کی مثال کیا دوں
جس میں حقوق اللہ قابل معافی ہوسکتے ہیں لیکن حقوق العباد نہیں
 
ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭِ ﺧﻼﻓﺖ ﻣﯿﮟ
’’ﺷﮑﺎﯾﺖ‘‘ ﮐﯽ ﮐﮧ’’ :ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﮍﮮ ﻣﮑﻮﮌﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔‘‘
ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ
ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ
ﺭﺧﺼﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ’’ :ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺭﻓﻊ
ﮐﺮ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔‘‘
ﻭﮦ ﺗﻮ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ۔ ﺩﺭﺑﺎﺭﯼ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ
ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﺗﮏ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ, ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽ
ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺭﻓﻊ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯿﺎ
ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔
ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮔﻮﻧﺠﯽ’’ :ﺍﻣﯿﺮِ
ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﺎﻝ! ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﺳﮯ
ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﮐﮭﺠﻮﺭ, ﺷﮩﺪ, ﺟﻮ،
ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺘﻮﻥ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﺩﻭ‘‘!
’’ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮ! ﺳﻨﻮ!
ﺟﺲ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮨﻮ
ﻭﮨﺎﮞ ﮐﯿﮍﮮ ﻣﮑﻮﮌﻭﮞ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﺎﻡ؟
الله ہم سب کو حلال اور بابرکت رزق عطا فرمائے۔آمین
 
ہم /آپ اس وقت جس سال میں جی رہے ہیں اسے 2014
کہا جاتا ہے۔
آئیں صرف ایک ہندسے کی تبدیلی کرتے ہیں۔۔ اور فرض کرتے ہیں کہ یہ
2114
ہے۔
اب اس مفروضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ آپ کہاں ہیں ، ہم کہاں ہیں ؟۔
ہماری /آپ کی مال و دولت کہاں ہے؟۔
ہماری /آپ کی نوکری کہاں ہے؟۔
ہماری /آپ کی فیملی کہاں ہے؟۔
ہمارے /آپ کے عہدے، رسائیاں، عزت، شہرت کہاں ہے؟۔
دو ہزار تیرہ کی بجائے اکیس سو تیرہ تصور کرنے سے بلاشبہ اوپر والی چیزیں ہمیں ختم ہی دکھائی دیں گی۔
ہاں اگر نہیں ختم ہوگا تو وہ ہیں ہمارے اعمال۔ چاہے نیک اعمال ہوں یا برے اعمال۔
بالکل اسی طرح جس طرح
2014
میں یہی کچھ
1913, 1813, 1713
میں آب و تاب کے ساتھ جینے والے لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔
کہاں گئے وہ سب؟۔ کہاں گیا ان کے زمانے کی بادشاہت و فقیری کا فرق؟۔ کہاں گئے عہدے، مال و دولت، عارضی شہرت، عزت وغیرہ؟۔
ہاں جس نے اچھے اعمال کئے۔ چاہے حقوق اللہ کے درجے میں ہوں یا حقوق العباد کے درجے میں، وہ امر ہوگیا۔
شیطان بہکاتا ہے کہ ہم یہاں پر بہتتتتتتتتت لمبے عرصے تک جینے کے لئے آئے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم مسافر ہیں۔ ہماری منزل کوئی اور ہے۔ ہم محض زاد راہ سمیٹنے آئے ہیں اپنی اگلی منزل کے لئے۔ جیسا زاد راہ ساتھ لے کے جائیں گے، ویسا ہی فائدہ یا نقصان ابدی منزل پر ہوگا۔ ہماری گاڑی بھی جلد یا بدیر آنے والی ہے۔ کسی بھی وقت قذاقِ اجل ہمیں ریسیو کرنے کے لئے ہارن بجا سکتا ہے۔ پھر ایک سیکنڈ بھی مہلت نہیں۔
دنیا کی محنت سے کس نے انکار کیا ہے، ضرور ہونی چاہئے۔
مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کی محنت بقدر ضرورت ہو اور آخرت کی محنت بقدر مشقت۔
آخر کیوں؟۔
کیونکہ قیامت کا پہلا دن ہی ایک روایت کے مطابق پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔ اور دوسری طرف کہاں یہ چالیس ، پچاس، ساٹھ برس کی عارضی زندگی؟۔
اس موازنے کے بعد تو ہر صاحب عقل کو سمجھ جانا چاہئے کہ کس چیز کی کتنی محنت درکار ہے۔۔
اگر ہماری ساری کی ساری محنتیں اس فانی دنیا کے لئے ہی ہوں گی تو یہ ایک ہندسے کی تبدیلی ہمارے لئے پچھتاوے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
دوسری طرف اگر ہم دنیا کے ساتھ ساتھ ابدی زندگی کی تیاری بھی کرتے رہیں اور کم سے کم اپنے تمام فرائض کو ہی بروقت اور بخوبی انجام دیتے رہیں ، ان میں بہتری لاتے رہیں، کمیوں کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہیں تو یہ ایک ہندسے کی تبدیلی بھی ان شاءاللہ کامیابیوں کا سبب بنے گی۔ اللہ ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین
 
"ہر شخص کی زندگی میں ایک ایسا لمحہ ضرور آتا ہےجب وہ تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہوتا ہےاور اس کے راز کھلنےوالے ہوتے ہیں اور اس وقت جب وہ خوف کے کوہ طور تلےکھڑا کپکپا رہا ہوتا ہےتو الله اسے بچا لیتا ہے۔ یہ الله کا احسان ہے اور اسےاپنا ایک ایک احسان یاد ہے..ہم بھول جاتے ہیں .وہ نہیں بھولتا..تم اپنے حل ہوئے مسئلوں کے لیےاس کا شکر ادا کیا کرو..جو ساری زندگی تمہارے مسئلے حل کرتا آیا ہےوہ آگےبھی کر دے گا۔ تم وہی کرو جو وہ کہتا ہےپھر وہ وہی کرے گا جوتم کہتی ہو۔ پھر جن کے لیے تم روتی ہو وہ تمہارے لیےروئیں گےمگر تب تمہیں فرق نہیں پڑے گا.."

میری زندگی میں بھی کئی لمحات ایسے تھے ، ایک لمحہ تو بہت ہی تباہ کن تھا، کہ اس کا تصور بھی ۔۔۔۔۔ پھر اللہ عزوجل، بزرگ و بر تر،کے احسان، مدد نے بچا لیا، وہ یقینا ستار العیوب اور غفار الذنوب ہے ساری تعریفیں اس کی ذات کے لیے ہیں
 
Top