خود فریبیاں

حسن علوی

محفلین
میں سوچتا ہوں کہ ہم روزمرہ کی زندگی میں خود کو کتنے فریب دیتے ہیں اور ان فریبوں کے سہارے چلتے رہتےہیں اور جن اب فریبوں کی حقیقت ہم پر کھلتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ ہماری زندگی ناکام ہے اور ہم نے زندگی سے کچھ حاصل نہیں جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ہم نے اپنی زندگی پر کبھی غور کیا ہی نہیں ہوتا اور یہ چیزیں ہماری اپنا پیدا کردہ ہوتی ہے ہم خود چاہتے ہیں کہ ہم غور و خوض نہ کریں اور زندگی کو سہل بنانے کے لیے فریب تراشتے رہیں۔ میری نظر میں چند فریب یہ ہیں

١- زندگی میں شارٹ کٹس کی تلاش۔۔۔
٢- غیر حقیقی امیدیں لگانا۔۔۔۔۔۔پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
٣- بنا سوچے سمجھے زندگی کی راہوں کا تعین کرنا
٤- ان مسافتوں میں اپنے آپ کو بھٹکا دینا
٥۔ بھیڑ کے پیچھے بلا سوچے سمجھے چلتے جانا
٦۔ زندگی کے جھمیلوں میں اپنی پہچان گنوا بیٹھنا

آخر کیوں!!!!!!

کیا آپ بھی ایسا سوچتے ہیں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بات صرف اتنی سی ہے کہ انسانی فطرت میں قناعت کا مادہ بہت کم ہے ۔ ہم زندگی کو سود و زیاں کے پیمانے میں تولنے کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ بعض فیصلہ کن مراحل کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں اور پھر جب وقت گزر جاتا ہے تو زندگی اور حالات کو الزام دینے لگتے ہیں۔۔اوربجائے اس غلطی سے سبق سیکھنے کے اکثر پچھتاوؤں میں گِھر کر ایک بار پھر اسی ادھیڑبن میں مصروف ہو جاتے ہیں اور پھر وہی روز و شب۔۔۔
 

حسن علوی

محفلین
جواب طلب

حاصل گفتگو نہایت مفید فرحت جی مگر کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اس منجدھار سے نکلنے کی کوشش بھی کریں!!!!
کیا اس بھنور سے نکلنا ہمارے بس کی بات ھے؟
اگر ھے تو کیسے؟
آپ کی مقدس رائے کا منتظر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
حسن تمہاری پوسٹ‌ پرمغز ہے اور تم نے اہم سوالات اٹھائے ہیں جن پر آج کے مصروف دور میں شاید ہمیں سوچنے کا موقع بھی نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ہے تو ہم خود کو مختلف فریب دے کر ٹال دیتے ہیں۔ ایک اور فریب جو ہم خود کو دیتے ہیں وہ ہے کہ ابھی ہمارے پاس بہت وقت ہے کچھ کام پہلے کر لیتے ہیں اور پھر باقی کام کر لیں گے اس طرح کئی بہت ضروری کام ہم آئیندہ پر ٹال دیتے ہیں اور جب وقت گزر جاتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ وہ کام اپنے وقت پر ہی کرنے تھے اور اب کیا حاصل انہیں کرنے کا۔ اس طرح خود کو ایک اور فریب دے لیتے ہیں کہ اب اس کام کا کیا کرنا اور یوں وہ کام دیر سے بھی نہیں کرتے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جواب طلب

حسن علوی نے کہا:
حاصل گفتگو نہایت مفید فرحت جی مگر کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اس منجدھار سے نکلنے کی کوشش بھی کریں!!!!
کیا اس بھنور سے نکلنا ہمارے بس کی بات ھے؟
اگر ھے تو کیسے؟
آپ کی مقدس رائے کا منتظر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جی ہاں بات تب ہی ہے جب ہم منجدھار سے نکلنے کو کوشش کریں۔۔ اور اس سے نکلنا صرف اور صرف ہمارے خود کے بس میں ہی ہے۔۔ وہ ایسے کہ ہم حال میں جینے کی عادت ڈال لیں۔۔ہم ماضی میں جیتے ہیں۔۔یا تو ماضی ہمیں بہت حسین لگتا ہے اور ہم اسی کو یاد کر کے آہیں بھرتے رہتے ہیں یا پھر ماضی میں ملے دکھ حال میں بھی ہماری ذات سے چمٹے رہتے ہیں۔۔اس کے ساتھ ساتھ مستقبل کے اندیشے ہمیں اس طرح ہولائے رکھتے ہیں کہ ہم حال سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔۔اور اس بے خبری کی خبر ہمیں تب ہوتی ہے جب یہ ماضی بن چکا ہوتا ہے۔۔
اشفاق احمد کو ایک بار کہتے سنا تھا کہ بچے کو بچپن ہی سے اپنے پیچھے دروازہ بند کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔۔اس کا مقصد یہ نہیں کہ ہوا یا کوئی جانور کمرے میں داخل ہو سکتا ہے۔۔۔ بلکہ اس کو یہ بات سکھانا مقصود ہوتا ہے کہ جب زندگی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوں تو اپنے پیچھے کے دروازوں کو بھول جاؤ اور صرف حال میں جیو۔۔یہ سوچو کس طرح زندگی کو با معنی بنایا جا سکتا ہے۔۔۔
اب یہ بات کہ ایسا ممکن ہے یا نہیں۔۔ایسا ممکن بھی ہے اور ہم زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر ایسا کرنا سیکھ بھی جاتے ہیں ۔۔صرف یہ ہے کہ کچھ لوگ جلدی سیکھ لیتے ہیں اور کچھ کو یہ ہنر بہت دیر سے آتا ہے۔۔
 

حسن علوی

محفلین
شو مئی قسمت

انسان بنائے خدا ڈھائے۔ ۔۔۔
معزرت کے ساتھ فرحت مگر اس میں اپنا قصور کم اور اس کلموئی ٹیکنالوجی کا زیادہ ھے، ہوا کچھ یوں کے آپکی پوسٹ کے جواب میں میں نے ایک عدد نہا یت ھی مفصل تحریر لکھی تھی مگر عین اس وقت جب سنڈ کرنے لگا تو سسٹم کچھ ایسا پھنسا کہ پھر restartھی کرنا پڑا، غصہ تو بہت آیا پر کمپیوٹر اپنا ھے یہ سوچ کر درگزر کیا۔ خیر آپکی اس پوسٹ کا جواب میری جانب ادھار رہا انشاللہ جلد ھی کروں گا۔ ۔ ۔ :)
 

حسن علوی

محفلین
تو کیا یہ طے ھے کہ

ایک وقفہ کے بعد پھر سے حاضر ہوں!!!

فرحت آپ نے کہا کہ انسان اپنے ماضی سے چمٹے رہتا ھےِ۔ ۔ ۔ ۔

میرا یہ خیا ل ھے کہ ایسا صرف اور صرف کمزور لوگ ہی کرتے ہیں جو زندگی کی تلخ حقیقتوں سے فرار چاہتے ہوں یاں پھر حالات کا مردانہ وار مقابلہ نہ کر سکتے ہوں۔
لیکن یہ حقیقت بھی مسلم ھے کہ ماضی سے بہر صورت مکمل طور پر پیچھا چھڑانہ بھی عین ممکن نہیں، زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ہم کو پلٹ کر پیچھے دیکھنا ہی پڑتا ھے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
تو کیا یہ طے ھے کہ

حسن علوی نے کہا:
ایک وقفہ کے بعد پھر سے حاضر ہوں!!!

فرحت آپ نے کہا کہ انسان اپنے ماضی سے چمٹے رہتا ھےِ۔ ۔ ۔ ۔

میرا یہ خیا ل ھے کہ ایسا صرف اور صرف کمزور لوگ ہی کرتے ہیں جو زندگی کی تلخ حقیقتوں سے فرار چاہتے ہوں یاں پھر حالات کا مردانہ وار مقابلہ نہ کر سکتے ہوں۔
لیکن یہ حقیقت بھی مسلم ھے کہ ماضی سے بہر صورت مکمل طور پر پیچھا چھڑانہ بھی عین ممکن نہیں، زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ہم کو پلٹ کر پیچھے دیکھنا ہی پڑتا ھے۔
قوتِ ارادی کمزور ہو یا مضبوط ۔۔ماضی انسان کی ذات کو حصہ ہے۔۔۔ اس کو بھلانا یا یکسر فرار ممکن نہیں۔۔
زندگی سکوت کا نام نہیں ہے۔۔اس لئے آگے بڑھنے کے لئے کسی حد تک ماضی(اچھا ہو یا بُرا ) کو ایک طرف کرنا پڑتا ہے۔۔۔اور ایسا ہر دو طرح کے افراد کرتے ہیں۔۔وہ جن کو آپ نے کمزور کا نام دیا،ذرا دیر سے اس حقیقت کو پاتے ہیں اور جو مضبوط ہوتے ہیں وہ جلدی جان جاتے ہیں۔۔ انسانی زندگی میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب اس کو اس حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے کہ زندگی “حال“ ہے۔۔۔ماضی پر بہت رونا اور مستقبل سے بہت ڈرنا زندگی کو مشکل کر دیتا ہے۔۔ویسے بھی ہر شے کا حُسن اعتدال میں ہے۔۔اسلام جو میانہ روی کا درس دیتا ہے۔۔اس سے بہتر زندگی گزارنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔۔۔
 
Top