خوباں خیال

صلال یوسف

محفلین
السلام علیکم
ہر دلعزیز شخصیت جناب سید شہزاد ناصر بھائی کے حکم کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے
اس میں نوری نستعلیق اور لاہوری نستعلیق کا استعمال ہوا ہے جبکہ اردو محفل رقعہ فانٹ میں ہے

2mx29et.jpg
 

نایاب

لائبریرین
بلاشبہ بہت خوب تصویر کیا خیال خوباں کو
بالیقین اک عہد کو خیال سے گزرتے پایا ہوگا ۔ محترم جناب ابو حمزہ نے ۔۔۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
 
جناب محمد وارث آپ جیسے اہل علم کی بات رد نہیں کر سکتا مگر نمونے کے چند شعر ملاحظہ ہوں
جس کا خوباں خیال لیتے ہیں
دل کلیجا نکال لیتے ہیں
گزرے ہے شب خیال میں خوباں کے جاگتے
آنکھیں لگا کے اُن سے میں ترسوں ہوں خواب کو
ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں
میر کو تم عبث اداس کیا
میر تقی میر
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
گوہر کو عقدِ گردنِ خوباں میں دیکھنا
کیا اوج پر ستارۀ گوہر فروش ہے
مرزا غالب
فکر ہي ٹھہري تو دل کو فکر ِ خوباں کيوں نہ ہو
خاک ہونا ہے تو خاک ِ کوئے جاناں کيوں نہ ہو
ادھر بھی نگاہِ کرم،میرِ خوباں
دو عالم ترے اک تبسم پہ قرباں
جوش ملیح آبادی
ان تمام اشعار میں "خوباں" ہے
کچھ اشعار جن میں "خوبان" لکھا گیا ہے
خوبانِ شہر بھی نہ ہوئے مجھ پہ ملتفت
میں بھی وہ بد دماغ کہ حسرت نہیں مجھے
انور شعور
جہاں تک میرا خیال ہے فارسی میں نون غنہ نہیں ہوتا
محمد یعقوب آسی صاحب کیا فرماتے ہیں اس بارے میں
 

محمد وارث

لائبریرین
کمال ہو گیا ہے سید صاحب، میں نے کب کہا کہ خوباں لفظ غلط ہے، فقط یہ کہا کہ جو شعر درج ہے اس میں "خوباںِ خیال" کی بجائے "خوبانِ خیال" چاہیے۔

مزید یہ کہ خوباںِ خیال یکسر غلط ہے، اس طرح کی اضافت میں نون غنہ کے ساتھ اضافت کبھی نہیں آتی بلکہ ہمیشہ نون معلنہ یعنی نقطے والے کی ساتھ آتی ہے جیسے "جہاںِ خیال" غلط ہے اور "جہانِ خیال" صحیح ہے۔

پھر بھی خطاط صاحب کے مداحین سےمعذرت خواہ ہوں کہ میرے "اعلانِ برملا" سے شاید دل آزاری ہوئی، لیکن شاعر بیچارے کا کیا کروں کہ جس کے شعر کا " خونِ ناحق" ہو گیا کہ "خوباںِ خیال" سے شعر وزن سے بھی گر گیا۔
 
آخری تدوین:
جناب محمد وارث آپ جیسے اہل علم کی بات رد نہیں کر سکتا مگر نمونے کے چند شعر ملاحظہ ہوں
جس کا خوباں خیال لیتے ہیں
دل کلیجا نکال لیتے ہیں
گزرے ہے شب خیال میں خوباں کے جاگتے
آنکھیں لگا کے اُن سے میں ترسوں ہوں خواب کو
ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں
میر کو تم عبث اداس کیا
میر تقی میر
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
گوہر کو عقدِ گردنِ خوباں میں دیکھنا
کیا اوج پر ستارۀ گوہر فروش ہے
مرزا غالب
فکر ہي ٹھہري تو دل کو فکر ِ خوباں کيوں نہ ہو
خاک ہونا ہے تو خاک ِ کوئے جاناں کيوں نہ ہو
ادھر بھی نگاہِ کرم،میرِ خوباں
دو عالم ترے اک تبسم پہ قرباں
جوش ملیح آبادی
ان تمام اشعار میں "خوباں" ہے
کچھ اشعار جن میں "خوبان" لکھا گیا ہے
خوبانِ شہر بھی نہ ہوئے مجھ پہ ملتفت
میں بھی وہ بد دماغ کہ حسرت نہیں مجھے
انور شعور
جہاں تک میرا خیال ہے فارسی میں نون غنہ نہیں ہوتا
محمد یعقوب آسی صاحب کیا فرماتے ہیں اس بارے میں

السلام علیکم
ہر دلعزیز شخصیت جناب سید شہزاد ناصر بھائی کے حکم کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے
اس میں نوری نستعلیق اور لاہوری نستعلیق کا استعمال ہوا ہے جبکہ اردو محفل رقعہ فانٹ میں ہے

2mx29et.jpg

خوب ہے جناب۔

شعر کے الفاظ خوبانِ خیال میں نون نقطہ چاہتا ہے۔

محمد وارث صاحب درست فرما رہے ہیں، جناب سید شہزاد ناصر صاحب!
آپ نے شعر کی جتنی مثالیں یہاں دی ہیں سب میں اصلاً نون (منقوط) ساکن بصورت نون غنہ (غیر منقوط) ہے۔ یہی نون کسی ترکیب میں یا عطف کے سبب متحرک ہو گا تو نون ناطق (منقوط) ہو جائے گا۔ جیسے آپ ہی کا نقل کردہ شعر ہے (اس میں نون متحرک ہے نہ کہ ساکن):
خوبانِ شہر بھی نہ ہوئے مجھ پہ ملتفت
میں بھی وہ بد دماغ کہ حسرت نہیں مجھے​
انور شعور​

نون غنہ میں نقطہ نہ لکھنا اردو اور پنجابی والوں کا طریق ہے، فارسی والے تو منقوط لکھتے ہیں، فرق بولنے میں ہوتا ہے۔ اردو پنجابی میں بھی توجہ فرمائیے گا کہ نون غنہ کسی لفظ کے اندر واقع ہو تو اس پر نقطہ لگاتے ہیں، اور شناخت کے لئے حسبِ ضرورت علامتِ غنہ بھی لگا دیتے ہیں (اور نہیں بھی لگاتے، جہاں کسی اِشکال کا خدشہ نہ ہو): مُنہ، ٹانگا، ٹانگ، مانگ، چھینک، سینگ، ہینگ، بانکا، چھانگا مانگا، مونگ، سونڈ، سانڈ، ٹھینگا، جونک، چونتیس، پیتیس، سینتیس، پینسٹھ؛ کتنی مثالیں پیش کروں!
 
آخری تدوین:
حافظ شیرازی کی ایک غزل دیکھ لیجئے۔ قوافی میں کوئی نون بھی نقطہ سے خالی نہیں اور سب غنہ ہیں۔

رونق عهد شباب است دگر بستان را

رونق عهد شباب است دگر بستان را
مي رسد مژده گل بلبل خوش الحان را
اي صبا گر به جوانان چمن بازرسي
خدمت ما برسان سرو و گل و ريحان را
گر چنين جلوه کند مغبچه باده فروش
خاکروب در ميخانه کنم مژگان را
اي که بر مه کشي از عنبر سارا چوگان
مضطرب حال مگردان من سرگردان را
ترسم اين قوم که بر دردکشان مي خندند
در سر کار خرابات کنند ايمان را
يار مردان خدا باش که در کشتي نوح
هست خاکي که به آبي نخرد طوفان را
برو از خانه گردون به در و نان مطلب
کان سيه کاسه در آخر بکشد مهمان را

هر که را خوابگه آخر مشتي خاک است
گو چه حاجت که به افلاک کشي ايوان را
ماه کنعاني من مسند مصر آن تو شد
وقت آن است که بدرود کني زندان را
حافظا مي خور و رندي کن و خوش باش ولي
دام تزوير مکن چون دگران قرآن را
یہیں یہ بھی ملاحظہ فرمائیے گا:
اي صبا گر به جوانان چمن بازرسي
اس میں جوانانِ چمن ترکیب اضافی ہے وہاں نقطہ بھی ہے اور بولتا بھی نون ہے غنہ نہیں۔
برو از خانه گردون به در و نان مطلب
کان سيه کاسه در آخر بکشد مهمان را

اس شعر میں گردون، نان، کان، مہمان چاروں میں نون غنہ ہے اور ہے بھی غیر متحرک، پھر بھی منقوط ہیں۔

نیک دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔​
 
آخری تدوین:

صلال یوسف

محفلین
محترم محمد وارث صاحب میں نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں لکھا تھا اور نہ ہی ارادہ تھا،
اعلانِ برملا سے خطاط کی دل آزاری ہوئی مناسب نہیں لگا، جبکہ میری طرف سے کسی طرح کی کوئی بات نہیں کی گئی،
میں فورمز پر نہیں جاتا اور نہ ہی شیئر کرتا ہوں کچھ، ادھر بھی سیدشہزادناصر بھائی کی وجہ سے آیا،
اور اس اُمید کے ساتھ آپ سب سے ہمیشہ کے لئے رُخصت چاہوں گا کہ ادھر صاحب علم احباب ہی ہیں سب، ہم میں ایسی کوئی صلاحیت نہیں، اللہ پاک بہت خوشیاں دے
مجھے نہ ادھر آنا ہے اور نہ ہی کچھ شیئر کرنا ہے اب
اللہ حافظ
 
Top