آتش خواجہ حیدر علی:::::عِشق کے سَودے سے پہلے دردِ سر کوئی نہ تھا ::::: Khwaja Haidar Ali Aatish

طارق شاہ

محفلین
غزل
خواجہ حیدر علی آتشؔ

عِشق کے سَودے سے پہلے دردِ سر کوئی نہ تھا
داغِ دِل خندہ زن، زخمِ جِگر کوئی نہ تھا

جوہری کی آنکھ سے دیکھے جواہر بیشتر
لعلِ لب سالعل، دنداں سا گُہر کوئی نہ تھا

خوب صُورت یُوں تو بہتیرے تھے، لیکن یار سا!
نازنیں، نازک بدن، نازک کمر کوئی نہ تھا

رہ گئی دِل ہی میں اپنے حسرتِ اِظہارِ شوق
لکھ کے خط جب ہم نے ڈھونڈھا، نامہ برکوئی نہ تھا

دوست دشمن، یار رکھتا ، خاطر اپنی کیا عزیز
عیبِ اُلفت کے سِوا، ہم میں ہُنر کوئی نہ تھا

دیدہ و دِل تھے منوّر تیرے نُورِ حُسن سے
جلوہ فرما ہو نہ تُوجس میں، وہ گھر کوئی نہ تھا

عشق کِس کو حُسنِ دلکش سے نہ تھا، اے جانِ جاں!
فکر سے غافِل تِری، جِن و بَشر کوئی نہ تھا

چاشنی دونوں کی چکھی ہےجو حق حق پُوچھیے
اُن لَبِ شِیرِیں سے شِیرِیں نیشکر کوئی نہ تھا

لے چَلےہستی سے داغِ عِشق آتشؔ ،شُکر ہے
منزِلِ مُلکِ عَدم کا، ہمسفر کوئی نہ تھا

خواجہ حیدر علی آتشؔ

 
Top