خواجہ اور ڈڈو (تاریخ کے جھروکوں سے)

عائشہ عزیز

لائبریرین
کیا بےساختہ پن ہے ۔۔:rollingonthefloor:
مجھے بھی سمجھ نہیں آتا تھا کہ" خواجے کا گواہ ڈڈو" کا کیا مطلب ہے ۔۔اب سمجھ آیا:daydreaming:


یہ تحریر میں نے پہلے کیوں نہیں پڑھی اور کسی نے مجھے ٹیگ کیوں نہیں کیا:waiting:

نوٹ : بے حد غصے میں ہوں۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا بےساختہ پن ہے ۔۔:rollingonthefloor:
مجھے بھی سمجھ نہیں آتا تھا کہ" خواجے کا گواہ ڈڈو" کا کیا مطلب ہے ۔۔اب سمجھ آیا:daydreaming:


یہ تحریر میں نے پہلے کیوں نہیں پڑھی اور کسی نے مجھے ٹیگ کیوں نہیں کیا:waiting:

نوٹ : بے حد غصے میں ہوں۔
:) :)

مقدس دیکھو تم نے مانو گڑیا کو ناراض کر دیا۔۔۔۔۔ :p
 
نیرنگ خیال بھائی آپ تو کمال کے ہو سچ میں اتنی عمدہ تحریر ہے کہ مزا آگیا پڑھ کر :rollingonthefloor:
اللہ آپ کو خوش رکھے اور ایسے ہی مزے مزے کی تحریر لکھتے رہیں.....
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بڑے پرانے وقتوں کا ذکر ہے۔۔۔ کہ ایک خواجہ ہوا کرتا تھا۔ کسی سے اس کی نہ بنتی تھی۔ دوست تو درکنار کوئی اس غریب کو سلام کر کے راضی نہ تھا۔۔۔۔ درویش طبیعت ایک دن اکتا گئی دنیا کے جھمیلوں سے۔۔۔۔ بس خواجہ نے نعرہ مستانہ مارا۔۔۔۔ یا آبادی۔۔۔ اللہ حافظ۔۔۔ اور نکل پڑا۔۔۔۔
بس وہ کیا کہتے ہیں
نہ سدھ بدھ کی لی نہ منگل کی لی
نکل شہر سے راہ جنگل کی لی
بس یونہی درختوں کی چھال کھاتا۔۔۔۔ پرنالوں کا پانی پیتا چلا جا رہا تھا۔۔۔ چلا جا رہا تھا۔۔۔ کہ جنگل کے بیچ جا پہنچا۔۔۔۔ دیکھتا کیا ہے کہ ایک تالاب ہے۔۔۔ جس پر کائی سی جمی ہے۔۔۔۔ اس قدر ہریالی دیکھ کر ساون کے اندھوں کی یاد آگئی۔۔۔۔ سوچنے لگا۔۔۔ آج مجھ پر یہ راز منکشف ہوگیا۔۔۔۔ اور وہیں ایک درخت میں سانپ کے بل کے مقابل ایک اور بڑا سوراخ بنا کر بل نشیں ہوگیا۔۔۔۔ صبح کو درختوں سے چھال کھا لیتا۔۔۔۔ دوپہر کو گھاس پر منہ مار لیتا۔۔۔ اور رات کو پھر درختوں کی چھال۔۔۔۔ کیا عیاشی تھی۔۔۔۔ کائی ہٹا کر پانی پی لیتا۔ اور پھر واپس کائی اوپر کر دیتا۔۔۔ کہ کسی کو پتا نہ چلے کہ پانی پیا ہے۔۔۔۔ اس ذہنی عیاشی کے دور میں زباں پر ہر وقت یہی مصرعہ رہتا۔۔۔
خواجے بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
دین و مذہب سے کچھ خاص تو کیا عام لگاؤ بھی نہ تھا۔۔۔۔ مگر ریت یہ تھی کہ جو بھی یوں خیر آباد کہتا۔۔۔ معرفت کی وہ منازل طے کر جاتا۔۔۔ جس کا اس کو علم تک نہ ہوتا۔۔۔ سو ایسے ہی ایک دن اٹھا تو کیا دیکھتا ہے کہ تالاب کے اوپر ایک پتا پڑا ہے۔ اور اس پتے پر ایک ڈڈو۔۔۔ عارفانہ نظر تھی۔۔۔ بھانپ گیا کہ یہ ڈڈو بھی یوں ہی درویش ڈڈو ہے۔۔۔ اور بقیہ ڈڈوؤں کی دنیا کو خیر آباد کہہ چکا ہے۔۔۔
خواجے نے ڈڈو کو اور ڈڈو نے اس کو دیکھا۔۔۔ دونوں کی آنکھوں میں بےنیازی تھی۔۔۔ اور شاید درویشی بھی۔۔۔ اگر نہیں بھی تھی تو موضوع آگے بڑھانے کو بےنیازی سے زیادہ درویشی موزوں ہے۔۔۔۔
کئی دن گزر گئے۔۔۔ وہ دونوں یوں ہی ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے۔۔۔ درویشی سے۔۔۔۔
کرنا خدا کا یوں ہوا۔۔۔ کہ ڈاکوؤں کا ایک گروہ ایک ایسے چور کی تلاش میں وہاں آن نکلا۔۔۔۔ جو ان کی ڈکیتی کا سامان چوری کر کے نکل بھاگا تھا۔۔۔ اور باآواز بلند چلاتا پھرتا تھا کہ چوروں کو پڑ گئے مور۔۔۔۔
اس بندہ ناداں کو کیا سوجھی کہ اچھل کر بیچ میں آگیا۔۔۔۔۔ اور پکار کر کہنے لگا کہ اس بندہ درویش جو کہ لبا لب عجز و انکسار سے بھرا پڑا ہے۔۔۔ یہاں نہ مور دیکھا اور نہ مورنی۔۔۔ تو کیا پکارتے پھرتے ہو۔۔۔۔۔ اس پر ان ڈاکوؤں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا کہ کہاں وہ سارا سامان جو ہم سے اڑا لایا ہے۔۔۔۔
اس بندہ ناداں خواجہ نے مدد کے لیے ایک نظر ڈڈو پر ڈالی۔۔۔ تو ڈڈو نے باآواز بلند ٹرا کر کہا۔۔۔۔۔
یہ چور نہیں۔۔۔ اور نہ ہی مور ہے۔۔۔۔ بلکہ یہ تو خواجہ ہے۔۔۔۔ ایک بے ضرر خواجہ۔۔۔۔ درخت کی چھال کھا کر گزارہ کرتا ہے۔۔۔ مگر چھوٹے گوشت۔۔۔ یعنی کہ مجھے کبھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھا۔۔۔ ڈاکو یہ سن کر سرپٹ بھاگ اٹھے۔۔۔ اور چلاتے جاتے۔۔۔۔
خواجے کا گواہ ڈڈو۔۔۔ خواجے کا گواہ ڈڈو۔۔۔۔
آج بھی خواجے اور ڈڈو کا مزار اسی کائی والے تالاب کے کنارے ہے۔۔۔ اور ہر عرس پر ہزاروں ڈڈو مل کر ٹراتے ہیں۔ اور ماحول کو گرماتے ہیں۔۔۔۔
واللہ اعلم

اہم نوٹ: اس تحریر میں کوئی جھول نظر آئے۔ تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ محض ایک گفتگو کے دوران وارد ہوئی تحریر ہے۔ :) لہذا اس کو تمام لوازمات سے استثنیٰ حاصل ہے۔۔۔۔ :devil:


ذوالقرنین بھائی، بہت دنوں بعد آپ کی تحریر پڑھی، بہت اچھا لگا۔ ویسے اگر تحریر اس درجہ سنجیدگی نہ لیے ہوئے ہوتی تو میں ضرور اس پر کوئی جارحانہ مقدمہ لکھ ڈالنا تھا :)
 
السلام علیکم سعود بھائی، خیریت سے ہیں؟
وعلیکم السلام! الحمد للہ ہم بالکل بخیر ہیں۔ شگفتہ بٹیا کیسی ہیں اور حسب روایت اتنا عرصہ کہاں گم رہیں اور اس گم شدگی کے دورانیہ میں کیا کچھ کیا؟ :) :) :)
ہمیں تو لگتا ہے کہ اس پوری تحریری میں سب سے زیادہ مظلوم جناب صاحب تحریر ہی ٹھہرے۔ کیونکہ خواجے کا تو مزار بن گیا، ڈڈو گدی نشین ہوا، اس کی پوری جماعت اس مزار پر دھوم دھام سے سالانہ عرس مناتی ہے، چوروں کا قافلہ تو موروں کو ڈھونڈنے کوہ قاف گاف لام یا میم کی طرف جا نکلا، اب بچے صاحب تحریر جن پر جملہ مبصرین کا نزلہ وارد ہو رہا ہے۔ :) :) :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وعلیکم السلام! الحمد للہ ہم بالکل بخیر ہیں۔ شگفتہ بٹیا کیسی ہیں اور حسب روایت اتنا عرصہ کہاں گم رہیں اور اس گم شدگی کے دورانیہ میں کیا کچھ کیا؟ :) :) :)

ہمیں تو لگتا ہے کہ اس پوری تحریری میں سب سے زیادہ مظلوم جناب صاحب تحریر ہی ٹھہرے۔ کیونکہ خواجے کا تو مزار بن گیا، ڈڈو گدی نشین ہوا، اس کی پوری جماعت اس مزار پر دھوم دھام سے سالانہ عرس مناتی ہے، چوروں کا قافلہ تو موروں کو ڈھونڈنے کوہ قاف گاف لام یا میم کی طرف جا نکلا، اب بچے صاحب تحریر جن پر جملہ مبصرین کا نزلہ وارد ہو رہا ہے۔ :) :) :)

میں بالکل ٹھیک سعود بھائی، میں بھلا کبھی ایسا ہوا کہ گم ہو جاؤں ایسا تو بس ایک ہی بار ہونا ہے۔ :)
گزشتہ دنوں جنگوں میں مصروفیت رہی ہے :) کچھ نئے خوبصورت افق دریافت کر ڈالے ہیں، کچھ پرانے آفاق پر سے گرد جھاڑی ہے اور کچھ پر مزید مٹی ڈال دی ہے :) :)

اب آپ بتائیے کہ راوی اُونجا چہ میگوید!؟

اور یہ جو آپ نے اقتباس لکھ ڈالا ہے صاحبِ تحریر کی مظلومیت پر تو بس دوبارہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر سنجیدگی تحریر آڑے نہ ہوتی تو یقین جانیے اس جارحانہ مقدمہ میں اس اقتباس نے اپنی جگہ بنا لی تھی :)
 
میں بالکل ٹھیک سعود بھائی، میں بھلا کبھی ایسا ہوا کہ گم ہو جاؤں ایسا تو بس ایک ہی بار ہونا ہے۔ :)
لا حول و لا قوۃ الا باللہ! :) :) :) :)
گزشتہ دنوں جنگوں میں مصروفیت رہی ہے :) کچھ نئے خوبصورت افق دریافت کر ڈالے ہیں، کچھ پرانے آفاق پر سے گرد جھاڑی ہے اور کچھ پر مزید مٹی ڈال دی ہے :) :)
جنگ تو محاذوں پر ہوتی ہے، یہاں تو افق پر آفاق سے محاذ آرائی کی آفاقی باتیں ہو رہی ہیں۔ شاید علامہ کے شعر میں تحریف کرنے کا موقع آ گیا ہے کہ، "آ رہی ہے کھنا کھن صدائے جنگ و جدال"، اور جنگ ہو تو عقب میں گرد و غبار کے مرغولے تو اٹھیں گے ہی اب وہ کہاں جا کر جمتے ہیں یہ تو ہواؤں کا رخ ہی طے کرے گا۔ :) :) :)
اب آپ بتائیے کہ راوی اُونجا چہ میگوید!؟
یہاں تو تمام راویوں نے قسم کھا لی ہے کہ اب ضعیف سندوں کے ساتھ ہی روایت کریں گے۔ وگرنہ یہاں سب بخیر ہے اور ہم ابھی یوروپ کے حالیہ دورے کے اثرات سے نکلنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ :) :) :)
اور یہ جو آپ نے اقتباس لکھ ڈالا ہے صاحبِ تحریر کی مظلومیت پر تو بس دوبارہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر سنجیدگی تحریر آڑے نہ ہوتی تو یقین جانیے اس جارحانہ مقدمہ میں اس اقتباس نے اپنی جگہ بنا لی تھی :)
یعنی اس جارحانہ مقدمے کے محض وہی اقتباسات منظر عام پر آئیں گے جو دوسرے لکھیں؟ ویسے کچھ عجب نہیں کہ یہ اس مقدمے کا مقدمہ ثابت ہو۔ :) :) :)
 
Top