کئی روز سے اس کا یہی معمول تھا کہ اپنے گاؤں سے ڈیڑھ میل کا فاصلہ طے کر کے وہ اس کی بستی تک آتا اور پھر چھوٹی سی پہاڑی پر بیٹھ کر سامنے والے ڈھیر کے ملبے کو تکتا رہتا۔ جب وہ پہلے دن یہاں آیا تھا تو یہ منظر دیکھ کر بہت رویا تھا۔ آنسو تھمتے ہی نہ تھے ، لیکن رفتہ رفتہ آنسو ایسے خشک ہوئے جیسے اس کے جسم کا سارا پانی ختم ہو گیا ہواور ساری نمی ہوا بن کر اڑ چکی ہو۔
آج بھی اس کی خشک آنکھیں ملبے کو تک رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر پہلے کی بات ہے کہ اس جگہ جہاں ملبے کو ڈھیر ہے ، ایک چھوٹی سی عمارت تھی۔ صبح ہوتی اور دھوپ کھیتوں اور میدانون پر پھیلنے لگتی تو اس عمارت سے بچوں کی باتوں اور ہنسی کی آوازیں بلند ہو کر دور دور تک پھیل جاتی: