مکمل خواب کی تعبیر

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


خواب کی تعبیر


Khwbkitabeer%20-%20001.gif
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
کئی روز سے اس کا یہی معمول تھا کہ اپنے گاؤں سے ڈیڑھ میل کا فاصلہ طے کر کے وہ اس کی بستی تک آتا اور پھر چھوٹی سی پہاڑی پر بیٹھ کر سامنے والے ڈھیر کے ملبے کو تکتا رہتا۔ جب وہ پہلے دن یہاں آیا تھا تو یہ منظر دیکھ کر بہت رویا تھا۔ آنسو تھمتے ہی نہ تھے ، لیکن رفتہ رفتہ آنسو ایسے خشک ہوئے جیسے اس کے جسم کا سارا پانی ختم ہو گیا ہواور ساری نمی ہوا بن کر اڑ چکی ہو۔
آج بھی اس کی خشک آنکھیں ملبے کو تک رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر پہلے کی بات ہے کہ اس جگہ جہاں ملبے کو ڈھیر ہے ، ایک چھوٹی سی عمارت تھی۔ صبح ہوتی اور دھوپ کھیتوں اور میدانون پر پھیلنے لگتی تو اس عمارت سے بچوں کی باتوں اور ہنسی کی آوازیں بلند ہو کر دور دور تک پھیل جاتی:
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
لب پہ آتی ہے دعا بن کےتمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
زندگی ہو میرے پروانے کی صورت یارب!
علم کی شمع سے مجھ کو ہو محبت یارب!
ہو میراکام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
نظم ختم ہوتی تو بچوں کے تیز قدموں اور بھاگ دوڑ کے ساتھ ایک بار پھر ہنسی اور قہقہوں کا شور بلند ہوتا اور مدھم پڑ جاتا ، پھر ملی جلی آوازیں سنائی دیتیں ۔ ’’ الف سے آم‘ ب سے بادام، پ سے پتنگ۔۔۔باب آیا، آم لایا۔۔۔۔ سچ بولو، پورا تولو۔۔۔ ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے، آتے ہیں جو کام دوسروں کے ۔۔۔۔ نہیں ہے چیز نکمی کوئ زمانے میں ۔۔۔۔رب کا شکر ادا کر بھائ‘‘
اس دن یعنی 18 اکتوبر کو بھی چہل پہل تھی ۔ اسکول بچوں سے بھرا ہوا تھا۔وہ اور حمید باہر میدان مین ماسٹر جی کی ہدایت کے مطابق چارٹ تیار کر رہے تھے۔ باقی بچے کلاس میں تھے۔
رنگ بھرتے بھرتے حمید نے اس سے پوچھا؛’’ انور تمھیں یاد ہے ماسڑ جی س جگہ کون سا رنگ بھرنے کو کہا تھا؟‘‘
اس نے چارٹ میں وہ جگہ دیکھتے ہوئے ، جہاں حمید نے انگلی رکھی ہوئی تھی، آہستہ سے کہا؛
’’میرا خیال ہے نیلا رنگ۔‘‘
حمید بولا’’ بھائ ! پکی بتاؤ ، غلط رنگ بھر دیا تو ساری محنت بیکار جائے گی۔‘‘
اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’ بات تو ٹھیک کہہ رہے ہو ، اچھا ماسڑ جی سے پوچھ لو جاکر۔‘‘
حمید اٹھتے ہوئے بولا: ’’ ٹھیک ہے ۔ میں ابھی آیا‘‘ یہ کہہ کر وہ سکول کی عمارت کی طرف چل دیا۔
حمید کہہ کر گیا تھا کہ میں ابھی آیا ، لیکن نہ اسے معلوم تھا اور نہ انور کو کہ چند لمحے میں کیا قیامت گزرنے والی ہے۔زمین اس طرح ہلنا شروع ہوئی جیسے اب اسے قرار نہیں آئے گا۔ کتنی دیر گزر گئی لیکن زمین کا ہلنا بند نا ہوا۔ پھر عمارتیں گرنا شروع ہوئیں۔ ہر طرف شور، چنح وپکار، دیکھتے دیکھتے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
انور کے سامنے ملبے کا ایک بہت بڑا ڈھیر تھا ، جس کے نیچے سے چیخیں سنائی دے رہیں تھیں۔
انور کچھ دیر زمین پر بیٹھا ڈولتا رہااور پھر اسے کچھ ہوش نا رہا۔ اسے کچھ نہیں معلوم وہ کب تک وہان بے ہوش رہا ؟ اسے کب اور کسنے اس کے گھر والوں تک پہنچایا جو زندہ تو بچ گئے ، لیکن اب بے گھر ہو چکے تھے۔
جب انور کو ہوش آیا تو وہ بالکل خاموش رہا، نہ کسی سے کچھ پوچھا، نہ کسی کو کچھ بتایا، شاید اسے کچھ بھی یاد نہ تھا۔ اس کا دماغ بالکل خالی خالی تھا۔ ہاں ایک جملہ اس کے دماغ میں گونج رہا تھا ’’میں ابھی آیا‘‘ پھر خیالوں نے اچانک اس کے دماغ میں ابھرنا شروع کیا ، کیا حمید عمارت کے ڈھیر ہونے سے پہلے باہر نکل آیا ہو گا ؟
اگر یہ بھی نہیں تو کیا وہ کیا وہ اپنی روشن آنکھو ں سے ابھی ان لوگوں کی راپ تک رہا ہو گا ، جو ملبہ ہٹا کر اسے نیچے سے نکالیں گے؟ یہ سوال کئی دن اس کے دماغ میں گھومتے رہے، لیکن ان کو جواب کسی سے بھی نہ ملا۔ بھلا اس کے ان سوالوں کا جوان دیتا بھی کون؟ ہر ایک اپنی مصیبت میں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مبتلا تھا۔ ہر ایک اپنے مرنے والوں کے غم اور زندہ بچ جانے والوں کے دکھ سے نڈھال تھا۔
چند روز بعد انور کی نظر حمید کی ماں پر پڑی، جو اب اس دنیا میں اکیلی رہ گئی تھی۔ وہ اس کی طرف لپکا اور اس سے لپٹ گیا، لیکن حمید کی ماں بھی اس کے سوالوں کا جواب نا دے سکی۔ اس کے ہونٹوں پر تو خود دسیوں سوال تھے ، بھلا وہ کسی کےسوالوں کا کیا جواب دیتی۔
اس دن سے انور نے اپنا معمول بنا لیا کہ وہ یہاں آکر سکول کے سامنے والی پہاڑی پر بیٹھ جاتا جہاں ملبے میں زندوں اور مردوں کو نکالنے کی کوشش جاری تھی۔ یہ کوشش چند روز تک جاری رہی ، پھر لوگ تھکنے اور مایوس ہونے لگے۔ کام کی رفتار سست ہوئ اور پھر یہ بالکل ہی بند ہو گیا لیکن انور کو اپنے سوالوں کا جواب نا مل سکا۔
دو چار سن اسی طرح گزر گئے ۔ انور نے ان سوالوں کو بھلا دیا اور اب یہ اس کا معمو ل بن گیا کہ ٹیلے پر بیٹھتے ہی وہ ملبے کی طرف ٹکٹکی باندھتا اور یہ انتظارکرتا کہ ملبے کے نیچے سے حمید اس کی طرف دوڑتا ہوا آئے گا اور وہ اس سے پوچھے گا کہ تم تو کہہ کر گئے تھے ،ابھی آیا ۔ تمھاری ابھی ختم ہونے پر ہی نہیں آ رہی تھی ۔ خیر چھوڑو ۔آؤ گھر چلیں۔
لیکن حمید کو نہ آنا تھ نہ آیا۔ انور نے بھی اپنا معمول نا بدلا۔ اس نے تو جیسے قسم کھا لی تھی کہ وہ قیامت تک حمید کا انتظار کرتا رہے گا۔ وہ حمید کا انتظار کرتا رہتا اور پچھلے دنوں کی باتیں اپنے دماغ میں دہراتا رہتا ۔ وہ اور حمید بڑے پکے دوست تھے۔ دونوں کا ہر وقت کا ساتھ تھا۔ ساتھ اسکول آناجانا، ساتھ کھیلنا ، ساتھ پڑھنا اور ساتھ سیر کرنا۔ دونوں میں گھنٹوں باتیں ہوتیں۔ اس اسکول میں آخری جماعت پاس کرکے وہ کہاں داخلہ لیں گے؟ کیا پڑھیں گے؟ کیا بنیں گے؟ کیا کریں گے ؟ وغیرہ وغیرہ۔
باتیں ختم ہونے پر ہی نہیں آتیں۔ روز نئے نئے پروگرام بنتے، نئے نئے منصوبے تیار ہوتے، اس پروگرام میں جو خاص بات شامل ہوتی ، وہ یہ تھی کہ دونوں دو ست سائنس دان بنیں گے، کیونکہ یہ علم حاصل کئے بغیر کوئ قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ حمید بڑے عالمانہ انداز میں کہتا:
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
’’ سائنس تو ہمارا ورثہ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مسلمانوں نے اس میدان میں نڑانام پیدا کیا۔ خصوصا ریاضی ، کیمیا ،فلکیات اور طب میں تو وہ بہت آگے تھے۔ ہماری بھرپور کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ زمانہ پھر سے لوٹ آئےاور ایک بار پھر ہم سائنس کے میدان میں آگے آگے ہوں۔‘‘
پھر دونوں دوست عہد کرتے کہ وہ اپنی انتھک محنت اور لگن سے خوب تعلیم حاصل کریں گے۔ بڑی بڑی ڈگری لیں گےاور اس علم کو اپنے تک ہی نہیں رکھیں گے ، بلکہ اسے دوسروں میں بھی بانٹیں گے ، دور دور تک پھیلائیں گے۔ علم کی شمع سے ہر طرف اجالا کریں گے۔ جب وہ باتیں کرتے کرتے تھک جاتے تو حمید اپنی اس پسندیدہ نظم کے شعر گنگنانے لگتا ، جو وہ اکثر صبح اسکول کی اسمبلی میں سنتا تھا
دور دنیا کا میرے غم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
زندگی ہو میرے پروانے کی صور ت یارب!
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب!
شعر گنگناتے گنگناتے حمید کو اکثر جوش آجاتا اور بڑے یقین کے ساتھ کہتا: ’’ انور ! سچ یہ ہے کہ جہالت بڑی ظالم چیز ہے ۔ دنیا میں وہی قوم زندہ رہ سکتی ہے ، جو علم حاصل کرتی ہے اور اس دولت کو سنبھال کر رکھتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم سب اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یہ حدیث تو اکثر دہراتے رہتے ہیں کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے ، لیکن اس پر عمل بہت کم مسلمان کرتے ہیں۔‘‘
حمید کے جوشلیے انداز کا انور پر گہر ا اثر ہوتا اوراس کے دل میں بھی جذبہ پیدا ہوتا کہ وہ علم کی دولت حاصل کرے گا اور پھر اسے ہر طرف بانٹے گا۔
انور پچھلے دنوں کی باتیں سوچتے سوچتے کچھ اونگھنے لگا تھاکہ اچانک کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔اس کے چونک کر پیچھے دیکھا اور ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنی
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
آنکھیں ملیں۔ وہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ یہ خواب نہیں ہے۔ اس نے کچھ کہنا چاہا، لیکن آواز اس کے گلے میں رندھ گئی۔
وہ آنے والے سے لپٹ گیا اور دیر تک دونوں بغیر کچھ کہے روتے رہے ۔ ذرا دل ہلکا ہوا تو انور نے درد بھری آوازمیں سوال کیا : ’’ ماسٹر جی ! کہاں چلے گئے تھے آپ ؟‘‘
ماسٹر جی نے آنکھیں پونجھتے ہوئے کہا: ’’ لمبی کہانی ہے ۔ اسے یاد کرتے ہوئے خوف آتا ہے ۔ بس یوں سمجھو کہ مجھے بے ہوشی کی حالت میں روالپنڈی پہنچایا گیا۔ وہاں علاج ہوتا رہا۔
جیسے ہی علاج کے بعد ہسپتال سے نکلاسیدھا ادھر آگیا کہ اپنے پیاروں کا پتا کروں۔ یہاں جو گزری اور جو کچھ ہوا، وہ تمھیں معلوم ہی ہے۔ اچھا بتاؤ کچھ اپنے حمید کا اتا پتا ہے؟‘‘
جواب دینے کے لئے انور کی آواز اس کا ساتھ نا دے سکی۔ ہاں ، آنکھوں سے چشمے ابل پڑے ۔ پھر اس نے ماسٹر جی کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی انگلی سے ملبے کی طرف اشارہ کیا ۔ ماسٹر جی نے آہستہ سے کہا: ’’ یااللہ رحم فرما‘‘۔ پھر کچھ دیر تک دونوں ایک دوسرے کا دکھ بانٹتے رہےاور جب کہنے کو کچھ نا رہا تو اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔
کئی ہفتے گزر گئے۔ ایک رات انور نے کوئ چھوٹا ساخواب دیکھا ۔ ملبے کے ایک کنارے سے حمید باہر آیا ۔ اس کے سیدھے ہاتھ میں جلتی ہوئ ایک شمع ہے ۔ بہت چمکدار ، اتنی چمکدار کہ اس کی روشنی دور دور تک میدانوں اور پہاڑوں کو روشن کیے ہوئے ہے۔ وہ انور کے قریب آیا اور بغیر کچھ کہے وہ شمع انور کے ہاتھ میں دے دی۔ انور نے اس سے کچھ پوچھنا چاہا، لیکن وہ جا چکا تھا۔ اب وہاں کوئی نہ تھا۔
آنکھ کھلی تو وہ دیر تک اپنے اس خواب کے بارے میں سوچتا رہااور صبح ہوتے ہی وہ اسکول کے ملبے کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر وہ ملبے کی جانب گیا،جہاں اس نے خواب میں حمید کو باہر آتے دیکھا تھا۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر عمارت کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن اسے اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ پھر اس نے آ واز دینا شروع کی: ’’ حمید ! او حمید!
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
کہاں ہو؟ باہر آؤ۔ میں آگیا ہوں۔ لاؤ وہ شمع لے کر آؤ۔ حمید!حمید!"
ملبے سے کوئی جواب نہ آیا ، لیکن اپنے کندھے پر اسے پھر وہی ہاتھ محسوس ہوا، جو اس ویرانے میں خوفزدہ کرنے کی بجائے اسے سکون بخشتا تھا۔ اس نے سر موڑے بغیر آہستہ سے سوال کیا: " ماسٹر جی! آپ اتنے سویرے کیسے آگئے؟"
کوئی جواب نہ ملا تواس نےکہا: کیا آپ کو بھی میری طرح نیند نہیں آئی؟"
اب بھی خاموشی رہی تو انور کچھ ڈر سا گیااور اس نے مڑ کر دیکھے بغیر کہا: " تم آگئے حمید؟"
جواب میں شفقت بھری آواز آئی : " آؤ میرے ساتھ آؤ۔"
وہ دونوں سامنے والے ٹیلے پرجابیٹھے تو ماسٹر جی نے پوچھا: "وہاں کھڑے ہوئے کس شمع کی بات کر رہے تھے؟"
انور نے جلدی جلدی اپنا خواب سنایااور پوچھنے لگا: "ما سٹر جی ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟ کیا حمید ابھی زندہ ہے؟"
ماسٹر جی چپ چاپ بیٹھے کچھ دیر سوچتے رہے۔ پھر بولے: " دیکھو سامنے پڑے ہوئے ملبے کی طرف دیکھو۔ اس ملبے پر ہمیں اسکول کی نئی عمارت ےتعمیرکرنی ہے۔ پہلی عمارت سے زیادہ بڑی ، زیادہ مضبوط ، زیادہ روشن ، ایسی عمارت جس میں زیادہ بچے پڑھ سکیں ، جس میں زیادہ سہولتیں ہوں ۔ میں نے بات کی ہےاور مجھے یقین ہےکہ اسکول کی عمارت بنانے کے لیے ہمیں سرکاری امداد بھی مل جائے گی اور دوسرے ادارے بھی ہماری مدد کریں گے۔ مدد تو ہمیں لینا پڑے گی، لیکن میں چاہتاہوں کہ ہم اپنی مدد آپ بھی کریں ۔ کیا اچھا ہو کہ اسکول کے جو استاد اور طالب علم زندہ بچ گئے ہیں، وہ سب اس کام میں شامل ہوجائیں۔ ہم جو کچھ بھی کرسکتے ہیں، کریں۔ پیسہ جمع کریں اور اپنے ہاتھ سے تعمیر کا کام کریں۔ اس طرح جو عمارت بنے گی ، اس کی بنیادوں میں ہمارا جذبہ ہوگا، ہمارے دل کا اطمینان ہوگا، جو اسے فولاد کی طرح مضبوط بنا دے گا۔ علم کی شمع روشن رہے گیاور اس کی روشنی بستی بستی پھیلتی رہے گی۔ یہی تمہارے خواب کی تعبیر ہے۔"
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
"آؤ ! ہم آج ہی سے یہ کام شروع کر دیں۔ پتا لگائیں کہ کون کہاں ہے اور پھر اکٹھے ہوکر جلد ہی یہ کام شروع کریں۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے اور زلزلے کی ہولناکیو ں کو یاد کرنے سے کیا یہ کام بہتر نہیں۔ میرےبیٹے! اٹھو اور اس شمع سے جو حمید نے رات کو تمھیں دی ہے اپنی بستی میں اجالاکرو۔"
انور نے ماسٹر جی کی چمکتی ہوئی آنکھوں سے نظریں ہٹاکر غور سے ملبے کی طرف دیکھا تو اسے وہا ں ایک شان دار عمارت نظر آئی۔ بہت بڑی اور خوب صورت عمارت جس کے صحن میں دھیمی دھیمی ، میٹھی میٹھی آوازیں آرہی تھیں:
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب!
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب!
 
Top