خوابِ خوش رنگ - آصف شفیع

فرخ منظور

لائبریرین
سِحرِ عہدِ شباب سے آگے

سِحرِ عہدِ شباب سے آگے
کون ہے رُوئے خواب سے آگے

رہروانِ جنوں کا سرمایہ
ایک صحرا، سراب سے آگے

بابِ عشق و گداز کھلتا ہے
زندگی کے نصاب سے آگے

اور بھی مرحلے ہیں چاہت میں
حالتِ اضطراب سے آگے

تازگی اور شگفتگی میں ہے
ایک چہرہ گلاب سے آگے

ایک دن میں نکل گیا آصف
چاند کی آب و تاب سے آگے
 

فرخ منظور

لائبریرین
گھپ اندھیرا سہی زمانے میں

گھپ اندھیرا سہی زمانے میں
حرج کیا ہے دیا جلانے میں

ہر طرف شور ہے مشینوں کا
کون سنتا ہے کارخانے میں

چاہے دن بھر جہاں رہے طائر
لوٹ آتا ہے آشیانے میں

اک نہ اک دن یہاں نہیں ہوں گے
لوگ جتنے بھی ہیں زمانے میں

کیسے دیوار و در گرا ڈالوں
عمر لگتی ہے گھر بنانے میں

لوگ یونہی نہیں ہیں دیوانے
کوئی تو بات ہے فسانے میں

کارِ آساں نہیں تھا عشق آصف
ہوش تک آ گئے ٹھکانے میں
 

فرخ منظور

لائبریرین
تمہارے شہر کے لوگوں کے ہیں ستائے ہوئے

تمہارے شہر کے لوگوں کے ہیں ستائے ہوئے
جبیں پہ یوں ہی نہیں ہم نے زخم کھائے ہوئے

پڑی جو دھوپ تو سب نے بدل لیے رستے
چلے جو ساتھ قدم سے قدم ملائے ہوئے

فضائے شہرِ محبت سے دل نہیں نکلا
زمانے بیت چکے ہیں وہاں سے آئے ہوئے

یہ کس نے مانگ ستاروں سے رات کی بھر دی
مسافروں نے ہوں جیسے دیے جلائے ہوئے

طلسمِ بابِ جنوں خیز کھول دے ان پر
نگاہ دشت کی جانب جو ہیں لگائے ہوئے

فریبِ حرص و ہوس سے نجات دے ان کو
ترے حضور کھڑے ہیں جو سر جھکائے ہوئے

شریکِ حال ہیں آصف زمانہ بھر کے لوگ
دلوں میں آرزوؤں کا جہاں بسائے ہوئے
 

فرخ منظور

لائبریرین
ملال اس سے بچھڑنے کا آہ! کیا کرتا

ملال اس سے بچھڑنے کا آہ! کیا کرتا
وہ جا رہا تھا میں اس پر نگاہ کیا کرتا

جو ایک پل کے لیے بھی نہ رُک سکا دل میں
تمام عمر وہ مجھ سے نباہ کیا کرتا

میں اپنے آپ سے مخلص نہ تھا حقیقت میں
مرا علاج کوئی خیر خواہ کیا کرتا

سخن سرائی بدلتی گئی ستائش میں
دروغ گوئی پہ میں واہ واہ کیا کرتا

سبھی کو علم تھا خانہ خرابیِ دل کا
دلِ فگار کو کوئی تباہ کیا کرتا

کوئی بھی جنگ اکیلے نہیں لڑی جاتی
سپاہ ساتھ نہ تھی ، بادشاہ کیا کرتا

خزاں کے ساتھ برس ہا برس کی یاری تھی
گُلِ بہار سے میں رسم و راہ کیا کرتا

تمام شہر کو مجھ سے عناد تھا آصف
میں اپنے حق میں کسی کو گواہ کیا کرتا
 

فرخ منظور

لائبریرین
اُداس شام ہے اجڑا ہوا ہے گھر میرا

اُداس شام ہے اجڑا ہوا ہے گھر میرا
خبر نہیں کہ دکھائے گا کیا، ہنر میرا

میں آسمان کی وسعت سمیٹ لایا ہوں
حدِ گمان سے آگے بھی ہے گزر میرا

کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہیں
وہ چاہتوں کا زمانہ ، وہ ہم سفر میرا

میں اپنے حالِ پریشاں پہ کب پشیماں ہوں
جنوں بدست مری زیست ہے ثمر میرا

میں کوئے شہرِ وفا ہی میں جا کے ٹھہروں گا
قیام دشتِ انا میں ہے لمحہ بھر میرا

قبیلے بھر کی حمیت بچا کے لایا ہوں
لہو میں چہرہ نہیں یوں ہی تر بتر میرا

لہو کے دیپ جلائے ہیں عمر بھر میں نے
کلام ٹھہرا ہے تب جا کے معتبر میرا
 

فرخ منظور

لائبریرین
نہیں ہوتا نسب محبت میں

نہیں ہوتا نسب محبت میں
کیا عجم ، کیا عرب محبت میں

ہم نے اک زندگی گزاری ہے
تم تو آئے ہو اب محبت میں

اور کیا کلفتیں اٹھاتے ہم
ہو گئے جاں بلب محبت میں

خامشی ہی زبان ہوتی ہے
بولتے کب ہیں لب محبت میں

آگہی کے جہان کھلتے ہیں
چوٹ لگتی ہے جب محبت میں

یہ ہے دشتِ جنوں، یہاں آصف
چاک داماں ہیں سب محبت میں
 

فرخ منظور

لائبریرین
اُس نے جھیلے اَلم محبت میں

اُس نے جھیلے اَلم محبت میں
جس نے رکھا قدم محبت میں

آنکھ جھکتی ہے حسن کے آگے
سر بھی ہوتا ہے خم محبت میں

تو جو چاہے تو چھوڑ دے بازی
درد ہو گا نہ کم محبت میں

اشک یوں ہی امڈ نہیں آتے
آنکھ ہوتی ہے نم محبت میں

تو سمجھتا ہے اس کو نادانی
ظلم سہتے ہیں ہم ، محبت میں

جانبِ دشت ہی اُٹھا آصف
جو بھی رکھا قدم محبت میں
 

فرخ منظور

لائبریرین
غمِ عاشقی نے رُلا دیا ، مرے دل کا چین گنوا دیا

غمِ عاشقی نے رُلا دیا ، مرے دل کا چین گنوا دیا
مرے ہم نفس ترے پیار نے ، مرا درد اور بڑھا دیا

نہ کسی کی چاہ تھی روز و شب، نہ خیال ہجر و وصال کا
میں پڑا تھا بحرِ سکوت میں ، مرا پیار کس نے جگا دیا

تری راہ میں تھے پڑے ہوئے،تری چاہ میں تھے کھڑے ہوئے
ہمیں لوگ تیرے تھے جاں فدا ، جنہیں تو نے آج بھلا دیا

کبھی عہدِ اوجِ شباب میں تری ہمرہی میں چلا تھا میں
اِسی لُطفِ حسن و جمال نے مجھے شعر کہنا سکھا دیا

وہ جو عکس عکس تھی روشنی ترے خواب کی وہ کہاں گئی
شبِ ہجر یادوں کی انجمن کا چراغ کس نے بجھا دیا

میں پڑا تھا وقت کے طاق میں،گو رہا تھاگردشِ چاک میں
مرے کوزہ گر کو خبر نہ تھی ، مرا نقش کس نے بنا دیا

کبھی آنسوؤں سے لپٹ گئے، کبھی خونِ دل میں نہا گئے
"رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا"۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
آشیاں میں بھی آنکھ بھر آئی

آشیاں میں بھی آنکھ بھر آئی
کیا عجب تھی قفس کی تنہائی

کوئی کتنا ہی خوبصورت ہو
چھین لیتا ہے وقت رعنائی

زخم پھر ہو گئے ہرے دل کے
پھر محبت نے لی ہے انگڑائی

ایک دن وہ بھی آشنا نہ رہے
جن سے برسوں کی تھی شناسائی

کون پہنچا ہے روح تک آصف
کس نے دیکھی ہے دل کی گہرائی
 

فرخ منظور

لائبریرین
کوئی بھی چیز جہاں میں سدا کسی کی نہیں

کوئی بھی چیز جہاں میں سدا کسی کی نہیں
"چراغ سب کے بجھیں گے ، ہوا کسی کی نہیں"

کبھی کبھی جو کھٹک سی سنائی دیتی ہے
یہ باز گشتِ انا ہے صدا کسی کی نہیں

کسی کی زلف جو مجھ کو لبھائے رکھتی ہے
مرے خیال کی لو ہے ، ادا کسی کی نہیں

یہ ٹھیک ہے کہ محبت میں کچھ صلہ نہ ملا
ملال کیا ہو کہ اس میں خطا کسی کی نہیں

ہمارے ساتھ کوئی بھی وفا نہیں کرتا
ہمارے پیار کے حق میں دعا کسی کی نہیں

کیا جو عرض وہ زہرہ جبین ہے کس کی
تمام شہر نے مل کے کہا ، کسی کی نہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک دن طبع آزمائی کی

ایک دن طبع آزمائی کی
اپنے افکار سے لڑائی کی

وقت سے بے خبر رہے دونوں
اور گھڑی آ گئی جدائی کی

کوئی شکوہ بھی ہم سے کیا کرتا
ہم نے ہر ایک سے بھلائی کی

اشک روکے سے رُک نہیں سکتے
کیا عجب رسم ہے جدائی کی

بے خبر تھا میں کارِ دنیا سے
میری قدرت نے رہنمائی کی

ایک ہنگام ہو گیا برپا
میں نے جب بھی غزل سرائی کی

یہ اسیری بھی کب تلک آصف؟
فکر کچھ تو کرو رہائی کی
 

فرخ منظور

لائبریرین
آ مری جاں! کہاں بھٹکتا ہے

آ مری جاں! کہاں بھٹکتا ہے
دل تری یاد میں دھڑکتا ہے

وہ تو بس آنکھ ہی جھپکتا ہے
کس لیے آئینہ چمکتا ہے

شام ہوتے ہی میرے آنگن میں
ہر طرف خوف آ ٹپکتا ہے

اک دیا شہرِ نا رسائی میں
آج بھی میری راہ تکتا ہے

پھول کھلتے ہیں آرزوؤں میں
باغ یونہی نہیں مہکتا ہے

شہر جب نفرتوں کی زد میں ہو
آدمی پیار کو ترستا ہے

کھو گیا ہے جو بھیڑ میں آصف
دوسری بار مل بھی سکتا ہے
 
Top