خلیل الرحمان قمرنے ٹی وی پر براہ راست ماروی سرمد کو گالی دیدی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرقان احمد

محفلین
عورتوں کے حقوق کا سب سے بڑا حامی ہوں، خلیل الرحمان قمر
مانیٹرنگ ڈیسک جمعرات 5 مارچ 2020
2011592-khailurrehmanqamar-1583388161-174-640x480.jpg

شٹ اپ کہنا میرے لیے گالی ہے جس کی میں کسی کو اجازت نہیں دے سکتا، خلیل الرحمان قمر فوٹو:فائل


اسلام آباد: مصنف، ڈرامہ نگارخلیل الرحمان قمر نے کہاکہ وہ عورتوں کے حقوق کا سب سے بڑے حامی ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام’’ٹو دی پوائنٹ‘‘ میں میزبان منصور علی خان سے گفتگوکرتے ہوئے خلیل الرحمان قمر نے کہاکہ کسی خاتون کو اس کے جسم کانام لے کر اور شکل کانام لیکر مخاطب کرنے کی نہ قانون اجازت دیتاہے نہ آئین اجازت دیتاہے اور نہ ہی شرع اجازت دیتی ہے لیکن کیا کسی مردکوشٹ اپ کہنے کی اجازت ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب پروگرام ہو رہاتھاتو میں نے نہایت احترام سے کہاکہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں جب سینیٹرصاحب نے بات کی تو وہ بیچ میں بولیں، جب میں بولا تو وہ بیچ میں بولیں تومیں نے منع کیا تو انھوں نے کہا کہ شٹ اپ۔ میں اس وقت رائٹر نہیں بلکہ انسان تھانقدجواب دوںگاکوئی بات کہ کر جائے کہاں وہ وہ برابری مانگ رہی ہیں پھر عورت اور مردکی کیاتفریق کہاں رہ گئی ہے۔

خلیل الرحمان نے کہا کہ عورت کے پاس کیاحق ہے کہ وہ کسی مردکوگالی دے، شٹ اپ کہنامیرے لیے گالی ہے جس کی میں کسی کو اجازت نہیں دے سکتا، مجھے یاد ہے کہ جوکچھ ہواایسا ہونا نہیں چاہئے تھا لیکن انہوں نے مجھے گالی دی میں نے اس پر رسپانس دے دیا،میں معافی کیوں مانگوں وہ اپنی شٹ اپ کی معافی مانگ لے میں اگلی شٹ اپ کی معافی مانگ لوںگا۔

انہوں نے کہا کہ میں عورتوں کے حقوق کاسب سے بڑاحامی ہوں، عورت کی تعلیم ہو ان کی جائیدادمیں حصہ ہو باہرجانے کی آزادی ہو یا سترتک کپڑے پہننا ہو لیکن یہ ایک بے حیانعرہ ہے کہ میراجس میری مرضی،انہوں نے اس نعرے کوپدرشاہی نظام کانام لے کر اوریجنیٹ کیاہے ڈاکٹر عامرلیاقت کامداح ہوں۔

اینکر پرسن ڈاکٹر عامرلیاقت حسین نے کہاکہ خلیل الرحمان قمر کے تبصرے انتہائی لغو، بیہودہ اور عقل سے ماورا ہیں۔ کل تک میں سمجھ رہاتھا کہ یہ ایک بد تمیز آدمی ہیں لیکن انھیں تو دماغی علاج کی ضرورت ہے۔ یہ خود پرستی اور اناپرستی کے سراب میں مبتلاہیں، انھیں انسانوں سے دورمعاشرے کے آئسولیشن وارڈمیں رکھاجائے۔ یہ انسانوں میں رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ اﷲ تعالی نے ہر چیز کوخوبصورت بنایا ہے اس کی کسی تخلیق کوبدصورت کہناان کے منصب کا تقاضا نہیں ہے۔
لگتا ہے کہ ہمیں جواب دینے کے لیے ماروی سرمد صاحبہ کو ٹیگ کرنا پڑے گا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
خان صاحب کا اس سارے معاملے سے دراصل کوئی خاص تعلق بنتا نہیں ہے۔ عورت مارچ کی اجازت عدالت دے چکی ہے۔ ان خواتین کے اکثر مطالبات لا یعنی ہی ہوں گے۔ تاہم اظہار رائے کی آزادی انہیں قانون کے تحت حاصل ہے۔ اگر اس تحریک کو زور زبردستی روکا گیا تو اس کے نتائج مزید خرابی کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ بہتر ہو گا کہ معاشرے میں ظلم کا شکار خواتین کی آواز ہم سب مل کر اٹھائیں۔ کئی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں اور اکثر کو جاب کے دوران ہراساں کیا جاتا ہے۔ خان صاحب اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے کچھ نہ کچھ کیا بھی ہے تاہم خواتین مارچ پر خان صاحب شاید ہی کوئی ایکشن لے سکیں اور شاید انہیں لینا بھی نہیں چاہیے۔
عورت مارچ میں حقوق کی نہیں، لایعنی مطالبات تھے. ناانصافی، ظلم و جبر کے خلاف آواز تو اٹھائی جاتی! اس سال شاید اس مارچ میں شاید آواز اٹھائی جائے
 
اگر آپ پاکستان میں رہتے ہوئے صنفی ناانصافی کو محسوس نہیں کرسکے تو مجھ امریکن کی راہنمائی سے آپ کو کیا مدد مل سکے گی۔

پہلے اپنے معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں پر خود غور کیجئے پھر مدد مانگئے گا۔ اور جب غور کرلیں تو ہی مضمون لکھئے گا۔
مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ امریکی ہیں ورنہ میں یہ طفلانہ سوال ہی نہ کرتا کیوں کہ یہاں رہتے ہوئے کوئی ایسی بے وقوفی کی باتیں نہیں کرتا۔ الحمد للہ ہم لوگ اپنی بہن بیٹیوں، ماوں کو عزت دیتے ہیں، ان کے لیے رزقِ حلال کا بندوبست کرتے ہیں، ان کی تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں۔ کبھی پاکستان تشریف لائیں تو یہاں کے شاپنگ مالز دیکھیے گا، تفریح گاہیں دیکھیے گا، یہاں تک کہ سینما گھروں میں بھی جھانکیے گا آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہاں آزادی نسواں پر کوئی پابندی نہیں۔ اگر کہیں تھوڑی بہت زیادتی ہے تو وہ دونوں کے ساتھ ہے اور اس کے لیے حکومت جواب دہ ہے۔
 

سید عمران

محفلین
خلیل الرحمان قمر نے جو کیا غلط کیا البتہ ماروی سرمد نے بھی کچھ خاص اچھا نہیں کیا۔آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی۔
ہاہاہاہا۔۔۔
اس جملہ کا مطلب پتا بھی ہے یا بس اندھا دھند لکھ مارا؟؟؟
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اظہارِ آزادی رائے کا واہیات قانون مغربی نجاستوں کی پوٹ میں سے ایک غلاظت ہے۔۔۔
کہ جو منہ میں آئے بک دو۔۔۔
لیکن جب کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کی تشریح کرنے سر جوڑ کے بیٹھ جاتے ہیں کہ اس اظہار کی حد کیا ہے؟؟؟
اگرچہ ہولوکاسٹ پر تنقید کی ممانعت سے خود ہی اس قانون کا جنازہ نکال دیا تاہم پھر بھی اس مردہ لاش کو اپنے مقصد کے لیے وقتاً فوقتاً بھنبھوڑتے رہتے ہیں۔۔۔
ہمارے اللہ تعالیٰ نے اور ان کے پیارے نبی نے ایسا قانون بنایا جہاں اس اوٹ پٹانگ بکواس کی گنجائش ہی نہ چھوڑی۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے خبردار کردیا زیادہ اوٹ پٹانگ ہانکنے کی ضرورت نہیں۔۔۔
ایک ایک لفظ نوٹ کیا جارہا اور عن قریب اس پر جزا اور سزا ملے گی۔۔۔
انسان کو یونہی شتر بے مہار نہیں چھوڑ دیا کہ جو چاہے اول فول بکتا پھرے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔۔۔
ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید، ایک لفظ بھی ایسا نہیں جس کو نوٹ کرنے پر کوئی فرشتہ مقرر نہ ہو۔۔۔
ہماری گالیاں اور لغو کلام سب ریکارڈ ہورہا ہے اور عن قریب اسے ہمارے سامنے کردیا جائے گا۔۔۔
اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ما النجاة؟ نجات کیسے ممکن ہے؟؟؟
آپ نے فرمایا:
۱)امسک علیک لسانک
۲)ولیسعک بیتک
۳)و ابک علی خطیئتک (ترمذی)
۱)اپنی زبان پر قابو رکھ۔
۲)تیرا گھر تیرے لیے کافی ہوجائے۔ یعنی اپنے گھر کا کھونٹا بن جا، مخلوق سے بلاوجہ زیادہ میل جول نہ رکھ۔
۳) اور اپنے گناہوں پر روتا رہ۔
معلوم بھی ہے کہ نجات ہر وقت اوٹ پٹانگ بکواس کرتے رہنے میں نہیں، زبان کو قابو میں رکھنے میں ہے۔ ورنہ وہ آفتیں سر پر پڑیں گی کہ رونے کے لیے کسی کا کاندھا بھی نہ ملے گا!!!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
میں عورت مارچ کا حامی ہوں
شاہد کاظمی 9 منٹ پہلے
اسلام نے بطور مذہب مجھے عورتوں کا احترام کرنا سکھایا ہے۔ پیدا کرنے والی ماں ہو، دل کا سکون بیٹی ہو، غموں کی ساتھی بہن ہو، یا زندگی کی ساتھی بیوی، اسلام نے تمام رشتوں کے نہ صرف حقوق بتا دیے ہیں بلکہ ان رشتوں کو بھی سمجھا دیا ہے کہ وہ بطور مرد میری بات کیسے مانیں۔ کس طرح میرے سکون کا خیال رکھیں اور خاندان کے سربراہ کے طور پر کیسے میری خواہشات کا احترام کریں، جائز خواہشات، جائز ضد، جائز حکم۔ لہٰذا مجھے یہ کہنے میں کوئی شرمندگی، پریشانی یا جھجک نہیں کہ میں عورت مارچ کا حامی ہوں اور مکمل ان کا ساتھ بھی دوں گا۔

لیکن ایک لمحہ رکیے۔ اگر میں عورتوں کے مارچ کا حامی ہوں اور ان کی سپورٹ کا وعدہ بھی کررہا ہوں، اور ہر فورم پر ان کی آواز بننے کی ذمے داری بھی نبھانے کو تیار ہوں تو عورت مارچ کے کرتا دھرتا منتظمین یقینی طور پر میری سپورٹ کےلیے کچھ میری باتیں بھی مانیں گے۔ میں اس مارچ کی حمایت غیر مشروط طور پر کررہا ہوں۔ مجھے اس حمایت کے بدلے نہ تو کوئی شہرت چاہیے، نہ ہی مجھے کسی بھی بڑے فورم پر سراہے جانے سے غرض ہے اور نہ ہی میں اس بات کا طلبگار ہوں کہ میری خدمات کے صلے میں کسی بینر پر میرا نام چھاپا جائے۔ کیوں کہ میں عورت مارچ کا باقاعدہ حصہ ہوں اور اب اس مارچ کا ہر فورم پر دفاع بھی کروں گا۔ لہٰذا منتظمین سے گزارش ہے کہ میری کچھ گزارشات کو بھی ہمارے اس عورت مارچ کا حصہ بنا لیجیے۔ یہ یقینی طور پر عورت مارچ کےلیے بہتر ہوگا۔

پہلی گزارش: اس عورت مارچ کا حصہ بھٹے پر کام کرنے والی وہ عورت بھی ہونی چاہیے جو ساری زندگی بھٹہ مالک کے حبس بے جا میں رہتی ہے۔ قرض کی زنجیر اتنی مضبوطی سے اس کے گرد جکڑی جاتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ اس بھٹہ مالک کی قید میں رہتی ہے۔ اسے اتنا کھانا پانی میسر آتا ہے کہ صرف سانس کی ڈور چلتی رہے۔ اور صبح تڑکے کام پر جانے کے بعد رات گئے اسے نرم بستر کے بجائے گھاس پھوس سے بنے بستر پر سونا پڑتا ہے۔ سونا نہ کہیے بلکہ اسے قید میں رہنا پڑتا ہے، کیوں کہ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ وہ حالات سے تنگ آکر بھاگ نہ جائے۔ لہٰذا اس عورت مارچ کا کوئی ایک نعرہ، کوئی ایک تقریر، کوئی ایک صف اس کے نام ہونی چاہیے۔ یقین مانیے میں عورت مارچ کا حامی ہوں۔ اپنے سپورٹر کی صرف اتنی سی گزارش مان لیجیے کہ کسی اینٹوں کے بھٹے پر قید بامشقت کا شکار ایسی خواتین کو آزاد کروائیے۔ ان کا قرض اپنے پلے سے ادا کیجیے۔ اور پھر ان کو اپنے عورت مارچ کی پہلی صف میں کھڑا کر دیجیے۔ کیا منظر ہوگا پھر، واہ۔

دوسری گزارش: پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں غریب بیٹیاں تیزاب گردی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ میڈیا کے سامنے تو اتنے ہی کیسز آتے ہیں جنہیں آپ سمندر کی تہہ تک جاتے برفانی تودے کا اوپری سرا کہہ سکتے ہیں۔ آٹے میں نمک کے برابر کچھ حادثے سامنے آپاتے ہیں اور اکثر ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ آپ سے بطور سپورٹر عورت مارچ دوسری گزارش یہ ہے کہ پورے ملک کا سروے کیجیے اور صرف امداد یا اپنی این جی او کا نام چمکانے کے بجائے ایسے اصل جرأت کے نشانوں کو تلاش کیجیے جو تیزاب گردی کے باوجود ہمت نہیں ہار رہیں۔ آپ ان کی ہمت بنیے۔ صرف اپنی تنظیم یا ادارے کا نام بڑھانے کے بجائے ان کا ایسے ساتھ دیجیے کہ ان کا مناسب علاج کروائیے۔ اور ان کے عدالتوں میں التوا کا شکار کیسز لڑیے۔ ان کو فتحیاب کیجیے۔ اور ان کو فتح دلوانے کے بعد آپ ان کے نام کے بینر بنوائیے اور پھر ان کو عورت مارچ کے ہراول دستے میں شامل کرلیجیے۔ یہ میرے جیسے عورت مارچ کے سپورٹر پر آپ کا احسان ہوگا۔

تیسری گزارش: پاکستان جیسے ملک میں جہاں معاشرتی ناسور ہماری بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ وہاں ہزاروں بیٹیاں شادی کی عمر گزر جانے کے بعد بالوں میں چاندی سمیٹے گھر کی دہلیز پر منتظر بیٹھی ہیں۔ جہیز کا انتظام نہ کرسکنا ان کے والدین کا جرم بن گیا ہے۔ معاشرے میں اکا دکا ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں جہیز سے نہیں انسان سے مطلب ہے لیکن اکثریت جہیز کی طلبگار ہے اور مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے والے باپ کےلیے جہیز کا بندوبست کرنا ممکن نہیں۔ نتیجتاً بیٹی کی شادی کی عمر گزری جارہی ہے۔ وہ باپ کو تو مسکرا کر سہارا دے سکتی ہے، لیکن تنہائی میں اس کے آنسو کیوںکہ کوئی دیکھ نہیں سکتا لہٰذا وہ جی بھر کر آنسو بہاتی ہے۔ آپ سے چھوٹی سی درخواست ہے کہ عورت مارچ کے منتطمین میں سے چند لوگ منتخب کرکے ایک کمیٹی بنائیے، جس کا کام ہی یہ ہو کہ وہ پورے ملک سے ایسی بیٹیوں کا ڈیٹا جمع کرکے پھر پورے ملک میں ایک مہم چلائیے کہ برسرروزگار لڑکوں سے ان کی شادیاں کروائیے۔ مردانگی کے اصل استعارے ایسے مرد جو جہیز (ضروریات زندگی اور جہیز میں فرق کرنا سیکھیے) جیسی لعنت پر واقعی لعنت بھیجتے ہوئے ان لڑکیوں کو اپنائیں۔ اور اس رشتے کے جوڑنے میں یہ عورت مارچ کے منتظمین اپنا کردار ادا کریں۔ یہ یقینی طور پر عزت کی بالادستی کی جانب ایک قدم ہوگا۔ اس کے ساتھ جہیز کے خلاف مہم شروع کیجیے اور کچھ نہ سہی تو عورت مارچ کے رنگ برنگے بینرز میں سے کچھ بینرز پر جہیز کے خلاف نعرے لکھوا دیجیے۔

چوتھی گزارش: پاکستان میں لاکھوں ایسی خواتین موجود ہیں جو نامساعد حالات اور خاندانی حالات کے ستانے کے بعد ورکنگ ویمن بن جاتی ہیں۔ انہیں دفاتر میں ملازمت اختیار کرنا پڑتی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ عورت مارچ کی کئی ساتھی تو شوق میں ملازمت کرتی ہیں کہ انہیں عورتوں کی بالادستی کو نافذ کرنا ہے۔ لیکن ایسی لاکھوں خواتین جو با امر مجبوری اپنے خاندان کا سہارا بننے کےلیے گھر سے باہر قدم نکالتی ہیں۔ اس چھوٹی سی گزارش پر غور کیجیے کہ ہمارے اس عورت مارچ کے کچھ نعرے، کچھ بینر، ایسی عورتوں کے حوالے سے بھی موجود ہوں، جو ہراسمنٹ کا نہ صرف شکار ہوتی ہیں بلکہ وہ یہ کسی کو بتا بھی اس لیے نہیں سکتیں کہ ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور خاندان کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ ہمیں تھوڑی سی محنت تو کرنا ہوگی، لیکن مجھے عورت مارچ کے منتظمین پر پورا بھروسہ ہے کہ ہمیں ایسے دفاتر کا رخ کرنا ہوگا، ایسی فیکٹریوں کا رخ کرنا ہوگا، ایسے کارخانوں میں جانا ہوگا جہاں مجبور عورتوں سے بیگار کیمپ جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی اجرت بھی وقت پر نہیں دی جاتی۔ مجھے یقین ہے کہ عورت مارچ کی انتظامیہ میرے اس مطالبے یا گزارش پر غور کرے گی کہ ایسی خواتین کو ان کا حق دلانے کےلیے جہدو جہد کی جائے اور ایسی فیکٹریوں، کارخانوں، دفاتر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی جو عورتوں کو ان کی باقاعدہ اجرت دینے سے پہلوتہی کررہے ہیں۔

پانچویں گزارش: میری عورت مارچ کی انتظامیہ سے ایک اور گزارش ہے کہ ایک پریس کانفرنس کی ضرورت ہے، ایک پریس ریلیز کی ضرورت ہے اور ایک احتجاج کی ضرورت ہے، عورتوں کو وراثت میں ان کا جائز حصہ دلوانے کےلیے۔ مذہب و قانون کے بتا دینے اور تشریح کردینے کے باوجود وطن عزیز میں لاکھوں خواتین ہیں جو وراثت سے محرومی کے بعد بیوگی کا روگ اپنائے ہوئے ہیں۔ وراثت سے باہر کردینے کی وجہ سے معاملات زندگی ان کےلیے مشکل ہورہے ہیں۔ بیوگی چھوڑیے، یہاں زندہ ہوتے ہوئے بھی باپ بھائی وراثت میں عورت کا حصہ اپنے نام کروا لیتے ہیں۔ میری عورت مارچ کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ میں تو آپ کے ساتھ ہوں لیکن میرے جیسے بہت سے لوگ بھی آپ کے ایسی عورتوں کےلیے احتجاج کے بعد آپ کا ساتھ دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ وراثت سے محروم خواتین کےلیے احتجاج کیجیے، میڈیا میں جائیے، اور ان خواتین کے حقوق ان کو دلانے کےلیے عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنے کا بندوبست کیجیے۔ یقین کیجیے آپ کے اس فیصلے سے صرف خواتین نہیں بلکہ مرد حضرات کی اکثریت بھی عورت مارچ میں آپ کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی۔

یہ کچھ گزارشات اگر پوری ہوپائیں تو کچھ اور گزارشات کی باری آئے۔ راقم الحروف کا تو مسئلہ ہی نہیں، میں تو عورت مارچ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ میں ایک مرد ہوں، لیکن عورت مارچ کا حامی ہوں۔ لیکن مندرجہ بالا چند گزارشات پر اگر غور فرمالیں تو یقین جانیے کہ کئی اور لوگ بھی جو فیصلہ نہیں کر پا رہے، وہ آپ کے ساتھ آکھڑے ہوں گے۔ عورت مارچ کیوں نہ ہو بھلا۔ عورتوں کے حقوق کے خلاف کون فاترالعقل انسان جاسکتا ہے۔ ہمارا تو ماننا ہی یہی ہے کہ عورت اس کائنات کی حسین ترین مخلوق ہے۔ یہ ماں کے روپ میں بچے کو خشک جگہ سلاتی ہے اور خود گیلی جگہ سو جاتی ہے۔ یہ بہن کے روپ میں بھائی کی پریشانی بنا بتائے ہی جان جاتی ہے۔ یہ بیٹی کے روپ میں باپ کے گھر آنے پر کہے بنا ہی پانی کا گلاس پیش کرتی ہے۔ یہ بیوی کے روپ میں شوہر کی ہر پریشانی میں اس کے ساتھ آکھڑی ہوتی ہے اور مرد ہر پریشانی کا مقابلہ ایسی شریک حیات کے ہوتے ہوئے کرجاتا ہے۔ ہم بھلا عورت کے حق کے مخالف کیوں کر ہوں گے۔

فیصلہ لیکن یہاں کرنا ہوگا کہ عورت مارچ کیا واقعی عورتوں کے حقوق کےلیے ہے؟ اگر واقعی حقوق کےلیے ہے تو بھٹے پر کام کرنے والی عورت، تیزاب گردی کا شکار عورت، ریپ سہنے والی عورت، غیرت کے نام پر قتل ہونے والی عورت، خاندانی جھگڑوں کا ایندھن بننے والی عورت، معاشرے میں بیوہ ہوجانے پر دھتکاری جانے والی عورت، جہیز نہ ہونے پر شادی نہ ہونے والی عورت، دفاتر، کارخانوں، فیکٹریوں میں مشکلات کا شکار عورت، وراثت سے محروم عورت، اس عورت مارچ میں نظر آنی چاہیے۔ اس عورت مارچ میں ایسے مظالم کا شکار عورتوں کے نام کے نعرے نہیں ان کی عملی سطح پر مدد نظر آنی چاہیے۔

اگر صرف بے ڈھنگے اجسام، ننگی سوچ، فحش گوئی، بدتمیزی، صنف مخالف کی تذلیل، مخصوص لابی کے مقاصد ہی عورت مارچ کی شان ہوں گے، تو معاف کیجیے گا کہ میں جو مرد عورت مارچ کا حامی ہوں وہ اس غیر اخلاقی دیوالیہ پن کا حامی نہیں ہوسکتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
خلیل الرحمٰن قمر صاحب ذرا تھم کے!
اگر چند خواتین کے ’عورت مارچ‘ سے پورے معاشرے کی خواتین کو کوئی سروکار نہیں تو پھر تمام مرد کیوں بے کار میں اپنی توانائیاں ضائع کرنے پہ تلے ہیں؟
ذکیہ نیر
جمعرات 5 مارچ 2020 10:45

73166-362544269.jpg

خلیل الرحمٰن صاحب کاش آپ بھی ذرا تھم کہ رہتے تو ’میرا جسم میری مرضی‘ والیاں آج ہمدردی نہ سمیٹ رہی ہوتیں (سکرین گریب)

میں خلیل صاحب کی تحریروں کی بڑی مداح ہوں۔ ان کے دو مشہور ڈراموں میں ایک چیز بہت ملتی جلتی ہے، جب بھی کوئی کردار جلد بازی میں کوئی غلطی کرنے لگتا ہے تو مخالف کردار ایک لائن دہراتا ہے، ’ذرا تھم کے رہو!‘

لیکن دو روز قبل ایک لائیو پروگرام میں جب خود تھمنے کا وقت آیا تو خلیل الرحمٰن نہ تھمے، نہ رکے، بلکہ وہ گرجے، وہ برسے کہ دو روز سے سوشل میڈیا پر وہ جھڑی لگی کہ اس کے آگے ملک بھر میں ہونے والی بارشوں کا زور ٹوٹ گیا۔

ٹوئٹر پر یہ مسئلہ ایسا ٹاپ ٹرینڈ بنا کہ اترنے کا نام نہیں لے رہا، فیس بک پر کھڑکی توڑ رش لگا، ٹی وی چینل کی ریٹنگ آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور مجھ سمیت ہر کوئی فلسفی بنا اپنا اپنا تجزیہ دینے میں مصروف ہے۔

خلیل الرحمٰن صاحب کاش آپ بھی ذرا تھم کہ رہتے تو ’میرا جسم میری مرضی‘ والیاں آج ہمدردی نہ سمیٹ رہی ہوتیں۔

پروگرام کے کلپ ہر طرف گردش کر رہے ہیں۔ آپ اگر شروع سے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ خلیل الرحمٰن قمر نے انتہائی مودبانہ انداز میں اسی طرح گفتگو کا آغاز کیا جو ایک مہذب لکھاری کو زیب دیتا ہے۔ عدالت نے عورت مارچ میں کچھ ’نامناسب‘ نعروں کو نہ دہرانے کا حکم دے رکھا ہے، یہی بات خلیل صاحب نے بھی دہرائی اور ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے غلیظ قرار دیا تو دوسری طرف کال ہر موجود ماروی سرمد نے حسب عادت ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔

پھر پڑھے لکھے لوگوں نے جو سرکس لگایا وہ دیکھنے لائق تھا نہ سننے جوگا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جسے برداشت نہ ہوا وہ پروگرام سے اٹھ جاتا، معذرت بہتر تھی بہ نسبت گالم گلوچ اور نازیبا الفاظ کے۔

خیر صبر، برداشت اور لفظوں کا چناؤ تو ایسی صفات ہیں جو کسی عام محفل کے لیے بھی ضروری ہیں، پھر یہ تو لائیو ٹی وی پروگرام تھا۔

میری تحریر کے بعد یہ نہ سمجھیے گا کہ میں بھی عورت مارچ میں کوئی پلے کارڈ اٹھانے والی ’ماڈرن آنٹی‘ ہوں۔ لیکن ایسا بھی ہرگز نہیں کہ میں ان ’کھلے نعرے‘ لگانے والی عورتوں کو گالی دینے والوں کی حامی ہوں۔ ہاں مگر ایک بات طے ہے کہ عورت جیسی بھی ہو مگر اسے گالی دینے کی اجازت کسی مرد کو نہیں، اور یہی ’عورت دوست‘ معاشرے کی طرف پہلا قدم ہے۔

پھر ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر چند خواتین کے ’عورت مارچ‘ سے پورے معاشرے کی خواتین کو کوئی سروکار نہیں تو پھر تمام مرد کیوں بے کار میں اپنی توانائیاں ضائع کرنے پہ تلے ہیں، کیونکہ خلیل الرحمٰن قمر سمیت موجودہ معاشرے کا ہر مرد جب اپنے گھر پہنچتا ہے تو اس کی بیوی محبت اور خلوص سے اس کے لیے نہ صرف کھانا خود گرم کرتی ہے بلکہ روٹیاں بھی اپنے ہاتھوں سے بنانے میں جو سکھ اور چین محسوس کرتی ہے وہ مرد کی دن بھر کی تھکن اتار دیتی ہے۔

پھر گلہ غیر عورتوں سے کیوں؟ اٹھانے دیجیے انہیں ان کی تخلیقات سے بھرے پلے کارڈ ایک دن کے لیے، کیونکہ ان کا جسم ان کی مرضی۔۔۔۔۔ آپ کا کیا جاتا ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
عورت مارچ: اگر وہ حقوق لینا ہی نہ چاہیں تو؟
معاشرے نے خواتین کے دماغوں کو نسل در نسل پدر شاہی کی جھاگ لگا کر دہی بنایا ہے اور اچھی خاصی یہ دہی جمی پڑی تھی کہ عورت مارچ والیوں کے نعرے اب اس دہی کی لسی بنانے پہ تُلے ہیں۔
عفت حسن رضوی مصنفہ، صحافی @IffatHasanRizvi
جمعرات 5 مارچ 2020 6:00
 

فرقان احمد

محفلین
خلیل صاحب اپنا کیس عمدہ طریقے سے پیش فرما دیتے تو ان کا قد مزید بڑھ جاتا تاہم موصوف نے ماروی سرمد کی ایسے کلاس لی جیسے ان سے کوئی ذاتی عناد ہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
خلیل صاحب اپنا کیس عمدہ طریقے سے پیش فرما دیتے تو ان کا قد مزید بڑھ جاتا تاہم موصوف نے ماروی سرمد کی ایسے کلاس لی جیسے ان سے کوئی ذاتی عناد ہو۔

مخالفین اپنی خواتین کو یہ بینر تھما کر تصویر بنوائیں معافی مانگ لوں گا، خلیل الرحمان قمر
ویب ڈیسک جمعرات 5 مارچ 2020
2012316-feminist-1583424917-979-640x480.jpg

چند خواتین غیرملکی اور غیر اسلامی ایجنڈے کے تحت مسلم خواتین کی تذلیل کا سبب بن رہی ہیں، خلیل الرحمان قمر (فوٹو: فائل)

کراچی: ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر کا کہنا ہے کہ مجھ پر تنقید کرنے والے اپنی خواتین کو یہ بینر تھما کر تصویر بنوائیں میں معافی مانگ لوں گا۔

خلیل الرحمان قمر نے ٹوئٹر پر ماروی سرمد کے لیے استعمال کیے گئے الفاظ پر معافی کا مطالبہ کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے دو تصاویر ٹویٹر پر شیئر کیں اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھ پر تنقید کرنے والے پہلے اپنی ماں، بہن اور بیٹی کو یہ بینرز پکڑا کر ایک تصویر اپنے اکاؤنٹ سے عورت مارچ کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے ٹویٹس کریں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ لوگ یہ کرتے ہیں تو میں اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے نہ صرف معافی بلکہ عورت مارچ کی حمایت کرنے کو تیار ہوں، اگر یہ نہیں کرسکتے تو مجھ سے بغض پرے رکھ کر سوچو کیا میں ٹھیک نہیں؟

خلیل الرحمان قمر نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چند خواتین غیر ملکی اور غیر اسلامی ایجنڈے کے تحت مسلم خواتین کی تذلیل کا سبب بن رہی ہیں لیکن افسوس کہ چند اداکارائیں ان کی حمایت میں میرے خلاف اس لیے بول رہی ہیں کیونکہ میں اُن کو یہ کہہ کر رَد کرچکا تھا کہ میرے لکھے ڈرامے اور ان کی شخصیت میں مماثلت نہیں، اس لیے میرا قلم میری مرضی کیوں نہیں؟

مصنف و ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر نے چند اینکرز پرسن پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کی حمایت کرنے والے اینکرز کی بہنوں کی تصویریں گوگل سے بھی نہیں ملتیں، اپنی بہنوں کو گھروں میں قید کیا ہے، ان پر پابندیاں لگاتے ہیں لیکن دوسروں کی بہن بیٹیوں کو ورغلاتے ہیں؟
 

جاسمن

لائبریرین
پاکستان کی سڑکوں پر خواتین کے حق میں نکالی جانے والی ریلی اگر واقعی عورتوں کے حق میں ہوتی تو اس میں آویزاں کئے گئے پلے کارڈ جس پر لکھا تھا(( میرا جسم میری مرضی))(( میں آزاد ہوں)) کی بجائے ان پلے کارڈز پر درج ذیل نعرے تحریر ہوتے تو نہ صرف معاشرہ انکے اس عمل کا سراہتا بلکہ قوم اور ملک کی عزت میں بھی اضافہ کا سبب بنتیں۔

1."مُجھے وراثت میں حصہ دو "

2. "تعلیم میرا حق ہے"

3. "گھر کے کاموں میں عورتوں کا ہا تھ بٹانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سُنّت ہے. "

4. "بہترین مُسلمان وہ ہوتا ہے جو عورتوں کیساتھ اچھائی سے پیش آتا ہے. "

5." مومن مردوں اپنی آنکھیں نیچی رکھو. "

6. "عورت نہ صرف مرد کی بلکہ ریاست کی بھی ذمّہ داری ہے. "

7. "بآعزت روزگار ہر عورت کا بُنیادی حق ہے. "

8."ماں کے قدموں تلے جنّت ہے. "

9. "بیٹیوں کو اچھی تعلیم اور تربیت دینے والا مرد جنّت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کا ساتھی ہے. "

10. "قیامت کے دِن تُم سے عورتوں کے حقوق بارے پوچھ گچھ ہوگی. "

11. "بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں. "

12۔ ہمارا احترام سوسائٹی پر فرض ہے۔

13۔لڑکیوں کی اچھی تربیت جنت کی ضمانت ہے۔

14۔ ہم مائیں بہنیں بیٹیاں قوموں کی عزت ہم سے ہے۔

15۔ ہم شو کیس میں رکھے کھلونے یا مارکیٹ میں بکنے والی کوئی چیز یا ٹی وی پر چلنے والا اشتہار نہی بلکہ اک قابل عزت زندہ جیتی جاگتی حقیقت ہیں۔۔
 
جناب جاسم محمد صاحب
آپ مدیر ہیں۔ براہ کرم دھاگے میں آرٹیکل کاپی پیسٹ کر کے اسے پراگندہ نہ کریں۔
دھاگے کا مقصد مکالمہ ہونا چاہیے۔ پروپیگنڈا نہیں
 

فرقان احمد

محفلین
مخالفین اپنی خواتین کو یہ بینر تھما کر تصویر بنوائیں معافی مانگ لوں گا، خلیل الرحمان قمر
ویب ڈیسک جمعرات 5 مارچ 2020
2012316-feminist-1583424917-979-640x480.jpg

چند خواتین غیرملکی اور غیر اسلامی ایجنڈے کے تحت مسلم خواتین کی تذلیل کا سبب بن رہی ہیں، خلیل الرحمان قمر (فوٹو: فائل)

کراچی: ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر کا کہنا ہے کہ مجھ پر تنقید کرنے والے اپنی خواتین کو یہ بینر تھما کر تصویر بنوائیں میں معافی مانگ لوں گا۔

خلیل الرحمان قمر نے ٹوئٹر پر ماروی سرمد کے لیے استعمال کیے گئے الفاظ پر معافی کا مطالبہ کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے دو تصاویر ٹویٹر پر شیئر کیں اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھ پر تنقید کرنے والے پہلے اپنی ماں، بہن اور بیٹی کو یہ بینرز پکڑا کر ایک تصویر اپنے اکاؤنٹ سے عورت مارچ کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے ٹویٹس کریں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ لوگ یہ کرتے ہیں تو میں اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے نہ صرف معافی بلکہ عورت مارچ کی حمایت کرنے کو تیار ہوں، اگر یہ نہیں کرسکتے تو مجھ سے بغض پرے رکھ کر سوچو کیا میں ٹھیک نہیں؟

خلیل الرحمان قمر نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چند خواتین غیر ملکی اور غیر اسلامی ایجنڈے کے تحت مسلم خواتین کی تذلیل کا سبب بن رہی ہیں لیکن افسوس کہ چند اداکارائیں ان کی حمایت میں میرے خلاف اس لیے بول رہی ہیں کیونکہ میں اُن کو یہ کہہ کر رَد کرچکا تھا کہ میرے لکھے ڈرامے اور ان کی شخصیت میں مماثلت نہیں، اس لیے میرا قلم میری مرضی کیوں نہیں؟

مصنف و ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر نے چند اینکرز پرسن پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کی حمایت کرنے والے اینکرز کی بہنوں کی تصویریں گوگل سے بھی نہیں ملتیں، اپنی بہنوں کو گھروں میں قید کیا ہے، ان پر پابندیاں لگاتے ہیں لیکن دوسروں کی بہن بیٹیوں کو ورغلاتے ہیں؟
خلیل صاحب کا موقف ان کی بدزبانی کی نذر ہو گیا۔ جب وہ مناسب لفظوں میں اپنا مدعا بیان فرمائیں گے، تو ان کی بات کو کوئی زیر غور بھی لائے گا۔ انہوں نے ماروی سرمد کی بطور ایک عورت تحقیر کی اور حتیٰ کہ ان کی شکل صورت تک کا مذاق اڑایا۔ تنقید اور تحقیر و تضحیک میں فرق ہوتا ہے۔ تنقید تو ہم بھی کریں گے کہ یہ نعرے کیا ہیں! اصل ایشوز پر آئیں کہ کیا ہم گھریلو تشدد، جاب پر ہراسگی، وراثتی حق سے خواتین کی محرومی وغیرہ جیسے ایشوز کے حوالے سے ان کی مدد و اعانت کے لیے تیار ہیں اور ان ایشوز پر بھی سبھی خواتین کو اور مردوں کو بات بھی کرنی چاہیے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دو دریدہ دہن اشخاص کے انداز تعامل پر تو کافی بحثیں ہو چکیں اور کچھ عرصے ہوتی بھی رہیں گی حتی کہ فی الحال ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں ۔
اب اس مارچ کے حقیقی مقاصد میں شامل ایجنڈے کے نقاط پر بھی کچھ اظہار خیال ہونا چاہیئے کہ یہ تو معلوم ہو کہ ہمارے معاشرے میں تفریق کی بنیاد اور اسباب کا اصل منبع کیا ہے !
کیا خیال ہے ؟
بجائے اوروں کو ڈسکس کرنے کہ خود اپنی تعمیری بحث کریں تو ایک دوسرے کے خیالات سے استفادے کی صورت بھی بنے ۔ بشر طے جی ماروی صاحبہ اور خلیل صاحب کے طرز عمل کی اقتداء نہ کی جائے ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top