عدم خط کے سوا وجود دو عالم تھا بے نشاں - عبدالحمید عدم

خط کے سوا وجود دو عالم تھا بے نشاں
اس محویت سے خط ترا پڑھتا رہا ہوں میں​

نکلا تھا اک حسیں کے تعاقب میں پیار سے
اب تک اسی نشے میں چلا جا رہا ہوں میں​

اس سمت کھینچ لائی تھی دل کی تڑپ مجھے​
برہم نہ ہو ، ٹھہرتا نہیں ، جا رہا ہوں میں

پہلے میں ناصحوں کے ستم کا شکار تھا
اب اپنی جاں پہ آپ غضب ڈھا رہا ہوں میں

بے شک حضور ایسے ہی کرتے ہیں دل لگی
جی ہاں ، حضور ، ٹھیک ہے فرما رہا ہوں میں

اے نا خدا سفینے کی قسمت تیرے سپرد
ساحل سے بات کر کے ابھی آ رہا ہوں میں

جیسے گناہ کرنا کوئی سخت عیب ہے
ایسے گناہ کرنے سے ڈرتا رہا ہوں میں

یا رب نئے نقوش نہ تخلیق کر ابھی
مٹتے ہوے نقوش کو چمکا رہا ہوں میں

دل سی حقیر چیز تری بارگاہ میں ؟
اے دوست اپنے عجز سے شرما گیا ہوں میں

ہر چند تیری بزم سے جانا ہے دل کی موت
لیکن تو خوش نہیں تو ابھی جا رہا ہوں میں

یوں اس کی اک نظر نے کیا ہے عدم خراب
جیسے کہ رات بھر کہیں پیتا رہا ہوں میں

عبدالحمید عدم​
 
Top