کمرہ امتحان
سٹی اے-بی-سی
بنام ایک روٹھی ہوئی محبوبہ عرف اردو محفل
جان تمنا!
کیسی ہو؟ کیا کرتی ہو! ایسے تھوڑی کرتے ہیں؟ کہ خط ابھی ملا نہیں اور قاصد کے سامنے ہی جوڑ کر کر کے پڑھنا شروع کر دیا۔ چلو رکھو شاباش۔ اسے کچھ دے دلا کے رخصت کرو اور خط گھر جاتے ہی گڑ والی چاٹی میں رکھ دو۔ سونف والا گڑ، وہی جو تم لاتی تھی' میں کھاتی تھی، اور گھر بھی لے کر جاتی تھی۔ یہ خط صرف تب پڑھنے کی اجازت ہے جب سورج کی روشنی کے راستے میں چاند آ جائے، جیسے تمہاری روشنی ہم تک پہنچنے کے راستے میں ایک خطبے والی سرکار آئی ہیں۔ تب تک کے لیے رب راکھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے سورج گرہن کا انتظار تو نہیں کیا ہوگا تم نے۔ بس گھر واپس پہنچ کر سانسیں درست کی ہوں گی، کتنی بار کہا ہے کہ اٹھکیلیاں کرتی ہوئی مت جایا کرو۔ انیس برس کی ہوگئی ہو۔ نظر بد ویسے ہی ہر شے کو لگ جاتی ہے جس پہ میری نظر ہو! اچھا مجھے پتہ ہے تم جلدی جلدی آگے پڑھ رہی ہو تاکہ تمہیں منایا جائے۔ منا لیں گے یار، اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ پہلے دو مزیدار باتیں سنو۔ پہلی یہ کہ یہ خط غلطی سے بھی کسی کے ہاتھ نہیں لگنا چاہیے ورنہ تمہارے قصے مشہور ہو جائیں گے اور میری غیر کلاسیکی اردو! ارے بھئی، خط لکھنے کے لیے کیا ضروری ہے کہ پان دان اور اگال دان کے ساتھ گاؤ تکیہ لگا کر بیٹھا جاوے اور فرہنگ آصفیہ سے الفاظ مستعار لے لے کر قلم روشنائی میں ڈبویا جاوے؟ جو تو تڑاک ہماری چلتی ہے، ہم تو وہی چلاویں گے، اگر پسند نہیں تو روٹھی تو تم پہلے ہی ہو، اب یہ خط مزید پڑھے بغیر کسی بھی نلکے کے نیچے کر دو۔ نلکا گیڑنا بھی تم جیسی نازک اندام کے لیے ایک کام ہی ہے ویسے۔ آگ جلا لو گی؟ ہاں، تیلی تو لگا ہی لیتی ہو۔ چلو آگ میں ڈال دو، شاباش!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں جی؟ ہوگیا غصہ ٹھنڈا! پچھلی بار دو باتیں بتانی تھیں اور تم نے پہلی سن کے ہی غصہ کر لیا اور خط کو آنکھ اوجھل چاٹی اوجھل کر دیا۔ ارے بھئی تم ٹھہریں کلاسیکی، ہم ہیں ذرا خواہ مخواہ کے روایت شکن۔ ہمیں اگر قریب کی عینک سے دور نظر آتا ہو تو ہم بازار جاتے ہوئے بھی قریب کی ہی لگائیں اور سوچیں دور کی تو سب ہی لگاتے ہیں۔ تم نے کون سا کمال کر دیا! اچھا سنو، باتوں باتوں میں بات بڑھ جاتی ہے، میں بات کر رہی تھی اس دوسری مزیدار بات کی جسے سننے سے پہلے ہی تم گلنار ہو گئی تھیں۔ بات یہ بھی ادب کے خلاف ہی ہے اور تم ٹھہریں ادب کی متولی، لیکن کیا کروں، بات نہ کہوں تو زبان پر کھجلی سی ہوتی ہے۔ کب تک انسان اسے تالو سے جوڑے رکھے۔ ہاں تو بات یہ ہے کہ تمہارے اردو ادب میں شاعر بھی زیادہ تر مذکر اور محبوب بھی (زیادہ تر) مذکر۔ اور آج یہ ہمارا قصہ دیکھو، تم بھی مؤنث ہو کہ رکھنے والوں نے تمہارا نام محفل رکھا اور میں بھی مریم ہوں۔ اب اس روایت شکنی پر نہ لڑنے بیٹھ جانا، ابھی پچھلے حساب ہی بے باک نہ ہوئے!
اب تم فارم میں لگتی ہو۔ لگتا ہے پورا پڑھ کے ہی رہو گی۔ چلو پڑھ لو، بس سہیلیوں کو نہ پڑھانا ! تمہیں پتہ ہے؟ میں جب گاؤں کی باسی تھی اور وہاں ابھی فون اور انٹرنیٹ کی آسائشیں میسرنہیں تھیں (یہ مت سمجھنا کہ میں بجلی سے بھی پرانے دور کی ہوں، ہاں بس گیس وہاں ابھی تک بھی نہیں آئی) اس وقت میں جو چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھتی تھی، ان میں قلمی دوستی کا ذکر ہوتا تھا۔ میں اپنے سر پر ایک بادل سا بنا کے اس کے اندر منظر بنتی تھی کہ قلمی دوستی کیسے ہو سکتی ہے اور میں کس کے لیے کب تک یہ سنبھال کر رکھو سکتی ہوں۔ کتنا لطف آئے گا جس دن مجھے میری قلمی دوست مل جائے گی۔ اس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ اس کا لباس نیلگوں ہوگا، اسے لوگ محفل محفل پکاریں گے اور سب بیزار بیٹھیں گے تو اسے اٹھکیلیاں سوجھیں گی۔ تمہیں پتہ ہے؟ تم ہی میری قلمی دوست بنی اور ایسی بنی کہ کیا بتاؤں کیسی بنی! تمہارے ہوتے ہوئے کسی دوست کی ضرورت نہ تھی اور میں تم سے روٹھی تو کوئی دوست کافی نہ ہوا۔ تمہارے پاس کچھ ہے جو کہیں اور نہیں۔ مجھے پتہ ہے اب تمہارے دماغ میں شوخیاں چل رہی ہوں گی کہ "اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی"،دماغ سے کہو، نیچے اتر آؤ شاباش۔درحقیقت تمہارے پاس علم دوست محفلین تھے۔ ورنہ میرے اردگرد تو جب بھی میں نے نظر دوڑائی یوں ہی لگا کہ لوگ علم کی بات کہنے سننے کو جرم سمجھتے ہیں اور اسی لیے اس راہ کا راستہ بھی نہیں پوچھتے جہاں جانے کا قصد نہ ہو۔
تم تھی تو تمہارے پاس بیٹھ کر اٹھنے کو دل نہ چاہتا تھا۔ جو میں گئی تھی، تمہیں کیا پتہ غیر قلمی دوستوں نے کس کس کرب میں ڈالا تھا۔ ذرا دیر کو خط و کتابت بند کیا کی، تم نے تو آنکھیں ہی پھیر لیں اور مذاق میرے ساتھ یہ کیا کہ پہلے میرا انتظار کیا، میرے وعدے پر اعتبار کیا۔ لیکن جب میں آگئی تو چند دن نہ لگائے اور عاق نامہ لکھوا بیٹھیں!!! اچھا چلو مان لیتے ہیں یہ مذاق نہیں تھا، تمہاری اپنی مجبوریاں تھیں، لیکن کون سی سہیلی کون سی محبوبہ ہجر و فراق کی ڈیڈ لائنیں عطا کرتی ہے؟ ڈیڑھ مہینہ مجھے دونوں آنکھوں سے دیکھ لو، پھر تم کون اور میں کون؟؟؟او بہن، جانا تھا تو چلی جاتیں، ہم صبر کرتے کہ یہی منشا ہوگی۔ اب تمہیں دیکھ دیکھ کے کیا صبر کریں؟ کچھ نہیں کر رہے، بس کمال کر رہے ہیں اور بے مثال کر رہے ہیں۔ نہیں یقین تو چار قلمی دوست بٹھا لو اور چار غیر قلمی، سبھی یہی بتائیں گے کہ مریم نے منجی بسترے کے بعد پھوڑی بھی تمہارے آنگن میں بچھا لی ہے۔ میرے روز مرہ کے معمولات زندگی کیسے چل رہے ہیں، تمہیں کیا؟ تمہیں تو بس جانا ہے۔ طے کر ہی لیا تھا تو مڑ مڑ کے دیکھتی کیوں تھی اور اگر ابھی دل میں ذرا سا بھی کچھ ہے تو ابھی بھی لوٹ آؤ کہ وقت نہیں گزرا۔ ہم دل والے اتنا کھلا دل تو رکھتے ہی ہیں کہ "ہزار بار برو، صد ہزار بار بیا"۔
کہنا تم سے شروع سے یہی تھا ابھی بھی یہی ہے کہ مت جاؤ۔ اگر جانا بہت ضروری ہے تو اپنی کسی سہیلی کا برقی پتہ دیتی جاؤ جس کے ساتھ قلمی دوستی کی روایت رواں دواں رہے۔ یہ بھی بتا دینا کہ اگر جانا ضروری ہی ہے تو قبر کی مٹی سوکھنے کے بعد نئی دوست بناؤں کہ پہلے ہی؟ اگر بعد میں بنانی ہے تو پھر اس کا برقی پتہ بھی دے دینا جس کو قبر پہ روزانہ چھڑکاؤ کی ذمہ داری دے کر جاؤ گی!!! تین ابتساموں والی سرکار کا نام نہ لینا، ان سے اچھی سلام دعا ہے، تمہارے بعد بگاڑیں گے نہیں۔ اور ہاں اب خطبے والی سرکار سے "جواب شکوہ" نہ لکھوا بیٹھنا، وہ بہت خشک لکھتے ہیں۔ اصل چھڑکاؤ تو ادھر ہونا چاہیے!
والسلام
یوئیرز مریم
فرام ہیپیلی ایور آفٹر