ساغر صدیقی خطا وارِ مروّت ہو نہ مرہُونِ کرم ہو جا - ساغر صدیقی

خطا وارِ مروّت ہو نہ مرہُونِ کرم ہو جا
مسرت سر جھکائے گی پرستارِ الم ہو جا

انہی بے ربط خوابوں سے کوئی تعبیر نکلے گی
انہی اُلجھی ہوئی راہوں پہ میرا ہمقدم ہو جا

کسی زردار سے جنسِ تبسم مانگنے والے
کسی بیکس کے لاشے پر شریکِ چشمِ نم ہو جا

کسی دن ان اندھیروں میں چراغاں ہو ہی جائے گا
جلا کر داغِ دل کوئی ضیائے شامِ غم ہو جا

تجھے سُلجھائے گا اب انقلابِ وقت کاشانہ
تقاضائے جنوں ہے گیسوئے دوراں کا خم ہو جا

تجسّ مرکزِ تقدیر کا قائل نہیں ہوتا
شعورِ بندگی ! بیگانہِ دیر و حرم ہو جا

یہ منزل اور گردِ کارواں ساغرؔ کہاں اپنے
سمٹ کر رہگذارِ وقت پر نقشِ قدم ہو جا​
ساغر صدیقی
 
Top