عرفان صدیقی خرابہ ایک دن بن جائے گھر ایسا نہیں ہوگا

نیرنگ خیال

لائبریرین
خرابہ، ایک دِن بَن جائے گھر، ایسا نہیں ہوگا
اچانک جی اُٹھیں وہ بام و در، ایسا نہیں ہوگا

وہ سب، اِک بُجھنے والے شُعلۂ جاں کا تماشا تھا
دوبارہ ہو وہی رقصِ شَرر، ایسا نہیں ہوگا

وہ ساری بَستیاں، وہ سارے چہرے، خاک سے نِکلیں
یہ دُنیا، پِھر سے ہو زیر و زَبر، ایسا نہیں ہوگا

مِرے گُم گشتگاں کو لے گئی موجِ رَواں کوئی
مجھے مِل جائے پِھر گنجِ گُہر، ایسا نہیں ہوگا

خرابوں میںِ اب اُن کی جُستجُو کا سِلسِلہ کیا ہے
مِرے گردوں شِکار آئیں ادھر ایسا نہیں ہوگا

ہیولے رات بھر محراب و در میں پِھرتے رہتے ہیں
میں سمجھا تھا، کہ اپنے گھر میں ڈر، ایسا نہیں ہوگا

میں تھک جاؤں تو بازوئے ہَوا مجھ کو سہارا دے
گِروں تو تھام لے شاخِ شَجر، ایسا نہیں ہوگا

کوئی حرفِ دُعا میرے لیے پتوار بن جائے
بچا لے ڈُوبنے سے چشمِ تر، ایسا نہیں ہوگا

کوئی آزار پہلے بھی رہا ہوگا مِرے دِل کو
رہا ہوگا، مگر اے چارہ گر! ایسا نہیں ہوگا

بہ حدِّ وُسعَتِ زنجِیر، گردِش کرتا رہتا ہُوں !
کوئی وحشی گرفتارِ سفر، ایسا نہیں ہوگا

بدایُوں! تیری مٹّی سے بِچھڑ کر جی رہا ہُوں مَیں
نہیں، اے جان من! بارِ دِگر، ایسا نہیں ہوگا​
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین

نیرنگ خیال

لائبریرین

طارق شاہ

محفلین
غزل
عرفانؔ صدیقی

خرابہ، ایک دِن بَن جائے گھر، ایسا نہیں ہوگا
اچانک جی اُٹھیں وہ بام و در، ایسا نہیں ہوگا

وہ سب، اِک بُجھنے والے شُعلۂ جاں کا تماشا تھا
دوبارہ ہو وہی رقصِ شَرر، ایسا نہیں ہوگا

وہ ساری بَستیاں، وہ سارے چہرے، خاک سے نِکلیں
یہ دُنیا، پِھر سے ہو زیر و زَبر، ایسا نہیں ہوگا

مِرے گُم گشتگاں کو لے گئی موجِ رَواں کوئی
مجھے مِل جائے پِھر گنجِ گُہر، ایسا نہیں ہوگا

خرابوں میںِ اب اُن کی جُستجُو کا سِلسِلہ کیا ہے
مِرے گردوں شِکار آئیں ادھر ایسا نہیں ہوگا

ہیولے رات بھر محراب و در میں پِھرتے رہتے ہیں
میں سمجھا تھا، کہ اپنے گھر میں ڈر، ایسا نہیں ہوگا

میں تھک جاؤں تو بازوئے ہَوا مجھ کو سہارا دے
گِروں تو تھام لے شاخِ شَجر، ایسا نہیں ہوگا

کوئی حرفِ دُعا میرے لیے پتوار بن جائے
بچا لے ڈُوبنے سے چشمِ تر، ایسا نہیں ہوگا

کوئی آزار پہلے بھی رہا ہوگا مِرے دِل کو
رہا ہوگا، مگر اے چارہ گر! ایسا نہیں ہوگا

بہ حدِّ وُسعَتِ زنجِیر، گردِش کرتا رہتا ہُوں !
کوئی وحشی گرفتارِ سفر، ایسا نہیں ہوگا

بدایُوں! تیری مٹّی سے بِچھڑ کر جی رہا ہُوں مَیں
نہیں، اے جان من! بارِ دِگر، ایسا نہیں ہوگا

عرفانؔ صدیقی
بہت خُوب شیئرنگ
بہت سی داد :)
 

سین خے

محفلین
وہ ساری بستیاں وہ سارے چہرے خاک سے نکلیں
یہ دنیا پھر سے ہو زیر و زبر ایسا نہیں ہوگا

میں تھک جاؤں تو بازوئے ہوا مجھ کو سہارا دے
گروں تو تھام لے شاخ شجر ایسا نہیں ہوگا

کوئی حرف دعا میرے لیے پتوار بن جائے
بچا لے ڈوبنے سے چشم تر ایسا نہیں ہوگا

کوئی آزار پہلے بھی رہا ہوگا مرے دل کو
رہا ہوگا مگر اے چارہ گر ایسا نہیں ہوگا

بہت خوب :)
 
Top