(خبر) صدام کو پھانسی دے دی گئی

کیا صدام کی پھانسی عید والے دن مناسب تھی یا غلط؟


  • Total voters
    119

مہوش علی

لائبریرین
مجھے حيرت ہے کہ پاکستاني اخبارات ميں لکھنے والے دانشمند حضرات صدام حسين کو ہيرو بنا کر پيش کر رہے ہيں?

يہ حب علي سے زياد بغضِ معاويہ کا شاخسانہ لگتا ہے (يعني امريکہ مخالفت ميں صدام کو ہيرو بنايا جا رہا ہے)
 

ڈاکٹر عباس

محفلین
مہوش علی نے کہا:
مجھے حيرت ہے کہ پاکستاني اخبارات ميں لکھنے والے دانشمند حضرات صدام حسين کو ہيرو بنا کر پيش کر رہے ہيں?

يہ حب علي سے زياد بغضِ معاويہ کا شاخسانہ لگتا ہے (يعني امريکہ مخالفت ميں صدام کو ہيرو بنايا جا رہا ہے)
مھوش آپ کی بات درست ھے ۔یہ پاکستانی قوم کی پرانی عادت ھے کہ اس کی ہمدردیاں ہمیشہ مرنے والے کے ساتھ ھوتی ھیں خواہ مرنے والا وقت کا یزید ھی کیوں نہ ھو۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ڈاکٹر عباس نے کہا:
مہوش علی نے کہا:
مجھے حيرت ہے کہ پاکستاني اخبارات ميں لکھنے والے دانشمند حضرات صدام حسين کو ہيرو بنا کر پيش کر رہے ہيں?

يہ حب علي سے زياد بغضِ معاويہ کا شاخسانہ لگتا ہے (يعني امريکہ مخالفت ميں صدام کو ہيرو بنايا جا رہا ہے)
مھوش آپ کی بات درست ھے ۔یہ پاکستانی قوم کی پرانی عادت ھے کہ اس کی ہمدردیاں ہمیشہ مرنے والے کے ساتھ ھوتی ھیں خواہ مرنے والا وقت کا یزید ھی کیوں نہ ھو۔

بھائي جي،
اگر صرف يہ پاکستاني قوم ہوتي تو بھي شايد صبر آ جاتا، مگر آپ اجازت ديں تو ميں حقيقت حال بيان کروں، جو يہ ہے کہ عرب مسلم دنيا صدام حسين کا غم منا رہي ہے، اور اسکي اس "شہادت" پر اپني عيد خراب کيے بيٹھي ہے

يہ چيزيں مثبت نہيں ہيں اور مسلم قوم کي اجتماعي منفي سوچ کے انداز کو اجاگر کر رہي ہے
ايسي سوچ کے حامل لوگ (قوميں) کبھي بھي اپني حالت يا دوسروں کے ساتھ "انصاف" نہيں کر سکتے اور اسکا انتہائي نتيجہ انکے اپنے ظالم ہونے کي صورت ميں نکلتا ہے (ياد رکھيئے انصاف کي ضد ظلم ہے، يعني جو انصاف نہ کر سکے وہي ظالموں ميں سے ہے)
 

قیصرانی

لائبریرین
صدام کی موت پر مجھے کوئی افسوس نہیں، لیکن جس طرح کا طریقہ کار اختیار کرکے اسے مارا گیا ہے، اس کا نتیجہ یہی ہے کہ صدام اب بطور ہیرو زندہ رہے گا، جبکہ اسے بطور مجرم یاد رکھا جانا چاہیئے تھا
 

عبدالرحمٰن

محفلین
مہوش علی نے کہا:
ڈاکٹر عباس نے کہا:
مہوش علی نے کہا:
مجھے حيرت ہے کہ پاکستاني اخبارات ميں لکھنے والے دانشمند حضرات صدام حسين کو ہيرو بنا کر پيش کر رہے ہيں?

يہ حب علي سے زياد بغضِ معاويہ کا شاخسانہ لگتا ہے (يعني امريکہ مخالفت ميں صدام کو ہيرو بنايا جا رہا ہے)
مھوش آپ کی بات درست ھے ۔یہ پاکستانی قوم کی پرانی عادت ھے کہ اس کی ہمدردیاں ہمیشہ مرنے والے کے ساتھ ھوتی ھیں خواہ مرنے والا وقت کا یزید ھی کیوں نہ ھو۔

بھائي جي،
اگر صرف يہ پاکستاني قوم ہوتي تو بھي شايد صبر آ جاتا، مگر آپ اجازت ديں تو ميں حقيقت حال بيان کروں، جو يہ ہے کہ عرب مسلم دنيا صدام حسين کا غم منا رہي ہے، اور اسکي اس "شہادت" پر اپني عيد خراب کيے بيٹھي ہے

يہ چيزيں مثبت نہيں ہيں اور مسلم قوم کي اجتماعي منفي سوچ کے انداز کو اجاگر کر رہي ہے
ايسي سوچ کے حامل لوگ (قوميں) کبھي بھي اپني حالت يا دوسروں کے ساتھ "انصاف" نہيں کر سکتے اور اسکا انتہائي نتيجہ انکے اپنے ظالم ہونے کي صورت ميں نکلتا ہے (ياد رکھيئے انصاف کي ضد ظلم ہے، يعني جو انصاف نہ کر سکے وہي ظالموں ميں سے ہے)
السلام علیکم مہوش بہن
مجھے صدام سے کوئی ہمدردی نہیں مگر اسے حرمت والے مہینے اور خاص کرکے عید الاضحیٰ کے مقدس دن پھانسی دینے سے ہر سچے مسلمان کو دکھ ہوا ہے۔اور آپ کہہ رہی ہیں کہ ((عرب مسلم دنيا صدام حسين کا غم منا رہي ہے)) تو یہ صحیح نہیں ہے۔ یہاں‌تو خوشیاں‌منائی جارہی ہیں۔ مجھے جب سے مبروک مبروک صدام علی المشنقۃ اخذ جزاوہ کے میسج مل رہے ہیں، اس سے آگے کیا بتاؤں۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
قیصرانی نے کہا:
صدام کی موت پر مجھے کوئی افسوس نہیں، لیکن جس طرح کا طریقہ کار اختیار کرکے اسے مارا گیا ہے، اس کا نتیجہ یہی ہے کہ صدام اب بطور ہیرو زندہ رہے گا، جبکہ اسے بطور مجرم یاد رکھا جانا چاہیئے تھا

صدام کو مارنے کا غلط طريقہ کار صرف ايک مخصوص طبقے کے نزديک قابل اعتراض ہے، مگر اگر ہم مسلم قوم کي اکثريت کي بات کريں تو يہ سوال عبث ہے، کيونکہ:

مسلم قوم کہہ رہي ہے صدام شہيد

يہ ايک اچھي نشاني نہيں ہے اور حالات بتا رہے ہيں کہ لوگ اپنے جذبات ميں بہت حد تک اندھے ہو چکے ہيں اور کسي طرح انصاف کرنے کے قابل نہيں رہے ہيں

يہي ناانصافي نے انہيں ايسا ظالم بنا ديا ہے کہ يہ مغرب ميں دہشت گرد حملوں کي حمايت بھي کرتے ہيں جس ميں بے گناہ عورتيں اور بچے بھي مارے جاتے ہيں

يہي ناانصافي انہيں اُن گہرے تاريک گمراہيوں ميں دھکيلي گي جہاں سے انکا نکلنا ناممکن ہو جائے گا

مجھے امتِ مسلمہ کي حالت ديکھ کر بہت افسوس ہو رہا ہے، کاش کہ کوئي صحيح راستہ ہميں دکھا سکے
 

قیصرانی

لائبریرین
مہوش علی نے کہا:
صدام کو مارنے کا غلط طريقہ کار صرف ايک مخصوص طبقے کے نزديک قابل اعتراض ہے
میری اچھی سی بہن، مارنے کا غلط طریقہ کار سے مراد یہ ہے کہ جو عدالت کا رویہ تھا، جو کیسز بنیاد بنائے گئے، پھانسی کے لئے عید کے دن کا چناؤ وغیرہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے صدام کو ہیرو بنایا جا رہا ہے۔ ورنہ یہی دیکھ لیں کہ اسی شخص کی وجہ سے ایران عراق جنگ ہوئی، کویت پر قبضہ وغیرہ، یہ شخص ایک سرطان کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسی کی اپنی پالیسی کی وجہ سے کتنے لاکھ بندے مارے گئے تھے
 

مہوش علی

لائبریرین
عبدالرحمٰن نے کہا:
مہوش علی نے کہا:
ڈاکٹر عباس نے کہا:
مہوش علی نے کہا:
مجھے حيرت ہے کہ پاکستاني اخبارات ميں لکھنے والے دانشمند حضرات صدام حسين کو ہيرو بنا کر پيش کر رہے ہيں?

يہ حب علي سے زياد بغضِ معاويہ کا شاخسانہ لگتا ہے (يعني امريکہ مخالفت ميں صدام کو ہيرو بنايا جا رہا ہے)
مھوش آپ کی بات درست ھے ۔یہ پاکستانی قوم کی پرانی عادت ھے کہ اس کی ہمدردیاں ہمیشہ مرنے والے کے ساتھ ھوتی ھیں خواہ مرنے والا وقت کا یزید ھی کیوں نہ ھو۔

بھائي جي،
اگر صرف يہ پاکستاني قوم ہوتي تو بھي شايد صبر آ جاتا، مگر آپ اجازت ديں تو ميں حقيقت حال بيان کروں، جو يہ ہے کہ عرب مسلم دنيا صدام حسين کا غم منا رہي ہے، اور اسکي اس "شہادت" پر اپني عيد خراب کيے بيٹھي ہے

يہ چيزيں مثبت نہيں ہيں اور مسلم قوم کي اجتماعي منفي سوچ کے انداز کو اجاگر کر رہي ہے
ايسي سوچ کے حامل لوگ (قوميں) کبھي بھي اپني حالت يا دوسروں کے ساتھ "انصاف" نہيں کر سکتے اور اسکا انتہائي نتيجہ انکے اپنے ظالم ہونے کي صورت ميں نکلتا ہے (ياد رکھيئے انصاف کي ضد ظلم ہے، يعني جو انصاف نہ کر سکے وہي ظالموں ميں سے ہے)
السلام علیکم مہوش بہن
مجھے صدام سے کوئی ہمدردی نہیں مگر اسے حرمت والے مہینے اور خاص کرکے عید الاضحیٰ کے مقدس دن پھانسی دینے سے ہر سچے مسلمان کو دکھ ہوا ہے۔اور آپ کہہ رہی ہیں کہ ((عرب مسلم دنيا صدام حسين کا غم منا رہي ہے)) تو یہ صحیح نہیں ہے۔ یہاں‌تو خوشیاں‌منائی جارہی ہیں۔ مجھے جب سے مبروک مبروک صدام علی المشنقۃ اخذ جزاوہ کے میسج مل رہے ہیں، اس سے آگے کیا بتاؤں۔۔۔

اگر آپ کو يہ پيغامات مل رہے ہيں يہ بہت مثبت نشاني ہے الحمد للہ
مگر ميرے سامنے دوسرے واقعات سامنے آئے ہيں، آپ صرف پاکستاني اخبارات ميں دانشوروں کے کالم پڑھ ليں جس ميں کسي نے بھي کھل کر صدام کي برائيوں پر روشني نہيں ڈالي، بلکہ ہيرو بنا کر ہي پيش کرنے کي کوشش کي ہے
اور ہمارے مولانا حضرات اس موقع پر قران کيوں نہيں لوگوں کو سناتے کہ:

َمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا {93}

[النساء:93] اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اس کی جزا جہنم ہے۔ جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہو گا اور وہ اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔


لوگ کھل کر صدام کو شہيد کہہ رہے ہيں اور علماء حضرات نے بالکل چپ سادھ رکھي ہے؟ کيوں؟

عراق ميں مسلم کھل کر ايک دوسرے کا خون بہا رہے ہيں (بلکہ پچھلے 2 سالوں سے بہائے جا رہے ہيں ليکن علماء نے اسکے خلاف کوئي جہاد نہيں کيا (يعني کم ازکم جتني وہ امريکہ کي مذمت کرتے ہيں اسکي آدھي مذمت ہي وہ اس آپس کے خون خرابے کي کر ديتے تو حالات بہت بہتر ہوتے)


اور جہاں تک حرمت والے مہينے ميں عيد الاضحي کے دن پھانسي کا تعلق ہے تو اس ميں کيا قباحت ہے؟ کيا اس دن مجرموں کو پھانسي نہ دينے کا رواج دينا شريعتِ اسلام ميں ايک بدعتِ ضلالت نہيں؟ صدام حسين نے جتنا قتل عام کيا اسکي سزا ميں اگر اسے آج کے دن سو بار بھي سزائے موت دي جاتي تو بھي کوئي قباحت نہيں ہوتي (اُن لوگوں سے معذرت کے ساتھ جو سزائے موت کے مطلقا خلاف ہيں، بلکہ ميرا خطاب يہاں اُن لوگوں سے ہے جو اسلام ميں سزائے موت کو جائز جانتے ہيں مگر پھر بھي صدام کي سزائے موت کے خلاف ہيں)

چنانچہ اگر آپ کو صدام کي موت پر مبروک کي صدائيں سنائي دے رہي ہيں تو اصل ميں ہونا تو يہ چاہيئے کہ آج عيد کي خوشي ڈبل ہو جاني چاہيئے کيونکہ ايک تو عيد، اور دوسرا خس کم جہاں پاک

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

نہيں بھائي جي،
بات عيد الاضحي يا اس سے متعلق نہيں ہے، بلکہ چيزيں بہت آگے پہنچ گئي ہيں
اللہ تعالي ہماري قوم پر اپنا رحم و کرم فرمائے، امين
 

ڈاکٹر عباس

محفلین
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو، کراچی
صدام حسین کی سزائے موت مکافاتِ عمل ہے
اس وقت مجھے وہ ویڈیو فلم یاد آ رہی ہے جو صدام حسین کی خواہش پر انیس سو اناسی میں بنی تھی جب انہوں نے ایک خاموش جبری حکمتِ عملی کے تحت اپنےگُرو احمد حسن البکر کو صدارت کے عہدے سے معزول کر کے خود اقتدار سنبھال لیا تھا۔
گیارہ برس کی نائب صدارت کے بعد صدر بنتے ہی صدام حسین نے حکمراں بعث پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کا اجلاس طلب کیا۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ہال کچھا کھچ بھرا ہوا ہے۔نسبتاً جوان، پراعتماد اور تر و تازہ صدام حسین سٹیج پر براجمان ہیں۔ایک کے بعد ایک مقرر ڈائس پر آرھا ہے اور نئے صدر کی عظمت اجاگر کر رہا ہے۔

صدام حسین سگار کے کش لیتے ہوئے ہر مقرر کو توصیفی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ پھر صدام حسین خود ڈائس پر آئے اور گویا پورا ہال ایڑیوں پر کھڑا ہوگیا۔ تالیوں کا ایسا شور جیسے ہال کی چھت گر پڑے گی۔ صدام حسین اپنے مخالفین کو سازشی، پارٹی کے غدار اور احسان فراموش جیسے القابات سے لتاڑ رہے ہیں۔ ان کے ہر دوسرے یا تیسرے جملے پر ہال تالیوں کی آواز سے بھر جاتا ہے۔
مغربی دنیا کا لاڈلا روشن خیال سیکولر آمر ابلیسیت کا ہار پہن کر ہٹلر اور مسولینی کی صف میں کھڑا کر دیا گیا اور پھر سب کو عراقی عوام پر صدام حسین کے مظالم بھی نظر آنے لگے۔

صدام حسین خطاب کے بعد کرسی پر دوبارہ بیٹھ جاتے ہیں۔ اب ڈائس سے ایک کے بعد ایک نام پکارا جا رہا ہے۔ جس جس کا بھی نام لیا جا رہا وہ اپنی نشست سے اٹھ کر سر جھکا رہا ہے۔ دو محافظ اسے بازو سے پکڑ کر لے جائے جا رہے ہیں۔ اس طرح سے کئی لوگ باہر لے جائے گا۔ پھر خبر آئی کہ انہیں پارٹی قیادت سے غداری اور ملک دشمنی کے جرم میں گولی مار دی گئی۔

غداروں کی صفائی کے بعد ملک اور بعث پارٹی پر جواں سال قائد، رئیس الجمہوریہ صدام حسین کا دبدبہ مکمل ہو چکا ہے۔ اگلے چوبیس برس تک عراق کی ہر شاہراہ، موڑ، چوک، سرکاری دفتر، ٹی وی سکرین، اخبار کے صفحہ اول اور کرنسی نوٹ پر صرف رئیس الجمہوریہ کی شبہیہ دکھائی دے گی۔

کوئی بھی ان کی عقابی نگاہوں سے نہیں بچ سکتا۔ کوئی ان کے احترام میں صدارتی امیدوار بننے کی جرات نہیں کر سکتا۔ وہ بلاشبہ محبوب ترین رہنما ہیں جنہیں ہر صدارتی انتخاب میں ننانوے اعشاریہ ننانوے ووٹ ملیں گے۔

چوبیس برس کی اس صدارت میں صدام حسین اگر ایک سفاک آمر تھے تو صرف عراقی کردوں، شیعوں اور مخالف سنیوں کے لیے تھے۔امریکہ کے لیے وہ ایرانی ملاؤں کے سیلاب کے خلاف آزاد دنیا کے تحفظ کا بند تھے۔
صدام حسین کی سزائے موت مکافاتِ عمل ہے ۔وہ ایک سفاک آمر تھے لیکن ناموں کی تبدیلی کے باوجود سفاکی کا بال ان کی معزولی کے بعد بھی بیکا نہیں ہو سکا۔ آج کی عراقی جمہوریت میں کوئی تیس فیصد مائیں ہی اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کی جرات رکھتی ہیں۔ جو مڈل کلاس اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کے زمانے میں ادھ موئی ہوئی تھی آج اقتصادی طور پر غائب ہوچکی ہے۔
کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور مصر جیسے ممالک کے حکمرانوں کے نزدیک صدام حسین لشکرِ عجم کے خلاف دوسری جنگِ قادسیہ لڑنے والے بطلِ جلیلِ عرب تھے لیکن جب انیس سو نوے میں صدام حسین کی فوج کویت میں داخل ہوئی تو یہی فخرِ عرب ننگِ عرب میں تبدیل ہوگیا۔

مغربی دنیا کا لاڈلا روشن خیال سیکولر آمر ابلیسیت کا ہار پہن کر ہٹلر اور مسولینی کی صف میں کھڑا کر دیا گیا اور پھر سب کو عراقی عوام پر صدام حسین کے مظالم بھی نظر آنے لگے۔

بلاشبہ صدام حسین اپنے مخالفوں کے لیے ایک ہولناک شخص تھے۔ انہوں نے بعث پارٹی کی آڑ میں اپنے اردگرد ظالم خوشامدیوں کا ایک ٹولہ جمع کر لیا تھا۔ انہوں نے اپنے ہم قبیلہ افراد اور اہلِ خانہ کو خوب خوب نوازا۔ اپنے دونوں صاحبزادوں کو دندنانے اور من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ ڈھائی لاکھ عراقیوں کو ایران کے خلاف لاحاصل آٹھ سالہ جنگ کا چارہ بنا ڈالا اور اپنا خوف عراقی کردوں اور شیعوں کی ہڈیوں میں اتار دیا۔
لیکن صدام حسین کی سانس گھونٹنے والی اس آمریت میں بھی تعلیم اور صحت مفت تھی۔ پچاسی فیصد سے زائد آبادی پڑھنے لکھنے کے قابل تھی۔ ہزاروں طلبا سرکاری سکالر شپس پر مغربی یونیورسٹیوں میں سائنسی تعلیم حاصل کرنے جا رہے تھے۔ پورے ملک میں یورپی معیار کی شاہراہوں کا جال بچھا دیا گیا تھا۔

نصف آبادی کا شمار متوسط طبقے میں ہوتا تھا اور یہ کسی بھی عرب ملک کی سب سے بڑی مڈل کلاس تھی۔ملازمتوں میں خواتین کا تناسب چالیس فیصد کے لگ بھگ تھا۔کسانوں کو آدھی قیمت پر ٹریکٹر، تقریباً مفت تیل اور پچاس فیصد سستی بجلی فراہم کی جارہی تھی۔

ایک طرف اگر صدام حسین نے اپنے لیے ستر سے زائد محلات اور عالیشان رہائش گاہیں تعمیر کروائیں تو دوسری جانب عام آدمی کو بھی بنیادی ضروریات کی ضمانت دی۔ اقوام متحدہ کی بارہ سالہ پابندیوں نے اگرچہ مڈل کلاس کی کمر زمین سے لگا دی اور لاکھوں لوگ دواؤں کی کمیابی سے مرے لیکن کوئی عراقی فاقے سے نہیں مرا۔
چوبیس برس کی اس صدارت میں صدام حسین اگر ایک سفاک آمر تھے تو صرف عراقی کردوں، شیعوں اور مخالف سنیوں کے لیے تھے۔امریکہ کے لیے وہ ایرانی ملاؤں کے سیلاب کے خلاف آزاد دنیا کے تحفظ کا بند تھے۔کویت، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور مصر جیسے ممالک کے حکمرانوں کے نزدیک صدام حسین لشکرِ عجم کے خلاف دوسری جنگِ قادسیہ لڑنے والے بطلِ جلیلِ عرب تھے۔لیکن جب انیس سو نوے میں صدام حسین کی فوج کویت میں داخل ہوئی تو یہی فخرِ عرب ننگِ عرب میں تبدیل ہوگیا۔
مگر جو انصاف صدام حسین نے اپنے مخالفین کو نہیں دیا وہ انصاف خود صدام حسین کو بھی نصیب نہیں ہو سکا۔ دو برس کے مقدمے کےدوران تین جج تبدیل کیے گئے۔ جن وکلاء نے ان کا مقدمہ لڑا انہیں مستقل دھمکیوں اور ہر سمت سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ بظاہر انہیں سزائے موت سے ذرا پہلے عراقی حکومت کے حوالے کیا گیا اور یہ تاثر بھی دیا گیا کہ مقدمے کی کاروائی سے امریکہ کا کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ مقدمہ عراقی عدلیہ نےعراقی قوانین کے تحت چلایا ہے۔لیکن ان کی موت عملاً امریکی فوج کی نگرانی میں ہوئی۔

صدام حسین کی سزائے موت مکافاتِ عمل ہے ۔وہ ایک سفاک آمر تھے لیکن ناموں کی تبدیلی کے باوجود سفاکی کا بال ان کی معزولی کے بعد بھی بیکا نہیں ہو سکا۔ آج کی عراقی جمہوریت میں کوئی تیس فیصد مائیں ہی اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کی جرات رکھتی ہیں۔ جو مڈل کلاس اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کے زمانے میں ادھ موئی ہوئی تھی آج اقتصادی طور پر غائب ہوچکی ہے۔

صدام کے دور میں اگر جگہ سرکاری مخبروں کا راج تھا۔آج سرکاری ڈیتھ اسکواڈز اور کار بم پھاڑنے والوں کا راج ہے۔روزانہ تشدد سے مرنے والوں کا اوسط ایک سو کے لگ بھگ ہے۔

اگر صدام نے چوبیس برس میں ایک لاکھ کرد، شیعہ اور بعث مخالف سنی مارے تھے تو پچھلے ساڑھے تین برس میں چھ لاکھ کے لگ بھگ شہری مر چکے ہیں۔ایک لاکھ شہری ہر ماہ ملک سے بھاگ رہے ہیں۔اور اب تک اٹھارہ لاکھ سے زائد عراقی ملک چھوڑ چکے ہیں۔

صدام حسین کو تو آج لٹکایا گیا ہے لیکن عراق تو ایک عرصے سے متعفن لاش کی صورت پھانسی پر جھول رہا ہے۔ عراق نام کا جو ملک کبھی تھا آج محض شکاری کے ڈرائنگ روم میں سجی ہوئی ایک اور ٹرافی ہے۔
 

دوست

محفلین
صدام جو کچھ بھی تھا یہ اچھا نہیں‌ ہوا۔
اس کا نتیجہ مزید خون خرابے کی صورت میں نکلے گا۔
 

شعیب صفدر

محفلین
سربراہ کا احترام

صدام ظالم تھا!!!! چلو یہ سچ ہے!!! بزرگ کہتے ہیں حاکم و ظالم کا قافیہ ہی نہیں اعمال بھی ملتے ہیں!!!!
اس نے ایران کے ساتھ جنگ بھی لڑی آٹھ سال تک !!! بتانے والے بتاتے ہیں لاکھوں مرے!!!
کویت وار بھی سامنے ہے!!!
یہ بھی سچ ہے کہ اس کا خاندان ہی حکومت میں طاقت کا حامل تھا اس کی ذات کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر ہم نے ایک بات یہ بھی سنے ہی کہ بادشاہ بادشاہوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں اگر صاحب ظرف ہوں تو!!!!
یہ تو ثابت ہوا یہ امریکی صاحب ظرف نہیں!!!!!!
 

سندباد

لائبریرین
صدام جو کچھ بھی تھا، وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیکن صدام نے جو بھی جرائم کئے ہیں، ان میں امریکہ، برطانیہ اور بعض دوسرے ممالک برابر کے شریک تھے۔ صدام کو مکمل امریکی اور برطانوی اشیرباد حاصل تھی اور جس جرم کی پاداش میں ا‌‌نھیں تختہء دار پر لٹکا دیا گیا، اس پر اُس وقت امریکا اور برطانیہ نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اس لئے امریکا اور برطانیہ کے اًس وقت کے حکم رانوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں میں لانا چاہئے لیکن آج کی دنیا میں ایسا کون کرسکتا ہے؟ کوئی بھی نہیں۔
بس قدرت ہی ان مجرموں کو اپنی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرسکتی ہے۔
بش اور بلئیر نے نئی صدی کے آغاز میں جو عالمی جرائم کئے ہیں، اس کی سزا تو تاریخ ان کو دے گی ہی لیکن وہ قدرت کے سخت شکنجے سے بھی نہیں بچ سکیں گے۔
 
ویسے صدام کی پھانسی اپنے اندر ایک طوفان لیے ہوئے ہے۔ امریکہ نے جس طرح ایران کے خلاف اس شخص کو استعمال کیا اب اس کی لاش کو عراق سے نکلنے کے لیے امریکہ استعمال کر رہا ہے۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ایک سنی صدر شیعہ حکومت کے ہاتھوں قتل ہوگیا ہے۔ فرقہ واریت اس سے مزید بڑھ جائے گی ۔ اور امریکہ عراق کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ایک جگہ اپنی پٹھو حکومت بٹھا کر چلتا بنے گا۔

ویسے مجھے صدام کی پھانسی دیکھ کر بہت سے امریکہ دوست لیڈروں کا مستقبل پہلے سے نظر آگیا ہے۔ شاید مشرف صاحب کا بھی ۔
 

بدتمیز

محفلین
مہوش علی نے کہا:
مجھے حيرت ہے کہ صدام حسين نے جتنا قتل عام کيا اسکي سزا ميں اگر اسے آج کے دن سو بار بھي سزائے موت دي جاتي تو بھي کوئي قباحت نہيں ہوتي

اصل ميں ہونا تو يہ چاہيئے کہ آج عيد کي خوشي ڈبل ہو جاني چاہيئے کيونکہ ايک تو عيد، اور دوسرا خس کم جہاں پاک

مجھے مسلمانوں سے یہی شکائیت ہے۔ یہ جذباتی بہت ہیں آپ نے آیت لکھی اچھا لگا مگر آپ یہ بھول گئیں کہ اللہ نے ہی کہا ہے کہ مرنے والے کی برائیاں اور اس کی ایسی اچھائیاں نہ بیان کرو جو کہ اس میں نہ تھیں۔
حجاج کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے اس جیسا ظالم کوئی تھا؟ اس نے صرف ایک صدا پر لبیک کہا اور ساری عمر کے گناہ دھل گئے۔ صدام جیسا بھی تھا میری expectations تھیں کہ وہ آخری وقت گڑگڑائے گا روئے گا اپنے قدموں پر کھڑا نہیں رہ سکے گا ایسا کچھ نہیں ہوا۔
مجھے خوشی ہوتی اگر وہ روتا چلاتا مگر اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ہم لوگ لاجک سے نہیں سوچتے جو میڈیا بتاتا ہے اس کو آنکھیں بند کر سچ مان لیتے ہیں۔
ذلت اور عزت خدا کے ہاتھ میں ہے یہ ہمارا کہنا ہے ماننا نہیں۔ اگر خدا نے اس کو ذلیل کرنا ہوتا تو ضرور کرتا کیا خدا ایسا نہیں کر سکتا؟
مجھے اس کے مرنے پر نہ افسوس ہے نہ خوشی کیونکہ اگر جن پر وہ ظلم کر رہا تھا ان پر ظلم ہونا بند ہو جاتا تو خوشی مناتا لیکن وہاں تو اس کے دور سے 100 فیصد حالات بدتر ہیں۔ افسوس بھی نہیں کر سکتا کہ اس نے بھی ہم لوگوں کی طرح آنکھیں بند کر کے صرف رپورٹس پر یقین کیا۔ مجھے اس میں عظمت کی علامت کچھ نظر آئی تو بس یہی کہ اس نے اسلام کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا۔
 

wahab49

محفلین
صدام اپنے انجام کو پہنچا۔
لیکن اسے پھانسی دیکر ھیرو بنا دیا گیا یہ بھی سچ ھے۔ اسے اگر مجرم بنا کر ساری عمر زندہ رکھا جاتا تو شاید زیادہ درست تھا۔ وہ ایک عبرت ناک سبق ھوتا سب کیلیے۔
عید کے دن پھانسی بالکل غلط ھے۔ صدام ایک مسلم تھا اور ایک اسلامی ملک میں اسے سزا سنائی گئی۔ اب عید کے دن پھانسی دیکر اسے پوری طرح سے ھیرو بنانے میں انکی موجودہ کٹھ پتلی حکومت کا ھاتھ ھے۔
رھی بات کہ صدام کون تھا۔ وہ بہت عرصے تک امریکہ کا لاڈلا بیٹا رھا ۔ صرف ایک وجہ سے کہ امریکہ کو ایران پر بڑی خار تھی۔ اور چونکہ صدام (امریکہ کی پشت پناھی پر) ایران سے لڑ رھا تھا۔ اسلیے لاڈلا قرار پایا۔
اڑتی اڑاتی خبریں سننا اور یقین کرنا مشکل ھوتا ھے لیکن میرا ایک جرمن دوست عراق میں 11 سال رھا صدام دورِحکومت میں۔ اور وہ اور انکی کمپنی امریکی امداد پر عراق میں بنکرزاور دفاعی نظام کا ایک نا ختم ھونے والا سلسلہ بناتے رھے ھیں۔
اب کسے اچھا کہا جائے۔

صورت جنکی بھولی بھالی ۔ دل تاریک سمندر
ایسے یار کے پیار سے محسن صحراؤں کے ناگ بھلے۔

ایک انسان کا قتل بھی پوری انسانیت کا قتل ھے اب کیا صدام نے ایک بے جا قتل بھی نہیں کروایا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

لمحہ فکریہ ھے کہ اب وہ ھیرو ھے۔(بنانے والوں نے بھی تو کمی نہ کی)

:shock: :shock: :shock:
 

مہوش علی

لائبریرین
بدتميز:
مجھے مسلمانوں سے یہی شکائیت ہے۔ یہ جذباتی بہت ہیں آپ نے آیت لکھی اچھا لگا مگر آپ یہ بھول گئیں کہ اللہ نے ہی کہا ہے کہ مرنے والے کی برائیاں اور اس کی ایسی اچھائیاں نہ بیان کرو جو کہ اس میں نہ تھیں۔


مرنے والے کے متعلق يہ آپکي رائے\اجتہاد ہو سکتا ہے کہ صحيح ہو، ليکن کيا مجھے اجازت ہے کہ ميں اپنا نقطہ نظر بھي پيش کر سکوں؟

اگر اجازت ہے، تو ميرا نظريہ يہ ہے کہ ہمارے علماء نے کبھي بھي قراني پيغام ہم تک صحيح طور پر نہيں پہنچايا بلکہ اپنے سياسي مفادات کي خاطر کترو بيونت کے ساتھ چيزيں پيش کي ہيں

مرنے والے کے متعلق قراني پيغام يہ ہے کہ:

1) مرنے والے نے اگر "حقوق اللہ" پورے نہيں کيے تو اس کے ليے ہميں حکم ہے کہ مرنے والے کے ليے استغفار کريں

2) مگر اگر مرنے والے نے "حقوق الناس" پر ڈاکا ڈالا ہے اور دوسرے لوگوں پر ظلم کيا ہے، تو ايسے شخص کے ليے کسي صورت استغفار وغيرہ نہيں ہے
بلکہ حکم يہ ہے کہ ايسے ظالموں کے ليے کھل کر اللہ کي لعنت کرنا ہے اور کھل کر اسکے مظالم بيان کرنا ہے تاکہ لوگوں پر حق واضح ہو سکے

آئيئے اب اس آيت کو دوبارہ ديکھيں جو ميں نے اوپر درج کي تھي:

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا {93}

[النساء:93] اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اس کی جزا جہنم ہے۔ جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہو گا اور وہ اس پر (تا قيامت) لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔


کيا آپ کو اب کوئي فرق محسوس ہوا؟

کيا آپ کو نظر آيا کہ حقوق الناس غصب کرنے والے کے متعلق کيا قراني حکم ہے؟

کيا يہ عجيب بات نہيں ہو گي کہ اللہ تو "ہميشہ کي جہنم" اور "لعنت و عذاب" کا وعدہ کرے اور ہم اُس شخص کے ليے استغفار و رحم کي دعائيں کريں؟


اچھا، اب حقوق الناس کے متعلق ايک اور آيت پڑھيں:


إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ {23}
[النور: 23] جو لوگ پارسا اور غافل مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، وہ دنیا اور آخرت میں ملعون قرار دیے گئے ہیں اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

ميں اس وقت احاديث سے اجتناب کر رہي ہوں کيونکہ قراني آيات خود اپني ترجماني صحيح طريقے سے کر رہي ہيں


اور ميري نگاہ ميں صدام کے متعلق ہمارے اخبارات کے دانشمند حضرات غلطي آج سے نہيں کر رہے، بلکہ يہ غلطي اُس وقت شروع ہوئي جب:

1) حلبچہ پر صدام حسين نے کيميائي بم گرا کر ہزاروں کرد عورتوں اور بچوں کا قتل عام کيا، ليکن ہمارے اخبارات ميں اس کے متعلق ايک "چھوٹي" سي بھي خبر نہيں چھپي

2) اس قتل عام پر کسي بھي سياسي جماعت کي طرف سے ايک "چھوٹي" سي بھي مذمت نہيں ہوئي اور نہ ہي کوئي احتجاجي مظاہرہ ہوا
(نوٹ: کئي مذہبي جماعتوں نے صدام حسين کے قتل پر آج احتجاج کي کال دي ہوئي ہے)


چنانچہ مختصر الفاظ ميں يہ بات کہ قوم تو قوم، ہمارے دانشور ہي کبھي انصاف کے تقاضے پورے نہ کر سکے

اور صدام حسين کے قبيلے اور حامي لوگ، يہ وہي لوگ ہيں جنہوں ہزار ہا (بلکہ لاکھوں) معصوموں کا خون بہايا ہے، اور آج يہي لوگ پھر سے ہزاروں معصوم عراقيوں کا خون بلا جھجھک بہا رہے ہيں، ليکن ہماري قوم کے دانشور نہ انکي کوئي مذمت کرتے ہيں، اور نہ کوئي بيان لکھتے ہيں (يہي حال ہمارے علماء کي اکثريت کا ہے جنہوں نے ان 4 لاکھ عراقي معصوم شہريوں کے قتل عام پر کوئي فتوے جاري نہيں کيے، بلکہ چند امريکي فوجيوں کے قتل کرنے پر اسي ظالم قوم کو ہيرو بنا کر پيش کر رہے ہيں


ديکھيں، يہ کہنا بہت آسان ہے، مگر 4 لاکھ معصوموں کا قتل عراق ميں ہوا ہے، اور يہ خون اگر کسي دن رنگ پکڑ گيا تو وہ دن ہماري امت کے ليے بہت تاريک دن ہو گا


اور بدقسمتي سے يہ خون رنگ پکڑتا جا رہا ہے اور جوابي حملے شروع ہو گئے ہيں، مگر يہ جوابي حملے بھي معصوموں کے خلاف ہيں بجائے اصل جنگي مجرموں کے


اگر ہميں ان حملوں اور ان "جوابي حملوں" کے فتنے سے بچنا ہے، تو اسکا واحد حل يہ ہوتا کہ ہمارے علماء کھل کر پہلے ہي اس قوم کي مذمت کرتے

افسوس کہ ہمارے علماء نے ان کي مذمت کرنے کي بجائے انہيں ہميشہ ہيرو بنائے رکھا، اور آج اسي وجہ سے صدام بھي ہيرو بن گيا ہے

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

جہاں تک صدام کا بغير خوف کے پھانسي چڑھنے کا سوال ہے، تو ياد رہے کہ يہ اسلام ميں کبھي بھي حق کا سٹينڈرڈ نہيں رہا ہے

کيا آپ کو جاپاني پائلٹ ياد ہيں جنہوں نے جنگ عظيم ميں اپنے جہازوں کے ساتھ خود کش حملے کيے تھے؟

اور کيا اس بنياد پر ہم اُن صحابہ کو باطل پر قرار دے ديں جو کہ جنگ احد يا جنگ حنين ميں ميدان چھوڑ گئے تھے؟

إِذْ تُصْعِدُونَ وَلاَ تَلْوُونَ عَلَى أحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غُمَّاً بِغَمٍّ لِّكَيْلاَ تَحْزَنُواْ عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلاَ مَا أَصَابَكُمْ وَاللّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ


[eng:0ebf5fbd7d][align=left:0ebf5fbd7d][Yusufali 3:153] Behold! ye were climbing up the high ground, without even casting a side glance at any one, and the Messenger in your rear was calling you back.[/align:0ebf5fbd7d][/eng:0ebf5fbd7d]


اور کيا آپ کو خوارج کي تاريخ کا علم ہے جو کہ "لا حکم الا اللہ" کا نعرہ لے کر بلند ہوئے؟ يہ ايسے بہادر و غيرت مند تھے کہ جنگ نہروان ميں کوئي نہ بھاگا حتي کہ صرف 5 تا 7 خارجي اس جنگ ميں قتل ہونے سے محفوظ رہے، جبکہ اسکے مقابلے ميں علي ابن ابي طالب کي فوج کا يہ حال تھا کہ حق پر ہوتے ہوئے بھي بار بار ايسي سستي و کاہلي اور نافرماني کا مظاہرہ کرتي تھي کہ بار بار علي ابن ابي طالب ان سے بيزار ہوتے تھے

تو ہمارے سوچنے کي بات يہ ہے کہ کيا يہ جرات و بہادري دکھا کر يہ صحابہ کي اُوپر بيان کردہ جماعت سے زيادہ حق پرست ہو گئے؟

مجھے نہيں علم کہ آپ نے تاريخ کا کتنا مطالعہ کيا ہے، ليکن ميں آپ کو قاتلانِ عثمان ابن عفان کي بہادري کے قصے بھي بيان کر سکتي ہوں، اور ان بہادري کے قصوں کو کتابوں ميں نقل کرنے والے جيد مسلم مورخين ہيں (جيسے ابن کثير و امام طبري وغيرہ)
اور ان ميں ايک شخص ايسا بھي تھا جو کہ بعد ميں جناب عائشہ بنت ابي بکر کي فوج سے بصرہ ميں لڑا تھا، اور اسکي بہادري يہ عالم تھا کہ جب جنگ ميں اس کي ايک ٹانگ کٹ گئي تو اپني اسي کٹي ٹانگ کے ساتھ جناب عائشہ بنت ابي بکر کي فوج پر حملہ آور ہو گيا (اس شخص کا نام حکيم بن جبلہ تھا)

کہنے کا مطلب يہ ہے کہ کچھ لوگ باطل پر ہوتے ہوئے بھي خود کو اسقدر حق پر سمجھ رہے ہوتے ہيں کہ اُن کے نزديک اُن کا باطل ہي صراطِ مستقيم ہوتا ہے


اب يہ کام ہمارے علماء کا ہے کہ وہ لوگوں کو حق بات بتائيں کہ اسلام ميں حق کا معيار بہادري کے ساتھ مارے جانا نہيں ہے کيونکہ پروپيگنڈہ کي وجہ سے اکثر معصوم لوگ اپني غلط راہ کو بھي حق مان کر ڈٹ جاتے ہيں،

مگر افسوس کہ ہمارے علماء نے اپني يہ ڈيوٹي کبھي پوري نہيں کي اور امت کو غلط راہ پر بہکا ڈالا، اور آج اسکا نتيجہ يہ ہے کہ ہم ديکھ رہے ہيں کہ صدام اور اسکي ظالم و قاتل قوم ہماري امت کي ہيرو بني ہوئي ہے

مگر اب ميرے سامنے سوال يہ ہے کہ ان سب باتوں کا نتيجہ کيا نکلے گا؟ ہمارے دانشوروں اور علماء نے تو اپني من ماني کر لي، مگر عراق کا وہ مظلوم طبقہ جو کہ روزآنہ سينکڑوں کي تعداد ميں بم دھماکوں کا شکار ہو رہا ہے، کيا اُس کي طرف سے کوئي ردِ عمل سامنے آئے گا؟
اللہ نہ کرے کہ ايسا ہو، مگر اگر ہوا تو تو تو سوال يہ ہے کہ مجرم کون؟
 
Top