اسکین دستیاب خاں صاحب از ظریف دہلوی

سید عاطف علی

لائبریرین
ریختہ 58
------------
کہہ رہیں ہوں تمہارے کان پر جوں بھی رینگتی ہے؟ صبح کو کہتی ہوں تو کہہ
دیتے ہو دفتر سے آؤں گا تو یاد دلانا۔شام کو کہتی ہوں تو کہتے ہو اب تو تھک
گیا ہوں صبح کو یاد دلانا۔غرض یونہی ٹالے بالے میں یہ دن آگیا۔ اور ایک
ٹوپی کیا تمہارے تو سارے کام ایسے ہی خوبئ بھرے ہوتے ہیں۔ وہ یاد ہے
یا نہیں پچھلی بقر عید کو کیسی مہندی لا کے دی تھی ۔ موئی ہلدی کہ ہاتھ پاؤں سب
زرد ہو کے رہ گئے۔ نہ جانے کس کم بخت کے ہاں سے اٹھا لائے تھے
موئے نے زرد مٹی دے دی۔
ہم : بیگم ! تم تو یونہی خواہ مخواہ الجھ کر رہ جاتی ہو، کوئی بات نہ چیت ذرا سا
بھی کوئی کسی قسم کا ذکر ہوا اور تم نے جھکڑ چلا دیا۔
بیگم: لو اور سنو! الجھتے تم ہو یا میں ؟ میں نے تو ایک سیدھی سی بات کہی
تھی۔ تم کہو تو میں میں قفل ڈال لوں؟
ہم : قفل کیوں ٍالو کنجی کہیں کھو گئی تو یہ منا منا خوبصورت سا منہ تڑوانا پڑے گا۔
اچھ سنو! جو کچھ منگوانا ہے لو مجھے لکھوادو۔ تمہارے سارے کام کل شام
تک نہ ہو جائیں جب ہی کہنا۔
بیگم: پھر وہی کل شام! ارے میں کہتی ہوں آج دن بھر تمہیں کیا پان چرنے ہیں ؟
چھٹی بھی ہے جو دل پر رکھو تو سارے کام یوں چٹکی بجاتے میں ہوتے
ہیں ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ریختہ 59
------------
ہم: دیکھو بیگم! آج تو ہمیں غزل کہہ لینے دو۔ شام ہی کو تو مشاعرے میں
جانا ہے۔ طرح کی غزل اگر ہمارے پاس نہ ہوئی تو لوگ پھبتیاں اڑائیں گے
آوازے کسیں گے کہ اوروں سے لکھوا کر لاتے تھے۔ آج کسی نے لکھ کر
نہیں دی تو کورے چلے آئے۔ خاصی طرح مطلع ہو گیا تھا۔ تم نے دماغ
کا ستیا ناس کر دیا۔ اب گھنٹا بھر تک زور ڈالیں گے تو کہیں جا کر دماغ
حاضر ہو گا۔
بیگم: چولہے میں جائے تمہارا مطلع اور بھاڑ میں جائے تمہاری غزل۔ میں
پوچھتی ہوں آخر تمہیں اس دماغ سوزی سے مل کیا جاتا ہے۔ کبھی تو بت
بنے بیٹھے ہیں، کبھی آپ ہی آپ جھوم رہے ہیں ۔ کبھی گنگنا رہے ہیں۔ سچ کہتی
ہوں اچھے خاصے پاگل معلوم ہوتے ہو پاگل۔
ہم : ارے تم کیا جانبو شاعر کو ایک شعر کی بھی داد مل گئی تو سمجھو ساری محنت
وصول ہو گئی۔ اب تمہیں کیا بتاؤں بیگم کہ داد میں کیا ملتا ہے۔ سچ کہتا
ہوں پیٹ بھر کے زردہ بریانی کھانے میں اتنا جی خوش نہیں ہوتا جتنا ایک
شعر کی داد ملنے سے ہوتا ہے۔
بیگم: چاہے گھر اوندھا پڑا رہے۔ مگر تمہیں داد مل جائے۔ داد آئی ہے کہیں کی۔
ہم: بیگم باتیں تو ہم تم سے کر رہے ہیں مگر ہمارا دماغ مصروف ہے شاعری ہی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ریختہ 60
------------
میں، لو ایک شعر اور ہو گیا ؎

آنگھ بھینگی تنگ پیشانی بڑی موٹی سی ناک
خوبیاں اتنی تو ہونی چاہئیں انسان میں

بیگم: ( ہنس کر ) واہ کیا قصیدہ لکھ رہے ہیں۔ شرم تو نہیں آتی۔
ہم : ہمیں شرم کاہے کی ، جس کی شان میں لکھ رہے ہیں اسے آئے تو آئے۔
بیگم : کیوں فضول وقت ضائع کر رہ ہو! ( ہاتھ سے کاغذ چھین کر ) جاؤ بازار
ہو آْ۔ دیکھن سچ کہتی ہوں۔ دو ہی دن تو رہ گئے ہیں۔ اے لو پرسوں تو
عید ہے ہی۔ آج کی تمہیں چھٹی بھی ہے۔ سب کام ہو جائیں گے۔ کل پھر
دفتر کا بہانہ ہو گا۔ لو اٹھو چلو۔
ہم : اچھی بیگم! اس وقت طبیععت ذرا حاضر ہے مجھے غزل پوری کر لینے دو
لو ایک اور ہو گیا سنو؎

آئینے میں خود ذرا بینی مبارک دیکھئے
فرق کیا اس ناک میں اور اونٹ کے کوہان میں

تم جانو تمہارا کام۔ جانتے ہیں کوئی کتیا بھونگ رہی ہے کہتی ہوئی بیگم تو
ادھر گئیں ادھر ہم نے خوب اطمینان سے غزل پوری کی۔ اس کے بعد پہلے تو
منت خوشامد کر کے اپنی بیگم کو سنایا۔ پھر انہیں اپنی یہ تازہ ترین غزل سنائی
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
خاں صاحب
ریختہ صفحہ 6
ظریف دہلوی کی افسانہ نگاری
کہانی سناؤ " کی فرمائش کا آغاز اس وقت ہوا جب انسان سے بولنا شروع کیا۔ جب سے اب تک اس فرمائش میں کبھی فرق نہیں آیا۔ بچوں کا تو خیر یہ ایک دلچسپ مشغلہ ہے ہی لیکن بڑوں کو بھی کہانیوں کی دھن رہتی ہے۔ آخر بڑا آدمی ایک بڑا بچہ ہی تو ہوتا ہے۔ چڑیا چڑے کی کہانی سے لیکر آج تک کے مختصر افسانے تک ہزاروں سال بیت چکے ہیں۔ اور ہزاروں ہی قسم کی کہانیاں کہی گئی ہوں گی ۔ جیسےجیسے بولیاں زبانیں بنتی گئیں ان کا ادب بھی درجہ بدرجہ ترقی کرتا گیا اور اس کے اصول و قواعد منضبط ہوتے گئے۔ ادب زندگی کے پہلو بہ پہلو رہتا ہے اور زندگی کی عکاسی کرتا ہے/ تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی ارتقا ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ زندگی کی طرح ادب کے بھی ان گنت پہلو نکل آئے۔ ان میں سے ایک جو سب سے زیادہ مقبول اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے وہ ہمارا جدید افسانہ ہے۔ یہ کہانی کی ایک باقاعدہ شکل ہے جو مقررہ اصولوں کے تحت وجود میں آئی ہے اور اس کی عمر ربع صدی سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ بھی کہانی ہی کا ایک روپ ہے جو داستانوں اور ناولوں کے چولے بدلتے بدلتے اس ہئیت کو پہنچا ہے۔

ریختہ صفحہ 7
اور اب ایک جداگانہ فن سمجھا جاتا ہے۔ راشد الخیری اور پریم چند اس نئے فن کے بانی ہیں اور ان کے بعد سینکڑوں فن کار ہیں جنھوں نے اسے پروان چڑھایا۔
اردو افسانہ نگاری میں مزاحیہ افسانہ مرزا عضیم بیگ چغتائی کی اختراع ہے۔ ان سے پہلے اردو میں مزاح بھی موجود تھااور افسانہ بھی۔ لیکن مزاحیہ افسانہ چغتائی سے پہلے کسی نے نہیں لکھا۔ ہماری قدیم داستانوں میں مزاح کا عنصر پایا جاتا ہے۔ خصوصاً فسانہء آزاد میں ۔ لیکن داستان سرائی ایک علیٰحدہ فن ہے جو دم توڑ رہا ہے ۔ زمانے نے اس کے سر سے قدر دانی کا ہاتھ اٹھا لیا۔ مصروفیات سے بھری ہوئی زندگی کا تقاضہ کچھ اور ہے اس لئے داستان نویسی معدوم ہوئی اور داستان گوئی بھی ماضی کو سونپی جا رہی ہے۔ ہاں تو مزاحیہ افسانہ مرزا عضیم بیگ چغتائی کا مرہونِ منت ہے جنھوں نے اپنی دس سال کی مختصر ادبی زندگی میں ہمارے مزاحیہ لٹریچر کو مالامال کر دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی دس پانچ اور اہلِ قلم بھی اس نئی صنفِ ادب کی طرف متوجہ ہوئے جن میں سے مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی اور شوکت تھانوی کامیاب و بامراد ہوئے۔ یہ سب 1930 ء کی پیداوار ہیں۔ اسی زمانہ میں قاضی عباس حسین ظریف دہلوی بھی مزاحیہ افسانے کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کے لکھے ہوئے چند افسانے بہت مقبول ہوئے۔ اس سے پہلے بھی ظریف صاحب کو افسانہ نگاری کا شوق تھا لیکن سنجیدہ یا غمناک افسانے لکھتے تھے۔ اس زمانے کا تقاضہ یہی تھا۔ راشد الخیری غم کی تصویریں پیش کر رہے تھے اور پریم چند بھی دکھی زندگی کی عکاسی کر رہے تھے

ریختہ صفحہ 8
جب چغتائی نے گدگدانا شروع کیا تو سب لکھنے والے کھلکھلانے لگے۔ انھی ہنسنے ہنسانے والوں میں سے ایک قاضی عباس حسین ظریف دہلوی بھی تھے جن کی شخصیت اور فن کے بارے میں مجھے آپ سے کچھ مختصراً عرض کرنا ہے۔
ظریف صاحب 1905 ء سے پوسٹل آڈٹ دہلی میں ملازم تھے۔ 1942ء میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ حساب جیسے دماغ سوزی کے کام کے باوجود ان کی شگفتہ مزاجی ان کے جاننے والوں کے لئے ایک معمہ ہی بنی رہی۔ بچوں میں بچے اور بڑوں میں بڑے بنے رہے۔ نہایت بذلہ سنج اور رونق کے آدمی ہیں۔ جہاں بیٹھ جاتے ہیں اپنے لطائف و ظرائف سے سب کو لوٹن کبوتر بنا دیتے ہیں۔ دلّی والے ہیں اس لئے ٹکسالی اردو گھر کی لونڈی ہے۔ لیکن ادب سے دلچسپی رکھنے کی وجہ سے ان کی زبان اور بھی چٹخارے دار بن گئی ہے۔ دلّی کے اکثر بزرگوں کی آنکھیں دیکھے ہوئے ہیں اس لئے علمِ مجلسی سے کماحقہ واقف ہیں اور برمحل فقرہ طرازی اور برجستہ گوئی کا خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ بولی ٹھولی، ضلع جُگت، پھبتی بھٹی، ہنسی مذاق سب میں مشّاق ہیں لیکن اس خوبی کے ساتھ کہ دل آزاری کا پہلو کبھی نہیں آںے پاتا۔ لکھنے پڑھنے کا شوق اوائل عمر سے ہے۔ 1922ء سے نظم و نثر دونوں میں قلم کی جولانیاں دکھا رہے ہیں۔ ان کی ادبی کاوشوں سے اکثر ماہنامے مزّین ہوتے رہتے ہیں۔

ریختہ صفحہ 9
ظریف صاحب کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہی زبان لکھیں جو بولتے ہیں۔ چاہے نظم ہو چاہے نثر۔ اس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ " روحِ تبسم" ان کی منظومات کا مجموعہ ہے جس میں غزل، قطعے، مسدّس ، تضمینیں ، رباعیاں اور نظمیں وغیرہ سبھی کچھ ہیں۔ اسے کہیں سے کھول کر پڑھ لیجئیے، یہی معلوم ہو گا کہ کوئی آپ سے باتیں کر رہا ہے۔ اتنی آسان اور ہلکی پھلکی زبان چند غزلوں میں تو آپ کو اکثر شعرا کے ہاں مل جائے گی لیکن ہمیشہ اسی طرز میں طبع آزمائی کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہو سکا۔ آسان زبان لکھنی کس قدر مشکل ہے، اس کا جواب ان سے پوچھئیے جنھوں نے یہ پاپڑ بیلے ہوں
ذوقِ ایں بادہ ندانی بخدا تا نہ چشی
یہی حال ان کی نثر کا ہے کہ دلّی کی عام بول چال میں افسانے لکھے ہیں۔ ابوالکلامی اردو سے ظریف صاحب کو سخت نفرت ہے، یہ اسے سرے سے اردو ہی نہیں مانتے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ جب اردو ہی کے الفاظ سے سارے مفہوم ادا ہو سکتے ہیں تو عربی اور فارسی کے نامانوس الفاظ سے پڑھنے والوں کو کیوں زحمت دی جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ آسان زبان لکھنی مشکل ہے اس کے لئے بڑی مشق و مزادلت کی ضرورت ہے۔ اس کتاب کے ہر افسانے میں آپ یہ خوبی پائیں گے کہ عبارت ایسی رواں ہے کہ آپ کا تخیل کہیں نہیں الجھے گا اور اس میں کہیں وہ پستی بھی نہیں آئے گی جس سے آپ کی خوش مذاقی کو ٹھیس لگے۔

ریختہ صفحہ 10
ظریف دہلوی نے ہر قسم کے افسانے لکھے ہیں لیکن اس مجموعہ میں صرف مزاحیہ افسانے شامل ہیں۔ 1936ء میں "عروسِ ادب " کے نام سے ان کے سنجیدہ اور مزاحیہ افسانوں کا مجموعہ شائع ہوا تھا۔ یہ کتاب چھپنے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد ختم ہو گئی تھی۔ دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کا خیال ظریف صاحب نے ملتوی کر دیا تھا۔ ان کا ارادہ تھا کہ مزاحیہ افسانوں کا مجموعہ علیٰحدہ ہی شائع کیا جائے۔ چنانچہ اس عرصہ میں آپ نے کئی افسانے لکھے اور اب ایک کتاب کا مواد پورا ہونے پر انھیں شائع کیا جا رہا ہے۔ اس مجموعے میں صرف تین افسانے "عروسِ ادب" کے شامل ہیں ۔ باقی بارہ افسانے بعد کےلکھے ہوئے ہیں۔
مزاح نگاری ایک نہایت نازک فن ہے ۔ کسی کو اس طرح ہنسانا کہ خود اپنی ہنسی نہ اڑے، یا کوئی ایسی بات کہنا جو اخلاق یا شائستگی سے گری ہوئی نہ ہو اور اسے سن کر ہنسی بھی آئے، ایک دشوار فن ہے۔ ایک ذرا سی لغزش سے مزاح کا لطف کِرکِرا ہو جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ مذاق کے بھونڈے پنے سے سُننے والے کو اپنی جگہ پر اور لکھنے والے کو اپنی جگہ پر شرمندہ ہونا پڑتا ہے اور اکثر لینے کے دینے بھی پڑ جاتے ہیں۔ ظریف صاحب کو مزاح سے فطری مناسبت ہے۔ ان کی خوش طبعی ان کی زندگی کے ہر شعبے میں کارفرما رہتی ہے۔ دفتر میں، دوستوں میں، گھر میں ، باہر ہر جگہ اور ہر ایک سے چُہل کرنا ان کی عادت میں داخل ہے ۔ یہی شوخی ان کی تحریروں میں بھی ڈھل گئی ہے۔ جس طرح ان کی گفتگو نہایت محتاط ہوتی ہے اُسی طرح ان کی تحریر

ریختہ صفحہ 11
بھی ابتذال سے پاک ہوتی ہے۔ ظریف صاحب طرزِ بیان اور واقعات سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔ احساسِ عُجب پیدا کرنا مزاح کا کام ہے اور ہمیں ہنسی ایسی ہی انہونی باتوں پر آتی ہے۔ مثلاً ایک بھلا مانس کہتا ہے:
" (میں تو اس شکنتلا کا ذکر کر رہا ہوں جو ہندوستان کا مایہ ناز شاعر تھا جس نے کالیداس کا ناٹک لکھ کر اردو شاعری کو چار چاند لگا دئیے" (خانصاحب
یہ "آنکس کہ ندا ندو براندکی بداند" کی توجیہہ ہے جسے پڑھ کر اس جہلِ مرکب پر بے ساختہ ہنسی آ جاتی ہے۔
افسانہ نگاری میں واقعہ نگاری کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس سے تاثیر کا عنصر بڑھتا ہے ۔ ہمارے عام افسانہ نگار اس خوبی کا بہت کم خیال رکھتے ہیں کہ جیسا ان کی کہانی کا کردار ہو وہ زبان بھی ویسی ہی بولے۔ اردو زبان کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں دو طرح کی زبانیں شامل ہیں۔ ایک مردوں کی دوسری عورتوں کی۔ عورتوں کے لئے ایک طرزِ گفتگو مخصوص ہے جس کے محاورے بھی جداگانہ ہیں۔ ظریف صاحب نے اس کا خاص اہتمام کیا ہے کہ ان کا ہر کردار اپنے طبقے اور اپنی صنف کی زبان بولتا ہے۔ مثلاً
" بیگم کھانا نکالتی جاتی تھیں اور بڑبڑاتی جاتی تھیں نوج کسی کے گھر کے مردوے ایسے مومنا چومنا ہوں، ان موئے کمینوں کو سر ہی پر چڑھا لیا ہے اور کوئی ہوتا تو اس نامراد کے ایسے جوتے لگاتا کہ یاد کرتی۔ ان سے ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں

ریختہ صفحہ 12
کی جاتی" ہم کیا کریں۔
دلّی کی زبان باہر والوں کی یورش سے بہت کچھ مٹ گئی۔ اوّل تو ہنگامہ ء 1857 ہی میں دلّی ایسی برباد ہوئی کہ یہاں کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور جتنے دلّی والے تھے وہ یا تو پھانسیاں پا گئے یا جان بچانے کے لئے در بدر خاک بسر ہوئے۔ جب دوبارہ امی جمی ہوئی تو بقول غالبؔ دلّی پنجابی کٹڑہ بن گئی۔ یہاں کی تہذیب کے ساتھ وہ ٹکسالی زبان بھی بہت کچھ مٹ گئی جس کے متعلق داغؔ نے دعویٰ کیا تھا؎
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستان میں دھوم ہماری زبان کی ہے
لال قلعہ کی تو کوکھ ہی اجڑ گئی اور دلّی کا سہاگ ایسا لُٹا کہ پھر اس کے وہ اچھے دن نہیں آئے۔ اور گو یہاں پہلے سے بھی زیادہ چہل پہل ہو گئی ۔ بھانت بھانت کا آدمی اس شہر میں سما گیا اور دلّی اتنی بڑھی کہ اس کے پہلو میں ایک پورا نیا شہر نئی دلّی کے نام سے آباد ہو گیا۔ اور اس کی آبادی دس گنی ہو گئی لیکن دلّی نہ تو تہذیب کا گہوارہ بن سکی اور نہ لسانی اعتبار سے وہ درجہ حاصل کر سکی جو غدر سے پہلے اسے حاصل تھا۔ تاہم اس پُچ میل تہذیب کے زمانے میں بھی چند پرانے خاندان دلّی والوں کے باقی ہیں جن کی تہذیب اور زبان دہلی مرحوم کی یاد تازہ کرتی ہے ۔ ظریف صاحب ایک ایسے ہی خاندان کے ممتاز فرد ہیں۔ دلّی کی زبان سے انھیں والہانہ شیفتگی ہے۔ اس کا ثبوت ان کے مضامین سے ملتا ہے۔ جن میں گھریلو زندگی کے مرقعے نہایت صحت کے

ریختہ صفحہ 13
ساتھ پیش کئے گئے ہیں۔ ایک بیوی اپنے میاں سے یوں ناراضگی ظاہر کرتی ہے:
" جھوٹ تو میں جانتی ہی نہیں ۔ پر اتنا جانتی ہوں کہ آپ کو میری ہر بات زہر لگتی ہے ۔ میں تو منہ میں قفل ڈال کے بھی بیٹھ جاؤں مگر گھر اوندھا ہو جائے گا۔ اس لئے بولنا ہی پڑتا ہے۔ نوج کوئی اس طرح ذرا ذرا سی بات پر بگڑے۔ دنیا میں آخر سبھی کے گھروں میں بیویاں ہیں۔ سبھی کچھ اپنے اپنے میاؤں کو کہہ لیتی ہیں۔ آپ جیسا فلسفی نوج کوئی ہو کہ منہ سے بات نکالنی دشوار ہے۔" (فلسفی میاں)
یہ وہ پُر لطف اور پُر خلوص نوک جھونک ہے جس کے بغیر زندگی اجیرن ہو جائے ۔ ان چٹ پٹی باتوں سے زندگی میں وہ مزہ پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے گھر سے محبت کرتا ہے ۔ دلّی کی ایک غریب جاہل عورت کو دیکھئیے کس طرح اپنے میاں کا شکوہ کر رہی ہے۔
" بھائی یہ نہیں جانے کے۔ نہیں جانے کے۔ میں انھیں خوب جانتی ہوں۔ پیسے پھینک آتے ہیں اور پھر کیا مجال جو چیز واپس کر آئیں۔ پیسے کا ذرا درد نہیں۔ ایک کی جگہ چار خرچ کرتے ہیں اور چیز نکمی اٹھا لاتے ہیں۔ پھر لاکھ سمجھاؤ ، سر پٹکو ، کبھی جو واپس کرنے جائیں۔ اپنی لائی ہوئی چیز کی الٹی سیدھی تعریفیں کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ بس تواہی (تباہی) مجھ نامراد کی جان پر آتی ہے۔ خبر نہیں ۔ کس کس طرح من مار کے دو پیسے بچاتی ہوں وہ یوں آگ لگ جاتے ہیں۔ خانصاحب کی قربانی
کرفیو آرڈر کے زمانے میں عجیب و غریب لطائف سننے میں آتے ہیں ۔ظریف سے

ریختہ صفحہ 14
بھلا ہنسی مذاق کی یہ باتیں کیسے چھپ سکتی تھیں۔ انھیں ایک دلچسپ مضمون کا مواد مل گیا۔
داروغہ جی: بڑے میاں آپ نکلے کیوں تھے؟
بڑے میاں: ہم تو نماز کو جا رہے تھے سپاہی یہاں لے آئے۔ بہتیرا کہا کہ ارے نماز تو پڑھ لینے دو ، پھر ہی لے چلنا۔ ہم کہیں بھاگے تھوڑی ہی جاتے ہیں۔ مگر یہ کس کی سنتے ہیں۔ فرعون بنے ہوئے ہیں۔ ہماری نماز بھی گئی۔ ہائے آج تک بیماری میں بھی قضا نہ ہوئی تھی۔
داروغہ جی: نماز تو چھ بجے کے بعد ہوتی ہے۔ آپ چھ بجے سے پہلے نکلے ہی کیوں تھے۔ آپ کو معلوم نہیں کہ چھ بجے تک کا کرفیو ہے۔
بڑے میاں: ہمارے پاس گھڑی تھوڑے ہی ہے۔ اذانیں ہو گئیں۔ اللہ کی طرف سے آوازیں آئیں " حی علی الصلوۃ " ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ (کرفیو آرڈر)
جذبات نگاری میں بھی ظریف صاحب "شعوری، غیر شعوری اور تحت الشعوری " ثقیل اصطلاحات سے مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ بس وہی کہہ دیتے ہیں جو سب پر بیت چکی ہے۔ اس لئے ان کے پڑھنے میں ایک تو دماغ پر بار نہیں پڑتا ۔ دوسرے دل پر فوراً اثر ہوتا ہے۔ نفسیاتی کیفیات اس طرح بھی بیان کی جا سکتی ہیں۔ :
" جب خاصی رات ہو گئی اور میاں نہ آئے تو ذرا پریشانی ہوئی۔ آٹھ بجے، نو بجے، دس بج گئے تو دل میں پنکھے لگ گئے۔ بے اوسان ہو گئیں۔ رو رو کر دعائیں مانگنے لگیں۔ اپنے اوپر نفرین کرنے لگیں کہ میں نے میاں کو کسی مصیبت میں پھنسا دیا۔ کچھ نہ کچھ افتاد ضرور پڑی ہے جو اب تک نہیں آئے۔ وہ تو رُکنے والے تھے ہی نہیں۔ وہ ان ہی خیالات میں تھیں کہ کسی نے کُنڈی کھٹکھٹائی ۔ یہ دروازے پر گئیں تو معلوم ہوا شاہی پیادے ہیں۔ پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ (کرامت شاہ)۔
اس نتھری سُتھری اردو میں ظریف صاحب نے اپنے سارے افسانے لکھے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کی شاعری کی طرح ان کی نثر نگاری بھی مقبولیت عام حاصل کرے گی۔ آج کل جبکہ اردو اور ہندوستانی کا جھگڑا سارے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے ، ایک ایسی زبان کی ضرورت ہے جسے ہندو مسلمان پڑھے لکھے اور جاہل سب یکساں طور پر سمجھ سکتے ہوں۔ اس گتھی کو سلجھانے میں ظریف صاحب کی لکھی ہوئی زبان بہت کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی وہ زبان ہے جو مُلک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سمجھی جاتی ہے۔ اگر ہمارے ادیب اس آسان اردو کو ایک معیاری نمونہ بنا لیں تو ہندی اردو، ہندو مسلمان اور کانگریس اور مسلم لیگ کے لسانی اختلافات مٹ سکتے ہیں۔

ریختہ صفحہ 16
میں ظریف صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انھوں نے نہ صرف دل کش افسانے لکھے ہیں بلکہ عام زبان کا ایک قابلِ تقلید نمونہ پیش کر کے ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔
شاہد احمد دہلوی
مورخہ 8 فروری 1947ء

ریختہ صفحہ 17
گذارش
میرے خُسر اور بہترین معلم مولوی اشرف حسین صاحب بڑی قابلیت کے بزرگ تھے مگر نام و نمود سے کوسوں دور تھے۔ مولا راشد الخیری مرحوم ان کے حقیقی ماموں زاد بھائی تھے اور یہ حقیقت ہے کہ اُن ہی کے فیضِ صحبت سے عبد الراشد صاحب " راشد الخیری" بن گئے۔ مولوی اشرف حسین صاحب سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے دو ہی برس بعد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میرا زیادہ وقت مرحوم کی خدمت میں گزرتا تھا اور ہر وقت زبان و بیان کی خوبیاں اور نکات کانوں میں پڑتے رہتے تھے۔ یہ مرحوم کی جوتیوں کا صدقہ ہے کہ مجھے بھی کچھ ٹوٹے پھوٹے جملوں کو جوڑ کر یکجا کرنا آ گیا۔ مرحوم ہلکی پھلکی سیدھی سادی اردو کے عاشق تھے۔ ٹھوس اور ثقیل الفاظ کی آمیزش سے دور بھاگتے تھے۔ مجھے بھی پگڈنڈی مرحوم بتا گئے اُسی پر چلتا رہا ہوں اور چلتا رہوں گا۔
اتنا اور عرض کر دینے کی ضرارت سمجھتا ہوں کہ 1936 ء میں میرے چودہ افسانوں کی کتاب "عروسِ ادب" کے نام سے چھپی تھی۔ اوّل تو اس کا نام ہی ایسا تھا کہ پڑھنے یا سننے والے کے دماغ میں ایک ٹھوس ادبی کتاب کا تصور قائم ہو جاتا تھا۔ دوسرے یہ بات تھی کہ اس میں مزاحیہ اور سنجیدہ دونوں طرح کے افسانے تھے۔ میں نے بجائے اس کے کہ اسی کا دوسرا ایڈیشن چھپواتا اب یہ کیا ہے کہ اس کے تین مزاحیہ افسانے (ولی کامل، انجمن خدام ادب اور ہماری عید) اس کتاب میں شامل کر لئے اس طرح یہ کتاب سر تا پا مزاحیہ افسانوں کی ہو گئی ہے ۔ سنجیدہ افسانوں کی ایک اور کتاب " نیلم کی انگوٹھی" کے نام سے زیرِ طبع ہے۔ جس میں کچھ افسانے "عروسِ ادب " کے ہی اور کچھ نئے۔
ظریف دہلویؔ 21 فروری 1947 ء

ریختہ صفحہ 18
خاں صاحَب

ریختہ صفحہ 19
خانصاحب

ہمارے خاں صاحب بھی ماشاء اللہ ہیں بڑی خوبیوں کے آدمی۔ زندہ دل، ہر وقت ہنسنے ہنسانے والے، اڑاتے رہتے ہیں بے پر ہی کی اور اسی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ آپ ان کی ہر بات پر آمنا صدقنا کہے جائیں تو خوش ہیں اور جو ذرا بھی مخالفت کی تو پھر آئیں تو جائیں کہاں۔ پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ پھر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی پرانا ملنے جلنے والا ہے ، بچہ ہے ، بڑا ہے ، امیر ہے یا غریب ہے، جان کو آ جاتے ہیں۔ مجھ پر ذرا مہربان ہیں۔ وہ اس لئے کہ میں بزرگ سمجھ کر ان کا ایک آدھ کام کر دیا کرتا ہوں۔ کوئی خط آیا تو پڑھ دیا یا کچھ لکھ لکھا دیا۔ پھر بھی انکی نظریں دیکھتا رہتا ہوں کہ کہیں بگڑ گئے تو سنبھالے نہیں سنبھلیں گے۔ ایک دن میں نے انھیں بہت ہی خوش اور بشاش دیکھ کر کہا:
"خانصاحب! کئی دن سے ایک بات پوچھنے کا ارادہ کر رہا ہوں مگر ڈر لگتا ہے"
"کاٹ کھاؤں گا نا" خانصاحب نے بغیر دانتوں کا غار سا منہ کھول کر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
"میں تو جناب کو انسان سمجھتا ہوں" میں نے عاجزی سے کہا۔
"آدمی کہو آدمی۔ انسان آج کل کہاں دھرے ہیں۔ خانصاحب نے فلاسفرانہ شان سے پیشانی پر شکن ڈال کر کہا۔
"نہیں خانصاحب !آپ انسان ہیں پورے انسان۔ میں نے یقین دلانےکے طور پر لفظ "پورے" پر زور ڈال کر کہا۔
"پھر وہی بات۔ میاں کہہ تو دیا انسان آج کل گِھس لگانے کو بھی نہیں آدمی بھی دنیا میں کم ہی ہوں گے۔
"یہ کیا فرمایا خانصاحب آدمی کم ہیں۔ چاندنی چوک جیسے لمبے چوڑے بازار میں تو کھوے سے کھوا چِھلتا ہے۔ اور آپ فرماتے ہیں کہ آدمی کم ہیں یہ بات کچھ دماغ میں نہیں بیٹھی خانصاحب۔"
میں نے اپنے چہرے پر آثارِ سراسیمگی پیدا کرتے ہوئے کہا۔
" اب یہ تم نئی بحث چھیڑ بیٹھے۔ آؤ لگے ہاتھوں اس کو بھی سمجھاتے چلیں۔" خانصاحب نے افیم کی چُسکی لگاتے ہوئے کہا۔ میاں میرے بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔ ایک ریوڑی منہ میں ڈال کر۔۔۔ یوں تو ہونے کو سب ہی آدمی ہیں۔ مگر زیادہ تر محض صورت شکل کے لحاظ سے آدمی ہیں۔ سیرت اور افعال کے لحاظ سے جانور۔ نِرے جانور بلکہ جانوروں سے بھی بدتر۔ جانور بیچاروں کو یہ باتیں کہاں نصیب جو یہ حضرت آدمی کرتے رہتے ہیں۔ دیکھو! میاں میرے بات یہ ہے کہ۔۔۔۔ یہ خانصاحب کا تکیہ کلام ہے۔۔ آدمی آخر آدمی ہی ہے۔ فرشتہ تو ہے نہیں۔ اس سے خطائیں بھی ہوتی ہیں لغزشیں بھی ہوتی ہیں۔ گناہ بھی ہوتے ہیں اس لئے کہ اللہ میاں نے اس کے اندر جذبات بھی تو بھر رکھے ہیں۔ بس تو بات یہ ہے کہ جو انسان ان جذبات کو کچل کر سلامت روی سے نکل گیا وہی امتحان میں پاس ہوا اور انسان بنا اور جو ان میں کہیں الجھا کہیں بچا کہیں گرا کہیں سنبھلا وہ بھی خیر آدمی ہے اور جو ان آلائشوں میں گِھر کر رہے گا اور جس نے کبھی ضمیر کا کہا
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
صفحہ نمبر 61

بہت ہنسیں۔ لوٹ پوٹ ہو گئیں۔ پھر کہنے لگیں۔
بیگم:۔ اب خوب داد ملے گی؟
ہم:۔ اجی چار چار دفعہ ایک ایک شعر پڑھوائیں گے۔
بیگم:۔ اور میں بھی تو سنوں یہ ہوتا کیا ہے تمہارا مشاعرہ؟
ہم:۔ بیگم تم کنوئیں کی مینڈکی ہو۔ کچھ جانتی ہی نہیں۔ اچھا سنو۔ بڑے بڑے آل انڈیا مشاعروں میں تو شامیانے لگتے ہیں، دریوں چاندنیوں کا فرش ہوتا ہے، لا‏وڈ سپیکر لگتے ہیں۔ اور یوں معمولی مشاعرے بھی کسی بڑے مکان میں ہوتے ہیں۔ بہرحال دونوں طرح کے مشاعروں میں سامعین کے لیے جو جگہ ہوتی ہے اُس سے کسی قدر اُونچی جگہ شاعروں کے لیے ہوتی ہے۔ ایک ہوتے ہیں "جناب صدر" یہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک صدر ناطق، دوسرے صدر خاموش۔ یعنی کہیں ایسے ہوتے ہیں کہیں ویسے۔ صدر ناطق وہ ہوتے ہیں جو شاعر کے کلام شروع کرنے سے پہلے اُس کے متعلق کچھ کہتے ہیں۔ یعنی تعارف کراتے ہیں۔ پھر اُس کے اشعار کی خود تعریف کرتے ہیں اور پبلک سے گویا داد دلواتے ہیں جب وہ شاعر پڑھ چکتا ہے تو اُس کے کلام پر تھوڑا سا تبصرہ بھی کرتے ہیں۔ یہ تو ہوئے صدر ناطق۔ اب رہے صدر خاموش تو اُن کی کچھ نہ پوچھیے۔ ایسے بیٹھے ہیں جیسے مجسمہ۔

صفحہ نمبر 62

جناب آج بے طرح گُم سُم بنے ہیں
نہ ہوں ہاں کریں اور نہ کچھ بولیں چالیں
اچھا بعض شاعر تمیزدار ہوتے ہیں۔ آداب مشاعرہ کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ وقت سے پہلے آتے ہیں۔ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد جاتے ہیں۔ اپنا کلام سناتے ہیں، دوسروں کا سنتے ہیں چاہے اچھا ہو یا بُرا۔ مناسب موقعہ پر داد دیتے ہیں، جب اُن کا نام لے کر صدر صاحب بلاتے ہیں تو اُن کے پاس جا کر انہیں سلام کرتے ہیں، پھر اجازت طلب کے پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ یہ تو ہوئے ضابطہ کے شاعر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ جتنی دیر میں چلیں گے پبلک ہمارا انتظار کرے گی، ہمیں چاروں طرف تلاش کرے گی۔ چنانچہ یہ لوگ بارہ بجے پہنچے، جلدی کر کے پڑھنے کے لیے بلائے گئے۔ نہ سلام، نہ علیک، جاتے ہی دن سے غزل داغ دی۔ خوب داد ملی اور پڑھتے ہی کھسک گئے۔ گویا تمام حاضرین کے سر پر احسان کا ٹوکرا دھر گئے۔
بیگم:۔ یہ تو بڑی بُری بات ہے۔ خود غرضی ہے کہ اپنا کلام سنایا اور دوسروں کا نہ سنا۔ ایسے کیا بہت ہی بڑے شاعر ہوتے ہیں؟
ہم:۔ بہت ہی بڑے تو کیا خاک ہوتے ہیں۔ ہاں سمجھتے ضرور ہیں کہ ہچومن

صفحہ نمبر 63

دیگرے نیست
بیگم: اور مشاعروں میں سُنا ہے گانا بھی تو ہوتا ہے۔
ہم: ہاں ہوتا ہے۔ بعض شاعر ترنم سے پڑھتے ہیں جسے تھوڑا سا گانا کہتے ہیں۔ بعض خاصے قوال اور گویّوں کی طرح باقاعدہ تال سُر سے گاتے ہیں اور تانیں لیتے ہیں۔ بعض نِرت بھی کرتے ہیں۔
بیگم: پھر تو انھیں خوب داد ملتی ہو گی۔
ہم: کیا کہنے ہیں۔ شاعری کے عیوب گانے سے ڈھک جاتے ہیں خاصئے شعر بہت اچھے بن جاتے ہیں۔
بیگم: اور وہ آپ کی دلپسند داد ملتی کیونکر ہے؟
ہم:بس کچھ نہ پوچھو بیگم! ایسے مزے مزے سے ملتی ہے کہ داد کی داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ کوئی صاحب بیٹھے بیٹھے کچھ اس طرح چیخ کر "واہ" کہتے ہیں کہ برابر والا اچھل پڑتا ہے کہ اللہ خیر کرے کہیں ان کے بچھو نے تو نہیں کاٹ لیا۔ ایک صاحب بڑے میٹھے میٹھے سُروں میں فرماتے ہیں۔ " کیا کہنے ہیں کیا کہنے ہیں" ایک صاحب بزرگانہ شفقت سے فرماتے ہیں " میاں جیتے رہو جیتے رہو کیا شعر پڑھا ہے۔" ایک صاحب اپنی ران پر زور سے ہاتھ مار کر فرماتے ہیں " ہائے ! کیا کہہ دیا ۔ ہئی ہئی

ریختہ صفحہ 64

بیگم: تو یوں کہو مشاعرہ بڑی بہار کی چیز ہوتی ہے۔
ہم: اور کیا۔ تم سے کئی دفعہ کہا۔ تم چلتی ہی نہیں۔ ایک دفعہ چل کے دیکھو تو۔
بیگم: مجھے تو معاف ہی رکھئیے۔ میں نہیں جاتی۔ سُنا ہے بعض شاعر واہیات باتیں بھی بکتے ہیں۔
ہم: ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا۔ اور جو کہیں کسی جگہ کوئی شاعر ایئسا ویسا شعر پڑھ بھی دیتا ہے تو اُسے روک دیا جاتا ہے۔
بیگم: شعر کہہ دینے کے بعد روکا تو کیسا روکا۔ سُننے والے تو سن ہی لیتے ہیں۔
ہم: ہاں اب کیا کیا جائے۔ پہلے سے منع کر دیا جاتا ہے مگر پڑھنے والے نہ مانیں تو انھیں ہاتھ پکڑ کر باہر نکالنے سے تو رہے۔
بیگم: اچھا۔ اب تو تمہاری غزل پوری ہو گئی۔ اب تو بازار ہو آؤ۔
ہم: آ گئیں نا سَم پر۔ اچھا لکھواؤ کیا کیا منگوا رہی ہو؟
بیگم: سوّیاں لا کر دو۔ چنو کا سویٹر اور ترکی ٹوپی، ننھی کا کنٹوپ، بچوں کی اور میری جرابیں، اور صاحب خدا آپ کا بھلا کرے وہ اُوٹو۔
ہم: اُوٹو کس جانور کا نام ہے۔
بیگم: وہ تم نے دیسی عطر بقر عید پر لا کر دیا تھا نا؟

ریختہ صفحہ 65

ہم : دیسی عطر! ارے عطر دیسی ہی ہوتے ہیں۔ ولایتی عطر کون سے ہوتے ہیں؟
بیگم: وہ آٹو گلستاں بوستاں کیا بلا تھی جو تم بقر عید پر لائے تھے؟
ہم: اچھا ! وہ گلستان کی شیشی جو لایا تھا جس میں شیشے کی سلائی لگی ہوئی تھی۔
بیگم: ہاں ہاں وہی۔ بڑا اچھا عطر تھا۔ اور وہ صاحب رات کی رانی!
ہم: رات کی رانی اور دن کا راجہ ، یہ کیا کہہہ رہی ہو؟
بیگم: آپ کو تو ان غزلوں نے کہیں کا نہ رکھا۔ کچھ جانتے ہی نہیں۔ اے لو وہ پرسوں ہی تو عزیز دُلہن آئی تھی۔ بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے گلاب گندی کی دکان ساتھ لے آئی ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ رات کی رانی لگائے ہوئے ہیں۔ بڑی اچھی خوشبو کا عطر ہے۔
ہم: دیکھو بیگم! ہماری بیوی ہو کر ایسی اردو نہ بولا کرو۔ اچھی خوشبو کیا ہوتی ہے؟
بیگم: سچ کہتی ہوں بڑی اچھی خوشبو تھی۔
ہم: پھر وہی۔ ارے خوشبو کے معنی ہی اچھی بُو کے ہیں۔ خوشبو کہو یا اچھی بُو۔
بیگم: بُو تو بدبو کو کہتے ہیں۔ بدبو بھی کہیں اچھی ہو سکتی ہے۔
ہم: خیر ، کہہ تو دیا اب "اچھی خوشبو" نہ کہنا۔ تو یہ "رات کی رانی" ایک طرح کا عطر ہوتا ہے؟ اچھا آگے چلو۔

ریختہ صفحہ 66

بیگم: تین عید کارڈ اور۔۔۔ اور۔۔۔۔ میرے لئے جو تمہارا جی چاہے۔
خیر صاحب ہم بیگم کی بتائی ہوئی ساری چیزیں لے آئے اور اپنی بیگم کے لئے خاص طور پر کچھ چیزیں اپنی طرف سے بھی لائے۔ بیگم نے کسی پر ناک چڑھائی ، کسی پر بھوں۔ کسی میں یہ خرابی بتائی کسی میں وہ۔ خیر یہ تو کوئی نئی بات نہیں۔ روز ہی ہوتا رہتا ہے۔ مگر مصیبت تو یہ ہوئی کہ عید والے دن صبح کو ہم عید گاہ جا رہے تھے کہ بیگم نے سر ہو کر ، منت خوشامد کر کے چُنّو کو ساتھ کر دیا جو چار برس کا ہے اور اسی پر بس نہیں کی ۔ ننھی کو بھی ہماری گود میں زبردستی ٹھونس دیا جو سوا برس کی ہے۔ چُنّو کی انگلی پکڑے، ننھی کو گود میں لادے ہم حقیقی معنوں میں مزدور بنے عید گاہ پہنچے۔ فقط اتنا تو قصور ہم سے ہوا کہ ایک دو منٹ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر اپنے سے آگے کی چھٹی صف میں گئے کہ تعویذ ایک صاحب بیچ رہے تھے، وہ لے آئیں۔ چُنّو سے تاکید کر دی تھی کہ بیٹا یہیں بیٹھا رہئیو۔ ابھی آتا ہوں۔ بچی کو گود میں لئے لئے گئے تھے۔ آن کر جو دیکھتے ہیںتو چُنو صاحب غائب ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ بھی ہمارے پیچھے ہی گیا تھا۔ نہ معلوم کدھر چلا گیا۔ اب بھلا بتائیے ہزاروں آدمیوں میں کہاں ڈھونڈیں اور کیونکر تلاش کریں۔ بچی ہے کہ تسمہء پا کی طرح چمٹی ہوئی ہے۔ ایک منٹ کو الگ نہیں ہوتی۔ سخت مصیبت اور کوفت تھی۔ بارے سامنے والے بُکّر پر سے آواز آئی

ریختہ صفحہ 67

" کسی کا بچہ کھو گیا ہے تو لے لو" اب جو دیکھتے ہیں تو ہمارے چُنو میاں ہوا میں اُدھر ہیں۔ ایک شخص ان کی بغلوں میں ہاتھ دئیے سر سے اوپر اٹھائے ہوئے ہیں۔ خیر وہاں سے جا کر انھیں لائے۔ اپنی جگہ آئے ہی تھے کہ اِدھر تو آواز لگی" صفیں سیدھی کر لو" اور اُدھر ہماری ننھی صاحبہ محترمہ نے ٹھنک کر فرمایا "ابا جی" جلدی سے اسے لے کر چلے اور اس خیال سے کہ کہیں کر نہ دے تو سارے کپڑے ہی خراب ہو جائیں گے۔ ایک ہاتھ سے اس غریب کے کولھے بھینچے ہوئے تھے ۔ ہمارے چُنو میاں کو الگ ایک ہاتھ کی ضرورت تھی۔ وہ بغیر انگلی تھامے چلتے ہی نہ تھے۔ مجبوراً اس سے کہا کہ بیٹا ہماری اچکن کا دامن پکڑ لو۔ دیکھو چھوڑنا مت ، نہیں تو پھر کھو جاؤ گے۔ غرض بہ ایں ہئیت کدائی۔ ہم جو چلے تو لوگوں کو ہماری وجہ سے تکلیف ہوئی ۔ جو ذرا بزرگ و سنجیدہ تھے انھوں نے تو بس اتنا ہی کہا کہ میاں چھوٹئے بچوں کو عید گاہ میں نہیں لانا چاہئیے۔ اپنے آپ کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور دوسروں کو بھی۔" مگر آزاد منش لوگوں نے آوازے کسنے شروع کر دئیے۔ " میاں لائے کیوں تھے۔ نہ لاتے تو بیوی اماں نہ خفا ہو جاتیں۔ " دیکھنا میاں یہ ہیں وہ بیوی کے لاڈلے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت جو حالت ہمارے دل کی تھی اس کا اندازہ وہی خوش نصیب لوگ لگا سکتے ہیں جن پر کبھی ایسی بپتا پڑ چکی ہو۔ اس ذلت و خواری میں ایک مصیبت یہ نازل ہوئی تھی کہ ننھی جو ایکدم روئے اور کسمسائے جاتی تھی ایک دفعہ ہی زور لگا کر ہمارے پیٹ میں اڑا کر جو سیدھی ہوئی ہے تو ہمارا ہاتھ جس سے ہم اس کے کولھے بھینچے ہوئے تھے ، کولھوں کے نیچے سے نکل گیا۔ بس نتیجہ آپ خود سمجھ لیجئیے ۔ ایک تو سارے راستے ان غلیظ کپڑوں میں گھر آئے بچی کو لادے ہوئے چنو کی انگلی پکڑے ہوئے۔ اس پر گھر آ کر بیوی کی فصیحتی سنی ۔ پنجے جھاڑ کر ہمارے ہی پیچھے پڑ گئیں۔ تُم نے ہی رلایا ہو گا۔ وہ تو صبح ہی کو کر چکی ہے۔ اس کا پیٹ تو ایسا نہیں ہے۔ روتے روتے ہلکان ہو گئی ہو گی، نکل گئی۔
غرض اس ٓی پر بات بڑھی اور نتیجہ یہ ہوا کہ بیگم الگ منہ پُھلا کر پڑ گئیں اور ہم الگ بسورت ہوئے پلنگ پر جا پڑے۔ یہ تھی ہماری عید۔

ریختہ صفحہ 68

فلسفی میاں

ریختہ صفحہ 69
فلسفی میاں

کیا سوچ رہے ہیں آپ؟
ہم یہ سوچ رہے ہیں بیگم کہ اگر اللہ میاں زمین کو گول نہ بناتے تو اُن کی خُدائی میں کیا فرق پڑ جاتا۔ آخر وہ تو قادرِ مطلق ہیں ، چپٹی ہی سے کام نکال لیتے۔
بیگم: نہیں کچھ اور بات ہے۔
ہم: کچھ اور بات نہیں۔
بیگم: کھائیے تو قسم۔
ہم: تمہارے سرِ عظیم کی قسم۔
بیگم: کیا کہنے۔ قسم کھانے کو بھی میرا ہی چونڈا نظر آیا۔
ہم: اللہ پاک کی وسیع مملکت میں ، لا محدود سلطنت میں، تمام کائینات میں ہر چیز گول ہے، ہر ذرہ گول ہے، ہر سّیارہ گول ہے، اللہ میاں کو گولائی بہت پسند ہے۔ جب ہی تو۔ دیکھو تم اپنے آپے ہی کو

ریختہ صفحہ 70

دیکھو۔ اچھا پاؤں سے چلو، دیکھو انگلیوں کے ناخن گول ہیں۔ ٹخنہ گول ہے۔ گُھٹنے کی چپنیاں گول ہیں۔اور اوپر چلو دیکھو دونوں۔۔۔ اچھا خیر جانے دو۔ اور اوپر ناف گول ہے۔ اور پیٹ ہاں پیٹ بھی گول ہے۔ اور ۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ اچھا اور اوپر چلو ٹھوڑی گول ہے، اس میں گڑھا بھی گول ہے، دہانہ گول ہے، ناک کے سوراخ دونوں کے دونوں گول ہیں،رخسار گُلگلے سے ہیں۔ یعنی گول گول ہیں۔ وہ گڑھے بھی گول ہیں جن میں آنکھیں سکونت پذیر ہیں ۔ پھر آنکھوں کے ڈیلے ، پُتلیاں ، تِل سب ہی گول ہیں اور یہ تمہارا سر جس میں خدا جانے کیا بھرا ہوا ہے ، یہ بھی گول ہے۔ تو جب اللہ میاں کو گول چیزیں اس قدر پسند ہیں تو ہم ان کے بندے تمہارے سر جیسی گول چیز کو کیوں نہ پسند کریں۔ تو پھر اگر تمہارے سر کی قسم کھا لی تو کون سا گناہ کیا؟
بیگم: یا اللہ تیرا شکر! ختم ہو گئی آپ کی تقریر۔ مگر بات وہیں کی وہیں رہی۔ میں پوچھتی ہوں زمین گول ہوئی تو اور چپٹی ہوئی تو آپ کو اس کے متعلق سوچنے سے کَے رکعت کا ثواب مل جائے گا۔ بات بتائیے۔ اصلی بات کیا ہے؟
ہم: بات وات کچھ بھی نہیں۔ ہم ذرا اپنے سر کے متعلق سوچ رہے تھے کہ وہ بھی تو گال ہے بالکل زمین کی طرح۔
بیگم: ہے تو پھر کیا ہے۔ بات کیا ہے۔ آخر بتاتے کیوں نہیں۔ پہیلیاں بُجھوائے
 

محمد عمر

لائبریرین
177
خاں صاحب کی عید
178
”حامد علی صاحب“ مسعود نے حامد کے مکان کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے آواز دی۔
”ارے بھئی کون ہے؟“ ملازمہ نے اندر سے کہا۔
”میں ہوں، مسعود! حامد بھائی کیا کر رہے ہیں؟“ مسعود نے جواب میں کہا۔
”میاں! مسعود صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔“ ملازمہ نے باورچی خانہ ہی میں سے آواز لگائی۔
”یہیں سے بیٹھے بیٹھے سوال جواب کیے جا رہی ہے۔ یہ نہیں کہ باہر جا کر کہہ دے کہ ابھی آتے ہیں۔۔۔۔۔“
”۔۔۔۔۔ اے بی شریفن! سُن رہی ہو یا نہیں؟“ حامد نے غسل خانے میں سے چیخ کر کہا۔
”سویّاں اُبالنے میں دس دفعہ اُٹھ چکی ہوں۔ اس گھر کے طور ہی نرالے
179
ہیں؟“ ملازمہ بڑبڑاتی ہوئی اُٹھی اور باہر جا کر کہنے لگی ہے۔
ماما: ”میاں کہہ تو دیا کہ حامد میاں نہا رہے ہیں۔ غسل خانہ ہیں۔ آپ نے تو دُہائی مچا دی۔“
مسود: ”اے بی تم تو ہوا سے لڑتی ہو۔ یہ تم نے کب کہا کہ میاں نہا رہے ہیں؟“
ماما: ”اچھا اب تو کہہ رہی ہوں۔“
بیگم حامد: ”ارے کون ہے؟ اب وہیں جا کے مری۔“
ماما: (گھر میں آ کر) ”بیوی وہی آئے ہیں جو کل آئے تھے۔ مسدود میاں۔“
بیگم: ”مسدود میاں کی بچی! یہ تیرے منہ پر آنکھیں ہیں یا بٹن لگے ہوئے ہیں صریحاً دیکھ چکی ہے کہ کل مسعود گھنٹہ بھر میرے پاس بیٹھ کر گئے ہیں اور جا کر سوال و جواب کر رہی ہے مُردار۔ یہ نہیں کہ گھر میں بُلا لے۔ (زور سے) آجاؤ مسعود بھائی۔
مسعود: (گھر میں آ کر) ”بھابھی جان سلامُ علیکم۔ حامد بھائی کہاں ہیں؟“
بیگم: ”وعلیکم السلام۔ وہ نہا رہے ہیں۔“
حامد: (غسل خانہ سے) ”میاں ابھی آیا۔“
مسعود: ”یہ آپ کی ماما تو بڑی بدتمیز ہے۔“
بیگم: ”بلند شہر کی ہے۔ وہ علاقہ شکار پور ہی کا ہے۔ بھائی کیا بتاؤں۔ ان ماما نوکروں نے کیسا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اوّل تو ملتے ہی نہیں اور جو ملتے بھی ہیں تو ایسے
180
خوبیوں بھرے اور تنخواہ دیکھو تو بابوؤں کی۔ عجب زمانہ آ گیا ہے کم بخت۔ آج عید کا دن ہے۔ چاہو کہ امی جمی سے گذر جائے۔ ایک چیخم دھاڑ مچا رکھی ہے جیسے غدر مچ گیا ہو۔
حامد: (غسل خانہ سے آ کر) سلامُ علیکم۔
مسعود: وعلیکم السلام۔ یعنی آج عید کا دن ہے۔
حامد: ہاں ہے تو غالباً عید ہی۔
مسعود: غالباً کے کیا معنی؟ ارے میاں عید گاہ بھی چلنا ہے یا نہیں؟ میں تو تیّار ہو کے آیا ہوں۔
حامد۔ ابھی تو بہت وقت ہے یار۔
مسعود: تمہارا سر ہے۔ سوا آٹھ بجے ہیں اور ابھی قبلۂ عالم کو بھی ساتھ لینا ہے۔
بیگم حامد: کون سے قبلۂ عالم؟
مسعود: بھابی جان! آپ خاں صاحب کو بھول گئیں؟
بیگم: ارے تم لوگوں نے اس غریب کی ناحق مٹّی پلید کر رکھی ہے۔ بڈّھے آدمی کو نہیں ستایا کرتے۔ بری بات ہے۔
مسعود: بھابھی جان! وہ بنتا بھی تو بہت ہے۔ ہر بات میں ٹانگ اَڑاتا ہے۔ اپنے آپ کو بڑا مہربان سمجھتا ہے۔
حامد: مگر باتیں بڑی سنجیدگی سے کرتا ہے، جیسے کوئی فلاسفر بول رہا ہو۔
181
مسعود: اچھا اچکن پہنو۔ لپک کر تیار ہو جاؤ۔ رشید اور محمود بھی آتے ہیں۔ اتنے میں خان صاحب کو لے آؤں۔
حامد تیار ہوتا ہے۔ رشید اور محمود بھی آ جاتے ہیں۔ ذرا سی دیر میں مسعود بھی خاں صاحب کو لئے آ پہنچتا ہے۔ خاں صاحب آتے ہی فرماتے ہیں:
”صحیح حدیث ہے کہ عید کے دن دودھ میں خُرما ڈال کر کھانا چاہیے۔“
حامد: خاں صاحب! چینی پر راشن ہے۔ حلوائیوں نے دکانیں بند کر رکھی ہیں۔ خرمے کون بنائے؟
خاں صاحب: تم بھی عجیب بوڑم ہو۔ میاں خُرمے کھجوروں کو کہتے ہیں۔
مسعود: کھجوریں کہاں رکھی ہیں؟
خاں صاحب: تو چھوارے تو ہیں۔
حامد: حدیث شریف میں چھواروں کا ذکر کہاں ہے؟
خاں صاحب: سویّاں کھانی بھی سنت ہیں۔
رشید: یہ ہے مقطع کا بند۔ لاؤ بھائی حامد لے ہی آؤ۔ یہ بھی اپنے نام کے خاں صاحب ہیں۔ بغیر کھائے ٹلنے والے نہیں۔
دودھ سویّاں آتی ہیں اور ساتھ میں کچوریاں بھی۔ سب کھا پی کر عیدگاہ روانہ ہوتے ہیں۔ جامع مسجد پہنچ کر یہ فکر ہوئی ہے کہ تانگے میں چلا جائے یا ٹریم میں۔ دور کا معاملہ ہے۔ حامد ایک تانگے والے سے کرایہ پوچھتا ہے۔
182
تانگے والا: تین روپے ہوں گے صاحب
حامد: جاتے آنے کے؟
تانگے والا: جاتے جاتے کے صاحب۔ آتے کی خوب کہی۔ اب میں وہاں آپ کے لئے دو گھنٹے ٹھہرا رہوں گا نہ؟
مسعود: چلو میاں چلو۔ ٹریم میں چلیں گے۔
مسعود: ٹریم میں آج جگہ ملنی مشکل ہے۔ دیکھ نہیں رہے آدمی لٹکے ہوئے چل رہے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے خاں صاحب؟ ارے یہ آپ کیا سوچ رہے ہیں؟
خاں صاحب: میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اللہ میاں نے ٹریم بھی کیا چیز بنائی ہے۔ محمود: ٹریم اللہ میاں نے بنائی ہے؟
خاں صاحب: ٹریم نہیں تو بھاپ تو اللہ میاں نے بنائی۔
حامد۔ بھاپ کیسی؟ بھاپ کا یہاں کیا ذکر؟
خاں صاحب: پانی گرم ہو جاتا ہے تو اس میں سے بھاپ اُٹھتی ہے یا نہیں؟
رشید: ارے یہ کون مسخرہ نہیں جانتا۔ مگر یہاں بھاپ کا کون سا تُک ہے؟
خاں صاحب: تم توبال کی کھال نکالتے ہو۔ ارے میاں ریلیں بھاپ سے چلتی ہیں یا نہیں۔ انجن بھاپ سے چلتا ہے یا نہیں، بس اسی طرح ٹریم بھی بھاپ سے چلتی ہے۔
183
حامد: انجن میں تو اس کی بھاپ وہیں تیار ہوتی ہے۔ ٹریم میں کس جگہ تیار ہوتی ہے؟
خاں صاحب: اب یہ کیا ضروری بات ہے کہ ٹریم بھی انجن کی طرح بھاپ کو جیب میں ڈالے ڈالے پھرے۔
رشید: تو حضور سوال یہ ہے کہ وہ بھاپ جس سے ٹریم چلتی ہے آخر ہوتی کس جگہ ہے؟
خاں صاحب: وہ جو ٹریم خانہ ہے نہ وہ۔۔۔۔
مسعود: اے سبحان اللہ! کیا بات فرمائی ہے قبلہ آپ نے۔ ٹریم خانہ! سبحان اللہ گویا ٹریم گاڑیاں بھی مرغیاں ہیں۔
خاں صاحب: تمہاری بات کاٹنے کی عادت بہت بری ہئ جی! پہلے سن تو لیا کرو۔۔۔۔خبر نہیں کیا کہہ رہے تھے ہم۔ ہاں وہ جو ٹریم کا گھر بنا ہوا۔۔۔ او تانگے والے!
تانگے والا: کہئے عید گاہ پہنچا آؤں!
خاں صاحب: میاں صاحبزادے کیا لو گے؟
تانگے والا: ابّا جی! تین روپے دے دینا۔
خاں صاحب: میاں گھوڑا تانگا تمہارا عیدگاہ پہنچتے ہی واپس کر دیں گے۔
تانگے والا: نہیں صاحب! گھوڑا تانگ واپس کر کے کیا کیجئے گا۔ تین روپے میں گھوڑا بھی لیجئے، تانگہ بھی لیجئے اور مجھے بھی کیوں چھوڑا مجھے بھی لے لیجئے۔ ایک استرا
184
دلوا دیجئے گا آپ کی حجامت بنایا کروں گا۔
خاں صاحب۔ بڑا ہی بد تمیز ہے یہ۔ گستاخ کہیں کا۔
مسعود: جانے دیجئے خان صاحب! جانور کی صحبت میں رہ کر جانور بن گیا ہے یہ تو۔
تانگے والا۔ واہ صاضب وا! عید کے دن بے ناحق کو جناور بنا دیا۔ میں نے گستاخی کیا کی؟
حامد: ابے گستاخی کے سر پر سینگ ہوتے ہیں کیا؟ دیکھتا نہیں یہ تیرے باپ سے بھی بٹے ہیں۔۔۔۔۔ چلئے خاں صاحب! ٹریم میں چلیں۔ بس اب کے جو آئے تو کسی نہ کسی طرح گھس ہی جائیے گا۔
اتنے میں ٹریم آئی لدی ہوئی۔ تو مجھ پر اور میں تجھ پر۔ مسعود، حامد، رشید اور محمود تو کسی نہ کسی طرح دھنس ہی گئے۔ خانصاحب بے چارے کئی دفعہ چڑھے اور جھٹک دیے گئے۔ آخر حامد اور رشید نے بڑی مشکل سے گھسیٹ گھساٹ کر ان کو بھی اوپر کھینچ ہی لیا۔ ان سب کو بیٹھنے کی جگہ تو کیا خاک ملتی، کسی نہ کسی طرح کھڑے ہو گئے۔ بلکی یوں سمجھو کہ ٹھک گئے۔ اتنے میں خان صاحب بڑے زور سے چیخے:
”ارے میرا پاؤں۔“ لوگ گھبرا گئے کہ کوئی چیز ٹتیم سے باہر چھوڑ آئے یا کیا ہوا۔ خاں صاحب برابر چیخ رہے ہیں۔ ”ارے میرا پاؤں۔ ارے میرا پاؤں؟“ حامد نے چلا کر کہا۔
”کیا مصیبت ہے خاں صاحب؟ پاؤں تو دونوں آپ ساتھ لے کر چڑھے ہیں۔“
185
خاں صاحب: سب بکواس کئے جا رہے ہیں۔ پاؤں کا میرے بھرتہ ہو گیا۔ ارے او جانور ابے ہٹ۔ میرے پاؤں پر کھڑا ہوا ہے۔ او ٹریم والے! او میاں کنڈکٹر۔ گاڑی روکو۔ ارے روک، ارے روک۔
ٹریم کھڑی ہو گئی۔ جو آدمی خاں صاحب کے پاؤں پر چڑھا کھڑا تھا اسے بمشکل تمام ہٹایا گیا کیونکہ جگہ بالکل ہی نہ تھی۔ اب خاں صاحب ہیں کہ اتر پڑتے ہیں۔
”نہیں میں ہرگز اس میں نہیں جاؤں گا۔ میں پیدل چلا جاؤں گا۔“ آخر یہ چاروں بھی اُتر پڑے۔ ٹکٹ کے پیسے بھی گئے۔ اب سب پیدل چلنے لگے۔ رشید نے پوچھ:
”ہاں خاں صاحب! وہ بھاپ والا کیا مضمون تھا؟“
خان صاحب: بھاپ جائے بھاڑ میں۔ مجھے ٹریم کے نام سے نفرت ہو گی۔ گدھے کے بچے نے میرا پاؤں کچل دیا۔
محمود: ٹریم کو گدھے کا بچہ کہہ رہے ہیں آپ؟
خان صاحب: ٹریم نہیں وہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ جو آدمی کی شکل کا جانور تھا۔ اب تک میرے پاؤن میں مرچیں لگ رہی ہیں۔
رشید: خان صاحب! آپ کی خدمت میں رہ کر ہمیں بھی کچھ نہ کچھ مفید باتیں معلوم ہو جاتی ہیں۔ معلومات میں اضافہ ہو جاتا ہے، ہاں دیکھیے اب بتا دیجئے کہ ٹریم بھاپ سے کیونکر چلتی ہے؟
186
خاں صاحب: یہ جو تار تمہارے سر کے اوپر لگے ہوئے ہیں ذرا نہیں ہاتھ لگا لو تو پتہ چلے۔
رشید: کیا پتہ چلے؟
خاں صاحب: میاں جل رہے ہیں۔ آگ ہو رہے ہیں آگ۔
رشید: تو پھر؟
خاں صاحب: پھر کیا۔ بڑے کوڑھ مغز ہو۔ اب بھی نہیں سمجھے۔ میاں ٹریم خانے میں بہت ساری بھاپ بنتی ہے اور وہاں سے ان کھوکھلے تاروں میں آتی ہے اور ان تاروں سے ٹتیم چلتی ہے۔ بھاپ بند ہو جائے تو ٹریم کھڑی کی کھڑی نہ رہ جائے۔
حامد: سبحان اللہ خاں صاحب، واہ وا کیا دماغ پایا ہے۔ ماشاء اللہ۔
یہ باتیں بھی کرتے جاتے تھے اور جلدی جلدی چل بھی رہے تھے۔ قطب روڈ پر پہنچے تھے کہ گولے کی آواز آئی۔ لوگوں نے قدم بڑھا دیے۔ مختصر یہ ہے کہ یہ لوگ جب عیدگاپ پہنچے تو اندر گھس ہی نہ سکے۔ باہر بھی عید گاہ سے ذرا فاصلہ پر جگہ ملی۔ وہیں کپڑا بچھا کر سب کھڑے ہو گئے۔ صفیں سیدھی ہوئیں اور نماز شروع ہو گئی۔ یہ لوگ اس ترتیب سے کھڑے ہوئے تھے کہ سب سے پہلے حامد تھا۔ اس کے برابر میں مسعود، پھر محمود، پھر رشید، پھر خاں صاحب اور ان کے برابر ایک کرخنداری وضع کا لڑکا تھا۔ کوئی سترہ اٹھارہ برس کا۔ سب سے پہلی غلچی خاں صاحب نے یہ کی کہ پہلی تکبیر پر
187
رکوع میں چلے گئے۔ سب ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور خان صاحب رکوع میں ہیں۔ کن انکھیوں سے سب دیکھ رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں۔ دوسری تکبیر خاں صاحب کھڑے ہوئے اور سجدے میں جانا چاہتے تھے کہ رشید نے بازو پکڑ کر روک لیا۔ بارے کچھ سمجھ میں آ گیا اور کھڑے رہے۔ تیسری تکبیر پر پھر سجدے میں چلے۔ راشد نے سہارا دے کر ابھار دیا۔ اب قرات شروع ہوئی خاں صاحب دَم لیے لگے۔ اب پھر تکبیر ہوئی۔ خاں صاحب نے اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیے اور یہ خیال کر کے مسکرائے کہ اب کے ہمارے دوستوں نے غلطی کی کہ رکوع میں چلے گئے۔ رشید نے رکوع ہی میں ہاتھ بڑھا کر خاں صاحب کو جھکا دیا۔ اب سب لوگ ربّنا لک الحمد کی آواز کے بعد سجدے میں گئے، پھر اُٹھے مگر خاں صاحب سجدے ہی میں رہے لیکن زور زور سے کھنکارے جا رہے تھے۔ ان چار دوستوں کا مارے ہنسی کے برا حال تھا۔ نماز سب کی غائب ہو گئی مگر یہ سمجھ نہ سکے کہ خاں صاحب ایک دم کھنکارے کیوں جا رہے ہیں۔ رشید قریب تھا وہ کن انکھیوں سے دیکھ رہا تھا کہ جو کرخنداری ٹایپ لڑکا خاں صاحب کے برابر میں تھا اس نے سجدے میں خاںصاحب کی لمبی ڈاڑھی مٹھی میں خوب دبا رکھی تھی۔ خاں صاحب زور لگا رہے تھے، کھنکار رہے تھے، ہاتھ سے چھڑا رہے تھے مگر وہ اللہ کا بندہ کب چھوڑنے والا تھا۔ نیّت توڑ نہیں سکتے تھے۔ اتنا ضرور جانتے تھے کہ میں نے نیّت توڑ دی تو سب کی نماز گئی۔ بئے چارے سجدے میں بے بس پڑے تھے
188
یہاں تک کہ سب لوگ کھڑے بھی ہو گئے۔ آخر کسی نہ کسی طرح سے یا تو انہوں نے اس ظالم کے پنجے سے اپنی ڈاڑھی کو آزاد کر لیا یا اس نے خود ہی چھوڑ دی۔
دوسری رکعت میں پہلے قرأت ہوتی ہے پھر تین تکبیریں۔ خاں صاحب قرأت کے بعد کی تکبیر پر پھر چلے رکوع میں۔ رشید نے اونچا کر دیا۔ دوسری تکبیر پر پھر چلے۔ رشید نے ہاتھ سے سہارا دے کر کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد وہ ذرا ہوشیار ہو گئے اور دائیں بائیں دیکھ بھال کر کام کرنے لگے۔ اب جو رکوع کے بعد سجدے میں گئے تو رشید تو ان کے پاس ہی تھا، سب کچھ دیکھ چکا تھا مگر اور تینوں دوست بھی سمجھ چکے تھے کہ اس غریب پر کچھ افتاد پڑ رہی ہے، چنانچہ اب کے انہوں نے بھی ذرا غور سے کن انکھیوں سے دیکھنا شروع کیا کہ آخر یہ ہے کیا مصیبت؟ اب کے خاں صاحب نے یہ احتیاط کی کہ سجدے میں جانے سے پہلے اُلٹے ہاتھ سے اپنی ساری ڈاڑھی کو سمیٹ کر بائیں جانب کر دیا کیونکہ وہ لڑکا دائیں جانب تھا۔ اب چاروں دوست یہ دیکھ دیکھ کر ہنسی کے مارے بے قابو ہوئے جا رہے تھے کہ وہ لڑکا چُپکے چُپکے ہاتھ لا کر ان کی ڈاڑھی کو ڈھونڈتا ہے کہ کہاں چلی گئی۔ اور خاں صاحب اس کا ہاتھ اپنے سیدھے ہاتھ سے جھٹک کر زور سے کھنکارتے ہیں۔ یہی عمل دونوں سجدوں میں ہوتا رہا۔ اس کے بعد بیٹھے، اتحيات، تشہد اور درود شریف کے بعد سلام پھیرتے ہی بپھرے ہوئے شیر کی مانند خاں صاحب اٹھے اور گرجنا شروع کیا۔
189
خاں صاحب: کہاں ہے وہ بدمعاش۔ کہاں ہے (برابر والے سے) کہاں ہے جی وہ لڑکا۔ بد ذات، کمینہ، پاجی۔
برابر والا: اجی حضت کیا ہوا؟ آپ مارے غصّے کے آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں۔
خاں صاحب: وہ ضرور تمہارا کوئی رشتہ دار تھا۔ بتاؤ کہاں ہے وہ؟
برابر والا: ہمارا وہ کوئی نہیں تھا۔ آپ ہی کے ساتھ آیا ہو گا۔
خاں صاحب: گدھے کا بچّہ، سؤر، ملعون۔
رشید: خاں صاحب کچھ بتایئے تو سہی آخر ہوا کیا؟
خاں صاحب: بڑا اُلّو کا پٹھّا تھا۔
حامد: خاں صاحب! یہ تو بہت بُری بات ہے کہ آپ بھری عید گاہ میں ایسے ناشایستہ الفاظ منہ سے نکال رہے ہیں۔
خاں صاحب: نا شائستہ؟ ارے مجھے وہ مردود مل جائے تو اس کی بوٹیاں چبا ڈالوں۔
محمود: آخر بتایئے تو ہوا کیا؟
خاں صاحب: حرامزادے نے سجدے میں ڈاڑھی پکڑ لی میری۔
مسوود: تو آپ نے چھڑا کیوں نہ لی؟
خاں صاحب: میں برابر کھنکارے تو جا رہا تھا اور ڈاڑھی چھڑانے کی بہتیری کوشش کر رہا تھا مگر اس کمبخت نے بھر مٹھی پکڑ رکھی تھی۔ کہاں گیا یہ بدمعاش؟
190
اس کے بعد خاں صاحب کی طبیعت کچھ ایسی مکدّر ہوئی کی اٹھ کھڑے ہوئے نہ دعا مانگی، نہ خطبہ ختم ہونے کا انتظار کیا۔ یہ چاروں دوست بھی ان کے ساتھ ہی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد یہ سب لوگ طرح طرح سے کوشش کرنے لگے کہ کسی طرح خاں صاحب کا دماغ درست ہو جائے۔ جب خاں صاحب گم سم ہی رہے تو رشید نے کہا۔
”خاں صاحب! چلئے۔ میری گو راؤنڈ (Merry go round) کی سیر کریں۔
خاں صاحب: مر گونڈ کس جانور کا نام ہے؟
مسعود: اجی وہ انگریزی ہنڈولا ہوتا ہے نا؟ ہاں خاں صاحب ضرور چلئے۔ بڑا لطف آتا ہے۔
حامد: ضاں صاحب! چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
خاں صاحب: اچھا ایسی چیز ہے؟
رشید: اجی یہ ایک چیز کیا۔ انگریزوں کی ہر ایک چیز اچھی ہوتی ہے۔ واللہ یہ ہنڈولا تو عجیب چیز بنائی ہے۔ گھوڑے پر تنے بیٹھے ہیں اور گھوڑا ہے کہ ہوا سے باتیں کر رہا ہے۔
خاں صاحب: ہاں! چلو تو چلیں۔
یہ سب مل کر جاتے ہیں۔ انگریزی ہنڈولے کو دیکھتے ہیں تو خاں صاحب بھی شگفتہ ہو جاتے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے بھی گھوڑوں پر تنے بیٹھے ہیں، ہنس رہے ہیں۔ غل مچا رہے ہیں۔ انہیں دیکھ دیکھ کر خان صاحب بھی خوش ہو رہے ہیں۔ دو منٹ کے
191
کے بعد ہنڈولا رُک گیا۔ حامد نے چپکے سے ہنڈولے والے کو ٹکٹ سے کچھ زائد پیسے دے کر طے کر لیا تھا کہ پانچ سیٹیں برابر برابر کی ہمیں دے دینا۔ چنانچہ اب یہ پانچوں بیٹھ گئے۔ خاں صاحب نے ایک اعلیٰ درجے کا گھوڑا ہتھیا لیا اور اس پر ایسے تن کر بیٹھ گئے گویا بڑے شہسوار ہیں۔ بار بار ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے۔ کبھی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہیں۔ تماشائی دیکھ چکے تھے کہ یہ نُقلِ محفل ہیں۔ نِرے بوڑم۔ حامد اور رشید وغیرہ کے بار بار خاں صاحب خاں صاحب کہنے سے سمجھ گئے تھے کہ ان کو بنایا جا رہا ہے۔ چنانچہ انہیں بھی ایک کھلونا ہاتھ آ گیا۔ کوئی کہتا ہے ”خاں صاحب ذرا جمے ہوئے بیٹھئے گھوڑا دولتی مارتا ہے۔“ تو خاں صاحب گھبرا کر پیچھے دیکھنے لگتے ہیں اور گھوڑے کی گردن سے چمٹ جاتے ہیں۔ کوئی ناک پکڑ کر کہتا ہے ”اوں ہوں۔ خاں صاحب، آپ کے گھوڑے نے لید کر دیا۔“ تو خان صاحب اپنا سفید براق رومال جیب میں سے نکال کر اپنی ناک سے لگا لیتے ہیں۔ غرض اب گھوڑے چلے۔ خاں صاحب تنے ہوئے بیٹھے ہیں۔ سر اور سینہ کو اندازِ شہسواری کے ساتھ جنبش دے رہے ہیں۔ اے لیجئے گھوڑے تیز ہو گئے۔ اب خان صاحب نے پہلے تو ہولے ہولے ”اب ارے، ارے۔ ارے، رے“ کہا پھر انہیں چکر آنے لگے تو لگے چیخنے ”ارے روکو۔ ارے تھام۔ ارے۔ ابے۔ ابے او بھائی۔ او میاں۔ ارے تھام تھام۔“ تماشائی بن رہے ہیں۔ قہقہے لگا رہے ہیں۔ لڑکے اور بچے تالیاں بجا رہے ہیں اور خاں صاحب ہیں کہ ایک دم چیختے چلاتے جا رہے ہیں۔ خدا خدا کر کے ہنڈولا تھما۔ خاں صاحب کو بے انتہا چکر آ رہے تھے۔ اب اترتے جو ہیں
192
تو دھڑام سے گرے۔ حامد اور مسعود نے بغل میں ہاتھ دے کر کھڑا کیا تو لڑکھڑا رہے ہیں۔ چلا نہیں جاتا۔ دلّی والے تو ذرا سی بات میں بھیڑ لگا دیتے ہیں یہ تو اچھا خاصا تماشہ تھا۔ ٹھٹ کا ٹھٹ لگ گیا۔ کوئی کہتا ”دودھ پھٹکڑی پلاؤ۔ گجّی چوٹ آئی ہے۔“ کوئی صلاح دیتا ”دائی کو دکھاؤ۔ ناف جاتی رہی ہے۔“ کہیں سے آواز آئی۔ ”خاں صاحب! وصیّت فرما دیجئے۔ ہارٹ فیل ہونے کو ہے۔“ بارے وہیں برف والا ہنڈا لئے بیٹھا تھا۔ حامد نے لپک کر ایک بڑی قلفی (قفلی) کھلوائی اور اپنے ہاتھ سے چمچے بھر بھر کے خاں صاحب کو کھلانی شروع کی۔ اب خاں صاحب کی آنکھیں کھلیں۔ جان میں جان آئی۔ وہاں سے کبابی کی دکان پر گئے اور مچھلی کے کباب خاں صاحب کو کھلائے۔ خاں صاحب مچھلی اور خاص کر مچھلی کے کبابوں کے عاشق زار ہیں۔ اب خاں صاحب پھر پہلے کی طرح شگفتہ ہو گئے۔ ایک یہ بات ضرور پیدا ہو گئی کہ لڑکوں اور بچوں کا جم غفیر ان سب کے ساتھ ہو لیا۔ یہ سب چلے آ رہے تھے کہ آواز آئی۔ ”پرانا چنڈول۔“ یہ سنتے ہی خاں صاحب بِدکے اور کہنے لگے۔ ”یہ کون چنڈول کا بچہ بولا۔“ ہوا درحقیقت یہ تھا کہ لڑکے آپس میں ہنسی مذاق کرتے جا رہے تھے۔ ایک نے دوسرے کو پرانا چنڈول کہہ دیا۔ یہاں تو پانی مر رہا تھا۔ ہر بات خاں صاحب ہی پر چپکی جا رہی تھی۔ خاں صاحب سمجھے کہ مجھ پر آوازہ کسا ہے۔ چنانچہ بپھر گئے اور لڑکوں کے سر ہو گئے۔ لڑکوں کو ایک اور بات ہاتھ آئی۔ اب ادھر سے آواز آتی ہے ”پرانا چنڈول۔“ خان صاحب لپکتے ہیں، ڈانٹے ہیں، دھمکاتے ہیں۔ پیچھے دوڑتے ہیں تو دوسری طرف سے بھی یہی آواز آتی ہے۔ لڑکوں کی قوم تو وہ ہے کہ اس سے شیطان نے
193
بھی پناہ مانگی تھی۔ اچھے بھلے چنگے آدمی کو یہ دم بھر میں پاگل بنا دیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود کہ حامد، مسعود، رشید، محمود سب ہی نے لڑکوں کو منع کیا، ڈانٹا، خاں صاحب کو سمجھایا چمکارا، پچکارا مگر توبہ کیجئے۔ لڑکت پھر لڑکے ہی ہوتے ہیں اور لڑکے بھی دلّی کے۔ دس سے بیس اور بیس سے پچاس ہوئے۔ تالیاں پِٹ رہی ہیں، کنکر پتھر اُچھل رہے ہیں۔ قہقہے لگ رہے ہیں اور خاں صاحب ہیں کہ سچ مچ کے پاگل بنے ہوئے ہیں۔ جب یہ چاروں دوست سب تدبیریں کر کے تھک گئے تو ایک تانگہ پکڑا اور اس میں خاں صاحب کو بٹھا یہ جا وہ جا۔ محمود رہ گیا تھا کیونکہ تانگے میں جار ہی سواریاں بیٹھتی ہیں۔ وہ ٹریم میں آ گیا۔ خاں صاحب سارے رستے بکتے جھکتے رہے۔ مزاج کا پارہ تیز سے تیز تر ہوتا گیا۔ وہ تو خدا بھلا کرے حامد کا کہ اپنے پاس سے دو چار روپے کی کچوریاں اور مٹھائی لے کر دونوں ٹوکریاں خاں صاحب کے گھر میں دے دیا کہ خان صاحب کے بیوی بچوں کی تو عید ہو جائے۔
یہ تھی ہمارے خاں صاحب کی عید
194
کرامت شاہ
195
یہ کہانی میں نے اپنے بچپن میں بڑی بوڑھیوں سے بار ہا سنی تھی اور جب میرے بال بچے ہوئے تو انہوں نے بیسیوں مرتبہ اپنے بڑوں سے سنی۔ میں نے اتنا کیا ہے کہ اسے اپنی طرز پر افسانوی رنگ دے دیا ہے۔ یہ کہانی کب سے چلی اور کہاں سے چلی، اس کا کھوج لگانا محال ہے۔ آپ اسے پڑھ کر کہیں گے کہ مجذوب کی بڑ ہے اور دلّی والے تو یہی سمجھیں گے کہ شاہ بڑے کی گپ ہے مگر میں یہ کہتا ہوں کہ آپ ذرا سی دیر کے لئے مان لیں کہ اللہ پاک قادر مطلق سب کچھ کر سکتا ہے تو آپ کا کیا ہرج ہو جائے اور اگر سمجھیں کہ
؎ بہ ناداں آ نچنال روزی رساند
کہ دانا اندراں حیراں بماند
تو آپ کا کیا بگڑ جائے۔ ظریف دہلوی
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب پہاڑ گنج ایک اُجاڑ علاقہ تھا جہاں سوائے چند گھپریلوں اور چھپروں والے مکانوں اور جھونپڑوں کے کچھ نہ تھا۔ انہی جھونپڑیوں
196
میں سے ایک میں دو میاں بیوی رہتے تھے۔ میاں کوئی پینتیس چھتیس برس کے۔ بیوی کچھ اوپر پچیس کی۔ دونوں ایک دوسرے کے عاشق زار، میاں اوّل درجے کے بیوقوف اور سادہ لوح اور بیوی بڑی سمجھدار اور عقلمند۔ یوں سمجھئے کہ میاں کے حصّے کی عقل بھی بیوی کو مل گئی تھی۔ میاں یوں تو بیوی کے بڑے عاشق زار اور گرویدہ تھے مگر محنت مزدوری کے نام سے کانپتے تھے۔ بیوی بے چاری گوٹا بُنتی، کرتے ٹوپیاں سیتی اور یوں لشم پشم کچھ اس طرح گزر ہو رہی تھی کہ کبھی سالن پک گیا تو کبھی چٹنی روٹی کھا کر دونوں میاں بیوی پڑ رہے۔ ایک دن بیوی نے میاں سے کہا۔
بیوی: اے دیکھنا میں کہتی ہوں یوں ہاتھ پاؤں کو پنشن دے کر کب تک گھر میں پڑے رہو گے۔ انہیں کچھ ہلاؤ جلاؤ۔ ان سے کام لو، نہیں تو ان میں زنگ لگ جائے گا۔
میاں: تم تو یوں ہی کہا کرتی ہو۔ آخر میں کیا کروں۔ مجھے آتا ہی کیا ہے؟
بیوی: کچھ ہاتھ اور پاؤں ہلانے ہی سے آتا ہے، گھر میں پڑے پڑے کیا خاک آئے گا۔
میاں: بیوی تم تو یوں ہی خواہ مخواہ سر ہو جاتی ہو۔ لڑنے کو جی چاہتا ہے اور نہیں تو۔
بیوی: دیکھو پھر بگڑے۔ میں نے کہہ دیا ہے، ہاں!
197
میاں: نہیں ٹڈّی (یہ اپنی بیوی کو پیار سے ٹڈّی کہا کرتے تھے) میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ جو کم بخت کو کوئی کام آتا ہی کب ہے جو میں کروں۔ پڑھا میں نہیں۔ لکھا میں نہیں۔ کسی کام جوگا میں نہیں۔ کماؤں تو کیا کر کے؟
بیوی: تم آمادہ تو ہو۔ کام تو میں سو بتا کے رکھ دوں۔
میاں: اچھا تو لو بتاؤ۔ اب ہم بھی کما کے دکھائیں گے۔
بیوی: دیکھو وعدہ کرو کہ جو کچھ میں بتاتی جاؤں گی کان دبا کر کرتے جاؤ گے۔
میاں: اچھا ٹڈّی اچھا۔ بتاؤ
بیوی: بتاؤں گی۔ پہلے تم سر اور ڈاڑھی کے بال خوب بڑھا لو۔
میاں: یہ کیوں؟
بیوی: دیکھو پھر تم بولے۔ تم وعدہ کر چکے ہو۔ ہاں۔ بس جو جو میں کہے جاؤں چُپ چاپ کئے جاؤ اور اللہ میاں کی قدرت کا تماشا دیکھو۔
لو صاحب! ایک ہی مہینے میں بیوی نے اپنے میاں کو پیر بنا دیا۔ لمبی لمبی زلفیں۔ تیل مین چک بچک، لمبی داڑھی، لمبا سا کرتا۔ نیلا تہمد۔ ایک بغل میں سبر رنگ کا جزدان جس میں ایک اینٹ رکھی ہوئی۔ دوسری میں اجلا بوریا۔ بہ ایں ساز و سامان کرامت شاہ۔۔۔ یہ نام بھی بیوی ہی نے رکھ دیا۔ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر جا براجے۔
سہہ پہر کا وقت ہے۔ لوگ اہلے گہلے اِدھر سے اُدھر پھر رہے ہیں۔
198
کوئی دہی بڑے کھا رہا ہے، کوئی نئی کے کباب اڑا رہا ہے۔ کوئی مچھلی کے کباب چٹ کر رہا ہے۔ غرض ایک بہار آ رہی ہے۔ آج جو لوگوں نے ایک نئے آدمی کو بہ ایں ریز و فش سیڑھیوں پر بوریا بچھائے بیٹھے دیکھا تو بڑا اچنبھا ہوا۔ کسی نے کہا ”یہ شاہ صاحب تو بڑے زوروں کے ہیں۔“ کسی نے کہا ”یہ دلّی ہی کا جگرا ہے کہ جو آتا ہے لوٹ جاتا ہے اور یہ بے چاری اف نہیں کرتی۔“ کوئی صرف ”بگلا بھگت“ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ یہ بے چارے سب کی بولیاں ٹھولیاں سن رہے تھے اور دل ہی دل میں اپنی ٹڈّی کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ کس عذاب میں پھنسا دیا۔ اتنے میں ذرا جھٹپٹا سا ہو گیا۔ ایک گھوسی کی بھینس کہیں گلّے میں سے غائب ہو گئی۔ وہ بے چارہ مصیبت کا مارا پیٹ پکڑے اِدھر بھی آ نکلا۔ شاہ صاحب کو دیکھا تو جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ملا۔ پاس آ۔ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ شاہ صاحب پہلے ہی جلے بھُنے بیٹھے تھے۔ چیخ کر بولے ”کیا ہے بے؟“
گھوسی نے سوچا یہ بھی پہنچے ہوئے آدمیوں کی ادا ہوتی ہے اور گڑگڑا کر بس اتنا ہی کہنے پایا تھا کہ ”میری بھینس۔“ کہ شاہ صاحب نے ڈانٹ کر کہا۔ ”بھاگ یہاں سے۔ جا گھر جا۔“ گھوسہ سمجھا کہ کام بن گیا۔ سیدھا گھر کی طرف بھاگا۔ اُدھر اللہ کی کار سازی دیکھئے کہ بھینس گلے سے الگ ہو کر دوسرے راستے سے گھر پہنچ چکی تھی۔ گھوسی نے بھینس کو دیکھا تو جان میں جان آئی۔ سستے سمے تھے۔ ایک تھان لٹھے کا، ایک ململ کا، جلدی سے لیا۔ دو سیر مٹھائی لی اور لپک کر کرامت شاہ
199
کی خدمت میں پہنچا۔ انہوں نے جو اسے یوں لدا پھندا آتے ہوئے دیکھا تو آنکھیں بند کر کے جھومنے لگے۔ گھوسی نے آتے ہی ساری چیزیں حضور کے قدموں میں رکھ کر کہا۔ ”حضور آپ کی دعا سے بھینس مل گئی اور پانچ روپے ادب سے پیش کیے۔ شاہ صاحب نے روپے جیب میں ڈالے، مٹھائی کی ٹوکری بغل میں دبائى، لٹھے اور ململ کے تھان کندھوں پر ڈالے اور بوریا اور جزدان اٹھا سیدھے گھر کو ہو لئے۔ اس بوجھ سے بے چارے ہلکان ہو گئے۔ ہانپتے کانپتے گھر پہنچے اور لگے گلی ہی میں سے چیخنے ”اری ٹڈّی! او ٹڈّی! کنڈی کھول، کنڈی کھول۔“ بیوی بے اوسان ہو کر دوڑی کہ الہیٰ خیر! میرے میاں پر کیا مصیبت آئی۔ کہیں گاڑی گھوڑے کی چھپیٹ میں تو نہیں آ گئے۔ دروازہ کھولتے ہی میاں برس پڑے۔
میاں: دیکھو ٹڈی میں اسی لئے تو گھر سے نکلتا نہیں تھا۔ تم نے میرا کیا حال کر دیا۔ پسینے پسینے ہو گیا۔
بیوی نے جو اتنی ساری چیزیں دیکھیں تو نہال ہو گئیں۔ جھٹ میاں سے لے اندر گئیں اور میاں کی خوشامد کرنے لگیں۔
بیوی: اے ہے کیا حال ہو گیا دشمنوں کا۔ بے طرح ہانپ رہے ہو۔
میاں: تم نے پہلے ہی کیا کم لاد دیا تھا کہ اس ناہنجار گھوسی نے اور لا کر بیل ہی بنا دیا۔
بیوی: اے ہے کسی بے چارے کو کیوں برا بھلا کہہ رہے ہو۔ اس نے تمہارا
200
کیا بگاڑا؟
میاں: کیا بگاڑا؟ تم اتنا بوجھ لے کر جامع مسجد سے یہاں تک آؤ تو معلوم ہو۔
بیوی: دیکھنا تم نے اب تک یہ بتایا ہی نہیں کہ یہ چیزیں دیں کس نے؟
میاں: ارے اُسی نے دیں۔ اسی گھوسی کے بچے نے جس کی بھینس کھو گئی تھی۔
بیوی: پھر مل گئی، کیسے ملی؟
میاں: اب مجھے کیا خبر کیسے ملی۔ مل ہی گئی۔ میں نے تو اسے ڈانٹ دیا تھا کہ بھاف یہاں سے۔ گھر جا۔ وہ یہ ساری چیزیں لے آیا اور کہنے لگا کہ بھینس اپنے آپ گھر پہنچ گئی۔
بیوی: اے اللہ! تیرے قربان۔ تیری شان رزّاقی کے صدقے۔
میاں: دیکھو ٹڈّی یہ پانچ روپے بھی اسی نے دیے ہیں۔ بس اب مہینہ بھر سے زیادہ کا خرچ آ گیا۔ اب ہم نہیں نکلنے کے۔
بیوی: ہاں ہاں اب نہ جانا۔ نہ جانا۔
غرض بیوی نے منؔت خوشامد کر کے میاں کو راضی کر لیا۔ اس سے تو اطمیان ہوا کہ اب کرتے سی سی کر اور ٹوپیاں کاڑھ کاڑھ کر آنکھوں کا تیل نہیں نکالنا پڑے گا۔ کیونکہ سستا سما تھا۔ یہ پانچ دوپے میہنے دو مہینے کو کافی تھے۔ ادھر بیوی خوش کہ کھانے کو اللہ نے دے دیا۔ ادھر میاں خوش کہ چلو جان چھوٹی۔
کوئی چار پانچ دن کے بعد بیوی نے ہلکے سُروں میں پھر کہا؟ ”اے دیکھنا
 

مومن فرحین

لائبریرین
201
آج پھر ذرا ہو آؤ دو گھڑی کی سیر ہی ہو جائے گی ۔ میاں ۔ دیکھو ٹڈی ! ہم نے کہہ دیا ہے بس اب نہیں جائینگے ۔
بیوی ۔ اب اتنے دنوں آرام تو کر لیا۔
میاں : بس ایک دفعہ کہہ دیا ہم تو جانے ہی کے نہیں ۔
بیوی: ۔ ہماری بات نہیں مانتے ؟ اچھا جاؤ کٹی ۔ میاں : ٹڈی تم تو اتنی سی بات میں بگڑ جاتی ہو ہم کہتے ہیں ابھی نہیں جانے کے ۔
بیوی: اچھا دو چار دن اور آرام کر لو ، پھر ذرا سی دیر کو ہو آنا، بس اب انکار نہ کرنا ، نہیں تو پھر ، ہاں ۔
خیر صاحب ۔ خیر صاحب ۔ چار پانچ دن ہنسی خوشی اطمینان سے کٹے ۔ ایک دن صبح کو بیوی نے بچوں سے گوشت ، مساله ، دودھ ، پستے ، ورق ، کیوڑہ وغیرہ منگوا یا ( انہوں نے محلے کے بچوں کو بٹھا لیا تھا ۔ سیپارے قاعدے پڑھایا کرتی تھیں ،) قورمہ ، کھیر ، بادشاه پسند ماش کی دال اور روے میدے کے پرت دار پراٹھ پکائے ۔ دوپہر کو دسترخوان پر کھانے چنے تو میاں حیران ہوکر بولے ۔
میاں : ٹڈی ، یہ آج کیا کیا پکاڈالا تم نے ؟
بیوی: ۔ آج ہم نے اپنے میاں کی دعوت کی ہے ۔
میاں :- اوہو ! یہ پرا ٹھے تو بڑے زوروں کے ہیں ۔ ٹڈی تم نے تو دلی کے

202


بھٹیاروں کو بھی مات کر دیا ۔
بیوی : ہم نے ساری چیزیں اپنے میاں کے لئے دل سے پکائی ہیں ۔
میاں : ٹڈی تم نے تو ہماری دنیا کو جنت بنا دیا ہے ۔ بیوی : اچھا تم کھا نا تو کھاؤ ۔ سالن میں نمک تو ٹھیک ہے نا ؟
میاں ۔ بالکل ٹھیک ہے۔ جیتی رہو ۔ دل خوش کردیا ۔ میاں کھانا کھا چکے ۔ اب بیوی ہیں کہ آگے پیچھے آگے پیچھے پھر رہی ہیں ۔ کبھی پان بنا کے دیتی ہیں کبھی حقہ بھر کر پلاتی ہیں ۔ اسی طرح تین بج گئے تو بیوی نے کہا ۔
بیوی ۔ لو آج پھر ذرا جامع مسجد کی سیر کر آؤ ۔
میاں: دیکھو ٹڈی تم نے پھر وہی باتیں کرنی شروع کیں ۔
بیوی: ہمارے میاں نہیں ۔ دیکھو اتنے دنوں تک آرام لے چکے ۔ بس اب انکار نہ کرو ۔ اٹھو ۔ ( ٹھنک کر) اللہ! ہم کس طرح کہہ رہے ہیں چلو اٹھو ۔ میاں بادل ناخواستہ آمادہ ہوئے ۔ بیوی نے لپک کرسر میں تیل ڈالا ، کنگھی گی ، اور ذرا سی دیر میں پیر کرامت شاہ بنا کر روانہ کر دیا ۔ یہ پھر جا کر جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بوریا بچھاڈٹ گئے ۔
تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ ایک بوڑھا سنار روتا پیٹتا آیا اور کہنے لگا " دہائی ہے شاہ جی کی ۔ میں لٹ گیا تباہ ہو گیا

203

شاہ جی آنکھیں بند کئے بیٹھے تھے ۔ اچھے اچھے کھانے جو دوپہر کو کھائے تھے دماغ میں عجیب کیف و سرور پیدا کر رہے تھے ۔ ماش کی بادشاہ پسند دال دماغ میں بسی ہوئی تھی ۔ فورا بول اٹھے ۔
" ماش کی دال کھا پیٹ بھر کے ماش کی دال ۔ روٹی بھی ماش کی واہ واواہ ۔جا بھاگ "
بیچاره سنار بھاگم بھاگ گھر گیا اور جلدی جلدی کر کے ماش کی روٹی اور دال خوب کھائی ۔ بات اصل میں یہ ہوئی کہ کسی امیر کی سونے کی انگوٹھی بننے آئی تھی جس میں ایک قیمتی ہیرا جڑنا تھا ۔ سنار نگینہ جڑ رہا تھا کہ وہ اچٹ کر نہ جانے کہاں غائب ہوگیا ، سنار نے بہتیرا ڈھونڈا ۔ کہیں نہ ملا غریب کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔ بے اوسان ہو گیا ۔ الہی اب کیا ہو گا ۔ ایسا قیمتی ہیرا میں کہاں سے لا کر دوں گا ۔ میرے پاس تو اتنی جمع پونجی بھی نہیں ۔ اگلے ہفتہ بھینس والا معاملہ شہر بھر میں مشہور ہو ہی چکا تھا ۔ یہ بھی پیٹ پکڑے کر امت شاہ کے پاس پہنچا ۔ دن بھر کا بھو کا پیا سا تھا ۔ اور اب جو ماش کی دال اور ماش کی روٹی کھائی تو ذراہی سی دیر میں پیٹ میں قراقر شروع ہو گیا ۔ دکان پر آ گیا ۔ پریشان ہے ، ہیرے کو ادھرادھر ڈھونڈھ رہا ہے ۔ پاخانے کی حاجت ہوتی ہے چلا جاتا ہے ، پھر آ کرڈھونڈھنے لگتا ہے ، تھوڑی دیر میں مارے دستوں کے یہ حال ہوا کہ دکان ہی میں لمبا لیٹ گیا اور سمجھا کہ وقت آ گیا ۔


204


لیٹتے ہی جو چھت پر نگاہ گئی تو دیکھتا کیا ہے کہ کڑی کی دراڑ میں ہیرا چمک رہا ہے ۔ جھٹ اٹھ بیٹھا ۔ کیسے دست اور کہاں کا مروڑ اور درد لپک کر ہیرا اتارا اور احتیا ط سے صندوقچے میں بند کیا اور دوتین سیر مٹھائی ، کچھ کپڑا اور بیس رو پے لیکر شاہ جی کے پاس پہنچا اور لگا رو رو کے دعائیں دینے۔ لوگ جمع ہو گئے اور بھیڑ لگ گئی ۔ جو سنتا کرامت شاہ کی کرامت کا قائل ہو جاتا ۔
غرض آج پھر کرامت شاہ لدے پھندے گھر پہنچے۔ چیخ کر بیوی کو آواز دی ۔ ان کے تو میاں کی آواز پرکان ہی لگے ہوئے تھے ۔ سمجھیں کہ آج پھر اللہ میاں نے رحمت کی ۔ دوڑی دوڑی گئیں ، کنڈی کھولی اور میاں کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ میاں نے گھر میں قدم رکھتے ہی بکنا جھکنا شروع کیا ۔
میاں: آپ مزے سے بیٹھی رہتی ہیں میں ہی رہ گیا ہوں لدے بیل بننے کو ۔ اور یہ نا معقول مطلق نہیں سمجھتے کہ میں اتنا بوجھ لادکر لے کیسے جاؤں گا ۔ بس لادنے سے مطلب ہے ۔
بیوی ۔ اے تم بیٹھو توسہی ۔ لوحقہ پیو میں نے تمہارے لئے خمیرہ تمباکو منگوایا ہے اوراینٹ کا توا رکھا ہے ۔ دیکھو کیسی مہک آ رہی ہے ۔
غرض بیوی نے یوں چمکار پچکار کر میاں کے حواس درست کئے اور پھر میاں سے آج کی کامیابی کا قصہ سنا ۔ میاں بیان کر چکے تو کہنے لگے ۔
میاں : بس ٹڈی اب میں تمہارا کہنا نہیں مانوں گا ۔ اللہ
نے بہت دے دیا

205


اب چھ مہینے تک کہیں نہ جاؤنگا ۔
بیوی : ہاں ہاں اللہ کا شکر ہے ، اب کیوں جانے لگے ۔ جب خدا دے کھانے کو تو بلا جانے کمانے کو ۔
ایک ہفتہ تک تو بیوی چپکی رہیں ۔ اس کے بعد ذرا دھیمے سروں میں میاں کو آمادہ کرتی رہیں ۔ اور ابھی پندرہ دن نہیں گزرے تھے کہ ٹھنڈے ٹھنڈے سروں میں کہنے لگیں ۔
بیوی : لوگوں کے گھروں میں دو دو نوکر ہیں ۔اور دری چاندنیاں فرش فروش سب ہی کچھ ہے ۔ ایک میں ہوں کہ صبح سے شام تک گھر کے کام دھندے میں لگی رہتی ہوں ۔ اللہ جانے ہڈی ہڈی دکھنے لگتی ہے تھک کے چورا ہو جاتی ہوں ، ہمارے میاں یوں تو اتنی محبت کرتے ہیں جان فدا کرتے ہیں ۔ مگر یہ نہیں کہ کوئی ماما چھوکری ہی رکھدیں ۔
میاں :- اور یہ جو محلے کے بچے پڑھاتی ہو ۔ یہ کام نہیں کرتے کیا ؟
بیوی :- اے خاک ! یہ کیا کام کریں گے ، پکانے کے یہ نہیں ، ریندھنے کے یہ نہیں ، برتن یہ نہیں مانجھ سکتے ۔ ہاں سودا سلف منگوالو تو اس میں بھی اکثر پیسے پھینک ہی آتے ہیں ۔
میاں :- تو پھر میں کیا علاج کروں ؟
بیوی ۔ اچھا تمہارا جی نہیں چاہتا کہ نوکر چاکر ہوں ۔ گھوڑا گاڑی میں نکلا کرو ؟
 

مومن فرحین

لائبریرین
206

میاں ۔ چا ہتا کیوں نہیں ، بلکہ میرا تو یہ جی چا ہتا ہے کہ آپ چاہے جن حالوں میں رہوں تمہیں دلہن بنائے رکھوں ۔
بیوی :- الہی تیرا کیو نکر شکر ادا کروں اپنی رحمت سے تو نے کیسا اچھا میاں دیاہے جس نے آج تک میری کوئی بات نہیں ٹالی ۔
میاں :۔ اور نہ کبھی ٹا لوں گا انشاء اللہ
بیوی : ۔ دل سے کہہ رہے ہو ؟
میاں:- اور نہیں تو کیا ۔
بیوی :۔ اچھا تو پھر ذرا سی دیر کو جامع مسجد ہوآؤ۔
میاں :- (سرکھجا کے) دیکھو ٹڈی ! تم نے پھر وہی باتیں شروع کیں ۔
بیوی:- تمہیں اختیار ہے نہ جاو ۔ میں کوئی زبردستی تھوڑے ہی کرتی ہوں ۔ تم ہی کہتے ہو کہ تمہاری بات نہیں ٹالوں گا ۔
میاں ۔ ٹڈی تم تو خواہ مخواہ پریشان کرتی ہو ، اللہ میاں نے چھ مہینے کا خرچ تو دے ہی دیا مجھے دو مہینے تو آرام کرلینے دو ۔
بیوی:- یہ بھی کوئی خرچ کہلاتا ہے کہ کھا لیا ، پی لیا ، تن ڈھک لیا بس ۔ ٹوٹے سے جھونپڑے میں رہتے ہیں ۔ گھر میں دو چارپائیوں کے سوا تیسری نہیں ۔ اور وہ بھی موئی جھلنگا ۔ اپنا کوئی مکان ہو ڈھنگ کا۔ فرش فروش ہو ، نوکر چاکر ہوں ، گہنا پاتا ہو ، کپڑے لتے درست ہوں ۔


207

میاں :۔ ٹڈی تمہارے دل میں تو لالچ آگیا ۔ یہ تمہارا لالچ مجھے کسی بلا میں نہ پھنسا دے ۔ جو کچھ اللہ نے دیا ہے اسے صبر شکر سے کھا ؤ .
بیوی : ۔ آخر اللہ اوروں کو بھی تو دیتا ہے ۔ بس اب حجت نہ کرو ۔ جاؤ تم ہو آو دیکھو تم تو بڑے اچھے میاں ہو ، ہماری بات کبھی نہیں ٹالتے ۔
غرض بیوی نے کہہ سن کر آج پھر آمادہ کر دیا اور کرامت شاہ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر جا بیٹھے تھوڑی دیر گذری تھی کہ چار سپاہی وردی پہنے ہوئے آتے دکھائی دیے پیر جی کا ماتھا ٹھنکا آنکھیں بند کر کے یاحی یا قیوم پڑھنے لگے سپاہی ان ہی کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے ۔ پیر جی نے آنکھون کی دراڑوں میں سے دیکھا تو سہم گئے اور لگے زور زور سے نعرے لگانے . یاحق یا حق
ایک سپاہی بولا ۔
" پیرجی صاحب ! اجی شاہ صاحب "
دوسرا سپاہی :۔ اجی شاہ صاحب چلئے ۔
پیر جی ۔ ( گھبرا کر ) کہاں ، بھائی کہاں ؟
سپاہی :- با دشاہ سلامت نے بلایا ہے قلعے میں چلئیے ۔ پیرجی رونے پر آمادہ نظر آ رہے تھے ۔ گڑ گڑا کر کہنے لگے ۔
” بھائی ہم کیا کریں گے وہاں جا کر ہم تو گھر جاتے ہیں ۔
یہ کہہ بوریا تہہ کر بغل میں دبایا اور جل تو جلال تو بڑھتے ہوئے لگے چلنے۔


208

سپاہی نے بڑھکر ہاتھ تھام لیا اور چلالے کے قلعے کی طرف اب پیر جی ہیں کہ مچل رہے ہیں اور ہے ہیں ، گڑ گڑار ہے ہیں ، زمین پر لیٹے جار ہے ہیں مگر سپاہی نہیں چھوڑتے ۔ گھسیٹے لئے جار ہے ہیں ، لوگوں کا ٹھٹ کا ٹھٹ لگ گیا ۔ دوچار بھلے آدمی کہنے بھی لگے کہ " جانے دو بے چارہ غریب آدی ہے ۔ فقیروں کو نہیں ستایا کرتے۔ " مگر سپاہی کب چھوڑ نے والے تھے ، کہنے لگے " صاحب بادشاہ کا حکم ہے کیسے نہ لیجائیں ، انہیں چھوڑ دیں تواپنی جانیں گنوائیں۔ "
پیر جی بہت پھیلے تو سپاہی ان کو اس طرح لے گئےکہ
پا بدست دگرے دست بدست دگرے
قلعے میں پہنچے ، بادشاہ سلامت کے حضور میں پیش ہوئے ، بادشاہ نے ملائمت سے کہا ۔
بادشاہ :۔ شاہ صاحب ! ہم نے سنا ہے آپ بڑے روشن ضمیر ہیں ۔ گھوسی کی بھینس اورسنار کے ہیرے کا حال ہمیں معلوم ہے ، ہم نے آپکو اس لئے طلب کیا ہے کہ ہماری ملکہ عالیہ کا نو لکھا ہار کسی نے چرا لیا ہے ۔ آپ اپنے کشف سے اسے ڈھونڈھ نکالئے ۔
ُپیر جی:- بادشاہ سلامت ! میں تو خدا کا گنہگار بندہ ہوں ۔ میں روشن ضمیر نہیں ہوں ۔ خدا کے لئے مجھے گھر جانے کی اجازت دیجیئے ۔ میری بیوی بڑی پریشان ہو رہی ہوگی ۔

209


بادشاہ:- شاہ صاحب ! ہار آپ کو ڈھونڈ کر دینا ہوگا۔ ہماری ملکہ عالیہ بہت پریشان ہیں اور ہم ان کی پریشانی نہیں دیکھ سکتے ۔
پیر جی:۔ حضور ! مجھے اب تو گھر جانے دیجئے ۔ میں کل حاضر ہو جاؤں گا ۔
بادشاہ :- بس اب ہم کچھ سننا نہیں چاہتے ۔ آپ کو ایک ہفتہ کی مہلت دی جاتی ہے ۔ اس عرصے میں ہار نہ ملا تو آج ہی کے دن صبح کو آپ کو سولی پر چڑھا دیا جائے گا ۔ ہاں اپنے گھر کا پتہ بتا دیجئے آپ کی بیوی کو اطلاع کردی جائے گی ، آپ یہیں محل میں رہینگے ۔
پیر جی کے رہنے کو محل مل گیا ۔ اب یہ بیچارے پریشان ہیں کہ یا الہی اب کیا کروں ۔ بادشاہ کوتو ماش کی دال نہیں بتا سکتا ۔ میں پہلے ہی ٹڈی سے کہتا تھا کہ دیکھ لالچ نہ کر ۔ اس کا انجام برا ہوگا ۔ نہ مانی اور مجھے مروادیا ۔ اب کیا ہوگا ہائے میں نہ جاؤں گا تو ٹڈی کیسی پریشان ہوگی۔ اکیلی راتوں کو کیسے رہے گی یہ خیال کر کے رونے لگے ۔
اب بیوی کا حال سنیے مغرب کے وقت تک توخوشی خوشی میاں کا انتظار کرتی رہیں سمجھتی تھیں کہ لدے پھندے کوئی دم میں آتے ہی ہوں گے ۔ جب خاصی رات ہوگئی اور میاں نہ آئے تو ذرا پریشانی ہوئی ۔ آٹھ بجے ، نوبجے ، دس بج گئے تو دل میں پنکھے لگ گئے ، بے اوسان ہوگئیں ۔ رو رو کر دعائیں مانگنے لگیں اپنے اوپر نفرین کرنے لگیں کہ میں نے میاں کو کسی مصیبت میں پھنسا دیا ۔ کچھ نہ کچھ


210

افتاد پڑی ہے جو اب تک نہیں آئے ۔ وہ تو رکنے والے تھے ہی نہیں ۔
وہ ان ہی خیالات میں تھیں کہ کسی نے کنڈی کھٹکھٹائی ۔ یہ دروازے پرگئیں تو معلوم ہوا سپاہی ہیں ۔ پاؤں تلے کی زمین نکل گئی ۔ اوپرکا سانس اوپر اور نیچے کانچے رہ گیا ۔ پھر ہمت کر کے پوچھا ۔
" ارے بھئی تم کون ہو ؟"
سپاہی :- ہم شاہی پیادے ہیں ۔ پیر جی کرامت شاہ تمہارے ہی میاں ہیں ؟
بیوی :- ہاں ہاں ۔ ہاں ۔ اللہ جلدی بتاؤ ، وہ کیسے ہیں ، کہاں ہیں ؟
سپاہی :- بہن گھبراؤ نہیں ۔ وہ اچھی طرح ہیں ۔ بادشاہ سلامت نے ان کو بلواکر اپنے محل میں رکھ لیا ہے ۔ ملکہ عالیہ کا نو لکھا ہار چوری ہو گیا ہے ۔ بادشاہ سلامت نے کر امت شاہ کی کرامتوں کا حال سن کر انہیں اپنے محل میں ٹھہرالیا ہے تا کہ وہ ہار ڈھونڈ نکالیں تم گھبراؤ نہیں ۔ دو چار دن میں آجائیں گے ۔ اور لو یہ لو ، یہ ایک توڑا اشرفیوں کا بادشاہ سلامت نے تمہارے خرچ کو بھیجا ہے ۔
سپاہی توڑا دے کر چلے گئے۔ بیوی کو یہ تو اطمینان ہوا کہ میاں صحیح سلامت ہیں ، مگر اول تو میاں کی جدائی شاک تھی زندگی میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ رات تنہا بسر کرنی پڑ یگی ۔ دوسرے یہ بھی ڈر اور خوف دل میں تھا کہ نو لکھا ہا رنہ جانے کس نے چرایا ہوگا اور چورکیا وہاں دھرا ہوگا ۔ خدا معلوم کہاں کا کہاں پہنچ گیا ہوگا ۔
 

مومن فرحین

لائبریرین
211


میرے میاں بیوقوف اور سادہ لوح وہ بھلا کیا تفتیش و تلاش کر سکتے ہیں اور بادشاہوں کے مزاج کا کیا ٹھکانا ۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ ۔ آج جس پر الطاف و اکرام کی بارش ہے کل اسی کے زن و بچہ کولھو میں پلوا دیں۔ غرض بیچاری بے طرح پریشان تھی ۔ رو رو کر دعائیں مانگتی تھی کہ اپنے حبیب کے صدقے میں اب کے میرے میاں کو ساتھ خیریت کے میرے پاس بھجوادے میں آنکھوں کا تیل نکالوں گی محنت مزدوری کروں گی مگر اب انہیں کبھی کمانے کو مجبور نہ کروں گی ۔
اب پیر جی کا حال سنیے ۔ چھ دن گزر چکے ہیں ، رات کا وقت ہے کوئی با رہ کا عمل ہو گا ۔ پیرجی سنسان ہو حق رات میں چھت پر ٹہل رہے ہیں۔ اللہ کے حضور میں رورہے ہیں ، گڑگڑا رہے ہیں ۔ جانتے ہیں کہ صبح کو سولی پر چڑھا دیا جاؤں گا اور اپنی ٹڈی سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو جاؤں گا اس پریشانی اور یاس کے عالم میں دماغی توازن بھی ٹھیک نہیں رہا ۔ ٹہل رہے ہیں اور چخ چخ کر کہہ رہے ہیں کہ آجاری نندیا صبح کو ماری جائے گی جندیا ۔
اب اللہ کی کارسازی دیکھئے کہ ملکہ عالم کی ایک منہ چڑھی باندی تھی جسے وہ پیار سے چندیا کہا کرتی تھیں ، وہ نو لکھا ہار اسی نے چرایا تھا اور اب تک اسی کے پاس تھا ۔ کیونکہ اس کی چوری کا چرچا بچے بچے کی زبان پرتھا ۔ وہ بادشاہ کی سی آئی ڈی سے تو نہیں ڈرتی تھی مگر جب سے اس نے


212


سنا تھا کہ بادشاہ نے کر امت شاہ کو بلوا کر محل میں رکھا ہے بڑی پریشان تھی ۔ ایک دیوار بیچ ملکہ عالم کا محل تھا ۔ یہ باندی چپ چاپ راتوں کو آکر دیکھتی رہتی تھی کہ پیر جی اب کیا کر رہے ہیں ، اب کیا کر رہے ہیں ۔ آج جو اس کے کانوں میں پیرجی کے جوش و خروش کی آوازیں آئیں تو سمجھی کہ آج آخری دن ہے پیر جی کوئی جلالی عمل پڑھ رہے ہیں ، چپکے چپکے دبے پاؤں اپنی چھت پرآئی - اور اب جو یہ سنا کہ پیر جی کہہ رہے ہیں "صبح کو ماری جائے گی جندیا " تو ہا تھوں کے طوطے اڑ گئے سمجھی کہ بس صبح کو پیر جی بادشاہ کو میرا نام بتادیں گے ۔ سب عزت آبرو خاک میں مل جائے گی اور جان سے جاؤں گی ۔ بھاگی بھاگی گئی ۔ اور جھٹ نو لکھا ہار لے آئی اور پیر جی کے قدموں میں ڈال کر رورو کر ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہنے لگی کہ خدا کے لئے میرا نام بادشاہ کو نہ بتا ئیے گا ۔
پیر جی بہت بگڑے بہت لال پیلے ہوئے کہ تو نے ہمیں اتنے دنوں تک پریشان کیوں رکھا ۔ پہلے ہی کیوں نہ لے آئی ۔ مگر اس کے رونے دھونے پر رحم آگیا اور وعدہ کر لیا کہ جا ہم تیرا نام نہیں بتائیں گے ۔
اب پیر جی نے ہار تو کرتے کی اندر کی جیب میں رکھا اور اطمینان سے سوگئے ۔ صبح کوچوبدار آیا اور پیر جی کو بادشاہ سلامت کے حضور میں لے گیا بادشاہ دربار خاص فرما رہے تھے ۔ سب امرا و مصاحبین حاضر تھے ۔ بادشا نے پیر جی کو دیکھتے ہی فرمایا ۔


213


بادشاہ ۔ شاہ صاحب ! ہارکا پتہ لگا ؟
پیرجی نے طیش میں آکر جیب سے ہار نکال تخت پر دے مارا اور گرج کر بولے ۔
"لے اپنا ہار"
بادشاہ نے جوہار کو دیکھا تو سکتے میں رہ گیا ۔ اس کی خاص سی آئی ڈی اتنے دنوں سے سرگاڑی پاؤں پہیہ کئے ہوئے تھی خاک بھی نتیجہ نہ نکلا اور شاہ صاحب نے محل میں بیٹھے ہی بیٹھے ہار منگوالیا۔ غرض بادشاہ اور سب کے سب درباری پیر جی کی کرامت سے کچھ ایسے مرعوب ہوئے کہ منہ سے بات نکل سکی ۔ ادھر پیر جی ایک جلال کے عالم میں تھے ۔ دراصل اس وقت کا سماں ہی عجیب تھا ۔ ایک ناقابل بیان جذبات کا عالم ان پر طاری تھا ۔ بار ملنے کی خوشی بادشاہ اور درباریوں کو مرعوب کرنے کا افتخار ، اپنی پیاری ٹڈی سے ملنے کا جوش دامنگ ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس وقت بن آئی تھی ۔ لگے پھیلنے ۔ نیچے سے شاہ صاحب:- تو فقیروں کو آزماتا ہے ۔ ہائیں ! اللہ والوں کا امتحان لیتا ہے ۔ ہائیں ! بادشاہ نے تخت سے اتر کر انتہائی عقیدت مندی سے شاہ صاحب کے ہاتھ چومے ۔ آنکھوں سے لگائے
اور گڑ گڑا کر کہا ۔


214

بادشاه :-
شاه صاحب ! معاف کیجئے ۔ ہم نے آپ کو جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا ۔
شاہ صاحب ۔( جلدی سے )تو نے ہمیں دکھ پہنچایا ہے ۔ ہم تیری سلطنت کو زیر و زبر کردیں گے ۔
بادشاہ :- نہیں شاہ صاحب! معاف کر دیجیئے ۔ میری رعایا تباہ ہو جائیگی ۔
شاہ صاحب:- بس اب ہم جاتے ہیں اپنے گھر ۔
یہ کہہ کر پیر جی چلنے لگے . بادشاہ نے منت سماجت کر کے چاردن کے لئے اور روک لیا ۔ خوب خاطر ہونے لگی ۔ بادشاہ کا یہ حال تھا کہ دن میں دو دفعہ ان کی جائے قیام پرجانا اور کھڑا رہتا ۔ پیرجی ہیں کہ اپنی ٹڈی کے تصور میں محو ہیں ۔ بات کرنی تو در کنار مڑ کر بھی نہیں دیکھتے کہ کون کھڑا ہے ۔ ان کی اس بے التفاتی اور بے توجہی سے بادشاہ کی عقیدت مندی سے اور راسخ ہوتی ۔ جانتا کہ اللہ والے لوگ ہیں ۔ ان کے نزدیک شاه و گدا سب برابر ہیں۔ جب بادشاه ہی ایسا قدردان اور گرویدہ ہو تو دوسروں کا کیا ذکر ہے ۔ غرض پیر جی فوق البشر ہستی بنے ہوئے تھے ۔ ہر طرح سے خاطر ہورہی تھی ۔ بھرے دربار میں بلاروک ٹوک آجا سکتے تھے ۔ بادشاہ سے بڑھ کر عزت ہو رہی تھی ۔ ہاں بسں ایک قید تو یہ تھی کہ محل سے باہر نہیں جا سکتے تھے ۔ بادشاہ انہیں اپنے سے جدا نہیں رکھنا چاہتا تھا ۔


215


"چو تھے دن صبح ہی سے ٹڈی بے طرح یا دآنے لگیں جی چاہتا تھا کہ اڑ کے پہنچ جائیں ۔ مگر کیا کریں کچھ بس نہیں چلتا ۔ بادشاہ کی نیت کھوٹی معلوم ہوتی ہے ۔ادھر سے ادھر پھررہے ہیں ، پریشان ہیں ، رورہے ہیں اور کہہ رہے ہیں
"- ہائے ٹڈی میں کس عذاب میں پھنس گیا ۔ تو وہاں میری یاد میں بیقرار ہوگی ۔ میں یہاں تڑپ رہا ہوں ۔
ان خیالات نے دماغ کو کچھ ایسا پراگندہ کیا کہ ایک موٹا سا ڈنڈا لے کر چل پڑے کہ آج بھی بادشاہ نے جانے نہ دیا تو اس کا سر پھاڑ دوں گا ، چاہے جو کچھ ہوجائے ۔ ایسی زندگی سے توموت ہزار درجے بہتر ہے ۔ دربانوں اور چوبداروں کی بھلا کیا مجال تھی کہ انھیں روکتے ۔ یہ سیدھے دربار میں پہنچے اور جاتے ہی کڑک کر بولے ۔
"بس اب ہم جاتے ہیں اپنے گھر ۔ "
بادشاہ انہیں دیکھتے ہی تخت سے اترا اور ہاتھ باندھ کر کہنے لگا ۔
" شاه صاحب ! بس تھوڑے دن اور ٹھہر جائیے ۔"
انہیں تاو تو آہی رہا تھا ، جان سے بیزار تھے ۔ الاللہ کہہ کر جوسر پر ڈنڈا مارا تو تاج دور جا گرا ۔ درباری بھاگ کر بادشاہ کو بچانے آئے مگراب جو دیکھتے ہیں تو تاج میں سے ایک چھوٹا سا کالا سانپ نکل کر


216


پھنکاریں ماررہا ہے ۔ سب نے مل کر سانپ کو تو مار دیا مگر بادشاہ کی مارے دہشت کے عجیب حالت تھی دوڑ کر پیرجی کے ہاتھ چومے اور آنکھوں سے لگائے اور درباریوں سے کہنے لگا ۔
" دیکھی تم نے میرے پیر کی کرامت ! اس وقت یہ تاج کونہ گراتے تو میں اس موذی سانپ سے بچ سکتا تھا ؟ “ غرض بادشاہ نے دربار کو برخاست کیا اور منت خوشامد کرکے شاہ صاحب کوان کی جائے قیام تک لے گیا ۔ ساری سلطنت میں بادشاہ کی جان بچنے کی خوشی میں شادیانے بجنے لگے گھر گھر خوشیاں منائی جانے لگیں . پیرجی پھر دل مسوس کر رہ گئے ۔ پہلے تو بادشاہ نے چاردن کا وعدہ بھی کر لیا تھا ۔ اب اس کا کوئی سوال ہی نہ تھا ۔ بھلا ایسے پیر روشن ضمیر کو بادشاہ کیونکر اپنے سے جدا کر سکتے تھے ۔ تین دن پھرانگاروں پر لوٹ کر گزارے ۔ چو تھے دن مصمم ارادہ کر کے چلے کہ آج بادشاہ کو مار ہی ڈالوں گا چھوڑوں گا نہیں ۔ بلا سے چاہے کچھ ہو ۔
یہ دل میں ٹھان کر سیدھے دربار میں پہنچے اور ایک کہی نہ دو بادشاہ کی ٹانگیں پکڑ گھسیٹتے ہوئے کھینچے لئے چلے گئے ۔ درباری بچانے دوڑے
 

مومن فرحین

لائبریرین
217


بھی مگربادشاہ نے منع کردیا ۔ یہ اسی طرح بادشاہ کو کھینچتے ہوئے دربار کے کمرے سے باہر دور تک لے گئے ۔
ان کے باہر جاتے ہی اللہ کی قدرت دیکھئے وہ چھت آن پڑی اور بہت سے لوگ دب کر رہ گئے ، بادشاہ اور بھی معتقد ہوگیا اور پیرجی کی خوب خاطر ہونے لگی۔
یہ قاعدے کی بات ہے کہ جب کوئی بادشاہ کا منظور نظر ہو جاتا ہے تو اس کے تو دشمن بھی پیدا ہو جاتے ہیں ۔ یہاں تو یہ حال تھا کہ منظور نظر کیا بادشاہ ہی پیر جی کا غلام بنا ہوا تھا ۔ اب تو درباری امراء جتنے بھی نہ جلتے تھوڑا تھا ۔ یہ لوگ اکثر بادشاہ کے کان بھرا کرتے تھے اور طرح طرح سے پیرجی کی برائیاں کیا کرتے تھے
” جاہل ہے ، ان پڑھ ہے ، جزدان میں کوئی کتاب و تاب نہیں ہے شما اینٹ ہے وغیرہ وغیرہ ۔
بادشاہ جواب میں کہتا ۔
"یہ سب کچھ صحیح ہے مگر حقیقت کا گلانہیں گھونٹا جاسکتا ۔ ان اللہ والے لوگوں کی ظاہری حالت پر نہ جاؤ ۔ ان کی گدڑی میں لعل ہوتے ہیں


218


ملکہ کا نولکھا ہار شاہ صاحب نے پیدا کیا ، مجھے موذی سانپ سے شاہ صاحب نے بچایا ، مجھے چھت کے نیچے دبنے سے شاہ صاحب نے بچایا تمہارے پاس ان باتوں کا کیا جواب اور کیا حل ہے ۔
غرض اسی طرح دن گزر رہے تھے پیر جی کے ٹڈی کی یاد میں بے چینی سے اور بادشاہ کے پیرجی کی موجودگی میں اطمنان و خوشی سے ۔ مگر امراء وزرا جو گھڑی گھڑی شاہ صاحب کی برائیاں کرتے رہتے تھے اس سے بادشاہ کوبڑی کوفت ہوئی تھی ۔
ایک دن بادشاہ نے بڑے وزیر سے جو سب سے زیادہ شاہ صاحب کا دشمن تھا ، کہا کہ میں ان آئے دن کی شکایتوں سے تنگ آگیا ہوں سنتے سنتے میرے کان پک گئے ۔ میری سمجھ میں بات آتی ہے کہ ایک دفعہ تم سب مل کر جس طرح کا چاہو میرے شاہ صاحب کا امتحان لے لو ، اگر وہ ناکام ثابت ہوں گے تو میں ان کو قتل کر وادوں گا اور اگر وہ کامیاب ہو گئے تو پھر تم سب کو انہیں اپنا پیرماننا پڑیگا اور پھراگر کوئی ان کی شکایت کریگا تو اسے فورا قتل کروا دونگا ۔
چنانچہ بارہ امرا کو اور شاہ صاحب کو ہمراہ لیکر بادشاہ دہلی سے


219


بیس میل دور جنگل میں گیا ۔ شاہ صاحب کو ایک خیمے میں بٹھا کر سب لوگ ذراسی دور چلے گئے پھر بادشاہ نے بڑے وزیر سے کہا ۔
" لو اب تم جس طرح چا ہوامتحان لے لو ۔"
بڑا وزیر بولا " بہت بہتر “
اور یہ کہہ کر کوئی ایک فرلانگ چلا گیا اور بند مٹھی دکھا کر بادشاہ سے کہنے لگا ۔
"اگر شاہ صاحب بتا دیں گے کہ میری مٹھی میں کیا ہے تو میں اور یہ سب لوگ ان کو اپنا پیر مان لیں گے اور دل سے ان کے معتقد ہوجائیں گے ۔"
اب یہ سب لوگ واپس آئے شاہ صاحب کو بلایا اور بادشاہ کہنے لگا
بادشاہ :۔ شاہ صاحب ! آج آپ کا امتحان ہے ۔ میری طرف سے آپ دل میں کچھ خیال نہ کیجئے گا ۔ میں تو آپ کوروشن ضمیر مانتا ہوں اور آپ کا دل سے معتقد ہوں مگر یہ امرا اور وزیر مجھے چین نہیں لینے دیتے ۔ یہ آپ کی برائیاں کرتے رہتے ہیں ۔ آج ہم سب نے طے کر لیا ہے کہ اگر آپ امتحان میں کامیاب ہو گئے تو یہ لوگ بھی آپ کے مرید ہو جائینگے


220


"اور اگر آپ ناکام رہے تو ابھی ، اسی وقت اور اسی جگہ آپ کو قتل کر دیا جائے گا ۔ دیکھئے یہ بڑے وزیر آپ کے سامنے دونوں ہاتھ پیچھے کئے کھڑے ہیں ۔ ان کی مٹھی میں کوئی چیز ہے . آپ بتایئے وہ کیا چیز ہے یاد رکھئے کہ اگر آپ نہ بتا سکے تو اسی وقت جلاد آپ کا سر قلم کر دیگا ۔
یہ کہہ کر بادشاہ نے تالی بجائی خونخوار جلاد ہاتھ میں ننگی تلوار لیئے کھڑا ہوا ۔ پیرجی کی آنکھوں میں دنیا اندھیر ہوگئی سمجھ گئے کہ اب جان نہیں بچے گی ۔ ہائے میری ٹڈی بیوہ ہوجائے گی ۔ یہ خیال آتے ہی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ۔ بھرائی ہوئی آواز میں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے ۔
" ٹڈی ٹڈی ! "
بادشاہ نے بڑے وزیر سے کہا ۔
"مٹی کھول مٹھی کھول ۔"
مٹھی کھولی تو سب نے دیکھا کہ ایک مردہ سی ٹڈی بیٹھی تھی ۔
بادشاہ نے فوراً وزیر سے کہا " ہاتھ چوم ان کے ہاتھ چوم !"


221


وزیرنے اور سارے امراء نے پیر جی کے ہاتھ چومے اور سب کے سب دل سے پیرجی کے مرید و معتقد ہو گئے ۔
پیر جی نے بادشاہ سے کہا ۔
” اب ہمیں گھر جانے دے ۔ بہت دن ہو گئے اپنی بیوی سے ملے ہوئے ۔"
بادشاہ نے انہیں محل رہنے کو دیا ۔ خلعت و جاگیر عطا کی ۔ یہ اپنی ٹڈی کو لے کر آرام سے ہنسی خوشی رہنے لگے ۔
سچ ہے ۔
بنا داں آنچناں ، روزی رساند
که دا نا اندراں حیران بماند
 
Top