خامے میں میرے گردشِ حجر و وصال ہے

وپل کمار

محفلین
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میری عدنا سی کوشش کو کہاں پوسٹ کیا جائے
سو برائے اصلاح یہاں پیش کر رہا ہوں


خامے میں میرے گردشِ حجر و وصال ہے
سو یہ غزل بھی خونِ تمنا سے لال ہے

توہینِ اوجِ یار اگر ہو نہ تو کہوں
قامت میں روزِ حشر بھی کیا باکمال ہے

جی سے تمہارے خوفِ قیامت بھی اٹھ بنے
تم کو میں گر باتؤں جو فرقت کا حال ہے

دل کو وصالِ یار کی وہ خواحشیں کہاں
اب تو گمانِ یار بھی گویا وصال ہے

غیر از رقیب کون سمجھتا ہے جی کا حال
وہ دوست ہے، عدو ہے، جو بھی ہے، کمال ہے

کوچے میں یار کے ہے مری خاکِ خشنما
بعدِ فنا تو جان کی حسرت نہال ہے

مرتا ہوں تابِ گریۂ خوناب اشک سے
سنتا ہوں اب بھی آپ کو میرا خیال ہے

کیوں جائے چارہ گر تلک اپنا کوئ کلام
کیوں کر کہیں غزم میں جو زخموں کا حال ہے

یارا، ہوں اس مقام پہ اب سرخ رو جہاں
گھر کو پلٹ کے جاؤں تو یہ بھی محال ہے
 

حسان خان

لائبریرین
بسیار خوب وپل بھائی۔
میں آپ کی اس غزل کو درست املا میں لکھ رہا ہوں۔ دیکھ لیجئے اور ذہن نشین کر لیجئے۔

خامے میں میرے گردشِ ہجر و وصال ہے
سو یہ غزل بھی خونِ تمنا سے لال ہے

توہینِ اوجِ یار اگر ہو نہ تو کہوں
قامت میں روزِ حشر بھی کیا باکمال ہے

جی سے تمہارے خوفِ قیامت بھی اٹھ بنے
تم کو میں گر بتاؤں جو فرقت کا حال ہے

دل کو وصالِ یار کی وہ خواہشیں کہاں
اب تو گمانِ یار بھی گویا وصال ہے

غیر از رقیب کون سمجھتا ہے جی کا حال
وہ دوست ہے، عدو ہے، جو بھی ہے، کمال ہے

کوچے میں یار کے ہے مری خاکِ خوش نما
بعدِ فنا تو جان کی حسرت نہال ہے

مرتا ہوں تابِ گریۂ خونابِ اشک سے
سنتا ہوں اب بھی آپ کو میرا خیال ہے

کیوں جائے چارہ گر تلک اپنا کوئی کلام
کیونکر کہیں غزل میں جو زخموں کا حال ہے

یارا، ہوں اس مقام پہ اب سرخ رو جہاں
گھر کو پلٹ کے جاؤں تو یہ بھی محال ہے

(وپل کمار 'یارا')
 

حسان خان

لائبریرین
مجھے یہ شعر سب سے اچھا لگا:

جی سے تمہارے خوفِ قیامت بھی اٹھ بنے
تم کو میں گر بتاؤں جو فرقت کا حال ہے
 

حسان خان

لائبریرین
یہ مصرعہ ذرا بے وزن لگا رہا ہے، اسے دوبارہ دیکھ لیجئے گا۔ ہو سکتا ہے میں غلط ہوں، کیونکہ علمِ عروض سے زیادہ واقفیت نہیں ہے۔

وہ دوست ہے، عدو ہے، جو بھی ہے، کمال ہے
 

وپل کمار

محفلین
بسیار خوب وپل بھائی۔
میں آپ کی اس غزل کو درست املا میں لکھ رہا ہوں۔ دیکھ لیجئے اور ذہن نشین کر لیجئے۔

خامے میں میرے گردشِ ہجر و وصال ہے
سو یہ غزل بھی خونِ تمنا سے لال ہے

توہینِ اوجِ یار اگر ہو نہ تو کہوں
قامت میں روزِ حشر بھی کیا باکمال ہے

جی سے تمہارے خوفِ قیامت بھی اٹھ بنے
تم کو میں گر بتاؤں جو فرقت کا حال ہے

دل کو وصالِ یار کی وہ خواہشیں کہاں
اب تو گمانِ یار بھی گویا وصال ہے

غیر از رقیب کون سمجھتا ہے جی کا حال
وہ دوست ہے، عدو ہے، جو بھی ہے، کمال ہے

کوچے میں یار کے ہے مری خاکِ خوش نما
بعدِ فنا تو جان کی حسرت نہال ہے

مرتا ہوں تابِ گریۂ خونابِ اشک سے
سنتا ہوں اب بھی آپ کو میرا خیال ہے

کیوں جائے چارہ گر تلک اپنا کوئی کلام
کیونکر کہیں غزل میں جو زخموں کا حال ہے

یارا، ہوں اس مقام پہ اب سرخ رو جہاں
گھر کو پلٹ کے جاؤں تو یہ بھی محال ہے

(وپل کمار 'یارا')

بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔
مینے اچھی ترح پڑھ لیا ہے۔۔۔۔۔
کوشش یہی رہیگی کہ مستقبل میں کم از کم یہ غلطیاں تو نہ ہوں۔۔۔۔۔
 

وپل کمار

محفلین
یہ مصرعہ ذرا بے وزن لگا رہا ہے، اسے دوبارہ دیکھ لیجئے گا۔ ہو سکتا ہے میں غلط ہوں، کیونکہ علمِ عروض سے زیادہ واقفیت نہیں ہے۔

وہ دوست ہے، عدو ہے، جو بھی ہے، کمال ہے
بھائی اس مصرع پر پہلے بھی بات ہئی ہے۔۔۔۔
در اصل یہ اپنی تعمیر کی وجح سے تھوڑا اٹکتا ہے۔۔۔۔۔(اتنے سارے "ہے" ہونے کی وجح سے)
لیکن مسرع وزن میں ہے۔۔۔۔۔ ویسے اگر آپ کسی استاد کو یہاں لے آئیں تو وہ بہتر بتا پاینگے۔۔۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
بھائی اس مصرع پر پہلے بھی بات ہوئی ہے۔۔۔ ۔
در اصل یہ اپنی تعمیر کی وجہ سے تھوڑا اٹکتا ہے۔۔۔ ۔۔(اتنے سارے "ہے" ہونے کی وجہ سے)
لیکن مصرع وزن میں ہے۔۔۔ ۔۔ ویسے اگر آپ کسی استاد کو یہاں لے آئیں تو وہ بہتر بتا پاینگے۔۔۔ ۔۔

بھائی، اسی لیے تو میں نے قبلاَ لکھ دیا تھا کہ میں علمِ عروض سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتا، ہو سکتا ہے یہ مصرع واقعی باوزن ہو۔ یہاں کچھ احباب عروض پر پوری گرفت رکھتے ہیں، وہ تھوڑی دیر میں آ کر آپ کی پوری غزل کو دیکھ لیں گے اور درستگی کی سند جاری کر دیں گے۔ :)
 
وپل کمار اصلاح سخن میں خوش آمدید۔ غزل پڑھ کر بہت لطف آیا۔ بہت عمدہ کلام تھا۔ ایک ایک شعر لا جواب۔
کمال مشق سخن ہے۔

حسان خان نے جس مصرعے کا ذکر کیا ہے اس میں لفظ ”جو“ سے ”واؤۙ“ کا اسقاط ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے بندش چست نہ رہی۔ باقی یہ کہ اس شعر میں ربط کی بھی کافی کمی ہے۔
مکمل اصلاح کا ذمہ تو دو حضرات کا ہےتو انہیں ٹیگ کرتا ہوں
محمد یعقوب آسی
الف عین
 

الف عین

لائبریرین
واہ وپل، اچھی کلاسیکی انداز کی غزل کہی ہے۔ اس سے ظاہر تو ہوتا ہے کہ بالکل مبتدی تو نہیں ہیں۔ اور اگر واقعی یہ پیلی دوسری ہی غزل ہے تو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ یہ طبع کی موزونیت کا ثبوت ہے۔
حسان نے جس مصرع کی نشان دہی کی ہے، وہ ہے تو وزن میں، لیکن بس الفاظ کی نشست ایسی ہے جس سے روانی متاثر ہو رہی ہے۔ اس کو یوں کر دیں تو
وہ دوست ہے، عدو بھی ہے، جو ہے، کمال ہے۔
کچھ اشعار کی البتہ تفہیم درست نہیں ہو رہی ہے، یا تو ابلاغ کا مسئلہ ہے، یا پھر مصرعوں میں باہم ربط کی کمی ہے، جیسے غالب کی جیسی ترکیب والا
مرتا ہوں تابِ گریۂ خونابِ اشک سے
سنتا ہوں اب بھی آپ کو میرا خیال ہے
 

وپل کمار

محفلین
وپل کمار اصلاح سخن میں خوش آمدید۔ غزل پڑھ کر بہت لطف آیا۔ بہت عمدہ کلام تھا۔ ایک ایک شعر لا جواب۔
کمال مشق سخن ہے۔

حسان خان نے جس مصرعے کا ذکر کیا ہے اس میں لفظ ”جو“ سے ”واؤۙ“ کا اسقاط ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے بندش چست نہ رہی۔ باقی یہ کہ اس شعر میں ربط کی بھی کافی کمی ہے۔
مکمل اصلاح کا ذمہ تو دو حضرات کا ہےتو انہیں ٹیگ کرتا ہوں
محمد یعقوب آسی
الف عین
بہت شکریہ مزمل شیخ جی۔۔۔۔۔۔غزل پر تبصرہ کرنے کے لئے اور پسندگی کے لئے۔۔۔۔۔
 

وپل کمار

محفلین
واہ وپل، اچھی کلاسیکی انداز کی غزل کہی ہے۔ اس سے ظاہر تو ہوتا ہے کہ بالکل مبتدی تو نہیں ہیں۔ اور اگر واقعی یہ پیلی دوسری ہی غزل ہے تو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ یہ طبع کی موزونیت کا ثبوت ہے۔
حسان نے جس مصرع کی نشان دہی کی ہے، وہ ہے تو وزن میں، لیکن بس الفاظ کی نشست ایسی ہے جس سے روانی متاثر ہو رہی ہے۔ اس کو یوں کر دیں تو
وہ دوست ہے، عدو بھی ہے، جو ہے، کمال ہے۔
کچھ اشعار کی البتہ تفہیم درست نہیں ہو رہی ہے، یا تو ابلاغ کا مسئلہ ہے، یا پھر مصرعوں میں باہم ربط کی کمی ہے، جیسے غالب کی جیسی ترکیب والا
مرتا ہوں تابِ گریۂ خونابِ اشک سے
سنتا ہوں اب بھی آپ کو میرا خیال ہے
الف عین صاحب، اول تو بیحد شکریہ کہ آپ نے یہاں وقت دیا اور غزل کو تبصرے سے نوازا۔۔۔۔
ہاں یہ غزل آغاز کی غزلوں میں سے ہی ہے۔۔۔۔۔۔ یوں تو مجھے کہتے ہوئے(وزن میں) 1 سال سے زیادہ ہو گیا ہے لیکن کم ہی کہتا ہوں۔۔۔۔۔ جب خود کو روک پانا مشکل ہو جاتا ہے تو ہی غزل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ سو، کل 8-10 غزلیں ہی کہی ہیں، اور یہ شروع کی 2-3 میں سے ہے۔۔۔۔۔
تقلیبی مصرع بہت امدہ ہے۔۔۔۔۔۔
جس شعر کی جانب آپن نے اشارہ کیا ہے اسے اپنی جانب سے کھولنے کی کوشش کر سکتا ہوں
در اصل یہ ایک طنز کی سورت ہے کہ میں گریہ کی تاب سے مرنے کو ہوں اور سن رہا ہوں کہ آپ کو اب بھی میرا خیال ہے؟
یہ کسی دیرینا اہدِ وفا کی جانب ہو سکتا ہے (کہ آپکو میرا خیال تھا، لیکن اب میں بہت خستہ حالت میں ہوں)
یا پھر حالتِ حال کی جانب بھی۔۔۔۔۔۔
خیر، ایک دفا پھر آپکی عنایت کا تہَ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔ ساتھ بنائے رکھیں۔۔۔۔۔ سکھاتے رہیں۔۔۔۔۔۔
 

عاطف بٹ

محفلین
دل کو وصالِ یار کی وہ خواہشیں کہاں
اب تو گمانِ یار بھی گویا وصال ہے​
بھئی واہ وپل میاں، بہت ہی خوبصورت غزل ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
لیکن یہ معانی شعر سے ظاہر نہیں ہوتے مکمل۔ ’مرتا ہوں‘ سے خیال اسی طرٍ جاتا ہے کہ کسی چیز ’پر‘ مرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ ہاں یوں ہو تو مطلب ساف ہو جاتا ہے۔
مرنے کو ہوں میں گریۂ خونابِ اشک سے
 
Top