خالد علیم - بغداد آشوب

نوید صادق

محفلین
امن کو خون کے دریا سے گزار آئی ہے
دیکھ! کیسے چمنستاں میں بہار آئی ہے
دیکھ اے چشم نگوں بخت کہ پھر صبح وطن
اپنا پیراہن زرتار‘ اُتار آئی ہے
 

نوید صادق

محفلین
ضابطہ

طبع اول : اپریل ۲۰۰۳ء
تعداد : گیارہ سو
ناشر : ابو شعیب علی
اقدام پبلی کیشنز‘ اسلام پورہ‘ لاہور
کمپوزنگ : الاشراق کمپوزنگ سنٹر‘ لاہور
سرورق : بشکریہ ضرب مومن
مطبع : جمیل پرنٹرز‘ لاہور
قیمت : ۔/75 روپے
 

نوید صادق

محفلین
انتساب

عراق کے اُن حریت پسندوں کے نام
جو سرزمین انبیاء کی حفاظت کے لیے اہل جبر و ستم کے سامنے سینہ سپر ہو گئے اور بالآخر وطن کی عظمت و حرمت پر کٹ گئے

عراق کی ان ماؤں کے نام
جن کے جواں سال بیٹے اس معرکہ خیر و شر میں شہید ہوئے

عراق کے ان معصوم بچوں اور بہنوں کے نام
جن کا جرم صرف یہی تھا کہ ُان کا وجود اس خطہ ارض پر تھا جو صدیوں سے اُن
اہل جبر و ستم کی نگاہ میںہے جن کی پیاس صرف معصوموںکے لہو سے بجھتی ہے

اور

عراق کے ان بزرگوں کے نام

جن کی نئی نسل اپنے وطن کی حرمت پر قربان ہو گئی
 

نوید صادق

محفلین
چند آنسو

سرزمین دجلہ و فرات ایک بار پھر لہو رنگ ہے۔ عالم اسلام سسک رہا ہے۔ مگر اس سسکار میں ایک نئے دور کی صبح کی انگڑائی نے احساس کی روشنی کو آفاق گیر ہونے کا مژدہ جاں فزا بھی سنا دیا ہے۔ جذبوں کی سرد توانائیاں کھولتے لہو کی حرارت سے تپنے لگی ہیں۔ ناتواں ہاتھوں میں یورپ کے تباہ کن اسلحے کی قوت تو نہیں مگر ارادوں کی قوت جاگنے لگی ہے۔ ذلت و رسوائی کے داغ کیسے دُھلیں۔۔۔ یہ سوال ہر مسلمان کی زبان پر کھولتے لاوے کی طرح دہکنے لگا ہے۔ غیرت کا آتش گیر مادہ تن بدن میں آگ کے شعلوں کی طرح بھڑکنے لگا ہے۔
ایک ایسا طوفان‘ ایک ایسا سیلاب جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے اس وقت صرف مسلمان ممالک کی طرف بڑھ رہا ہے‘ اس کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کے صدر دفتر سے جو کاغذ جاری ہوا تھا‘ اسے ریزہ ریزہ کرکے کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا گیا ہے۔۔۔ اور اقوام متحدہ کے بازوؤں میں تو کیا‘ زبان میں بھی اتنا دم نہیں کہ اس پر عالمی امن عامہ کے منشور کے حوالے سے آوازہ احتجاج ہی بلند کر سکے۔ شاید وہ کمزور ممالک کی شکست و ریخت کے بعد اپنی صدائے احتجاج کو بلند کرنے میں کامیاب ہو سکے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ۔۔۔۔
اقوام متحدہ کے عالمی منشور کے بخیے ادھڑ گئے ہیں اور اس کی عزت کا جامہ چاک چاک ہو چکا ہے۔ وہ چارٹر جو دوسری جنگ عظیم کے بعد علاقائی حدود و قیود کی حفاظت کے لیے پوری دنیا پر نافذ کیا گیا تھا‘ وقت کی سب سے بڑی زمینی طاقت کے اژدھے نے اپنی ایک ہی جست میں ہڑپ کر لیا ہے‘ اور اب وہ کمزور ممالک کی حدوں کو توڑ کر باری باری انھیں نگلنے کے لیے آگے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔۔۔ ہر چند اس پر‘ امن پسند اقوام کا کمزور ترین ہتھیار ’’احتجاج‘‘ بھی بلند ہوا اور شاید اب بھی وقت کے منظر نامے پر کہیں کہیں موجود ہے‘ لیکن اس سے طاقت کے اژدھے پر رتی بھر اثر نہیں ہوا‘ اور نہ ہو سکتا ہے کہ طاقت کا نشہ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اور اب سوال یہ ہے کہ ۔۔۔
کیا یہ اژدھا پوری زمین کو نگل جائے گا ‘ یا صرف انھیں ہڑپ کرناچاہتا ہے جو اس کو اپنا دیوتا اور نجات دہندہ تسلیم نہیں کرتے اور اس کے آگے سجدہ ریز نہیں ہوتے۔
لگتا تو یوں ہے کہ دونوں امکان موجود ہیں۔ فی الوقت تو اس کے شکار وہی ہیں جو اس کے آگے بند باندھے کھڑے ہیں‘ وہ نہیں جو اس کے خاموش حلیف بن کر تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔۔۔ مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کی جوع الارضی فطرت آخر کار انھیں بھی نگل لے گی کہ تیل اور تیل کی دھار دیکھنے والے تیل کے بھکاری ہی اچھے لگتے ہیں۔
آئندہ دنوں میں کھلنے والی حقیقتوں کے آثار اس وقت بھی صفحہ ہستی پر موجود ہیں۔ ماہرین سیاست بلکہ عالمی سیاست کا مدو جزر سمجھنے والے دانشور کچھ بھی کہیں‘ اس تلخ سچائی کا ادراک تو انھیں بھی ہو چکا ہے جو اس کی عظمت کے قصیدے کہتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ دنیا میں پناہ صرف اُسے ملے گی جو اپنے زور بازو سے زندہ رہنے کی صلاحیت پیدا کرے گا۔
اب یورپ و امریکہ کی تہذیب کا دلکش طلسم بھی ٹوٹ چکا ہے۔ اس مہذب دنیا کی سحر طرازی کا بت پاش پاش ہو چکا ہے۔انسانیت کے یہ مدعی وقت کے سب سے بڑے چنگیز و ہلاکو بن کر روئے زمیں کو روندنے کے لیے بیتاب پھر رہے ہیں۔۔۔ کیسی تہذیب اور کہاں کی انسانیت کہ پالتو کتوں کو سونے کی رکابیوں میں کھانا کھلایا جاتا ہے اور اس کے مقابل محکوم ممالک کے کروڑوں بچوں کو روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کے لیے ترسایا جاتا ہے۔ اپنے پاؤں میں ایک تنکے کی پھانس بھی لگ جائے تو بڑی بڑی علاج گاہوں کے دروازے کھل جاتے ہیں ‘ لیکن محکوم و مظلوم اقوام کے نوجوانوں کو آتش و آہن کا مینہ برسا کر ان کے بوڑھوں ‘ عورتوں اور معصوم بچوں سمیت زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ یہ ہے اس نام نہاد انسانیت پرست تہذیب کی تباہ کاریوں کا ادنیٰ کرشمہ۔ اس تہذیب کا کرشمہ‘ جو جہاد کو دہشت گردی قرار دے چکی ہے لیکن خود کمزوروں اور نہتوں پر دہشت گردی کے ہر امکان سے گزر چکی ہے۔ اس کی پاکیِ داماں کی حکایت کچھ اتنی طویل ہو چکی ہے کہ اپنے دامن اور بند قبا کو دیکھ کر بھی شرمندگی اور تہذیبی خجالت کا ایک قطرہ تک اس کے ماتھے پر نظر نہیں آتا۔ شاید

خرد کا نام جنوں رکھ دیا‘ جنوں کاخرد

بقول شخصے‘ (آف دی ریکارڈ) اسی تہذیب کا ایک کرشمہ پچھلے دنوں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ واشنگٹن میں غالباً ستر عورتوں نے عراق پر تباہ کاری کے خلاف ننگ دھڑنگ احتجاج کا نمونہ بھی پیش کیا۔ اس مصنوعی نمائش کا تجزیہ کسی نے کیا یا نہیں‘ معلوم نہیں ‘ لیکن جرمنی‘ فرانس‘ آسٹریلیا اور کئی دوسرے ممالک میں بھی بڑی بڑی احتجاجی ریلیاں آندھی کی طرح اٹھیں اور گرد کی طرح بیٹھ گئیں۔ چند ایک اسلامی ممالک میں بھی احتجاجی جلوسوں کی شکل میں اس تباہ کاری کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ مگر یہ سب آوازیں نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ حیثیت حاصل نہ کر سکیں‘ اور آخر کار وہ بڑا سانحہ رونما ہو گیا‘ جسے تاریخ دوسرے سقوط بغداد کے نام سے یاد کرے گی۔ بغداد تو صرف ایک علامت ہے ‘ پورے کا پورا عراق تباہ ہو گیا۔ انبیائے کرام کی اس سرزمین پر قتل و غارت کا وہ کھیل کھیلا گیا جسے تاریخ سیاہ دنوں کی تاریخ سے یاد کرے گی۔ ہلاکو خاں کی ظالمانہ یورش نے مسلمانوں کے قتل عام اور علمی خزانوں کی ہلاکت سے دجلہ و فرات کا پانی سرخ و سیاہ کر دیا تھا اور پھرلوٹ مار کرتے ہوئے اپنے گھوڑوں کو دوڑاتا ہوا واپس اسی صحرا میں پلٹ گیا تھا جو اس کی فطرت اصلی کا غماز تھا۔ مہذب دنیا کا یہ فاشسٹ تو اس سے کہیں زیادہ ظالم اور تند خو ہے کہ جب تک وہ اس سرزمین سے لہو کے ساتھ تیل کا ایک ایک قطرہ نہ نچوڑ لے‘ واپس جانے کا نام نہیں لے گا۔ اس کے قدم مضبوط ہو گئے تو اردگرد کے دوسرے ممالک پر جہاں کی زمین تیل اگلتی ہے پوری طرح اپنے پنجے گاڑ دے گا اور پھر ۔۔۔۔
ہمارے پاس صرف احتجاج کا وہی کمزور ہتھیار ہوگا۔ مہذب دنیا کی اقوام بھی اپنی احتجاجی ریلیوں کا خراج پیش کریں گی۔۔۔۔ لیکن نہیں !
مجھے یقین ہے‘ ہماری قوت و حمیت جاگ جائے گی کہ ہماری غیرت کو وہ دھچکا لگا ہے جو اس سے پہلے شاید کبھی نہ لگا تھا۔
اس وقت یقین کی قوت ہمیں دلاسا ہی نہیں دے سکتی بلکہ عالم اسلام کی فضا میں پھیلی ہوئی گمان کی وہ گرد بھی صاف کر سکتی ہے‘ جو عالمی سیاست کے ماہرین نے اپنے زہریلے پروپیگنڈے سے پھیلا رکھی ہے۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جو اسلامی معاشرے کی رگ رگ میں اتارا جا رہا ہے ۔ مہذب دنیا کے پروپیگنڈے کا یہ ہتھیار اتنا مہلک ہے کہ بڑے سے بڑا کیمیائی ہتھیار بھی اس کی تاب نہیں لا سکتا۔ عراق پرآتش و آہن کی بارش کے بعد اسی ہتھیار نے عراق کی حریت پسند تحریک کو بے موت مار دیا ہے۔ صدام حسین اور اس کا ہراول دستہ یک لخت وقت کے منظر نامے سے یوں غائب ہو گیا ہے جیسے کبھی ان کا وجود ہی نہیں تھا۔ صدام حسین زندہ ہے یا شہادت کے رتبے کو پہنچ گیا؟ ۔۔۔ اس کے بارے میں قبل از وقت کچھ کہنا ممکن نہیں۔ تاہم ممکنہ اطلاعات کے مطابق آغاز ہی میں جس قیامت خیز بمباری سے عراق کی تین ڈویژن فوج کو جلا کر راکھ کر دیا گیا‘ اور پھر ایک ہزار پاؤنڈ وزنی گائیڈڈ میزائل‘ لیزر گائیڈڈ میزائل اور آخر تک ٹام ہاک کروز میزائل کی تباہ کاری نے بغداد پر جو قیامت برسائی‘ ذہن میں کتنے ہی حوصلہ شکن امکانات پیدا ہونے لگتے ہیں۔جبکہ یہ سوال بھی اپنی جگہ ہمارا منہ چڑا رہا ہے کہ اگر صدام حسین زندہ ہے تو پھر اپنے پُرعزم ہراول دستے سمیت آخر کہاں چھپ گیا ۔ کیا اس کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ پوری کی پوری فوج (اگر قیامت خیز بمباری سے بچ گئی ہے تو) آخر کس کرہ ارض پر پناہ گزیں ہے؟۔۔۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس کی للکار محض دیوانے کی ایک بڑ تھی۔ ایسی بڑ جس کی وجہ سے پوری عراقی قوم امریکی غارت گری کا شکار ہو گئی۔ یہی وہ پروپیگنڈے کا زہریلا ہتھیار ہے جس کے مہلک استعمال کے بعد صدام حسین کے حامی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ صدام نے عراقی قوم کے نہتے جوانوں‘ بو ڑھوں‘ عورتوں اور معصوم بچوں کو مروا دیا۔ اور امریکہ نے جو کچھ کیا ٹھیک ہی کیا کہ جو زندہ ہیں انہیں تو سکھ کا سانس نصیب ہو۔ بے شک غیر اقوام کا غلام بن کر ہی سہی کہ یہ غلامی صدام جیسے ’’ڈکٹیٹر‘‘ کے عہد حکومت کی آزادی سے کہیں بہتر ہوگی۔ صدام جیسا ڈکٹیٹر اگر جنگ سے پہلے اور پھر جنگ کے دنوں میں بھی اپنی قوم کے ساتھ گھل مل کر رہا تو یہ اس کی شاطرانہ سیاست کا ایک پہلو تھا۔ وہ ڈکٹیٹر تھا اورآئندہ بھی ڈکٹیٹر ہی کہلائے گا۔ اس نے پوری قوم کے ساتھ دو مرتبہ مذاق کیا۔ حریت کا نعرہ لگا کر روئے زمیں کی سب سے بڑی طاقت کو اپنا دشمن بنا لیا جس کے نتیجے میں نہتے عوام کو موت کا شکار ہونا پڑا۔ وائیٹ ہاؤس سے اٹھنے والی آوازیں عراقی عوام کے حق میں یونہی نہیں اٹھیں۔ اپنی امریکی قوم سے کہیں زیادہ امریکہ کو صدام کے پنجہ ظلم میں دبے ہوئے عراقی عوام کا خیال رہا ہے۔ اسی لیے اس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا۔ اب صرف امریکہ ہی ان کا نجات دہندہ ہے۔ اس معرکے میں اگر کچھ زخم لگے بھی ہیں تو تعمیر نو کے بعد سب زخم مندمل ہوجائیں گے۔ نئی کونپلیں کھلیں گی تو تازہ پھولوں کے خوشنما رنگوں سے امن و اماں کی نئی خوشبو بکھر جائے گی۔
اب آپ ہی سوچیں کہ پروپیگنڈے کا یہ ہتھیار ان کیمیائی ہتھیاروں سے کتنا مہلک ہے جو مہذب دنیا کے نام نہاد انسانیت دوست نے اپنے سمندروں کی تہوں میں چھپا رکھے ہیں اور جس کے استعمال سے تین بار دنیا کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے استعمال کی نوبت کیوں آئے کہ اس سے بھی بڑا ہتھیار ان کے پاس ’’پروپیگنڈے کا ہتھیار‘‘ ہے جس کے بل بوتے پر وہ شہیدان ملت کو بھی ملت کے دشمن اور غدار ثابت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ وقت بعد میں جو بھی ثابت کرے لیکن یہ امر واقعی ہے کہ امریکہ کے پروپیگنڈے کا یہ ہتھیارکیمیائی ہتھیاروں سے زیادہ مہلک ثابت ہو کر چل چکا ہے۔اوراس کے مہلک اثرات تمام دنیا ہی پر نہیں‘ اسلامی معاشرے پر بھی نظر آنے شروع ہو گئے ہیں۔ یہ اثرات کب ختم ہوں گے‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن پھر وہی امید کی ایک کرن نہ جانے کہاں سے گمان کے اندھیروں میں اترنے لگتی ہے کہ سورج جو مشرق ہی سے طلوع ہوتا ہے‘ مشرق کے مسلمان محکوم ممالک کو ذلت و رسوائی کے اندھیروں سے نکال کر ایک دن ان پر بھی آزادی و خود مختاری اور امن و خوش حالی کے اجالے بکھیر دے گا۔

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

سرزمین عراق پر امریکی جارحیت (جو تا حال جاری ہے) کے دوران یہ چند نظمیںجو اَب ایک مجموعے کی صورت میں شائع ہو رہی ہیں‘ میری گزشتہ چند بے خواب راتوں کے محسوسات کا حاصل ہیں۔ سرزمین عراق پر ہر روز گزرنے والے ایک نئے سانحے‘ ہر لمحہ ایک نئی واردات نے سینہ و دل پر زخموں کی تعداد میں اضافہ ہی کیا۔ یہ زخم احساس کی زبان اور لفظوں کے پیکر میں ڈھل کر کاغذ پر عکس فشاں ہوئے تو میں نے دیکھا کہ ایک مختصر مجموعہ ترتیب پا چکا ہے۔ سو اَب اسے ایک شعری حوالے سے نہیں‘ عراق کے شہیدوں ‘ بے گناہ اور معصوم بچوں پر امریکی جارحیت کے خلاف پیدا ہونے والے احساس اور حریت پسندوں کے جذبوں کی ترجمانی کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔مجموعے کے آغاز میں تین نظمیں اگرچہ عراق کی قیامت خیز تباہ کاری سے قبل لکھی گئیں ‘ تاہم اس لیے شامل کر لی گئی ہیں کہ ان کا موضوعاتی تسلسل بھی وہی ہے جو اِس تباہ کاری کے دوران میں مسلسل تخلیق ہونے والی ان نظموں کا ہے۔ اِن کے معیارسے قطع نظر اس امر کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ میری بعض نظموں میں اسلامی نظریہ و فکر کا پہلو ضرور شامل ہے‘ اور بعض میں کسی حد تک کیفیاتی اور تخلیقی عنصر بھی نظر آئے گا۔ امریکی جارحیت کا شکار ہونے والے (تصوارتی نہیں بلکہ) زندہ کرداروں پر بھی آپ کو دو تین نظمیںملیں گی۔ علی اسماعیل عباس پر تین نظموں کا تسلسل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان میں کسی حد تک داستانی عنصر بھی شامل ہو گیا ہے کہ یہ سرزمین بغداد کا ایک تہذیبی پہلو بھی رہا ہے‘ تاہم یہ محض اسلوب اور طرزِ اظہار کی حد تک ہے کہ میرے لیے علی اسماعیل عباس کا زندہ وجود پورے عراقی عوام کی مظلومیت کا استعارہ بن چکا ہے۔
کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ جبر و ستم کی ابھی کتنی راتیں باقی ہیں۔ عراقی عوام پر قہر و غضب کے کون کون سے حربے آزمائے جائیں گے۔ تعمیر نو کے لیے ابھی کتنے بے گناہوں کے سر قلم کیے جائیں گے‘ اس خطہ ارض کا نقشہ کیا ہوگا‘ مسلمانوں کا خوابیدہ ضمیر کب جاگے گا اور کب یک جان و یک قالب ہو کر یہ امت محکوم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کر سکے گی۔۔۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔۔۔لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جہاد جیسے مقدس لفظ کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے صلیب کے پرستاروں نے اگر اسے دہشت گردی کا نام دے دیا ہے‘ (اور ہمارا ہمسایہ ملک بھی ’’حق ہمسائیگی‘‘ ادا کرتے ہوئے صلیبیوں کے اس حربے سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کی بنیادوں کو ڈھانے کے ناپاک عزائم رکھتا ہے) تو ہم یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ جس کی جو زبان ہے‘ اسی زبان میں بات کرے گا۔ اگر وہ جہاد کے مقدس عمل کو دہشت گردی کہتا ہے تو ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ وہ اپنی ناپاک زبان میں ہمیں جہاد سے روکنے کا حربہ استعمال کر رہا ہے۔ اگر وہ اسلام کی اصل بنیاد کو بنیاد پرستی (Fundamentalism) کہتے ہوئے ہمیں غیر ترقی یافتہ قرار دینے پر تلا ہوا ہے تو ہمیں کیوں تسلیم نہیں کہ ہماری ترقی اور عظمت کا راز اسی بنیاد پرستی میں ہے۔ بنیاد کے بغیر تو ایک معمولی سی عمارت کا وجود بھی ممکن نہیں۔
جہاد کے مقدس عمل کے لیے اسے اپنی زبان میں ’’دہشت گردی‘‘ کے الفاظ ملے ہیں۔
اسلام کی اصل اساس کے لیے اس کے پاس ’’بنیاد پرستی‘‘ کی اصطلاح ہے۔
سو‘ اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم
اپنی نگاہ میں ہیں کیا؟ اس کی نظر میں کون ہیں؟

خالد علیم
16 اپریل 2003ء
 

نوید صادق

محفلین
نعتیہ

ترے فراق کا غم ہے مجھے نشاط انگیز
یہی ہے راہرو شوق کے لیے مہمیز

اِسی کے نم سے ہے باقی مری نگاہ کا نور
اِسی کے سوز سے ہے ساز دل نوا آمیز

اِسی کا جذب خوش آہنگ ہے نظر میں کہ آج
مرا کدو ہے مئے سلسبیل سے لبریز

یہی ہے نغمہ‘ دل افروز ساز جاں کے لیے
اِسی سرود سے پیدا ہے جوہر تبریز

اِسی کی ضرب سے تارِ ربابِ جاں میں سرور
اِسی کا لحن ہے دل کے لیے سکوں آمیز

مرے کلام میں تاثیر اِسی کے دم سے ہے
اِسی سے فکر کی بنجر زمین ہے زرخیز

یہ آرزو ہے بہشت حجاز میں پہنچے
یہی زمین ہے خالد کو خلد عنبر بیز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرے کریم! کرم ہو کہ پھر زمانے میں
حریف ملت اسلام ہے جہان ستیز

ہو کوئی چارہ کہ غارت گری ہے شیوہ کفر
بپا ہے ارض مقدس پہ فتنہ چنگیز

اسی سے لرزہ براندام خاک بوسنیا
اسی کے شر سے دل سرب تھا شرار انگیز

نظر فروز ہو آئینہ نگاہ ترا
کہ کھا گئی ہے بصارت کو دانش انگریز

جہان کفر اسی کی عطا سے زندہ ہے
اسی کے فیض سے اب تک ہے جام جم لبریز

اُدھر یہود و نصاریٰ کے بڑھ رہے ہیں قدم
اِدھر ہوئی تری امت کے دل کی دھڑکن تیز

یہ تیرے چاہنے والے‘ یہ تیرے اہل صفا
کریں گے اور کہاں تک جہاد حق سے گریز
 

نوید صادق

محفلین
تا حال شہادتوں کا جاری ہے سفر
ہیں آج بھی اہل دیں کے سر نیزوں پر
شمشیر ستم کہ بے نیام آج بھی ہے
ہے آج بھی خاکِ کربلا خون میں تر


اک پنجہ ظلم ہے رگِ ہستی پر
ظلمات بدوش ہے یزیدی لشکر
اک معرکہ خیر و شر برپا ہے
عالم ہے تمام کربلا کا منظر
 

نوید صادق

محفلین
کروں تو کیا کوئی حرف نشاط رنگ رقم
بہت دنوں سے چراغ حرم کی ہے ضو کم

بہت دنوں سے دہکنے لگی ہے آتش دیر
بہت دنوں سے ہوا کا مزاج ہے برہم

بہت دنوں سے اندھیرے مرا مقدر ہیں
بہت دنوں سے دنوں پر ہے رات کا عالم

رگوں میں آگ نہ بھر دیں کہیں لہو کی جگہ
کف وجود پہ رکھے ہوئے شرار عدم

کچھ اہل دل کی اُدھر لوح آسماں کی طرف
کھلی ہے درد کی چشم ہزار قطرۂ یم

امیر شہر کی جاتی نہیں پریشانی
کچھ اہل شہر کا شیرازۂ جنوں ہے بہم

بجھا دیے ہیں ستارے کہ دن نکل آئے
مگر یہ کیا کہ ہے سورج کی روشنی مدھم

شبوں کے جاگنے والوں پہ اب بھی جاگتا ہے
چمکتے دن میں فسردہ سحر کی آنکھ کا نم

کچھ اہل درد کو اب بھی سنائی دیتا ہے
ہوا کے دوش پہ گزری بہار کا ماتم

ستم کہ ہے مرے خنجر کی دھار کند ابھی
نیام کفر سے نکلی ہوئی ہے تیغ دو دم

مگر یہ ہے کہ سروں پر ہے آسمان ابھی
ابھی یہ ہے کہ زمیں پر ٹکے ہوئے ہیں قدم

ہزار ہاتھ گریباں پہ پڑنے والے ہیں
مگر عجب کہ ابھی پاؤں میں ہے جرأت رم

لہو لہو ہے ابھی پیرہن خیالوں کا
مرے ہی زخم سے تر ہے مری زبان قلم

میں ایک عمر رہا خواب خوش گماں کا اسیر
میں ایک عمر سمجھتا رہا ہوں شہد کو سم

مری نگاہ میں پیدا نہیں ابھی وہ نیاز
زباں سے رشتۂ دل کو کرے جو مستحکم

میں کیا کروں کہ مجھے تابِ عرضِ حال نہیں
میں کیا کروں کہ مرے دوش پر ہے بار اَلَم

اٹھا رہا ہوں زباں سے میں اعتراف کا بار
مگر یہ ڈر ہے کہیں ڈگمگا نہ جائیں قدم
 

نوید صادق

محفلین
امن اور جنگ

امن عالم کے خداوند یہ سب جانتے ہیں
کس کا بہتا ہے لہو‘ کون بہاتا ہے لہو
کس کی گردن پہ ہے شمشیر کی نوک اور یہ شمشیر کہاں سے آئی
پاؤں کس کا ہے تو زنجیر کہاں سے آئی
کس کو دکھلایا گیا امن کا خواب
اور پھر اس خواب کی تعبیر کہاں سے آئی
بے گناہوں کے لیے جبر کی تعزیر کہاں سے آئی
کس کے ہاتھوں سے ہوئی قتل گہوں کی تعمیر
اور درپردہ تعمیر یہ تخریب کی تدبیر کہاں سے آئی
امن عالم کے خداوند یہ سب جانتے ہیں
کس نے انسان کو پابند سلاسل رکھا
کس نے منزل کا دیا کس کو فریب اور کسے آوارہ منزل رکھا
کس نے زرخیز زمینوں کو بنایا بنجر
کس نے شاداب‘ مہکتے ہوئے قریوں کے مکینوںکو کفن پہنائے
کس نے محکوم کی رگ رگ میں اتارے خنجر
اور تہمت ہے لہو کی کس پر
کس کی دہشت نے کسے لرزہ براندام کیا
اور پھر الزام بھی کس پر آیا
امن کے نام پہ جنگوں کا یہ دستور نکالا کس نے
ہاتھ کس کا ہے‘ گریباں کس کا
دھجیاں کس کی اڑیں کس کا بدن چاک ہوا
اور لہو کس کا‘ اچھالا کس نے
کس کے سرسبز دیاروں کو لہو رولتے آفاق میں ڈھالا کس نے
امن عالم کے خداوند یہ سب جانتے ہیں
امن عالم کے خداوندوں کا یہ فلسفہ ہے
کہ جو باشندہ مغرب ہے وہ باشندہ آفاق بھی ہے
اس کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر‘ وہی زندگیوں کا ہے خداوند
کہ سورج جو یہ مشرق سے نکلتا ہے
تو اس پر بھی اسی کا حق ہے
روشنی ساری زمیں پر جو بکھرتی ہے تو کیا
صبح مشرق سے اترقی ہے تو کیا
کرہ خاک کے ہر قریے میں
ایک ایک کرن لے کے ابھرتی ہے تو کیا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا ہے‘
وہی سورج کا خداوند بھی ہے
امن عالم کے خداوندوں کا یہ فلسفہ درپردہ امن
خطہ شرق کے دم توڑتے انسانوں سے اک جنگ کا اعلان بھی ہے
امن کے نام پہ اس جنگ کا اعلان مگر
برتر اقوام کے مغرور خداؤں کی عنایات کا تاوان بھی ہے
اور منطق ہے یہ کچھ مصلحت اندیشوں کی
امن غیرت کے بدل میں بھی جو مل جائے تو یہ جنگ سے بہتر ہوگا
لیکن ان حیلہ گروں سے کوئی یہ تو پوچھے
امن کے نام پہ ہر معرکہ جنگ و جدال
کس نے برپا کیا اور کس کا لہوکس کی زمیں پر ٹپکا؟
کون اس معرکہ جبر میں آخر تہ شمشیر ہوا اور یہ شمشیر کہاں سے آئی؟
پاؤں کس کا ہے تو زنجیر کہاں سے آئی؟
 

نوید صادق

محفلین
عراق نامہ

مرے حریف کو شکوہ ہے ایک مدت سے
اسیر بصرہ و بغداد کیوں ہے دل میرا
اور اس پہ آج وہ کچھ اس لیے ہے گرمِ ستیز
کہ اس کی قید سے آزاد کیوں ہے دل میرا

مری زبان پہ قدغن‘ مرے بیاں پہ گرفت
وہ میرا صبر ابھی آزمانا چاہتا ہے
کہ بے ضمیروں کی صف میں مجھے کھڑا کرکے
مجھے مری ہی نظر سے گرانا چاہتا ہے


وہ چاہتا ہے کہ میری نگاہ میں نہ رہے
بچی کھچی ہوئی ایمان کی رمق کہ جو ہے
وہ چاہتا ہے کہ تالو سے اس کو چپکا دے
کہ جس زبان پہ اب تک ثنائے حق کہ جو ہے

میں سچ کہوں کہ وہ یہ بات جانتا ہی نہیں
جو جاگ اٹھے گا اک بار حریت کا ضمیر
کرے گا پھر اُسی روحِ جہاد کو بیدار
جو توڑ دے گی غلامی کی یہ کڑی زنجیر

لہو سے اور بھی یہ آبیار ہوتا ہے
عجب ترنگ مسلمان کے خمیر میں ہے
یہ نکتہ مجھ پہ شہیدانِ حریت سے کھلا
نشہ وہ مے میں کہاں‘ جو سنان و تیر میں ہے

میں جانتا ہوں مگر وہ یہ جانتا ہی نہیں
اسیر بصرہ و بغداد کیوں ہے دل میرا
مری نگاہ میں منظر تو اس سپاہ کا ہے
کہ جس سے زندہ ہے یہ عزمِ مستقل میرا

وہ عزم جس سے یزیدوں کے آہنی تیور
جہاں میں ایک پر کاہ سے زیادہ نہیں
غبارِ راہ کی مانند بیٹھ جاتے ہیں
وہ ذرّے جن میں نہیں آندھیوں کا عزم و یقیں

یہ کاروانِ حرم ہے‘ یہ ناتواں ہی سہی
ہزار قافلے اس کارواں سے نکلیں گے
چمک اٹھے گا رگِ مردہ میں ضمیر حیات
سحر کے رنگ اسی ناتواں سے نکلیں گے


میں جانتا ہوں کہ میرا حریف جانتا ہے
یہ قافلہ ہے وہی اور وہی ہے رودِ فرات
نہیں حسین تو کیا‘ پرچم حسین تو ہے
وہ خاکِ راہ سہی‘ گر نہیں حسین صفات

کنارِ دجلہ وہی‘ گردشِ زمانہ وہی
وہی ستارے‘ وہی چاند‘ آسماں بھی وہی
پھر اک سپاہِ ستم پیشہ کے مقابلے میں
ہے دشت کرب کا رہوارِ نیم جاں بھی وہی

وہی عراق ہے اور دشت کربلا بھی وہی
وہی ہے کوفہ مگر دستِ کوفیاں کوئی اور
نجف میں لشکریانِ وفا کی پیاس وہی
اور اس پہ طعنہ زنی میں ہے تر زباں کوئی اور


وہ کوئی اور ہے لیکن وہی ہے خوئے یزید
جو ہر حسین کے سر کو کچلنا چاہتی ہے
وہ دست کفر پہ بیعت کا حوصلہ دے کر
مزاج‘ اہل یقیں کا بدلنا چاہتی ہے

مگر یقیں تو یقیں ہے‘ گمان کیسے ہو
کہ ہر گمان پہ آخر یقین غالب ہے
سبھی مذاہب باطل کا ہے شکست انجام
جہاں میں میرے پیمبر کا دین غالب ہے
 

نوید صادق

محفلین
خطا معاف !

خطا معاف !

جہاں پناہ! ہمارا ہی حوصلہ ہے کہ ہم
جہاں پناہ تجھے مانتے ہیں‘ جانتے ہیں
جہاں پناہ! ہمارا ہی حوصلہ ہے کہ ہم
ترے حضور میں کشکول ہیں اٹھائے ہوئے
ہم اپنے تخت‘ ہم اپنی کلاہ کی خاطر
بدن خمیدہ ہیں تیرے حریم ابیض میں
کھڑے ہیں ہم ترے قدموں میں سر جھکائے ہوئے
جہاں پناہ تری خیر ہو کہ ہم نے ہی
حریم قدس سے بڑھ کر تجھے مقام دیا
دیا زوال جو خود کو‘ تجھے دوام دیا
جہاں کے سچے‘ حقیقی جہاں پناہ کو ہم
جہاں پناہ سمجھتے تو بات بن جاتی
غلام اپنی یہ سب کائنات بن جاتی
ہماری عقل تو ہے تیرے فہم کی پابند
جہاں پناہ ترے فہم و فکر کی سوگند!
جہاں پناہِ حقیقی کی بارگاہ میں ہم
گر ایک بار بھی شرمندگی سے سر اپنا
جھکا لیں اور نگاہوں کو قبلہ رو کر لیں
فقط تجھے نہیں‘ تسخیر چارسو کر لیں
مگر کہاںکہ ہمارے دلوں میں نام ترا
کچھ ایسے نقش ہوا ہے کہ مٹ نہیں سکتا
جہاں پناہ! ہماری خطا معاف! کہ یہ
فقط زبان کی لغزش ہے‘ اور کچھ بھی نہیں
تو جانتا ہے‘ ہمیں لغزشوں کی عادت ہے
جہاں پناہ ہمارا تو حال اب یہ ہے
ہماری فجر بھی تیرے حضور جاگتی ہے
ترے حضور ہمارا قیام اور قعود
ترا قدم ہے ہماری جبیں کا داغِ سجود
ہمارے ہاتھ دعا کے لیے جو اٹھتے ہیں
فقط خدا کی رضا کے لیے جو اٹھتے ہیں
ترے حضور میں اٹھتے ہیں جاہ و زر کے لیے
خدا کو چھوڑ دیا ہم نے تیرے در کے لیے
ہم آسمان کو بھی تیرے در سے دیکھتے ہیں
خدا کے گھر کو بھی تیری نظر سے دیکھتے ہیں
جہاں پناہ! تو ہم سے زیادہ جانتا ہے
کہ ہم خدا کے نہیں ہیں‘ غلام تیرے ہیں
نہ آفتاب ہمارا‘ نہ ماہتاب اپنا
ہمارے دیس کے سب صبح و شام تیرے ہیں
ہمارا جوہر ذاتی اگر کوئی ہے بھی
ترے حریم میں وہ رہن طاق رکھا ہے
اور اس اثاثہ و نقد گراں بہا کے عوض
ہمارے پاس زرِ افتراق رکھا ہے
ہماری کوئی حمیت‘ نہ ہے انا کوئی
ترے سوا تو ہمارا نہیں خدا کوئی
یہ جرم ہم نے کیا ہے کہ ہم نے صرف تجھے
تمام دہر کا حاجت روا بنایا ہے
خود اپنے ہاتھ سے ہم نے تراش کر تجھ کو
خدا کو چھوڑ کے اپنا خدا بنایا ہے
یہ جرم ہم نے کیا ہے‘ سزا بھی ہم کو ملے
ترے عروج کے ہر آتشیں حصار میں ہم
جھلس بھی جائیں تو لب بند ہوں‘ زباں نہ کھلے
کہ تیرے حکم کی تعمیل ہم پہ لازم ہے
جہاں میں تجھ سے ہمارا وقار قائم ہے
کریں بھی کیا کہ ہماری نجات تجھ سے ہے
جہاں میں اصل حیات و ممات تجھ سے ہے
تو جس کو چاہتا ہے‘ اس کو زندہ رکھتا ہے
تو جس کو چاہتا ہے‘ اس کو مار دیتا ہے
اُسی کے گردن و بازو تو کاٹتا ہے کہ جو
گلے سے طوق غلامی اُتار دیتا ہے
جہاں پناہ تری ضرب کتنی کاری ہے
کہ تیرے قہر سے لرزہ جہاں پہ طاری ہے
ہمارے دل کی رگیں سرد ہونے لگتی ہیں
ہمارا حامی و ناصر جو تو نہیں ہوتا
اگر یہ بات کہ اپنے لہومیں کیوں نہیں جوش
ضمیر مردہ کے تن میں لہو نہیں ہوتا
ہماری آنکھ کا پانی تو مر چکا لیکن
ہمارے تن میں لہو کے بجائے‘ پانی ہے
ٹھہرتے پانی سے بجلی چمک تو سکتی ہے
مگر وہ آگ جو دیتی ہے زندگی کو دوام
ہمارے جسم کے پانی سے سرد ہو بھی چکی
جگائے جو کبھی سوئی ہوئی حمیت کو
وہ تیری راہ میں مدت سے گرد ہو بھی چکی
جہاں پناہ ہمیں تیری عظمتوں کے طفیل
ترے عروج کا اک اور تازیانہ لگے
ہمارے ہاتھ جو کشکول ہیں اٹھائے ہوئے
خود ان کو کاٹ کے رکھ دے‘ اگر برا نہ لگے
خطا معاف! ہماری خطا معاف! کہ ہم
خراب حال سہی! ناتواں سہی! لیکن
سوال میں بھی نحیف و نزار ہیں ہر چند
جہاں پناہ! یہ سہو زباں سہی! لیکن
بس اک سوال ہے‘ کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں
جہاں پناہ! تری اس جہاں پناہی کو
ہمیں یہ تو ہی بتا دے‘ زوال کب ہوگا
ہمارے ایک صدی کے غلام لوگوں کو
ترے جہان میں حاصل کمال کب ہوگا
 

نوید صادق

محفلین
سرزمین عراق

سرزمین عراق
(خلافت عثمانی کی یادگار ترکی کی اتحادیوں سے موافقت پر)

دہانِ آتش و آہن میں ہے زمین عراق
یہ پھول پھول وطن بھیڑیوں کی زد میں ہے
ستم یہ ہے ‘ نجف و کربلا کی ارض قدیم
نئے جہان کے غارت گروں کی زد میں ہے

اور اس پہ ہے مری ملت کی بے حسی ایسی
یہ انبیاء کا وطن‘ یہ بہار رنگ زمیں
دہان آتش و آہن میں آ گئی ہے تو کیا
زمین جس کی ہے‘ اس پر ہوئی ہے تنگ زمیں


یہ بے حسی بھی کسی طور مان لیں لیکن
وہ کم نگاہ بھی دشمن کی صف میں جا بیٹھا
میں جانتا ہوں کہ دشمن کی دوستی کیا ہے
ہدف پہ ٹوٹنے والا‘ ہدف میں جا بیٹھا

میں کیا کہوں کہ مشیت کا فیصلہ یہ ہے
جو قتل گاہ میں قاتل کا ساتھ دیتا ہے
اسی پہ پہلے برستا ہے تازیانہ وقت
کہ جلتی آگ میں خود اپنا ہاتھ دیتا ہے

گواہ خود بھی ہے تاریخ اس حقیقت کی
وہ قوم چھوڑ دیا جس نے راستی کا چلن
وہ اپنی موت سے پہلے ہی مر گئی آخر
اسی نے پایا ہے انعامِ مرگِ روح و بدن


یہ دوستی بھی عجب ہے‘ یہ دشمنی بھی عجب
یہ بے حسی کی علامت تو ہو نہیں سکتی
فقط یہ ہے کہ خود اپنی ہی آبرو کھوئی
اور اس پہ گرم قیامت تو ہو نہیں سکتی

قیامت آئے گی جب آئے گی پر اب یہ ہے
یہی ہے روز قیامت‘ یہی حساب کا دن
جزا کے بعد ترے دست دوستی سے ذرا
پڑیں گے کتنے‘ سزا کے بھی تازیانے‘ گن

قیامت آئے گی اور روز حشر بھی ہوگا
یہ سوچ کیسی قیامت عراق پر آئی
بھری بہار میں ہر پھول جل کے راکھ ہوا
ترے حلیف نے کیسی وہ آگ برسائی

یہ آگ برسی ہے اس سرزمین پر کہ جسے
سمجھتے تھے ترے اجداد قدسیوں کا وطن
کہ اس میں دفن ہیں صدیوں سے کتنے پیار کے ساتھ
ترے بزرگوں کے اجسام‘ انبیاء کے بدن

یہ سرزمین بزرگان و انبیائے کرام
کہ جس کا درد مرے دل میں ہے لہو کی طرح
وہ جس کی خاک مجھے سرمہ جواہر ہے
عزیز ہے مجھے اپنی ہی آبرو کی طرح

سفید چرم کئی بھیڑیوں کی زد میں ہے
یہ سرزمیں کہ جہاں سے کھلا تھا باب حرم
چلی تھی آل براہیم جس سے سوئے حجاز
اسی خمیر سے اٹھی ہے آب و تاب حرم


یہیں سے پھوٹے ہیں تاریخ کے سبھی دھارے
یہیں سے دہر کی تہذیب کے چراغ جلے
یہیں سے ملک و ملل کو ملا وقار حیات
یہیں سے سلسلے ساری امارتوں کے چلے

ہر ایک نسل اسی سرزمین سے اٹھی
چلی تو سوئے شمال و جنوب پھیل گئی
اسی زمیں سے ملی شرق و غرب کو توقیر
چہار سمت میں ہر نسل خوب پھیل گئی

اسی دیار‘ اسی سرزمین ہی سے ملا
ہر ایک نسل کو اپنا تشخص‘ اپنا مقام
ہر ایک نسل پہ احسان اس کا آج بھی ہے
یہ سرزمین بزرگان و انبیائے کرام

گواہی دیتا ہے اب بھی اسی زمیں کا وجود
کہ زندہ دہر میں اولاد آدم آج بھی ہے
میں اس کا رتبہ تقدیس کیا بیان کروں
اگر یہ پاؤں کے نیچے ہے‘ سر کا تاج بھی ہے

یہ سرزمیں‘ مرے اجداد کا یہ سرمایہ
جہان نو کے ستم کار کی نگاہ میں ہے
بس ایک خاک کی چٹکی‘ بس ایک وقت کی دھول
اڑا رہا ہے‘ بظاہر جو اس کی راہ میں ہے

خبر نہیں ہے کہ انجام کارزار ہو کیا؟
مگر یہ وقت کی تاریخ نے نظارہ کیا
وہ موج آپ لٹاتی ہے آبرو اپنی
کہ جس نے بحر کی امواج سے کنارہ کیا
 

نوید صادق

محفلین
سورج نکلا نہیں ابھی تک

سورج نکلا نہیں ابھی تک
(محاذ جنگ پر گئے ہوئے ‘ شوہر کے انتظار میں)

تم نے مری جاں! کہا تھا مجھ سے
یہ جبر کی رات جب ڈھلے گی
یہ درد کا چاند جب بجھے گا
آؤں گا سحر کی اونٹنی پر
اک صبح کو لوٹ کر ترے پاس
اترے گی آسماں سے ہم پر
پھر امن کی ایک صبح روشن


تیرے جانے کے بعد لیکن
تیری شاداب سرزمیں پر
برسی وہ آگ آسماں سے
پھولوں کا تو خیر ذکر کیا ہے
پتھر بھی راکھ ہو گئے ہیں
یہ سارا نگر اجڑ چکا ہے

سورج نکلا نہیں ابھی تک
چودہ راتیں گزر چکی ہیں
یہ جبر کی ہے جو رات سر پر
یہ رات بھی اب گزر رہی ہے
وہ دور کسی کھنڈر کے پیچھے
ہالہ سا ہے ایک‘ روشنی کا
شاید سورج چمک رہا ہے
وہ ساتھ ہی کچھ غبار سا ہے
کوئی ناقہ سوار شاید
اس اجڑے نگر کو آ رہا ہے
ہے یاد مجھے‘ کہا تھا تو نے
آئے گا سحر کی اونٹنی پر
اک صبح تو لوٹ کر مرے پاس
تیرے اُس ناقۂ سحر کا
شاید یہ وہی غبار سا ہے
اٹھتا ہوا آسماں کی جانب
وہ ساتھ ہی اک دھواں سا کیا ہے

کس سے پوچھوں کہ یہ وہی ہے
صبح روشن کی اونٹنی ہے
کوئی ناقہ سوار بھی تو
آیا نہیں لوٹ کر ابھی تک
میرے خاموش اس نگر میں
اے ہجر کے آسمان کے چاند
تو بھی چپ چاپ کیوں کھڑا ہے
کچھ تو ہی بتا جو یوں کھڑا ہے
کیا کچھ بھی تجھے خبر نہیں ہے
اس رات کے آخری پہر سے
میری آنکھیں کہاں جمی ہیں

لیکن اب چاند بھی کہاں ہے
(سر پر تو بس ایک آسماں ہے)
شرمندہ سا ہو کے چھپ گیا ہے
شاید مرا چاند آ رہا ہے

لیکن نہیں ایک بھی ستارہ
تاروں کا وہ کارواں کہاں ہے
اب صرف ہے آسمان سر پر
کوئی تارہ نہیں سفر پر
کیا جبر کی رات ڈھل گئی ہے
کیا درد کا چاند بجھ گیا ہے
کیا دور سحر کی اونٹنی پر
میرا وہ حبیب آ رہا ہے؟
لیکن نہیں‘ کچھ نہیں کہیں بھی
بس ایک دھواں سا آسماں تک
وہ دور کھنڈر سے اٹھ رہا ہے

یہ رات تو ڈھل چکی ہے لیکن
وہ چاند تو بجھ گیا ہے ہر چند
کیسی یہ گھڑی سحر کی آئی
ایک ایک کرن بجھی ہوئی ہے
کیوں زرد ہے آسمان کا رنگ
کیا کہر سی ہے اُفق پہ چھائی
سورج کی روشنی کہاں ہے
کیا صبح کا رنگ ہے حنائی
اس شہر کے مشرقی افق پر
چمکا نہیں وصل کا اجالا
سورج نکلا نہیں ابھی تک
سورج تو نکلنا چاہیے تھا
اس رات کو ڈھلنا چاہیے تھا
ہر چند یہ وقت ہے سحر کا
دھوکا ہی نہ ہو کہیں نظر کا

لیکن نہیں! یہ نہیں ہے ممکن
میں نے اپنی نظر سے دیکھا
اپنے اجڑے نگر سے دیکھا
وہ رات کے آسماں کے اس پار
تاروں کا جو قافلہ رواں تھا
ہر چند بہت ہی نیم جاں تھا
چلتے چلتے اُفق پہ پہنچا
اپنی جاں سے گزر گیا تھا
اس رات کے ساتھ مر گیا تھا
جب مر ہی گیا تو رات کیوں ہے
سوئی ہوئی کائنات کیوں ہے
خاموش ہے کیوں کنار دجلہ
چپ چاپ کھڑا فرات کیوں ہے
 

نوید صادق

محفلین
حفظِ ماتقدم

حفظِ ماتقدم

یہ سیہ خانہ ظلمات توہم بھی عجب ہے
کہ کوئی ایک کرن بھی نہیں ایسی
کہ جو اتنا بھی اجالاکر دے
مجھ کو میری ہی خبر مل جائے
میں تو پہلے ہی اندھیروں کے سیہ کار ارادوں سے
بہت ٹوٹ چکا ہوں کہ جو بکھرا ہوں تو مجھ کو نہیں معلوم
کہ بکھرے ہوئے ریزے میرے
کرہ ارض میں کس کس کی زمیں پر گر کر
ہو چکے خاک کہ ہیں دھول میں لپٹے ہوئے
کچھ بھی تو نہیںمجھ کو خبر
میرے معلوم کی سرحد مری آنکھوں کے اندھیروں میں
کہیں گم ہے کہ میں یہ بھی نہیں جانتا
معلوم کی سرحدکا ہے آغاز کہاں سے
مرے معلوم کی حد میری زمیں تک بھی اگر ہو تو چلو
یہ بھی غنیمت ہے مگر
مجھ کو معلوم کی سرحد بھی تو معلوم نہیں
ہاں مگر میں نے سیہ خانہ اوہام میں جلنے کے لیے اک ذرا
امید کا چھوٹا سا دیا رکھا تھا
اس کو پوری طرح جلنے کے لیے عزم کی تھوڑی سی توانائی
ابھی چاہیے تھی
اک پری خانہ صد رنگ کی عیار فضاؤں سے
سیہ کار ہواؤں نے وہ یلغار اٹھائی کہ
سیہ خانہ ظلمات توہم میں کہیں ایک دیا بھی نہ جل اٹھے کہ جل اٹھیں مرے اوہام کے ظلمات میں
امید کے اس ایک دیے سے مری ہمت کے چراغ

میرے معلوم کی حد
اس کے پری خانہ صد رنگ کی جانب نہ کہیں جا پہنچے
اس لیے اپنے پری خانہ صد رنگ کے عیار نے
سب سے بڑے ابلیس کی سرکردگی میں اتنے بڑے
لشکر ابلیس کو بھیجا ہے
کہ امید کا جو ایک دیا میں نے سیہ خانہ اوہام
میں جلنے کے لیے رکھا ہے
اس کو وہ اپنے سیہ کار ارادوں کی توانائی سے
ایک ہی ضرب سے پامال اس انداز سے کر دے
کہ سیہ خانہ اوہام میں آئندہ کسی اور دیے کو
کبھی جرأت ہی نہ ہو جلنے کی
 

نوید صادق

محفلین
مرے بچے!

مرے بچے!


مرے بچے !
تمہارا بابا اب تک جنگ کے میدان سے لوٹا نہیں ہے
لوٹ آئے گا تو اس جلتی ہوئی بستی سے‘ چل پھر کر
تمہارے واسطے اک تازہ روٹی ڈھونڈھ لائے گا
فرج میں صرف باسی توش کے ٹکڑے پڑے ہیں
جانتی ہوں میں‘ تمہاری بھوک ان سے مٹ نہیں سکتی
مگر کچھ بھوک کا احساس کم ہو جائے گا‘
کیوں رو رہے ہوتم؟
تمہارے آنسوؤں کو کیسے پونچھوں‘
میرے دونوں ہاتھ بھی تو کٹ چکے ہیں
کیا تمہیں معلوم ہے؟
جلتے ہوئے لوہے کے ٹکڑوں سے
یہ میرے دونوں بازو چھد گئے تھے
اب میں اپنے ناتواں کندھوں سے آخر آنسوؤں کے
گرم ریلے کو بتاؤ‘ تم بتاؤ‘ کیسے روکوں
اب یہ میرے ناتواں کندھے
تمہارے آنسوؤں کے بوجھ سے جھکنے لگے ہیں
میری آنکھوں کی چمک بھی ماند پڑتی جا رہی ہے‘
سانس بھی رکنے لگے ہیں

اے مرے بچے!
تم اپنے آنسوؤں کو روک لو!
اور تازہ روٹی کو ذرا سی دیر کو تم بھول جاؤ
اب فرج میں صرف باسی توش کے ٹکڑے ہی کافی ہیں
مگر خاموش کیوں ہو تم؟
تمہاری سسکیاں کیوں رک گئی ہیں؟
اور آنکھوں کی چمک۔۔۔لیکن نہیں ! یہ کیا؟
یہ آنکھیں بجھ گئی ہیں!
میری آنکھیں بجھ رہی تھیں‘
کیوں تمہاری روشن آنکھیں بجھ گئی ہیں
میری سانسیں رک رہی تھیں‘
کیوں تمہاری گرم سانسیں رک گئی ہیں
میرے بچے! تازہ روٹی ڈھونڈ کر وہ لانے والا تو
ابھی تک جنگ کے میدان سے لوٹا نہیں ہے
تم وہ باسی توش کے ٹکڑے تو کھا لیتے
مگر شاید تمہیں بھی اور بچوں کی طرح یہ توش کے ٹکڑے‘
یہ باسی توش کے ٹکڑے کبھی اچھے نہیں لگتے ۔۔۔!
 

نوید صادق

محفلین
علی اسماعیل ۔۔۔

علی اسماعیل ۔۔۔

زخمی ٹانگوں پہ وہ چلتا ہوا معصوم علی اسماعیل
خوف سے سمٹا ہوا اپنی پنہ گاہ سے باہر نکل آیا ہے علی اسماعیل
جانے کیسے اُسے معلوم ہوا ‘ اُس کی پنہ گاہ نہ یہ ہے
نہ کوئی اور
کہ اُس کو تو بس اتنی ہی خبر ہے
کہ پنہ گاہ سمجھتا تھا جسے
اپنے جلتے ہوئے بازواُسی بوسیدہ پنہ گاہ میں چھوڑ آیا ہے
مسکراتے ہوئے ماں باپ کے چہروں کو بھی وہ
موت کی اس وادیِ جانکاہ میں چھوڑ آیا ہے

آسماں کی طرف اٹھتی ہوئی اُس کی آنکھیں
کتنے لرزیدہ سوالوں سے بھری ہیں کہ نہیں اس کو بھی معلوم
کہ کیا ڈھونڈ رہی ہیںلیکن
خوف سے آہ وہ سمٹا ہوا معصوم علی اسماعیل
اپنی جنگاہ کی جانب بھی نہیں دیکھتا معصوم علی اسماعیل
اُس پنہ گاہ کی جانب بھی نہیں دیکھتا معصوم علی اسماعیل
 

نوید صادق

محفلین
عکس یقیں پہ صورتِ گردِ گماں رہی
شاید مری نگاہ پس کارواں رہی

ہر چند آسماں کی مسافت بھی کھینچ لی
لیکن مری اڑان بہت نیم جاں رہی

دریا تو خیر تھا ہی‘ مگر میرے عزم کی
وہ موج بھی تمہاری طرف ہی رواں رہی

مجھ سے ہی مانگ لی تھی رضا میرے قتل کی
قاتل کے ہاتھ میں مری فرد بیاں رہی

اتری مری زمیں پہ نہ امید کی کرن
تاریک رات سر پہ بہت سرگراں رہی

کیا ڈھل ہی جائے گی یہ قیامت کی رات بھی
آنکھوں میں دم رہا‘ نہ ستاروں میں جاں رہی

اٹھی جو بار بار نظر آسمان کو
اک خامشی بہ صورتِ وہم و گماں رہی

مت پوچھیے کہ صبح نے کیوں بند کی نگاہ
مت پوچھیے کہ رات قیامت کہاں رہی

مجھ کو بھی تیرے نام کی حرمت پہ ایک دن
مرنا تو ہے‘ اگر مری ہمت جواں رہی

کیا ہونگے تیرے چاہنے والے‘ یونہی اگر
رحمت تری ورائے زمان و مکاں رہی
 

نوید صادق

محفلین
بغداد جل گیا

بغداد جل گیا

خاموش کیوں ہے مرگِ حمیت پہ میری قوم
منہ میں زباں نہیں ہے کہ تن میں لہو نہیں
اک شہر جل گیا ہے کہ دل راکھ ہو گیا
حیران ہوں کہ شور کوئی کوبکو نہیں

نصرانیوں کے آتش و آہن کے زور پر
صہیونیوں کی آ کے پڑی اس پہ برق قہر
وہ شہر جل گیا ہے کہ جس کے وجود سے
مردہ دلوں سے اٹھی تھی اک حریت کی لہر


شہروں میں وہ جو شہر تھا ابن العمید کا
’’بغداد فی البلاد کالاُستاذ فی العباد‘‘
صہیونیوں کی برق بلا کا ہوا شکار
اس شہر بے مثال کا ہر ایک شہر زاد

شہروں میں وہ جو شہر تھا عظمت کی داستاں
قریوں میں وہ جو قریہ حکمت نشاں رہا
اہل حکم نے جس کو کہا سید البلاد
رُوئے زمیں پہ علم کا جو آسماں رہا

وہ شہر جل گیا ہے کہ جس شہر پر کبھی
چمکا ابونواس کی عظمت کا آفتاب
وہ شہر جل گیا کہ اٹھا جس کی خاک سے
جاحظ کے فکر و فہم کا تابندہ ماہتاب


غماز ہے کتابِ اغانی کا حرف حرف
منصور کا‘ زبیدہ و ہارون کا وہ شہر
علم و ادب کے کتنے خزانے لٹا گیا
آفاق میں خلافت مامون کا وہ شہر

اس شہر کے بدن میں خزانہ اک اور تھا
نصرانیوں نے اس کو وہاں سے نکال کر
برسا دیا ہے آگ کی صورت اسی پہ آج
اپنے عتابِ آتش و آہن میں ڈھال کر

میں جانتا ہوں بلکہ یہ ایمان ہے مرا
ارض خدا ہے تنگ نہ پائے فقیر لنگ
یہ شہر جل گیا ہے تو کیوں جل گیا یہ شہر
سب کی زبان گنگ ہے‘ سب کی ہے عقل دنگ


گو یاد ہے مجھے کہ اسی شہر میں کبھی
جعفر بھی قتل ہو گیا‘ یحییٰ بھی مر گیا
نقش برامکہ نہ مٹا لوح خاک سے
ہر چند اس کو ایک زمانہ گزر گیا

خاموش کیوں ہے مرگِ حمیت پہ میری قوم
منہ میں زباں نہیں ہے کہ تن میں لہو نہیں
اک شہر جل گیا ہے کہ دل راکھ ہو گیا
حیران ہوں کہ شور کوئی کوبکو نہیں
 

نوید صادق

محفلین
عزم

یہ خواب کون نہیں دیکھتا کہ اس کا وطن
دیار امن بھی ہو‘ اور جہاں وقار بھی ہو
یہ خواب کون نہیں دیکھتا کہ اس کا چمن
بہار رنگ ہو‘ پروردہ بہار بھی ہو

یہ خواب کون نہیں دیکھتا جو میں نے بھی
اک اپنے دیس کی عظمت کا خواب دیکھا ہے
فساد و فتنہ و شر سے اسے بچانے کو
وطن میں امن و محبت کا خواب دیکھا ہے


یہ اک چراغ جلایا ہے اس لیے میں نے
کہ اس چراغ سے کتنے ہی جل اٹھیں گے چراغ
ذرا سی کم ہی سہی میرے اس چراغ کی لو
چلیں گے روشنی لے کر ہزار تیرہ دماغ

اسی پہ آج سر دجلہ و فرات بڑھا
وہ بحر مکر و دغا کا سفید فام نہنگ
مری زمین کو پامال کرنا چاہتا ہے
حلیف بن کے جلو میں سیاہ کار فرنگ

وہ جانتا ہی نہیں اہل عزم کا ہے یقیں
یہ جنگ ہار بھی جائیں تو جیت اُن کی ہے
شکست دے نہیں سکتا کبھی ارادوں کو
رہیں گے مر کے بھی زندہ‘ یہ ریت اُن کی ہے
 
Top