خالد علیم - بغداد آشوب

نوید صادق

محفلین
تضاد

اک طرف رقص پہ آمادہ سیہ کار بدن
قریہ ارض پہ کہرام بپا ایک طرف
اک طرف زور پہ طوفان ہے بدمستی کا
اک طرف لشکر ابلیس‘ خدا ایک طرف

اک طرف محفل نغمات ہے سرگرم نشاط
نسل انساں ہے اُدھر خون میں تر ایک طرف
اک طرف رونق بازار وہی ہے کہ جو تھی
کٹ گئے ماؤں کے سب لخت جگر ایک طرف


اک طرف گرگ ستم پیشہ کی یورش ہے وہی
خطہ ارض پہ ہے ایک طرف جشن بہار
اک طرف سلسلہ آہ و فغاں جاری ہے
اک طرف موج پہ ہے اپنے مغنی کا خمار

اک طرف عیش ہی عیش‘ ایک طرف آگ ہی آگ
کرہ ارض پہ آخر یہ تماشا کیا ہے
جل گیا شہر وہاں اور یہاں ایک وہی!
’’تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے‘‘
 

نوید صادق

محفلین
یہ خاک زادوں نے کیسا ستم اٹھایا ہوا ہے
مری زمین کو بھی آسماں بنایا ہوا ہے

جہاں کبھی وہ بہتر سروں کی فصل کٹی تھی
سر فرات وہ مقتل تو پھر سجایا ہوا ہے

نہیں کچھ اور تو ایماں کی خیر ہو مرے مولا!
کہ رزمگاہ میں ابلیس ساتھ آیا ہوا ہے

بس ایک میری صدا جبر کے خلاف اُٹھی تھی
بس ایک مجھ پہ ہی اس نے ستم اٹھایا ہوا ہے

ابھی رُکی نہ تھی میرے لہو کی دھار کہ اس نے
اک اور دجلہ خوں شہر میں بہایا ہوا ہے

میں اس زمین پہ کس طرح سر اٹھا کے چلوں گا
ہر ایک شخص جہاں خون میں نہایا ہوا ہے

ہر ایک غنچہ و گل جل کے راکھ ہونے لگا ہے
مری زمین پہ کیسا عذاب آیا ہوا ہے

جو دل پہ وار پڑے‘ ان کی ٹیس کم نہیں ہوگی
جو زخم تن پہ لگے ہیں‘ انہیں بھلایا ہوا ہے
 

نوید صادق

محفلین
اسی امید پہ میری طرف وہ آیا ہواہے
کہ اس نے کچھ مجھے پہلے بھی آزمایا ہوا ہے

اُسی فریب سے میدان ہار دوں گا میں آخر
وہی فریب‘ جو پہلے بھی میں نے کھایا ہوا ہے

مجھے خبر ہے وہ اب بھی پرانی چال چلے گا
نئی بساط پہ مہرے تو اور لایا ہوا ہے

میں جانتا ہوں کہ بے دست و پا اسی میں گروں گا
وہ ایک جال جو چاروںطرف بچھایا ہوا ہے

نہ جل اٹھیں کہیں کچھ اور بھی چراغ کہ اس نے
اِس احتمال پہ میرا دیا بجھایا ہوا ہے

دکھا رہا ہے مجھے اس کی تیز دھار ابھی وہ
جو خنجر اس نے مرے واسطے بنایا ہوا ہے

ابھی رکھا نہیں میری رگ گلو پہ وہ خنجر
ابھی تو اس نے زمیں پر مجھے گرایا ہوا ہے
 

نوید صادق

محفلین
تعمیر نو

زمین انبیاء پر آج کیا پڑی اُفتاد
کہ پھر سے لٹ گیا بصرہ‘ اجڑ گیا بغداد
میں سوچتا ہوں کہ ذلت کے داغ کیسے دُھلیں
ہزار زندہ ہے اہل یقیں کا عزم جہاد
مسل کے رکھ دیا ہر ایک غنچہ نورس
کمین گاہ سے نکلا کچھ اس طرح صیاد
بنامِ امن بساطِ جہاں الٹنے لگی
عجیب رنگ بدلتا ہے عالم ایجاد
اُٹھو اور اُٹھ کے ذرا خم کرو سر تعظیم
نوید امن و اماں لا رہا ہے کارِ فساد
جہاں کے مدعیانِ ثقافت و تہذیب
خمیر ظلم سے سینچیں گے شہر کی بنیاد
دیارِ غرب کے اے بے مثال انسانو!
کرو گے شہر کی تعمیر نو‘ مبارک باد!
وہ شہر جس کو جلایا ہے اپنے ہاتھوں سے
اب اس پہ کاشت کرو گے تم اپنی فصل عناد
بہ رنگِ نو کھلا مجھ پر یہ گفتہ اقبال
’’کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد‘‘
 

نوید صادق

محفلین
علی اسماعیل ۔۔۔ 2

علی اسماعیل آج بغداد کی جلتی گلیوںسے
اجڑی ہوئی شاہراہوں سے آخر گزرتا ہوا
اک نئی سرزمیں کی طرف آ گیا ہے‘
مگر اس کو یہ تو خبر ہی نہیں ہے
کہ یہ سرزمیں بھی تو محکوم ہے
جانے کیوں اس نے وہ سرزمیں چھوڑ دی
جس پہ خود اس کے معصوم بچپن کے کتنے ہی سال
آئنوں کی طرح اس کی آنکھوں میں روشن رہے ہیں
نہ جانے اسے کیوں نہیں یہ خبر
ان گنت داستانوں‘ طلسمی حکایات‘
دلکش روایات کی سرزمیں
شہرزادانِ بغداد کی سرزمیں
اس کے آباؤ اجداد کی سرزمیں
اُن لٹیروں کے قبضے میں ہے
جو کبھی اُس کے اجداد کے سامنے دست بستہ کھڑے
گڑگڑاتے ہوئے کہہ رہے تھے
کہ بس ان کو اس شہر بغداد میں ایک دن کی اماں چاہیے
جب اماں مل گئی تو
الف لیلہ کی داستانوں‘ علی بابا کی سب حکایات
اور اس کے اجداد کی ساری دلکش روایات کو
ایک صندوق میں بند کرکے‘ نگاہیں چراتے ہوئے
اپنے قدموں کے سارے نشاں بھی مٹاتے ہوئے
اتنی تیزی سے اپنی پنہ گاہ کی سمت لوٹے
کہ کتنی ہی صدیوں تک اُن کی ہوا تک نہ پائی
مگر ایک دن گرد بادِ جہاں کا جو طوفان اُٹھا
تو پھر اُس کے اجداد کی
(کتنی صدیوں کے بعد آنے والی ) نئی نسل پر یہ کھلا
اُس کی ارضِ مقدس سے اک دن چرائی ہوئیں
وہ الف لیلہ کی داستانیں‘
علی بابا کی سب حکایات اور اس کے اجداد کی ساری دلکش روایات
میں کیمیائی طلسمات کا کس قدر زہر آمیز ہو کر
فضاؤں کو آلودہ کرنے لگا ہے
لٹیروں نے اس سرزمیں سے چرائے ہوئے
اُن روایات کے سب خزانے کو اپنی سیہ کار فطرت سے
کتنا سیہ کر دیا ہے
علی اسماعیل اپنی جلتی ہوئی شاہراہوں سے چپ چاپ
اک اور محکوم خطے کی جانب نکل آیا ہے‘
اس کا معصوم ذہن اپنے اجداد کی سرزمیں کے
المناک انجام پر سوچ سکتا نہیں
اُس کو بس یہ خبر ہے کہ اُس کے وہ بازو
وہ شاخِ بریدہ کی مانند اُس کے کٹے ہاتھ
اُس سرزمیں پر کہیں کھو گئے ہیں
 

نوید صادق

محفلین
علی اسماعیل ۔۔۔ 3

ابھی رات باقی ہے لیکن علی اسماعیل
اپنی آنکھوں میں اک اَن کہا خوف لے کر
نئی سرزمیں پر نئے شہر میں شاہراہِ خزاں رنگ پر
اک شفا خانے میں اپنے بستر پہ چپ چاپ
کھڑکی کے اس پاربرقی اجالوں میں
بکھری ہوئی رات کی سمت یوں دیکھتا ہے
کہ جیسے ابھی رات برقی اجالوں سے باہر نکل کر
شفق رنگ آندھی میں ڈھل جائے گی اور شفاخانے میں
اس کے بستر کی ساری سفیدی سیہ راکھ بن جائے گی
اپنے بستر پہ چاپ چاپ آئندہ کے خوف سے
کتنا سہما ہوا ہے علی اسماعیل
اس کی آنکھوں میں ہر چند
گزرے دنوں کے اجالے بھی ہیں
یاد ہیں اس کو بغداد کی وہ سحر تاب گلیاں
شفق رنگ دجلہ کا دلکش کنارہ
وہ گلیاں جہاں اس کے معصوم بچپن کے دن جاگتے تھے
وہ دجلہ کا دلکش کنارہ ‘جہاں اس نے اپنے لڑکپن کا پہلا قدم
یوں رکھا تھا
کہ جس طرح کوئی خزاں بار موسم کے آخر پہ
گل بار موسم کی آمد سے پہلے ہی
نو زائیدہ برگ و گل کے تصور میں خوشبوکو
اپنے خیالوں میں بھر لے
وہ اس کے لڑکپن کا پہلا قدم اپنے آئندہ موسم کی
خوشبوئے گل بار کے خیر مقدم کو آگے بڑھا تھا
کہ دجلہ کے دلکش کنارے پہ
آفاق سے آندھیوں کی شفق رنگ یلغار نے
ایسا اودھم مچایا کہ خوشبو تو کیا‘ وہ کنارہ
وہ دجلہ کا دلکش کنارہ جھلس کر سیہ رنگ ہونے لگا
اور آخر کنارے کے اک سمت آباد شہر اور
اس کی سحر تاب گلیاںبھی جل کر سیہ راکھ میں ڈھل گئیں
آسماں سے شفق رنگ یلغار نے
اس کے جلتے ہوئے گھر کے دیوار و در کو
سیہ راکھ سے بھر دیا تھا

علی اسماعیل اپنے بستر پہ چپ چاپ لیٹاہوا ہے
ابھی رات باقی ہے
برقی اجالوں میں بکھری ہوئی یہ سیہ رات باقی ہے
اور اس کے بستر کی ساری سفیدی سیہ راکھ میں ڈھل رہی ہے
مگر یاد ہیں اس کو بغداد کی وہ سحرتاب گلیاں
شفق رنگ دجلہ کا دلکش کنارہ
 

نوید صادق

محفلین
مناجات

اے ربِّ کائنات !
دجلہ کے ایک سمت‘ سر وادیِ ممات
تن کر کھڑی ہے ایک مہیب و سیاہ رات
کب سے غزالِ جاں مرا وحشت خرام ہے
طے ہوگا کتنے دن میں ترا دشتِممکنات؟
زخمی ہوں میں بھی عرصۂ ایماں شکار کا
کچھ اور بڑھ گئی ہے اندھیروں کی واردات
جاؤں کہاں کہ اب تری ارضِ بسیط پر
ہر صبح سانحات‘ بہر شام حادثات
آخر ملے گی کب مجھے اس رات سے نجات
جو رات بہہ رہی ہے سرِ دجلہ و فرات
طورِ کرم سے ‘ پھر ترے سینائے لطف سے
اترے تری زمیں پہ تری روشنی کا ہات
گر یہ نہیں تو مجھ کو عطا ہوعصائے صبر
اور اس کے بعد بخش مرے صبر کو ثبات
اے ربِّ کائنات !
 
Top