حیرت کے اسرار

نور وجدان

لائبریرین
ہر سوال کے پیچھے اسباب ہوتے ہیں. عشق کے پیچھے کیا سبب ہوگا؟ کیا ہے یہ عشق؟ خود سے سوال کروں تو لگے کہ حیرت کی کہانی ہے.سب سے پہلے دل متحیر، پھر نگاہ میں تحیر ایسا کہ تحیر مرمٹے اپنے سبب پر. حیرت کا سفر کمال کو پہنچتا ہے تو پتھر جی اٹھتے ہیں. حجر میں جب جان پڑی تھی لوگوں نے سبحان اللہ کہا تھا اور تسلیم کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم عشق الہی میں مخمور ہیں. یہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ وہ حُسن کی تقسیم کرتے ہیں. دامن دریدہ بھی ہو تو حسن جھولی سے بکھرتا مزید خوشنما لگتا ہے، گویا حسن جاتا ہی نہیں جب ان کی جانب سے دیا جاتا ہے. حسن جس جس کو ملے، وہ پکار اٹھتا ہے

حاجیو آؤ! آئنے کی رنگا رنگی دیکھو
حاجیو آؤ! دلِِ بسمل کی مستی دیکھو


حسن کے سامنے سرجھکتا ہے تو اٹھتا نہیں چاہے برہنہ تلوار سرقلم کردے مگر رحیم ہیں! کریم ہیں! روؤف ہیں! کیسے ایسا حکم کریں گے؟ شعور کی بات تلک تو یہ ٹھیک ہے مگر سامنہ ء حسن تو مجنوں کرتا ہے، بیخودی میں ہوش کہاں رہتا ہے. یہ تو دلِ بسمل کا حال دیکھیے کہ پکار اٹھتا ہے


نہیں تھے ہم ،وہ تھا کوئی اور ! وہ اور جو تھا وہ ہم تو تھے ۔۔! ہم نہیں تھے کہیں مگر ہم ہی تھے ہر جا ۔۔۔

عشق مانند مشعل علم کا خزانہ ہے جس سے وجدان حرکت پذیر ہوتا ہے .......... شمع نگاہ میں آتی ہے، یہ شمع افلاک پر سجائی گئی ہے ..وہ شمع جس کے لیے جہان پیدا ہوا ہے، جس میں نوری قندیل جلائی گئی ہے ، اس کی خوشبو میں بسی درودکی مہک...........نوریوں کو ہوش نہ رہا کہا سب نور مجلی ﷺ کی مہک ہے ، کہا حق نے ، ورفعنا لک ذکرک ۔۔۔آپ کا ذکر بُلند ہوگیا ..... الم نشرح لک صدرک ۔۔۔علم کامل ہوگیا ۔


یہی شمع تمام مومنین کا اثاثہ ہے. سب سے علم ملا سب کو ..... جب غار حرا تفکر میں کامل انسان نے دن رات گزارے تو وہ عجب دن تھے بیخودی کے. مقامِِ حیرت، سکتہ میں غائب. ادب سے دل جھک گیا تو دل جگمگانے لگا. حسن کی تقسیم دیکھو! یہ تجلیات عشق، معکوس جذب .... کیا ہے؟ پھر مقامِ خشیت جب آپ وادی ء حرا سے گھر کو لوٹے تو فرمایا

زملونی ...... زملونی

اک لفظ اقراء کے حسن کا اعجاز تھا! پڑھنے کے لیے لمحہ تھا. بس اک تجلی ء حسن تھی اور دوسری خشیت کی چادر! رب نے بہت پیار سے آپ کو پکارا تھا! مزمل! چادر اوڑھنے والے! یہ حسن کا اعجاز تھا جو حیرت سے شروع ہوا اور خشیت پر ختم ہوا. عشق کی ابتدا حیرت ہے اور انتہائے حیرت میں خوف ہے، محبوب کہیں دور نہ ہوجائے! وہ ناراض نہ ہو جائے. اس ڈر سے جسم روئی ہوجاتا ہے. دھیرے دھیرے انسان علم حاصل کرتا جاتا ہے جو حیرت سے خشیت کے بعد کی منزل ہے.
 
Top