حکومت اور طالبان میں رابطوں کے بعد 7مسلح گروپ ہتھیار پھینکنے پر آمادہ

فیصل آباد (نمائندہ جنگ) انتہائی باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت اور طالبان کے بعض گروپوں میں جاری رابطوں کے حوالے سے بریک تھرو ہوا ہے اور اب تک سات مختلف مسلح گروپ اپنی کارروائیاں ختم کرکے ہتھیار پھینکنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ اس بارے میں حکومت کو مذہبی جماعتوں کے دو سربراہوں اور ایک سابق فوجی جرنیل کی معاونت حاصل ہے جو اس معاملہ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آئندہ چند روز میں اس حوالے سے مزید پیش رفت ہونے کا امکان ہے جس کے بعد حکومت اس کا باقاعدہ اعلان کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=165303
 

ساجد

محفلین
یہ ایک خوش آئند بات ہے لیکن ایسی نہیں کہ اس کو ایک بڑی کامیابی کہا جا سکے اور نہ ہی طالبان کے فتنے سے نپٹنے کا یہ طریقہ کوئی زیادہ کارگر ہے ۔ ماضی میں افغان طالبان کی ہتھیار ڈالنے کی ایسی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن یہ "ادھر ڈوبتے ہیں تو اُدھر نکل آتے ہیں " :)
اب کوئی ستم ظریف انہیں خورشید صورت مومنین قرار دے دے تو ماحول زعفران زار ہو جائے گا :)
 

ساجد

محفلین
یہ دونوں طرح کے بریک تھرو جلدی جلدی ہوتے رہنے چاہئیں تاکہ پاکستان کو اس مصیبت سے جلد از جلد نجات ملے۔
یہ دوسرے والا بریک تھرو بہت جلد الٹے نتائج بھی پیدا کر سکتا ہے جس کی وجہ سے ان طالبان کو عوامی حمایت مل سکتی ہے ۔ ان کے خاتمے کا طریقہ ان کے بانیوں کے ساتھ بات کر کے ان کی مالی مدد روکنا ہے ۔ ہم مانیں یا نہ مانیں امریکہ اور بھارت سے بات کئے بغیر ہم ان پر قابو نہیں پا سکتے اور ان سے بھی اہم ہے عرب ممالک سے ان کی فکری اور مالی مدد کو روکنا ۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
یہ دوسرے والا بریک تھرو بہت جلد الٹے نتائج بھی پیدا کر سکتا ہے جس کی وجہ سے ان طالبان کو عوامی حمایت مل سکتی ہے ۔ ان کے خاتمے کا طریقہ ان کے بانیوں کے ساتھ بات کر کے ان کی مالی مدد روکنا ہے ۔ ہم مانیں یا نہ مانیں امریکہ اور بھارت سے بات کئے بغیر ہم ان پر قابو نہیں پا سکتے اور ان سے بھی اہم ہے عرب ممالک سے ان کی فکری اور مالی مدد کو روکنا ۔
کیا ایسا ممکن ہے ساجد بھائی؟
 

ساجد

محفلین
کیا ایسا ممکن ہے ساجد بھائی؟
میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہونا ناممکنات میں سے نہیں لیکن ہمارے ملک کے مخصوص معاشی و معاشرتی حالات اس کو ممکن نہیں ہونے دے رہے یوں یہ معاملہ پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے ۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ غیر متوازن رہی ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم جذبات میں فیصلے کرتے ہیں ۔۔۔۔ عوام بھی اور حکومت بھی ۔ طالبان کا مسئلہ بھی ہماری اسی جذباتیت کی وجہ سے پیدا ہوا اور جذباتیت کی وجہ سے ہی پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور اس پر مستزاد کہ ہمارے کسی بھی فوجی ایکشن کا فائدہ طالبان اٹھاتے ہیں اور اس کے لئے وہ عوامی جذبات کو ابھارتے ہیں یعنی پھر سے جذباتیت ہی معاملہ بگاڑتی ہے ۔
یہاں لمبی بات کرنے کی گنجائش نہیں ۔ خالصتان کی تحریک میں بھارت کی کوششوں کا مطالعہ مناسب رہے گا کہ اس نے کس طرح سے روسی گروپ میں ہونے کے باوجود ڈپلومیسی کے ذریعے عالمی طاقتوں کو سکھوں کی مدد سے روکنے میں کامیابی حاصل کی اور میرے کہنے کا مطلب اتنا ہی ہے کہ ان طالبان کا مستقل حل فوجی آپریشن نہیں بہر حال جہاں ان کی موجودگی کی اطلاع ہو وہاں ضرور فوجی کارروائی کی جانی چاہئیے ۔ ۔۔۔۔۔۔ اگر ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو باہمی لڑائیوں سے فرصت ملے تو اب جبکہ امریکہ افغانستان سے جا رہا ہے یہ بہترین وقت ہے کہ ہم ایک موثر ڈپلومیسی کے ذریعے امریکہ کو ان کی مدد سے روک سکیں ۔ لیکن جب تک ہم امریکہ کے خلاف بڑھک ماری کرتے رہیں گے وہ ایسے مسلح گروپوں کے ذریعے ہمیں سبق سکھاتا رہے گا ۔ یہاں ایک اور مثال عرب ممالک کی ہے جہاں ہمارے ہاں سے زیادہ شدت پسندی موجود ہے لیکن انہوں نے امریکہ سے پھڈا نہ لے کر اپنے ممالک کو تشدد و خونریزی سے بچا رکھا اور اس کے مقابلے میں صدام و قذافی نے جذباتیت دکھا کر تباہی و بربادی کو خود اپنے گھر کا راستہ دکھایا ۔ یہاں مسئلہ اسلام و کفر کا ہے ہی نہیں ۔ سیدھا سیدھا تاریخ سے سبق سیکھنے کی بات ہے ۔ اور صلح حدیبیہ کی صورت میں سب سے بڑی مثال ہماری سامنے موجود ہے ۔
 
یہ ایک خوش آئند بات ہے لیکن ایسی نہیں کہ اس کو ایک بڑی کامیابی کہا جا سکے اور نہ ہی طالبان کے فتنے سے نپٹنے کا یہ طریقہ کوئی زیادہ کارگر ہے ۔ ماضی میں افغان طالبان کی ہتھیار ڈالنے کی ایسی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن یہ "ادھر ڈوبتے ہیں تو اُدھر نکل آتے ہیں " :)
اب کوئی ستم ظریف انہیں خورشید صورت مومنین قرار دے دے تو ماحول زعفران زار ہو جائے گا :)
جناب عالی یہ ظالمان اقبال کے شاہین تو ہو نہیں سکتے ہیں ۔۔۔۔کیونکہ یہ تو خیراتی مال پر پلنے والی مخلوق ہے اگر ان کو کہا جائے کہ اس گٹر لین سے نکل کر دوسری طرف مال و دولت اور جہاد النکاح والی لڑکیاں مؤجود تو یہ دوڑ کر دوسری طرف نکل جائیں گے تو اس صورت میں جب یہ دوسری طرف اپنے روسیاہ چہرے لیئے نکلیں گے تومنظرنامہ کشت زعفران کی بجائے کشت گٹران ہوجائے گا
 

فاتح

لائبریرین
فیصل آباد (نمائندہ جنگ) انتہائی باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت اور طالبان کے بعض گروپوں میں جاری رابطوں کے حوالے سے بریک تھرو ہوا ہے اور اب تک سات مختلف مسلح گروپ اپنی کارروائیاں ختم کرکے ہتھیار پھینکنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ اس بارے میں حکومت کو مذہبی جماعتوں کے دو سربراہوں اور ایک سابق فوجی جرنیل کی معاونت حاصل ہے جو اس معاملہ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آئندہ چند روز میں اس حوالے سے مزید پیش رفت ہونے کا امکان ہے جس کے بعد حکومت اس کا باقاعدہ اعلان کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=165303
ایک خبر اور بھی یہیں پڑھی تھی کہ طالبان کے 65 گروپس ہیں اور اب یہ پڑھ رہے ہیں کہ ان میں سے 7 نے ہتھیار پھینک دیے لیکن یہ نہیں معلوم کہ ان 7 میں کل کتنے دہشت گرد تھے یا یہ کہ ہر شخص اپنی ذات میں انجمن تھا یعنی ایک ایک فرد پر مبنی گروپس۔۔۔
یہ بھی دہشت گردوں کی سٹریٹجی لگتی ہے کہ 7 افراد کی جانب سے بیان دلوا دیا کہ یہ دہشت گردی کی کاروائیاں نہیں کریں گے اور باقی ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردی میں مصروف عمل رہیں تا کہ عوام میں یہ تاثر ابھارا جا سکے کہ دیکھو ہم نے تو ہتھیار ڈالے تھے مگر فوج اور حکومت نے پھر بھی ہمارے دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔
 
Top