یہ
دوا اور دعا
ایک نوجوان کی شادی ہوتی ہے۔ اب کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ نوجوان کیوں۔ حکایت نہیں سننی تم لوگوں نے۔:p

شادی کے معاملات طے کرتے وقت تو اسکو باپ یاد نہ آیا۔ مگر جب وقت شہادت قریب آیا تو اک سیانے نے مشور ہ دیا
کاکا بزرگوں کی دعا لے لے۔ بھلا ہو جائے گا۔​

وہ اپنے والد کے پاس پہنچا کہ اس نئے ازدواجی سفر کے لیے برکت کی دعا کی جائے۔
باپ نے پہلے تو تیوری چڑھا کر کہا۔ آگئی پیو دی یاد۔:nerd: کدھر کمیوں میں تو رشتہ نہیں طے کر آیا۔ :idontknow:

اس پر اس نوجوان نے ہونے والی شریک حیات کے حسب نسب سے آگاہی دی۔ باپ اس خاندان کو جانتا تھا۔ اور معلوم تھا کہ لڑکی بہت ہی زبان دراز ہے۔ لیکن اب پدرانہ شفقت سے مجبور ہو کر کوئی ایسی نصیحت سوچنے لگا جس پر عمل سے اسکا بیٹا خوش رہے۔

با پ کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر بیٹے نے انتہائی مودب لہجے میں پوچھا۔
ابا جی خیر ہوئے۔ طبیعت ٹھیک ہے۔​
اس پر والدنے اُس سے ایک کاغذ اور قلم کا تقاضا کیا۔

بیٹے نے جھٹ سے اپنا ٹیبلٹ نکالا اور کہا ابا جی حکم کریں۔

باپ کو غصہ آگیا اور کہا کر دیا نہ اتنے خوبصورت خیال کا بیڑا غرق۔ جا کاپی پینسل لے کر آ۔ اور خیال آنے پر دوبارہ آواز دے کر کہا، کہ کہیں جیل والا یا کوئی اور سیاہی والا پین نہ اٹھا لائیں۔ ڈئیر والوں کی کچی پینسل ہی لے کر آنا۔ بیٹا جب تھوڑی دور اور پہنچا تو پھر آواز دی کہ ساتھ میں ربر بھی لے آنا۔

لڑکا تپ کر واپس آکر بیٹھ گیا اور بولا،
نئیں پیلے تسی یاد کر لو منگانا کی کی ائے (نہیں آپ پہلے یاد کر لو، چاہیئے کیا کیا۔ )​
باپ کا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا
او جا کاکا، جو کام کہا ہے وہ کر۔​

لڑکاکو پہلے ہی شک تھا کہ ابا حضور اب سٹھیا چکے ہیں۔ مگر صرف اس امید پر کہ شائد اب والد محترم کوئی کام کی بات کر لیں مطلوبہ سامان لینے نکل کھڑا ہوا۔
عرصہ دراز بعد پینسل کاپی ہاتھ میں لے کر وہ ماضی کی یادو ں میں کھو گیا۔ جب اسے بٹرفلائی کی پینسل پسند تھی اور باپ تب بھی ڈئیر کی پینسل ہی لا کر دیتا تھا۔

باپ نے اسے سوچوں میں ڈوبا دیکھکر کہا کاکا ارسطو نہ بن۔ لکھ

بیٹا باپ کی جگت پر کھسیانہ ہوکر۔ کیا لکھوں

باپ بیٹے کے لاجواب ہونے پر طنزیہ ادا کے ساتھ۔ جو تیرا دل کرے۔

نوجوان ایک جملہ لکھتا ہے
"انسان حسن پرست ہے"​

باپ شرمندہ ہو کر: اسلاف کی روایات نہ چھوڑنا، چل مٹا اسے
اب نوجوان کے چہرے پر خوشی۔ اور مٹا دیتا ہے۔

باپ : کچھ اورلکھو
بیٹا : خدارا آپ کیا چاہتے ہیں ؟
باپ کہتا ہے : ٹھیک ہے اب اسے بھی مٹا دے۔


باپ : چل اب کچھ اورلکھو
بیٹا: میں یہاں دعا لینے آیا ہوں۔ خوشخطی کی کلاس لینے نہیں۔
باپ: نظر انداز کرتے ہوئے، می نویس۔۔۔ ۔
نوجوان لکھتا ہے :
عقل کے اجزاء بیان کرو​
باپ اس جملے میں چھپے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ اسے بھی مٹا دو اب۔

لڑکا مٹاتے ہوئے دل میں، یا اللہ میرا ابا پاگل ہو کر نہ مرے۔ آمین

پھر باپ اُ س کی طرف دیکھتا ہے اور اُسے تھپکی دیتے ہوئے کہتا ہے :
بیٹا شادی کے بعد اریزر کی ضرورت ہوتی ہے
اگر ازدواجی زندگی میں تمہارے پاس ربرنہیں ہو گا جس سے تم اپنی بیوی کی غلطیاں اور کوتاہیاں مٹا اور معاف کر سکو
اور اسی طرح اگر تمہاری بیوی کے پاس ربر نہ ہوا جس سے وہ تمہاری غلطیاں اور ناپسندیدہ باتیں مٹا سکے تو تم دونوں خود سوچو کہ کتنا باعث اذیت ہوگا۔
میں تمہاری ان بدتمیزیوں پر تمہیں کتنا مارتا تھا۔ اور نہیں چاہتا کہ اب بیگم سے بھی تم پٹو۔
بیٹا۔۔ اور اگر اس نے روز اک پینسل ختم کرنی شروع کر دی۔ یا پھر پارکر کی سیاہی کا استعمال ۔۔۔
والد غصے سے: ابھی میری بات نہیں ختم نہیں ہوئی۔ اگر تمہارے پاس ربر ہوگا تو ہی تم اسکی کوتاہیاں معاف کر سکو گے۔ وگرنہ تمہاری حیات کا صفحہ تمہارے مقدر اور منہ کی مانند تیرہ نصیب ہی رہے گا۔
بیٹا: اباجی وہ دعا کدھر گئی۔ جس کے لیئے میں نے اتنے پاپڑ بیلے ہیں۔o_O
آپ کی یہ بیکار نصیحت تو آپ کی زندگی پر کارگر نہ ہوئی۔ اور ساری عمر ڈنڈا لیئے ہم لوگوں کو مارتے رہے۔ نتیجہ کے طور پر اب آپکی اولاد آپ سے دور ہے۔ اور جس ربر کی بات آپ کر رہے ہیں اس کی ہر انسان کو ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔ اور آپکو اس ربر کا استعمال بہت پہلے سیکھ لینا چاہیئے تھا۔

اخلاقی سبق: کسی ربر کی ضرورت نہیں ہے۔ ظرف ہونا چاہیئے بندے کا اور بس۔ زندگی کے لکھے نہیں مٹتے۔ بس ان کے ساتھ جینے کے فن پر دسترس ہونی چاہیئے۔ اور جب کوئی دعا کا کہے تو صرف دعا کرو۔ دوا کا بندوبست کر کے اپنا اور اسکا وقت ضائع مت کرو۔
یہ بھی عمدہ ہے
 
واہ
سات باتیں (اصل حکایت)
قحط دانائی
پرانے زمانے میں عقلمند لوگ ناپید ہوتے تھے۔ اور گوگل ابھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ لوگوں کو دانا لوگوں سے ملنے کے لیئے کئی کئی میل کا سفر طے کرنا پڑتا۔ ہر کوئی اپنے گھر کو عقلمند ہوتا ہے۔ یہ مثال بھی اس وقت ایجاد نہ ہوئی تھی۔ دانائی کا معیار کیا ہوتا تھا۔ کس شخص کو دانا کہا جا سکتا اور کس کو نہیں۔ اس بات کا فیصلہ بھی وقت کے بیوقوف ہی کرتے تھے۔
اک اور پتے کی بات بتاتا چلوں کہ سوال کرنے والا کبھی بھی دانا نہ سمجھا جاتا تھا۔ چاہے کتنی ہی دانائی کا سوال نہ پوچھ لے۔ صرف جواب دینے والا ہی دانائی کی گدی پر رونق افروز ہو سکتا تھا۔
ایسے ہی اک دور میں جب دانائی کا قحط پڑا ہوا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ شیخ سعدی کے داناؤں کے دور کے آس پاس کا دور بھی نہ تھا۔ جہاں دانا لوگ یوں پائے جاتے تھے جیسے لال مرچ میں اینٹیں یا پھر چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے۔ اک آدمی سات سوال سوچ بیٹھا۔ سوچ کیا بیٹھا۔ عقلمند آدمی تھا۔ کچھ باتیں ذہن میں آئیں۔ گر کوشش کرتا تو جواب بھی مل جاتا۔ مگر روایت اور رسم و رواج کے مطابق دانا کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ پتہ چلا کہ قریبی قریبی دانا بھی سات سو میل کی مسافت پر ہے۔
یہ بات اس نے اپنے باپ کو بتائی کہ اب مجھے ان کے جوابات کے لیئے اس کے پاس جانا ہوگا۔ کیوں کہ اس سارے علاقے کو وہی اک عقلمند لگتا ہے۔ عہد حاضر کا کوئی باپ ہوتا تو اس کو ذاتی حملہ یا اسلاف پر ضرب گردانتا۔ مگر باپ نے بخوشی اسے کہا جا بیٹا جا۔ عقل سیکھ کر آ۔
اجازت ملنے پر سفر شروع کیا اور سارا راستہ طرح طرح کے حلئے ذہن میں بناتا گیا کہ ایسا ہوگا عقلمند آدمی۔ یا پھر ایسا۔ مگر جب اس کٹھن مسافت کو طے کرنے کے بعد جب وہ اس گاؤں میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ بھی اس کی سی شکل و صورت کا اک عام آدمی تھا۔ کسی بھی عقلمند آدمی سے ملے کا یہ پہلا اتفاق تھا سو آداب کو خیال رکھتے ہوئے بیوقوفانہ قسم کا سلام کیا۔ اور چھوٹتے ہی عرض کی​
میں اتنی دور سے سات باتیں دریافت کرنے آیا ہوں۔​

عقلمند نے جواب دیا۔ کاکا بیٹھ؛ پانی وغیرہ پی۔ کھانا کھا۔ اتنے لمبے سفر نے ویسے ہی تیری مت مار رکھی ہے۔ سوالی عقلمند کی عقلمندی کا قائل ہوگیا۔ آرام سے کھانا کھا کر چائے وائے پی کر جب اسکی تھکان اتر گَئی تو عقل مند آدمی نے کہا۔ اب میں تیرے سوالوں کے جواب دیتا ہوں۔​

آسمان سے کون سی چیز زیادہ ثقیل ہے ؟​
اوئے کاکا! پہلے تو یہ بتا کہ آسمان کو تو نے کب تولا؟ عقل کے ناخن تراشتے ہوئے عقلمند نے مزید کہا۔ اگر وزنی ہوتا تو نیچے نہ گرا پڑا ہوتا۔ جس چیز کو ہوا نے اوپر اٹھا رکھا ہے وہ کاہے کی وزنی۔ خیر تجھے اک پتے کی بات بتا دیتا ہوں تاکہ تیرا سفر اکارت نہ جائے۔ اور وہ یہ کہ مفت یعنی بناء پیسے لیئے کسی کا کام کرنا یا کسی پر الزام لگانا آسمان سے بھی زیادہ بھاری ہے۔ اک بہت ہی عقلمند آدمی نے کہا تھا کہ اگر تم کسی چیز پر دسترس رکھتے ہو تو کبھی بھی اسے مفت نہ کرو۔​
زمین سے کیا چیز وسیع ہے ؟​
تیرے دوسرے سوال کا جواب ہے کہ بیگم کی خواہشات زمین سے زیادہ وسیع ہیں۔ ابن بطوطہ زمین کا طواف کرنے میں شائد کامیاب ہو گیا ہو۔ مگر بیگم کی خواہشات کے آگے وہ بھی بے بس ہو گیا ہوگا۔​
پتھر سے کون سی چیز زیادہ سخت ہے ؟​
تیرے تیسرے سوال کا بزرگانہ جواب یہ ہے کہ عوام کی غیرت پتھر سے زیادہ سخت ہے۔ جتنا مرضی ظلم کر لو۔ جیسے مرضی ہانک لو۔ مگر نہ تو یہ غیرت کا بت ٹوٹتا ہے۔ اور نہ ہی اس میں سے پانی کا کوئی چشمہ بہہ نکلتا ہے۔ یہ پتھر اندھے پن میں لڑھک تو سکتا ہے۔ مگر پانی کی طرح خود راستہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔​

کون سی چیز آگ سے زیادہ جلانے والی ہے؟​
چوتھے سوال پر عقلمند نے اک مشفقانہ سا قہقہہ لگایا جیسا بچوں کے معصوم سوالوں پر لگایا جاتا ہے۔ اور کہا کہ آگ کے سوا کوئی اور چیز اتنا جلانے والی ہوتی تو جہنم اسی چیز سے بنائی جاتی۔ نہ کہ آگ سے۔​
سوالی نے کہا سرکار میرا سوال تھا کہ آگ سے جلنے کے علاوہ بھی کوئی ایسی کیفیت ہے کہ بندہ سمجھے وہ جل رہا ہے۔​
اس بات پر دانا آدمی سوچ میں پڑ گیا۔ مگر اسی دوران سامنے سے کچھ خواتین کا گزر ہوا۔ تو دانا نے کہا کہ اگر بیٹا اپنی کمائی ماں کی بجائے بیگم کے ہاتھ پر رکھ دے۔ یا بیگم کی بجائے ماں کے ہاتھ پر۔ تو اس عورت کے لیئے اس سے زیادہ جلانے والی چیز کائنات میں کوئی نہیں۔​
کون سے چیز زمہریر سے زیادہ سرد ہے ؟​
پانچویں سوال پر اک بار تو دانا پریشان ہو گیا۔ پھر اٹھا بہانے سے اور ساتھ کمرے میں لغت تک جاپہنچا۔ وہاں سے زمہریر کا مطلب دیکھا۔ واپس آکر سکون سے بیٹھ گیا۔ اور کہنے لگا کہ اسکے دوجوابات ہیں۔ اک میری ذاتی رائے اور اک وہی نسل در نسل چلنے والا جواب۔​
سوالی نے کہا کہ حضور دونوں جواب دے کر سرفراز فرمائیے۔​
روایتی جواب یہ ہے کہ رشتے داروں کے پاس حاجت لے جانا اور کامیاب نہ ہونا زمہریر سے زیادہ سرد ہے۔ مگر رشتےداروں کے پاس جاتا کون ہے۔ اگر رشتے دار اتنے اچھے ہوتے تو ان سے اچھے سلوک کی بار بار تاکید کیوں کی جاتی۔ لہذا زمہریر سے زیادہ سرد وہ وقت ہے جب تم اپنے کسی دوست سے ادھار مانگنے جا​
ؤ
اور وہ تمہاری بات شروع کرنے سے پہلے تم سے ادھار مانگ لے۔​
اس جواب پر سوالی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شائد کوئی پرانا واقعہ اسے یاد آگیا تھا۔​
کون سی چیز سمندر سے زیادہ غنی ہے ؟​
دانا اس پر ذرا بیزار سا ہو کر کہنے لگا۔ کہ اگر غنی کا مطلب سخاوت سے ہے تو سمندر تو صرف قربانی لیتا ہے۔ دریاؤں کی۔ ندی نالوں کی۔ اور اگر اپنی حدوں سے نکل آئے تو ملکوں کے ملک ڈبو دیتا۔ مگر جو میں سمجھا کہ تم اسکی وسعت سے غنا کو منسوب کر رہے ہو۔
رشوت دینے والے کا دل سمندر سے بھی بڑا ہوتا۔ کیوں کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی کمائی صرف اپنا کام نکلوانے کو ان راشیوں کے ہاتھ تھما دیتا جو ناسور بنے خون چوسنے میں مصروف ہیں۔
یتیم سے زیادہ کون بدتر ہے ؟​
اس سوال پر اک بار تو دانا حیران رہ گیا۔ اس نے کہا نوجوان میر عمر ساٹھ کے قریب ہے۔ اور میں بھی یتیم ہوں۔ مگر میری حالت ہرگز قابل رحم نہیں۔ میں خوش باش زندگی گزار رہا ہوں۔​
اس پر سوالی نے دل ہی دل میں اس دانا کو گالیاں دیتے ہوئے بظاہر بڑے ادب سے کہا۔ جناب اس سے مراد ایسا بچہ جس کے سر سے اس شفیق کا سایہ تب اٹھ جائے۔ جب وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ اب تو اگر آپ کے بچے بھی یتیم ہو جائیں تو انکی حالت اللہ کے کرم سے ٹھیک ہی رہے گی۔​
اب دانا کو شرمندگی ہوئی کہ اتنی سی بات نہ سمجھ پایا۔ خیر اس نے جواب تراشتے ہوئے کہا کہ اس بہو کی حالت یتیم سے بھی بدتر ہے جسکو چغلی کرنے کو کوئی ہمجولی میسر نہ ہو اور اسکی ساس کے پاس چغل خوروں کی روز محفل سجتی ہو۔
واہ ایک اور شاہکار۔۔۔۔
 
سات باتیں (اصل حکایت)
قحط دانائی
پرانے زمانے میں عقلمند لوگ ناپید ہوتے تھے۔ اور گوگل ابھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ لوگوں کو دانا لوگوں سے ملنے کے لیئے کئی کئی میل کا سفر طے کرنا پڑتا۔ ہر کوئی اپنے گھر کو عقلمند ہوتا ہے۔ یہ مثال بھی اس وقت ایجاد نہ ہوئی تھی۔ دانائی کا معیار کیا ہوتا تھا۔ کس شخص کو دانا کہا جا سکتا اور کس کو نہیں۔ اس بات کا فیصلہ بھی وقت کے بیوقوف ہی کرتے تھے۔
اک اور پتے کی بات بتاتا چلوں کہ سوال کرنے والا کبھی بھی دانا نہ سمجھا جاتا تھا۔ چاہے کتنی ہی دانائی کا سوال نہ پوچھ لے۔ صرف جواب دینے والا ہی دانائی کی گدی پر رونق افروز ہو سکتا تھا۔
ایسے ہی اک دور میں جب دانائی کا قحط پڑا ہوا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ شیخ سعدی کے داناؤں کے دور کے آس پاس کا دور بھی نہ تھا۔ جہاں دانا لوگ یوں پائے جاتے تھے جیسے لال مرچ میں اینٹیں یا پھر چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے۔ اک آدمی سات سوال سوچ بیٹھا۔ سوچ کیا بیٹھا۔ عقلمند آدمی تھا۔ کچھ باتیں ذہن میں آئیں۔ گر کوشش کرتا تو جواب بھی مل جاتا۔ مگر روایت اور رسم و رواج کے مطابق دانا کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ پتہ چلا کہ قریبی قریبی دانا بھی سات سو میل کی مسافت پر ہے۔
یہ بات اس نے اپنے باپ کو بتائی کہ اب مجھے ان کے جوابات کے لیئے اس کے پاس جانا ہوگا۔ کیوں کہ اس سارے علاقے کو وہی اک عقلمند لگتا ہے۔ عہد حاضر کا کوئی باپ ہوتا تو اس کو ذاتی حملہ یا اسلاف پر ضرب گردانتا۔ مگر باپ نے بخوشی اسے کہا جا بیٹا جا۔ عقل سیکھ کر آ۔
اجازت ملنے پر سفر شروع کیا اور سارا راستہ طرح طرح کے حلئے ذہن میں بناتا گیا کہ ایسا ہوگا عقلمند آدمی۔ یا پھر ایسا۔ مگر جب اس کٹھن مسافت کو طے کرنے کے بعد جب وہ اس گاؤں میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ بھی اس کی سی شکل و صورت کا اک عام آدمی تھا۔ کسی بھی عقلمند آدمی سے ملے کا یہ پہلا اتفاق تھا سو آداب کو خیال رکھتے ہوئے بیوقوفانہ قسم کا سلام کیا۔ اور چھوٹتے ہی عرض کی​
میں اتنی دور سے سات باتیں دریافت کرنے آیا ہوں۔​

عقلمند نے جواب دیا۔ کاکا بیٹھ؛ پانی وغیرہ پی۔ کھانا کھا۔ اتنے لمبے سفر نے ویسے ہی تیری مت مار رکھی ہے۔ سوالی عقلمند کی عقلمندی کا قائل ہوگیا۔ آرام سے کھانا کھا کر چائے وائے پی کر جب اسکی تھکان اتر گَئی تو عقل مند آدمی نے کہا۔ اب میں تیرے سوالوں کے جواب دیتا ہوں۔​

آسمان سے کون سی چیز زیادہ ثقیل ہے ؟​
اوئے کاکا! پہلے تو یہ بتا کہ آسمان کو تو نے کب تولا؟ عقل کے ناخن تراشتے ہوئے عقلمند نے مزید کہا۔ اگر وزنی ہوتا تو نیچے نہ گرا پڑا ہوتا۔ جس چیز کو ہوا نے اوپر اٹھا رکھا ہے وہ کاہے کی وزنی۔ خیر تجھے اک پتے کی بات بتا دیتا ہوں تاکہ تیرا سفر اکارت نہ جائے۔ اور وہ یہ کہ مفت یعنی بناء پیسے لیئے کسی کا کام کرنا یا کسی پر الزام لگانا آسمان سے بھی زیادہ بھاری ہے۔ اک بہت ہی عقلمند آدمی نے کہا تھا کہ اگر تم کسی چیز پر دسترس رکھتے ہو تو کبھی بھی اسے مفت نہ کرو۔​
زمین سے کیا چیز وسیع ہے ؟​
تیرے دوسرے سوال کا جواب ہے کہ بیگم کی خواہشات زمین سے زیادہ وسیع ہیں۔ ابن بطوطہ زمین کا طواف کرنے میں شائد کامیاب ہو گیا ہو۔ مگر بیگم کی خواہشات کے آگے وہ بھی بے بس ہو گیا ہوگا۔​
پتھر سے کون سی چیز زیادہ سخت ہے ؟​
تیرے تیسرے سوال کا بزرگانہ جواب یہ ہے کہ عوام کی غیرت پتھر سے زیادہ سخت ہے۔ جتنا مرضی ظلم کر لو۔ جیسے مرضی ہانک لو۔ مگر نہ تو یہ غیرت کا بت ٹوٹتا ہے۔ اور نہ ہی اس میں سے پانی کا کوئی چشمہ بہہ نکلتا ہے۔ یہ پتھر اندھے پن میں لڑھک تو سکتا ہے۔ مگر پانی کی طرح خود راستہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔​

کون سی چیز آگ سے زیادہ جلانے والی ہے؟​
چوتھے سوال پر عقلمند نے اک مشفقانہ سا قہقہہ لگایا جیسا بچوں کے معصوم سوالوں پر لگایا جاتا ہے۔ اور کہا کہ آگ کے سوا کوئی اور چیز اتنا جلانے والی ہوتی تو جہنم اسی چیز سے بنائی جاتی۔ نہ کہ آگ سے۔​
سوالی نے کہا سرکار میرا سوال تھا کہ آگ سے جلنے کے علاوہ بھی کوئی ایسی کیفیت ہے کہ بندہ سمجھے وہ جل رہا ہے۔​
اس بات پر دانا آدمی سوچ میں پڑ گیا۔ مگر اسی دوران سامنے سے کچھ خواتین کا گزر ہوا۔ تو دانا نے کہا کہ اگر بیٹا اپنی کمائی ماں کی بجائے بیگم کے ہاتھ پر رکھ دے۔ یا بیگم کی بجائے ماں کے ہاتھ پر۔ تو اس عورت کے لیئے اس سے زیادہ جلانے والی چیز کائنات میں کوئی نہیں۔​
کون سے چیز زمہریر سے زیادہ سرد ہے ؟​
پانچویں سوال پر اک بار تو دانا پریشان ہو گیا۔ پھر اٹھا بہانے سے اور ساتھ کمرے میں لغت تک جاپہنچا۔ وہاں سے زمہریر کا مطلب دیکھا۔ واپس آکر سکون سے بیٹھ گیا۔ اور کہنے لگا کہ اسکے دوجوابات ہیں۔ اک میری ذاتی رائے اور اک وہی نسل در نسل چلنے والا جواب۔​
سوالی نے کہا کہ حضور دونوں جواب دے کر سرفراز فرمائیے۔​
روایتی جواب یہ ہے کہ رشتے داروں کے پاس حاجت لے جانا اور کامیاب نہ ہونا زمہریر سے زیادہ سرد ہے۔ مگر رشتےداروں کے پاس جاتا کون ہے۔ اگر رشتے دار اتنے اچھے ہوتے تو ان سے اچھے سلوک کی بار بار تاکید کیوں کی جاتی۔ لہذا زمہریر سے زیادہ سرد وہ وقت ہے جب تم اپنے کسی دوست سے ادھار مانگنے جا​
ؤ
اور وہ تمہاری بات شروع کرنے سے پہلے تم سے ادھار مانگ لے۔​
اس جواب پر سوالی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شائد کوئی پرانا واقعہ اسے یاد آگیا تھا۔​
کون سی چیز سمندر سے زیادہ غنی ہے ؟​
دانا اس پر ذرا بیزار سا ہو کر کہنے لگا۔ کہ اگر غنی کا مطلب سخاوت سے ہے تو سمندر تو صرف قربانی لیتا ہے۔ دریاؤں کی۔ ندی نالوں کی۔ اور اگر اپنی حدوں سے نکل آئے تو ملکوں کے ملک ڈبو دیتا۔ مگر جو میں سمجھا کہ تم اسکی وسعت سے غنا کو منسوب کر رہے ہو۔
رشوت دینے والے کا دل سمندر سے بھی بڑا ہوتا۔ کیوں کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی کمائی صرف اپنا کام نکلوانے کو ان راشیوں کے ہاتھ تھما دیتا جو ناسور بنے خون چوسنے میں مصروف ہیں۔
یتیم سے زیادہ کون بدتر ہے ؟​
اس سوال پر اک بار تو دانا حیران رہ گیا۔ اس نے کہا نوجوان میر عمر ساٹھ کے قریب ہے۔ اور میں بھی یتیم ہوں۔ مگر میری حالت ہرگز قابل رحم نہیں۔ میں خوش باش زندگی گزار رہا ہوں۔​
اس پر سوالی نے دل ہی دل میں اس دانا کو گالیاں دیتے ہوئے بظاہر بڑے ادب سے کہا۔ جناب اس سے مراد ایسا بچہ جس کے سر سے اس شفیق کا سایہ تب اٹھ جائے۔ جب وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ اب تو اگر آپ کے بچے بھی یتیم ہو جائیں تو انکی حالت اللہ کے کرم سے ٹھیک ہی رہے گی۔​
اب دانا کو شرمندگی ہوئی کہ اتنی سی بات نہ سمجھ پایا۔ خیر اس نے جواب تراشتے ہوئے کہا کہ اس بہو کی حالت یتیم سے بھی بدتر ہے جسکو چغلی کرنے کو کوئی ہمجولی میسر نہ ہو اور اسکی ساس کے پاس چغل خوروں کی روز محفل سجتی ہو۔
زبردست یار لیکن تمہاری اس مثال کی سمجھ نہیں آئی
چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
زبردست یار لیکن تمہاری اس مثال کی سمجھ نہیں آئی
اس کے لیئے تھوڑا خوار ہونا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ایسے سمجھ نہیں آتیں۔ :p

اصل میں ہمارے ہاں تاجر حضرات کا گروہ پتی میں چنے کے چھلکے ملا دیتا ہے پیس کر۔ قدرتاً انکا رنگ بھی ایسا ہی ہوتا ہے تو پتہ نہیں چلتا۔ اسکے مختلف اوزان ہوتے ہیں کہ کتنے کلوگرام میں کتنے چھلکے ڈالنے ہیں۔ یوں وہ ضرورت سے زائد ملاوٹ کر کے حاصل کر لیتے ہیں۔ اسکو پہچاننے کا طریقہ کار یہ ہے کہ ٹھنڈے یخ پانی میں یہ پتی ڈبو دی جائے۔ پتی نیچے بیٹھ جائے گی۔ اور چھلکے اوپر رہ جائیں گے۔ ٹھنڈے یخ پانی میں پتی اپنا رنگ آدھا گھنٹہ تک نہیں چھوڑتی۔ تو اسے نکال کر سکھا لیا جائے۔
اس سے تم اندازہ لگاؤ کہ ملک میں حرام کھانے کے کیسے کیسے طریقے رائج ہیں۔ اس طرح چاولوں اور دالوں میں چھوٹے چھوٹے پتھروں کا اضافہ کیا جاتا ہے۔

پہلے سوچا بات ٹال دوں۔ پھر سوچا کہ شائد کئی لوگوں کو سمجھ نہ آئی ہو تو ذرا کھول کر بیان کر دوں۔ :)
 

مہ جبین

محفلین
سات باتیں (اصل حکایت)
قحط دانائی
پرانے زمانے میں عقلمند لوگ ناپید ہوتے تھے۔ اور گوگل ابھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ لوگوں کو دانا لوگوں سے ملنے کے لیئے کئی کئی میل کا سفر طے کرنا پڑتا۔ ہر کوئی اپنے گھر کو عقلمند ہوتا ہے۔ یہ مثال بھی اس وقت ایجاد نہ ہوئی تھی۔ دانائی کا معیار کیا ہوتا تھا۔ کس شخص کو دانا کہا جا سکتا اور کس کو نہیں۔ اس بات کا فیصلہ بھی وقت کے بیوقوف ہی کرتے تھے۔
اک اور پتے کی بات بتاتا چلوں کہ سوال کرنے والا کبھی بھی دانا نہ سمجھا جاتا تھا۔ چاہے کتنی ہی دانائی کا سوال نہ پوچھ لے۔ صرف جواب دینے والا ہی دانائی کی گدی پر رونق افروز ہو سکتا تھا۔
ایسے ہی اک دور میں جب دانائی کا قحط پڑا ہوا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ شیخ سعدی کے داناؤں کے دور کے آس پاس کا دور بھی نہ تھا۔ جہاں دانا لوگ یوں پائے جاتے تھے جیسے لال مرچ میں اینٹیں یا پھر چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے۔ اک آدمی سات سوال سوچ بیٹھا۔ سوچ کیا بیٹھا۔ عقلمند آدمی تھا۔ کچھ باتیں ذہن میں آئیں۔ گر کوشش کرتا تو جواب بھی مل جاتا۔ مگر روایت اور رسم و رواج کے مطابق دانا کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ پتہ چلا کہ قریبی قریبی دانا بھی سات سو میل کی مسافت پر ہے۔
یہ بات اس نے اپنے باپ کو بتائی کہ اب مجھے ان کے جوابات کے لیئے اس کے پاس جانا ہوگا۔ کیوں کہ اس سارے علاقے کو وہی اک عقلمند لگتا ہے۔ عہد حاضر کا کوئی باپ ہوتا تو اس کو ذاتی حملہ یا اسلاف پر ضرب گردانتا۔ مگر باپ نے بخوشی اسے کہا جا بیٹا جا۔ عقل سیکھ کر آ۔
اجازت ملنے پر سفر شروع کیا اور سارا راستہ طرح طرح کے حلئے ذہن میں بناتا گیا کہ ایسا ہوگا عقلمند آدمی۔ یا پھر ایسا۔ مگر جب اس کٹھن مسافت کو طے کرنے کے بعد جب وہ اس گاؤں میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ بھی اس کی سی شکل و صورت کا اک عام آدمی تھا۔ کسی بھی عقلمند آدمی سے ملے کا یہ پہلا اتفاق تھا سو آداب کو خیال رکھتے ہوئے بیوقوفانہ قسم کا سلام کیا۔ اور چھوٹتے ہی عرض کی​
میں اتنی دور سے سات باتیں دریافت کرنے آیا ہوں۔​

عقلمند نے جواب دیا۔ کاکا بیٹھ؛ پانی وغیرہ پی۔ کھانا کھا۔ اتنے لمبے سفر نے ویسے ہی تیری مت مار رکھی ہے۔ سوالی عقلمند کی عقلمندی کا قائل ہوگیا۔ آرام سے کھانا کھا کر چائے وائے پی کر جب اسکی تھکان اتر گَئی تو عقل مند آدمی نے کہا۔ اب میں تیرے سوالوں کے جواب دیتا ہوں۔​

آسمان سے کون سی چیز زیادہ ثقیل ہے ؟​
اوئے کاکا! پہلے تو یہ بتا کہ آسمان کو تو نے کب تولا؟ عقل کے ناخن تراشتے ہوئے عقلمند نے مزید کہا۔ اگر وزنی ہوتا تو نیچے نہ گرا پڑا ہوتا۔ جس چیز کو ہوا نے اوپر اٹھا رکھا ہے وہ کاہے کی وزنی۔ خیر تجھے اک پتے کی بات بتا دیتا ہوں تاکہ تیرا سفر اکارت نہ جائے۔ اور وہ یہ کہ مفت یعنی بناء پیسے لیئے کسی کا کام کرنا یا کسی پر الزام لگانا آسمان سے بھی زیادہ بھاری ہے۔ اک بہت ہی عقلمند آدمی نے کہا تھا کہ اگر تم کسی چیز پر دسترس رکھتے ہو تو کبھی بھی اسے مفت نہ کرو۔​
زمین سے کیا چیز وسیع ہے ؟​
تیرے دوسرے سوال کا جواب ہے کہ بیگم کی خواہشات زمین سے زیادہ وسیع ہیں۔ ابن بطوطہ زمین کا طواف کرنے میں شائد کامیاب ہو گیا ہو۔ مگر بیگم کی خواہشات کے آگے وہ بھی بے بس ہو گیا ہوگا۔​
پتھر سے کون سی چیز زیادہ سخت ہے ؟​
تیرے تیسرے سوال کا بزرگانہ جواب یہ ہے کہ عوام کی غیرت پتھر سے زیادہ سخت ہے۔ جتنا مرضی ظلم کر لو۔ جیسے مرضی ہانک لو۔ مگر نہ تو یہ غیرت کا بت ٹوٹتا ہے۔ اور نہ ہی اس میں سے پانی کا کوئی چشمہ بہہ نکلتا ہے۔ یہ پتھر اندھے پن میں لڑھک تو سکتا ہے۔ مگر پانی کی طرح خود راستہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔​

کون سی چیز آگ سے زیادہ جلانے والی ہے؟​
چوتھے سوال پر عقلمند نے اک مشفقانہ سا قہقہہ لگایا جیسا بچوں کے معصوم سوالوں پر لگایا جاتا ہے۔ اور کہا کہ آگ کے سوا کوئی اور چیز اتنا جلانے والی ہوتی تو جہنم اسی چیز سے بنائی جاتی۔ نہ کہ آگ سے۔​
سوالی نے کہا سرکار میرا سوال تھا کہ آگ سے جلنے کے علاوہ بھی کوئی ایسی کیفیت ہے کہ بندہ سمجھے وہ جل رہا ہے۔​
اس بات پر دانا آدمی سوچ میں پڑ گیا۔ مگر اسی دوران سامنے سے کچھ خواتین کا گزر ہوا۔ تو دانا نے کہا کہ اگر بیٹا اپنی کمائی ماں کی بجائے بیگم کے ہاتھ پر رکھ دے۔ یا بیگم کی بجائے ماں کے ہاتھ پر۔ تو اس عورت کے لیئے اس سے زیادہ جلانے والی چیز کائنات میں کوئی نہیں۔​
کون سے چیز زمہریر سے زیادہ سرد ہے ؟​
پانچویں سوال پر اک بار تو دانا پریشان ہو گیا۔ پھر اٹھا بہانے سے اور ساتھ کمرے میں لغت تک جاپہنچا۔ وہاں سے زمہریر کا مطلب دیکھا۔ واپس آکر سکون سے بیٹھ گیا۔ اور کہنے لگا کہ اسکے دوجوابات ہیں۔ اک میری ذاتی رائے اور اک وہی نسل در نسل چلنے والا جواب۔​
سوالی نے کہا کہ حضور دونوں جواب دے کر سرفراز فرمائیے۔​
روایتی جواب یہ ہے کہ رشتے داروں کے پاس حاجت لے جانا اور کامیاب نہ ہونا زمہریر سے زیادہ سرد ہے۔ مگر رشتےداروں کے پاس جاتا کون ہے۔ اگر رشتے دار اتنے اچھے ہوتے تو ان سے اچھے سلوک کی بار بار تاکید کیوں کی جاتی۔ لہذا زمہریر سے زیادہ سرد وہ وقت ہے جب تم اپنے کسی دوست سے ادھار مانگنے جا​
ؤ
اور وہ تمہاری بات شروع کرنے سے پہلے تم سے ادھار مانگ لے۔​
اس جواب پر سوالی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شائد کوئی پرانا واقعہ اسے یاد آگیا تھا۔​
کون سی چیز سمندر سے زیادہ غنی ہے ؟​
دانا اس پر ذرا بیزار سا ہو کر کہنے لگا۔ کہ اگر غنی کا مطلب سخاوت سے ہے تو سمندر تو صرف قربانی لیتا ہے۔ دریاؤں کی۔ ندی نالوں کی۔ اور اگر اپنی حدوں سے نکل آئے تو ملکوں کے ملک ڈبو دیتا۔ مگر جو میں سمجھا کہ تم اسکی وسعت سے غنا کو منسوب کر رہے ہو۔
رشوت دینے والے کا دل سمندر سے بھی بڑا ہوتا۔ کیوں کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی کمائی صرف اپنا کام نکلوانے کو ان راشیوں کے ہاتھ تھما دیتا جو ناسور بنے خون چوسنے میں مصروف ہیں۔
یتیم سے زیادہ کون بدتر ہے ؟​
اس سوال پر اک بار تو دانا حیران رہ گیا۔ اس نے کہا نوجوان میر عمر ساٹھ کے قریب ہے۔ اور میں بھی یتیم ہوں۔ مگر میری حالت ہرگز قابل رحم نہیں۔ میں خوش باش زندگی گزار رہا ہوں۔​
اس پر سوالی نے دل ہی دل میں اس دانا کو گالیاں دیتے ہوئے بظاہر بڑے ادب سے کہا۔ جناب اس سے مراد ایسا بچہ جس کے سر سے اس شفیق کا سایہ تب اٹھ جائے۔ جب وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ اب تو اگر آپ کے بچے بھی یتیم ہو جائیں تو انکی حالت اللہ کے کرم سے ٹھیک ہی رہے گی۔​
اب دانا کو شرمندگی ہوئی کہ اتنی سی بات نہ سمجھ پایا۔ خیر اس نے جواب تراشتے ہوئے کہا کہ اس بہو کی حالت یتیم سے بھی بدتر ہے جسکو چغلی کرنے کو کوئی ہمجولی میسر نہ ہو اور اسکی ساس کے پاس چغل خوروں کی روز محفل سجتی ہو۔
حکایات کو توڑنے مروڑنے میں تو نیرنگ خیال کا کوئی ثانی ہی نہیں :heehee:
اس لئے جب بھی اس کارنامے کا ایوارڈ محفل میں دیا جائے گا تو وہاں صرف ایک ہی نام ہوگا
یعنی بلامقابلہ ہی یہ ایوارڈ ایک شخص کے نام ہوگا ۔ :applause:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
حکایات کو توڑنے مروڑنے میں تو نیرنگ خیال کا کوئی ثانی ہی نہیں :heehee:
اس لئے جب بھی اس کارنامے کا ایوارڈ محفل میں دیا جائے گا تو وہاں صرف ایک ہی نام ہوگا
یعنی بلامقابلہ ہی یہ ایوارڈ ایک شخص کے نام ہوگا ۔ :applause:
یہ تو آپکا حسن ظن ہے اپیا۔ وگرنہ میں کس قطار شمار میں ہوں :)
 

تعبیر

محفلین
:zabardast1: اور پر مزاح بھی :laugh:
ویسے ایسے ایسے تجربات کہاں کہاں سے حاصل کر لیے :p
میں بھی مقدس کے ساتھ ہوں :) کوئی نہیں نین جس سے زیادہ بنتی ہے اسی پر لکھ دیں مقدس اور میں حاضر ہیں اس کے لیے :ROFLMAO:
 

مقدس

لائبریرین
:zabardast1: اور پر مزاح بھی :laugh:
ویسے ایسے ایسے تجربات کہاں کہاں سے حاصل کر لیے :p
میں بھی مقدس کے ساتھ ہوں :) کوئی نہیں نین جس سے زیادہ بنتی ہے اسی پر لکھ دیں مقدس اور میں حاضر ہیں اس کے لیے :ROFLMAO:

آف کورس آپی۔۔ میری طرف سے تو کوئی ٹینشن نہیں ہے۔ عینی بھی ہے، نیلم بھی ، سعود بھیا، قیصرانی بھیا، فاتح بھیا اتنے لوگ ہیں کوئی بھی مائینڈ کرنے والا نہیں ہے
 

تعبیر

محفلین
آف کورس آپی۔۔ میری طرف سے تو کوئی ٹینشن نہیں ہے۔ عینی بھی ہے، نیلم بھی ، سعود بھیا، قیصرانی بھیا، فاتح بھیا اتنے لوگ ہیں کوئی بھی مائینڈ کرنے والا نہیں ہے
میں نے تو صرف دو نام بتائے تھے :eek: نین دیکھیں کتنی لمبی لسٹ ہے یہاں
بس شروع ہو جائیں جلدی سے
 
Top