ابو ہاشم

محفلین

اسم​

اسم ایک ایسا لفظ ہوتا ہے جو کسی شخص، جگہ، چیز، عمل، کیفیت یا تصور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثالیں:
شخص: لڑکا، عمران، استاد، بادشاہ، منگتا، وغیرہ
جگہ: سڑک، گھر، گاؤں، شہر، اسلام آباد، مکہ، وغیرہ
چیز: ہانڈی، قلم، کرسی، وغیرہ
عمل: تعمیر، چوری، ہنسی، اسراف، چاپلوسی، نگرانی، وغیرہ
کیفیت: اکتاہٹ، خوشی، غصہ، منہگائی، خوبصورتی، بڑائی، مٹھاس، وغیرہ
تصور: عزت، مرتبہ، ازل، ابد، انتہا، حد، حجت، سلسلہ، درجن، پیغام، وغیرہ
 

ابو ہاشم

محفلین

اسم کے اوصاف​

ہر اسم کے تین اوصاف ہوتے ہیں: جنس، تعداد اور حالت

اسم کی جنس​

اردو میں ہر لفظ یا تو مذکر استعمال ہوتا ہے یا مؤنث۔ البتہ بعض الفاظ ایسے ہیں جو مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتے ہیں انھیں مشترک کہا جا سکتا ہے۔ تو اس طرح اردو اسما کی جنس تین طرح کی ہوئی: مذکر، مؤنث، مشترک۔
مثالیں:
مذکر: مرد، روزہ ، دروازہ، وغیرہ ؛
مؤنث:لڑکی، کھڑکی، رات ، وغیرہ ؛
مشترک:وزیر، وزیرِ اعظم، وزیرِ اعلیٰ، صدر، سربراہ، نمائندہ، امیر، مشیر، غریب، وکیل،سیاستدان، پاکستانی، عرب، انگریز، رشتے دار، دکاندار، زوج (spouse) ، ہمشیر (sibling)، والدین، بچہ، بیمار، ہم جماعت، ہم نام، ہم خیال، چچا زاد، مرتد، کارکن، رہنما، رہبر، رکن،کھلاڑی، قلمکار، نعت گو، جج، مزدور، کلرک، مہمان، میزبان، سرپرست، یتیم، لاوارث، ڈاکٹر، انجینیر، نرس، ڈسپنسر، دشمن، مددگار، انجان، بےکس، محتاج، بے دین، بے شرم، بیباک، بے روزگار، تماشائی، وغیرہ۔

آج کل دوست اور استاد جیسے الفاظ بھی مشترک ہو چکے ہیں جیسے یونیورسٹیوں کی استادیں، میری دوست وغیرہ۔

قواعد کو سادہ بنانے کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذکر جنس اردو الفاظ کی نارمل جنس ہے لیکن خاصے الفاظ مؤنث جنس کے بھی ہیں ۔ تو اس طرح قواعد سادہ ہو جائیں گے۔ اور صرف مؤنث الفاظ کی پہچان کی ضرورت ہو گی۔
 

ابو ہاشم

محفلین
مؤنث جنس کے الفاظ دو قسم کے ہیں:
1۔ حقیقی مؤنث الفاظ (ماداؤں کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ )
2۔ سماعی مؤنث الفاظ(غیر ماداؤں کے لیے اہلِ زبان سے سنے جانے والے الفاظ)

دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض اوقات مذکروں کے لیے بھی سماعی مؤنث الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں مثلاً ہستی، ذات، شخصیت وغیرہ
 

ابو ہاشم

محفلین

جنس کی پہچان​

1۔ ایسے الفاظ جن کے آخر میں ی آتی ہے عموماً مؤنث ہوتے ہیں جیسے بکری، بیٹی، گھڑی وغیرہ
لیکن اس قاعدے میں مندرجہ ذیل استثنا ہیں:
ا۔ یائے نسبتی والے الفاظ
ب۔ پانی، دہی، گھی، جی، موتی، ہاتھی وغیرہ جیسے دیسی الفاظ
2۔ عموماً کسی زمرے میں آنے والے الفاظ کی جنس اس زمرے کو ظاہر کرنے والے لفظ کی جنس کے مطابق ہوتی ہے مثلاً
ا۔ تمام زبانوں (زبان مؤنث )کے نام مؤنث ہیں
ب۔ تمام کتابوں (کتاب مؤنث )کے نام مؤنث ہیں (استثنا: قرآن)
ج۔ تمام شہروں (شہر مذکر )کے نام مذکر ہیں (استثنا: دلی)
د۔ تمام دریاؤں (دریا مذکر )کے نام مذکر ہیں (استثنا: گنگا، جمنا)
3۔ چھوٹی، نرم، نفیس چیزوں کے نام عموماً مؤنث ہوتے ہیں جبکہ بھاری بھرکم، رعب والی، سخت چیزوں کے نام عموماً مذکر ہوتے ہیں
4۔ ایسے الفاظ جن کے آخر میں ا آتی ہے عموماً مذکر ہوتے ہیں جیسے بکرا، بیٹا، لوٹا وغیرہ۔ لیکن اس قاعدے میں مندرجہ ذیل استثنا ہیں:
ا۔ دیسی مصغر الفاظ: بٹیا، لٹیا،چڑیا، کتیا، پڑیا، ڈبیا، چوہیا،عمریا وغیرہ مؤنث ہیں۔
ب۔ عربی کے سہ حرفی الفاظ جن کے آخر میں ا آتا ہے مثلاً دعا،ادا،بقا، فنا، بلا، وفا، قضا، سدا، دوا، قبا، سزا، جزا وغیرہ ۔ البتہ زِنا، عصا، طِلا وغیرہ مذکر ہیں
ج۔ سنسکرت سے آنے والے کچھ الفاظ مثلاً مالا، پروا، پچھوا، سبھا، پوجا وغیرہ
 

ابو ہاشم

محفلین
اردو تذکیر و تانیث کو سادہ بنانے کے لیے چند تجاویز:
  • جو الفاظ مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتے ہیں انھیں مذکر استعمال کرنے کو ترجیح دی جائے۔
  • غیر حقیقی جنس والے الفاظ ی پر ختم ہوں تو انھیں مؤنث استعمال کرنا جائز ٹھہرایا جائے۔
  • غیر حقیقی جنس والے ایسے الفاظ جو ی کے سوا کسی اور حرف پر ختم ہوں تو انھیں مذکر استعمال کرنا جائز ٹھہرایا جائے۔
 

الف عین

لائبریرین
تمام کتابوں (کتاب مؤنث )کے نام مؤنث ہیں (استثنا: قرآن)
دکن میں قرآن بھی مؤنث ہے
تمام دریاؤں (دریا مذکر )کے نام مذکر ہیں (استثنا: گنگا، جمنا)
بر صغیر میں تو میں نے صرف ستلج اور سندھ کو مذکر پایا ہے، ہندوستان کی ندیاں تو مؤنث ہی ہیں، کاویری، کرشنا، گوداوری، برہم پتر، نربدا/نرمدا، تاپتی، سرسوتی، گھاگھرا، راوی، جہلم، چناب ۔ آخر الذکر تینوں کو ممکن ہے پاکستان میں مذکر کہتے ہوں
 

ابو ہاشم

محفلین
جی ہاں جہلم، چناب، ستلج کو پاکستان میں مذکر ہی بولا اور لکھا جاتا ہے۔
اور ندی کا تصور ہماری ہاں تو تھوڑے سے بہنے والے پانی کا ہے۔
اور یہ بات بھی ہے کہ ندی مؤنث ہے تو جس بھی بہتے ہوئے پانی کو ندی کہا جائے گا تو وہ خود بخود مؤنث ہو جائے گا۔
 

ابو ہاشم

محفلین

اسم کی تعداد

بعض چیزوں کو شمار کیا جا سکتا ہے اور بعض کو نہیں مثلاًکتابوں، موروں، گیندوں وغیرہ کو ہم شمار کر سکتے ہیں جبکہ پانی، ہوا، دھواں، پیار، کھویا، آٹا وغیرہ کو ہم شمار نہیں کر سکتے۔
قابلِ شمار چیز اگر ایک ہو تو اس کے لیے واحد صیغہ استعمال کیا جاتا ہے اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو ان کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔
ناقابلِ شمار چیزیں واحد استعمال ہوتی ہیں۔ہاں اگر وہ الگ الگ مختلف جگہوں یا مختلف اوقات پر ہوں تو ان کی جمع استعمال ہوتی ہے مثلاًہوائیں، پانیوں، دھوؤں وغیرہ
 

ابو ہاشم

محفلین

واحد سے جمع بنانا

مذکر کی جمع
عمومی کلیہ:
مذکر لفظ کی واحد اور جمع کی صورت ایک ہی ہوتی ہے (استثنا ا/اں پر ختم ہونے والے الفاظ، اور ہ پر ختم ہونے والے وہ الفاظ جن پر ہ سے پہلے زبر ہو )
واحد
جمع
آدمی​
آدمی​
کسان​
کسان​
بادشاہ​
بادشاہ​
ہاتھ​
ہاتھ​
پاؤ​
پاؤ​
پڑاؤ​
پڑاؤ​
گاؤں​
گاؤں​
پاؤں​
پاؤں​
ڈاکو​
ڈاکو​
ہندو​
ہندو​
آلو​
آلو​

استثنائی کلیے:
1۔ مذکر لفظ ا پر ختم ہو تو اس کے اس آخری ا کو ے سے بدل دیتے ہیں مثلاً لڑکا سے لڑکے، گھڑا سے گھڑے ، دیا سے دیے، بھیڑیا سے بھیڑیے، کوا سے کوے،وغیرہ

لیکن اس کلیےسے اپنے سے بڑے سے رشتہ ظاہر کرنے والے الفاظ مستثنا ہیں جیسے ابا، چچا، تایا، دادا، نانا، پھوپھا۔ بھیّا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اپنے سے چھوٹے سے رشتہ ظاہر کرنے والے الفاظ کی جمع ا کو ے سے بدل کر بناتے ہیں جیسے بیٹا، پوتا، دوہتا، نواسا، بھتیجا، بھانجا۔ لفظ سالا بھی اسی زمرے میں آتا ہے اور اس کی جمع سالے بنتی ہے۔
نیز مندرجہ ذیل الفاظ اس کلیےسے مستثنا ہیں: دریا،صحرا،خدا،دیوتا، گدا ۔ ان کی واحد اور جمع کی صورت ایک ہی ہوتی ہے۔
سوا کی جمع سوئے بنتی ہے۔
2۔ مذکر لفظ اں پر ختم ہو تو اس کی جمع بنانے کے لیے اس کے آخر میں اں کی جگہ ئیں/یں لگا دیتے ہیں مثلاً کنواں سے کنویں، رواں سے روئیں ، دھواں سے دھوئیں۔
3۔ مذکر لفظ ہ پر ختم ہو اور اس سے پہلے زبر ہو تو اس کے اس آخری ہ کو ے سے بدل دیتے ہیں مثلاً ستارہ سے ستارے، سکہ سےسکے ، پیسہ سے پیسے ، بٹوہ سےبٹوے ، بستہ سےبستے، راستہ سے راستے، واسطہ سےواسطے، قافلہ سےقافلے، سجدہ سےسجدے، وغیرہ
نوٹ کریں کہ مذکر لفظ ہ پر ختم ہو اور اس سے پہلے ا ہو تو وہ ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔ بیاہ، نباہ، بادشاہ، گناہ، وغیرہ
4۔ مذکر لفظ ایہ پر ختم ہو تو اس کے آخری یہ کو ئے سے بدل دیتے ہیں مثلاً سایہ سےسائے، پایہ سےپائے ،سرمایہ سےسرمائے۔
روپیہ کی جمع روپے آتی ہے۔
 

ابو ہاشم

محفلین
مؤنث کی جمع
عمومی کلیہ:
مؤنث لفظ کی جمع بنانے کے لیے اس کے آخر میں یں لگا دیتے ہیں مثلاً عورت سے عورتیں، رات سے راتیں، کتاب سے کتابیں وغیرہ۔ (استثنا علت آواز (vowel sound) یا ہ پر ختم ہونے والے الفاظ)
استثنائی کلیے:
1۔ مؤنث لفظ ی یا ائی یا وئی پر ختم ہو تو اس کی جمع بنانے کے لیے اس کے آخر میں اں لگا دیتے ہیں مثلاً لڑکی سے لڑکیاں، باری سے باریاں؛ دوائی سے دوائیاں، سلائی سے سلائیاں ؛ سوئی سے سوئیاں، مہم جوئی سے مہم جوئیاں، وغیرہ
2۔ مؤنث لفظ کے آخر میں یا یا ئے ہو تو صرف ں بڑھاتے ہیں جیسے گڑیا سے گڑیاں، چڑیا سے چڑیاں؛ رائے سے رائیں، گائے سے گائیں وغیرہ
3۔ مؤنث لفظ ا یا و پر ختم ہو تو اس کی جمع بنانے کے لیے اس کے آگے ئیں لگا دیتے ہیں مثلاً دوا سے دوائیں، سزا سےسزائیں؛ خوشبُو سے خوشبُوئیں، رَو سے رَوئیں، وغیرہ
4۔ مؤنث لفظ ا ں یا وں پر ختم ہو تو اس کی جمع بنانے کے لیے ں کو ئیں سے بدل دیتے ہیں مثلاً ماں سے مائیں، جوں سے جوئیں وغیرہ
5۔ مؤنث لفظ ہ پر ختم ہو تو اس کی جمع بنانے کے لیے اس کے اس آخری ہ کو اڑا کر ائیں لگا دیتے ہیں مثلاً فاختہ سے فاختائیں، مادہ سے مادائیں وغیرہ
 

ابو ہاشم

محفلین

تثنیہ

ایک خاص جمع جو کہ ایک ہی قسم کی صرف دو چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
مثالیں:
قُطبَین(دو قطب: شمالی قطب اور جنوبی قطب)،
فریقَین(دونوں فریق)،
طرفَین(دو متضاد اطراف واقع چیزیں/افراد)،
وسطَین(دو درمیان میں آنے والے) ،
والِدَین (دونوں والد: ماں باپ)،
زوجَین(دونوں زوج: میاں بیوی)،
ضدَین (ایک دوسرے کے متضاد دو چیزیں)،
دارَین (دونوں جہان:دنیا اور آخرت)،
کونَین (دونوں جہان:دنیا اور آخرت)،
عیدَین (دونوں عیدیں: عید الفطر اور عید الاضحیٰ)،
حرمَین (دو حرم: مکہ مکرمہ اور مسجدِ نبوی)
حسنَین (دو حسن: حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین)،
شیخَین(دو شیخ: حضرت ابوبکر اور حضرت عمر)،
مشرِقَین (مشرق اور مغرب)،
جانبَین،
نعلَین (دونوں جوتے ) ،
بغلَین (دونوں بغلیں)،
قدمَین (دونوں پاؤں)

تثنیہ بنانے کا طریقہ
واحد لفظ کے آخر میں ین (یائے لین کے ساتھ) لگایا جاتا ہے۔
 

ابو ہاشم

محفلین

اسم کی حالت​

اسم کی تین حالتیں ہوتی ہیں:
1۔ عام حالت
2۔ امالی حالت
3۔ ندائی حالت

عام حالت: یہ اسم کی عام حالت ہے اور زیادہ تر اسم اسی حالت میں استعمال ہوتا ہے۔

امالی حالت: بعض خاص الفاظ اور لاحقے ایسے ہیں جو اگر کسی اسم کے بعد آ جائیں تو اس اسم کی شکل بدل جاتی ہے(معنے میں فرق نہیں پڑتا) ۔ اسم کی اس حالت کو امالی حالت کہیں گے۔ جیسے لڑکے سے لڑکوں، لڑکیاں سے لڑکیوں ، قلم سےقلموں وغیرہ۔
ان خاص الفاظ اور لاحقوں کو امالیہ کہ سکتے ہیں۔

ندائی حالت: کسی اسم کو پکارا جائے تو بھی عموماً اس کی شکل بدل جاتی ہے۔ اسم کی اس حالت کو ندائی حالت کہیں گے۔ جیسے اے لڑکے! اور اے لڑکو! میں لڑکے اور لڑکو۔

وضاحت کے لیے ذیل میں دیا گیا جدول دیکھیے:
عام حالت
امالی حالت
ندائی حالت
واحدمذکر
لڑکا​
لڑکے​
لڑکے!​
جمع مذکر
لڑکے​
لڑکوں​
لڑکو!​
واحد مؤنث
لڑکی​
لڑکی​
لڑکی!​
جمع مؤنث
لڑکیاں​
لڑکیوں​
لڑکیو!​
 
آخری تدوین:

ابو ہاشم

محفلین

امالی حالت بنانا​

واحد مذکر کی امالی حالت
واحد مذکر لفظ کی امالی حالت کے لیے اس لفظ کی جمع استعمال ہوتی ہے۔ جو قواعد(اوران کے استثنا) مذکر اسم کی جمع بنانے کے ہیں وہی قواعد مذکر اسم کی امالی حالت بنانے کے ہیں۔
لفظ لڑکا کی مثال لیں:
لڑکے نے پانی پیا۔
لڑکے کو مار پڑی۔
لڑکے سے کتاب لے۔
ان تمام جملوں میں لڑکے سے مراد ایک ہی لڑکا ہے۔ ان میں لڑکا کی جگہ لڑکے اس لیے استعمال ہوا ہے کیونکہ اس کے بعد نے، کو اور سے آ رہے ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں تو لڑکے لڑکا کی جمع ہےاور یہی اس کی امالی حالت ہے۔تو واحد مذکر کی جمع اور اس کی امالی حالت ایک ہی ہوتی ہے۔

واحد مؤنث کی امالی حالت
واحد مؤنث امالی حالت میں ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔
لفظ لڑکی کی مثال لیں:
لڑکی نے پانی پیا۔
لڑکی کو مار پڑی۔
لڑکی سے کتاب لے۔
 

ابو ہاشم

محفلین
جمع مذکر کی امالی حالت
عمومی کلیہ:
جمع مذکر اسما کی امالی حالت بنانے کے لیے ان کے آخر میں وں لگا دیتے ہیں ۔ جیسے کسان سے کسانوں ، پیر سے پیروں، ساتھی سے ساتھیوں، آدمی سے آدمیوں ، وغیرہ (استثنا: ا،و (علت)،ے، ئیں پر ختم ہونے والے اسما)
استثنائی کلیے:
1۔ جمع مذکر لفظ ے پر ختم ہو تو اس کی اس آخری ے کو گرا کر' وں' کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً لڑکے سے لڑکوں، گھوڑے سے گھوڑوں، کچھوے سے کچھووں، گھڑے سے گھڑوں ، سالے سے سالوں، ستارے سے ستاروں، سکے سے سکوں ،وغیرہ ۔
2۔ جمع مذکر لفظ ا یا و یا ؤ پر ختم ہو تو اس کے آخر میں 'ؤں' کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً چچا سے چچاؤں ، دریا سے دریاؤں ، صحرا سے صحراؤں، خدا سے خداؤں، دیوتا سے دیوتاؤں، گدا سے گداؤں؛ ہندو سے ہندوؤں، آلو سے آلوؤں، ڈاکو سے ڈاکوؤں؛ پاؤ سے پاؤؤں، پڑاؤ سے پڑاؤؤں، وغیرہ
3۔ جمع مذکر لفظ ئیں/یں پر ختم ہو تو اس کی امالی حالت بنانے کے لیے اس کے آخر میں ئیں/یں کی جگہ ؤں لگا دیتے ہیں مثلاً دھوئیں سے دھوؤں، کنویں سے کنوؤں وغیرہ
اسی طرح جمع اسما گاؤں اور پاؤں کی امالی شکل، میری رائے میں گاؤؤں اور پاؤؤں بنتی ہے ۔
سائے کی امالی شکل سایوں بنتی ہے۔

جمع مؤنث کی امالی حالت
عمومی کلیہ:
جمع مؤنث اسما کی امالی حالت بنانے کے لیے ان کے آخر سے یں/اں ہٹا کر وں لگا دیتے ہیں ۔ جیسے عورتیں سے عورتوں، کتابیں سے کتابوں، بھنویں سے بھنووں ؛ لڑکیاں سے لڑکیوں ، چڑیاں سے چڑیوں، گڑیاں سےگڑیوں، وغیرہ (استثنا: ئیں، ئیاں پر ختم ہونے والے اسما)
استثنائی کلیے:
1۔ جمع مؤنث لفظ ئیں پر ختم ہو تو اس کے اس آخری ئیں کو ؤں سے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ جیسے مائیں سے ماؤں،مالائیں سے مالاؤں، آیائیں سے آیاؤں، دوائیں سے دواؤں،سزائیں سے سزاؤں ، فاختائیں سے فاختاؤں، مادائیں سے ماداؤں؛ خوشبوئیں سے خوشبوؤں، جوئیں سے جوؤں؛ رَوئیں سے رَوؤں، وغیرہ ۔
اسی طرح جمع اسم چھاؤں کی امالی شکل، میری رائے میں چھاؤؤں بنتی ہے ۔
2۔ جمع مؤنث لفظ ئیاں پر ختم ہو تو اس کے اس آخری ئیاں کو ئیوں سے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ جیسے چار پائیاں سے چارپائیوں، کھائیاں سے کھائیوں،دوائیاں سے دوائیوں؛ سوئیاں کی سوئیوں، وغیرہ ۔
گائیں ،رائیں کی امالی شکلیں گایوں، رایوں بنتی ہیں۔
 

ابو ہاشم

محفلین

ندائی حالت بنانا​

واحد مذکر اسم کی ندائی حالت
واحد مذکر اسم کی ندائی حالت کے لیے اس لفظ کی جمع استعمال ہوتی ہے۔ جو قواعد(اوران کے استثنا) مذکر اسم کی جمع بنانے کے ہیں وہی قواعد مذکر اسم کی ندائی حالت بنانے کے ہیں۔مثالیں:
لڑکے!، کتے!، بھیڑیے!، بادشاہ!، ڈاکو!، ابّا!، دادا!، بھیا!، سالے!، صنم!، بھتیجے!، خدا!، شیر!، پیسے!، سجدے!، گواہ!، روپے!، سرمائے!، کنویں!، ستارے!، بابا!، گھڑے!
البتہ بیٹے کو پیار سے بیٹا! ہی کہا جاتا ہے۔
نوٹ: اردو میں واحد مذکر کو پکارنے کے لیے اس کے آخر میں ا بھی لگا دیا جاتا ہے جیسے بادشاہا!، ساقیا!، یارا!۔
خدا کو خدایا! پکارا جاتا ہے۔

واحد مؤنث اسم کی ندائی حالت
واحد مؤنث اسم ندائی حالت میں ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔ مثالیں:
لڑکی!، عورت !، رات ! ، گڑیا !، گائے !، سوئی!، دوا !، خوشبُو !، ماں !، فاختہ !،وغیرہ

جمع مذکر اسم کی ندائی حالت
جمع مذکر اسم کی ندائی حالت بنانے کے لیےجمع مذکر اسم کی امالی حالت استعمال کی جاتی ہے لیکن اس کا آخری نونِ غنہ گرا دیا جاتا ہے۔ مثالیں:
لڑکو!، گدھو!، بیٹو!، سالو!، ستارو!، سکو!، چچاؤ!، صحراؤ!،ناخداؤ!، گداؤ!،ساتھیو!، ہاتھیو!، آدمیو!، کسانو !، مسلمانو!، ڈاکوؤ!

جمع مؤنث اسم کی ندائی حالت
جمع مؤنث اسم کی ندائی حالت بنانے کے لیےجمع مؤنث اسم کی امالی حالت استعمال کی جاتی ہے لیکن اس کا آخری نونِ غنہ گرا دیا جاتا ہے۔ مثالیں:
لڑکیو! ، چڑیو!، گڑیو!، مالاؤ!، خوشبوؤ!، ماؤ!،جوؤ!، فاختاؤ!، دوائیو!، دواؤ!، سزاؤ!، سوئیو!،عورتو!، کتابو!، گایو!، گھٹاؤ!
 

الف عین

لائبریرین
جی ہاں جہلم، چناب، ستلج کو پاکستان میں مذکر ہی بولا اور لکھا جاتا ہے۔
اور ندی کا تصور ہماری ہاں تو تھوڑے سے بہنے والے پانی کا ہے۔
اور یہ بات بھی ہے کہ ندی مؤنث ہے تو جس بھی بہتے ہوئے پانی کو ندی کہا جائے گا تو وہ خود بخود مؤنث ہو جائے گا۔
دریائے گنگا ہو یا دریائے ستلج، یہاں جنس لفظ دریا کے مطابق مذکر ہو گی
اگر گنگا ندی اور ستلج ندی لکھا جائے تو جنس ندی کے مطابق مونث ہو گی
لیکن اگر دریا یا ندی نہ لکھتے ہوئے محض گنگا لکھا جائے تو مؤنث ہو گی اور ستلج لکھیں تو مذکر ہو گا
 

الف عین

لائبریرین
جمع مؤنث اسم کی ندائی حالت بنانے کے لیےجمع مؤنث اسم کی امالی حالت استعمال کی جاتی ہے
پہلے امالہ کو تو ڈفائن کیا جائے گرامر میں۔ بلکہ ندائی حالت کو بھی!
ویسے مکمل ہونے کے بعد میں اس کی برقی کتاب بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں، امید ہے اعتراض نہیں ہو گا
 

الف عین

لائبریرین
پہلے امالہ کو تو ڈفائن کیا جائے گرامر میں۔ بلکہ ندائی حالت کو بھی!
ویسے مکمل ہونے کے بعد میں اس کی برقی کتاب بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں، امید ہے اعتراض نہیں ہو گا
جلدی کر دی میں نے یہ پیغام دینے میں، معذرت، مکمل پڑھنے پر معلوم ہوا کہ امالہ کی تعریف بھی ہے اور ندائی کی بھی
 

ابو ہاشم

محفلین
ویسے مکمل ہونے کے بعد میں اس کی برقی کتاب بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں، امید ہے اعتراض نہیں ہو گا
جی ضرور ۔ یہ میرے لیے شرف ہو گا۔
البتہ یہ کام بہت بڑا ہے اور جلدی میں کیا جا رہا ہے اس لیے اس میں ضرور جھول بھی ہوں گے اور غلطیاں بھی ۔
گذارش ہے کہ اس سارے مواد کو سخت تنقیدی نظر سے دیکھا جائے اور اپنی رائے دی جائے ۔
 
Top