حقیت میں اگر دیکھو تو اک دیوار ہے مسلک (اصلاح)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
حقیت میں اگر دیکھو تو اک دیوار ہے مسلک
مسلمانوں کے دشمن کا یہ اک ہتھیار ہے مسلک

تو سنی ہے تو شعٰیہ ہے یہاں اک جنگ جاری ہے
مسلمانوں کے آنگن میں ظلم کی باڑ ہے مسلک

بزرگوں نے نا کوشش کی نا اب دھیان دیتے ہیں
جوانوں کے ہو ہاتھوں میں تو یہ تلوار ہے مسلک

بظاہر کچھ نہیں کہتے مگر دل میں عداوت ہے
عجب فنکار ہے مسلک عجب کردار ہے مسلک

کسی کی بات کو تسلیم کرنا کتنا مشکل ہے
زباں پر ہر گھڑی رکھنا فقط انکار ہے مسلک


اصلاح کر دیجئے استاد محترم
 
بھئی ہم تو بس تعریف ہی کر سکتے ہیں باقی جانیں اساتذہ۔

ویسے دو ایک جگہ کچھ کھنچاؤ سا محسوس ہوا وہ ہم ضرور بتانا چاہیں گے۔

مسلمانوں کے آنگن میں ظلم کی باڑ ہے مسلک

یہاں غالباً آپ نے ظلم کے ل پر زبر استعمال کیا ہے جبکہ ہم اسے ساکن پڑھتے آئے ہیں۔ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ زبر کے ساتھ بھی درست ہے یا نہیں۔

بزرگوں نے نا کوشش کی نا اب دھیان دیتے ہیں

اس نصف آخر میں کچھ لکھنے سے رہ گیا ہے شاید۔ اس کے علاوہ دونوں مقامات پر "نا" کو "نہ" لکھنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
سعود نے درست نشان دہی کی ہے۔
لیکن خرم، یہ تم مسلکوں کے پیچھے کیوں پڑ گئے۔ مسلکوں کا ٹکراؤ نقصان دہ ہوتا ہے مسلمانوں کے لئے، تم تو سرے سے ہر مسلک کے خلاف ہو گئے۔
خیر یہ بحث بر طرف، اب تکنیکی گفتگو۔

حقیت میں اگر دیکھو تو اک دیوار ہے مسلک
مسلمانوں کے دشمن کا یہ اک ہتھیار ہے مسلک
÷÷کوئی مخصوص مسلک کی نشان دہی کرنا چاہتے ہو، ورنہ مسلکوں کی بات کر رہے ہو تو یہاں جمع کا صیغہ ہونا چاہئے۔ اور دوسرے مصرع میں ’مسلمانوں کے دشمن‘ ۔۔؟ کیا دشمن بھی ایک ہی ہے؟

تو سنی ہے تو شیعہ ہے یہاں اک جنگ جاری ہے
مسلمانوں کے آنگن میں ظلم کی باڑ ہے مسلک
÷÷ یہاں دوسرے مصرع میں ہی دو فنی اغلاط ہیں۔ ظلم کی جگہ ’ستم‘ بحر میں آ سکتا ہے، لیکن ’باڑ‘ پر کیسے باڑ لگاؤں؟ قوافی آر‘ پار‘ وغیرہ ہیں، یہ ’ڑ‘ کہاں سے آ گئی۔
اس پر ایک لطیفہ یاد آیا۔ والد مرحوم کے ایک گجراتی داؤدی بوہرا شاگرد تھے۔ بوہرے بھی ڑ اور ر کے درمیان تمیز نہیں کرتے، اور ٹ اور ت میں بھی۔ ان صاحب نے مطلع کہا
آپ ہم سے جو آر کرتے ہیں
دل مرا بے قرار کرتے ہیں
والد مرحوم پہلے اس ’آر‘ کو ’عار‘ سمجھے۔ اور مطلب پر غور کرتے رہے، آخر کہا کہ شعر سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہنا چاہتے ہو۔ تو ان بوہرا شاعر نے چہرے پر ہاتھ سے پردے کا اشارہ کیا اور کہا ’آر۔ آر‘ تب ان کی سمجھ میں آیا کہ موصوف کے مطلع میں لفظ ’آڑ‘ ہے۔ ’ہے مسلک‘ پر تو ہر جگہ اعتراض ہے۔

بزرگوں نے نا کوشش کی نا اب دھیان دیتے ہیں
جوانوں کے ہو ہاتھوں میں تو یہ تلوار ہے مسلک

÷÷بزرگوں نے نہ کوشش کی نہ اب دھیان دیتے ہیں (’نا‘ کو’ نہ‘ میں تبدیل کرنے کے بعد)۔ میں دھیان کا قافیہ بھی غلط ہے۔ اس کو دھے یان‘ باندھا گیا ہے، بر وزن مفعول۔ یہ محض فعلن ہے، د، ھ اور ی مل کر ایک ہی حرف گنے جاتے ہیں۔

جوانوں کے ہو ہاتھوں میں تو یہ تلوار ہے مسلک
درست، سوائے ’ہے مسلک‘ کے

بظاہر کچھ نہیں کہتے مگر دل میں عداوت ہے
عجب فنکار ہے مسلک عجب کردار ہے مسلک
÷÷پہلے مصرع کا فاعل کون ہے؟ واضح نہیں، اس میں مسلک کی فنکاری کا کیا محل ہے، بات سمجھ میں نہیں آئی۔

کسی کی بات کو تسلیم کرنا کتنا مشکل ہے
زباں پر ہر گھڑی رکھنا فقط انکار ہے مسلک
پہلا مصرع تو اچھا رواں ہے، لیکن دوسرا مصرع۔۔ سمجھ میں نہیں آیا یہ بھی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب خرم بھائی،

بہت اچھا موضوع چنا ہے آپ نے، واقعی یہ الگ الگ ایک دوسرے سے متنفر مسالک اور فرقہ پرستی ہی اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
 

dxbgraphics

محفلین
میں شاعری کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہوں۔ لیکن اچانک ذہن میں “ظلم کی باڑ“ کی جگہ “ستم کے پہاڑ “ آگیا۔
:)
 
Top