حضرت مرزا صاحب پر حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کا جھوٹا الزام

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
۔ اس کتاب کے حاشیہ پر اہلسنت والجماعت کے جید عالم مولوی آل حسن صاحب نے کتاب استفسار لکھی جس میں وہ لکھتے ہیں: "اور ذرے گریبان میں سر ڈال کر دیکھو معاذ اللہ حضرت عیسی کے نسب مادری میں دو جگہ تم آپ ہی زنا ثابت کرتے ہو"۔
۔

رانا جی آپ اپنی تحریر کاپی پیسٹ کرتے ہوئے خود بھی نہیں پڑھتے ، آپ جو لکھتے ہیں اس میں خود ہی پھنس جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسا کا کتاب کے نام '' کتاب استفسار '' سے ظاہر ہے ۔۔۔۔۔ یہاں اس جملے میں مولوی آل حسن صاحب تو عیسائیوں کو کوس رہے ہیں ان کو ان کے کئے گئے جرم ( حضرت عیسی علیہ السلام کے نسب مادری پر تہمت ) یاد دلا رہے ہیں کہ بدبخت عیسائیوں تم مسیح کے پیروکار ہونے کے با وجود ان (حضرت عیسی علیہ السلام ) کے نسب مادری میں دو جگہ تم آپ ہی زنا ثابت کرتےہو ۔۔۔۔۔۔ نا کہ مولوی آل حسن صاحب مرزا جی کی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے خاندان کی پاکیزہ خواتین پر تہمت لگا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

سو مسٹر مربی اپنی لکھی تحریر کا مطلب خود جان لو تو شاید تمہیں بھی کچھ عقل آ جائے اور تم توبہ کی طرف رجوع کر کے ہدایت پا لو ۔۔۔۔۔۔۔
 

الم

محفلین
رانا جی ۔۔۔ ۔۔ آپ حسب عادت آتے ہیں اور مرزا کی شیطان القلمی کا ایک نادر نمونہ آویزاں کر کے رخصت ہو جاتے ہیں، امید ہے کبھی دینی بحث کیلئے علمی دلائل لے کر بھی آئیں گے تو بات بھی ہو گی ۔۔۔ ۔ آپ کی ہر فائل میں ہی آپ کے موقف کا جواب چھپا ہوتا ہے جو شاید آپ کو تو نظر نہیں آتا لیکن لیکن ہر عاقل مسلمان کو ضرور دکھائی دیتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ آپ کی اس ساری قصہ خوانی میں آپ کی یہ عبارت میں ہے جواب چھپا ہے۔۔۔ ۔۔

فاروق درویش جنابِ والی وجہ اس بات کی بڑی آسان ایک کاپی پیسٹ کرنے میں وقت بہت تھوڑا لگتا بنسبت اس کو سمجھنے میں اسی لئیے جناب رانا جی غائب ہو جاتے​
 

رانا

محفلین
عربی کہاوت ہے کہ قافلہ چلتا رہتا ہے اور کتے بھونکتے رہتے ہیں۔ اگر جماعت احمدیہ اس طرح ہر ایرے غیرے کا نوٹس لینا شروع کردیتی تو کبھی اتنی ترقی نہ کرپاتی جس نے آپ لوگوں کی راتوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ ایک وقت تھا جب قادیان کی گمنام بستی سے اکیلی ایک آواز اٹھی تھی۔ اور اسکے مقابل بھی بہت سی آوازیں آپ کے اباواجداد کی طرف سے اٹھی تھیں کہ ہم اس آواز کو قادیان سے باہر نہیں نکلنے دیں گے اور قادیان کے اندر ہی دفن کردیں گے۔ اس بات کو سوا سو سال کا عرصہ گذر گیا ہے۔ اس دوران جماعت احمدیہ کے قافلے پر کتنے ہی کتوں نے بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھایا کہ کسی طرح اس قافلے کی رفتار کچھ سست ہی ہوجائے۔ لیکن کہاں وہ وقت کہ اس آواز کو قادیان میں دفن کرنے کے دعوے کیے گئے تھے اور کہاں آج یہ وقت کہ جماعت احمدیہ کو ختم کرنے کے لئے آپ لوگ آج جو بھی تنظیم بناتے ہیں اس کے ساتھ آپ کو لفظ "انٹرنیشنل" لگانا پڑتا ہے جو اس بات کا اقرار ہے کہ یہ آواز اب قادیان سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔

آج جماعت احمدیہ کا پودا دنیا کے 200 ممالک میں لگ چکا ہے۔ اور 70 زبانوں میں قرآن شریف کے تراجم پوری دنیا میں اکیلی جماعت احمدیہ کو شائع کرنے کی توفیق مل چکی ہے۔ حضرت مرزا صاحب کی تحریرات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا 120 سے زائد زبانوں میں ترجمہ کر کے دنیا میں پھیلایا جاچکا ہے۔ MTA یعنی مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ انٹرنیشنل کے نام سے 3 ٹی وی چینل پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے قائم کرنے کی توفیق مل چکی ہے۔ جن میں سے ایک بطور خاص صرف عرب ممالک کے لئے عربی زبان میں نشر ہوتا ہے۔ یہ چینل پوری دنیا کو کور کرتے ہیں اور 24 گھنٹے نشریات جاری ہیں۔ اور رسائل اور اخبارات اور کتب جو پوری دنیا سے شائع ہوتے ہیں ان کا تو حساب ہی نہیں۔ افریقہ کے غریب ممالک میں کتنے ہی ہسپتالوں اور اسکولوں کے ذریعے جماعت احمدیہ کو خدمت انسانیت کی توفیق مل رہی ہے۔ اور وہ آواز جس کو قادیان میں دبانے کی باتیں ہوتی تھیں وہ ابتدا میں اکیلی تھی، مرزا صاحب کی زندگی میں ہی آپ کے اباواجداد کی ہزار کوششوں کے باوجود مرزا صاحب پر ایمان لانے والوں کی تعداد 4 لاکھ ہوچکی تھی جو آج سو سال بعد بڑھ کر کروڑوں میں داخل ہوچکی ہے۔ اور آپ لوگوں کی بوکھلاہٹ کا یہ حال ہے کہ کبھی تو کہتے ہیں کہ جماعت کی تعداد بہت معمولی ہے۔ بھائی اگر بہت معمولی تعداد ہے اور سواسوسال میں کوئی ترقی نہیں ہوئی تو پھر آپ لوگوں کی نیندیں کیوں اڑی ہوئی ہیں۔

بہرحال آپ تسلی رکھیں آپ جیسے مسلسل جھوٹ کی نجاست پر منہ مارنے والے سے بحث میں الجھنے کا مجھے کوئی شوق نہیں۔ میں جو بھی پوسٹ یہاں کروں گا وہ صرف اور صرف اہل علم احباب کے لئے ہوگی جو آپ جیسے بازاری شعبدہ بازوں کی تقریروں کا کوئی نوٹس نہیں لیتے۔اور ایسے لوگ جو آپ کے لکھے گئے جھوٹ کو من و عن تحقیق سمجھ کو قبول کرلیتے ہیں وہ اپنی ذہنی سطح کا اسطرح خود ہی پول کھول دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں اور ان کی پوسٹس کو بھی میں درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔

باقی جہاں تک جماعت احمدیہ کی ترقی کا تعلق ہے تو وہ اب آپ کے حواسوں پر اس قدر سوار ہے کہ اسے روکنے کے جو طریقے آپ لوگ استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اس کی ایک جھلک سنجیدہ محفلین یہاں ملاحظ کریں۔
 
عربی کہاوت ہے کہ قافلہ چلتا رہتا ہے اور کتے بھونکتے رہتے ہیں۔ اگر جماعت احمدیہ اس طرح ہر ایرے غیرے کا نوٹس لینا شروع کردیتی تو کبھی اتنی ترقی نہ کرپاتی جس نے آپ لوگوں کی راتوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ ایک وقت تھا جب قادیان کی گمنام بستی سے اکیلی ایک آواز اٹھی تھی۔ اور اسکے مقابل بھی بہت سی آوازیں آپ کے اباواجداد کی طرف سے اٹھی تھیں کہ ہم اس آواز کو قادیان سے باہر نہیں نکلنے دیں گے اور قادیان کے اندر ہی دفن کردیں گے۔ اس بات کو سوا سو سال کا عرصہ گذر گیا ہے۔ اس دوران جماعت احمدیہ کے قافلے پر کتنے ہی کتوں نے بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھایا کہ کسی طرح اس قافلے کی رفتار کچھ سست ہی ہوجائے۔
بہرحال آپ تسلی رکھیں آپ جیسے مسلسل جھوٹ کی نجاست پر منہ مارنے والے سے بحث میں الجھنے کا مجھے کوئی شوق نہیں۔ میں جو بھی پوسٹ یہاں کروں گا وہ صرف اور صرف اہل علم احباب کے لئے ہوگی جو آپ جیسے بازاری شعبدہ بازوں کی تقریروں کا کوئی نوٹس نہیں لیتے۔اور ایسے لوگ جو لکھے گئے جھوٹ کو من و عن تحقیق سمجھ کو قبول کرلیتے ہیں وہ اپنی ذہنی سطح کا اسطرح خود ہی پول کھول دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں اور ان کی پوسٹس کو بھی میں درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔
سبحان اللہ کیا زبان ہے۔۔۔لیکن اس میں موصوف کا بھی قصور نہیں کیونکہ جس نبی کے آپ ماننے والے ہیں اسکے اخلاق کامتبوعین میں سرایت کرنا ایک فطری عمل ہے۔۔۔یہ دھاگہ کسی اور نے نہیںموصوف نےخود شروع کیا ہے۔ ہونا تو یہی چاہئیے تھا کہ جس بات کوموصوف ثابت کرنا چاہتے تھے اسے ثابت کر کے دکھاتے یعنی مرزا صاحب کی ان عبارتوں کا دفاع، لیکن جہاں کسی نے یہ اعتراض کیا کہ کسی نبی کے شایان شان نہیں کہ ایسی بدزبانی و چڑچڑہ پن اور غصے کے ہاتھوں مغلوب ہوکر ایسی کمزوری کا مظاہرہ کرے، تو اس اعتراض کا دلیل کے ساتھ جواب دینے کی بجا ئے یہ گلفشانیاں کی جارہی ہیں۔۔۔یعنی سوال گندم جواب چنا۔
ارے بھئی جب اتنی لیاقت نہیں ہے تو کیوں موضوع شروع کرتے ہو۔۔۔جو گند آپکے پیشوا نے ڈالا ہوا ہے اسکو سمیٹ نہیں سکتے تو مزید گند تو نہ ڈالو ناں۔۔۔جب دلیل کے جواب میں اسطرح آئیں بائیں شائیں ہونے لگے تو اورغیر منطقی جوابات آنے لگیں، منہ سے کف بہنے لگے تو یہ علامت شکست کی ہوتی ہے۔
بات یہ ہے کہ کوئی بھی انسان اشتعال انگیزی کے جواب میں اپنی نفسیات اور کردار کے مطابق ردعمل ظاہر کرتا ہے۔۔۔اور اسی سے اسکی شخصیت کا پول کھلتا ہے۔۔۔جب ایک شخص مجدد، محدث، مسیح موعود، مثیل مسیح، نبی ، رسول، مثییل رسول، فنا فی الرسول اور نجانے اور کیا کیا دعوے کرتا ہے تو ہم کس طرح ان دعووں کو مان لیں جبکہ اسکی شخصیت ، کردار، اور اخلاق ان مراتب عالیہ سے مطابقت نہ رکھتے ہوں بلکہ ایک گھٹیا اور کم ظرف بیمار ذہن کی غمازی کرتے ہوں۔۔۔ذرا فرصت ملے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ عسلم کی سیرت و اخلاق کا مطالعہ بھی کیجئے اور پھر موازنہ کیجئے اپنے حضرت کی کارستانیوں سے۔۔۔چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔۔۔۔سچ ہے کہ اذالم تستحی فاصنع ماشئت
 

ساجد

محفلین
رانا صاحب ، مختلف دھاگوں پر محیط اس بحث میں آپ کن اہل علم سے مخاطب ہیں؟ جو آپ سے یہاں مخاطب ہیں کیا وہ سب جاہل ہیں؟۔
جناب ، سیدھی سی بات ہے کہ آپ کے پیش رو ختم نبوت کے منکر ہوئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واضح فرمان لا نبی بعدی سے مفر کرتے ہوئے نا صرف خود نبی بن بیٹھے بلکہ دیگر انبیاء کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے۔ آپ کے پیش رو نے جو بھی کیا اس کا حساب اس نے خدا کے حضور دینا ہے لیکن اس کے شروع کردہ فتنے نے خود کو اسلام کا نام دے کر یہ ثابت کر دیا کہ اس کے پیچھے کون کارفرما تھا ۔ آپ کے پیش رو بہت سے معاملات میں ہندوستانی لارنس آف عریبیہ کہلانے کے مستحق ہیں ۔ اس کا مقصد مسلمانوں میں نفرت کے بیج بونا تھا۔ یہی کام تو لارنس آف عریبیہ نے عربوں میں قوم پرستی کی بیداری کے لئیے کیا تھا اور دونوں کا آقا برطانیہ ہے۔
مجھے مذہبی حوالوں کی متنازعہ باتوں میں پڑھنے کا کوئی شوق نہیں لیکن تاریخ کے فیصلے غیر جانبدار ہوتے ہیں جو ایک لمبے عرصے بعد صادر ہوتے ہیں لیکن معتبر ہوتے ہیں۔ اپنے خول سے باہر آئیے اور دیکھئیے کہ تاریخ میں آپ کے پیش رو اور ان کا عقیدہ کہاں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا قبلہ و کعبہ ، ملجا و پروردہ کون ہے؟۔
آپ بڑی خوشی سے اپنے عقیدے پر قائم رہئیے اور دل چاہے تو اس کا پرچار بھی کیجئیے اسلام اور مسلمانوں کو اس سے کوئی خطرہ نہیں لیکن اعتراض ضرور ہے ۔ اعتراض اس بات پر کہ آپ اپنے پیروکار کے کفریہ عقائد کو اسلام کا نام ، خود کو مسلمان کی پہچان اور اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کا نام دیتے ہیں۔ جب کہ آپ کے پیش رو تحریف شدہ نظریات کے مؤجد ہیں تو ان کے" دین" کے شعار اور احکامات کا اسلام سے کوئی بھی تعلق نہیں بنتا۔
ایک پاکستانی ہونے کے ناطے آپ مجھے اتنے ہی عزیز ہیں جتنا کوئی دوسرا پاکستانی اور آپ پر یا آپ کی عبادت گاہوں پر حملوں پر میں نے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے اور دانش اسی میں ہے کہ آپ بھی ایسے کاموں سے گریز کریں جو مسلمانوں کو مشتعل کرتے ہیں۔ احمدیت سے تائب نہیں وتے تو کم از کم اسے اسلام ثابت کرنے کی کوششیں مت کیجئیے کہ احمدیت کوئی دین نہیں یہ ایک ازم ہے جس کا خالق ایک انسان ہے رب کائنات نہیں۔
 
عربی کہاوت ہے کہ قافلہ چلتا رہتا ہے اور کتے بھونکتے رہتے ہیں۔ اگر جماعت احمدیہ اس طرح ہر ایرے غیرے کا نوٹس لینا شروع کردیتی تو کبھی اتنی ترقی نہ کرپاتی جس نے آپ لوگوں کی راتوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ اس دوران جماعت احمدیہ کے قافلے پر کتنے ہی کتوں نے بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھایا کہ کسی طرح اس قافلے کی رفتار کچھ سست ہی ہوجائے۔
بہرحال آپ تسلی رکھیں آپ جیسے مسلسل جھوٹ کی نجاست پر منہ مارنے والے سے بحث میں الجھنے کا مجھے کوئی شوق نہیں۔ میں جو بھی پوسٹ یہاں کروں گا وہ صرف اور صرف اہل علم احباب کے لئے ہوگی جو آپ جیسے بازاری شعبدہ بازوں کی تقریروں کا کوئی نوٹس نہیں لیتے۔
۔

رانا جی میں نے قرآن و حدیث کے حوالے سے بات کرنا چاہی ، آپ یا آپ کے کسی پادری کے پاس کوئی جواب ہو تو دے مگر خوشی ہوئی کہ آپ کی غلیظ زبان نے آپ کے دجالی مذہب کو از خود غلاظت ثابت کر کےسارا مسلہ ہی حل کر دیا ۔۔۔۔۔۔آپ کی طرف سے اس متعفن و غلیظ زبان کا استعمال ہی تو آپ کو ایک ،، سچا قادیانی،، ثابت کر رہا ہے کہ آپ عین سنت ِ مرزا آف قادیان پر عمل پیرا ہیں اور ایک غلیظ الزبان شیطان القلم کاذب نبی کی برانڈڈ زبان میں گفتگو فرما کر ڈھیروں نیکیاں کما رہے ہیں جو آپ کو قادیان کے گالی باز نبی کاذب کی جنت آف قادیان میں لے جانے کیلئے کافی ہو گی یاد رکھئے عین ممکن ہے کہ اس سنت کی پیروی میں اس جنت کی منزل تک جانے کیلئےآپ کو بھی وہی راستہ یا روٹ دستیاب ہو جو مرزا جی کو نصیب ہوا اور جس کا آخری سنگ میل برانڈرتھ روڈ کی قادیانی منزل کا بیت الخلا تھا ۔۔۔۔۔ مرزا جی نے نہ تو مولانا ثنا اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کو بخشا نہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ اس کی زبان درازی کے حملوں سے محفوط رہے ، نہ اس کے پیروکاروں کی زبان کی گندگی سے حضرت عطا اللہ شاہ بخاری کی عزت محفوظ رہی۔۔۔۔ جب مرزا جی خود ایسی زبان استعمال کرے کہ ۔۔۔۔۔ کل مسلمانوں نے مجھے قبول کر لیا اور میری دعوت کی تصدیق کر لی مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا۔ (آئینہ کمالات ص ٥٤٧) ۔۔۔۔۔۔۔ میرے مخالف جنگلوں کے سؤر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں ۔ (نجم الہدیٰ ص ٥٣مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی) نمبر ٤ جو ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ۔۔۔۔۔ تو بتائیے اس کی سنت ِ خباثت پر عمل پیرا کوئی قادیانی ویسی ہی زبان کیوں نہ بولے گا؟
جو کاذب و گستاخ مرزا میرے آقا نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے یہ گستاخانہ تحریر لکھے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھالیتے تھے حالانکہ مشہو رتھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے۔ (مکتوب مرزا غلام احمد قادیانی مندرجہ اخبار الفضل ٢٢فروری ١٩٢٤ ) ( انوارالاسلام ص ٣٠مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی) ۔۔۔۔۔۔۔۔ سو جس دجالی و کاذب نبی کی زبان سے نہ انبیا اکرام محفوظ رہے نہ اکابرین ملت تو پھر اس فتنے کے پیروکاروں کی غلیظ و متعفن زبان سے ہم کیوں کر محفوظ رہ پائیں گے؟ اس گستاخ مرزا کے بچونگڑے اس سچے نبی کے امتیوں کو کتا کتا کیوں نہ کہیں گے؟ ہاں ہم کتے ہیں مگر ہمارے گلے میں اس نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا پٹا ہے جو سارے سچے نبیوں کا سردار اور اللہ کا آخری سچا نبی تھا ۔۔۔ ہم اسی رسول برحق سید المرسلین کا پٹا گلے میں ڈالے ہوئے ہیں اور یہی پٹا روز محشر ہماری شفاعت کا باعث بنے گا ۔۔۔ہمارا حق ایمان ہے کہ جس کے اس ختم الرسل کی غلامی کا پٹا اپنے گلے میں ڈال لیا وہ دین و دنیا میں سرخرو ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم سب سوئے حشر سب تماشہ دیکھیں گے گستاخ نبوت ، گستاخ قرآن مرزا اور اس کے ہر دجالی و گستاخ پیروکار کی رسوائی کا۔۔۔۔ لعنت اللہ علی الکاذبین
 

رانا

محفلین
رانا صاحب ، مختلف دھاگوں پر محیط اس بحث میں آپ کن اہل علم سے مخاطب ہیں؟ جو آپ سے یہاں مخاطب ہیں کیا وہ سب جاہل ہیں؟۔ ---------------------احمدیت سے تائب نہیں وتے تو کم از کم اسے اسلام ثابت کرنے کی کوششیں مت کیجئیے کہ احمدیت کوئی دین نہیں یہ ایک ازم ہے جس کا خالق ایک انسان ہے رب کائنات نہیں۔

ساجد صاحب یا تو آپ کی درویش صاحب کی تمام پوسٹس پر نظر ہی نہیں اور یا آپ بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے۔ میں نے انہیں ایک سلجھا ہوا علم دوست شخص سمجھ کر ہی ان کی طرف سے اٹھائے گئے بعض سوالات کا جواب دینے کا ارادہ کیا تھا لیکن ابھی صرف ایک ہی پوسٹ کی تھی کہ ان کی طرف سے جو گند اچھالا گیا اگر وہ آپ یا آپ کے والد محترم کے متعلق اچھالا جاتا تو میں آپ سے پوچھتا کہ آپ کی نظر میں یہ اہل علم میں شامل کئے جاسکتے ہیں یا نہیں۔ جتنی آپ کے ہاں اپنے والدین کی عزت ہے اس سے کہیں زیادہ کسی بھی شخص کے نزدیک اسکے مذہبی پیشواوں کی ہوتی ہے۔ ذرا اس لنک پر جائیں اور میں نے ان کے ایک اعتراض کے جواب میں جو ایک سلجھی ہوئی ویڈیو پوسٹ کی تھی اس میری پوسٹ کے فورا بعد والی ان کی پوسٹ پر ذرا ایک نظر ڈال کر اپنے کمنٹس پر نظر ثانی کریں۔ بجائے اسکے کوئی انہیں ٹوکتا اس پوسٹ کا بعض کی طرف سے شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ دل تو میرا چاہ رہا تھا کہ درویش صاحب اور ان کی بیٹی کے متعلق ہر پوسٹ میں وہی الزام بار بار میں بھی دہراوں کہ ان کی اس پہل کے بعد اب تو کسی منتظم کو مجھے ٹوکنے کا اصولا اختیار بھی نہیں تھا لیکن بہرحال مجھ سے ایسا نہیں ہوسکتا کہ اسطرح کے الزام میں کچھ بھی سچائی ہو تو بندہ بطور الزامی جواب اسے اختیار کرے لیکن سراسر جھوٹے الزام اتنی بے حیائی کے ساتھ لگانا صرف ان کا ہی خاصہ ہے۔ ان الفاظ کو پڑھ لیں اور پھر میرے یہاں تحریر کئے گئے الفاظ کو پڑھ لیں اور موازنہ کرلیں۔ کیا اس کے بعد بھی میں ان کو مذید مخاطب کرتا رہتا؟ اسی لئے میں نے کہا ہے کہ میری اب تمام پوسٹس صرف ان اہل علم احباب کی توجہ کے لئے ہوں گی جو علمی رنگ میں بات کرنے کی لیاقت رکھتے ہیں۔

باقی رہی یہ بات کہ احمدیت کو اسلام نہ کہیں تو آپ کب سے داروغہ بن گئے؟ یہی بات میں بھی آپ سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے مسلک کو اسلام مت کہیں۔ کون فیصلہ کرے گا اس کا؟ کیا صرف قومی اسمبلی کے فیصلے کے بل بوتے پر یہ بات کہہ رہے ہیں؟ پھر یہی سوال اٹھتا ہے کہ کسی اسمبلی کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ کسی کے مذہب کا فیصلہ کرے؟ بہرحال اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔لیکن قومی اسمبلی کے اس فیصلے کی کیا حقیقت ہے اس ویڈیو پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ یاد رہے کہ یہ ویڈیو بھی صرف اہل علم احباب کے استفادہ کے لئے لگائی گئی ہے۔

 

الم

محفلین
باقی رہی یہ بات کہ احمدیت کو اسلام نہ کہیں تو آپ کب سے داروغہ بن گئے؟ یہی بات میں بھی آپ سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے مسلک کو اسلام مت کہیں۔ کون فیصلہ کرے گا اس کا؟ کیا صرف قومی اسمبلی کے فیصلے کے بل بوتے پر یہ بات کہہ رہے ہیں؟ پھر یہی سوال اٹھتا ہے کہ کسی اسمبلی کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ کسی کے مذہب کا فیصلہ کرے؟ بہرحال اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔

ایک سیکنڈ پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا سنہرا سال 1974 ہے۔ اہل علم کا ڈنکا بجانے والے سے پہلے میں آپ کے علم میں تھوڑا اضافہ کرتا چلوں کے مرزا صاحب اور انکے بعد آنے والے مربیوں نے مسلمانوں کو اس سے کئی سال پہلے غیر مسلم قرار دیا تھا۔ تو یہ سوال کرنے سے پہلے اپنی کتب کی طرف دیکھیں اور مطالعہ کریں (وہ بھی تین بار ورنہ آپکا ایمان بھی مشکوک اپنی کتب کے لحاظ سے) صرف کاپی پیسٹ سے کام نہیں بنتا اور تھوڑی "ادب" کی زبان بھی سیکھیں جس طرح کی آپکی گفتگو ہے مجھے تو آپ کے قادیانی ہونے میں بھی شک ہے کیوں کے قادیانی کا موٹو تو ہے ہی یہ کہ محبت سب کے لئیے اور نفرت کسی سے نہیں۔۔۔خیر میں ایک تصویر پیش کرتا ذرا حوالے تو بہت لیکن ایک ہی کافی ہوتا جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئیے:

کتاب ہے انوارِ خلافت صفحہ 90 از مرزا بشیر الدین

image.jpg

اؤئے ہوئے یہ کیا کہہ دیا جناب نے غیر احمدی مسلمان نہیں یہی نہیں نماز تک نہیں پڑھنی۔۔۔۔رانا صاحب تھوڑی سی شرم اگر ہو گی آپ میں تو آئندہ یہ نہیں کہیں گے جو اقتباس لیا آپکا۔۔۔شاید اسی لئیے آپ اس بحث میں نہیں پڑنا چاہ رہے تھے کیوں کے یہ حوالہ ایک طمانچہ ہے۔۔۔

یہ تصویر آپکی لو فار آل ھیٹ فار نن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔جو آپکی گفتگو سے بھی جھلک رہا یہاں۔۔۔اور اس بے جا الزام کا کے ہم تو کچھ نہیں کہتے یہ مسلمان ہی ہمیں کافر کافر کہتے۔۔۔اب جا کے ذرا مرزا بشیر (لعین) کی قبر پہ نوحہ کریں کے کیوں ایسی باتیں لکھ گیا وہ۔۔۔آپ کے مربی کو کس نے حق دیا کہ وہ عاشقِ رسولوں کو غیر مسلم کہے وہ بھی "فرض" میں شامل کر دیا۔
 

رانا

محفلین
نام نہاد علماء کی طرف سے احمدیوں کے ساتھ کئے جانے والے امتیازی سلوک پر ایک نظر ڈال لیں اور جس صفحے کا آپ نے عکس دیا ہے اسی کو ذرا غور سے پڑھ لیں اور موازنہ کرلیں تو شائد تھوڑی سی شرم آپ کو آہی جائے۔ اسی لئے میں نے اوپر امتیازی سلوک کی ایک ویڈیو کا لنک لگایا تھا لیکن لگتا ہے کسی منتظم نے اسے ڈیلیٹ کردیا ہے۔ ذرا اس لنک پر جاکر براہ راست یوٹیوب پر دیکھ لیں کہ آپ کے علماء جماعت احمدیہ کے ساتھ کیا سلوک کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس ویڈیو کو دیکھیں اور 1400 سال قبل ہونے والے حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کے ساتھ ہونے والے سلوک کا موازنہ کرلیں اور خود ہی فیصلہ کرلیں کہ کون آج کس کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ناجی فرقے کی نشانی یہ بتائی تھی کہ وہ میرے اور میرے اصحاب کے طریق پر ہوگا۔ یہ ویڈیو اس کا ایک ثبوت ہے کہ آج اگر کوئی فرقہ ایسا ہے جسے ظلم اور طاقت کے زور سے مذہب بدلنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے۔ یہ ویڈیو چند ماہ پیشتر انڈونیشا میں جماعت احمدیہ کی مسجد پر ہونے والے حملہ کی ہے۔
 

الم

محفلین
الفاظ کی گیم سیکھے تو کوئی آپ لوگوں سے مظلومیت کا پردہ اوڑھنے والوں فلسطین میں، پاکستان میں،عراق میں دنیا جہاں میں آپ لوگوں کے آباؤاجداد کے فرما روا جو کر رہے وہ کم نہیں دنیا میں مسلمانوں کی تکالیف کا اپنی چیزوں سے موازنہ کرتے؟ اور جس صفحے کا سکین بھیجا ہے اس سے اور دوسری جگہوں کا مطالعہ بھی کیا ہوا ہے آپ کی طرح کاپی پیسٹ سے کام نہیں چلاتا نا ہی آئیں بائیں شائیں کرتا جب حق سامنے آتا تو۔ آپ کے روئیے سے کچھ حیرت نہیں ہوئی نا ہی گالی گلوچ سے کیوں کے وہ تو آپکے نبی کی گھٹی میں ملی نا ۔۔میں نے کہا تھا اگر شرم ہوتی تو یہ بات دوبارہ مت کرتے۔ "نا ہی بات کا رخ اپنی نام نہاد منہ بولی مظلومیت" کی طرف کرتے اور باتوں کا پینترا بدلتے۔۔اگر اتنا ہی اپنے آپ کو مسلماں کہتے تو کبھی پڑھ لیجئے گا نماز ایک مسلمان کے پیچھے شاید پھر آپ یقینا قادیانی ہو جائیں گے کیوں کے محبت تو آپکا نعرہ ہے۔۔اور جس جماعت کی بات کر رہے اسکے راز کو اجاگر کرنے کے لئیے ایک مسلمان لڑکی ہی کافی اگر تھوڑی ہمت ہو تو اپنی جماعت کے کارنامے ایک لڑکی کی زبانی سنئے گا اس ربط پر۔۔۔آپ ہی کی جماعت میں چھپ کر تمام کرپٹ رازوں کو دکھا رہی۔۔اللہ اسکو جزائے خیر دے

اور آپکی مظلومیت کی داستان کا جواب بھی ہے۔ ویسے تو پوری دیڈیو ہی جواب لیکن ظلم کا جواب 8:45 سے غالبا شروع ہوتا:
اور اسکی مذمت اور محرکات کا بھی جواب۔ اپنے لیڈر حضرات کو پکڑیں جو اپنے محلات میں باہر بیٹھ کے جو حکم صادر کرتے اور آپ کے عام احمدی اسکے اثرات بھگتتے ان کے گریبان کو پکڑیں​
مسلمانوں کو والسلام :)
 
ساجد صاحب یا تو آپ کی درویش صاحب کی تمام پوسٹس پر نظر ہی نہیں اور یا آپ بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے۔ میں نے انہیں ایک سلجھا ہوا علم دوست شخص سمجھ کر ہی ان کی طرف سے اٹھائے گئے بعض سوالات کا جواب دینے کا ارادہ کیا تھا لیکن ابھی صرف ایک ہی پوسٹ کی تھی کہ ان کی طرف سے جو گند اچھالا گیا اگر وہ آپ یا آپ کے والد محترم کے متعلق اچھالا جاتا تو میں آپ سے پوچھتا کہ آپ کی نظر میں یہ اہل علم میں شامل کئے جاسکتے ہیں یا نہیں۔


رانا صاحب اس سارے دھاگے میں سر درویش نے یا تو قران پاک کی آیت کا حوالہ دیا ہے اور یا مرزا صاحب کی لکھی ہوئی کتابوں کے حوالہ جات دے کر مرزا صاحب کی کذب بیانی اور دریدہ دہنی ثابت کی ہے۔ انہوں نے کسی جگہ آپ کو گالی گلوچ بالکل بھی نہیں کی ہاں مرزا صاحب کے طرف سے کی گئی گستاخیاں اور توہین آمیز تحریروں کے حوالے ضرور دئے ہیں لہذا خود کو شکست خوردہ پا کر آپ بھی مرزا صاحب کی طرح جھنجھلاہٹ نہ دکھائیں اور مرزا صاحب کی کافرانہ تحریریں پڑھ کر مسلمان ہو جائیں، اللہ آپ کا بھلا کرے ۔

ویسے رانا صاحب ایک بات کہوں کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ نے مرزا کی کتابوں میں لکھے ہوئی گالی گلوچ اور فحش کلامی کو سر درویش کی طرف سے قادیانیوں کو گالیاں سمجھ لیا ہو، بھائی شاید آپ کو غلطی لگی ہے نعوذ باللہ وہ سر فاروق درویش کے لکھے ہوئے الفاظ نہیں وہ تو آپ کے ہی مرزا صاحب کی کتابوں اور رسالوں میں لکھی ہوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، عیسی علیہ اسلام اور بی بی پاک مریم کے بارے لکھی ہوئی کھلم کھلا توہین ہے، ذرا غور سے پڑھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ بھی مرزا کی اپنے حواس میں نہیں ہیں جو مرزا کی طرح دوسروں پر جھوٹے الزام لگا رہے ہیں ۔
 

رانا

محفلین
ذیل کے مضمون میں ان تمام وساوس کا جواب دیا گیا ہے جو اوپر پیدا کیے جارہے ہیں۔ اس میں علماء اہلسنت کے حوالے بھی ہیں ذرا ان پر بھی غور کر لیجئے گا۔ یہ مضمون جماعت احمدیہ کی ویب سائیٹ پر بھی موجود ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی تحریریں اپنے محبوب آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ناموس کی حفاظت کی خاطر غیرت میں ڈوب کر لکھی ہیں۔ آپ ؑ نے یہ تحریریں چالیس سال کے صبر کے بعد ایسی بے بسی کی حالت میں مجبور ہو کر لکھی ہیں کہ آپ کے لئے پھر خاموش رہنا ناممکن تھا۔ اس کی تفصیل آپ ؑ نے انہیں تحریروں کے اردگرد بیان فرمائی ہے جہاں سے یہ محبت رسول ﷺ کے جھوٹے دعویدار درمیان سے عبارتیں اچک کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کے تیر چلاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درج ذیل تحریریں اس تفصیل کے بیان کے لئے پیش ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’ بالآخر ہم لکھتے ہیں کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی۔ انہوں نے ناحق ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں۔ چنانچہ اسی پلید نالائق فتح مسیح نے اپنے خط میں جو میرے نام بھیجا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو زانی لکھا ہے اور اس کے علاوہ اور بہت گالیاں دی ہیں۔ پس اسی طرح اس مردار اور خبیث فرقہ نے جو مردہ پرست ہے ہمیں اس بات کے لئے مجبور کر دیا ہے کہ ہم بھی ان کے یسوع کے کسی قدر حالات لکھیں۔ اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا۔ اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا ۔ جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو اور بٹمار رکھا۔ اور آنے والے مقدس نبی کے وجود سے انکار کیا اور کہا کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے۔ پس ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راستبازوں کے دشمن کو ایک بھلا مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے۔ چہ جائیکہ اس کو نبی قرار دیں نادان پادریوں کو چاہئے کہ بد زبانی اور گالیوں کا طریق چھوڑ دیں۔ ورنہ نامعلوم خدا کی غیرت کیا کیا ان کو دکھلائے گی۔‘‘(ضمیمہ انجام آتھم ۔روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۹۲ ، ۲۹۳حاشیہ)

فرمایا :۔
’’ ہمارے پاس پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لے۔ ‘‘(تبلیغ رسالت جلد چہارم صفحہ ۶۵ ، ۶۶)

ایسی کتابیں اب بھی دنیا کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں اگر آپ بھی انہیں دیکھنا چاہتے ہیں تو دیکھ لیں۔ راہنمائی کے لئے چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔
ہدایۃ المسلمین از پادری عمادالدین اوراس کے علاوہ(۱)دافع البہتان مصنفہ پادری رانکلین ۔ (۲) رسالہ مسیح الدجال مصنفہ ماسٹر رام چندر عیسائی۔ (۳) سیرت المسیح والمحمد مصنفہ پادری ٹھاکر داس ۔ (۴) اندرونہ بائیبل مصنفہ ڈپٹی عبداللہ آتھم۔ (۵) کتاب محمد کی تواریخ کا اجمال ۔ مصنفہ پادری ولیم ۔ (۶) ریویو براہین احمدیہ مصنفہ پادری ٹھاکر داس ۔ (۷)سوانح عمری محمد صاحب ۔ مصنفہ اورنگ واشنگٹن ۔ (۸)اخبار نور افشاں ۔ امریکن مشن پریس لودھیانہ ۔ (۹)تفتیش الاسلام مصنفہ پادری راجرس ۔ (۱۰)نبی معصوم ۔ مطبوعہ امریکن پریس لودھیانہ ۔ وغیرہ وغیرہ

الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کارروائی اپنے محبوب آقا ﷺ کی غیرت میں تلملا کر مجبوراً کی ۔ اس زمانہ میں عیسائیوں نے امام المطہّرین ، افضل المعصومین سیّد الاوّلین والآخرین ، حبیبِ خدا حضرت احمد مجتبیٰ محمّد مصطفی ﷺ کی ذاتِ مقدّس پر نہایت دریدہ دہانی سے زبان طعن دراز کرکے گندے سے گندے حملے کئے ، ناپاک سے ناپاک الزام دیا ، کوئی برائی نہیں جو آپ ؐ کی طرف منسوب نہیں کی اور کوئی گندی گالی نہیں جو آپ ؐ کو نہ دی ہو۔ ان کے اس گندے حربے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کاری ضرب لگائی اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ
’’ اگر پادری اب بھی اپنی پالیسی بدل دیں اور عہد کر لیں کہ آئندہ ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں نہیں نکالیں گے تو ہم بھی عہد کریں گے کہ آئندہ نرم الفاظ کے ساتھ ان سے گفتگو ہو گی۔ ورنہ جو کچھ کہیں گے اس کا جواب سنیں گے۔ ‘‘(ضمیمہ انجام آتھم ۔ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۹۲ حاشیہ در حاشیہ )
۲۔ جیسا کہ اوپر اجمالاً ذکر گذر چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس ذات کو عیسائیوں کے حملے روکنے کے لئے ڈھال بنایا وہ اناجیل کا یسوع اور اناجیل کا مسیح تھا ۔ جس پر عیسائیوں کے مسلمات کے مطابق اور انہیں کی اناجیل کے مطابق ایسے اعتراض اٹھتے ہیں جو براہِ راست رسولِ خدا حضرت محمّد مصطفی ﷺ پر ان کے حملوں کا جواب ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس یسوع کو زیر بحث لائے جو عیسائیوں کا یسوع اور اناجیل کا مسیح ہے جس کا قرآن کریم میں بیان شدہ حقیقی عیسیٰ مسیح ابن مریم سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وضاحتیں ملاحظہ فرمائیں۔ آپ نے فرمایا۔

حضرت مرزا صاحب نے ایک اشتہار مورخہ ۲۰دسمبر ۱۸۹۵ء کو شائع کیا جس میں یہ وضاحت فرمائی :۔
i۔ ’’ ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسیٰ ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے ۔ بعض نادان مولوی جن کو اندھے اور نابینا کہنا چاہئے۔ عیسائیوں کو معذور رکھتے ہیں کہ وہ بے چارے کچھ بھی منہ سے نہیں بولتے اور آنحضرت ﷺ کی کچھ بے ادبی نہیں کرتے۔ لیکن یاد رہے کہ درحقیقت پادری صاحبان تحقیر اور توہین اور گالیاں دینے میں اول نمبر پر ہیں۔ ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارات کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لیوے اور یاد رہے کہ آئندہ جو پادری صاحب گالی دینے کے طریق کو چھوڑ کر ادب سے کلام کریں گے ہم بھی ان کے ساتھ ادب سے پیش آویں گے اب تو وہ اپنے یسوع پر آپ حملہ کر رہے ہیں۔ کہ کسی طرح سبّ وشتم سے باز ہی نہیں آتے ہم سنتے سنتے تھک گئے۔ ‘‘ (نور القرآن ۔ روحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۳۷۴ ، ۳۷۵)
فرمایا :۔
ii۔ ’’ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی ۔ انہوں نے ناحق ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں ۔۔۔۔۔۔ اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا ۔ اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ الخ ‘‘( ضمیمہ انجام آتھم ۔ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۹۲ ، ۲۹۳ حاشیہ )
iii۔ ’’ اسی طرح اشتہار’’ قابل توجہ ناظرین‘‘ میں فرماتے ہیں :۔
’’ اس بات کو ناظرین یاد رکھیں کہ عیسائی مذہب کے ذکر میں ہمیں اس طرز سے کلام کرنا ضروری تھا۔ جیسا کہ وہ ہمارے مقابل پر کرتے ہیں۔ عیسائی لوگ درحقیقت ہمارے اس عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے جو اپنے تئیں صرف بندہ اور نبی کہتے تھے اور پہلے نبیوں کو راستباز جانتے تھے اور آنے والے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ پر سچے دل سے ایمان رکھتے تھے۔ اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں پیشگوئی کی تھی ۔ بلکہ ایک شخص یسوع نام کو مانتے ہیں جس کا قرآن میں ذکر نہیں اور کہتے ہیں کہ اس شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا ۔ اور پہلے نبیوں کو بٹمار وغیرہ ناموں سے یاد کرتا تھا ۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شخص ہمارے نبی ﷺ کا سخت مکذب تھا ۔ اور اس نے یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ میرے بعد سب جھوٹے ہی آئیں گے ۔ سو آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف نے ایسے شخص پر ایمان لانے کے لئے ہمیں تعلیم نہیں دی بلکہ ایسے لوگوں کے حق میں صاف فرما دیا ہے کہ اگر کوئی انسان ہو کر خدائی کا دعویٰ کرے تو ہم اس کو جہنم میں ڈالیں گے۔ اسی سبب سے ہم نے عیسائیوں کے یسوع کے ذکر کرنے کے وقت اس ادب کا لحاظ نہیں رکھا جو سچے آدمی کی نسبت رکھنا چاہئے۔ ۔۔۔۔۔۔ پڑھنے والوں کو چاہئے کہ ہمارے بعض سخت الفاظ کا مصداق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ سمجھ لیں۔ بلکہ وہ کلمات اس یسوع کی نسبت لکھے گئے ہیں جس کا قرآن وحدیث میں نام ونشان نہیں۔ ‘‘(مجموعہ اشتہارات ۔ جلد۲صفحہ ۲۹۵ ، ۲۹۶ )
iv۔ اور پادری فتح مسیح کو جس نے آنحضرت ﷺ کے متعلق حد درجہ ناپاک اتہام لگائے تھے مخاطب کر کے فرماتے ہیں :۔
’’ ہم کسی عدالت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور نہ کریں گے۔ مگر آئندہ کے لئے سمجھاتے ہیں کہ ایسی ناپاک باتوں سے باز آجاؤ اور خدا سے ڈرو جس کی طرف پھرنا ہے۔ اور حضرت مسیحؑ کو بھی گالیاں مت دو ۔ یقیناًجو کچھ تم جناب مقدس نبوی ؐ کی نسبت برا کہو گے وہی تمہارے فرضی مسیح کو کہا جائے گا ۔ مگر ہم اس سچے مسیح کو مقدس اور بزرگ اور پاک جانتے اور مانتے ہیں جس نے نہ خدائی کا دعویٰ کیا نہ بیٹا ہونے کا اور جناب محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کے آنے کی خبر دی اور ان پر ایمان لایا۔ ‘‘(نور القرآن نمبر ۲۔روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۳۹۵ )
فرمایا :۔
v۔ ’’ حضرت مسیحؑ کے حق میں کوئی بے ادبی کا کلمہ میرے منہ سے نہیں نکلا یہ سب مخالفوں کا افتراء ہے۔ ہاں چونکہ درحقیقت کوئی ایسا یسوع مسیح نہیں گذرا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا ہو اور آنے والے نبی خاتم الانبیاء کو جھوٹا قرار دیا ہو اور حضرت موسیٰ کو ڈاکو کہا ہو ۔ اس لئے میں نے فرض محال کے طور پر اس کی نسبت ضرور بیان کیا ہے کہ ایسا مسیح جس کے یہ کلمات ہوں راستباز نہیں ٹھہر سکتا۔ لیکن ہمارا مسیح ابن مریم جو اپنے تئیں بندہ اور رسول کہلاتا ہے اور خاتم الانبیاء کا مصدِّق ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں۔ ‘‘ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۳۰۵ حاشیہ )

جاری ہے ۔۔۔۔
 

رانا

محفلین
گذشتہ سے پیوستہ:

ان تحریروں سے حسب ذیل امور بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔
۱۔ پادریوں کی طرف سے آنحضرت ﷺ پر مسلسل چالیس سال تک ناپاک حملے کئے گئے، گالیاں دی گئیں حتیٰ کہ زنا کی تہمت لگائی گئی اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الزامی رنگ میں کارروائی کی ۔
۲۔ آپ ؑ نے جو کچھ لکھا وہ پادریوں کے یسوع کی بابت لکھا۔
۳۔ آپ ؑ نے جو کچھ لکھا اس یسوع یا مسیح کے متعلق لکھا جس کی قرآن کریم نے کوئی خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا۔
۴۔ آپ ؑ نے جو کچھ لکھا وہ اس یسوع یا مسیح کے لئے تھا جس کی بابت پادری کہتے ہیں کہ وہ خدائی کا دعویٰ کرتا تھا ،حضرت موسیٰ ؑ کا نام نعوذ باللہ بٹ مار رکھتا تھا اور یہ کہہ کر کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے حضرت نبی اکرم ﷺ کی بھی تکذیب کرتا تھا۔ آپ ؑ نے پادریوں کے مسلّمات کے لحاظ سے ان کی خیالی و وہمی تصویر کے متعلق لکھا جس کا آپ ؑ کے نزدیک خارج میں کوئی وجود نہیں تھا۔
ان مذکورہ بالا امور میں سے جو بات بھی لے لی جائے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر توہین عیسیٰ علیہ السلام کے الزام کو ردّ کرتی ہے۔
تعجب تو اس بات پر ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ سب تحریریں ان لوگوں نے ضرور کھنگالی ہیں اور باوجود اس کے کہ مسلمان کہلاتے ہیں ، بڑے ہی بے غیرت ہو کر عیسائیوں کی زبان سے ہمارے آقا ومولیٰ رسول اللہ ﷺ کی ہر توہین اور تذلیل کو برداشت کرتے ہیں ۔ آپ ؐ پر زنا کی تہمت کو بھی گوارا کر لیتے ہیں اور آپ کے لئے ہر گالی برداشت کر لیتے ہیں مگر پادریوں کے فرضی یسوع کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے اور اس کے لئے تو ایسی غیرت ظاہر کرتے ہیں کہ پادری بھی شرما جائیں۔
ان کی ہمدردیاں اور ان کی غیرتیں جب عیسائیوں کے لئے بھڑکتی ہیں تو عیسائی ہی کیوں نہیں ہو جاتے۔ انہیں پادری عبداللہ آتھم سے محبت ہے ، ڈاکٹر ڈوئی کا بدلہ لینے کے لئے ان کی کچلیاں نکل نکل پڑتی ہیں اور رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دینے والوں اور قرآن کریم کی توہین کرنے والوں پر بھیجی ہوئی ہزار لعنت ان کو چبھتی ہے تو پھر محمّد رسول اللہ ﷺ سے وابستگی کا دعویٰ کیسا ؟ اسلام کا خول کیوں چڑھایا ہوا ہے ؟؟

جاری ہے۔۔۔
 

رانا

محفلین
’’ہمارا مسیح ابنِ مریم‘‘

حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’ ہمارا مسیح ابن مریم ‘‘ لکھا ہے اور’’ اپنا بھائی ‘‘کہا ہے اور خود کو ’’ان کا مثیل‘‘ قرار دیا ہے ۔ اس مسیح علیہ السلام کی آپ ؑ نے تکریم وتعظیم فرمائی ہے ۔ آپ ؑ نے اس سچے مسیح عیسیٰ ابن مریم کی توہین کے الزام کو بار بار رد فرمایا ہے ۔ آپ نے فرمایا
۱۔ ’’ ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور نیک اور راستباز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہمارے قلم سے ان کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں۔ ‘‘ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۱۹)
۲۔ ’’ ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں۔ سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو ان کی شان بزرگ کے برخلاف ہو۔ اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکہ کھانے والا اور جھوٹا ہے۔ ‘‘(ایام الصلح ٹائیٹل پیج۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۲۸)
۳۔ ’’ مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے اور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے ۔ ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کاملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں ۔ ‘‘ (تحفہ قیصریہ ، روحانی خزائن جلد۱۲صفحہ۲۷۲)
۴۔ ’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسیٰ مسیح خدا کا پیارا ،خدا کا برگزیدہ اور دنیا کا نور اور ہدایت کا آفتاب اور جناب الہی کا مقرّب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے سچّی محبت رکھتے ہیں اور اس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور اس کی ہدایات کے کاربند ہیں وہ جہنم سے نجات پائیں گے۔ ‘‘(ضمیمہ رسالہ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ۔روحانی خزائن جلد نمبر ۱۷صفحہ ۲۶)
۵۔ ’’ میں اس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوں اور میں نے اسے بارہا دیکھا ہے ایک بار میں نے اور مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا تھا۔ اس لئے میں اور وہ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں۔ ‘‘(ملفوظات جلد ۳صفحہ ۳۳۰ )
۶۔ ’’ میں نے بارہا عیسیٰ علیہ السلام کوخواب میں دیکھا اور بارہا کشفی حالت میں ملاقات ہوئی۔ اور ایک ہی خوان میں میرے ساتھ اس نے کھایا اور ایک دفعہ میں نے اس کو دیکھا او راس فتنہ کے بارے میں پوچھا جس میں اس کی قوم مبتلا ہو گئی ہے۔ پس اس پر دہشت غالب ہو گئی اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا اس نے ذکر کیا اور اس کی تسبیح اور تقدیس میں لگ گیا اور زمین کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ میں تو صرف خاکی ہوں اور ان تہمتوں سے بری ہوں جو مجھ پر لگائی جاتی ہیں۔ پس میں نے اس کو ایک متواضع اور کسر نفسی کرنے والا آدمی پایا۔‘‘(نور الحق حصہ اول ۔روحانی خزائن جلد۸صفحہ ۵۶ ،۵۷)
۷۔ ’’ انّا نکرم المسیح ونعلم انّہ کان تقیّاً ومن الانبیاء الکرام ‘‘ (البلاغ فریاد درد ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۴۵۱ حاشیہ )
ترجمہ ۔ ہم یقیناًمسیح علیہ السلام کی تکریم وتعظیم کرتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وہ پاکباز تقویٰ شعار تھا اور انبیاء کرام علیہم السلام میں سے تھا۔
مذکورہ بالا ان وضاحتوں کے ہوتے ہوئے کوئی منصف مزاج یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے نعوذ باللہ قرآن کریم میں مذکور حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم کی توہین کی ہے اور ان کو ان کے مقام سے گرایا ہے۔

جاری ہے۔۔۔
 

رانا

محفلین
متکلمین کا ہمیشہ سے یہ طریق چلا آیا ہے کہ وہ فریق مخالف کے مسلمات کی بنا پر بطور الزامی جواب کلام کرتے ہیں حالانکہ ان کا اپنا وہ عقیدہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر چند علماء اہل سنت والجماعت کے اقوال ذیل میں درج کئے جاتے ہیں جو اہل سنت کے مقتداء مانے جاتے ہیں ۔ ان کی تحریروں میں عموماً ان سب عبارتوں کا جواب مل جاتا ہے جو ان لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کے لئے پیش کی ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں۔

(۱) کتاب ’’ ازالۃ الاوہام ‘‘ جوعلمائے اہلِ سنّت کے مقتدا مولوی رحمت اللہ مہاجر مکّی کی تصنیف ہے اور سنّیوں میں ایک مستند مقام کی حامل ہے ۔ اس میں وہ لکھتے ہیں :۔
(i) ’’ اکثر معجزاتِ عیسویہ را معجزات ندانند زیرا کہ مثل آنہا ساحراں ہم میسازند ویہود آنجناب راچوں نبی نمے دانندو ہمچو معجزات ساحر میگویند ۔ ‘‘( صفحہ ۱۲۹)
کہ اکثر معجزات عیسویہ کو معجزات قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ایسے کام تو جادوگر بھی کر لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہود آپ کو نبی تسلیم نہیں کرتے اور ان کے معجزات کو ساحروں کے معجزے قرار دیتے ہیں۔
(ii) ’’ جناب مسیح اقرار میفر مایند کہ یحیٰ نہ نان میخورایندند نہ شراب مے آشامیدند وآنجناب شراب ہم مے نو شید ندویحیٰ در بیابان مے ماندند وہمراہ جناب مسیح بسیار زنان ہمراہ مے گشتندند ومال خودرا مے خورانیدند وزناں فاحشہ پاۂا آنجناب را بوسیدندو آنجناب مرتا ومریم رادوست مید اشتند وخود شراب برائے نوشید ند دیگر کساں عطا مے فرمودند۔ ‘‘( صفحہ ۳۷۰)
کہ جناب مسیحؑ خود اقرار فرماتے ہیں کہ یحیٰؑ بیابان میں قیام پذیر تھے۔ نہ عورتوں سے میل رکھتے تھے اور نہ شراب پیتے تھے لیکن مسیحؑ خود شراب پیتے تھے ۔ اور آپ کے ہمراہ کئی عورتیں چلتی پھرتی تھیں اور آپ ان کی کمائی سے کھاتے تھے اور بدکار عورتیں آپ کے پاؤں کو بوسے دیتی تھیں اور مرتا اور مریم آپ کی دوست تھیں۔ آپ خود بھی شراب پیتے اور دوسروں کو بھی دیتے تھے۔
(iii) ’’ ونیز وقتیکہ یہود افرزند سعادت مند شاں از زوجہ پسر خود زنا کرد وحاملہ گشت وفارض راکہ از آباء واجداد وسلیمان وعیسیٰ علیہما السلام بود ۔ ‘‘ (صفحہ ۴۰۵)
کہ یہودا نے اپنے بیٹے کی بیوی سے زنا کیا۔ جس سے وہ حاملہ ہو گئی اور فارض پیدا ہوا جو کہ حضرت سلیمانؑ اور حضرت عیسی ؑ کے آباء واجداد میں سے ہے۔
(۲) یہ کتاب ایسی باتوں سے بھری ہوئی ہے اور عیسائیوں کو الزامی جواب دینے کی غرض سے مرتب کی گئی ۔ اس کتاب کے حاشیہ پر اہلسنت والجماعت کے جیّد عالم مولوی آل حسن صاحب نے کتاب استفسار لکھی ۔ جس میں وہ رقمطراز ہیں :۔
(i) ’’ اور ذرے گریبان میں سر ڈال کر دیکھو کہ معاذ اللہ حضرت عیسیٰ کے نسب نامہ مادری میں دو جگہ تم آپ ہی زنا ثابت کرتے ہو۔ ‘‘(یعنی تاماراوراوریا) (صفحہ۷۳)
(ii) ’’ دوسرے یہ کہ حضرت عیسیٰ اپنے مخالفوں کو کتّا کہتے تھے۔ اگر ہم بھی ان کے مخالفوں کو کتّا کہیں تو دینی تہذیب اخلاق سے بعید نہیں بلکہ عین تقلیدِعیسوی ہے۔ ‘‘ (صفحہ ۹۸)
(iii) ’’ عیسیٰ بن مریم کہ آخر در ماندہ ہو کر دنیا سے انہوں نے وفات پائی۔ ‘(صفحہ ۲۳۲)
(iv) ’’ اور سب عقلاء جانتے ہیں کہ بہت سے اقسام سحر کے مشابہ ہیں۔ معجزات سے خصوصاً معجزات موسویہ اور عیسویہ سے۔ ‘‘( صفحہ ۳۳۶)
(v) ’’ یسوع نے کہا ۔ میرے لئے کہیں سر رکھنے کی جگہ نہیں۔ دیکھو یہ شاعرانہ مبالغہ ہے اور صریح دنیا کی تنگی سے شکایت کرنا کہ اقبح ترین ہے۔ ‘‘ (صفحہ ۳۴)
(vi) ’’ ان (پادری صاحبان ) کا اصل دین وایمان آکر یہ ٹھیرا ہے کہ خدا مریم کے رحم میں جنین بن کر خون حیض کا کئی مہینے تک کھاتا رہا اور علقہ سے مضغہ بنا ، مضغہ سے گوشت اور اس میں ہڈیاں بنیں اور اس کے مخرج معلوم سے نکلا اور ہگتا موتتا رہا ۔ یہاں تک کہ جوان ہو کر اپنے بندے یحیٰ کا مرید ہوا۔ اور آخر کار ملعون ہو کر تین دن دوزخ میں رہا۔ ‘‘ (صفحہ ۳۵۰ ، ۳۵۱)
(vii) ’’ انجیل اول کے باب یاز دہم کے درس نوز دہم میں لکھا ہے کہ بڑے کھاؤ اور بڑے شرابی تھے۔ ‘‘ (صفحہ ۳۵۳)
(viii) ’’ جس طرح اشعیاہ اور عیسیٰ علیہما السلام کی بعضی بلکہ اکثر پیشگوئیاں ہیں جو صرف بطور معمے اور خواب کے ہیں جس پر چاہو منطبق کر لو یا باعتبار ظاہری معنوں کے محض جھوٹ ہیں۔ یا مانند کلام یوحنا کے محض مجذوبوں کی سی بڑیں۔ ویسی پیشگوئیاں البتہ قرآن میں نہیں ہیں۔ ‘‘ (صفحہ ۳۶۶)
(ix) ’’ پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ کا سب بیان معاذ اللہ جھوٹ ہے اور کرامتیں اگر بالفرض ہوئی بھی ہوں تو ایسی ہی ہوں گی ۔ جیسی مسیح دجال کی ہونے والی ۔ ‘‘(صفحہ۳۶۹)
(x) ’’ تیسری انجیل کے آٹھویں باب کے دوسرے اور تیسرے درس سے ظاہر ہے کہ بہتیری رنڈیاں اپنے مال سے حضرت عیسیٰ کی خدمت کرتی تھیں پس اگر کوئی یہودی ازراہ خباثت اور بدباطنی کے کہے کہ حضرت عیسیٰ خوشرو نوجوان تھے۔ رنڈیاں ان کے ساتھ صرف حرامکاری کے لئے رہتی تھیں اس لئے حضرت عیسیٰ نے بیاہ نہ کیا اور ظاہر یہ کرتے تھے کہ مجھے عورت سے رغبت نہیں کیا جواب ہو گا ؟ اور پہلی انجیل کے باب یاز دہم کے درس نوز دہم میں حضرت عیسیٰ نے مخالفوں کا خیال اپنے حق میں قبول کر کے کہا کہ میں تو بڑا کھاؤ اور شرابی ہوں۔ پس دونوں باتوں کے ملانے سے اور شراب کی بدمستیوں کے لحاظ سے جو کوئی کچھ بدگمانی نہ کرے سو تھوڑا ہے اور دشمن کی نظر میں کیسی تن آسانی اور بے ریاضتی حضرت عیسیٰ کی بوجھی جاتی ہے۔ ‘‘ (صفحہ ۳۹۰ ، ۳۹۱)

(۳) اور بریلوی مسلک کے بانی عظیم البرکۃ امام اہلسنت مجدّد ماتہ حاضرہ مؤیّد ملّتِ طاہرہ اعلی حضرت مولنا مولوی شاہ احمد رضا خاں صاحب قبلہ قادری اپنی کتاب ’’ العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ‘‘ جلد اول میں تحریر فرماتے ہیں :۔
’’ ہاں ہاں عیسائیوں کا خدا مخلوق کے مارے سے دم گنوا کر باپ کے پاس گیا اس نے اکلوتے کی یہ عزت کی کہ اس کی مظلومی و بے گناہی کی یہ داد دی کہ اسے دوزخ میں جھونک دیا اوروں کے بدلے اسے تین دن جہنم میں بھونا ۔ ایسے کو جو روٹی اور گوشت کھاتا ہے اور سفر سے آکر اپنے پاؤں دھلوا کر درخت کے نیچے آرام کرتا ہے ۔ درخت اونچا اور وہ نیچا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے کو جس کا بیٹا اسے جلال بخشتا ہے آریوں کے ایشور کی تو ماں اس کی جان کی حفاظت کرتی تھی ۔ عیسائیوں کے خدا کا بیٹا اسے عزت بخشتا ہے کیوں نہ ہو سپوت ایسے ہی ہوتے ہیں۔ پھر اسے بے خطا جہنم میں جھونکنا کیسی محسن کشی ناانصافی ہے۔ ایسے کو جو یقیناًدغا باز ہے پچتاتا بھی ہے ۔ تھک جاتا بھی ہے ایسے کو جس کی دو جورئیں ہیں ۔ دونوں پکی زناکار ،حدّ بھر کی فاحشہ ۔ ایسے کو جس کے لئے زنا کی کمائی فاحشہ کی خرچی کہاں مقدس پاک کمائی ہے۔ ‘‘ (العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ۔ جلد ۱کتاب الطہارت باب التیمم صفحہ۷۴۰ ، ۷۴۱ ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز تاجران کتب کشمیری بازار لاہور)

جاری ہے۔۔۔
 

رانا

محفلین
(۴) امرتسر سے اہلحدیث مسلک کے نامور عالم مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری صاحب کا اخبار ’’ اہلحدیث ‘‘ اپنی ۳۱ مارچ ۱۹۳۹ء بروز جمعہ کی اشاعت میں یہ لکھتا ہے :۔
(i) ’’ صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح خود اپنے اقرار کے مطابق کوئی نیک انسان نہ تھے ۔ شاید کوئی کہے کہ کسر نفسی سے مسیح نے ایسا کہا تو اس کا جواب یہ ہے کہ عیسائیوں کے اعتقاد کے مطابق مسیح کی انسانیت سب انسانوں کی انسانیت سے برتر ہے اور اس میں گناہ اور خطا کاری کا کوئی شائبہ نہیں تو پھر جب وہاں کسی طرح کا نقص اور گناہ نہیں تو پھر مسیح کا اپنے آپ کو نیک کا مصداق نہ قرار دینا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ کسر نفسی سے وہی قول صحیح ہو سکتا ہے جس کی صحت کسی طرح سے ہو سکے۔ مثلا اور لوگ کیسے ہی نیک ہوں مگر چونکہ ان کی انسانیت میں نقص ہے تو بنا بریں وہ اپنے کو ناقص کہہ سکتا ہے مگر حضرت مسیح کی انسانیت ہر برائی سے منزہ ہے اس لئے وہاں نکوئی کی نفی کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی۔ پس جب کسر نفسی کا عذر باطل ہوا تو نکوئی کی نفی کرنے سے مسیح کا اور انسانوں کی طرح غیر معصوم ہونا بداہتہ ثابت ہوا۔ اسی طرح انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے اجنبی عورتوں سے اپنے سر پر عطر ڈلوایا ۔(دیکھو متی ۶/۲۲ مرقس ۳/۱۴ یوحنا ۶/۱۲)
یوحنا میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ آدھ سیر خالص عطر استعمال اس عورت سے آپ نے کرایا ۔ اس نے کچھ سر پر ڈالا (مرقس) کچھ پاؤں پر ملا۔ (یوحنّا)
لوقا میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ
ایک عورت نے جو اس شہر کی بدچلن اور فاحشہ عورت تھی مسیح کا پاؤں دھویا پھر اپنے بالوں سے پونچھا پھر انہیں چوما اور ان پر عطر ملا۔ (لوقا ۳۷/۷) ۔ یہ واقعہ صرف لوقا میں ہے ۔
ظاہر ہے کہ اجنبی عورت بلکہ فاحشہ اور بدچلن عورت سے سرکو اور پاؤں کو ملوانا اور وہ بھی اس کے بالوں سے ملا جانا کس قدر احتیاط کے خلاف کام ہے اس قسم کے کام شریعتِ الٰہیہ کے صریح خلاف ہیں۔ امثال میں کیا خوب لکھا ہے کہ
’’ بے گانہ عورت تنگ گڑھا ہے اور فاحشہ گہری خندق ہے وہ راہزن کی طرح گھات میں لگی ہے اور بنی آدم میں بدکاروں کا شمار بڑھاتی ہے۔ ‘‘ (امثال باب ۲۳۔ فقرہ۲۸)‘‘
(ii) ’’اسی طرح انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معجزہ سے شراب سازی کا کام لے کر اپنا جلال ظاہر کرتے تھے۔ (دیکھو انجیل یوحنا ۹/۲) (یہ واقعہ صرف یوحنّامیں ہے )
دیکھو شراب جیسے امّ الخبائث چیز کا بنانا اور شادی کی دعوت کے لئے اس شراب کو پیش کرنا اور خود شرابی اہل مجلس کی دعوت میں معہ والدہ کے شریک ہونا اسی یوحنا میں موجود ہے ۔ حالانکہ شراب عہد عتیق کی کتابوں میں قطعی حرام قرار پا چکی تھی۔ حضرت یسعیاہ شراب پینے والوں کی بابت فرماتے ہیں :۔
ان پر افسوس جو مے پینے میں زور آور اور شراب پلانے میں پہلوان ہیں۔ (دیکھو یسعیاہ باب۵فقرہ ۲۲)
حضرت ہوشیع فرماتے ہیں :۔
’’ بدکاری اور مے اور نئی مے سے بصیرت جاتی رہتی ہے۔ ‘‘(ہوشیع ۱۱/۴)
’’دانی ایل نبی بھی شراب کو نجس اور ناپاک کرنے والی بتاتے ہیں‘‘ ۔(دانی ایل باب اول فقرہ ۸)
باوجود اس کے کہ اکثر عہد عتیق کی کتابوں میں اس کی ممانعت اور مذمت مذکورتھی۔ لیکن مسیح نے شرائع انبیاء سابقہ کی کچھ پرواہ نہ کی اور بقول یوحنا شراب بنائی اور شرابی مجلس میں معہ والدہ کے شریک ہوئے۔ حالانکہ خود ہی فرماتے ہیں۔
’’ یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ ‘‘ (متی۱۷/۵)
ان حالات میں مسیح کی شراب سازی خلاف شریعت فعل ہے۔‘‘
(iii) ’’ انجیل کے مطالعہ سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے کذب کو روا رکھا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح کا قول سردار کی لڑکی کی بابت اس طرح منقول ہے :۔
’’ تم کیوں غل مچاتے اور روتے ہو لڑکی مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے۔ ‘‘ (متی۱۸/۹ ، مرقس ۲۹/۵ ، لوقا ۵۴/۸)
اس کے بعد مسیح نے کہا اے لڑکی اٹھ۔ وہ لڑکی اٹھ کر چلنے پھرنے لگی۔ اس موقع پرعیسائی کہتے ہیں کہ وہ لڑکی مر گئی تھی۔ حضرت مسیح کے معجزہ سے زندہ ہوئی ۔ چنانچہ لوقا سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔ لوقا کے الفاظ یہ ہیں :۔’’ اس کی روح پھر آئی اور وہ اسی دم اٹھی ‘‘(اس بیان میں لوقا منفرد ہے )۔
روح پھر آنا دلالت کرتا ہے کہ اس کی روح نکل چکی تھی دوبارہ زندہ ہوئی۔ لہذا ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسیح نے اس جگہ ناراست بات کہی اور خلاف واقعہ شہادت دی۔ حالانکہ مسیح نے خلاف واقعہ بات کرنے سے خود ہی شاگردوں کو منع کیا ہے۔ (مرقس ۱۹/۱۰) خون نہ کر ، زنا نہ کر ، چوری نہ کر ، جھوٹی گواہی نہ دے ۔ امثال ۵/۱۹ میں ہے کہ جھوٹا گواہ بے سزا نہ چھوٹے گا اور جھوٹ بولنے والا رہائی نہ پائے گا۔ ‘‘
اسی طرح یوحنا میں ہے :۔
’’ لوگوں نے مسیح سے کہا کہ تم عید میں جاؤ میں ابھی اس عید میں نہیں جاتا۔ لیکن جب اس کے بھائی عید میں چلے گئے اس وقت وہ بھی گیا۔ ‘‘ (یوحنا ۸/۷)
دیکھو حضرت مسیح نے عید میں جانے سے انکار کیا اور پھر چھپ کے گئے۔ اور متی کے حوالہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح نے جھوٹ بولنے اور کتمان حق کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔ چنانچہ متی میں ہے :۔
’’ تب اس وقت اس نے حکم دیا کہ کسی کو نہ بتانا کہ یہ یسوع مسیح ہے۔ ‘‘(متی ۲۰/۱۶)
یہ مضمون لوقا اور مرقس میں بھی ہے۔
ظاہر ہے کہ جب امر حق کے پوشیدہ کرنے کا حکم فرمایا تو صراحتہ ثابت ہوا کہ اگر کہیں بتانے ہی کی ضرورت پڑے تو خلاف حق ناراست بات کہہ دو ۔ ان واقعات سے مسیح کی تعلیم متعلقہ صدق وکذب ظاہر وباہر ہے۔ (صفحہ ۸ ، ۹)‘‘
( یاد رہے کہ اس اخبار’’ اہلحدیث‘‘ کی اشاعت کے اغراض ومقاصد میں یہ لکھا ہے کہ ’’ دین اسلام اور سنّتِ نبوی علیہ السلام کی اشاعت کرنا )

یہ لوگ آج کہتے ہیں کہیہ توہین عیسیٰ علیہ السلام ہے ، ان کو ان کے مقام سے گرانا ہے مگر ان کے بڑے کہتے ہیں کہ یہ دین اسلام اور سنّتِ نبوی علیہ السلام کی اشاعت ہے۔ بہر حال یہ تو ان کے اپنے گھر کے جھگڑے ہیں۔ انہیں یہ خود حل کریں۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ
۱
۔ مذکورہ بالا علماء اہل سنّت کی تحریروں میں وہ تفریق بھی نظر نہیں آتی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم میں مذکور اپنے مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اور پادریوں کے یسوع اور مسیح کے درمیان کی ہے۔ اس لحاظ سے ان علماء کی تحریروں کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی براہِ رست نشانہ بنتے ہیں۔
۲۔ ان علماء کی تحریریں ان تحریروں سے کہیں زیادہ سخت اور برہنہ ہیں جن کو پیش کر کے یہاں لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر طعن زنی کی ہے۔

اب اس باب کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دو ٹوک فیصلہ ملاحظہ فرمائیں آپ فرماتے ہیں۔
’’ موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں ۔ سو میں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہم نام ہوں ۔ اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا۔ ‘‘ (کشتی نوح ۔خزائن جلد ۱۹صفحہ ۱۷ ، ۱۸)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر ہمیں اس منطقی نتیجہ پر بھی پہنچاتی ہے کہ آپ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہم نام ہو کر آئے ہیں ا ور آپ کا دعویٰ ’’ مثیل مسیح ‘‘ ہونے کا ہے تو آپ ؑ ان کی توہین نہیں کر سکتے اگر آپ ؑ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو برا کہیں گے تو اپنے آپ کو نعوذ باللہ ایک برے کا مثیل قرار دیں گے۔ پس مثیلِ مسیح ہونے کا دعویدار مسیح علیہ السلام کو برا کہہ ہی نہیں سکتا اور جو شخص آپ ؑ پر ایسا الزام لگاتا ہے جیسا کہ راشد علی اور اس کے پیر نے لگایا ہے تو وہ لازماً مفسد اور مفتری ہے۔
اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ لوگ تو ایک طرف تو کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کو انگریز نے کھڑا کیا اور ساتھ یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ آپ نے (نعوذ باللہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی ہے ان کے ان دونوں دعووں میں واضح تضاد ہے ۔
اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزوں نے کھڑا کیا تھا تو آپ انگریزوں کے پیشوا بلکہ خدا کو برا کہہ ہی نہیں سکتے تھے ورنہ لازم تھا کہ انگریز آپ کی سرپرستی چھوڑ دیتا۔ پس دونوں میں سے ایک الزام تو ان جھوٹے پیرو مرید کو واپس لینا ضروری ہے اور جو اعتراض باقی بچے گا وہ ویسے جھوٹ ہے افتراء ہے ،جس کا ثبوت ہم گزشتہ سطور میں پیش کر چکے ہیں
 
رانا صاحب ذرا بتائیں کہ کیا یہ گند ہے، کیا آپ قرانی آیات کے دلائل کو سر فاروق درویش کی طرف سے گند اچھالنا کہتے ہو؟ اصل بات یہ ہے کہ آپ مرزائی لوگوں کے پاس مرزا کی نبوت، مسیحت یا مہدیت کا کوئی جواز یا ثبوت نہیں اور نہ ہی کسی قرانی دلیل کا کوئی جواب ہے اور ہو بھی کیسے ، آپ کا مرزا صاحب تو لم یو لد و لم یو لد کا صحیح ترجمہ نہیں کر سکا تو اس کے عقل سے پیدل اور جاہل چیلے کہاں سے قران سمجھ پائیں گے۔ میں سر درویش کا خوبصورت اور قرانک آیات پر مبنی مدلل جواب کاپی کر رہی ہوں، شاید آپ دوبارہ پڑھ کر سمجھ سکیں۔
سر فاروق درویش نے لکھا:-

رانا جی قادیانیت کے حمایتی کسی اہل علم یا اپنے کسی مربی سے مرزا جی کی اس شیطانی تحریر کا جواز یا دفاع لے کر آو کہ میں اس کا جواب خود سے نہیں آیات قرآنی سے پیش کرتا ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
مرزا کہتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
آپ ( حضرت عیسیٰ علیہ الصلواۃ السلام ) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا ء کار اور کسبی
عورتیں تھیں ، جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم ، حاشیہ ص ٧ مصنفہ غلام احمد قادیانی )
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ حضرت مریم علیہ السلام پاکیزہ و برگذیدہ ہستی ہیں اور پاکیزہ خواتین پر تہمت لگانے والے کے بارے قرآن حکیم کا کھلا فیصلہ ہے کہ۔۔۔ ۔۔۔
وَالَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَاءَ فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَدًا وَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ ٭ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ﴾
(سورۃ النور۴۔۵)
ترجمہ : اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی (۸۰)کوڑ ے لگاؤ اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو یہ فاسق لوگ ہیں (۴)یا جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں تو اللہ بخشنے والا اور مہر بانی کرنے والا ہے (۵)
سو مرزا جی کے مربی صاحب، آپ کے مرزا جی کو تو قرآن حکیم کے ذریعے اللہ سبحان تعالی نے اسی کوڑوں کی سزا سنا دی ہے ۔۔۔ ۔ کہیئے اب کیا کہتے ہیں کیسے دفاع کریں گے قرآن کی عدالت کی طرف سے سنائی گئی اس سزا کا؟
کوئی بڑا بھائی یا بزرگ بتائیں کہ کیا یہ سر فاروق درویش نے گند اچھالا؟ اور اگر کسی جگہ درویش صاحب نے گند اچھالا تو رانا صاحب وہ جملہ، الفاظ بتائیں۔
 
(۴) امرتسر سے اہلحدیث مسلک کے نامور عالم مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری صاحب کا اخبار ’’ اہلحدیث ‘‘ اپنی ۳۱ مارچ ۱۹۳۹ء بروز جمعہ کی اشاعت میں یہ لکھتا ہے :۔
(i) ’’ صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح خود اپنے اقرار کے مطابق کوئی نیک انسان نہ تھے ۔ شاید کوئی کہے کہ کسر نفسی سے مسیح نے ایسا کہا تو اس کا جواب یہ ہے کہ عیسائیوں کے اعتقاد کے مطابق مسیح کی انسانیت سب انسانوں کی انسانیت سے برتر ہے اور اس میں گناہ اور خطا کاری کا کوئی شائبہ نہیں تو پھر جب وہاں کسی طرح کا نقص اور گناہ نہیں تو پھر مسیح کا اپنے آپ کو نیک کا مصداق نہ قرار دینا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ کسر نفسی سے وہی قول صحیح ہو سکتا ہے جس کی صحت کسی طرح سے ہو سکے۔ مثلا اور لوگ کیسے ہی نیک ہوں مگر چونکہ ان کی انسانیت میں نقص ہے تو بنا بریں وہ اپنے کو ناقص کہہ سکتا ہے مگر حضرت مسیح کی انسانیت ہر برائی سے منزہ ہے اس لئے وہاں نکوئی کی نفی کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی۔ پس جب کسر نفسی کا عذر باطل ہوا تو نکوئی کی نفی کرنے سے مسیح کا اور انسانوں کی طرح غیر معصوم ہونا بداہتہ ثابت ہوا۔ اسی طرح انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے اجنبی عورتوں سے اپنے سر پر عطر ڈلوایا ۔(دیکھو متی ۶/۲۲ مرقس ۳/۱۴ یوحنا ۶/۱۲)
یوحنا میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ آدھ سیر خالص عطر استعمال اس عورت سے آپ نے کرایا ۔ اس نے کچھ سر پر ڈالا (مرقس) کچھ پاؤں پر ملا۔ (یوحنّا)
لوقا میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ
ایک عورت نے جو اس شہر کی بدچلن اور فاحشہ عورت تھی مسیح کا پاؤں دھویا پھر اپنے بالوں سے پونچھا پھر انہیں چوما اور ان پر عطر ملا۔ (لوقا ۳۷/۷) ۔ یہ واقعہ صرف لوقا میں ہے ۔
ظاہر ہے کہ اجنبی عورت بلکہ فاحشہ اور بدچلن عورت سے سرکو اور پاؤں کو ملوانا اور وہ بھی اس کے بالوں سے ملا جانا کس قدر احتیاط کے خلاف کام ہے اس قسم کے کام شریعتِ الٰہیہ کے صریح خلاف ہیں۔ امثال میں کیا خوب لکھا ہے کہ
’’ بے گانہ عورت تنگ گڑھا ہے اور فاحشہ گہری خندق ہے وہ راہزن کی طرح گھات میں لگی ہے اور بنی آدم میں بدکاروں کا شمار بڑھاتی ہے۔ ‘‘ (امثال باب ۲۳۔ فقرہ۲۸)‘‘
(ii) ’’اسی طرح انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معجزہ سے شراب سازی کا کام لے کر اپنا جلال ظاہر کرتے تھے۔ (دیکھو انجیل یوحنا ۹/۲) (یہ واقعہ صرف یوحنّامیں ہے )
دیکھو شراب جیسے امّ الخبائث چیز کا بنانا اور شادی کی دعوت کے لئے اس شراب کو پیش کرنا اور خود شرابی اہل مجلس کی دعوت میں معہ والدہ کے شریک ہونا اسی یوحنا میں موجود ہے ۔ حالانکہ شراب عہد عتیق کی کتابوں میں قطعی حرام قرار پا چکی تھی۔ حضرت یسعیاہ شراب پینے والوں کی بابت فرماتے ہیں :۔
ان پر افسوس جو مے پینے میں زور آور اور شراب پلانے میں پہلوان ہیں۔ (دیکھو یسعیاہ باب۵فقرہ ۲۲)
حضرت ہوشیع فرماتے ہیں :۔
’’ بدکاری اور مے اور نئی مے سے بصیرت جاتی رہتی ہے۔ ‘‘(ہوشیع ۱۱/۴)
’’دانی ایل نبی بھی شراب کو نجس اور ناپاک کرنے والی بتاتے ہیں‘‘ ۔(دانی ایل باب اول فقرہ ۸)
باوجود اس کے کہ اکثر عہد عتیق کی کتابوں میں اس کی ممانعت اور مذمت مذکورتھی۔ لیکن مسیح نے شرائع انبیاء سابقہ کی کچھ پرواہ نہ کی اور بقول یوحنا شراب بنائی اور شرابی مجلس میں معہ والدہ کے شریک ہوئے۔ حالانکہ خود ہی فرماتے ہیں۔
’’ یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ ‘‘ (متی۱۷/۵)
ان حالات میں مسیح کی شراب سازی خلاف شریعت فعل ہے۔‘‘
(iii) ’’ انجیل کے مطالعہ سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے کذب کو روا رکھا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح کا قول سردار کی لڑکی کی بابت اس طرح منقول ہے :۔
’’ تم کیوں غل مچاتے اور روتے ہو لڑکی مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے۔ ‘‘ (متی۱۸/۹ ، مرقس ۲۹/۵ ، لوقا ۵۴/۸)
اس کے بعد مسیح نے کہا اے لڑکی اٹھ۔ وہ لڑکی اٹھ کر چلنے پھرنے لگی۔ اس موقع پرعیسائی کہتے ہیں کہ وہ لڑکی مر گئی تھی۔ حضرت مسیح کے معجزہ سے زندہ ہوئی ۔ چنانچہ لوقا سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔ لوقا کے الفاظ یہ ہیں :۔’’ اس کی روح پھر آئی اور وہ اسی دم اٹھی ‘‘(اس بیان میں لوقا منفرد ہے )۔
روح پھر آنا دلالت کرتا ہے کہ اس کی روح نکل چکی تھی دوبارہ زندہ ہوئی۔ لہذا ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسیح نے اس جگہ ناراست بات کہی اور خلاف واقعہ شہادت دی۔ حالانکہ مسیح نے خلاف واقعہ بات کرنے سے خود ہی شاگردوں کو منع کیا ہے۔ (مرقس ۱۹/۱۰) خون نہ کر ، زنا نہ کر ، چوری نہ کر ، جھوٹی گواہی نہ دے ۔ امثال ۵/۱۹ میں ہے کہ جھوٹا گواہ بے سزا نہ چھوٹے گا اور جھوٹ بولنے والا رہائی نہ پائے گا۔ ‘‘
اسی طرح یوحنا میں ہے :۔
’’ لوگوں نے مسیح سے کہا کہ تم عید میں جاؤ میں ابھی اس عید میں نہیں جاتا۔ لیکن جب اس کے بھائی عید میں چلے گئے اس وقت وہ بھی گیا۔ ‘‘ (یوحنا ۸/۷)
دیکھو حضرت مسیح نے عید میں جانے سے انکار کیا اور پھر چھپ کے گئے۔ اور متی کے حوالہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح نے جھوٹ بولنے اور کتمان حق کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔ چنانچہ متی میں ہے :۔
’’ تب اس وقت اس نے حکم دیا کہ کسی کو نہ بتانا کہ یہ یسوع مسیح ہے۔ ‘‘(متی ۲۰/۱۶)
یہ مضمون لوقا اور مرقس میں بھی ہے۔
ظاہر ہے کہ جب امر حق کے پوشیدہ کرنے کا حکم فرمایا تو صراحتہ ثابت ہوا کہ اگر کہیں بتانے ہی کی ضرورت پڑے تو خلاف حق ناراست بات کہہ دو ۔ ان واقعات سے مسیح کی تعلیم متعلقہ صدق وکذب ظاہر وباہر ہے۔ (صفحہ ۸ ، ۹)‘‘
( یاد رہے کہ اس اخبار’’ اہلحدیث‘‘ کی اشاعت کے اغراض ومقاصد میں یہ لکھا ہے کہ ’’ دین اسلام اور سنّتِ نبوی علیہ السلام کی اشاعت کرنا )

یہ لوگ آج کہتے ہیں کہیہ توہین عیسیٰ علیہ السلام ہے ، ان کو ان کے مقام سے گرانا ہے مگر ان کے بڑے کہتے ہیں کہ یہ دین اسلام اور سنّتِ نبوی علیہ السلام کی اشاعت ہے۔ بہر حال یہ تو ان کے اپنے گھر کے جھگڑے ہیں۔ انہیں یہ خود حل کریں۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ
۱
۔ مذکورہ بالا علماء اہل سنّت کی تحریروں میں وہ تفریق بھی نظر نہیں آتی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم میں مذکور اپنے مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اور پادریوں کے یسوع اور مسیح کے درمیان کی ہے۔ اس لحاظ سے ان علماء کی تحریروں کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی براہِ رست نشانہ بنتے ہیں۔
۲۔ ان علماء کی تحریریں ان تحریروں سے کہیں زیادہ سخت اور برہنہ ہیں جن کو پیش کر کے یہاں لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر طعن زنی کی ہے۔

اب اس باب کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دو ٹوک فیصلہ ملاحظہ فرمائیں آپ فرماتے ہیں۔
’’ موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں ۔ سو میں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہم نام ہوں ۔ اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا۔ ‘‘ (کشتی نوح ۔خزائن جلد ۱۹صفحہ ۱۷ ، ۱۸)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر ہمیں اس منطقی نتیجہ پر بھی پہنچاتی ہے کہ آپ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہم نام ہو کر آئے ہیں ا ور آپ کا دعویٰ ’’ مثیل مسیح ‘‘ ہونے کا ہے تو آپ ؑ ان کی توہین نہیں کر سکتے اگر آپ ؑ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو برا کہیں گے تو اپنے آپ کو نعوذ باللہ ایک برے کا مثیل قرار دیں گے۔ پس مثیلِ مسیح ہونے کا دعویدار مسیح علیہ السلام کو برا کہہ ہی نہیں سکتا اور جو شخص آپ ؑ پر ایسا الزام لگاتا ہے جیسا کہ راشد علی اور اس کے پیر نے لگایا ہے تو وہ لازماً مفسد اور مفتری ہے۔
اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ لوگ تو ایک طرف تو کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کو انگریز نے کھڑا کیا اور ساتھ یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ آپ نے (نعوذ باللہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی ہے ان کے ان دونوں دعووں میں واضح تضاد ہے ۔
اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزوں نے کھڑا کیا تھا تو آپ انگریزوں کے پیشوا بلکہ خدا کو برا کہہ ہی نہیں سکتے تھے ورنہ لازم تھا کہ انگریز آپ کی سرپرستی چھوڑ دیتا۔ پس دونوں میں سے ایک الزام تو ان جھوٹے پیرو مرید کو واپس لینا ضروری ہے اور جو اعتراض باقی بچے گا وہ ویسے جھوٹ ہے افتراء ہے ،جس کا ثبوت ہم گزشتہ سطور میں پیش کر چکے ہیں

رانا صاحب ادھر ادھر کے قصے کہانیاں نہ سنائیں، پہلے اس کا جواب دیں



رانا جی قادیانیت کے حمایتی کسی اہل علم یا اپنے کسی مربی سے مرزا جی کی اس شیطانی تحریر کا جواز یا دفاع لے کر آو کہ میں اس کا جواب خود سے نہیں آیات قرآنی سے پیش کرتا ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
مرزا کہتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

آپ ( حضرت عیسیٰ علیہ الصلواۃ السلام ) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا ء کار اور کسبی

عورتیں تھیں ، جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم ، حاشیہ ص ٧ مصنفہ غلام احمد قادیانی )

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔


ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ حضرت مریم علیہ السلام پاکیزہ و برگذیدہ ہستی ہیں اور پاکیزہ خواتین پر تہمت لگانے والے کے بارے قرآن حکیم کا کھلا فیصلہ ہے کہ۔۔۔ ۔۔۔

وَالَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَاءَ فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَدًا وَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ ٭ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ﴾
(سورۃ النور۴۔۵)
ترجمہ : اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی (۸۰)کوڑ ے لگاؤ اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو یہ فاسق لوگ ہیں (۴)یا جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں تو اللہ بخشنے والا اور مہر بانی کرنے والا ہے (۵)

سو مرزا جی کے مربی صاحب، آپ کے مرزا جی کو تو قرآن حکیم کے ذریعے اللہ سبحان تعالی نے اسی کوڑوں کی سزا سنا دی ہے ۔۔۔ ۔ کہیئے اب کیا کہتے ہیں کیسے دفاع کریں گے قرآن کی عدالت کی طرف سے سنائی گئی اس سزا کا؟
کوئی بڑا بھائی یا بزرگ بتائیں کہ کیا یہ سر فاروق درویش نے گند اچھالا؟ اور اگر کسی جگہ درویش صاحب نے گند اچھالا تو رانا صاحب وہ جملہ، الفاظ بتائیں۔
 

الم

محفلین
کاپی پیسٹ سے کچھ نہیں ہوتا ایک ربط بنا کے دے سکتے تھے اسطرح وہی بات کہوں گا سچائی کو لمبی بحث کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔اس حوالے کو آپ کے پیسٹ کرنے سے پہلے کئی سال پہلے پڑھ چکے۔۔۔ تمام باتوں کی ایک بات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسی تحریریں اپنے محبوب آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ناموس کی حفاظت کی خاطر غیرت میں ڈوب کر لکھی ہیں۔ آپ ؑ نے یہ تحریریں چالیس سال کے صبر کے بعد ایسی بے بسی کی حالت میں مجبور ہو کر لکھی ہیں کہ آپ کے لئے پھر خاموش رہنا ناممکن تھا۔

غیرت میں ڈوبنے کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کے پاک نبی کی توہیں کریں؟ وہ تو خود کو بروزی محمد ﷺ (نعوذ باللہ) کہتے تھے نا؟ کہاں ہے وہ آئینہ ؟ نبی پاک ﷺ پہ جتنے ظلم ڈھائے گئے آج تک انہوں نے تو کسی کے نبی اور خداؤں پہ کچھ نا کہا تھا؟ تو مرزا (لعین) نعوذباللہ زیادہ غیرت والا تھا نبی پاک سے؟
تف ہے وہ تو ایک طرف نبی پاک ﷺ کا بروزی ہونے کا دعویٰ کرتا نعوذ باللہ اور دوسری طرف (معافی کے ساتھ )بے غیرتوں والے الفاظ استعمال کر رہا کیا جس عیسیٰؑ کو عیسائی مانتے وہ مسلمانوں کے عیسیٰؑ سے مختلف شخصیت تھی؟ نہیں صرف عقیدہ فرق تھا۔۔۔
نبی پاکﷺ کی ناموس کی حفاظت کا مطلب یہ ہوتا کہ اللہ کے ماضی کے برگزیدہ نبی کی عزت کو اس نام نہاد غیرت کی آڑ میں تباہ برباد کر دیا جائے؟ پھر اتنی شرم بھی نہیں آئی کے اپنے سے الزامات کو ہٹانے کے لئیے آپنے دوسرے فرقوں کے حوالے دئیے ارے! مجھے نبی پاک کی آحادیث سے حوالہ دو کہ انہوں نے کہا ہو قرآن سے حوالہ دو کہ اس میں آیا ہو کے نبی پاکﷺ کی ناموس کے لئیے پچھلے نبیوں کی عزت کو تار تار کر دیا جائے اگر تھوڑی شرم ہوتی اس مرزا میں تو اپنے اخلاق سے جیتتا دل لوگوں کا اپنے اعمال سے دکھاتا مسلمان کا محبِ رسول نا کے اللہ کے پاک نبیؑ کی اور انکے خاندان کی عزت تار تار کرتا۔۔

اتنی لمبی لمبی تاویلات لکھنا آسان ہے اور انکو کاپی پیسٹ کرنا اس سے بھی زیادہ آسان لیکن سوچنا اتنا ہی مشکل اسی کی کمی آپ میں نظر آ رہی جو اپنے بغض اور عداوت اور اپنی انا کی بنا پہ بجائے ماننے کے کہ غلط لکھا اس مرزا نے اسکو تحفظ فراہم کر رہے۔۔۔
اگر اتنا ہی یہ جائز قرار دیتا آپکا مذہب تو یہ بھی جائز کہوآپ کہ مسلمان ناموسِ محمدﷺ کے لئیے مرزا کی اصلیت کو جو دکھاتے وہ صحیح اگر اسکی زندگی کی غلاظت اسی کی تحاریر سے دکھاتے تو یہ بھی جائز ہے کیوں کے آپکے نبی کی یہی سنت ہے۔۔۔جو آپکے چھاپے کے مطابق اخذ کی جائے تو جائز ہے

یہی تو گیم آپکے مربی حضرات اور آپکی کے باتوں کو جب ہاتھ سے نکلتی جائیں اور جواب نا ملے تو مدعا اسلام کے فرقوں پہ ڈال دینا یا پھر حدیث کو ضعیف قرار دے دینا یا قرآن کی آیت کی تاویلات نکال لانا۔۔۔ایسے پینتروں سے کئی بار گزر چکے رانا صاحب یہ کسی اور پہ آزمائیے گا۔۔
 
’’ہمارا مسیح ابنِ مریم‘‘

حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’ ہمارا مسیح ابن مریم ‘‘ لکھا ہے اور’’ اپنا بھائی ‘‘کہا ہے اور خود کو ’’ان کا مثیل‘‘ قرار دیا ہے ۔ اس مسیح علیہ السلام کی آپ ؑ نے تکریم وتعظیم فرمائی ہے ۔ آپ ؑ نے اس سچے مسیح عیسیٰ ابن مریم کی توہین کے الزام کو بار بار رد فرمایا ہے ۔ آپ نے فرمایا
۱۔ ’’ ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور نیک اور راستباز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہمارے قلم سے ان کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں۔ ‘‘ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۱۹)
۲۔ ’’ ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں۔ سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو ان کی شان بزرگ کے برخلاف ہو۔ اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکہ کھانے والا اور جھوٹا ہے۔ ‘‘(ایام الصلح ٹائیٹل پیج۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۲۸)
۳۔ ’’ مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے اور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے ۔ ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کاملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں ۔ ‘‘ (تحفہ قیصریہ ، روحانی خزائن جلد۱۲صفحہ۲۷۲)
۴۔ ’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسیٰ مسیح خدا کا پیارا ،خدا کا برگزیدہ اور دنیا کا نور اور ہدایت کا آفتاب اور جناب الہی کا مقرّب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے سچّی محبت رکھتے ہیں اور اس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور اس کی ہدایات کے کاربند ہیں وہ جہنم سے نجات پائیں گے۔ ‘‘(ضمیمہ رسالہ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ۔روحانی خزائن جلد نمبر ۱۷صفحہ ۲۶)
۵۔ ’’ میں اس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوں اور میں نے اسے بارہا دیکھا ہے ایک بار میں نے اور مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا تھا۔ اس لئے میں اور وہ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں۔ ‘‘(ملفوظات جلد ۳صفحہ ۳۳۰ )
۶۔ ’’ میں نے بارہا عیسیٰ علیہ السلام کوخواب میں دیکھا اور بارہا کشفی حالت میں ملاقات ہوئی۔ اور ایک ہی خوان میں میرے ساتھ اس نے کھایا اور ایک دفعہ میں نے اس کو دیکھا او راس فتنہ کے بارے میں پوچھا جس میں اس کی قوم مبتلا ہو گئی ہے۔ پس اس پر دہشت غالب ہو گئی اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا اس نے ذکر کیا اور اس کی تسبیح اور تقدیس میں لگ گیا اور زمین کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ میں تو صرف خاکی ہوں اور ان تہمتوں سے بری ہوں جو مجھ پر لگائی جاتی ہیں۔ پس میں نے اس کو ایک متواضع اور کسر نفسی کرنے والا آدمی پایا۔‘‘(نور الحق حصہ اول ۔روحانی خزائن جلد۸صفحہ ۵۶ ،۵۷)
۷۔ ’’ انّا نکرم المسیح ونعلم انّہ کان تقیّاً ومن الانبیاء الکرام ‘‘ (البلاغ فریاد درد ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۴۵۱ حاشیہ )
ترجمہ ۔ ہم یقیناًمسیح علیہ السلام کی تکریم وتعظیم کرتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وہ پاکباز تقویٰ شعار تھا اور انبیاء کرام علیہم السلام میں سے تھا۔
مذکورہ بالا ان وضاحتوں کے ہوتے ہوئے کوئی منصف مزاج یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے نعوذ باللہ قرآن کریم میں مذکور حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم کی توہین کی ہے اور ان کو ان کے مقام سے گرایا ہے۔

جاری ہے۔۔۔

اچھا تو یہ مرزا صاحب نے لکھا ، تو بھیا رانا صاحب یہ بتائیں یہ والا سب کس پاگل اور جاہل کافر انسان کا لکھا ہوا ہے، کتابیں تو مرزا صاحب کی ہی ہیں، کہیں چپکے سےشیطان تو نہیں لکھ گیا ان کی کتابوں وغیرہ میں؟ یا جس وقت اس نے یہ توہین لکھی اس وقت کہیں انہیں حسب معمول مراق کا دورہ تو نہیں پڑا ہوا تھا؟ یا ہو سکتا ہے کہ اس نے اس دن افیون کی زیادہ مقدار کھا لی ہو، کہو کیا خیال ہے بھیا؟

مسیح (علیہ السلام ) کا چال چلن کیا تھا ، ایک کھاؤ پیو ، نہ زاہد ، نہ عابد نہ حق کا پرستار ، متکبر ، خود بین ، خدائی کا دعویٰ کرنے والا ۔ (مکتوبات احمدیہ صفحہ نمبر ٢١ تا ٢٤ جلد ٣)
یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے ۔ (کشتی نوح حاشیہ ص ٧٥ مصنفہ غلام احمد قادیانی )

ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو ۔ اس سے بہتر غلام احمد ہے۔ (دافع البلاء ص ٢٠)

عیسیٰ کو گالی دینے ، بد زبانی کرنے اور جھوٹ بولنے کی عادت تھی اور چور بھی تھے ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم ص ٥،٦)

یسوع اسلیے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکتا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور خراب چلن ، نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتداء ہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے چنانچہ خدائی کادعویٰ شراب خوری کا ایک بد نتیجہ ہے۔ (ست بچن ، حاشیہ ، صفحہ ١٧٢، مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی )
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top