الف نظامی

لائبریرین
حضرت قائد اعظم سے ایک یادگار ملاقات
از علامہ محمد یوسف جبریل
دہلی کی ایک سعادت مند صبح تھی۔ میں نیند سے بیدار ہوا۔ معا میرے دل میں خیال آیا کہ قائد اعظم دہلی میں ہیں ، کیوں نہ ان کی زیارت کی جائے۔ اس وقت نہ تو مجھے اپنی کم مائیگی کا خیال تھا اور نہ ہی حضرت قائد اعظم کی عدیم الفرصتی کا احساس ۔ اور شکر ہے کہ نہ تھا۔ بعض اوقات جہالت بھی کام آجاتی ہے۔ قائد اعظم کی ملاقات کے معاملے میں میری دلیری کا سبب وہ تصور تھا جو میں نے قائد اعظم کے متعلق قائم کر رکھا تھا۔ میرا جہاں قیام تھا وہاں کثیر تعداد میں فوجی مختلف یونٹوں اور کئی ایک ممالک سے وطن پلٹ کر عارضی طور پر سکونت پذیر تھے۔ میں نے قائد اعظم سے ملاقات کا نام ہی لیا تھا کہ کئی ایک بول پڑے۔ “ارے بھئی ! ہم بھی تو یہی سوچ رہے تھے”​
اور پھر ملاقات کی تیاری کا پروگرام بن گیا۔ ہم کوئی پچیس کے لگ بھگ تھے۔ بعض نے فوجی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ اب ہم میں سے کسی کو قائد اعظم کی مصروفیات کا علم نہیں تھا مگر سب قائد اعظم کی ملاقات کی خوشی میں مگن جا رہے تھے۔ اورنگ زیب روڈ پر قائد اعظم کی کوٹھی کے باہر پہنچے تو دوسروں کو باہر کھڑا کر کے میں اندر گیا۔​
دروازے پر ایک پٹھان چوکیدار بیٹھا تھا۔ اس سے استفسار پر معلوم ہوا کہ قائد اعظم آج کل سخت مصروف ہیں حتی کہ نواب زادہ لیاقت علی خان کو بھی رسائی حاصل نہیں۔ قائد اعظم تین چار بجے رات گئے تک کام کرتے ہیں لہذا ملاقات کا کوئی جواز نہیں۔ یہ سن کر میرے پروں پر پانی پڑ گیا۔​
آج عرصہ 60 برس گذر چکا ہے اس بات کو ، اس وقت کی بہت کم باتیں یاد ہیں ، مگر وہ حالت جو اس وقت میرے دل کی ہوئی ، ابھی تک میرے دل پر نقش ہے۔ لیکن جیسا کہ معاملے کا تقاضا تھا ، بجائے یہ کہ میں چپ چاپ اپنی تقدیر پر شاکر ہو کر واپس چلا جاتا اور اپنے ساتھیوں کو یہ خبر جانکاہ سنانے کا موجب بنتا۔ میں نے تقاضا شروع کردیا اور جتنی مجھ سے ہوسکی میں نے اپنی ملاقات کے مقصد کی اہمیت کی جتانے کی کوشش کی بلکہ ضد پر اتر آیا۔ چوکیدار نے ، اگر زندہ ہے تو اللہ اسے خوش رکھے ، کسی اکھڑ پن کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اس کا رویہ بھی ہمدردانہ تھا۔ آخر کار اس نے مجھے کہا کہ اپنا نام اور پتہ مجھے لکھ کر دے دو میں کوشش کروں گا۔ اب میرے پاس نہ کاغذ تھا نہ پنسل۔ چوکیدار اپنی جیبوں کی تلاشی لے رہا تھا کہ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ خود قائد اعظم اور ان کی ہمشیرہ صاحبہ محترمہ فاطمہ جناح ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ قائد اعظم ہال کو عبور کر کے ناشتہ کرنے جا رہے تھے ۔ محترمہ فاطمہ جناح ان کے پیچھے تھیں۔​
جب دروازے کے سامنے سے گذرے تو مجھ پر نظر پڑ گئی۔ میری نظر بھی ان پر پڑی اور میں بھی سیدھا منہ ان کی طرف کر کے خاموش کھڑا ہوگیا۔ وہ منظر مجھے کبھی نہیں بھولے گا جب میں نے قائد اعظم کو یوں کھڑے دیکھا۔ میں کماحقہ اس حقیقت کو بیان کرنے سے قاصر ہوں میرے دل میں جو کیفیت ہے وہ دل میں ہی ہے زبان پر نہیں آسکتی۔​
مگر ضمنا یہ وہ تصویر تھی جو حضرت قائد اعظم کی میرے سامنے ابھری وہ مجسم زندگی کی تصویر تھی۔ کھڑا قد ، چھریرا بدن ، باریک اور تیکھے نقوش ، سیدھی گردن ، چوڑا کتابی ماتھا اور کافی بڑا مگر سانچے میں ڈھلا ہوا ، تھوڑا سا اوپر کو اٹھا ہوا اور پیچھے کی طرف جھکا ہوا سر ، دو بادامی کالی اور نہایت پرکشش اور عقابی آنکھیں چمک لئے ، متجسس ، سخت پر اعتماد دور رس آنکھیں ، چہرے اور ہونٹوں کے ایک نیم باطنی نیم ظاہری تبسم میں شریک آنکھوں سے پھوٹتی ہوئی دل آویز لہریں ، بھینچے ہوئے مگر متبسم ہونٹ ، پیچھے کی طرف کنگھی کئے ہوئے بال ، طویل بازو ، پتلے خوبصورت مگر مضبوط ہاتھ یا بالجملہ ایک دلنواز شخصیت ، ایک خاموش طبیعت مگر تڑپنے کو آمادہ ،ایک پنہاں بجلی مگر کڑکنے کو تیار ، ایک گہری سوچ مگر بے حد عمیق بے حد دور رس ۔ سخت حساس مگر قابل اعتماد دوست ، ایک باریک بین دقت طلب مگر ایک دردمند رفیق اور غمگسار ساتھی ، مرد میدان اور بطل جلیل ، انسانیت پسند جمہوریت نواز۔ الغرض ایک شخصیت ، یگانہ روزگار شخصیت عطائے قدرت سے میرے سامنے موجود اور میں دریائے حیرت میں غوطہ زن۔
قائد اعظم میرے سامنے کسی نفسیاتی تجزئیے کا موقع فراہم کرنے کی غرض سے نہیں کھڑے تھے ، وہ تو محض اتفاق سے ان کا ادھر گزر ہوا اور مجھے دیکھ کر ٹھہر گئے۔ ممکن ہے انہوں نے سوچا ہو “اسے محض میری محبت اور جوش عقیدت کھینچ لایا ہے”​
“اس کو آنے دو”
چوکیدار سے قائد اعظم نے کہا اور میرا سر فرط مسرت سے آسمان سے جا لگا اور میرا دل احسان مندی کے بوجھ تلے دب گیا۔ میں قائد اعظم کی طرف بڑھا تو انہوں نے مصافحہ کے لئے آگے ہاتھ بڑھایا۔ میں نے مصافحہ کیا۔ قائد اعظم نے کہا​
“مجھے صرف پندرہ منٹ کی اجازت دیجیے میں ناشتہ کرلوں آپ اس بیٹھک میں تشریف رکھیں”
یہ سب کچھ انہوں نے انگریزی کے ایک انتہائی دلپذیر جملے میں کہا۔ میرے ساتھی جو بڑی بے چینی سے میرا انتظار کر رہے تھے جب مجھے شرف قبولیت بخشا گیا تو سب شدت شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر اور قائد اعظم کی محبت میں کشاں کشاں اندر آ کر میرے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ میں نے جب قائد اعظم سے کہا یہ سب میرے ساتھی ہیں اور سب آپ کو ملنے آئے ہیں تو قائد اعظم نے نہایت خندہ پیشانی سے کہا​
“آپ سب لوگ بیٹھک میں تشریف رکھیں میں ابھی حاضر ہوا”
یہ کہہ کر آپ کھانے کے کمرے کی طرف چلے گئے۔ محترمہ فاطمہ جناح آپ کے ساتھ تھیں۔​
ہم لوگ بیٹھک میں بیٹھ گئے۔ ہم سب اس سعادت پر مسرور تھے۔ لڑکے آہستہ آہستہ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد قائد اعظم تشریف لائے اور ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔​
میں نے کھڑے ہو کر انگریزی کے چند جچے تلے جملوں میں قائد اعظم کی خدمات کا اعتراف کیا ۔ آپ کے احسان کا شکریہ ادا کیا۔ آپ پر قوم کے اعتماد کا اظہار کیا اور آپ کو یقین دلایا کہ قوم آپ کی احسان مند ہے اور اس کٹھن مرحلہ پر ہر گز پیچھے نہیں ہٹے گی اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ ہم سب آپ کے تابع فرمان ہیں۔ ہمیں آپ کی فراست پر کامل اعتماد ہے اور آپ کے اخلاص پر ہمیں مکمل یقین ہے۔ آپ کا یہ کارنامہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا اور مسلمانوں کی نسلیں آپ کی احسان مند رہیں گی۔ اللہ تعالی آپ کو اپنے مقصد میں کامیابی عطا فرمائے اور ہمیں آپ کی اطاعت کی توفیق بخشے۔ قائد اعظم میری باتوں سے بے حد مسرور نظر آرہے تھے ۔ آپ کا چہرہ ایک آئینے کی مانند تھا جس میں دل کی ہر کیفیت منعکس ہوجاتی تھی۔ میں اپنی بات ختم کر کے بیٹھ گیا تو قائد اعظم نے اپنے پاس سے ہم سب کو ایک ایک نہایت نفیس سگریٹ پیش کیا۔ یہ کسی خاص ساخت کا سگریٹ تھا۔ طول میں دوسرے سگریٹوں سے زیادہ تھا اور نہایت ہی خوش ذائقہ۔ پھر آپ نے بڑی بے تکلفی سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ آپ بالکل آہستہ آہستہ اور نرم لہجے میں بات کر رہے تھے ۔ ان باتوں کو اس گرج دار تقریر سے ، جو آپ سٹیج پر کرتے تھے ، کوئی مشابہت نہیں تھی تاہم لہجے میں اتنی شیرینی ، بات میں ایسا ٹھہراو اور زبان پر ایسی قدرت تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے منہ سے موتی جھڑ رہے ہیں۔ آپ نے بالجملہ ہم سے چار باتیں کیں گویا کہ ایک طویل داستان کا منطقی عطر تھیں۔ میں نے خیالات کی اتنی صفائی ، زبان کی اتنی سادگی اور سلاست اور ایسا معجزانہ اختصار کہیں نہیں دیکھا اور اس پر قائد اعظم کی شخصیت مستزاد۔​
آپ نے فرمایا:​
“میں نے بیس برس تک کانگریس کی خدمت کی مگر ان سے اس وقت تک الگ نہ ہوا جب تک مجھے یقین نہیں ہوگیا کہ اگر اکھنڈ ہندوستان بن گیا تو مسلمانوں کا اس ملک میں کوئی مستقبل نہیں ۔ مجھ پر مسلمانوں نے اعتماد کیا ہے میں ان کو کبھی شرمسار نہیں کروں گا”
قائد اعظم کے الفاظ تھے
I will not let them down
“میں نے تمہیں آزادی کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔ اب آگے تمہارا اختیار ہے۔ اسے چاہے آباد کرو ، چاہے برباد کردو۔ میری قوم میں کثرت سے غدار اور پٹھو ہیں۔ میرے پاس کوئی کانسٹریشن کیمپ نہیں کہ میں ان کو بند کر دوں۔ میری ساری طاقت تم ہو۔ اگر تم میرے ساتھ ہو تو میں طاقت ور ہوں۔“​
مجھے آج بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قائد اعظم میرے سامنے بیٹھ کر یہ باتیں کر رہے ہیں۔ یہ باتیں ختم کرنے کے بعد قائد اعظم نے چاروں طرف ہلکی سی نظر گھما کر دیکھا۔ اکثر لڑکے فوجی وردی میں ملبوس تھے۔ قائد اعظم نے فردا فردا ہر ایک سے یونٹ پوچھی۔ محفل میں ایک بنگالی بھی تھا۔ جب قائد اعظم نے اس سے استفسار کیا تو اس نے اچھے خاصے جوشیلے انداز میں کہا​
“جناب! ہم لوگ بندوق بھی چلا سکتا ہے”​
میں نے دیکھا کہ حضرت قائد اعظم کے چہرے پر سوچ کے آثار پیدا ہوگئے۔ اب مجھے یاد نہیں کہ قائد اعظم نے کیا لفظ کہے۔ البتہ ان کا مفہوم یہ تھا کہ سخت ضرورت کے بغیر ہم کبھی تشدد پر نہیں اتریں گے۔ قائد اعظم کے لفظ میں دماغ میں اس لئے نہ رکھ سکا کہ ہمارے بنگالی بھائی کا جملہ کچھ ایسا تھا کہ میری ساری توجہ اس طرف ہوگئی اور قائد اعظم کے چہرے پر نظر پڑی تو ان کی سوچ میں کھو سا گیا اور ان کے لفظوں پر دھیان نہ رہا۔​
ہماری دلی مراد بر آئی ۔ ہم نے قائد اعظم کو دیکھ لیا تھا ۔ ان کی باتیں سن لی تھیں۔ وہاں اب ہم نے زیادہ دیر بیٹھنا مناسب نہ سمجھا۔ اجازت لی اور واپس آگئے۔​
علامہ یوسف جبریل کے خیال میں پاکستان “پاکستان کا مطلب کیا–لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ” کے نعرے کے ساتھ بنایا گیا تھا۔ یہ خدائی حکمت و منشائے الہی کا مظہر ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ یہ ملک دراصل دنیا کو ایٹمی جہنم کی بربادی سے بچانے کے لئے بنایا گیا ہے۔ علامہ صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو اپنی کتاب​
Quran predict the atomic hell and averts it
قرآن ایٹمی جہنم کی تصویر پیش کرتا اور اس سے بچاتا ہے
بھیجی تھی ۔ اس زمانے میں وفاقی وزیر تعلیم عبد الحفیظ پیرزادہ اور بھٹو کے ملڑی سیکرٹری بریگیڈیر امتیاز علی تھے۔ زیڈ اے بھٹو کی طرف سے علامہ صاحب کو خط موصول ہوا کہ وہ فیروز سنز لاہور سے اس کتاب کی اشاعت کے لئے رابطہ کریں وہ اسے چھاپنے پر رضا مند ہیں۔ علامہ صاحب رابطہ نہ کر سکے اور یوں یہ کتاب شائع نہ ہو سکی۔​
بحوالہ : علامہ محمد یوسف جبریل — حیات و خدمات از ڈاکٹر تصدق حسین راجا
 

باباجی

محفلین
بہت بہت شکریہ الف نظامی صاحب
اتنی قیمتی اور نایاب شیئرنگ کا
عظیم قائد کی عظمت کی مظہر تحریر
بہت بہت شکریہ سر جی
 

مغزل

محفلین
کیا عمدہ شراکت ہے نظامی بھائی سبحان اللہ بہت عمدہ عمیق اور غور طلب معلومات ہیں جزاک اللہ
 

تلمیذ

لائبریرین
کیاعلامہ یوسف جبریل کی کوئی دوسری کتابیں آپ کے علم میں ہیں؟ اگر ہوں تو براہ کرم ان کے بارے میں تحریر کریں۔
 

یوسف-2

محفلین
جزاک اللہ الف نظامی
بہت خوبصورت اور معلوماتی تحریر۔ حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا تھا کہ :
میں نے تمہیں آزادی کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔ اب آگے تمہارا اختیار ہے۔ اسے چاہے آباد کرو ، چاہے برباد کردو۔ میری قوم میں کثرت سے غدار اور پٹھو ہیں۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ٹھیک کہتے تھے قائداعظم ۔
“میں نے تمہیں آزادی کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔ اب آگے تمہارا اختیار ہے۔ اسے چاہے آباد کرو ، چاہے برباد کردو۔ میری قوم میں کثرت سے غدار اور پٹھو ہیں۔ میرے پاس کوئی کانسٹریشن کیمپ نہیں کہ میں ان کو بند کر دوں۔ میری ساری طاقت تم ہو۔ اگر تم میرے ساتھ ہو تو میں طاقت ور ہوں۔

ایک لاجواب شئیرنگ لالہ ۔ مجھے ٹیگ کرے کا شکریہ ۔ :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
“میں نے بیس برس تک کانگریس کی خدمت کی مگر ان سے اس وقت تک الگ نہ ہوا جب تک مجھے یقین نہیں ہوگیا کہ اگر اکھنڈ ہندوستان بن گیا تو مسلمانوں کا اس ملک میں کوئی مستقبل نہیں ۔ مجھ پر مسلمانوں نے اعتماد کیا ہے میں ان کو کبھی شرمسار نہیں کروں گا”
قائد اعظم کے الفاظ تھے
I will not let them down
“میں نے تمہیں آزادی کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔ اب آگے تمہارا اختیار ہے۔ اسے چاہے آباد کرو ، چاہے برباد کردو۔ میری قوم میں کثرت سے غدار اور پٹھو ہیں۔ میرے پاس کوئی کانسٹریشن کیمپ نہیں کہ میں ان کو بند کر دوں۔ میری ساری طاقت تم ہو۔ اگر تم میرے ساتھ ہو تو میں طاقت ور ہوں۔

نظامی صاحب
بیان سے باہر ہے کہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے یہ الفاظ کیا ہیں!
ہم چاہ کر بھی ان کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

اللہ پاک آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔ آمین!
 
ٹھیک کہتے تھے قائداعظم ۔
“میں نے تمہیں آزادی کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔ اب آگے تمہارا اختیار ہے۔ اسے چاہے آباد کرو ، چاہے برباد کردو۔ میری قوم میں کثرت سے غدار اور پٹھو ہیں۔ میرے پاس کوئی کانسٹریشن کیمپ نہیں کہ میں ان کو بند کر دوں۔ میری ساری طاقت تم ہو۔ اگر تم میرے ساتھ ہو تو میں طاقت ور ہوں۔

ایک لاجواب شئیرنگ لالہ ۔ مجھے ٹیگ کرے کا شکریہ ۔ :)
پھر دانشورانہ
 

باباجی

محفلین
میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگوں کو
قائداعظمؒ سے اختلاف ہے
اب پتا نہیں یہ نظریاتی ہے یا ان کی ذاتی سوچ ہے
لیکن میں یہ کہوں گا کہ آزاد مملکت کے لیئے اس وقت جدوجہد کرنا کتنا مشکل تھا
جب مسلمان پس رہے تھے ، یہود و نصارٰی ہم لوگوں میں ہم ہی جیسے بن کر گھسے ہوئے تھے
آپس میں تفرقہ ڈلوارہے تھے
لہذا وہ حضرات کسی بھی قسم کی اختلافی رائے دینے سے پہلے آزادی کے مفہوم کو سمجھیں
کیا آج ایسا کوئی لیڈر ہے جو امت مسلمانی کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکے
کوئی نہیں
کیوں یہی وہ حضرات ہیں جو اختلاف رائے کا اظہار کرکے ہماری قوم کو ہماری نسل کو گمراہ کر رہے ہیں
پوچھیں ان سے جن کے پورے پورے خاندان قتل ہوگئے
ہم لوگ جنہوں نے آنکھ ہی آزاد مملکت میں کھولی ہے کیا جانیں
قربانی کیا ہے اور آزادی کیا ہے
اپنے ملک و دین کے لیئے میں بہت حساس و جذباتی ہوں

"پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الا اللہ"
 
Top