حسن کی آبرو تری صورت

ایم اے راجا

محفلین
ایک اور غزل نما چیز حاضرِ خدمت ہے درگت بنوانے کے لیئے۔

حسن کی آبرو تری صورت
عشق کی جستجو تری صورت

آنکھ بھرتی نہیں مری دیکھے
اس قدر خوب رو تری صورت

رات دیکھا جو غور سے میں نے
چاند تھا ہو بہو تری صورت

تشنگی سے نجات دیتی ہے
اک چھلکتا سبو تری صورت

ہو گئے دل اسیر محفل کے
آئی جب روبرو تری صورت

دیکھ رکھتی ہے کسقدر مجھ کو
درد میں سرخرو تری صورت

کیوں پری کی مثال دوں راجا
حور کی آرزو تری صورت
 

الف عین

لائبریرین
حسن کی آبرو تری صورت
عشق کی جستجو تری صورت
÷÷÷درست

آنکھ بھرتی نہیں مری دیکھے
اس قدر خوب رو تری صورت
÷÷خوب رو کا مطلب ہی خوبصورت ہے، یہ تو ایسی ہی بات ہو گئی جیسی گردن زدنی کے قابل؟؟ پہلا مصرع بھی گرامر کے حساب سے مکمل نہیں، اس کو بدلو تو سوچا جائے

رات دیکھا جو غور سے میں نے
چاند تھا ہو بہو تری صورت
÷÷ درست

تشنگی سے نجات دیتی ہے
اک چھلکتا سبو تری صورت
÷÷ درست

ہو گئے دل اسیر محفل کے
آئی جب روبرو تری صورت
÷÷ اسیر؟ اسیر تو زلفوں کے ہوا جاتا ہے، صورت کے کیسے؟ پہلے مصرع میں کچھ ترمیم کرو۔

دیکھ رکھتی ہے کسقدر مجھ کو
درد میں سرخرو تری صورت
÷÷ ’دیکھ‘ کی ضرورت نہیں۔ اس کے بدلے میں کچھ اور سوچا جائے۔

کیوں پری کی مثال دوں راجا
حور کی آرزو تری صورت
 

ایم اے راجا

محفلین
مقطع میں یہ کہنے کی کوشش کی ہیکہ، پری کیا چیز ہے کہ اس کی مثال محبوب کی صورت سے دی جائے، محبوب کی صورت تو ایسی ہیکہ حور کو بھی آرزو ہیکہ میری صورت ایسی ہو، میرا حسن ایسا ہو
 

ایم اے راجا

محفلین
حسن کی آبرو تری صورت
عشق کی جستجو تری صورت
÷÷÷درست

آنکھ بھرتی نہیں مری دیکھے
اس قدر خوب رو تری صورت
÷÷خوب رو کا مطلب ہی خوبصورت ہے، یہ تو ایسی ہی بات ہو گئی جیسی گردن زدنی کے قابل؟؟ پہلا مصرع بھی گرامر کے حساب سے مکمل نہیں، اس کو بدلو تو سوچا جائے

رات دیکھا جو غور سے میں نے
چاند تھا ہو بہو تری صورت
÷÷ درست

تشنگی سے نجات دیتی ہے
اک چھلکتا سبو تری صورت
÷÷ درست

ہو گئے دل اسیر محفل کے
آئی جب روبرو تری صورت
÷÷ اسیر؟ اسیر تو زلفوں کے ہوا جاتا ہے، صورت کے کیسے؟ پہلے مصرع میں کچھ ترمیم کرو۔

دیکھ رکھتی ہے کسقدر مجھ کو
درد میں سرخرو تری صورت
÷÷ ’دیکھ‘ کی ضرورت نہیں۔ اس کے بدلے میں کچھ اور سوچا جائے۔

کیوں پری کی مثال دوں راجا
حور کی آرزو تری صورت

حسن کی آبرو تری صورت
عشق کی جستجو تری صورت
÷÷÷درست

آنکھ بھرتی نہیں مری دیکھے
اس قدر خوب رو تری صورت
÷÷خوب رو کا مطلب ہی خوبصورت ہے، یہ تو ایسی ہی بات ہو گئی جیسی گردن زدنی کے قابل؟؟ پہلا مصرع بھی گرامر کے حساب سے مکمل نہیں، اس کو بدلو تو سوچا جائے( تشریح:- سر، اسکی تشریح یہ ہیکہ جی چاہتا ہیکہ تجھے دیکھتا ہی رہوں اتنی خوبصورت ہے تیری صورت کے دیکھ دیکھ کر بھی آنکھ نہیں بھرتی، سر، خیال کو بحر کا پابند بنانے کے لیئے لفظوں میں کچھ تبدیلی لانا اور ابہام پیدا کرنا تو مجبوری ہے نہ۔ )

رات دیکھا جو غور سے میں نے
چاند تھا ہو بہو تری صورت
÷÷ درست

تشنگی سے نجات دیتی ہے
اک چھلکتا سبو تری صورت
÷÷ درست

ہو گئے دل اسیر محفل کے
آئی جب روبرو تری صورت
÷÷ اسیر؟ اسیر تو زلفوں کے ہوا جاتا ہے، صورت کے کیسے؟ پہلے مصرع میں کچھ ترمیم کرو۔( سر جب کسی کا دل زلف کا اسیر ہوسکتا ہے تو صورت کا کیوں نہیں، زلف کا اسیر ہونا میرے خیال میں ایسی مثال نہیں کہ جس میں تبدیلی نہ کی جاسکے اور کیا کسی کی خوبصورت صورت کسی کو اپنے پیار میں قید نہیں کر سکتی، اسے عشق کا اسیر نہیں بنا سکتی!)

دیکھ رکھتی ہے کسقدر مجھ کو
درد میں سرخرو تری صورت
÷÷ ’دیکھ‘ کی ضرورت نہیں۔ اس کے بدلے میں کچھ اور سوچا جائے۔( دیکھ سے دعوت دینا مراد ہے ، توجہ دلانا مراد ہے، مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہاں دیکھ کا استعمال کیوں ٹھیک نہیں!)

کیوں پری کی مثال دوں راجا
حور کی آرزو تری صورت[/quote]
( مقطع کی تشریح:- شاعر کہتا ہے کہ پری کی مثال کیوں دوں، تتجھ سی حسین صورت کی تو حور بھی آرزو رکھتی ہے، محبوب کی صورت کے بے مثال حسن کی تعریف ہے، جسکی تمنا پاکیزہ حور کو بھی ہے کیوں کہ حور پری سے بھی پاکیزہ اور بے مثال مخلوق ہے مگر شاعر کی نظر میں محبوب کی صورت حور سے بھی زیادہ حسین ہے)

سر، اس تشریح سے میرا مقصد آپکی اصلاح کو غلط ثابت کرنا نہیں بلکہ طالبعلم ہونے کے ناطے اپنے علم میں اضافہ کرنا ہے۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
معذرت راجہ، میں نے تمہاری تشریح نہیں دیکھی تھی۔
آنکھ بھرتی نہیں مری دیکھے
اس قدر خوب رو تری صورت
اس شعر میں تو قافیے پر ہی اعتراض ہے، زمین کی مجبوری میں الفاظ کی غلطی پر قائم رہنا مستحسن نہیں، اگر لفظ نہ بدلا جا سکے، تو اس شعر کو اس غزل سے نکال کر ایک دوسری غزل کا حصہ بنا دو۔
ہو گئے دل اسیر محفل کے
آئی جب روبرو تری صورت
تمہاری تشریح کے بعد تمہاری بات مانی جا سکتی ہے، لیکن موجودہ صورت میں مصرع اولیٰ سے یہ بات مکمل معلوم نہیں ہوتی کہ ’محفل میں موجود سارے لوگ اسیر ہو گئے‘۔ اگر کوئی اسیرِ محفل پڑھے تو؟(اضافت کے ساتھ) یوں کہو تو۔۔
بزم کی بزم ہو چلی ہے اسیر

دیکھ رکھتی ہے کسقدر مجھ کو
درد میں سرخرو تری صورت
تمہاری تشریح میں دم ہے، اس کو درست مانو
کیوں پری کی مثال دوں راجا
حور کی آرزو تری صورت
ابھی بھی وہ معنی واضح نہیں دیتا جو تم نے بتائے ہیں۔ اتنا کچھ حذف کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ حور کی آرزو تری صورت‘ سے جب تک کہ شاعر خود نہ بتائے، یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ حور (بھی) تری صورت (کی) آرزو (رکھتی ہے)۔ (قوسین میں غذف شدہ الفاظ)۔ یہ شعر بھی اچھا ہے لیکن بہت مبہم ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت شکریہ استاد محترم

پہلا شعر، آنکھ بھرتی نہیں مری دیکھے۔ اسقدر خوبرو تری صورت اس شعر کو اگر یوں کیا جائے تو؟
کل تلک تیرگی تھی ہر جانب ۔ آج ہے کو بہ کو تری صورت

دوسرا مصرع، ہو گئے دل اسیر محفل کے - آئی جب روبرو تری صورت، سر پہلی عرض تو یہ کہ جو اسے اضافت کے ساتھ پڑھے ایسے قاری کو شاعری پڑھنے کا حق ہی نہیں! پھر بھی اس شعر کو اگر یو کیا جائے تو؟
کر گئی دل اسیر محفل کے - آئی جب روبرو تری صورت

مقطع کیوں پری کی مثال دوں راجا ۔ حور کی آرزو تری صورت، سر میں سمجھتا ہوں کہ اگر اسکو یوں کہا جائے تو اس کی تفہیم ہو جاتی ہے ۔
کیا پری کی مثال دوں راجا ۔ حور کی آرزو، تری صورت

اور ایک مزید عرض، کیا ان قافیوں کے ساتھ خوبرو قافیہ درست نہیں، کیوں؟ یا “رو“ اور “صورت“ ہم معنی ہونے کی وجہ سے مستحسن نہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
کل تلک تیرگی تھی ہر جانب ۔ آج ہے کو بہ کو تری صورت
÷÷ درست ہے، اگرچہ کچھ مبہم ہے۔ یعنی تری صورت اس قدر روشن ہے!!

کر گئی دل اسیر محفل کے - آئی جب روبرو تری صورت
شعر درست اور بہتر ہے۔
تم نے لکھا ہے ’’مقطع کیوں پری کی مثال دوں راجا ۔ حور کی آرزو تری صورت، سر میں سمجھتا ہوں کہ اگر اسکو یوں کہا جائے تو اس کی تفہیم ہو جاتی ہے ۔
کیا پری کی مثال دوں راجا ۔ حور کی آرزو، تری صورت‘‘
یہ تو وہی صورت ہے، شعر میں تبدیلی کیا ہے؟
 

ایم اے راجا

محفلین
مقطع میں کیوں کی جگہ کیا اور آرزو کے بعد کوما شاید اسکی تفہیم میں مدد گار ثابت ہوں گے، میرے ناقص خیال میں۔
اور سر آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ کیا رو کا قافیہ باقی قافیوں کے ساتھ درست نہیں یا صرف صورت کا ہم معنی ہونے کی وجہ سے درست نہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
رو کے معنی ہی صورت ہوتے ہیں، اس لئے خوبرو کا قافیہ غلط ہے۔ روبرو کیونکہ محاورہ ہے، اس لئے جائز ہے۔
کیا اور کیوں کے فرق سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، اعتراض تو دوسرے مصرع پر ہے نا کہ واضح نہیں ہے۔
 
Top