حسن محمود جماعتی بھائی کا انٹرویو

راز کی باتیں سر عام کون پوچھتا ہے. پچھلے سال جولائی میں. ایک کورس پڑھتے ہوئے. واہ واہ واہ... سبحان اللہ. اب بھی سوچ کر کیا کیفیت طاری ہو گئی ہے.... واہ واہ واہ.... واہ مرے مولا!
معذرت تدوین کی آپشن ختم ہوئی ورنہ سوال الٹا دیا جاتا :)
 

فلک شیر

محفلین
اب جب انٹرویو ہو رہا ہے تو؛
ایک کورس پڑھا رہا ہوں صبح 8 سے 11 اس کی کلاس، پھر ناشتہ، انٹرنیٹ، نیند، شام کو دوستوں کے ساتھ اور عشاء کے قریب گھر. رات دیر تک کچھ نا کرنا اور پھر سو جانا.
اجی کمال کرتے ہیں قبلہ ... اور وہ بھی دیر تک
 

فلک شیر

محفلین
کھیل : فٹبال، ٹیبل ٹینس
کھانا : پراٹھا انڈہ
ڈرامہ : دھواں، ماسوری
فلم : مور
کتاب : تذکرے اور صحبتیں
زبان : سرائیکی
علاقہ : صحرائی. جہاں کے خاص ماحول میں ابھی وقت گزارنے کا موقع نہی ملا لیکن طبعی ذوق کچھ اسی طرف مائل ہوتا ہے.
سبحان اللہ
میں اٹک چٹک ت ڈھول ملتان اے.....
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کو جن سے نسبت ہے وہ ہیں محترم سید مہرعلی شاہ کے سلسلے سے .. آپ نے کبھی پیر مہر علی شاہ کو دیکھا ہے؟
پیر مہر علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ 1937ء میں وفات پا گئے تھے، جماعتی صاحب ان کو کیسے دیکھ سکتے ہیں؟

دوسرا یہ کہ جماعتی صاحب کو جن بزرگ سےنسبت ہے ان کا نام امیر ملت پیر جماعت علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ محدث علی پوری ہے اور وہ بھی 1951ء میں وفات پا گئے تھے!
 

نور وجدان

لائبریرین
پیر مہر علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ 1937ء میں وفات پا گئے تھے، جماعتی صاحب ان کو کیسے دیکھ سکتے ہیں؟

دوسرا یہ کہ جماعتی صاحب کو جن بزرگ سےنسبت ہے ان کا نام امیر ملت پیر جماعت علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ محدث علی پوری ہے اور وہ بھی 1951ء میں وفات پا گئے تھے!
آپ کی بات درست ہے ۔ میں نے خواب میں زیارت کے حوالے سے پوچھا تھا۔
اس بات کا علم تھا کہ ان کی وفات ہوچکی ہے
حسن محمود صاحب کے ذوق ، عقیدت کے تحت ایسا سوال کرنے پر مجبور ہوگئی
تصیحح کرنے کا شکریہ :) :)
 
بھیا یہ آپ سے مصاحبہ ہے اس لیے آپ کی کوئی بھی بات تکلیف دہ نہیں، بہتر ہے آپ کھلے دل سے اپنے خیالات کا اظہار کیجیے اور کسی بھی سوال سے دل چھوٹا نہ کیجیے۔دوسری بات یہ کہ جو کہا ہے وہی کہا گیا ہے اس میں "واقعی" کی گنجائش نہیں، البتہ یہ استفہام محض استفہام ہی ہے تو جواب ہے جی ہاں واقعی۔۔۔ایک سادہ سوال جسے آپ چاہیں تو نظر انداز بھی کرسکتے ہیں، کوئی پابندی نہیں۔آپ کے ثانیاً کے ضمن میں عرض یہ کہ بحث میں انسان کا کوئی نہ کوئی موقف ضرور ہوتا ہے اور آپ نے اپنے موقف کی تائید میں نثم کے خلاف کسی صاحب کے اشعار پیش کیے تھے جس میں اسے مخنث اور نجانے کیا کیا کہا گیا تھا جس سے متعلق بندے نے آپ کو پرائیویٹ مکالمے میں کچھ گزارشات بھی کی تھیں۔ اس حوالے سے جو مجموعی تاثر تھا اسی کے پیشِ نظر آپ سے سوال پوچھ لیا تاکہ شاید آپ کے تازہ افکار سے کوئی نیا شگوفہ کھلے، کوئی جھونکا آئے، کوئی ایسی بات جو اردو دانوں کے قلوب و اذہان کو منور کرے۔چلئے چہرے پہ کچھ مسکراہٹ بکھیریے کہ نہ تب اور نہ ہی اب اس سوال میں "شدت پسندی" کی بجائے آپ کے لیے احترام کا جذبہ تھا۔
قبلہ! آپ کے سوال میں شدت پسندی نہیں تھی۔ لیکن الفاظ کا چناؤ۔۔۔۔۔ خیر چھوڑیے۔ بات یہ ہے کہ ہر بات بلکہ کوئی بھی بات دل پر لینے کی نہیں ہوتی۔ جیلی کھانا چاہتے ہیں تو بتائیں؟؟؟ آپ کو طریقہ بتاتا ہوں بنا کے کھا لیں۔۔۔۔۔;)
 
fC7ZNQug.jpg
 
آپ نے کہا لکھنا باعثِ تکلیف امر ہے جبکہ شدت جذبات کو گویائی حاصل ہے .. کبھی جذبات حاوی ہوئے دوران گویائی!
میں جذبات سے ہی بولتا ہوں۔ اپنے جذبے کو زبان دیتا ہوں۔ اگر اس سے مراد رقت اور کیفیت ہے تو۔۔۔۔۔۔ الحمد للہ اکثر۔ من جوبن پر رہتا ہے۔
 
آپ کو جن سے نسبت ہے وہ ہیں محترم سید جماعت علی شاہ کے سلسلے سے .. آپ نے کبھی پیر جماعت علی شاہ کو دیکھا ہے؟
سورۃ یوسف کا اولین سبق یہی ہے۔ یعقوب علیہ السلام نے جو نصیحت بیٹے کو کی تھی۔ پھر شیخ بھی کہتے رہتے ہیں۔ "ایک بار یہ غلطی ہم کر چکے ہیں۔ کاش یوسف علیہ السلام سے سیکھ لیا ہوتا۔ "
لہذا ایسی غلطی نہ کرنا ہی بہتر ہے!!!
یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
 
آپ کی آواز جادو بکھیر دیتی ہے ... آپ درس قران میں بھی مصروف ہیں تو کیا شاعری کے علاوہ قران پاک کو بھی اسی ردھم سے پڑھنے میں ماہر ہیں؟
آپ کی شفقتوں پر سراپا سپاس ہوں۔
ترنم اور تغنم سے تو قرات نہیں کر سکتا۔ لیکن شدید خواہش ہے اور کوشش کرتا ہوں کہ جس قدر بہتر انداز میں تلاوت کر سکوں۔ درس میں پڑھانا ہوتا ہے۔ تو وہاں تدریسی طریقہ کار اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ترنم سے تلاوت نہیں ہوتی دوران تدریس۔
 
تعلیمی قابلیت کے حوالے سے کیا خواب دیکھا تھا؟ کیا وہ پورا ہوا؟
اولا تو سمجھ ہی نہیں تھی کہ کون سا شعبہ کیوں اختیار کرنا ہے۔ میٹرک میں سائنس پڑھی، انٹر میں انجینئرنگ کی خواہش تھی لیکن ابو کی خواہش تھی بچہ علم دین پڑھے۔ وہاں داخلہ لیا تو انٹر کرتے ہی بھاگ لیے۔ لا میں ایڈمیشن اپلائی کیا۔ نہیں ہوا۔ گھر والوں نے کہا وقت ضائع کر رہے ہو، کچھ کرو۔ مقامی یونیورسٹی کا اشتہار دیکھ بی بی اے میں داخلہ لے لیا۔ یونیورسٹی میں اللہ نے ادراک دیا میاں یہ تمہار شعبہ نہیں۔ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ۔ سوچا ڈگری مکمل ہونے کے بعد اس ادھورے کام کو مکمل کیا جائے۔ پھر وقت نے چال بدلی، حالت بدلی۔ نوکری کرنی پڑی۔ وہ سارا دور دہریت کا تھا۔ پھر مالک نے کرم کیا تو نوکری کے دوران فیصلہ کیا کہ اب تو یہ کام کرکے ہی چھوڑنا ہے۔ والدین سے اجازت لی۔ انہیں اعتماد میں لیا اور نوکری سے استعفی دے دیا۔ اب کے بار جائے انتخاب کراچی تھا۔ ساری تیاری کر لینے کے بعد ایک بار پھر اجازت طلب کی تو امی ابو دونوں نے نا کردی (کراچی جانے سے)۔ تب سے اب تک حالات اپنے لہروں میں لیے کبھی ادھر اور ادھر پٹخ رہے ہیں اور پٹخی رہے ہیں۔ آگے جیسے اس کی مرضی۔۔۔!!!
 
آخری تدوین:
آپ کے قریبی دوستوں میں کون کون سے ایسے ہیں جن سے راز شریک کرتے ہیں؟
راز کی باتیں تو ساری یہاں ہی پوچھ لی گئی ہیں۔ جب یہاں کچھ نہیں چھپایا تو دوستوں سے کیا چھپانا۔ گناہوں کے علاوہ کوئی شے میری زندگی میں راز نہیں ہے۔ بس گناہ چھپا کر رکھے ہیں۔ باقی ایسی کھلی کتاب ہوں کہ جو چاہے، جہاں سے چاہے جو پنہ پڑھ لے۔
 
کیا اعتبار کبھی ٹوٹا؟
نہیں۔ کیونکہ میں توقع ہی نہیں رکھتا۔ یونیورسٹی دور کے تقریبا آٹھ دس رجسٹر ہوں گے۔ ہر سمسٹر کے آغاز میں جب نیا رجسٹر خریدتا، اس کے بیرونی گتے پر سجا کر بڑا بڑا لکھتا
"no expectations" ۔ لہذا اس کی نوبت ہی کبھی نہیں آئی۔
 
آپ کی والدہ کس بات پر آپ سے خوش اور کس پر ناراضی کا اظہار کرتی ہیں؟
والدہ شدید کام کرنے والے خاتون ہیں۔ وہ گھڑی کی سوئی کے ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ بیماری تک میں بھی آرام نہیں کر سکتیں۔ کوئی کام نہ ہو تو وہ کام بنا لیتی ہیں۔ لہذا وہ ویلے پن سے شدید غصہ ہوتی ہیں۔ انہیں کوئی بھی فارغ بندہ بالکل پسند نہیں۔ بس کام ہونا چاہیے۔ ناراض وہ بالکل نہیں ہوتیں۔ میں حیران ہوتا ہوں انہیں ناراض ہونا نہیں آتا۔ وہ لمحہ موجود میں غصے کا اظہار کردیتی ہیں۔ وہ کوئی کام کہیں اور وہ نہ ہوا ہو۔ تو بس پھر۔۔۔۔۔ کام میں ہی ان کی خوشی ہے۔
 
استاد کے حوالے سے جو بھی ملے آپ کو، بہترین کونسے ہیں اور کس وجہ سے بہترین ہیں
ویسے تو سارے استاد ہی بہترین ملے مالک کی کرپا سے۔ میں اپنی تنہائی میں اور اکثر اپنی کلاسز میں اپنے اساتذہ کو یاد کرتا رہتا ہوں۔ تجزیہ کرتا ہوں۔ جس دور سے گزرا اس دور میں جو بھی استاد ملے وہ بہترین تھے۔
ایک نام اسی لڑی میں ذکر کرچکا ہوں۔ دوسرا نام جو شاید سر فہرست ہے "سرعبد القدوس درانی صاحب"۔ کمال کا طریقۂ تدریس۔ کمال شفقت سے پڑھاتے۔ پھر اللہ نے جو انہیں شیریں زبان اور لہجہ دیا ہے اس کا ہر کوئی گرویدہ ہے۔ پھر وہ کام کی بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ یعنی مقصدیت۔ کچھ کرتے رہنے کی دھن اور لگن۔ ان کی ایک اور خاص بات؛ دوران تدریس جب کبھی مثال آجاتی یا دینی ہوتی تو وہ قرآن و حدیث کے حوالے سے مثال دیتے۔ دس سال پہلے ان کی کہی بات آج تک یاد ہے۔ فعل لازم کی تعریف پڑھنے لگے، تو لازم کے لفظی معانی میں انہوں نے فرمایا " جیسے یہ لفظ سورۃ فرقان کی آخری آیت کا آخری کلمہ ہے اور وہاں اس (فلاں) معنی و مفہوم کے لیے آیا ہے۔" پھر ایک عبارت میں لفظ "شم" (م پر شد کے ساتھ) آیا۔ اس پر ایک حدیث پاک سنا دی۔ وہ علم سے زیادہ حکمت، گیان بانٹتے ہیں۔ اور علم سے بڑھ کر مجھے گیان سے شغف ہے۔
 
Top