حبیب_جالب صاحب“ کا یومِ ولادت... آج - 24؍مارچ 1928

سیما علی

لائبریرین
آج - 24؍مارچ 1928

مقبول انقلابی پاکستانی شاعر ، سیاسی جبر کی مخالفت کے لئے مشہور اور معروف شاعر ”#حبیب_جالب صاحب“ کا یومِ ولادت...

#حبیب_جالبؔ کا اصل نام #حبیب_احمد، اور تخلص #جالبؔ تھا۔ 24؍مارچ 1928ء کو میانی افغاناں، ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے زندگی بھر عوام کے مسائل اور خیالات کی ترجمانی کی اور عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہے۔ 1962ء میں انہوں نے صدر ایوب خان کے آئین کے خلاف اپنی مشہور نظم دستور تحریر کی جس کا یہ مصرع ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا پورے ملک میں گونج اٹھا۔ بعدازاں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ سیاسی اعتبار سے وہ نیشنل عوامی پارٹی سے منسلک تھے زیادہ قریب تھے اور انہوں نے عمر کا بیشتر حصہ اسی پارٹی کے ساتھ وابستہ رہ کر بسر کیا۔انہوں نے ہر عہد میں سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ ہر عہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔
ان کے شعری مجموعوں میں برگ آوارہ، سرمقتل، عہد ستم، حرف حق، ذکر بہتے خون کا، عہد سزا، اس شہر خرابی میں، گنبد بے در، گوشے میں قفس کے، حرف سر دار اور چاروں جانب سناٹا شامل ہیں۔
حبیب جالب نے کئی معروف فلموں کے لئے بھی نغمہ نگاری کی جن میں مس 56، ماں بہو اور بیٹا، گھونگھٹ، زخمی، موسیقار، زمانہ، زرقا، خاموش رہو، کون کسی کا، یہ امن، قیدی، بھروسہ، العاصفہ، پرائی آگ، سیما، دو راستے، ناگ منی، سماج اور انسان شامل ہیں۔ انہیں انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے اعلیٰ اعزازات پیش کئے تھے۔ کراچی پریس کلب نے انہیں اپنی اعزازی رکنیت پیش کرکے اپنے وقار میں اضافہ کیا تھا اور ان کی وفات کے بعد 2008ء میں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا جو خود اس اعزاز کے لئے باعث اعزاز تھا۔
13؍مارچ 1993ء کو حبیب جالب، لاہور میں وفات پاگئے اور قبرستان سبزہ زار اسکیم میں آسودۂ خاک ہوئے۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷



🌹 انقلابی شاعر حبیب جالب صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت... 🌹

اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی
ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا
---
اک تری یاد سے اک تیرے تصور سے ہمیں
آ گئے یاد کئی نام حسیناؤں کے
---
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
---
اک عمر سنائیں تو حکایت نہ ہو پوری
دو روز میں ہم پر جو یہاں بیت گئی ہے
---
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
---
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
---
تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ
الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے
---
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
---
جن کی یادوں سے روشن ہیں میری آنکھیں
دل کہتا ہے ان کو بھی میں یاد آتا ہوں
---
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
---
دنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں
دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل
---
دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
---
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
---
لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری
ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں
---
کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غمِ جاناں
کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے
---
کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں
بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں
---
پھر دل سے آ رہی ہے صدا اس گلی میں چل
شاید ملے غزل کا پتا اس گلی میں چل
---
یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
---
یوں وہ ظلمت سے رہا دست و گریباں یارو
اس سے لرزاں تھے بہت شب کے نگہباں یارو
---
وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظام زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے وہی رہبر ہے خطرے میں

💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐💐
 

علی وقار

محفلین
کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں

بہت کم ظرف تھا جو محفلوں کو کر گیا ویراں
نہ پوچھو حالِ یاراں شام کو جب سائے ڈھلتے ہیں

وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے، نہ اپنے دن بدلتے ہیں

کہاں تک دوستوں کی بے دلی کا ہم کریں ماتم
چلو اس بار بھی ہم ہی سرِ مقتل نکلتے ہیں

ہمیشہ اوج پر دیکھا مقدر ان ادیبوں کا
جو ابن الوقت ہوتے ہیں ہوا کے ساتھ چلتے ہیں

بہر صورت مسائل کو تو حل کرنا ہی پڑتا ہے
مسائل ایسے سائل ہیں کہاں ٹالے سے ٹلتے ہیں

ہم اہل درد نے یہ راز آخر پا لیا جالبؔ
کہ دیپ اونچے مکانوں میں ہمارے خوں سے جلتے ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
حبیب جالب کے بے باک قلم نے ظلم، زیادتی، بے انصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو لکھا وہ زبان زدِ عام ہو گیا۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
 

سیما علی

لائبریرین
وقت کے آمروں کو للکارنے والی ایک توانا آواز اور شاعر عوام حبیب جالب کی انقلابی شاعری آج بھی تازہ ومعطر ہے۔ حبيب جالب کا زندگی بھر يہ الميہ رہا کہ وہ تاريکی کو روشنی اور باطل کو حق نہ کہہ سکے۔

ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
 

سیما علی

لائبریرین
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا

لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا

نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو
حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا
 

سیما علی

لائبریرین
نظم ’جمہوریت‘ کا ایک حصہ :

دس کروڑ انسانو!
زندگی سے بیگانو!
صرف چند لوگوں نے
حق تمہارا چھینا ہے
خاک ایسے جینے پر
یہ بھی کوئی جینا ہے
بے شعور بھی تم کو
بے شعور کہتے ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
انسانوں کی حالت زار بیان کی اور انھیں ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے کا حوصلہ بخشا۔ غزلوں کے چند اشعار ؀

ہر شخص اپنے اپنے غموں میں ہے مبتلا
زنداں میں اپنے ساتھ رلائیں کسی کو کیا
جینے کی دعا دینے والے یہ راز تجھے معلوم نہیں
تخلیق کا اک لمحہ ہے بہت بیکار جئے سو سال تو کیا
کچھ بھی ہوتا پر نہ ہوتے پارہ پارہ جسم و جاں
راہزن ہوتے اگر ان رہنماؤں کی جگہ
کتنا سکوت ہے رسن و دار کی طرف
آتا ہے کون جرأت اظہار کی طرف
ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم
کسی کے ڈر سے تقاضا نہیں بدلتے ہم
 

سیما علی

لائبریرین
جنرل ایوب خاں جب یونین کونسل کے ارکان سے ووٹ لیکر ملک پر بطور صدر مسلط ہونا چاہتے تھے اور ان کا انتخابی نشان گلاب کا پھول تھا تو اس موقع پر جالب نے جنرل ایوب خاں کو اپنے درج ذیل اشعار کی صورت میں للکارا تھا۔
پھول دامن پہ سجائے ہوئے پھرتے ہیں وہ لوگ
جن کو نسبت ہی نہ تھی کوئی چمن سے یارو
سینہء قوم کے ناسور ہیں، یہ پھول نہیں
خوف سا آنے لگا ہے سرووسمن سے یارو
 

سیما علی

لائبریرین
جالب نے قوم کی ماں فاطمہ جناح کی عظمت بیان کرتے ہوئے مندرجہ ذیل شعر کہے۔
ماں کے قدموں ہی میں جنت ہے اِدھر آجاؤ
ایک بے لوث محبت ہے، اِدھر آجاؤ
وہ پھر آئی ہے ہمیں ملک دلانے کے لئے
ان کی یہ ہم پہ عنایت ہے، اِدھر آجاؤ
 

سیما علی

لائبریرین
جنرل ضیاء الحق کے دور میں کوڑوں کی دہشت، جیلوں کا خوف اور شاہی قلعہ کے عقوبت خانے میں تشدد کے واقعات جالب کی زبان پر تالہ نہیں لگاسکے۔ اسی دور میں جالب کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے۔
ظلمت کو ضیا صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
 

سیما علی

لائبریرین
1970 میں جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں جب اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل نہیں کیا گیا تو حبیب جالب نے احتجاجاً ایک نظم لکھی۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو، وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے، یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
 

سیما علی

لائبریرین
آمریت کے بعد جب پیپلزپارٹی کا پہلا دور حکومت آیا اور ملکی حالات نہ بدلے تو حبیب جالب نے کہا کہ

وہی حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض، پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
 

سیما علی

لائبریرین
خطرے میں اسلام نہیں‘ کے عنوان سے ایک مقبول نظم لکھی جو یوں شروع ہوتی ہے:
خطرہ ہے زرداروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
ساری زمین کو گھیرے ہوئے ہیں آخر چند گھرانے کیوں؟
نام نبیؐ کا لینے والے اُلفت سے بیگانے کیوں؟
 

سیما علی

لائبریرین
مادرِ ملت کی وفات اور اُن کی پہلی برسی پر بھی جالب نے اُنھیں اسی عقیدت اور محبت کے ساتھ یاد کیا ہے۔ آخرالذکر نظم میں محترمہ کے فیضان کا ذکردرج ذیل انداز میں کیا گیا ہے:
وہ نقشِ قائداعظم اُبھارنے آئی
وہ رنگ روئے گلستاں نکھارنے آئی
مقدر اہلِ وطن کا سنوارنے آئی
وہ اپنی جان غریبوں پہ وارنے آئی
اُسے نہ جاہ و زر و مال کی ضرورت تھی
فقط عوام کے اقبال کی ضرورت تھی
 

سیما علی

لائبریرین
دو مجبورو مظلوم رقاصاؤں،نیلو اور ممتاز سے آمرانہ بدسلوکی پر رنج و غم میں ڈوب کر جالب نے دو خوب صورت نظمیں کہی تھیں۔ آمریت کے دور میں شہنشاہِ ایران کی خوشنودی کی خاطرنامور رقاصہ نیلو کو رقص کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ نیلو نے انکار کر دیا تھا۔ اس پر اُسے گرفتار کر کے محفلِ رقص میں لے آیا گیا تھا۔
نظم نیلو کے پہلے دو مصرعے قارئین کی نذر ہیں
’تو کہ ناواقفِ آدابِ شہنشاہی تھی
رقص رنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔
دوسری رقاصہ ممتاز کے ایک ایسے تجربے سے پھوٹنے والی نظم کا پہلا مصرعہ ہی ہم سے بہت کچھ کہتا نظر آتا ہے: ’قصرِ شاہی سے یہ حُکم صاد ر ہوا،
لاڑکانے چلو،ورنہ تھانے چلو‘
۔ایوب خان نے خود اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کی بجائے جنرل یحییٰ خاں کے سپرد کر دیا۔ یحییٰ خاں نے انتخابات تو کرائے مگر عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے خود آمرِ مطلق بن بیٹھا۔
 
Top