جیو قاضی حسین احمد۔۔ روزن دیوار سے ۔ عطاء الحق قاسمی

فرخ منظور

لائبریرین
جیو قاضی حسین احمد....روزن دیوار سے …عطاء الحق قاسمی

1/29/2009
میں کئی دنوں سے ایک ”فنی خرابی“ کی وجہ سے کالم نہیں لکھ سکا۔ آج بھی پوری طرح اس پوزیشن میں نہیں ہوں لیکن امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کے اس بیان نے مجھے کالم لکھنے پر انسپائر کیا ہے جو انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران دیا۔ قاضی صاحب نے کہا کہ شریعت میں زبردستی داڑھی نہیں رکھوائی جاتی، نہ ٹوپیاں پہنائی جاتی ہیں اور نہ ہی کسی کو قتل کر کے شریعت نافذ کی جا سکتی ہے کیونکہ شریعت لوگوں کی جان و مال اور آبرو کے تحفظ کا نام ہے ۔ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ آپ یقین کریں قاضی صاحب کا یہ بیان وہ بیان ہے جس کے دیکھنے کو پاکستان کے سولہ کروڑ عوام کی آنکھیں ترس رہی تھیں۔ یہ سولہ کروڑ عوام وہ ہیں جو اسلام سے محبت کرتے ہیں، جنہیں داڑھیوں اور ٹوپیوں میں اپنے آباؤ واجداد کی شکلیں نظر آتی ہیں اور جو حتی المقدور شعائر اسلامی کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔ ہر معاشرے میں نیک اور گناہ گار ہر دو طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں ۔ ہمارے مسلم معاشرہ میں بھی یہ دونوں طبقات موجود ہیں۔ گناہ گاروں میں داڑھی اور ٹوپی والے بھی ہیں اور کلین شیوڈ اور ننگے سر والے بھی۔ یہی صورتحال نیک اعمال کے حامل افراد کی بھی ہے۔ دنیا کے ہر معاشرہ کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی یہ سب لوگ مل جل کر رہتے ہیں جن کی جزا اور سزا کا فیصلہ ملکی قانون کے مطابق بھی ہوتا ہے اور آخرت میں تو ہونا ہی ہے لیکن حلئے اور وضع قطع کی بنیاد پر ان کے درمیان نفرت کی دیوار نہیں کھینچی جاتی۔ اس حوالے سے نہایت تشویشناک امر یہ ہے کہ کہ ”اسلام“ کی جو تعبیر سوات میں کی جا رہی ہے وہ معاشرے کو حلئے اور وضع قطع کے حوالے سے صرف تقسیم نہیں کرتی بلکہ ایک دوسرے کے مد مقابل بھی لا کھڑا کرتی ہے۔ پاکستانی عوام کی بہت بڑی اکثریت داڑھی سے محروم ہے۔ کیا سواتی اسلام والے حلئے اور وضع قطع کی بنیاد پر ان لوگوں کومعاشرے میں چبھتی ہوئی نظروں کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں جو اپنی سوچ کے مطابق داڑھی ، ٹوپی اور دستار کو دینی اور ثقافتی پس منظر میں عزیز رکھتے ہیں؟ اللہ نہ کرے کہ یہ لوگ کہیں اپنے اس مذموم مقصد میں کامیاب ہوں کہ ان کی کامیابی میں اسلام اور پاکستان کی بربادی کا واضح پیغام موجود ہے۔ یہ نوشتہ ٴ دیوار ہے جو ہر کوئی بآسانی پڑھ سکتا ہے۔
سوات میں اسلام کے نام پر بچیوں کے سکول جلائے جا رہے ہیں۔ بچوں کو پولیو سے انسداد کے جو قطرے پلائے جاتے ہیں اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ حجاموں کو شیو کرنے سے منع کیا جا رہا ہے، حکم عدولی کرنے والوں کو سڑک پر لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا جاتا ہے ا ور اس حیوانیت کو اسلام کا نام دیا گیا ہے۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں ”دقیانوسی“ سے دقیانوسی عالم دین ایسا نہیں ہے جو بچیوں کی تعلیم کے خلاف ہو، جو عورتوں کے گھر سے نکلنے کو خلاف اسلام قرار دیتا ہو، جو جبراً داڑھی رکھوانے کے حق میں ہو اور جو پولیو کے قطروں کو خلاف اسلام قرار دیتا ہو۔ کسی ایک مفتی کا فتویٰ بھی ان کے حق میں نہیں۔ یہ جو خود ساختہ اسلام کو اپنی سفاکی کے بل بوتے پر نافذ کرنا چاہتے ہیں ان لوگوں کے پاس اپنے ان جابرانہ اقدامات کے لئے نہ تو قرآن مجید کی کوئی آیت ہے، نہ کوئی حدیث رسول ان کے ”اسلام“ کو سپورٹ کرتی ہے اور نہ حضور سرور کائنات ، صحابہ کرام یا آئمہ عظام کی کوئی سند ان کے پاس ہے ۔ یہ لوگ اسلام سے ایسی باتیں منسوب کر رہے ہیں جن کا کسی مذہب سے تو کیا تعلق ہونا ہے، انسانی بنیادی اخلاقیات سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ لگتا یہی ہے کہ اسلام دشمن اور پاکستان دشمن طاقتیں اپنے ایجنڈے کو ایسے عناصر کے ذریعے تقویت دے رہی ہیں جو پاکستان کے عوام کو مذہب کی گھناؤنی تصویر دکھا کر اسلام اور پاکستان سے متنفر کرنے میں مددگار ہوں۔ حکومت اور فوج ان لوگوں کی سرکوبی میں ناکام ہو گئی ہے۔ ان کا راستہ صرف اور صرف پاکستان کی مذہبی جماعتیں اور علمائے کرام ہی روک سکتے ہیں جو ان کا آلہٴ کار بننے والے معصوم اور بے خبر لوگوں کو بتائیں کہ تمہیں ان رستوں پر چلانے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر اسلام کا قلع قمع کرنے میں مشغول ہیں۔
لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ کام کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے جانیں بھی ہتھیلیوں پر رکھنا پڑیں گی۔ مسندوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی بہت سے دنیاوی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن ہماری تاریخ میں ہمارے علمائے حق نے علمائے سو کا مقابلہ بہت جوانمری سے کیا ہے۔ ہمارے اماموں نے کوڑے کھائے ہیں ، عقوبت خانوں میں رہے ہیں، ان کے جسموں سے خون رستے رہے ہیں لیکن انہوں نے اسلام پر آنچ نہیں آنے دی۔ اگر اس وقت ہمارے علماء اور مذہبی جماعتوں نے مصلحتوں سے کام لیا اور آگے بڑھ کر سوات کے خود ساختہ اسلام کے خلاف جذبات کا اظہار نہ کیا ، جلسے نہ کئے، جلوس نہ نکالے اور یہ سب کچھ اس شدت سے نہ کیا جس کا مظاہرہ جس شدت سے وہ فحاشی وغیرہ کے خلاف کرتے ہیں تو قیامت کے روز وہ اپنے خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ اس حوالے سے قاضی حسین احمد نے اپنے فرض کی پہلی قسط ادا کی ہے جس پر وہ دلی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کی طرف سے اور دیگر مذہبی جماعتوں اور علمائے کرام کی طرف سے باقی قسطوں کا انتظار رہے گا۔ ویسے بھی اب یہ معاملہ صرف اسلام کی بقا کا نہیں ،ان کی اپنی بقا کا بھی ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم سخنور جی
ماشااللہ
بہت سلگتے ہوئے موضوع کو بہت دلنشین انداز میں بیان کرنا ہی سخنوری کہلاتا ہے
جزاک اللہ
کاش کہ ہم سب کی آنکھیں کھل جائیں ۔
اسلام سلامتی والے دین کا نام ہے
بہت اچھا لکھا آپ نے
اللہ کرے زور علم و عمل اور زیادہ آمین
نایاب
 

فرخ منظور

لائبریرین
السلام علیکم
محترم سخنور جی
ماشااللہ
بہت سلگتے ہوئے موضوع کو بہت دلنشین انداز میں بیان کرنا ہی سخنوری کہلاتا ہے
جزاک اللہ
کاش کہ ہم سب کی آنکھیں کھل جائیں ۔
اسلام سلامتی والے دین کا نام ہے
بہت اچھا لکھا آپ نے
اللہ کرے زور علم و عمل اور زیادہ آمین
نایاب

نایاب صاحب۔ بہت شکریہ پسند کرنے کے لئے۔ "میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے" کے مصداق مجھے یہی لگا کہ جو میں کہنا چاہتا تھا وہی باتیں عطا الحق قاسمی صاحب نے بہت خوبصورت طریقے سے کہی ہیں۔ لیکن یہ کالم میرا نہیں ہے بلکہ عطا الحق قاسمی صاحب نے جنگ اخبار کے لئے تحریر کیا ہے۔
 

ساجد

محفلین
قاضی صاحب ، دیر آید درست آید۔ اللہ کرے قاضی صاحب جمیعت کے نوجوانوں کو بھی یہ بات سمجھا دیں۔
 
Top