جیل کا احوال – بڑے بھائی کا شکوہ

تحریر : محمد شاہد علی



جیل کا احوال – بڑے بھائی کا شکوہ



جیل سے عاجزانہ اور مجرمانہ سلام ، دست بدست بنام غریب عوام ، کمزور نظام، اور بیوفا خاندان.

نہ ہی میرا عہدہ چھن جانے پر کوئی صدا بلند ہوئی نہ ہی میری پگڑی اچھلنے پر آپ نے کوئی شرمندگی محسوس کی. مگر پھر بھی مجھے یقین ہے کہ آپ مجھ سے بے حد محبت کرتے ہیں ، میری کمی ضرور محسوس کر رہے ہونگے اور میرے جیل جانے پر افسردہ ہونگے. میرے بغیر تخت ا اقتدار یقینن آپ کو خالی خالی بلکہ ہلکا ہلکا لگ رہا ہوگا، آخر شخصیت کا وزن ہوتا ہے .

آج میں آپ سے دل کی باتیں کرنا چاہتا ہوں ، گلے شکوے کرنا چاہتا ہوں ، پر سمجھ نہیں آتی کہاں سے شروع کروں، اس عدلیہ کا گلہ کروں جسے میں نے خون جگر پلا پلا کے پالا تھا . ایک ایک جج ڈھونڈ ڈھونڈ کر اچھی طرح دیکھ بھال کر تعینات کیا تھا کہ کہیں کوئی ایماندار نہ ہو ، صرف میرا کہا مانے تاکہ برے وقت میں کام آسکیں. میری مگر کسی ایک نے بھی میری فریاد نا سنی، کسی نے میری داد رسی نہ کی، سب نے یکطرفہ فیصلہ سنا دیا.بس سب کا ایک ہی سوال تھا کہ رسیدیں نکالو، بھئی کیوں نکالو کہاں سے نکالو، آخر اتنی پرانی رسیدیں ہیں ڈھونڈنے میں وقت لگتا ہے کم سے کم پانچ سال کا وقت تو دیتے تاکہ میں حکومت تو پوری کرلیتا عوام کی تھوڑی خدمت تو کرلیتا. مگر نہیں ایک سال کے اندر اندر فیصلہ سنا دیا.

خیر جانے دو بھائیوں جو الله کی مرضی آخر بڑے لیڈروں پر ہی کڑا وقت آتا ہے.میرے ایک خیر خواہ نے مجھے بتایا تھا کہ اگر میں جیل گیا تو میں نیلسن منڈیلا بن جاؤںگا ، اسنے ستائیس سال جیل میں گزارے تھے اور وہ ایک عظیم لیڈر بن گیا تھا ، پر کمبخت یہ دل ڈرتا بھی ہے کہ کہیں واقعی ستائیس سال کے لئے اندر کردیا تو ، میری تو زندگی کے دن بھی اتنے نہیں بچے ہونگے ، کیسے وقت گزرے گا یہاں، ادھر تو مچھر بھی جہاز کے سائز کے ہوتے ہیں. اور اگر کہیں پھانسی لٹکا کر بھٹو بنا دیا تو؟

پر یقین مانو میرے بھائیوں برے وقت میں تو سایا بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے ، وہ جو کہا کرتے تھے کہ نون توایک نشہ ہے، وہ کیا کہا ہےشاعر نے

چھٹتی نہیں ہے کافر منہ کو لگی ہوئی .

پر صاحبوں جوں ہی مجھ غریب کو سزا ہوئی ، سارے ایک ایک کر کے غائب ہو گئے ، یہاں تک کہ میں جب واپس وطن آیا تو مجھے ایئر پورٹ لینے کے لئے تک کوئی نہ آیا ، کہاں چلے گئے سارے لوہے کے چنے، سب غائب ہو گئے، سچ کہتے ہیں نشئی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ہے.پر دوستوں اب سمجھ میں آتا ہے، کہ نشہ نون کا نہیں تھا ، نشہ تو اقتدار کا تھا، جب اقتدار گیا تب سارا نشہ اتر گیا.

اب میں ہوں اور میری تنہائ دونوں اکثر باتیں کرتے ہیں ، کسی شئے میں دل نہیں لگتا، دماغ کام نہیں کرتا ، سوچتا کچھ ہوں اور کرتا کچھ ہوں، وہ کیا کہا ہے شاعر نے

جب دل ہو ویران

تو کیا خوشی دے گلستان

بریانی قورمہ پائے اور قیمے والے نان

معافی چاہتا ہوں دوستوں میں نے کہا نا کہ دماغ کچھ الجھا سا رہتا ہے، سمجھ نہیں آتی کیا کہوں اور کیا نا کہوں، کئی دن ہو گئے ہیں کچھ من پسند کھانے کو نہیں ملا ہے. اب یہ دن بھی دیکھنے تھے ، کیا بدنصیبی ہے میری ، حالانکہ میں نے خود سنا تھا ، جمعے کی نماز میں مولوی صاحب نے کہا تھا کہ اگر تم کسی یتیم ، مسکین کے سر پر دست شفقت رکھو گے تو، بدنصیبی تمھیں چھو کر بھی نہیں گزرے گی،آپ خود بتائیں پانچ سال میں نے ممنون کو کس طرح سے پالا ہے ، اچھے سے اچھا کھلایا ، اچھے سے اچھا پہنایا، بیمار ہوا تو علاج کروایا، کہیں کوئی چوٹ نہ لگ جائے اسلئے اسے باہر بھی نہیں جانے دیتا تھا، سال میں دو دفعہ اسے محل سے باہر بھیجتا تھا ، تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ وہ زندہ ہے، آپ خود بتائیں کیا کمی کی ہے اسکی خاطر داری میں مگر نہیں بدنصیبی ہے کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتی .



لیکن سچ پوچھیں تو ان مولوی صاحبان کا بھی کچھ بھروسہ نہیں ہے، جب انکے اپنے اوپر بات آتی ہے تب ہی انکو فتوے یاد آتے ہیں، اب ایک مولوی صاحب بھرے مجمے میں سٹیج پر بیٹھے مخالفین کو دلّا دلّا پکار رہے ہوتے تھے، لیکن جب ان پر اعترض آیا تو صاف مکر گئے، کہنے لگے میں پنجابی والا دلّا تھوڑی بول رہا تھا میں تو عربی میں ضلّا بول رہا تھا مجھے پوری گردان سنا دی عربی میں، بھائیوں انصاف سے بتاؤ اگر ان خراب الفاظ کی مناسب اور باعزت تشریح ہوسکتی ہے تو کیا میرا جرم اتنا بڑا ہے کیا میری کرپشن جائز نہیں ہو سکتی ، میرے حق میں کوئی فتویٰ کوئی آواز نہ اٹھی کیوں آخر کیوں؟



بھائی میرا دل خوں کے آنسو رو رہا ہے ، یقین کیجیے کئی راتیں ایسی گزری ہیں مجھ پر جب میرا جی چاہا کہ چپکے سے اٹھوں اور فرج سے جا کر مٹھائی نکال کر کھاؤں، مگر جیل میں یہ سب کہاں. اب دوسروں سے کیا شکوہ کروں یہاں تو میرا اپنا خون مجھے دھوکہ دے گیا.میں نے تو بس اک ذرا سا سوال کیا تھا کہ میرے خلاف ثبوت کیا ہیں ، میرے سامنے کاغذات کا ڈھیر لاکر رکھ دیا کہ یہ ہے ثبوت، میں نہیں مانتا ان کاغذوں کو ، او بھائی ثبوت لاؤ ثبوت ، پھر میں نے بس اتنا کہا کہ کیوں نکالا ، کیا میرا یہ پوچھنا غلط ہے کیا میرا اتنا بھی حق نہیں ہے. تو جوابا مجھے اندر ہی ڈال دیا ، بھائیوں حق کی آواز ایسے نہیں دب سکتی. میں حق بات کرتا رہوں گا .



گلے شکوے تو بہت ہیں ، سوچ رہا ہوں ایک کتاب بھی لکھوں، پر فلحال میں ذرا کمر سیدھی کرلوں پھر ملیں گے ، اللہ حافظ.

d52938c45f76776588f926e7af32a836
 
Top