داغ جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں

گلے شکوے کہاں تک ہوں گے آدھی رات تو گزری
پریشاں تم بھی ہوتے ہو پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں

جو رکھے چارہ گر کافور دونی آگ لگ جائے
کہیں یہ زخمِ دل شرمندۂ مرہم بھی ہوتے ہیں

وہ آنکھیں سامری فن ہیں وہ لب عیسیٰ نفس دیکھو
مجھی پر سحر ہوتے ہیں مجھی پر دم بھی ہوتے ہیں

زمانہ دوستی پر ان حسینوں کی نہ اترائے
یہ عالم دوست اکثر دشمنِ عالم بھی ہوتے ہیں

بظاہر رہنما ہیں اور دل میں بدگمانی ہے
ترے کوچے میں جو جاتا ہے آگے ہم بھی ہوتے ہیں

ہمارے آنسوؤں کی آبداری اور ہی کچھ ہے
کہ یوں ہونے کو روشن گوہرِ شبنم بھی ہوتے ہیں

خدا کے گھر میں کیا ہے کام زاہد بادہ خواروں کا
جنہیں ملتی نہیں وہ تشنۂ زمزم بھی ہوتے ہیں

نہیں گھٹتی شبِ فرقت ہے اکثر ہم نے دیکھا ہے
جو بڑھ جاتے ہیں حد سے وہ ہی گھٹ کر کم بھی ہوتے ہیں

بچاؤں پیرہن کیا چارہ گر میں دستِ وحشت سے
کہیں ایسے گریباں دامنِ مریم بھی ہوتے ہیں

طبیعت کی کجی ہرگز مٹائے سے نہیں مٹتی
کبھی سیدھے تمہارے گیسوئے پر خم بھی ہوتے ہیں

جو کہتا ہوں کہ مرتا ہوں تو فرماتے ہیں مر جاؤ
جو غش آتا ہے تو مجھ پر ہزاروں دم بھی ہوتے ہیں

کسی کا وعدۂ دیدار تو اے داغؔ برحق ہے
مگر یہ دیکھیے دل شاد اس دن ہم بھی ہوتے ہیں؟

(داغؔ دہلوی)​
 
جو رکھے چارہ گر کافور دونی آگ لگ جائے
کہیں یہ زخمِ دل شرمندۂ مرہم بھی ہوتے ہیں

نہیں گھٹتی شبِ فرقت ہے اکثر ہم نے دیکھا ہے
جو بڑھ جاتے ہیں حد سے وہ ہی گھٹ کر کم بھی ہوتے ہیں

بچاؤں پیرہن کیا چارہ گر میں دستِ وحشت سے
کہیں ایسے گریباں دامنِ مریم بھی ہوتے ہیں

کیا ہی خوبصورت اشعار ہیں!
محفل میں شریک کرنے پر آپ کی شکرگزار ہوں!!
 
۔۔۔پھر وہ بھولی سی یاد آئی ہے ۔۔اے غمِ دل تری دہائی ہے!
۔۔۔تو پتہ یہ چلا کہ طلعت محمود کی آواز میں فلم بابل کے گیت کی مندرجہ ذیل الاپ حضرتِ داغ دہلوی کی اِس غزل کے مطلع سے ماخوذ ہے جو آپ نے
پوسٹ فرمائی۔
خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں۔۔۔جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں(شکیل بدایونی)
۔۔۔اور غزل پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے روزمرہ کی بات چیت اور معمول کی گفتگو اشعار میں ڈھل رہی ہے۔
آپ کا ذوقِ انتخاب داد کا مستحق ہے جنابِ من۔
۔۔۔دُونی آگ لگ جائے۔۔۔مجھی پر سحر ،مجھی پر دم۔۔۔۔۔۔۔اوریہ مصرع تو غالباًضرب المثل کے درجے پر بھی فائز ہے:جو بڑھ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔پھر :طبیعت کی کجی۔۔۔ اور پھر : جو کہتا ہوں کہ مرتا ہوں تو فرماتے ہیں مرجاؤ۔۔
۔۔یہ شعر تو ایک فلمی قوالی ہی یاد دلاگیاجس کا ایک بند یہ بھی تھا: ناز و انداز سے کہتے ہیں کہ جینا ہوگا۔۔زہر بھی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہوگا۔۔جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں ۔۔جب میں مرتا ہوں تو۔۔
کہتے ہیں کہ جینا ہوگا(ساحر لدھیانوی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محترم فرخ منظور صاحب! آبا ء کی چھوڑی ہوئی مردم خیز سرزمین ،جس کے قصص ہم نے اُنہی کی زبانِ حسرت ویاس سے بارہا سنےاور جنھیں سناتے ہوئے وہ ایک ایسے کربناک
کیف میں ڈوب جایا کرتے تھے جسے حیطۂ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔۔۔۔۔آپ نے داغ دہلوی کی غزل پیش فرمائی ،آپ نے ہندُستان کے زریں عہدکی( شعر وادب اور زبان و بیان کے حوالے سے) ایک چمکتی تصویرسی نظر کے سامنے
کردی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج وہاں کی فلموں سے کبھی کبھی بطورِ خاص دہلی کی جو ز بان سننے کو مل رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔یقین نہیں آتا یہ اُسی شہر کی زبان ہے جو عالم میں انتخاب تھااوررہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے۔۔۔۔!
خدا آپ کو سلامت رکھے ، بہت شاندار پوسٹ ہے !!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
۔۔۔پھر وہ بھولی سی یاد آئی ہے ۔۔اے غمِ دل تری دہائی ہے!
۔۔۔تو پتہ یہ چلا کہ طلعت محمود کی آواز میں فلم بابل کے گیت کی یہ الاپ حضرتِ داغ دہلوی کی اِس غزل کے مطلع سے ماخوذ ہے جو آپ نے
پوسٹ فرمائی۔
خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں۔۔۔جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں(شکیل بدایونی)
۔۔۔اور غزل پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے روزمرہ کی بات چیت اور معمول کی گفتگو اشعار میں ڈھل رہی ہے۔
آپ کا ذوقِ انتخاب داد کا مستحق ہے جنابِ من۔
۔۔۔دُونی آگ لگ جائے۔۔۔مجھی پر سحر ،مجھی پر دم۔۔۔۔۔۔۔اوریہ مصرع تو غالباًضرب المثل کے درجے پر بھی فائز ہے:جو بڑھ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔پھر :طبیعت کی کجی۔۔۔ اور پھر : جو کہتا ہوں کہ مرتا ہوں تو فرماتے ہیں مرجاؤ۔۔
۔۔یہ شعر تو ایک فلمی قوالی ہی یاد دلاگیاجس کا ایک بند یہ بھی تھا: ناز و انداز سے کہتے ہیں کہ جینا ہوگا۔۔زہر بھی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہوگا۔۔جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں ۔۔جب میں مرتا ہوں تو۔۔
کہتے ہیں کہ جینا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محترم فرخ منظور صاحب! آبا ء کی چھوڑی ہوئی مردم خیز سرزمین ،جس کے قصص ہم نے اُنہی کی زبانِ حسرت ویاس سے بارہا سنےاور جنھیں سناتے ہوئے وہ ایک ایسے کربناک
کیف میں ڈوب جایا کرتے تھے جسے حیطۂ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔۔۔۔۔آپ نے داغ دہلوی کی غزل پیش فرمائی ،آپ نے ہندُستان کے زریں عہدکی( شعر وادب اور زبان و بیان کے حوالے سے) ایک چمکتی تصویرسی نظر کے سامنے
کردی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج وہاں کی فلموں سے کبھی کبھی بطورِ خاص دہلی کی جو ز بان سننے کو مل رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔یقین نہیں آتا یہ اُسی شہر کی زبان ہے جو عالم میں انتخاب تھااوررہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے۔۔۔۔!
خدا آپ کو سلامت رکھے ، بہت شاندار پوسٹ ہے !!

بہت عنایت۔ خوش رہیے۔
 
Top