میر جھمکے دکھا کے طُور کو جن نے جلا دیا ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
جھمکے دکھا کے طُور کو جن نے جلا دیا
آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا

اس فتنے کو جگا کے پشیماں ہوئی نسیم
کیا کیا عزیز لوگوں کو ان نے سلا دیا

اب بھی دماغِ رفتہ ہمارا ہے عرش پر
گو آسماں نے خاک میں ہم کو ملا دیا

جانی نہ قدر اس گہرِ شب چراغ کی
دل ریزۂ خزف کی طرح میں اٹھا دیا

تقصیر جان دینے میں ہم نے کبھو نہ کی
جب تیغ وہ بلند ہوئی سر جھکا دیا

گرمی چراغ کی سی نہیں وہ مزاج میں
اب دل فسردگی سے ہوں جیسے بجھا دیا

وہ آگ ہورہا ہے خدا جانے غیر نے
میری طرف سے اس کے تئیں کیا لگا دیا

اتنا کہا تھا فرش تری رہ کے ہم ہوں کاش
سو تُو نے مار مار کے آ کر بچھا دیا

اب گھٹتے گھٹتے جان میں طاقت نہیں رہی
ٹک لگ چلی صبا کہ دیا سا بڑھا دیا

تنگی لگا ہے کرنے دم اپنا بھی ہر گھڑی
کڑھنے نے دل کے جی کو ہمارے کھپا دیا

کی چشم تونے باز کہ کھولا درِستم
کس مدعی خلق نے تجھ کو جگا دیا

کیا کیا زیان میرؔ نے کھینچے ہیں عشق میں
دل ہاتھ سے دیا ہے جدا سر جدا دیا

(میر تقی میرؔ)
 
میر تقی میر درد کے سفیر ہیں کہیں پر پڑها دیکها نظر سے گزرا کتنے احباب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اسے یہ لقب دیا جائے ایسے بہت سارے غزل نظروں کو اور دل کی دنیا کو تصور کو تخیلات کو پرکیف اور سرور سا بخش دیتا ہے
جس پر پہلے مجهے عمدہ غزل داد کے لئے الفاظ نہیں جیسے احساس دیتے ہیں
کیا وجہ ہے میر تقی میر پهر درد کے سفیر کے لقب کے ساتهہ براجمان ہو

حقدار ہے نہیں ہے مگر تلفظ اور بحر کی بہت پیچیدگی کے باوجود ایسا ہے
صرف درد کے سفیر یہاں صرف ہم نے اسے ان کی الفاظ کی چناو جیسے لفظوں کی مفہوم میں درد جیسے ایک بہتر لہہ اور بحر کی وجہ سے دیا

درد تو سب کے لفظوں اور تحریر سے گونجتا ہے
ایسا کیوں ہے
 
جھمکے دکھا کے طُور کو جن نے جلا دیا
آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا

اس فتنے کو جگا کے پشیماں ہوئی نسیم
کیا کیا عزیز لوگوں کو ان نے سلا دیا

اب بھی دماغِ رفتہ ہمارا ہے عرش پر
گو آسماں نے خاک میں ہم کو ملا دیا

جانی نہ قدر اس گہرِ شب چراغ کی
دل ریزۂ خزف کی طرح میں اٹھا دیا

تقصیر جان دینے میں ہم نے کبھو نہ کی
جب تیغ وہ بلند ہوئی سر جھکا دیا

گرمی چراغ کی سی نہیں وہ مزاج میں
اب دل فسردگی سے ہوں جیسے بجھا دیا

وہ آگ ہورہا ہے خدا جانے غیر نے
میری طرف سے اس کے تئیں کیا لگا دیا

اتنا کہا تھا فرش تری رہ کے ہم ہوں کاش
سو تُو نے مار مار کے آ کر بچھا دیا

اب گھٹتے گھٹتے جان میں طاقت نہیں رہی
ٹک لگ چلی صبا کہ دیا سا بڑھا دیا

تنگی لگا ہے کرنے دم اپنا بھی ہر گھڑی
کڑھنے نے دل کے جی کو ہمارے کھپا دیا

کی چشم تونے باز کہ کھولا درِستم
کس مدعی خلق نے تجھ کو جگا دیا

کیا کیا زیان میرؔ نے کھینچے ہیں عشق میں
دل ہاتھ سے دیا ہے جدا سر جدا دیا

(میر تقی میرؔ)
بہت خوبصورت انتخاب ،غالباًشہرت کی نگاہ اِس شہ پارے پر نہیں پڑی تھی سوآپ نے یہ خوشگوارفریضہ ادا کردیا۔خد اآپ کو خوش رکھےاور روحِ میرؔ کو آسودہ کہ آزُردہ تو وہ دنیا میں بہت رہ چکی۔
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوبصورت انتخاب ،غالباًشہرت کی نگاہ اِس شہ پارے پر نہیں پڑی تھی سوآپ نے یہ خوشگوارفریضہ ادا کردیا۔خد اآپ کو خوش رکھےاور روحِ میرؔ کو آسودہ کہ آزُردہ تو وہ دنیا میں بہت رہ چکی۔

بہت عنایت شکیل صاحب۔ خوش رہیے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
میر تقی میر درد کے سفیر ہیں کہیں پر پڑها دیکها نظر سے گزرا کتنے احباب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اسے یہ لقب دیا جائے ایسے بہت سارے غزل نظروں کو اور دل کی دنیا کو تصور کو تخیلات کو پرکیف اور سرور سا بخش دیتا ہے
جس پر پہلے مجهے عمدہ غزل داد کے لئے الفاظ نہیں جیسے احساس دیتے ہیں
کیا وجہ ہے میر تقی میر پهر درد کے سفیر کے لقب کے ساتهہ براجمان ہو

حقدار ہے نہیں ہے مگر تلفظ اور بحر کی بہت پیچیدگی کے باوجود ایسا ہے
صرف درد کے سفیر یہاں صرف ہم نے اسے ان کی الفاظ کی چناو جیسے لفظوں کی مفہوم میں درد جیسے ایک بہتر لہہ اور بحر کی وجہ سے دیا

درد تو سب کے لفظوں اور تحریر سے گونجتا ہے
ایسا کیوں ہے

آپ کی تحریر کا مفہوم میرے سر کے اوپر سے گزر گیا :)
 

عرفان سعید

محفلین
محترم آپ بس آفریدی صاحب کی تحریر داد سمجھ کر قبول فرما لیں۔ زیادہ تجسس بسا اوقات صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا۔
مجھے تو لگ رہا ہے کہ محفل میں شاہد آفریدی کھیل رہا ہے۔
کسی بھی پچ پر بال جیسی بھی ہو، کوشش چھکا لگانے کی ہی کرنی ہے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
محترم آپ بس آفریدی صاحب کی تحریر داد سمجھ کر قبول فرما لیں۔ زیادہ تجسس بسا اوقات صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا۔

یہ ایک الگ معمہ سننے کو ملا قومی ترانہ حفیظ جالندھری نے نہیں ساغر صدیقی نے لکها تها

واہ جناب مان گئے آپ واقعی فلسفی ہیں اور کیا فلسفیانہ موشگافیاں کرتے ہیں۔ تو کیا سفیر آفریدی کی مندرجہ بالا بات کو بھی داد سمجھ کر قبول کر لیں؟ :p:)
 
آخری تدوین:
مسئلہ یہ ہے وہ حوالہ مستند باوثوق ذرائع کا ہوسکتا تها المیہ یہ ہے نیٹ پہ کہیں دیکها تها شاید ہسٹری آف ساغر صدیقی سرچ کرلیں اپکو ہوسکتا ہے ملے دکهہ ہوا جس کا احساس تها اسی کے نام ہونا چاہئے تھا فلسفی کب ہم جیسے دکهہ رکهتے ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
مسئلہ یہ ہے وہ حوالہ مستند باوثوق ذرائع کا ہوسکتا تها المیہ یہ ہے نیٹ پہ کہیں دیکها تها شاید ہسٹری آف ساغر صدیقی سرچ کرلیں اپکو ہوسکتا ہے ملے دکهہ ہوا جس کا احساس تها اسی کے نام ہونا چاہئے تھا فلسفی کب ہم جیسے دکهہ رکهتے ہیں

ہائے ظالم دنیا میں آپ کے غم میں برابر کا شریک ہوں :(
 

فلسفی

محفلین
واہ جناب مان گئے آپ واقعی فلسفی ہیں اور کیا فلسفیانہ موشگافیاں کرتے ہیں۔ تو کیا سفیر آفریدی کی مندرجہ بالا بات کو بھی داد سمجھ کر قبول کر لیں؟ :p:)
فلسفی کی ہر بات کو سنجیدہ بھی نہیں لینا چاہیے۔ کبھی کبھی میں بھی خود کو نظر انداز کردیتا ہوں۔
 
Top