جگنو شعورِ ذات کا مشعل سے کم نہیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس شہرِ شب زدہ میں کہ جنگل سے کم نہیں
جگنو شعورِ ذات کا مشعل سے کم نہیں

اک مختصر سا لمحۂ بے نور و بے یقین
تقویمِ شب میں ساعتِ فیصل سے کم نہیں

اک یاد ِ مشکبو تری زلفِ سیاہ کی
چشمِ شبِ فراق میں کاجل سے کم نہیں

دامانِ احتیاج میں دینارِ بے کسب
جوفِ شکم میں تیغ ِ مصقّل سے کم نہیں

حاصل ہے سخت کوشیٔ عمرِ خراب کا
اک خطۂ زمین جو دلدل سے کم نہیں

بنجر زمین ، دھوپ اوراک خالی آسمان!
سایہ کسی پرند کا بادل سے کم نہیں

سیالِ غم بھی ڈھونڈ کے تم نے پیا ظہیرؔ
تریاق جس کا زہر کی بوتل سے کم نہیں


(۲۰۱۴)



 
لاجواب اشعار
اس شہرِ شب زدہ میں کہ جنگل سے کم نہیں
جگنو شعورِ ذات کا مشعل سے کم نہیں

اک مختصر سا لمحۂ بے نور و بے یقین
تقویمِ شب میں ساعتِ فیصل سے کم نہیں

اک یاد ِ مشکبو تری زلفِ سیاہ کی
چشمِ شبِ فراق میں کاجل سے کم

بنجر زمین ، دھوپ اوراک خالی آسمان!
سایہ کسی پرند کا بادل سے کم نہیں

سیالِ غم بھی ڈھونڈ کے تم نے پیا ظہیرؔ
تریاق جس کا زہر کی بوتل سے کم نہیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سر یہ کسب سین کے فتحہ کے ساتھ بھی مستعمل ہے؟ ( صرف معلومات میں اضافے کے لیے :))
جی عبید بھائی ، اردو میں دونوں تلفظ بولے جاتے ہیں ۔ حوالے کے لئے نوراللغات دیکھ لیجئے ۔ عربی کےبہت سارے وہ سہ حرفی الفاظ کہ جن میں دوسرا حرف ساکن ہوتا ہے اب عملِ تارید سے گزر کر ’’فعو‘‘ کے وزن پر ہوگئے ہیں ۔ جیسے نفع ، وجہ ، طرح وغیرہ ۔ یہ ایک دلچسپ اور طویل بحث ہے ۔کبھی کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھئے اسے۔
امید ہے معلومات میں معمولی سا اضافہ ہوگیا ہوگا ۔ :):):)
 
جی عبید بھائی ، اردو میں دونوں تلفظ بولے جاتے ہیں ۔ حوالے کے لئے نوراللغات دیکھ لیجئے ۔ عربی کےبہت سارے وہ سہ حرفی الفاظ کہ جن میں دوسرا حرف ساکن ہوتا ہے اب عملِ تارید سے گزر کر ’’فعو‘‘ کے وزن پر ہوگئے ہیں ۔ جیسے نفع ، وجہ ، طرح وغیرہ ۔ یہ ایک دلچسپ اور طویل بحث ہے ۔کبھی کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھئے اسے۔
امید ہے معلومات میں معمولی سا اضافہ ہوگیا ہوگا ۔ :):):)
بہت بہت شکریہ :)
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم !
مجھے آپ کی حالیہ پیش کردہ غزلیات میں یہ غزل بطور خاص پسند آئی -

اس شہرِ شب زدہ میں کہ جنگل سے کم نہیں
جگنو شعورِ ذات کا مشعل سے کم نہیں

مطلع غضب کا ہے -ازبر ہوگیا - اچھے شعر کی ایک یہ بھی پہچان ہے کہ فوراً یاد ہوجاتا ہے -شہر' شب ' جنگل 'جگنو 'شعور 'مشعل -کیا ماحول ہے !

اک مختصر سا لمحۂ بے نور و بے یقین
تقویمِ شب میں ساعتِ فیصل سے کم نہیں

نہ جانے کس طرف اشارہ ہے ؟

اک یاد ِ مشکبو تری زلفِ سیاہ کی
چشمِ شبِ فراق میں کاجل سے کم نہیں

واہ !

دامانِ احتیاج میں دینارِ بے کسب
جوفِ شکم میں تیغ ِ مصقّل سے کم نہیں


میرے خیال سے کسب کو اس تلفّظ کے ساتھ کسی بڑے شاعر نے نہیں باندھا - اور لغت سے بڑھ کر سند کسی استاد کا شعر ہوتا ہے -فرہنگ آصفیہ میں بھی "کسب" کا تلفّظ بروزن "قتل" ہے نہ کہ بروزن "دوا "-اب تو سرچ انجن نے آسانی کر دی ہے تحقیق کے باب میں - "ریختہ" جا کر لفظ ٹائپ کیا اور انٹر کیا تمام کچا چٹھا حاضر -ایک نمونہ پیش خدمت ہے :

کی تلاش کا نتیجه | موضو - تمام, صفحہ 1بے کسب

باقی یہ عمل تارید کا کیا واقعہ ہوا -نیز کب اور کیسے ہوا ؟

مرحوم عنایت علی خان صاحب یاد آگئے -ایک قطعہ ان کا کیا خوب تھا :

miray sakool say lay jaaeN apnay bachchay ko
jo kaam bhi dooN 'usay khalt malt karta hay
isay to thiik si urdu talak nahiiN aatii
lafaz lafaz ka to tulfaz yeh ghalt karta hay

بہر حال آپ کی بات سے تو یہی لگتا ہے لفظ لفظ کا تلفظ غلط ہونے والا ہے -


حاصل ہے سخت کوشیٔ عمرِ خراب کا
اک خطۂ زمین جو دلدل سے کم نہیں

واہ -خوب

بنجر زمین ، دھوپ اوراک خالی آسمان!
سایہ کسی پرند کا بادل سے کم نہیں

اچھا ہے -

سیالِ غم بھی ڈھونڈ کے تم نے پیا ظہیرؔ
تریاق جس کا زہر کی بوتل سے کم نہیں

بہت خوب -
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لسلام علیکم !
مجھے آپ کی حالیہ پیش کردہ غزلیات میں یہ غزل بطور خاص پسند آئی -

وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ ۔ شاہ صاحب بہت شکریہ !! بہت ممنون ہوں پذیرائی کے لئے ! اللہ آپ کو سلامت رکھے ، شاد و آباد رکھے !

اک مختصر سا لمحۂ بے نور و بے یقین
تقویمِ شب میں ساعتِ فیصل سے کم نہیں

نہ جانے کس طرف اشارہ ہے ؟

یاس بھائی ، بخدا میں نے اس میں کسی (کی) طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ۔ اشارے کرنا تو ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۰ کے بعد سے ترک کرچکا ہوں ۔ :):):)

ان دو مصرعوں میں شب کی علامت کے حوالے سےایک حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے ۔ شب ہر ایک پر گزرتی ہے اور اس سے گزرنےوالا یقیناً صبح کی آرزو رکھتا ہے اور اس کے لئے جدوجہد بھی کرتا ہے ۔ اس جدو جہد کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے دل میں یقینِ صبح ایک لمحے کے لئے بھی متزلزل نہ ہو اور آفتابِ صبح ہمیشہ تصور میں روشن رہے ۔ اگر کبھی بے یقینی اور مایوسی کا ایک لمحہ بھی دل پر طاری ہوجائے تو وہ بے نور و بے یقین لمحہ تقویمِ شب میں ساعتِ فیصل ثابت ہوتا ہے یعنی شب کا مقدر طے کردیتاہے ۔ بس اتنی سی بات ہے ۔ مقصد یہ کہ ایک لمحے کے لئے بھی مایوسی اور نامیدی تمام جدوجہد کو ناکام کرسکتی ہے ۔
میری رائے میں اس شعر کی شعریت اور معنویت اس کے التزامِ رعایات میں ہے ۔ اگر آپ اب بھی اس تک نہ پہنچ پائیں تو حکم دیجئے گا میں دوبارہ حاضرِ خدمت ہوجاؤں گا ۔

میرے خیال سے کسب کو اس تلفّظ کے ساتھ کسی بڑے شاعر نے نہیں باندھا - اور لغت سے بڑھ کر سند کسی استاد کا شعر ہوتا ہے -فرہنگ آصفیہ میں بھی "کسب" کا تلفّظ بروزن "قتل" ہے نہ کہ بروزن "دوا "-اب تو سرچ انجن نے آسانی کر دی ہے تحقیق کے باب میں - "ریختہ" جا کر لفظ ٹائپ کیا اور انٹر کیا تمام کچا چٹھا حاضر -ایک نمونہ پیش خدمت ہے :
کی تلاش کا نتیجه | موضو - تمام, صفحہ 1بے کسب
باقی یہ عمل تارید کا کیا واقعہ ہوا -نیز کب اور کیسے ہوا ؟

جیسا کہ عبید بھائی کے نام مراسلے میں بھی اوپر عرض کیا کہ یہ ایک طویل بحث ہے (اور میرے پسندیدہ موضوعات میں سے بھی ہے)۔ بدقسمتی سےاس وقت نہ تو اتنا وقت میسر ہے کہ اس بحث کو شروع کیا جائے اور نہ ہی اتنی ہمت کہ اس کو سمیٹا جاسکے ۔ یہ بحث اردو لسانیات کے اہم ترین اور قدیم ترین مباحث میں سے ایک ہے ۔ میرا ایک مشورہ آپ کے لئے یہ ہے کہ اگر آپ نے ڈاکٹر عصمت جاوید کی کتاب " اردو پر فارسی کے لسانی اثرات " نہیں پڑھی ہے تو پہلی فرصت میں دیکھ لیجئے ۔ مجھے امید ہے کہ ایک دفعہ شروع کرنے کے بعد آپ ختم کئے بغیر نہیں رکھیں گے ۔ یہ دراصل ڈاکٹر صاحب کا پی ایچ ڈی مقالہ ہے جو انہوں نے ۱۹۷۳ میں اورنگ آباد یونیورسٹی میں پیش کیا تھا ۔ اس موضوع پر اس سے بہتر اور جامع تر کتاب کا تصور محال ہے ۔ (میرے پاس پی ڈی ایف کی شکل میں موجود ہے اگر نیٹ پر نہ مل سکے تو میں ان شاءاللہ ایمیل سے بھیج دوں گا ۔ ) مختصراً یہ عرض کرتا ہوں کہ عملِ تارید ( یعنی غیر اردو الفاظ کا اردو میں ڈھل جانا) تو ایک فطری عمل ہے اور نسلوں پر محیط ہوتا ہے ۔ کسی ایک مخصوص عربی یا فارسی لفظ کے بارے میں یہ بتانا کہ اس کا تلفظ یا معنی کب تبدیل ہوئے تو بہت مشکل ہے ۔ بس یہ جاننا کافی ہے کہ یہ ایک مسلسل اور سست عمل ہے جو فطری طور پر واقع ہوا ۔ فرہنگِ آصفیہ اردو کی اولین لغات میں سے ایک ہے اور اس کا عرصۂ تالیف ۱۸۶۸ سے لیکر ۱۸۹۸ تک کا ہے ۔ جبکہ نوراللغات پہلی دفعہ ۱۹۱۷ میں طبع ہوئی ۔

اردو میں عربی الفاظ یا تو براہِ راست عربی سے داخل ہوئے یا پھر براستہ فارسی ۔ ان عربی الفاظ میں تغیر کی کئی صورتیں ہیں ۔ ایک تو یہ کہ لفظ جوں کا توں رہا ۔ نہ معنوں میں تغیر ہوا نہ تلفظ میں ۔ دوسری صورت یہ رہی کہ معنی تبدیل ہوگئے ۔ اس کی بے شمار مثالیں ہم سب جانتے ہیں ۔ تیسری صورت تصرف کی یہ ہوئی کہ تلفظ تبدیل ہوگیا ۔ یہ آخری صورت عربی کے ساکن الاوسط سہ حرفی الفاظ کے ساتھ بالخصوص پیش آئی ۔ چونکہ اردو کا خمیر اور مزاج اصلاً بھاشا اور سنسکرت کا ہے اسلئے اکثر ساکن الاوسط الفاظ متحرک الاوسط بولے گئے ۔ عام بول چال میں تو ایسے الفاظ ہزاروں ہیں لیکن ان میں سے محض گنے چنے الفاظ ہی علمی و ادبی حلقوں میں قبولیت پاسکے ۔ ان کی چند مثالیں یہ ہیں : کسب ، جرح ، حلف، حمل ، صفر، غبن ، نفل ، لحد وغیرہ وغیرہ ۔ یہ مذکورہ الفاظ دونوں تلفظات کے ساتھ اردو میں ملتے ہیں ۔ اس بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ جہاں جہاں یہ رعایت ملتی ہے اسے لے لیا جائے ۔ میں نے اپنے اشعار میں کسب کو ساکن الاوسط بھی باندھا ہے : مثلا

مشغلہ کسبِ ہنر پہلے کبھی ہوتا تھا
بیچنا علم و ہنر اب ہے ذریعہ اپنا

کسبِ ہنر و اکلِ ضرورت کے سلسلے
طے ہوچکے سبھی ہمیں آنے دو اپنے پاس

اس کا یہ مطلب قطعی نہ لیاجائے کہ جن الفاظ کو اس دوہرے تلفظ کی سند میسر نہیں ان سب کو متحرک الاوسط بنادیا جائے۔ فی الحال جہاں جہاں اجازت ہے اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کسی بڑے شاعر نے کسب کا یہ تلفظ استعمال نہیں کیا تو اس سلسلے میں مجھے بارش کا پہلا قطرہ سمجھ لیجئے ۔ آج مجھ جیسے کسی مبتدی نے استعمال کیا ہے تو عین ممکن ہے کل کلاں کوئی بڑا شاعر بھی اسے استعمال کرلے ۔ عوامی تلفظ اور ادبی تلفظ میں امتیاز کی یہ بحث گرچہ ڈیڑھ صدی پر محیط ہے اورتاریدکے اس عمل کوبڑے بڑے علماء اور ادباء کی حمایت بھی حاصل رہی ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے ڈاکٹر عصمت جاوید کی محولہ بالا کتاب) لیکن عموماً یہ زبانی تائید عملی تائید کی شکل اختیار نہ کرسکی ۔ یعنی یہ عمائدین اصولی طور پر تو قائل ہوگئے اوراس موقف کی پرزور وکالت بھی کرتے رہے لیکن چند ایک کے علاوہ انہوں نے خود اپنی تحریروں میں ان الفاظ کو استعمال نہین کیا۔ بدقسمتی سے یہ روش اب بھی جاری ہے ۔ فارسی اضافت اور واؤ عطف بھی اس دورخی رویے کی مثالیں ہیں ۔ بہت سارے ماہرینِ زبان اور ماہرینِ لسانیات قائل ہیں کہ واؤ عطف کے ذریعے ہندی الاصل لفظ کو فارسی عربی لفظ سے جوڑنا اور فارسی ترکیبِ اضافی میں استعمال کرنا معیوب نہیں بشرطیکہ صوتی طور پر گراں نہ ہو ( یعنی وہ ہندی لفظ ٹ، ڈ، ڑ ، ٹھ، ڈھ، ڑھ، گھ ، چھ وغیرہ کی صوتی ثقالت سے مبرا ہونا چاہئے )۔ ویسے تو بہت سارے لوگ اس اصول کی وکالت کرتے ہیں لیکن انہیں اپنی تحریروں میں استعمال کم کم لوگ ہی کرتے ہیں ۔ (شان الحق حقی ان چند استعمال کرنے والوں میں سے ایک بڑا نام ہیں )۔ اس خاکسار کا ایک شعر دیکھئے:

دل کے ٹوٹے آئنے میں عکس ہے اک خواب کا
قیدِ رنگ و روپ سے اُس کو رہا کیسے کروں

کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ اردو نہیں ہے؟ مختصراً یہ کہ زبان زندہ اور جیتی جاگتی شے ہے ۔ اس میں تغیر لازمی ہے ۔ اور یہ تغیر فطری اور بہت ہی سست رفتار ہوتا ہے ۔ (تغیر اس پر تھوپا نہیں جاسکتا ) ۔ زبانوں کی زندگی میں صدیاں ہفتوں اور مہینوں کی طرح ہوتی ہیں ۔ سو ہمار ا جو کام ہے ہم کئے جائیں گے ۔ جو کام وقت کا ہو وہ وقت کئے جائے گا ۔ نتیجہ کس نے دیکھا ہے ۔
شاہ صاحب ، اگر اس ضمن میں میر ی طرف سے مزید کوئی تحریر نہ آئے تو پیشگی معذرت ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا اس پر باتیں تو بہت ہوچکیں ۔ اب عمل کا وقت ہے ۔ :)
:):)
 
نہیں تابش بھائی، میری معلومات کے مطابق اخذ کا ایک ہی تلفظ رائج ہے اور وہ خ ساکن کے ساتھ ۔
درست۔
دراصل عربی میں اخَذ ہے، تو اس لیے پوچھا کہ ہر ایسا لفظ جو اردو میں شامل ہو گیا ہے، وہ اصل تلفظ کے ساتھ برتا جا سکتا ہے یا نہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
درست۔
دراصل عربی میں اخَذ ہے، تو اس لیے پوچھا کہ ہر ایسا لفظ جو اردو میں شامل ہو گیا ہے، وہ اصل تلفظ کے ساتھ برتا جا سکتا ہے یا نہیں۔

ان عربی الفاظ میں تغیر کی کئی صورتیں ہیں ۔ایک تو یہ کہ لفظ جوں کا توں رہا ۔ نہ معنوں میں تغیر ہوا نہ تلفظ میں ۔ دوسری صورت یہ رہی کہ معنی تبدیل ہوگئے ۔ اس کی بے شمار مثالیں ہم سب جانتے ہیں ۔ تیسری صورت تصرف کی یہ ہوئی کہ تلفظ تبدیل ہوگیا ۔ یہ آخری صورت عربی کے ساکن الاوسط سہ حرفی الفاظ کے ساتھ بالخصوص پیش آئی ۔
تابش بھائی چند ایسے الفاظ بھی ہیں کہ جو عربی میں متحرک الاوسط تھے لیکن اردو مین آکر ساکن الاوسط ہوگئے ۔ مجھے اس وقت جو مثال یاد آرہی ہے وہ لفظ ’’ غرق ‘‘ کی ہے ۔ اردو میں ساکن رے کے ساتھ مستعمل ہے سو اسی طرح برتا جائے گا ۔ اخذ بھی صرف خ ساکن کے ساتھ ہی مستعمل ہے سو اسی طرح برتا جائے گا ۔ اگر اردو مین دونوں تلفط مستعمل ہوتے تو دونوں طرح استعمال کرنا جائز ہوتا ۔ گویا اعتبار اب اہلِ اردو کا ہے کہ انہوں نے کسی لفظ کو کس طرح برتا ۔ جب ایک لفظ عربی یا فارسی سے آکر اردو میں مستعمل ہوگیا تو اس پر عربی یا فارسی کے قواعد لاگو نہیں ہونگے ۔ اس پر اردو کے قواعد لگیں گے۔ اس اصول پر سب ماہرینِ لسانیات متفق ہیں ۔
 
درست۔
دراصل عربی میں اخَذ ہے، تو اس لیے پوچھا کہ ہر ایسا لفظ جو اردو میں شامل ہو گیا ہے، وہ اصل تلفظ کے ساتھ برتا جا سکتا ہے یا نہیں۔
نہیں تابش بھائی۔ عربی میں خاء ساکن ہی ہے۔ آپ نے متحرک کہاں دیکھا؟ متحرک الاوسط تو صرف اس کی ماضی ہے، جبکہ یہ مصدر ہے۔
قرآن کریم میں ہے: أخْذا وبيلا (مزمل:١٦) كذلك أخْذ ربك (هود: ١٠٢) أخْذ عزيز (قمر: ٤٢)
 
نہیں تابش بھائی۔ عربی میں خاء ساکن ہی ہے۔ آپ نے متحرک کہاں دیکھا؟ متحرک الاوسط تو صرف اس کی ماضی ہے، جبکہ یہ مصدر ہے۔
قرآن کریم میں ہے: أخْذا وبيلا (مزمل:١٦) كذلك أخْذ ربك (هود: ١٠٢) أخْذ عزيز (قمر: ٤٢)
تصحیح کا شکریہ۔ :)
 
Top