شفیق خلش جُدا زمانے سے ایجاد کیوں نہیں کرتے

طارق شاہ

محفلین
غزل
جُدا زمانے سے ایجاد کیوں نہیں کرتے
سُخن گو اب نیا اِرشاد کیوں نہیں کرتے

خیال آئے ہمیں یاد کیوں نہیں کرتے
بَہَم کرَم وہ پری زاد کیوں نہیں کرتے

تَشفّی دِل کی میسّر کہاں ہے ظالم کو !
یہ اِضطراب، کہ فریاد کیوں نہیں کرتے

ہزاروں وسوَسے خود میں ہو یہ سوال لیے
ہم اُن سے شکوۂ بیداد کیوں نہیں کرتے

نہیں ہے دِین دَھرم میں جو پَست و بالاکوئی
تو پیش میرے وہ پرساد کیوں نہیں کرتے

بہت رُلائے، رعُونت سے جب کہے وہ ہمیں
دُعائے بد تِرے بر باد کیوں نہیں کرتے

ذرا نہ بَین تعلّق میں فرق ہے، تو خلشؔ !
عمل اب اُن کو وہی شاد کیوں نہیں کرتے

شفیق خلشؔ
۱۵ جون، ۲۰۲۴
ایشوِل، نارتھ کیرولائنا
 
Top