جو گھر میں پھیلے تو اس کا حصار رکتا نہیں - غزل اصلاح کے لئے

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے :
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعِلن
بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف
اساتذہء کِرام بالخصوص
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
محترم جناب الف عین صاحب
اور احباب محفل سے توجہ اور اصلاح کی درخواست ہے۔
--------------------------------------
جو گھر میں پھیلے تو اس کا حصار رکتا نہیں
یہ نفرتوں میں چھپا انتشار رکتا نہیں

بے اعتباری کی کھائی سے بچ کے رہنا تم
نشیب گہرا ہے اس کا، اتار رکتا نہیں

گزر رہا ہے زیاں کا جو قافلہ دل سے
اُسی کی وجہہ سے غم کا غبار رکتا نہیں

میں سایا دار شجر ہوں، مجھے کہاں جانا ؟
تُو اتّفاق ہے اور بار بار رکتا نہیں

دعا جو ایک ملی بھی، قرارِ دل کی ملی
کہوں جو دل کی تو، دل میں قرار رکتا نہیں

یہ مصلحت کا زہر روز پینا پڑتا ہے
بڑھا ہی جاتا ہے دل کا فشار رکتا نہیں

حسین رخ کا، جوانی کا یا ہو دولت کا
نئے زمانے میں یہ اشتہار رکتا نہیں

ہمارا گھر ہو یا پھر سنگِ آستاں تیرا
وہ منزلیں ہیں جہاں، غم گسار رکتا نہیں

وفا کی راہ میں گھائل ہزار ہو کاشف
چلے ہی چلتا ہے وہ زار زار، رکتا نہیں
---------------------
شکریہ
 
گستاخی معاف، ایک تلخ بات کہنے والا ہوں ۔۔ آپ کے انداز و اسالیب میں ایک عرصے کی گفتگو سے بھی کوئی قابلِ توجہ تبدیلی نہیں آئی۔ ایک شخص بار بار ایک بات کی نشان دہی کرے اور اس کا واضح اثر آپ کی (بعد میں آنے والی) کاوش میں نہ پائے تو اسے زیاں کاری کا احساس ہوتا ہے۔

الفاظ جتنے بھی شان دار اور قیمتی ہوں؛ کچی مٹی کی اینٹیں بھی ترتیب سے لگ جائیں تو دیوار بن جاتی ہے۔ اینٹیں سونے کی بھی ہوں، ان کے ڈھیر کو دیوار نہیں کہہ سکتے۔ اور یہ بھی کہ عروضی اوزان کو پورا کر لینا کافی نہیں، شعر کو شعر ہونا چاہئے۔ جیسے دیوار میں چنی ہوئی اینٹیں اپنے دائیں بائیں اوپر نیچے اور ساتھ کی اینٹوں کے ساتھ ایک مطلوبہ ترتیب میں مضبوطی سے جڑی ہوتی ہیں، الفاظ کو بہر لحاظ ویسے جڑا ہونا چاہئے۔ روزمرہ، محاورہ، تلفظ، ہجے، ترکیب، ضرب المثل، کہاوت؛ یہ تو مستقل عناصر ہیں۔ صرفی اور نحوی ترتیب اور اس میں شعری ضرورت کے مطابق موزوں حد تک رد و بدل؛ ہر چیز آپ کی توجہ چاہتی ہے۔ الفاظ کے معانی وہ نہیں ہوتے جو آپ کے ذہن میں ہیں، الفاظ کے معانی وہ ہوتے ہیں جن کو عام قاری اور سامع جانتا ہے۔ معانی سے اوپر اٹھ کر بھی تبھی بات کی جا سکتی ہے جب معانی کی عمومیت کو اہمیت دی جائے گی۔ نہیں تو پھر "معانی در بطنِ شاعر"؟ قاری یا سامع تو گیا سمجھئے۔

بارِ دگر گستاخی کی معافی چاہتا ہوں۔ اب مجھے خاموش رہنے کی اجازت دیجئے، بہت نوازش!
 
استاد محترم اپنی کم علمی ، مشاہدے کی کمی اور زبان و بیان کی تنگی سے مجبور ہوں۔
آئندہ آپ کو بار خاطر نہیں دو نگا۔
مجھ گستاخ کو درگزر فرمائیے ۔
جزاک اللہ۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلے تو زمین پر ہی غور کریں۔ قوافی اور ردیف میں ’ر‘ کی تکرار اچھی نہیں لگتی۔ یہ عیب تنافر ہے۔
 
جی استاد محترم۔ میں نے غزل کے پہلا شعر لکھتے وقت ہی یہ دیکھ لیا تھا۔ لیکن مجھے مصرعوں کی روانی میں کوئی خاص سقم یا کمی محسوس نہیں ہوئی۔
اگر یہ کمی واقعی قابل قبول نہیں تو پھر اس غزل کو ترک کر دیتا ہوں۔
جزاک اللہ عبید سر۔
نوازش۔
 
Top