جواب آئے نہ آئے سوال اٹھا تو سہی

الف نظامی

لائبریرین
یعنی کیا وقت گزرنے کے ساتھ انسان پہ اس چیز کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے جو اس سے چھوٹ چکی ہوتی ہے یا نہیں؟
آے آئی ماڈل کی ایکوریسی ڈیٹا کی مقدار بڑھنے پر بڑھ جاتی ہے۔ اسی پر انسانی دماغ کو قیاس کر لیجیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشاہدات و معاملات سے حاصل شدہ تجربہ انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے۔
لیکن اگر انسان خود تجربہ کر کے سیکھنے کے بجائے کسی ایکسپرٹ کی رائے کو تسلیم کر لے تو اس کے لیے سفر آسان ہو جاتا ہے۔
 
زیادہ تر لوگ بڑھاپے کی تنہائی سے بیزار ہوتے ہیں
انسان اس دنیا میں خالی ہاتھآیا تھا اور اس کے ساتھ کچھ چیزیں جڑی تھیں جن کا انتخاب اس نے نہیں کیا۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بوڑھا ہونے تک وہ بہت سی نعمتوں اور بہت حد تک اپنی متعین کردہ سمت میں کامیابیوں سے نوازا جاتا ہے۔ یعنی بہت سے رشتے، احباب،پیسے/سہولیات، معاشرتی مقام، یادیں عموما اس کے پاس پہلے سے زیادہ ہوتی ہیں۔ پھر ایسا کیوں سمجھا جاتا ہے کہ بڑھاپے کی تنہائی ایک خاص شے ہے۔ کیا یہ صحت کی خرابی کے باعث ایک محتاجی کی صورت میں محسوس ہوتی ہے یا یہ ذہنی و روحانی تنہائی ہے جو بچپن اور جوانی سے بھی بڑھ کر حملہ آور ہوا کرتی ہے؟
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
کیا ویلیوز کا تعلق کنڈیشننگ سے ہوتا ہے یا ہمارے اندر پڑا ہوا بیج ہماری ویلیوز کوفطرتا الگ الگ پروان چڑھاتا ہے؟
قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلًا 17:84
اے نبیؐ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ "ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے، اب یہ تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ سیدھی راہ پر کون ہے"

مختلف تفاسیر سے شاکلہ کے معنی معلوم کیجیے یا کسی عالم دین سے پوچھیے۔
 
ان حالات میں ہر انسان مختلف رویہ اپناتا ہے جس سے اس کا مقام متعین ہوتا ہے۔ کوئی شکوہ شکایت ، جزع فزع کرتا ہے اور کوئی صبر و تسلیم و رضا سے کام لیتا ہے۔
کن حالات میں کوئی شخص کیسا رویہ اپناتا ہے یہ کس حد تک اس کے اختیار میں ہے یا یہ سب مکتوب ہے؟
 
جہاں علم کو "لامحدود" کہا جاتا ہے، اس کی نسبت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف ہوتی ہے۔
کیا علم ایک ہی لامحدود خزانہ نہیں جس میں سے کچھ آدم کو سکھایا گیا اور کچھ آدم کی اولاد کو عطا ہوتا ہے؟ کیا اس خزانے میں سے اپنا حصہ لینا کوشش سے ممکن ہے یا یہ توفیق بھی پہلے طے ہوچکی ہے؟
 

سیما علی

لائبریرین
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا حقیقت وہ ہے جس تک حواس خمسہ سے پہنچا نہیں جا سکتا یا حقیقیت وہ ہے جو حواس خمسہ سے درجہ بدرجہ مدرک ہو پائے؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُز وَهُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ ج وَهُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُo
الأنعام، 6: 103
نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اور وہ بڑا باریک بین بڑا باخبرہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کیا علم ایک ہی لامحدود خزانہ نہیں جس میں سے کچھ آدم کو سکھایا گیا اور کچھ آدم کی اولاد کو عطا ہوتا ہے؟ کیا اس خزانے میں سے اپنا حصہ لینا کوشش سے ممکن ہے یا یہ توفیق بھی پہلے طے ہوچکی ہے؟
آدم علیہ السلام کو جو علم دیا گیا کیا وہ اکتسابی (عقلی کاوش سے حاصل کردہ) تھا یا وہبی (عطا کردہ)؟

اکتسابی علم تو انسان حاصل کر رہا ہے عقلی کاوشوں سے۔

وہبی علم اللہ تعالی نے اپنی منشا سے آدم علیہ السلام کو عطا فرمایا۔
 
آخری تدوین:
پاکستان میں مجموعی طور پر افرا د کی متوقع عمر اٹھاون سال ہے۔اس کا مطلب ہے کہ عمر کے حساب سے تو پاکستان میں بڑھاپا آنے سے پہلے ہی لوگ مر جاتے ہیں۔
کیا ایسا نہیں کہ ہم میں سے بہت سوں کو بچپن سے ہی بڑا بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ذمہ داری اور دانش مندی کے تقاضے پورے کرنے کی امید رکھی جاتی ہے، یعنی تقریبا ہر عمر میں ایسا کہنے والے بہت ہیں کہ آپ بڑے ہوگئے ہو کچھ عقل کا دامن تھام کے رکھو مگر جب ہم مرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ چھوٹی سی عمر میں مر گئے۔ یہ کون سی چیز تعین کرتی ہے کہ جینے کے لیے تقریبا ہر عمر بڑی ہے اور مرنے کیلیے تقریبا ہر عمر چھوٹی؟
 
اگر یہ سوال حقیقت کائنات کے متعلق ہے تو اُس کی حقیقت معلوم کرنے کا دائرہ انسان کی تجزیاتی و کمپوٹیشن و تجرباتی لمٹ تک محدود ہے۔

اگر یہ سوال خالق کائنات کے متعلق ہے تو ذات باری تعالی کی حقیقت کے بارے میں جستجو سے منع کیا گیا ہے ،
کیا حقیقت اس کو کہتے ہیں جو سچ بدلتا نہیں؟ کائنات میں تو (شاید) کئی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں؟
 
نہیں ہم نے تو کہیں قدغن نہیں لگائی آپ جو دل چاہے کیجیے
آپ کی زندگی ، آپ کی چوائسز۔ جو دل آئے کیجیے۔
:)
استاد محترم ہم ہر جواب کے بدلے سوال تو کر سکتے ہیں نا؟ہم آپ سب سے نہایت ادب سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں اور امید ہے کہ قارئین کو بھی کچھ نہ کچھ حاصل ہوگا۔:)
 
اگر دنیا میں سب انسانوں کے فہم کا درجہ یکساں ہوتا تو کوئی اختلاف نہ ہوتا۔ عالم کے علم کی زکوۃ یہی ہے کہ وہ کم علم کو برداشت کرے۔
کم علم کو اپنے حواس پر سوار کیے بغیر برداشت کیسے کیا جا سکتا ہے جب کہ آپ کسی حد تک محکوم ہوں؟
 
سٹیفن ہاکنگ اپنی کتاب دی یونیورس ان نٹ شیل اردو ترجمہ از یاسر جواد ، ناشر مقتدرہ قومی زبان ،صفحہ 107 میں لکھتا ہے:
ہم یہ فرض بھی نہیں کر سکتے کہ پاریٹیکل ایک پوزیشن اور ولاسٹی رکھتا ہے جو خدا کو معلوم ہیں ، لیکن ہم سے مخفی ہیں۔
اس قسم کی مخفی ویری ایبلز والی تھیوریز ایسے نتائج کی پیش گوئی کرتی ہیں جو مشاہدے کے ساتھ متفق نہیں۔ حتی کہ خدا بھی اصولِ لاقطعیت (Uncertainty principle)کے باعث بندھا ہوا ہے اور پوزیشن اور ولاسٹی نہیں جان سکتا ، وہ صرف ویو فنکشن ہی جان سکتا ہے۔

---
تبصرہ: ہم کہتے تھے کہ انسان کی تجزیاتی ، تجرباتی اور کمپوٹیشنل صلاحیتوں کی حد ہے اور سٹیفن ہاکنگ صاحب نے تو نعوذ باللہ خدا کو بھی محدود کر دیا۔
ایسا نہیں کہ بند گھڑی بھی دن میں دو بار درست ٹائم بجاتی ہے؟ ہمیں جن شخصیات سے بہت سارے فرنٹس پر اختلاف ہوتا ہے پھر بھی ان میں کچھ نہ کچھ ایسی بات ضرور ہوتی ہے جو درست ہو اور سیکھی جا سکے؟پڑھے لکھے کافر قیدیوں کو غالبا مسلمانوں کو تعلیم دینے کی ہدایت عہد نبوی میں ہوئی تھی؟
 

الف نظامی

لائبریرین
استاد محترم ہم ہر جواب کے بدلے سوال تو کر سکتے ہیں نا؟ہم آپ سب سے نہایت ادب سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں اور امید ہے کہ قارئین کو بھی کچھ نہ کچھ حاصل ہوگا۔:)
حسن ظن کا شکریہ لیکن حقیقت میں اس قابل نہیں ہوں کہ استاد کہلا سکوں۔

کم علم کو اپنے حواس پر سوار کیے بغیر برداشت کیسے کیا جا سکتا ہے جب کہ آپ کسی حد تک محکوم ہوں؟
یہ بات ایک کم علم کیسے بتا سکتا ہے۔ شاید وسیع الظرف لوگوں کے ساتھ رہ کر سیکھا جا سکے۔
 
پہلا سوال ہے کہ واقعی تغیر کو ثبات ہے یا سب کچھ بدل بھی جائے تو کہیں نہ کہیں اوورآل مومینٹم کونزروڈ رہتا ہے؟
(آسان زبان میں: کیا سب کچھ بدلنا ایک ٹھوس حقیقت ہے یا اس سے بڑی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ بدلنے سے بھی zoom out کر کے دیکھو تو وہی تصویر ہے؟)
اور مابعد الطبیعاتی امور میں ایمان بالغیب یعنی ماننے کے لیے جاننا ضروری نہیں۔ جاننے کے لیے ماننا ضروری ہے۔
جیسے یہ میرا پہلا سوال تھااور (شاید) طبیعاتی بھی نہیں تھا کیا اس میں بھی تھوٹ پروسیس یا تجربات و مشاہدات سے سیکھنے کی ضرورت نہیں؟اس کے جواب کو کیسے مانوں یا جانوں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
جیسے یہ میرا پہلا سوال تھااور (شاید) طبیعاتی بھی نہیں تھا کیا اس میں بھی تھوٹ پروسیس یا تجربات و مشاہدات سے سیکھنے کی ضرورت نہیں؟اس کے جواب کو کیسے مانوں یا جانوں؟
مجھے معلوم نہیں۔ شاید کوئی اور اس کا جواب دے سکے۔
 
آے آئی ماڈل کی ایکوریسی ڈیٹا کی مقدار بڑھنے پر بڑھ جاتی ہے۔ اسی پر انسانی دماغ کو قیاس کر لیجیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشاہدات و معاملات سے حاصل شدہ تجربہ انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے۔
لیکن انسان جو چیز زندگی میں حاصل نہیں کر پاتا کیا اس کی اہمیت بڑھاپے میں بڑھ جاتی ہے؟
 
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُز وَهُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ ج وَهُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُo
الأنعام، 6: 103
نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اور وہ بڑا باریک بین بڑا باخبرہے۔
یہ آیت اللہ تعالی کے بارے میں معلوم ہوتی ہے۔ تو کیا حقیقت اللہ تعالی ہی ہیں اور ہم سب ایک perception ہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
آخری تدوین:
Top