مولانا غلام رسول مہر
جنگ آزادی کے اسباب
تھیوفلس مٹکاف
تھیوفلس مٹکاف نے بھی میرزان معین الدین حسن خاں اور منشی جیون لال کے روزنامچوں کا انگریزی ترجمہ شائع کرتے وقت جنگ آزادی کے اسباب پر بحث کی تھی۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے :
۱۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک خاص طبقے کی سازش تھی، جسے غیر دانشمند طریق پر نافرما نی کے لیے مجبور کر دیا گیا۔
۲۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ ایک قومی تحریک تھی ،جس کا مدعایہ تھا کہ ملک کو اجنبیوں کے تسلّط سے آزاد کرایا جائے اور اس کی جگہ اسلامی حکومت قائم کی جائے ۔
۳۔ بعض کا خیال ہے کہ لارڈ ڈلہوزی کی پالیسی اس کا حقیقی سبب تھی، یعنی الحاق کی پالیسی جس میں اودھ کا الحاق بھی شامل تھا۔
۴۔ کیئی نے آوٹرم کا بیان درج کیا ہے ، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے الحاق اودھ سے بہت پہلے بغاوت کی تحریک جاری کر دی تھی۔
۵۔ بعض مصنفین نے یہ خیال پیدا کر دیا ہے کہ سپاہ کو قدیم حکمران خاندانوں کے کارندوں نے گمراہ کر دیا تھا۔
۶۔ ایک مصنف کا خیال ہے کہ بغاوت در بار ایران کے یک شاہی فرمان سے پیدا شدہ مذہبی جوش کی بناء پر شروع ہوئی۔
۷۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ خالص اسلامی تحریک تھی، بعض کے نزدیک ہندو اور مسلمان دونوں اس میں یکساں شامل تھے ۔
ان میں سے بعض اسباب یقینا درست ہیں اور بعض بالکل بے سروپا ہیں ۔ مثلاً اسے خالص اسلامی تحریک قراردینا ، اس لیے کہ اس کے کار فرماؤں اور کارکنوں میں ہندو اور مسلمان دونوں کی شرکت کسی ثبوت کی محتاج نہیں ۔
ضروری نکتہ
اسباب پر غور وفکر سے پیشتر یہ جان لینا ضروری ہے کہ ان کے درجات دمراتب ہوتے ہیں ۔ بعض اسباب کی حیثیت بنیادی اور اساسی ہوتی ہے اور بعض کی اض۔افی و تائیدی ۔ پھر آخری ۔ قسم کے اسباب میں بھی بعض ایسے ہوتے ہیں ، جن سے بنیادی اسباب کو تقویت پہنچتی ہے اور ان کی شدّت و وسعت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ بعض فوری اشتعال اور ناگہانی برہمنی کا باعث بن جاتے ہیں او ر ان کی وجہ سے ہنگامہ شروع ہوجاتا ہے ۔
ہمارا فرض ہے کہ تمام اسباب کو ان کے اصل مقام پر رکھ کر غور کریں ۔ اسی طرح حقیقت حالی واشگاف اور برہنہ صورت میں ہمارے سامنے آئے گی اور ہم صحیح واضح اور روشن نتیجے تک پہنچ سکیں گے ۔
حقیقت حال
جنگِ آزادی کا بنیادی اور اساسی سبب ایک اور صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ انگریزی حکومت اجنبیوں کی حکومت تھی۔ ابتداء میں انھیں مختلف دیسی حکمرانوں کے کارندے ، ایجنٹ اور مختار سمجھ کر قبول کیا گیا۔ جب معلوم ہوا کہ انھوں نے حراّفی اور عیاری سے سب کچھ سنبھال لیا تو ان کے خلاف ہمہ گیر نفرت کی لہر دوڑ گئی کوئی بھی غیرت مند محبِ وطن اجنبی تسلط کو بہ طیبِ خاطر برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ میر جعفر یا اس جیسے دوسرے آدمیوں کو قابلِ توجہ نہیں سمجھاجاسکتا ۔
آپ سرسیّد کے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ قوم نے غیروں کی حکومت اٹھادینے کے لیے اقدام کیا تھیوفلس مٹکاف کی تعبیر کے مطابق سمجھ سکتے ہیں ’’ یہ ایک قومی تحریک تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ ملک کو غیروں کے تسلط سے نجات دلائی جائے ۔‘‘
باقی رہے دوسرے اسباب جن کا ذکر سرسید نے کیا ہے یاجن کا ذکر ۱۸۵۷ء کے متعلق عام کتابوں میں ملتا ہے تو وہ سب اصل بنیادی سبب کے لیے تقویت و استحکام کے باعث بنے ۔ مثلاً اہلِ وطن کی عادت کے خلاف قاعدے اور ضابطے جاری کرنا، ان کے حالات سے بے خبر رہنا ضروری امور سے بے پروائی اختیار کرنا، عیسائیت کی تبلیغ کے لیے حکام کا سرگرمی دکھانا یا مختلف ریاستوں اور علاقوں کے الحاق پر مُصر ہونایا اس قسم کے دوسرے امورظاہر ہے کہ یہ سب باتیں انگریزوں کے اجنبی اور بیگانہ ہونے کی قاطع اور دل خراش دلیلیں تھیں ، جن کے باعث اجنبیت زیادہ سے زیادہ نا قابلِ برداشت بنی۔ چربی والے کارتوسوں سے فوری اشتعال پیدا ہوا اور ملک کے طول وعرض میں آگ لگ گئی۔
اب ہم بنیادی سبب پر نہیں بلکہ تائیدی و اضافی اسباب میں سے بعض یراجمالاً گفتگو کریں گے ۔
ویلزلی اور ڈلہوزی
۱۸۵۷ء سے پیشتر دو گورنر جنرل ایسے آئے ، جنھیں جوش غصب والحاق میں خاص شہرت حاصل ہے : ایک ویلزلی اور دوسرا ڈلہوزی ویلزلی کے عہد میں بھی انگریزی حکومت بہت پھیلی اور متعدد علاقے انگریزوں کے قبضے میں آئے ، نیزان کے تسلط کا دائرہ وسیع ہوتے ہوتے دہلی اور آگرہ تک پہنچ گیا۔ لیکن یہ تصرفات اس وجہ سے ہمہ گیر ناراضی پیدا کرنے کے موجب نہ بنے کہ اوّل ویلزلی کا طریقہ ذرا محتاط تھا۔ مثلاً اُس نے میسور کی سلطنت ختم کی ، تاہم اُس کی تقسیم کے وقت جہاں ایک حصہ خود سنبھالا وہاں کچھ علاقے نظام اورمرہٹوں کو دے دیے اور قدیم ہندو حکمران خاندان کی ریاست بھی قائم کر دی۔ اسی طرح مرہٹوں کو نقصان ضرور پہنچایا، لیکن ان کی ریاستیں بہ دستور قائم رکھیں ۔ مغل بادشاہ یقینا انگریزوں کا وظیفہ خوار بن گیا ، لیکن انتظام کی ظاہری وضع وہیت ایسی تھی کہ معلوم ہو، انگریز محض بادشاہ کے مختار کی حیثیت میں کام کرہے ہیں ، جیسے اس سے پیشتر سندھیا کر چکا تھا اورقدیم شاہی آداب ورسوم ٹھیک ٹھیک پورے ہوتے تھے ۔
ڈلہوزی آیا تو اس نے جھاڑو اٹھالی اور ہر علاقے کو کوڑے کرکٹ کی طرح سمیٹ کر انگریزی اقتدار کے ٹوکرے میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ کارکردگی یا مختاری کے پردے بھی آہستہ آہستہ بیچ میں سے اٹھ گئے اور انگریزی اجنبیت بالکل بے نقاب ہوگئی، لہذا ناراضی کے بارودخانے میں آگ لگ گئی۔
الحاق کی پالیسی
اس سلسلے میں سب سے پہلے الحاق کی پالیسی آتی ہے جو انگریزوں کی اجنبیت وبیگانگی کا کھلا ہوا ثبوت تھی اور جس کی وجہ سے مختلف ذی اثر خاندانوں کے افراد انگریزوں کے خلاف زبردست تحریک چلانے کے لئے آمادہ ہوئے :
۱۔ ہارڈنگ نے سِکھوں کی حکومت کا صرف ایک حِصّہ چھینا تھا۔ اور کشمیر کو گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کیا تھا۔ ڈلہوزی نے پورا پنجاب لے لیا اور دلیپ سنگھ کو معزول کر کے فتح گڑھ ( یو پی ) پہنچا یا۔ اس نے عیسائیت قبول کر لی، شاید اس لئے کہ تخت حکومت حاصل کرنا سہل ہوجائے گا۔ لیکن عیسائیت اسے انگریزوں کے قریب ترنہ لاسکی اور آخری دور میں اس کے ساتھ جو بد سلوکیا ں ہوئیں ‘ وہ بڑی ہی درد انگیز اور عبرت افزا تھیں ۔
۲۔ ستارہ کی چھوٹی سی ریاست سیواجی کے خاندان کے لیے رکھی گئی تھی۔ معاہدہ یہ ہوا تھا کہ وہ دواماً قائم رہے گی۔ اپریل ۱۸۴۸ء میں ستارا کے راجا نے وفات پائی۔ اس کے اولاد نہ تھی ، لیکن ہندو دھرم کے رواج کے مطابق اس نے ایک لڑکے کو متبنّٰی بنا لیا تھا۔ ڈلہوزی نے متبنیٰ کو راجا بنانا منظور نہ کیا اور ریاست ضبط کر لی۔
۳۔ ۱۸۵۳ء میں رگھو جی بھونسلا والیِ ناگ پور فوت ہوا۔ اس کے بھی کوئی اولاد نہ تھی اور غالباً اس خیال سے اس نے کسی کو متبنیٰ بھی نہ بنایا تھا کہ عوام اسے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم سمجھ لیں گے ۔ تاہم ملک کے رواج اور ہندو دھرم کے مطابق اس کی بیوہ متبنیٰ تجویز کرسکتی تھی۔ڈلہوزی نے وہ ریاست بھی بے تکلف سنبھال لی۔ پھر محلات کا سارا اسباب انتہائی بے دردی سے بر سرِعام نیلام کرایا یہاں تک کہ ایک رانی بد سلوکی پر خفگی کے جوش میں پورے محل کو آگ لگوادینے کے لئے تیار ہوگئی تھی۔ اسی طرح جھانسی ، سنبھل پور، تنجور، کرناٹک وغیرہ ریاستیں ضبط کر لی گئیں ۔
باجی راؤ ثانی پیشوا
باجی راؤ ثانی آخری پیشوا ۱۸۱۷ء کی جنگ میں شکست کھا کر مسند سے دست بردار ہوا تھا اور آٹھ لاکھ روپے سالانہ کی پینشن لے کرٹھور میں آبیٹھا تھا، جو کان پور کے نزدیک ایک مشہور مقام ہے ۔ ۲۸/ جنوری ۱۸۵۱ء کو وہ ۷۷ سال کی عمر میں لاولد فوت ہوا۔ اس نے تین بچوں کو متبنیٰ بنایا تھا : اور ڈھونڈوپنت نانا دوم پنڈورنگ راؤ اور سوم گنگا دھر راؤ۔ پنڈورنگ راؤ فوت ہوگیا تو اس کے بیٹے سداشیوپنت کو اس کی جگہ مل گئی۔ باجی راؤ نے اپنی وصیت میں صاف صاف لکھ دیا تھا کہ میرے دو بیٹے ہیں اور ایک پوتا اور میرے بعد ڈھونڈ وپنت نانا مکھ پر دھان کی حیثیت میں میرا وارث ہوگا اور اسی کو پشیواؤں کی گدی کا مالک سمجھا جائے ۔
باجی راؤ کی پنشن نانا کو ملنی چاہئے تھی۔ پوری نہ ملتی تو کم از کم اس کا ایک حصہ ملنا لازم تھا۔ لیکن ڈلہوزی نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ باجی راؤ چوتیس سال میں بہت کچھ جمع کر گیا ہے ، اسی پر قناعت کی جائے حالانکہ باجی راؤ کے ساتھ معاہدے میں ایسی کوئی شرط نہ تھی ، جسے کھینچ تان کر بھی ثابت کیا جاسکے کہ نپشن اسے صرف مدت العمرملے گی۔ ڈھونڈوپنت نے پنشن کے لیے یہاں بھی کوشش کی ، ولایت بھی اپنے وکیل بھیجے تاہم جو فیصلہ ہو چکا تھا، اس میں ردوبدل نہ ہوا۔
وہ تمام لوگ جن کی ریاستیں چھنی تھیں ‘ نیزان کے متوسلین جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچی تھی‘ کسی حالت میں بھی انگریزوں کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے تھے بلکہ سخت سے سخت دشمن بن گئے ، اس لئے کہ انھیں انگریزوں کی اجنبیت ، بیگانگی ، موقع پرستی اور بے دردی کا براہِ راست تجربہ ہوچکا تھا۔
اودھ
سب سے آخر میں اودھ کا معاملہ آتا ہے ۔ انگریزوں نے پہلے وہاں دو عملی کی کیفیت پیدا کی، یعنی فوج کا انتظام ۷۶ لاکھ روپے سالانہ کے عوض میں خود سنبھال لیا اور باقی انتظام والیانِ اودھ کے قبضے میں رہنے دیا۔ ویلزلی نے جب دیکھا کہ اودھ میں بے قاعدہ لشکر بڑی تعداد میں موجود ہے تو اس کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا کہ اگر کسی وقت نپولین ہندوستان کی سرحد پر پہنچ گیا یا زمان شاہ درّانی جیسا کوئی من چلا اقعان فوج لے کر آگیا اور اودھ کا بے قاعدہ لشکر اس کا معاون بن گیا تو انگریزی تسلط کا گھروندا تباہ ہوجائے گا۔ چنانچہ اس نے والی اودھ کے روبرو یہ تجویز پیش کر دی کہ بے قاعدہ لشکر کو ختم کر دیا جائے ، اس کی جگہ بھی انگریزی فوج رکھی جائے اور پچاس لاکھ روپے سالانہ کا مزید خرچ برداشت کیا جائے ۔ جب اس غریب نے کہا کہ اتنا روپیہ کہا سے دوں گا تو کہہ دیا کہ علاقہ دے دیا جائے ۔ چنانچہ کچھ ضلعے لے لئے ، جن کی آمدنی ایک سال میں دُگنی ہوگئی۔
واضح رہے کہ یہ گرانقد ر رقم سوا کروڑ روپے ( ۷۶ لاکھ + ۵۰ لاکھ ) اس غرض سے والیِ اودھ کے ذمے نہ ڈالی گئی تھی کہ ملک کا انتظام اچھا رہے مقصود صرف یہ تھا کہ ہندوستان میں انگریزی اقتدار ایک موہوم خطرے سے محفوظ ہوجائے ۔ گویا فائدہ صرف انگریزوں کا مطلوب تھا، لیکن اس کا خرچ والیِ اودھ سے وصول کیا گیا اور بے دست وپا بھی اسی کو بنایا گیا۔
بادشاہی کا ڈھونگ
نواب سعادت علی خاں نے اپنی جزرسی سے بہت بڑی رقم جمع کر لی تھی، اس زمانے میں مختلف علاقوں کو مستاجری پر لینے کا دستور تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نواب سعادت علی خاں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے تمام مقبوض۔ات متاجری پر لے لینے کی غرض سے روپیہ جمع کیا تھا۔ وہ بے چارا چل بسا اور غازی الدین حیدرکا زمانہ آیا تو اس روپے کی بربادی کے لئے نیا ذریعہ مہیا کر دیا گیا۔
اس کی کیفیت یہ ہے کہ مارکوئیس ہیٹنگز نے اکبر شاہ ثانی بادشاہِدہلی سے ملاقات کرنی چاہی ، لیکن شرط یہ عائد کی کہ نذرنہ دوں گا۔ بادشاہ نے ملنے سے انکار کر دیا۔ اب اس انکار پر غور کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ صورت حال کے معتلق بادشاہ کے تصورات کس درجہ غلط اورمحمل تھے ، لیکن اس زمانے میں نذرشاہی آداب کا لازمہ سمجھی جاتی تھی۔ ہیٹنگز نے بادشاہ سے ملاقات نہ کی اور غازی الدین حیدر کو بادشاہ بنا دینے کی تجویز پختہ کر لی۔ مقصود یہ تھا کہ اکبر شاہ کو بتایا جائے ۔ انگریز بادشاہی کے جتنے بُت چاہیں قائم کرسکتے ہیں ۔
غازی الدین حیدر نے بادشاہی کا سامان فراہم کرنے کے لئے روپیہ اندھا دھند برباد کر دیا اسے یہ خیال نہ آیا کہ جب ایک ایک بات کے لئے ریزیڈنٹ سے منظوری لینی پڑتی ہے تو بادشاہی ہوئی یا نوابی ، فرق کیا پڑتا ہے ؟ لیکن اس زمانے میں ہر شخص ظواہر پر جان دیتا تھا اور معنویت سے کسی کو کوئی سروکار نہ تھا، ہنری لارنس نے بالکل درست لکھا تھا کہ:
نواب غازی الدین حیدر کو بادشاہی کا لقب اختیار کرنے کے لئے اُکسایا گیا۔ لارڈ ہینگٹز چاہتا تھا کہ اس طرح دہلی اور اودھ کے خاندانوں میں رقابت کے جذبات برا نگیختہ کر دے ۔
ہیٹنگز تو جو چاہتا تھا، اس سے بحث نہیں ، لیکن ا ن خاندانوں کو اس رقابت سے کیا فائدہ پہنچتا تھا، جو انگریزوں کے ہاتھ میں کھلونے بنے ہوئے تھے ؟ وہ صرف نام ونموداور الفاظ و خطابات پر مرتے تھے ، یہ خیال کسی کو نہ تھا کہ اپنی حیثیت بدلنے اور انگریزوں کے قبض وتصرف سے نجات پانے کی کوشش کی جائے ۔