جناح پور نقشہ کی برآمدگی ڈرامہ تھی

معیز بہن ہر بندہ اپنی بات پر مصر ہے کہ وہ ہی صحیح ہے مگر ہمیں کبھی خالی دماغ ہوکر سوچنا چاہیے اور کوئی فیصلہ کرنا چاہیے لوگ کہتے ہیں کہ یہ انفارمیشن کا دور ہے مگر میری نظر میں اس کے ساتھ ساتھ ڈس انفارمیشن کا دور ہے پتہ نہیں لگتا کہ کیا غلط کیا صحیح ہے۔
ہمیں ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے کہ اگر ہم غلط ہیں تو ہمیں ٹھیک ہونا چاہے اگر ٹھیک ہیں تو اس بات پر اصرار نہ کیا جائے۔ ہم جب چھوٹے ہوتے تھے تو ہم نے جناح پور کا سنا تھا مگر وقت کے ساتھ جناح پور کا نام ہمارے دماغ سے نکل گیا تھا یہاں ہم سے کئی لوگوں کو شاید یاد بھی نہیں تھا مگر اس بیان کے ساتھ یہ مردہ گھوڑا پھر زندہ ہوگیا ہے۔ ویسے وقت کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم خود کو قومی دھارے میں لے آرہی ہے اور اس کی مثال پورے ملک سے الیکشن لڑنے کا پروگرام ہے اور اب یہ تنظیم کراچی سے نکل کر ملک کے دیگر حصوں میں بھی پہنچ چکی ہے۔ میرا ایک چھوٹا قصبہ ہے جہاں کچھ سال پہلے ایم کیو ایم کا یونٹ کھلا تھا مگر 12 مئی کے واقعے کے بعد اس کو فوری طور پر بند کیا گیا، ایک دن مجھے یہاں اسلام آباد میں خیال آیا کہ میں ایم کیو ایم کا ممبر بنوں مگر ایک کراچی کے دوست نے جو خود اردو بولنے والا تھا نے منع کیا کہ تم نے ممبر نہیں بننا۔
ایم کیوایم کے بارے میں کراچی کے لوگ بہتر جانتے ہیں اور وہ ہی بتا سکتے ہیں۔
 

طالوت

محفلین
مجھے خود بڑی خوشی ہوئی تھی کہ ایم کیو ایم قومی دھارے میں شامل ہونے جا رہی ہے مگر بعد کے حالات و واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ "ون مین شو" جہاں جہاں ہو گا وہاں کبھی بھی بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی اور بدقسمتی سے ایم کیو ایم اس معاملے میں سب سے اگے ہے ۔تفصیل میں نہیں جاؤں گا کراچی والے جانتے ہیں ۔ فرحان اردو سارا ملک بولتا ہے اور اطلاعا عرض ہے کہ پنجاب میں ایک بہت بڑی تعداد اردو بولنے والوں سے بستی ہے ۔ درحقیقت پاکستان کی سیاست فوج کی مرہون منت ہے اس کے بعد جب کوئی طاقت حاصل کر کے پر پرزے نکال لے تو اور بات ہے ۔ ظفری کی بات سے میں متفق ہوں ہمارے یہاں ہر سطح پر ایک مضبوط مافیا موجود ہے ۔ اصل صورت ہے کہ معاملہ کوئی بھی ہو دیانت اولین اصول ہونا چاہیے اور ایم کیو ایم دوسری جماعتوں کی طرح اس خصوصیت سے خالی ہے ۔ اس گورکھ دھندے میں پھنسنے والے کراچی کے کئی قابل جوانوں سے میں واقف ہوں اور ان کی لاچاری دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ حتی کے میرے ایک قریبی دوست جن کے ایک قریبی عزیز ایم کیو ایم کے ممبر اسمبلی بھی منتخب ہو چکے ہیں کے بقول یہ نفرت در نفرت کا سلسلہ ہے ۔ اس میں کسی کو نہ تو پاکستان سے محبت ہے اور نہ پاکستان میں بسنے والے کسی شخص سے چاہے وہ کوئی سی بھی زبان بولتا ہو۔ کیا ہم کراچی کے لوگ نہیں جانتے کہ ایم کیوایم کے گناہوں پر وکالت اسلئے کی جاتی ہے کہ ایم کیو ایم کے مخالفین بھی اسی گناہ میں ملوث ہیں ۔ کیا کسی ایک کی برائی کو اپنی برائی کے لئے جواز بنایا جا سکتا ہے ؟
یہی میرے دوست جب بلدیاتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے لئے دفتر سے جلدی رخصت ہو گئے ۔ دوسرے دن جب اس کی بابت پوچھا تو کہنے لگے کہ جیسے ہی میں گھر سے نکلنے لگا تو خاتون خانہ نے سوال کیا کہ کہاں چل دئیے ۔ جواب دیا ووٹ ڈالنے جا رہا ہوں تو بولیں کہ "رہنے دو ، میں دو ڈال آئی ہوں" اور یہی حشر پورے ملک کا ہے پورے پورے بیلٹ بکس بدل جاتے ہیں ، جلسوں جلوسوں میں سر عام اسلحہ کی نمائش کی جاتی ہے ، گھات لگا کر لوگوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے ۔ اور پھر ہمارے "رہنما" ہمارے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں ۔ گزشتہ صرف 9 سالوں میں کسی ایک سیاسی پارٹی کے بیانات ملاحظہ کر لیں ، یہ سب کذاب بن کذاب ابن کذاب ہیں ۔ اور ہمیں فرصت ہی نہیں کہ ان گھٹیا لوگوں کی وکالت سے باز آ کر کوئی تعمیری کام انجام دیں ۔
لعنت ہو ان سب ملعونوں پر ۔
وسلام
 

خوشی

محفلین
عارف کریم جی آپ کا تو لگتا ھے ہر کسی سے ہی اختلاف ھے سبھی جھوٹے ھیں‌تو پھر سچا کون ھے
 

مہوش علی

لائبریرین
حمید گل صاحب، جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے
ذیل میں میں حمید گل صاحب کی تین خبریں پیش کر رہی ہوں۔

1۔ سب سے پہلے جب برگیڈیئر ریٹائرڈ امیتاز صاحب نے جناح پور کی سازش کا انکشاف کیا، تو حمید گل کا فوری ردعمل اس پر فقط یہ تھا۔
1100700335-1.gif


مگر اس واقعے کے دو دن کے بعد حمید گل کو اچانک یاد آ جاتا ہے کہ وہ انہوں نے اس آپریشن کی سب سے اہم بات کا تو ذکر ہی نہیں کیا، اور وہ یہ کہ جناح پور کی سازش حقیقت تھی اور متحدہ کی پشت پناہی انڈین را ایجنسی کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

2۔ دو دن گذرنے کے بعد حمید گل کے بیان میں ہونے والا اضافہ:

"جناح پور کی سازش حقیقت ہے۔ انڈین را ایجنسی پشت پر تھی۔ ریکارڈنگز و دیگر شواہد موجود ہیں"۔ روزنامہ امت اخبار
اسلام آباد [نمائندہ خصوصی] آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل نے کہا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم نے 1992 سے قبل کراچی کو پاکستان سے الگ کر کے ایک آزاد ریاست کے قیام کی کوشش کی تھی جس کا نام جناح پور رکھا گیا تھا۔ اور اس سازش کو بھارتی خفیہ اداروں بشمول (را) کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔۔۔۔۔"

آپ لوگوں سے گذارش ہے کہ اس الزام کو پڑھنے کے بعد آپ امت اخبار کی اس پوری لمبی خبر کو پڑھ لیں، اس پوری لمبی خبر میں جنرل صاحب ایک بھی ثبوت یا ریکارڈنگ انڈین را یا جناح پور کا پیش نہیں کرتے ہیں، اور جب ثبوت کی بات آتی ہے تو اس پر فقط الطاف حسین کی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں۔

یاد رکھئیے، حمید گل کے بیان کے برعکس [کہ آپریشن سے قبل جناح پور اور انڈین را کے خلاف مکمل ثبوت اور ریکارڈنگز موجود تھیں]، اس آپریشن سے قبل آئی ایس آئی یا جی ایچ کیو، کسی کو بھی جناح پور اور انڈین را ایجنسی کی سازش کا کوئی علم نہ تھا اور یہ آپریشن انڈین را ایجنسی اور جناح پور کے خلاف شروع نہیں کیا گیا تھا بلکہ کرمنلز کے خلاف شروع کیا گیا تھا۔

اُس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درانی، کور کمانڈر جنرل نصیر اختر، انٹیلیجنس بیورو کے ڈائریکٹر برگیڈیئر امتیاز ان سب نے گواہی دی ہے کہ جناح پور اور انڈین را کا آپریشن کے وقت دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔


3۔ اب حمید گل کی تیسری خبر پیش خدمت ہے۔ یہ بھی حمید گل کا اسی امت اخبار کو دیا گیا تفصیلی انٹرویو ہے۔ امت اخبار کی خبر کا لنک

حمید گل صاحب فرماتے ہیں:
۔ انہوں نے آپریشن سے قبل ہی 1992 کے بالکل آغاز [جنوری] میں فوج سے استعفی دے دیا تھا۔ جب آپریشن شروع ہوا تو یہ کابل میں تھے اور یہ جب پاکستان واپس آئے تو آپریشن پورے زوروں پر تھا۔
۔ پھر حمید گل کہتے ہیں کہ یہ لندن گئے جہاں انکی تفصیلی ملاقات الطاف حسین سے ہوئی۔
[جی ہاں، اُسی الطاف حسین سے حمید گل ملاقات کرتے ہیں کہ جو کہ ملک کا غدار ہے، جو انڈین را کا ایجنٹ ہے، جو پاکستان کو ٹوڑنے کے ارادے بنائے بیٹھا ہے، جس کے خلاف 1992 کے آپریشن سے قبل ہی کئی ثبوت اور ریکارڈنگز موجود ہیں۔۔۔۔]

۔ واپسی پر حمید گل صاحب بے نظیر کے پاس جاتے ہیں اور ان پر زور دیتے ہیں کہ الطاف حسین [پاکستان کے غدار اور انڈین را کے ایجنٹ] سے مفاہمت کر لیں۔ مگر وہ کہتی ہیں کہ نہیں اب بہت دیر ہو چکی۔

۔ بے نظیر سے مایوس ہو کر حمید گل صاحب صدر جناب اسحق خان کے پاس جاتے ہیں اور ان سے متحدہ کے خلاف آپریشن ختم کرنے اور الطاف حسین [پاکستان کے غدار اور انڈین را کے ایجنٹ] سے مفاہمت کرنے کا کہتے ہیں۔

جھوٹوں کے سروں پر سینگ نہیں ہوتے۔ مگر یاد رکھیئے جہاں جھوٹ ہو گا وہیں تضاد بیانیاں بھی ہوں گی، کیونکہ عالمگیر حقیقت ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے ہمیشہ کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ چنانچہ آپ ان جھوٹوں کو انکی تضاد بیانیوں سے کے باعث پہچاننے میں کبھی غلطی نہیں کریں گے۔ اگر الطاف حسین واقعی پاکستان کا غدار انڈین را کا ایجنٹ تھا، تو پھر الطاف حسین سے بھی بڑا ملعون شخص حمید گل ٹہرا جو ایسے غدارِ وطن انڈین را کے ایجنٹ کو قتل کرنے کی بجائے باقاعدہ تفصیلی ملاقات کرتا ہے اور پھر ان انڈین را کے ایجنٹوں کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے آ کر بے نظیر اور صدر اسحق خان سے سفارش بھی کرتا ہے۔
 

طالوت

محفلین
کیا خوب کہی ہے ، جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور ایک جھوٹ چھپانے کے لئے 100 جھوٹ بولنا پڑتے ہیں ۔ سچ کہتے ہیں دنیا وہ آئینہ ہے جس میں اپنا آپ کسی کو نظر نہیں آتا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
امت اخبار والے اوپر والی خبر میں 1992 کے آپریشن پر شور و غوغا کرنے کا سوال تو اٹھا رہے ہیں، مگر کیا وجہ ہے کہ وہ جناح پور اور انڈین را کی پشت پناہی جیسے اہم سوال کو سرے سے ہی ہضم کر گئے؟ [حالانکہ یہ ہی آج اٹھنے والے سارے شور و غوغا کی وجہ تھی اور اسی وجہ سے یہ حمید گل صاحب برگیڈیئر امتیاز کے متعلق کہتے ہیں آجکل وہ بہت چہک رہے ہیں، حالانکہ برگیڈیئر امتیاز نے کرمنلز کے خلاف آپریشن کی حمایت کی تھی، مگر جناح پور اور انڈین را کی سازش کو خود ساختہ شوشہ قرار دیا تھا]

یہ چیز امت اخبار کا کریکٹر ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔

کراچی کے حالات پر میری ذاتی رائے
اس سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ مجھے انصاف کے ساتھ ہر فریق کی غلطیوں اور غلط الزامات کو پیش کرنا ہے۔

۔ فوج کے یہ تینوں جنرلز، برگیڈیئر امتیاز، جنرل نصیر اختر اور جنرل درانی صاحبان نے بالکل یکساں موقف پیش کیا ہے۔

۔ ان تینوں حضرات کا ایم کیو ایم سے تعلق نہیں۔۔۔۔ بلکہ شاید کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں اور میرے خیال میں انہوں نے اپنے تئیں حالات کو بغیر لگی لپٹی کے صحیح تناظر میں پیش کیا ہے۔ بلکہ ہر پارٹی بشمول نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے برا بھلا کہہ رہی ہے کیونکہ جناح پور سازش کا انکار کر کے انہوں نے ان پارٹیوں کے جھوٹ کا پول کھولا ہے۔ چنانچہ یہ پارٹیاں اور جماعت اسلامی وغیرہ ان پر طرح طرح کے اعتراضات کر رہے ہیں۔

۔ ان تینوں کے یکساں موقف میں یہ بات شامل ہے کہ سندھ اور کراچی میں جرائم کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی تھی، اور حالات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ آپریشن ناگزیر ہو چکا تھا۔ مگر ان تینوں نے آپریشن صرف متحدہ کے خلاف کرنے سے اختلاف کیا تھا اور انکے نزدیک ان جرائم میں پیپلز پارٹی اور حقیقی دوسری جماعتیں بھی برابر کے شریک تھے [انکا مؤقف وہی ہے جو میرا ہے کہ صرف ایک پارٹی ہی کرمنل نہیں تھی، بلکہ تمام پارٹیاں ہی کرمنل تھیں اور بوری میں لاشیں ملنا یکطرفہ عمل نہیں تھا]۔ تو جب یہ تینوں حضرات آپریشن کا بنیادی مقصد صحیح ہونے کی بات کرتے ہیں تو میں ان سے بالکل متفق ہوں۔

۔ متحدہ قومی مؤومنٹ جو اُس وقت ایم کیو ایم تھی، یہ جماعت اُس وقت اپنے ابتدائی ارتقائی مراحل میں تھی۔ اور اسکا سابقہ اُن تمام کرمنلز سے تھا جنہیں مرکز اور سندھ سے حمایت حاصل تھی۔
یہ جماعت اسلحہ سمیت پیدا نہیں ہوئی تھی، مگر یہ عمل اور ردعمل کے نتیجے میں مسلح ہوئی۔ انتہا پسند ہر قوم اور ہر جماعت میں ہوتے ہیں۔ افسوس کہ لڑنے مرنے والے جنگجو لوگ زیادہ تر انتہا پسند ہی ہوتے ہیں اور سوچنے سمجھنے والے تہذیب یافتہ لوگ عملی طور پر زیادہ تر بزدلی کا شکار ہوتے ہیں۔

۔ ہر جماعت جو ایسے حالات کی پیداوار ہو، اس کے ارتقائی حالات میں ایسی غلطیاں نظر آتی ہیں۔ چاہے یہ فرانس کا انقلاب ہو یا ایران کا انقلاب۔
مگر چونکہ اس جماعت میں بہت سے پڑھے لکھے دماغ بھی موجود تھے، اس لیے ان کے مابین بھی کشمکش شروع ہوئی۔

۔ اس جماعت کے خلاف سازشیں بھی پورے زور و شور سے جاری تھیں۔ آپریشن کیا گیا اور پھر اسے توڑنے کے لیے ان کے انتہا پسند عناصر اور انکے سب سے بڑے غنڈوں آفاق اور عامر کو حکومتوں اور آئی ایس آئی نے اپنی پے لسٹ پر لے لیا۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ متحدہ کے خلاف فوج اور نواز/بےنظیر حکومت نے وقت کی سب سے بڑی سازش کی اور ان سب سے بڑے غنڈوں آفاق اور عامر کی سربراہی میں حقیقی کو دہشتگردی کی کھلی چھٹی دی گئی۔
میں دیکھتی ہوں کہ متحدہ مخالفین آج بوری بند لاشیں بوری بند لاشیں چلا رہے ہوتے ہیں اور سارا الزام فقط متحدہ پر لگا رہے ہوتے ہیں۔ میں آپ کو بتاتی ہوں کہ یہ انکا تعصب اور دل کا زہر بول رہا ہوتا ہے۔ یہ بوری بند لاشیں حقیقی کے وجود کے آنے کے بعد وبا بنیں اور یہ متحدہ کے اپنے 1500 ساتھی تھے جو ان بوریوں میں نکلتے تھے۔ ظلم اور جوابی ظلم، دونوں بری چیزیں ہیں، مگر اس کا سب سے زیادہ الزام حکومت اور فوج اور عدالت پر جاتا ہے۔
اگر سٹیٹ نے اپنی رٹ قائم رکھی ہوتی تو یہ خون اور جوابی خون کی نوبت نہ آتی۔ کسی درندے کا بھی جنگل میں جب گھیر کر شکار ہوتا ہے، تب بھی فرار کی ایک راہ کھلی رکھی جاتی ہے۔ کیونکہ شروع میں تو درندہ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، مگر اگر تمام راہیں بند ہوں تو بھاگنا بند کر کے پلٹ کر جوابی حملہ کرتا ہے۔ آج متحدہ کے خلاف سارے الزامات لگانے والے بتائیں شروع میں جب متحدہ کے پاس اسلحہ نہیں تھا اور ہر دوسری جماعت ان پر دھونس جما کر انکی پٹائی کرتی تھی اور انکی عدالت میں شنوائی ہوتی تھی نہ پولیس میں تو پھر انکے پاس جوابی طور پر مسلح ہونے کی اور کیا راہ چھوڑی گئی؟

آج متحدہ پر سارے الزامات دھرنے والے بتائیں جب یہ جنرل صاحب خود بتلا رہے ہیں کہ یہ اکیلی متحدہ نہیں تھی بلکہ پیپلز پارٹی ساتھ شامل تھی اور انکے قیدیوں کے تبادلے ہوتے تھے، تو پھر یہ جنرل صاحب بتائیں کہ آپریشن صرف متحدہ کے خلاف ہی کیوں ہوا؟

آج متحدہ پر سارے الزامات دھرنے والے بتائیں کہ جب ایجنسیوں نے ماورائے عدالت قتل کرتے ہوئے اور انہی ایجنسیوں نے حقیقی کی پشت پناہی کرتے ہوئے متحدہ کے پندرہ ہزار کارکنوں کو قتل کیا تو اس کے خلاف انکے لب کیوں ایسے بند ہوتے ہیں جیسے سلے ہوئے ہوں؟

آپریشن کرمنلز کے خلاف تھا تو سب سے بڑی کرمنل تو حقیقی خود فوج کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی تو خود حکومت میں بیٹھی تھی، یہ سب کچھ تھا، مگر الزام پھر بھی فقط متحدہ کا مقدر؟؟؟ کیا کبھی ان الزامات لگانے والوں نے حمید گل یا فوج سے یا نواز شریف سے یا پیپلز پارٹی سے اس حقیقی کا حساب مانگا؟ [نواز اور پیپلز پارٹی کے پورے دور میں 1998 تک حقیقی کو ایجنسیز سانپ کی طرح پالتے پوستے رہے] نہیں نواز اور پیپلز پارٹی کو متحدہ کے ہر ہر کارکن کی موت کا گناہ معاف، اور ذمہ دار ہے تو فقط متحدہ۔

پھر اللہ تعالی کو متحدہ پر شاید رحم آیا جو پرویز مشرف صاحب حکومت میں آئے۔ اگرچہ مشرف صاحب کے پہلے پانچ سال متحدہ کی حکومت نہیں تھی، مگر کراچی میں ایک گولی چلائے بغیر مشرف صاحب کے دور میں مکمل امن و امان قائم رہا۔
وجہ کیا تھی؟ کیا آمر مشرف صاحب کے پاس کوئی جادو کی چھڑی تھی جس سے اُس کراچی میں ایک گولی چلائے بغیر امن و امان قائم ہو گیا کہ جہاں نواز اور پیپلز پارٹی اپنے 4 جمہوری ادوار کے دوران سوائے خون و قتل و غارت و ماورائے عدالت قتلوں کے کچھ اور نہ دے سکے تھے؟
مشرف صاحب کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہ تھی۔ بلکہ انہوں نے بس فقط ایک انصاف کو قائم کیا۔ انکا دور وہ پہلا دور تھا جب حقیقی کی سرپرستی ایجنسیز نے کرنا چھوڑی۔ انکا دور وہ دور تھا جب لیاری کے غنڈوں اور مافیا کو سیاسی پناہ حاصل نہ ہوئی۔ ضلعی حکومت قائم ہوئی، اور ان پہلے سالوں میں جب متحدہ حکومت میں بھی نہیں تھی، ہم نے کراچی میں مکمل امن و امان اور ترقی پر ترقی ہوتے دیکھی۔

اب متحدہ کے مخالفین لاکھ چیخ لیں چلا لیں بلبلا اٹھیں، مگر یہ وہ حقیقت ہے جو متحدہ کے خلاف ان جھوٹے پروپیگنڈوں کے منہ پر ایسا طمانچہ ہے کہ جس سے اس تمام پروپیگنڈے کا دم مکمل طور پر نکل چکا ہے۔

مگر ان مخالفین کی شرارتی طینت کو چین نہیں۔ مشرف صاحب کے جانے کے بعد آج پھر آہستہ آہستہ وہی پرانا 1990 کا دور واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہی بدمعاش حقیقی آج پھر سے پلکوں پر بٹھائی جا رہی ہے۔ عمران خان خاص طور پر جا کر حقیقی کے دونوں دھڑوں سے ملتا ہے اور عامر اور آفاق کے ان دونوں دھڑوں کو متحدہ کے خلاف یکجا کرنے کی سازش کرتا ہے۔ اور متحدہ کے یہ مخالفین بجائے عمران خان کی مذمت کرنے کے اس پر تالیاں پیٹتے ہیں۔

متحدہ اور اہل کراچی کو دشمن بنا کر ہم پاکستان کے ساتھ دوستی نہیں بلکہ انتہائی دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ متحدہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی مثبت طاقت ثابت ہو سکتے ہیں۔ حالات پر سوچیں سمجھیں غور کریں اور ان الزامات لگانے والوں کے جھوٹ کے پلندوں اور پروپیگنڈوں سے باہر نکل کر فیصلے کریں۔ یہی ہم سب اور پاکستان کے لیے بہتر ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
حکیم سعید کے قتل کا جھوٹا الزام
متحدہ مخالفین کے جھوٹ کے پلندے طویل ہیں اور اتنی جلدی یہ پلندے ختم ہونے والے نہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے حکیم سعید کے قتل کے الزام میں گرفتار متحدہ کے تمام 9 ساتھیوں کو اس ریمارکس کے ساتھ رہا کیا ہے کہ انکے خلاف جھوٹے ثبوت تراشے گئے اور انہیں سازش کر کے پھنسانے کی کوشش کی گئی۔
پڑھئیے پوری رپورٹ جو ڈان اخبار نے اس فیصلے پر جاری کی تھی
رپورٹ انگلش میں ہے اس لیے میں یہاں پوسٹ نہیں کر رہی۔ نواز شریف نے پہلے اینٹی ٹیرر کورٹ کے ذریعے انہیں جھوٹے ثبوتوں کے ساتھ پھانسی پر چڑھوا دینے کی پوری سازش مکمل کر لی تھی۔ اور اُن تمام پولیس آفیسروں کے کندھوں پر موجود ستاروں میں اضافہ کر کے انہیں ترقی دے دی گئی جنہوں نے متحدہ کے اراکین کو جھوٹے کیس بنا کر گرفتار کیا اور پھر انویسٹیگیشن کے نام پر جھوٹی دستاویزات بنا کر عدالت میں پیش کیں جو کہ سندھ ہائی کورٹ میں پکڑیں گئیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود آج کی تاریخ میں آپ کو ان متحدہ مخالفین کے دلوں میں بھرا یہ زہر پھر بولتا نظر آئے گا جب یہ حکیم سعید کے قتل کا الزام پھر صرف اور صرف متحدہ پر لگا رہے ہوں گے۔
 

dxbgraphics

محفلین
یہ ثبوت سپریم کورٹ آف پاکستان بھیج دیں
اس پر سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے نواز شریف کے خلاف ضرور کاروائی ہونی چاہئے
متحدہ کے دامن پر تو نماز ہوتی ہے ۔


باقی تسی تے سمجھ ہی گئے او
 

dxbgraphics

محفلین
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ایک بہن امت میں اپنی مطلب کی خبر کے لئے امت کا حوالہ دیتی ہیں لیکن جب ان کے مطلب کی خبر نہ ہو تو امت پر تنقید کے انبار لگا دیتی ہیں
اس کو کیا سمجھا جائے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

زیک

مسافر
مجھے ایم‌کیو‌ایم یا جناح‌پور پر بحث نہیں کرنی مگر یہ بات غلط ہے:

فوج کے یہ تینوں جنرلز، برگیڈیئر امتیاز، جنرل نصیر اختر اور جنرل درانی صاحبان نے بالکل یکساں موقف پیش کیا ہے۔

۔ ان تینوں حضرات کا ایم کیو ایم سے تعلق نہیں۔۔۔۔ بلکہ شاید کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں اور میرے خیال میں انہوں نے اپنے تئیں حالات کو بغیر لگی لپٹی کے صحیح تناظر میں پیش کیا ہے۔ بلکہ ہر پارٹی بشمول نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے برا بھلا کہہ رہی ہے کیونکہ جناح پور سازش کا انکار کر کے انہوں نے ان پارٹیوں کے جھوٹ کا پول کھولا ہے۔ چنانچہ یہ پارٹیاں اور جماعت اسلامی وغیرہ ان پر طرح طرح کے اعتراضات کر رہے ہیں۔

اگر آپ ذرا بھی جانتی ہوں‌کہ یہ تینوں حضرات کیا کیا گل کھلاتے رہے ہیں تو ان کے غیرسیاسی ہونے کا دعوٰی نہ کریں۔
 

arifkarim

معطل
فوج اور سیاست میں‌کیا فرق ہے؟ شہری سیاست والا واسکٹ میں، فوجی سیاست والا جیکٹ میں! :)
 

گرائیں

محفلین
اب خدا کے لئے یہ مت کہئے گا کہ طلعت حسین بھی رائٹ ونگ فاشسٹ ہے۔

ربط
آخری پیرا ذرا غور سے پڑھئے گا مہربان قدر دان حضرات۔
1100703305-1.jpg

1100703305-2.gif
 

ظفری

لائبریرین
مجھے ایم‌کیو‌ایم یا جناح‌پور پر بحث نہیں کرنی مگر یہ بات غلط ہے:
مجھے بھی اس حوالے سے بحث میں حصہ نہیں لینا تھا ۔ مگر اس سلسلے میں کئی ابحاث میں یکطرفہ رحجان دیکھ کر مجھے صرف ایک عمومی رویئے کی طرف نشان دہی کرنی پڑی ۔ :)

اگر آپ ذرا بھی جانتی ہوں‌کہ یہ تینوں حضرات کیا کیا گل کھلاتے رہے ہیں تو ان کے غیرسیاسی ہونے کا دعوٰی نہ کریں۔

آپ کی بات درست ہے ۔ برگیڈئیر امیتاز کا آج کل بہت چرچا ہے تو کچھ موصوف کے بارے میں بتاتا چلوں کہ 1988 میں یہ صاحب فوج سے نکالے گئے تھے ۔ اس وقت ان کی حالت یہ تھی کہ ان کے پاس گاڑی تک بھی نہیں تھی ۔ اس کے بعد یہ جن عہدوں پر تعینات رہے اس سے ان کے اثاثوں میں اربوں روپوں کا اضافہ ہوا ۔ جس پر نیب اور ایف آئی اے کی گرفت میں آئے ۔ اس کے بعد ان کو سزا بھی ہوئی ۔ اب این آر او کے تحت یہ موجودہ مراعات کے قابل ہوئے ہیں ۔ لگتا ہے کچھ اثاثوں سے محروم ہوگئے ہیں ۔ شاید اسی لیئے یہ پنڈورا باکس کھول کر مذید آمدنی کی آس میں بیٹھ گئے ہیں ‌۔
 
Top