جملہ حقوق کی خلاف ورزی اور کتابی صنعت کا مسلسل استیصال 2012

تلمیذ

لائبریرین
کتابی جملہ حقوق پر بحث اور آپ کی آرأ
کتابی دُنیا میں سب سے زیادہ منافع حاصل کرنے والا حقیقی طبقہ عام دوکاندار ہے جس کے منافع کی شرح چالیس فی صد سے زائد ہے۔ میں یہاں پبلشرز کی حمایت نہیں کر رہا، مگر یہ حقیقت ہے کہ پبلشرز طبقہ اس منافع کو حاصل نہیں کر پا رہا جو اسے ملنا چاہئے
معظم جاوید بخاری

آپ کے اس جزو دوم نےصحیح صورت حال واضح کی ہے اور پبلشنگ کے کاروبار کے پوشیدہ گوشوں پر سے پردہ اٹھاتے ہوئےہمارے علم میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ سچ ہے کسی بھی کاروبار کے اندرونی حالات کا علم صرف انہیں لوگوں کو ہی ہو سکتا ہے جو پوری طرح اس میں داخل ہوں۔

یہاں پر میں آپ کی تحریر سے اپنے اس اقتباس شدہ نکتے کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے عرض گزار ہوں کہ آپ نے تو پبلشر کے نقطہ نظر سے ٹھیک لکھا ہوگا لیکن میری طرح کے ہر عام قاری کو معلوم ہے کہ کتاب کو اسکی مطبوعہ قیمت پر کبھی نہیں خریدنا چاہئے۔ کیونکہ اس میں 'کمیشن' لازماً شامل ہوتا ہے۔ اب اس کمیشن کی شرح پبلشر سے چل کر تھوک فروش اور مڈل مین سے ہوتے ہوئے پرچون فروش تک آتے آتے بہت کم رہ جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی نو سو روپے کی لکھی ہوئی قیمت والی ایک کتاب کو ایک عام خریدار تقریباً چھ سوا چھ سو میں حاصل کر کے اپنے تئیں بہت خوش ہو جاتا ہے۔ لیکن حقیقتاً اس کتاب کی طباعت اور مارکیٹنگ وغیرہ پر میرے خیال میں اس رقم کی نسبت کافی کم خرچہ آیا ہوا ہوتا ہے۔

کیا کوئی ایسا طریقہ نہیں کہ قاری کے لئے کتاب پر آئے ہوئے حقیقی خرچےاور اس کی قیمت فروخت کے اس بہت زیادہ فرق کو کم کیا جا سکےتاکہ کتابوں کے شائقین چودہ پندرہ سو روپے والی کتاب کا بھاری پتھر اپنی ہلکی جیب کی بے بضاعتی کی بنا پر صرف چوم کر نہ چھوڑ سکیں؟
 

قیصرانی

لائبریرین
متفق۔ آپ نے بات درست اب آ کر کی ہے۔ پہلے پہل چونکہ آپ نے آتے ہی ہمارے ایمان پر "خود کش حملے" شروع کر دیئے تھے، اس لئے جواب آں غزل ضروری تھا :) تاہم آپ کا شکریہ کہ آپ نے یہ تنقید مثبت انداز میں لی :)

ایک مصنف جنہیں میں جانتا ہوں، ہمیشہ سے مالی طور پر وہ بہت اچھی حالت میں رہے۔ انہوں نے کئی کتب میں یہ ذکر کیا ہے کہ ناشرین نے ان سے چند سو روپے کے عوض جملہ حقوق لے لئے اور وہ کتب جو اب ختم ہو چکی ہیں، ان کا دوسرا ایڈیشن چھپنے کی نوبت نہیں آ رہی کہ ناشر نہیں چاہتا۔ جملہ حقوق کی وجہ سے کسی اور ناشر سے وہ رابطہ نہیں کر سکتے۔ قاری مفت میں مارا گیا :)
 

ساجد

محفلین
تو کیا موصوف نے ذ پ میں رابطہ کیا اور نتیجہ کیا رہا؟ کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے!!
نہیں جناب بخاری صاحب نے تو رابطہ نہیں کیا لیکن عسکری کے نشان کردہ دھاگے میں ان سے مفید معلومات ملیں ہیں۔ دراصل پاکستان میں لوگوں کے اندر کتاب بینی کا شوق کم ہونے کا اہم سبب پبلشرز کی ناجائز منافع خوری ہے ،ا سی پر ان سے بات کرنا تھی۔
 

ساجد

محفلین
متفق۔ آپ نے بات درست اب آ کر کی ہے۔ پہلے پہل چونکہ آپ نے آتے ہی ہمارے ایمان پر "خود کش حملے" شروع کر دیئے تھے، اس لئے جواب آں غزل ضروری تھا :) تاہم آپ کا شکریہ کہ آپ نے یہ تنقید مثبت انداز میں لی :)

ایک مصنف جنہیں میں جانتا ہوں، ہمیشہ سے مالی طور پر وہ بہت اچھی حالت میں رہے۔ انہوں نے کئی کتب میں یہ ذکر کیا ہے کہ ناشرین نے ان سے چند سو روپے کے عوض جملہ حقوق لے لئے اور وہ کتب جو اب ختم ہو چکی ہیں، ان کا دوسرا ایڈیشن چھپنے کی نوبت نہیں آ رہی کہ ناشر نہیں چاہتا۔ جملہ حقوق کی وجہ سے کسی اور ناشر سے وہ رابطہ نہیں کر سکتے۔ قاری مفت میں مارا گیا :)
صرف قاری نہیں ،قاری اور مصنف دونوں مارے گئے۔:)
 

قیصرانی

لائبریرین
اللہ رحم کرے۔ ایک خادمِ اعلیٰ نے پورا لاہور ادھیڑ کر رکھ دیا ہے اور اب ایک اور خادم ، ستم دیکھئے کہ نیا خادم بھی اگلے ماہ لاہور آنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کیا بنے گا لاہور کا :praying:
:)
وہ تو خادم اعلٰی ہے جناب، میں محض خادم :)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کافی باتیں سن لی ہیں اب کچھ میں بھی عرض کر دوں
کچھ عرصہ پہلے زلفی صاحب نے دوستوں کے اسرار پر اپنی کتاب شائع کرنے کا ارادہ کر لیا۔ پپلیشر سے بات ہوئی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ ایک ہزار بک پپلیش کی جائے گی۔ سو کتابیں زلفی صاحب کو دی جائیں گی۔(ایک ہزار تھیں یا پانچ سو یہ مجھے یاد نہیں) چونکہ زلفی صاحب کی پہلی کتاب تھی اس لیے پپلیشر نے کہا کتاب شائع کرنے میں جتنا خرچہ آئے گا وہ زلفی صاحب ہی اٹھائیں گے۔سو کتابیں زلفی صاحب کو دی جائیں گی اور باقی جتنی کتابیں سیل ہونگی اس حساب سے جو فائدہ ہو گا وہ زلفی صاحب کو دے دیا جائے گا۔ کتابیں پورے پاکستان میں پھیلانے کا کام پپلیشر کا تھا۔ ویسے زلفی صاحب کو پیسوں سے لینا دینا نہیں تھا لیکن میں نے راولپنڈی کی تمام بکس شاپ میں جا کر دیکھا لیکن زلفی صاحب کی کوئی کتاب وہاں موجود نہیں تھی۔ دوکان دار سے پوچھنے پر پتہ چلا ایسی کوئی کتاب ابھی نہیں آئی ہمارے پاس۔ میں نے زلفی صاحب کو بتایا کہ پپلیشر آپ کے ساتھ کوئی گیم کر رہا ہے۔ میرے اسرار پر زلفی صاحب پپلیشر کے پاس گے تو پپلیشر نے انہیں زلفی صاحب کی کتابیں دیکھائی کہ یہ دیکھیں آپ کی کتابیں فروخت ہی نہیں ہو رہی ویسی کی ویسی ہی پڑی ہوئی ہیں۔
یو کرتے کرتے دو سال گزر گے۔ بعد میں پتہ چلا پپلیشر صاحب نے ایک ہزار کتابوں کے پیسے لیے اور دو سو کتابیں تیار کروائیں۔ سو زلفی صاحب کو دے دیں اور سو کتابیں دو سالوں بعد اس کے آفس سے ملی۔ زلفی صاحب کی بس وہی کتابیں منظریں عام پر آئیں جو انہیں نے خود تخفے میں دی تھیں اور باقی کا کیا ہوا اس کی کہانی آپ پڑھ چکے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اور کچھ میری رائے،

ذاتی حیثیت میں۔۔۔۔

مجھے کاپی رائٹس کے کالے قوانین سے شدید اختلاف ہے اور میں ان کے خلاف شدید احتجاج کرتا بھی رہا ہوں اور اب بھی کرتا ہوں۔

مغرب میں جہاں ایک مصنف، دو چار تہلکہ خیز کتابیں لکھ کر اپنی ساری زندگی اور آل اولاد کیلیے روزی روٹی کا بندوبست کر لیتا ہے کو چھوڑتے ہوئے اپنے ملک کی بات کرتے ہیں۔

پاکستان میں ناشرین کی کچھ قسمیں ہیں۔

اول۔ جو مصنفوں کو رائلٹی دیتے ہیں لیکن وہ اپنی کتابوں کی قیمت اتنی ہوش ربا رکھتے ہیں کہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی ہیں۔ میں کسی کا نام نہیں لکھتا لیکن لاہور کے کچھ جغادری ناشر جنہوں نے شعر و ادب کی بے شمار کتابیں چھاپی ہیں ذرا ان پر نظر ڈالیں، ایک ایک ناول کی قیمت ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار ہے۔ کراچی کے ناشر جو علمی و تاریخی کتابیں چھاپتے ہیں، ایک ایک سیٹ کی قیمت کئی کئی ہزاروں میں۔ اسلام آباد اور لاہور کے ناشرین جو زیادہ تر سیاسی اور آئینی کتابیں چھاپتے ہیں ہوشربا قیمتوں کے ساتھ اور ان پر رعایت بھی سب سے کم۔ ناشرین کی جان کو رونے والے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ایک طالب علم ایک ناول ڈیڑھ ہزار میں کیسے خریدے گا، وہ انٹر نیٹ پر غیر قانونی کتابوں کی طرف رخ نہیں کرے گا تو کیا کرے گا۔

دوم - ایسے ناشرین جن کی طرف فاتح صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ آج سے چالیس سال پہلے چھپنے والی کتاب پر اب بھی پہلا ایڈیشن لکھ کر چھاپتے ہیں اور حرام کھاتے ہیں وہ بھلا کیسے کسی کو قرآن حدیث یاد دلا سکتے ہیں۔

سوم - چھوٹے چھوٹے ناشر، جو مصنف کو کچھ بھی نہیں دیتے الٹا کتاب پر آنے والی تمام لاگت بیچارے مصنف کی ہوتی ہے، کتاب بکی سو بکی نہیں تو اللہ اللہ۔ جدید شعرا کی کتابیں اسی اصول پر چھپتی ہیں، کتاب بکنی تو کیا ہوتی ہے ایک دو ہفتوں کے بعد سینکڑوں کاپیاں فٹ پاتھ پر ہوتی ہیں، ستر فی صد رعایت پر۔ مصنف خود ہی اسے بانٹتا پھرتا ہے اور نیٹ پر بھی رکھ دیتا ہے۔

چہارم - پچھلے کچھ سالوں سے کچھ ناشرین نے ایسی ایسی نایاب کتابیں چھاپنا شروع کی ہیں کہ جن کو دیکھنے کیلیے آنکھیں ترستی تھیں اور ان کا تذکرہ بس کتابوں میں ملتا تھا۔ انہوں نے لائبریریوں سے ان کاپی رائٹس فری کتب کی نقلیں حاصل کر کے چھاپی ہیں اور اوپر لکھ دیا جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ۔ کچھ مضائقہ نہیں، لیکن ان مفت خوروں کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ان پرانی کتابوں پر کوئی محنت نہیں کرتے، ایف اے پاس لڑکوں سے کمپیوٹر میں کمپوزنگ کرواتے ہیں جو ملازمان کو مُلا زمان پڑھتے اور لکھتے ہیں، بنی فاطمہ کو نبی فاطمہ بنا دیتے ہیں اور کوئی بندہ ان کی پروف ریڈنگ نہیں کرتا۔ میں نے بیسیوں ایسی کتابیں خریدنے کے بعد توبہ کر لی ہے اور ایسے ناشرین کی ایک فہرست بھی بنا رکھی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے اور کیسی ہی اور کسی کی کتاب ہی کیوں نہ ہو، نہیں خریدنی کیونکہ اس میں صفحوں کے صفحوں غلط، اشعار غلط، انشا غلط۔

وغیرہ وغیرہ
 

محمد وارث

لائبریرین
اور اس محفل کے ناظم کی حیثیت سے۔۔۔۔۔۔

ہماری شروع سے پالیسی یہی ہے کہ قوانین کی خلاف ورزی نہ کی جائے اس لیے ہم یہاں کاپی رائٹس والی کتابوں کی اشاعت کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں بلکہ جس کے بارے میں علم ہو جائے کہ کاپی رائٹس فری نہیں ہے یا اجازت نامہ نہیں ہے تو اس کو منظر سے ہٹا دیا جاتا ہے کیونکہ قانون کو غلط سمجھنا ایک بات ہے اور قانون کی خلاف ورزی کرنا دوسری۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے اس مضمون سے ہم نے ایک نیا لفظ سیکھا ہے اسیتصال (ا س ی ت ص ا ل) گو کہ اس لفظ کے معنی نہیں لکھے جناب نے لیکن پھر بھی اس نئے لفظ کے لیے ہم معظم صاحب کے ممنون ہیں۔

جی میرے علم میں بھی اضافہ ہوا :) میں عنوان درست کر رہا ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وعلیکم السلام
مجھے تو خوشی اس بات کی ہے کہ اس پر کوئی آواز اُٹھا رہا ہے - اپنی حد تک کافی کوشش کی اور سنگِ میل پبلیکشن کو ای- میل کرکے
اُن کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تھی - اوردلچسپ بات ایک اُردوفورم جو دھڑلے سے ہرناول کو اسکین کرکے اُس پر اپنانام
واٹرمارک میں لکھ کراپ لوڈ کرنے میں مشہورہے اُن سے اس موضوع پر بات کرکے بین بھی ہوا:) -
بہرحال یہ خوش آئند بات اور میری نیک تمنائیں معظم جاوید صاحب آپ کے ساتھ ہیں

گویا اب آپ بھی بین ہو چکے ہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
دلچسپ گفتگو رہی ہے اس پیچیدہ موضوع پر۔ یہاں ہندوستان میں تو محض وارث کے بیان کردہ تیسرے قسم کے پبلشرس ہی ہیں، جو مصنف کو سو کتابیں دے دیتے ہیں ٰاور آئندہ کسی منافع کی توقع بھی نہیں دیتے)، اور ہمارے مصنف حضرات خوش ہوتے ہیں کہ ان کی کتاب پکی روشنائی میں چھپ رہی ہے۔ صوبائی اردو اکادمیوں سے پانچ دس ہزار روپیوں کی امداد لیتے ہیں اور وہی رقم ان پبلشرس کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔ اور اگر امداد نہ حاصل کی گئی تو وہ رقم اپنے پاس سے ہی دی جاتی ہے۔ ابھی حال ہی میں میرے دوست مصحف اقبال توصیفی نے چوتھا مجموعہ پریس کو دیا ہے، ’ستارہ یا آسمان‘، اور اس کی کمپوزنگ بھی خود ہی کروا کے دہلی بھجوائی۔ کاپی رائٹ کی یہاں کوئی گفتگو ہی نہیں کی جاتی، یہ قبول کر لیا جاتا ہے کہ کاپی رائٹ پبلشر کا ہو گا، اگرچہ اس قسم کا کوئی معاہدہ نہیں کیا جاتا۔
دوسری طرف جو واقعی بڑے پبلشرس ہیں، وہ ادبی کتابوں کو ہاتھ ہی نہیں لگاتے، صرف دینی کتابوں کو چھاپ کر اپنی جنت پکی کر لیتے ہیں۔ایسی دو کتابوں کا میں خود ترجمہ کر چکا ہوں، اردو سے انگریزی میں۔ اور ترجمے کے لئے مجھے تیس روپیہ فی صفحہ ہی دیا گیا!!ٍ
بہر حال بطور ای پبلشر، میری نیت تو صاف ہے ہی۔ بطور پی ڈی ایف کے اصل کتابوں کے سکین تو یقیناً چوری ہے، ہم لوگ تو۔ اردو لائبریری اور برقی کتابیں، محض یونی کوڈ کتابوں کی پبلشنگ کرتے ہیں۔ کہ اسی میں اصل اردو زبان کی ترقی مضمر ہے، محض ادب کی نہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
چہارم - پچھلے کچھ سالوں سے کچھ ناشرین نے ایسی ایسی نایاب کتابیں چھاپنا شروع کی ہیں کہ جن کو دیکھنے کیلیے آنکھیں ترستی تھیں اور ان کا تذکرہ بس کتابوں میں ملتا تھا۔ انہوں نے لائبریریوں سے ان کاپی رائٹس فری کتب کی نقلیں حاصل کر کے چھاپی ہیں اور اوپر لکھ دیا جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ۔ کچھ مضائقہ نہیں، لیکن ان مفت خوروں کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ان پرانی کتابوں پر کوئی محنت نہیں کرتے، ایف اے پاس لڑکوں سے کمپیوٹر میں کمپوزنگ کرواتے ہیں جو ملازمان کو مُلا زمان پڑھتے اور لکھتے ہیں، بنی فاطمہ کو نبی فاطمہ بنا دیتے ہیں اور کوئی بندہ ان کی پروف ریڈنگ نہیں کرتا۔ میں نے بیسیوں ایسی کتابیں خریدنے کے بعد توبہ کر لی ہے اور ایسے ناشرین کی ایک فہرست بھی بنا رکھی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے اور کیسی ہی اور کسی کی کتاب ہی کیوں نہ ہو، نہیں خریدنی کیونکہ اس میں صفحوں کے صفحوں غلط، اشعار غلط، انشا غلط۔
ذرا یہ فہرست ہمیں بھی بھجوا دیجیے تا کہ ہم بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔
 

تعمیر

محفلین
جی میرے علم میں بھی اضافہ ہوا :) میں عنوان درست کر رہا ہوں۔
محترم وارث صاحب ۔۔۔ مضمون کے مواد کے حساب سے تو درست لفظ "استیصال" ہی تھا (گو کہ صاحب مضمون نے اسپیلنگ مسٹیک کی تھی)۔
استحصال اور استیصال میں جو بین فرق ہے ، اس پر غور کیجیے گا کہ صاحب مضمون کتابی صنعت کے exploitation پر نہیں بلکہ اس کے eradication پر شکوہ کناں ہیں!
 
Top