جس کا خیال دل میں ہلچل مچا رہا ہے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سر بڑی نوازش - ان تمام اصولوں سے واقف ہوں اور ان کو مانتا بھی ہوں - بس ایک اور اصول اس میں ایسا ہے جو آپ نے نہیں لکھا اور اس کی ہی وجہ سے لکھا اور دیکھا ہم قافیہ ہوتے ہیں اور وہ اصو ل یہ ہے کہ
اگر حرف ِ روی خود ہی متحرک ہے تو وہی روی ہو گا یعنی پورا روی
-- جیسا کہ آپ نے لکھا روی ، دراصل آخری اصلی حرف اور اس سے پہلے کی آخری حرکت کا مجموعہ تو یہ اصول ساکن حرف روی کی حد تو لازم ہے مگر جب حرفِ روی خود ہی متحرک ہو جیسا کہ دیکھا اور لکھا میں ہے کہ الف ہٹا دیں تو کھَ یعنی کھ مفتوحہ بچتا ہے جو کہ حرف روی ہے تو حرکت بھی شامل ہونے کی وجہ سے وہ خود ہی پورا روی ہے - تو اس قاعدے سے لکھا اور دیکھا ہم قافیہ ہوئے -
یاد رہے کہ اصل آپ کی مثال میں الفاظ دیکھا اور لکھا تھے - ہم نے آخری الف ہٹا کے امر کا صیغہ بنایا تھا تو باقی رہ جانے والے دونوں کھ ساکن نہیں ہیں بلکہ زبر کے ساتھ ہیں یعنی باحرکت ہیں تو پھر یہی پورا روی ہوا - اور یہ روی چونکہ دونوں میں موجود ہے اس لیئے دیکھا اور لکھا ہم قافیہ ہوئے -
اگر یہ الفاظ ہوتے ہی دیکھ اور لکھ - تب تو یہ آپ ہی کے اوپر بتائے ہوئے اصول کے مطابق ہم قافیہ نہیں ہوتے -
قبلہ قادری صاحب ، آپ پھر کنفیوز ہوگئے۔ :)

جو ربط میں نے اپنے پہلے مراسلے میں دیا تھا وہاں تمام گفتگو دو افعال کو مطلع میں قافیہ بنانے کے بارے میں ہے اور دیکھا اور لکھا کی مثال اس ضمن میں دی گئی ہے کہ مطلع کے دونوں مصرعوں میں دو افعال کو قافیہ بناتے وقت ان کے صیغۂ امر کو دیکھا جائے گا کہ وہ ہم قافیہ ہیں یا نہیں ۔ اگر وہ ہم قافیہ نہیں ہیں تو پھر ان دو افعال کو مطلع میں استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔ چنانچہ لکھا اور دیکھا کو مطلع میں بطور قافیہ استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔ آپ اس گفتگو کو ایک بار پھر غور سے دیکھ لیجیے ۔ یہ بات میں نے تفصیل سے اس میں لکھی ہے کہ صیغۂ امر کے آگے زائد حروف لگا کر فعل کے جو صیغے بنائے جاتے ہیں ان کا کوئی اعتبار نہیں ۔ ان زائد حروف کو ہٹا کر صرف صیغۂ امر کو دیکھا جائے گا ۔ چنانچہ مطلع میں دیکھا ، دیکھی ، دیکھتا ، دیکھتی ، دیکھوں ، دیکھیے۔۔۔۔۔۔ لکھا ، لکھی ، لکھتا ، لکھتی ، لکھوں ، لکھیے بالترتیب ایک دوسرے کے قافیے نہیں ہوسکتے ۔ وعلیٰ ھذالقیاس۔ لیکن مثال کے طور پر اگر مطلع میں دیکھا اور سایا کا قافیہ قائم کردیا جائے تو پھربعد کے اشعار میں لکھا ، بھاگا ، چھوڑا وغیرہ قبیل کے افعال کو بطور قافیہ لایا جاسکتا ہے کیونکہ مطلع میں الف کو حرف روی قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ حیلہ بھی اسی مراسلے کے آخر میں وضاحت سے لکھا ہوا ہے۔:)
جناب قادری صاحب ، امید ہے کہ اب مزید واضح ہوگیا ہوگا۔ نہ ہوا ہو تو حکم دیجیے گا ، بہتر ابلاغ کا کوئی اور طریقہ سوچیں گے ۔ :)
 

ارشد رشید

محفلین
سر اس بحث کو نپٹاتا ہوں - میں آپ سے متفق نہیں ہوں - دیکھا او ر لکھا مصدر نہیں بلکہ فعل ِ ماضی ہیں اس میں ماضی کا الف ہٹا کر حرفِ رو ی نکالا جائے گا - جو متحرک ہے اور متحرک حرف ِ روی کا قاعدہ الگ ہے - لہٰذا لکھا اور دیکھا مطلع کے قافیے ہو سکتے ہیں - میرے پاس دو تین حوالے ہیں اس بات کے لیئے تو میں تو اس پر ہی یقین رکھتا ہوں
- حوالہ نمبر ایک ہے مولانا نجم الغنی کی بحرِ الفصاحت - یہ پچھلی صدی کی کتاب ہے - 1400 صفحے کی کتاب تھی اس میں صفحہ نمبر ڈھونڈنا میرے لیے اب مشکل ہے -
- جناب اسامہ سرسری کی کتاب آؤ قافیہ سیکھیں سے بھی یہی سمجھ آتا ہے -
- میری اسامہ سرسری سے یاد اللہ بھی ہے انکو ٹیکسٹ کر کے بھی پوچھ لیا وہ بھی میری بات سے متفق ہیں -

مگر یہ حرفِ آخر نہیں ہے - آپ اپنے قاعدے کو صحیح مان سکتے ہیں - اور اسی کے مطابق رائے دے سکتے ہیں میں اپنے قاعدے کے مطابق رائے دوں گا
یہ علمی اختلاف ہے اس سے ہم میں سے کسی کو کوئ فرق نہیں پڑتا -
مگر مجھے خوشی ہے کہ ایک اور صاحبِ علم سے میری واقفیت ہو گئ -
اللہ خوش رکھے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سر اس بحث کو نپٹاتا ہوں - میں آپ سے متفق نہیں ہوں - دیکھا او ر لکھا مصدر نہیں بلکہ فعل ِ ماضی ہیں اس میں ماضی کا الف ہٹا کر حرفِ رو ی نکالا جائے گا - جو متحرک ہے اور متحرک حرف ِ روی کا قاعدہ الگ ہے - لہٰذا لکھا اور دیکھا مطلع کے قافیے ہو سکتے ہیں - میرے پاس دو تین حوالے ہیں اس بات کے لیئے تو میں تو اس پر ہی یقین رکھتا ہوں
- حوالہ نمبر ایک ہے مولانا نجم الغنی کی بحرِ الفصاحت - یہ پچھلی صدی کی کتاب ہے - 1400 صفحے کی کتاب تھی اس میں صفحہ نمبر ڈھونڈنا میرے لیے اب مشکل ہے -
- جناب اسامہ سرسری کی کتاب آؤ قافیہ سیکھیں سے بھی یہی سمجھ آتا ہے -
- میری اسامہ سرسری سے یاد اللہ بھی ہے انکو ٹیکسٹ کر کے بھی پوچھ لیا وہ بھی میری بات سے متفق ہیں -

مگر یہ حرفِ آخر نہیں ہے - آپ اپنے قاعدے کو صحیح مان سکتے ہیں - اور اسی کے مطابق رائے دے سکتے ہیں میں اپنے قاعدے کے مطابق رائے دوں گا
یہ علمی اختلاف ہے اس سے ہم میں سے کسی کو کوئ فرق نہیں پڑتا -
مگر مجھے خوشی ہے کہ ایک اور صاحبِ علم سے میری واقفیت ہو گئ -
اللہ خوش رکھے
قبلہ قادری صاحب ، اختلافِ رائے آپ اور مجھ سمیت ہر شخص کا حق ہے اور اس کا احترام واجب ہے ۔ سو اس پر تو کوئی بحث نہیں ۔:)
البتہ علمی یا ادبی بحث کے طریق اور آداب میں یہ بات شامل ہے کہ اختلافِ رائے کے موقع پر اپنے موقف کے حق میں دلائل و نظائر دیے جاتے ہیں اور بحث کو ان کی روشنی میں سمیٹا جاتا ہے۔ عروض سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص نے بحرالفصاحت ضرور پڑھی ہے ۔ میرے پاس بھی ایک زمانے سے ہے اور حسبِ ضرورت اسے بھی دیکھتا رہتا ہوں ۔ میں آپ کو پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ مولوی صاحب نے ایسی کوئی بات کہیں نہیں لکھی کہ روی سے پہلے اگر رَدف موجود ہو تو دوسرا قافیہ بغیر رَدف کے لایا جاسکتا ہے ، خواہ روی متحرک ہو یا نہ ہو ۔ دیکھا اور لکھا ایک ہی شعر میں قوافی نہیں ہوسکتے کہ دیکھا میں روی سے پہلے رَدف موجود ہے جبکہ لکھا میں ایسا نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ اساتذہ میں کسی نے بھی اس قسم کے افعال ایک شعر میں بطور قافیہ استعمال نہیں کیے کہ جن کے صیغہ ہائے امر ہم قافیہ نہ ہوں۔ اور یہ عملی دلیل کسی بھی عروضی کتاب میں لکھے کسی اصول سے کہیں بڑھ کر وزنی او زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ تمام کے تمام اساتذہ نے علمِ قافیہ کی تفہیم میں مجموعی طور پر خطا کھائی ہو۔

ویسے اگر آپ کی رائے کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا اور دیکھا کو ایک ہی شعر میں ہم قافیہ مان لیا جائے تو پھر جاگا اور بھیگا بھی درست ہوجائیں گے کہ دونوں میں حرفِ روی گاف متحرک ہوگیا ہے۔ سُنا اور گِنا بھی ہم قافیہ ہوںگے کہ دونوں کا روی متحرک ہوگیا ہے۔ مکانی اور بدنی بھی ہم قافیہ ہوں گے کیونکہ دونوں کا حرفِ روی نون متحرک ہے ۔ اسی طرح علمی اور نامی بھی ہم قافیہ ٹھہریں گے کیونکہ دونوں میں میم متحرک ہے ۔ اسی طرح شاہی اور گروہی بھی ہم قافیہ ہونگے ۔ وغیرہ وغیرہ۔ میرا مطالعہ کم صحیح لیکن میں وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ اساتذہ میں سے کسی نے بھی اس قسم کے قوافی استعمال نہیں کیے۔ بس میں اپنی بات کو یہیں ختم کرتا ہوں ۔
:):):)
 
Top