جس کا خیال دل میں ہلچل مچا رہا ہے

الف عین
@اے آر قادری
عظیم
شکیل احمد خان23
------------
جس کا خیال دل میں ہلچل مچا رہا ہے
سالوں کے بعد مجھ کو وہ یاد آ رہا ہے
-----------
ہو کر وہ دور مجھ سے رہتا ہے پاس میرے
جو سو گئے ہیں جذبے پھر سے جگا رہا ہے
---------
اس نے مجھے تھا چھوڑا میری خطا نہیں تھی
یہ فیصلہ اسی کا اس کو ستا رہا ہے
-----------
بیٹھا ہے دور مجھ سے غیروں کے ساتھ مل کر
نظروں کے تیر لیکن مجھ پر چلا رہا ہے
----------
چہرے پہ اک اداسی اور خوف کے ہیں سائے
بیتی ہے جو بھی اس پر حلیہ بتا رہا ہے
----------
کوئی تو راز ہو گا دشمن کے پاس میرا
آ کر وہ سامنے جو نظریں ملا رہا ہے
---------
بیٹھا ہے پاس میرے غیروں کو دیکھتا ہے
اس کا سلوک میرے دل کو دکھا رہا ہے
----------
سمجھو غلط نہ اس کو وہ بے وفا نہیں ہے
وہ یاد میں تمہاری آنسو بہا رہا ہے
-----------
ارشد تری بھی رخصت شائد قریب تر ہے
وہ ہم عمر تھا تیرا دیکھو جو جا رہا ہے
------------
 
اس کا خیال دل میں ہلچل مچا رہا ہے
سالوں کے بعد مجھ کو وہ یاد آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرقت میں ہر گھڑی وہ یاد۔۔۔۔۔۔۔
-----------
ہو کر وہ دور مجھ سے رہتا ہے پاس میرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہو کر بھی دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو سو گئے ہیں جذبے پھر سے جگا رہا ہے۔۔۔۔۔۔سونے کہاں ہے دیتا ۔۔۔۔۔خیال اُس کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسی چیز۔۔۔۔۔۔ہوتو اچھا ہے
---------
اس نے مجھے تھا چھوڑا میری خطا نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُس نے ہی مجھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسی بات لائیے جناب
یہ فیصلہ اسی کا اس کو ستا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خفت سے اب زمیں میں گڑا ۔۔۔۔۔۔۔یا ۔۔۔۔گڑا سا جارہا ہے جیسی چیزلے آئیں تو لطف دوبالا ہے

بیٹھا ہے دور مجھ سے غیروں کے ساتھ مل کر
نظروں کے تیر لیکن مجھ پر چلا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔نظروں کے تیرپھر بھی مجھ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر اُس کی رغبت ظاہر کرنی ہے
----------نظروں سے پھر بھی مجھ کو کھائے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر اُس کی نفرت ظاہر کرنا ہوتو
چہرے پہ اک اداسی اور خوف کے ہیں سائے۔۔۔۔۔۔چہرے پہ خوف سا ہے اور اک گھنی اداسی ۔۔۔۔۔۔میں زیادہ اثر ہے
بیتی ہے جو بھی اس پر حلیہ بتا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گزری ہے جو بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُس کا حلیہ بتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
----------
کوئی تو راز ہو گا دشمن کے پاس میرا۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی تو میری چوری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے حریف کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لانے کی کوشش کریں
آ کر وہ سامنے جو نظریں ملا رہا ہے۔۔۔۔مجھ کو وہ اِس طرح جو۔۔۔۔۔۔۔آنکھیں دِکھا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کا محل ہے
---------
بیٹھا ہے پاس میرے غیروں کو دیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔غیروں پہ ہے عنایت ۔۔۔جیسی بات ہو تو لطف ہے
اس کا سلوک میرے دل کو دکھا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ربط،رویہ، برتاؤ،راہ۔۔۔۔۔۔۔گویا اِس راہ اور طرح سے بھی عاشق کو ستانامقصود ظاہر کیجیےآپ اپنے شعر میں
اور الفاظ اِس مقصود کو ظاہر کرنے کے لیے یہ ہیں :ربط، رویہ، برتاؤ، راہ، طرح،انداز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلوک کا تو فی الحال یہاں موقع نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمجھو غلط نہ اس کو وہ بے وفا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بیوفا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔تم بدگماں نہ ہونا۔۔۔ میں مزا ہے
وہ یاد میں تمہاری آنسو بہا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرقت میں وہ تمھاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہو تو کیا بات ہے!
-----------
ارشد تری بھی رخصت شائد قریب تر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارشد تری بھی رخصت ہے عنقریب شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور مصرعےکی دیگر ممکنہ صورتیں بھی پیشِ نظر رہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید کا ۔۔۔۔۔۔۔۔شائد۔۔۔۔۔اِملا کرنا ۔۔۔۔شاہدپر ستم ڈھانا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہم عمر تھا تیرا دیکھو جو جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ہم عمر بھی ٹھیک ہے اور۔۔۔۔۔تیری ہی عمرکا تھا۔۔۔لانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔۔گویا:جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی۔۔۔۔۔ مصرعے میں ۔۔ہم عمر تھاتیرا ۔کو۔۔ ہم عمر تھا تیرا ہی۔۔۔۔۔کردیجیے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔کو اِسی مصرعے میں کچھ آگے لیجائیں تو۔۔۔۔۔۔شعر کی ایک ممکنہ صورت یہ بنے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارؔشد تری بھی رخصت ہے عنقریب شاید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم عمر تھا ترا ہی وہ جو کہ جا رہا ہے
۔۔۔۔۔ایک اور ممکنہ صورت:

۔۔۔۔۔۔۔ارؔشد تجھے بھی شاید رخصت کا ہے اشارہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم عمر تھا ترا ہی وہ جو کہ جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر کہیں ہلکی سی دولختی محسوس ہو تو اِس شعر کو یوں کردیجیے :
ارؔشدتجھے یہ شاید رخصت کا ہے اِشارہ/ارشد تجھے بھی شاید رخصت کا ہے اِشارہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم عمر تھا ترا ہی وہ جو کہ جارہا ہے۔۔۔حالاں کہ پہلے مصرعے میں رخصت سے مراد موت اور دوسرے میں اشارہ ایک جنازے کی طرف ہے جو جاتے ہوئے دیکھ کر یہ کہا جارہا ہے مگر یہ اصل مدعا۔۔۔۔۔۔یہ بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ آپ کے شعر اورنہ ہی میرے مشورےمیں واضح ہے کہ۔۔۔۔۔وہ جو کہ جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔زندہ ہے کہ مُردہ،لاشہ ہے کہ جنازہ۔۔۔وہ جارہا ہے کہ لیجایا جارہا ہے لہٰذا اِس شعر پرسرمغزنی کے لیے وقت درکار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب خدا حافظ ۔۔۔۔اللہ تعالیٰ آپ کو ایمانی اور جسمانی قوت کے ساتھ تادیر سلامت رکھے، آمین۔
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
بہت خوب ارشد بھائی
ماشاء اللہ یہ غزل پہلی غزلوں کی نسبت بہت بہتر معلوم ہوتی ہے

جس کا خیال دل میں ہلچل مچا رہا ہے
سالوں کے بعد مجھ کو وہ یاد آ رہا ہے
----------- دوسرے میں پھر، آج، اب جیسے الفاظ کی معنویت درکار ہے، شکیل احمد خان23 کا مجوزہ مصرع بحر میں نہیں لگ رہا۔
جب خیال ہلچل آلریڈی مچا رہا ہے تو یاد آنا بے معنی لگتا ہے، اس پر غور کریں شعر بہتر ہو سکتا ہے

ہو کر وہ دور مجھ سے رہتا ہے پاس میرے
جو سو گئے ہیں جذبے پھر سے جگا رہا ہے
--------- ہو کر بھی دور۔۔ واقعی رواں صورت ہے، دوسرا مصرع
جذبے جو سو گئے تھے...

اس نے مجھے تھا چھوڑا میری خطا نہیں تھی
یہ فیصلہ اسی کا اس کو ستا رہا ہے
-----------یہاں بھی شکیل احمد خان23 صاحب سے متفق ہوں، پہلے مصرع کی روانی 'اس نے ہی مجھ کو' سے بہتر ہوتی ہے، خود بھی اسی طرح بدل بدل کر مصرع بنا کر دیکھیں تو مجھے اور شکیل بھائی کو ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے!
دوسرے مصرع کی بھی کئی صورتیں بنائی جا سکتی ہیں جیسا بتایا بھی گیا ہے، مزید صورتیں
تھا فیصلہ اسی کا جس کو...
اس کا ہی فیصلہ تھا جس کو...

بیٹھا ہے دور مجھ سے غیروں کے ساتھ مل کر
نظروں کے تیر لیکن مجھ پر چلا رہا ہے
---------- نظروں کی تیر پھر بھی، شکیل صاحب کا مشورہ پسند آیا

چہرے پہ اک اداسی اور خوف کے ہیں سائے
بیتی ہے جو بھی اس پر حلیہ بتا رہا ہے
---------- مجھے تو شاید کچھ کہنا ہی نہیں چاہیے تھا! بھائی شکیل احمد خان23 نے ہی ماشاء اللہ خوب مشورے دے رکھے ہیں، پہلا مصرع 'گھنی اداسی' اور دوسرا 'گزری ہے' کے ساتھ بہتر رہے گا


کوئی تو راز ہو گا دشمن کے پاس میرا
آ کر وہ سامنے جو نظریں ملا رہا ہے
---------اس میں وضاحت کی کمی لگی ہے،
چوری دشمن کے پاس ہونا بھی خلاف محاورہ لگ رہا ہے، آنکھیں دکھانا بھی کچھ سوٹ کرتا ہوا معلوم نہیں ہوتا
شعر نکالا بھی جا سکتا ہے اگر بہتری کی کوئی صورت نہ نکلے تو

بیٹھا ہے پاس میرے غیروں کو دیکھتا ہے
اس کا سلوک میرے دل کو دکھا رہا ہے
---------- تقابل ردیفین یعنی دونوں مصرعوں کے اختتام پر 'ہے' کا آنا بھی ختم کر سکیں تو خوب ہے، یہ چیز ختم کر لیں تو میرا خیال ہے کہ شعر قبول کیا جا سکتا ہے

سمجھو غلط نہ اس کو وہ بے وفا نہیں ہے
وہ یاد میں تمہاری آنسو بہا رہا ہے
-----------متفق شکیل احمد خاں صاحب سے! بس کسی طرح 'بھی' کی معنویت جیسے الفاظ یا 'بھی' کو ہی دوسرے مصرع میں ایڈ کر لیا جائے، یعنی صرف شاعر ہی نہیں غمزدہ دوسرا بھی پریشان ہے
ہاں، دونوں مصرعوں کے اختتام پر ایک ہی لفظ (ہے) یہاں بھی آ رہا ہے

ارشد تری بھی رخصت شائد قریب تر ہے
وہ ہم عمر تھا تیرا دیکھو جو جا رہا ہے
میرا خیال ہے کہ پہلا مصرع
ارشد تری بھی رخصت شاید قریب ہے اب
اور دوسرا
تیری ہی عمر کا اک دنیا سے جا رہا ہے
//عمر کا تلفظ آپ غلط کر رہے تھے، اس لیے الفاظ کی نشست بدلنے کی ضرورت تھی
 
عظیم
اصلاح
------------
جس کا خیال دل میں ہلچل مچا رہا ہے
سالوں کے بعد مجھ کو پھر یاد آ رہا ہے
----------
ہو کر بھی دور مجھ سے رہتا ہے پاس میرے
جذبے جو سو گئے تھے پھر سے جگا رہا ہے
-----------
اس نے ہی مجھ کو چھوڑا میری خطا نہیں تھی
خفّت سے آج خود ہی نظریں جھکا رہا ہے
-----------
بیٹھا ہے دور مجھ سے غیروں کے ساتھ مل کر
نظروں کے تیر پھر بھی مجھ پر چلا رہا ہے
----------
چہرے پہ خوف سا ہے اور اک گھنی اداسی
گزری ہے جو بھی اس پر حلیہ بتا رہا ہے
-------------
مجھ سے خفا خفا سا غیروں پہ ہے عنایت
اس کا سلوک میرے دل کو دکھا رہا ہے
-----------
وہ بے وفا نہیں ہے تم بد گماں نہ ہونا
وہ یاد میں تمہاری آنسو بہا رہا ہے
-----------
ارشد تری بھی رخصت شاید قریب ہے اب
تیری ہی عمر کا اک دنیا سے جا رہا ہے
----------------
 

ارشد رشید

محفلین
جس کا خیال دل میں ہلچل مچا رہا ہے
سالوں کے بعد مجھ کو وہ یاد آ رہا ہے
ارشد صاحب - یہاں بھی وہی مسئلہ ہے کہ مطلع کے قافییے غلط ہیں - آپ نے مچا اور آ کو قافیہ کیا ہے - مچا کو دیکھیں - اس میں آخری الف ماضی بنانے کے لیئے لگا ہے سو وہ حرف اصلی نہیں ہے - اسکا بعد والا چَ آپ کا حرفِ روی ہے - یعنی چ مفتوحہ - اس کا قافیہ آپ نے آ رکھا ہے جو کہ اصل میں ہے الف مفتوح جمع الف ساکن - تو اَ چَ کا قافیہ نہیں ہوتا - سب سے پہلے مطلع ٹھیک کریں باقی اشعار کے قافیے اسی سے کی نسبت سے طئے ہوں گے-
 
محترم صحیح قوافی کے چند الفاظ بتا دیجئے کیونکہ کوئی بھی ہم آواز لفظ لاؤں گا تو اس آ تو آئے گا
خوابوں میں آ کے میرے مجھ کو ستا رہا ہے
ملنے کے اس طرح بہانے بنا رہا ہے
---------
کیا اس طرح چل سکتا ہے
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جس کا خیال دل میں ہلچل مچا رہا ہے
سالوں کے بعد مجھ کو پھر یاد آ رہا ہے
ارشد صاحب - یہاں بھی وہی مسئلہ ہے کہ مطلع کے قافییے غلط ہیں - آپ نے مچا اور آ کو قافیہ کیا ہے - مچا کو دیکھیں - اس میں آخری الف ماضی بنانے کے لیئے لگا ہے سو وہ حرف اصلی نہیں ہے - اسکا بعد والا چَ آپ کا حرفِ روی ہے - یعنی چ مفتوحہ - اس کا قافیہ آپ نے آ رکھا ہے جو کہ اصل میں ہے الف مفتوح جمع الف ساکن - تو اَ چَ کا قافیہ نہیں ہوتا - سب سے پہلے مطلع ٹھیک کریں باقی اشعار کے قافیے اسی سے کی نسبت سے طئے ہوں گے-

قادری صاحب، اس غزل کے قوافی میں تو کوئی گڑبڑ نہیں ہے۔ سب درست ہیں۔
 

ارشد رشید

محفلین
قادری صاحب، اس غزل کے قوافی میں تو کوئی گڑبڑ نہیں ہے۔ سب درست ہیں۔
ہو سکتا ہے سر آپ صحیح کہہ رہے ہوں - پھر آپ ہی میری اصلاح کر دیں - مچا کا روی چ مفتوح ہے تو وہ آ کے الف مفتوح کا قافیہ کیسے ہوگا ؟
اگر ہو سکتا ہے تو میں معذرت کے ساتھ رجوع کر لونگا -
 

ارشد رشید

محفلین
قادری صاحب، اس غزل کے قوافی میں تو کوئی گڑبڑ نہیں ہے۔ سب درست ہیں۔
جناب اس کا آسان سا قاعدہ یہ ہے کہ پھر آپ مطلع میں ایسا لفظ لائیں جس میں آخر کا الف ، حرف اصلی ہو کسی ماضی یا کسی اور وجہ سے نہ آیا ہوا
مثلا دیکھیں اگر آپ استعمال کریں بُلا رہا ہے تو بلا کا الف ہٹائیں تو بچا بُل جو کہ ایک الگ لفظ ہوگیا - مطلب بُلا لفظ میں آخری اصلی حرف الف ساکن ہے تو بس آپ کے سارے قافیئے درست ہو گئے -
جیسے یوں
یادوں کی چلمنوں سے کوئی بُلا رہا ہے
مدت کے بعد مجھ کو وہ یاد آ رہا ہے

اب آپ سکون سے آ، جگا، چکا، لگا وغیرہ قافیہ استعمال کر سکتے ہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
استاد صاحب کو دیکھ لیتے ہیں کہ وہ کیا فرماتے ہیں۔

لیکن تب تک کے لیے اختر شیرانی کا ایک شعر مثال کے طور پر پیش کرتا چلوں۔

مری شام غم کو وہ بہلا رہے ہیں
لکھا ہے یہ خط میں کہ ہم آ رہے ہیں
 

عظیم

محفلین
جس کا خیال دل میں ہلچل مچا رہا ہے
سالوں کے بعد مجھ کو پھر یاد آ رہا ہے
----------قافیہ مجھے بھی درست ہی لگتا ہے، حرف روی کے بھول بھلیے میری سمجھ میں بھی نہیں آتے
البتہ مطلع ابھی بھی گڑبڑ کا شکار ہے
دوسرا مصرع
کیونکر وہ بھول کر بھی، پھر یاد....
اب کس لیے وہ مجھ کو، پھر یاد....
یا اس طرح کا کچھ اور سوچا جائے، شعر میں کچھ جان پیدا کرنے کے لیے

ہو کر بھی دور مجھ سے رہتا ہے پاس میرے
جذبے جو سو گئے تھے پھر سے جگا رہا ہے
-----------میرے مشورہ کے مطابق ہی ہو گیا ہے لیکن دوسرے مصرع سے مطمئن نہیں ہوں، بطور خاص دوسرے مصرع کا دوسرا ٹکڑا، عجز بیانی کا شکار لگتا ہے
صرف 'پھر سے جگا' سے بات مکمل نہیں ہو رہی، انہیں پھر سے وہ جگا رہا ہے مکمل بیانیہ ہو گا
کوئی اور گرہ لگا کر دیکھ لیں

اس نے ہی مجھ کو چھوڑا میری خطا نہیں تھی
خفّت سے آج خود ہی نظریں جھکا رہا ہے
-----------یہ فیصلہ اسی کا، اس متبادل پر بھی غور کریں، بہتر معلوم ہوتا ہے

بیٹھا ہے دور مجھ سے غیروں کے ساتھ مل کر
نظروں کے تیر پھر بھی مجھ پر چلا رہا ہے
----------ٹھیک ہو گیا ہے

چہرے پہ خوف سا ہے اور اک گھنی اداسی
گزری ہے جو بھی اس پر حلیہ بتا رہا ہے
-------------گزری ہے اس پہ جو بھی.... یا، گزری ہے اس پہ کیا کیا/ گزری جو اس پہ اس کا حلیہ.... آخری متبادل میرے مجوزہ مصرعوں میں سے مجھے بہتر لگتا ہے

مجھ سے خفا خفا سا غیروں پہ ہے عنایت
اس کا سلوک میرے دل کو دکھا رہا ہے
-----------صرف ایک خفا لائیں، دو اچھے نہیں لگے، مجھ سے خفا ہے لیکن...
دوسرے میں بھی کسی طرح ایسا سلوک ایسا رویہ لایا جائے، مثلاً اس کا یہی رویہ/اس کا سلوک ایسا، وغیرہ

وہ بے وفا نہیں ہے تم بد گماں نہ ہونا
وہ یاد میں تمہاری آنسو بہا رہا ہے
----------- اب بھی بات نہیں بنی، شاید کوئی تبدیلی ہی نہیں کی گئی!

ارشد تری بھی رخصت شاید قریب ہے اب
تیری ہی عمر کا اک دنیا سے جا رہا ہے
ٹھیک ہو گیا ہے
 
جس کا خیال دل میں ہلچل مچا رہا ہے
سالوں کے بعد مجھ کو وہ یاد آ رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔1۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کا خیال دل میں ہل چل مچا رہا ہے
سالوں کے بعد ۔ملنے شاید وہ آرہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کا خیال۔ دل کو گلشن بنا رہا ہے
بن کر بہار۔ شاید وہ خود بھی آ رہا ہے

اُستادِ محترم کی رائے کاانتظار اور کرلیا جائے ۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ارشد صاحب - یہاں بھی وہی مسئلہ ہے کہ مطلع کے قافییے غلط ہیں - آپ نے مچا اور آ کو قافیہ کیا ہے - مچا کو دیکھیں - اس میں آخری الف ماضی بنانے کے لیئے لگا ہے سو وہ حرف اصلی نہیں ہے - اسکا بعد والا چَ آپ کا حرفِ روی ہے - یعنی چ مفتوحہ - اس کا قافیہ آپ نے آ رکھا ہے جو کہ اصل میں ہے الف مفتوح جمع الف ساکن - تو اَ چَ کا قافیہ نہیں ہوتا - سب سے پہلے مطلع ٹھیک کریں باقی اشعار کے قافیے اسی سے کی نسبت سے طئے ہوں گے-

ہو سکتا ہے سر آپ صحیح کہہ رہے ہوں - پھر آپ ہی میری اصلاح کر دیں - مچا کا روی چ مفتوح ہے تو وہ آ کے الف مفتوح کا قافیہ کیسے ہوگا ؟
اگر ہو سکتا ہے تو میں معذرت کے ساتھ رجوع کر لونگا -

جناب اس کا آسان سا قاعدہ یہ ہے کہ پھر آپ مطلع میں ایسا لفظ لائیں جس میں آخر کا الف ، حرف اصلی ہو کسی ماضی یا کسی اور وجہ سے نہ آیا ہوا
مثلا دیکھیں اگر آپ استعمال کریں بُلا رہا ہے تو بلا کا الف ہٹائیں تو بچا بُل جو کہ ایک الگ لفظ ہوگیا - مطلب بُلا لفظ میں آخری اصلی حرف الف ساکن ہے تو بس آپ کے سارے قافیئے درست ہو گئے -
جیسے یوں
یادوں کی چلمنوں سے کوئی بُلا رہا ہے
مدت کے بعد مجھ کو وہ یاد آ رہا ہے

اب آپ سکون سے آ، جگا، چکا، لگا وغیرہ قافیہ استعمال کر سکتے ہیں
جناب قبلہ قادری صاحب! مزاج بخیر۔ آپ کو بزمِ سخن میں سرگرم دیکھ کر انتہائی مسرت ہوئی ۔ امید ہے کہ آپ تادیر رونقِ محفل رہیں گے اور آپ سے گفت و شنید ہوتی رہے گی ۔ ایک دوست نے میری توجہ آپ کے ان مراسلات اور قافیے کے بارے میں اٹھائے گئے سوال کی جانب مبذول کروائی ہے ۔چونکہ آپ کی یہ گفتگو اصلاحِ سخن کے زمرے میں ہے اور بہت سارے مبتدی اور نو آموز شعرا یہاں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اس لیے میں نے مناسب جانا کہ اس مسئلے پر کچھ معروضات پیش کروں ۔
جس کا خیال دل میں ہلچل مچا رہا ہے
سالوں کے بعد مجھ کو وہ یاد آ رہا ہے
اس مطلع کے قوافی بالکل درست ہیں اور ان میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ مطلع میں افعال کو قافیہ بنانے کے بارے میں آپ کی تفہیم ٹھیک نہیں ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ "مچا" صیغۂ ماضی نہیں ہے بلکہ امر کا صیغہ ہے ۔ مچانا کا صیغۂ ماضی "مچایا" ہوتا ہے۔چنانچہ مچا کا حرفِ روی "چ" نہیں ہے بلکہ الف ہے ۔ یہ الف حرفِ اصلی ہے یعنی یہ اضافی نہیں بلکہ اصل حرف کا حصہ ہے ۔
مختصر یہ کہ مطلع میں دو افعال کو قافیہ بناتے وقت ان کے صیغۂ امر کو دیکھا جاتا ہے کہ آیا وہ ہم قافیہ ہیں یا نہیں ۔ مچانا ، آنا ،جانا،بھگانا، سجانا، کمانا، دکھانا ، لٹانا وغیرہ کے آخر سے اگر صرفی علامتِ مصدر "نا " کو ہٹادیا جائے تو ان کے صیغہ ہائے امر مچا ،آ، جا ،بھگا، سجا ، کما ، دکھا ، لٹا وغیرہ حاصل ہوں گے اور یہ سب ہم قافیہ ہیں ۔ اس بارے میں تفصیل کے لیے میرا ایک پرانا مراسلہ اس جگہ دیکھ لیجیے۔ اس کے بعد بھی اگر ذہن میں کچھ اشکالات ہوں تو حکم دیجیے گا ، میں حاضر ہوجاؤں گا ۔:):):)
 

ارشد رشید

محفلین
جناب ِ من آپ کا یہ تفصیلی جواب پڑھ کر دل خوش ہوگیا - فی زمانہ ان امور کے ماہرین کم کم ہی دستیاب ہیں اور آج مجھے بھی اک مل گیا :)
سر آپ کی تفہیم سے میں اپنے آپ کو متفق پاتا ہوں اور اپنے اعتراض سے رجوع کرتا ہوں - آپ صحیح کہہ رہے ہیں - میں غلط تھا -
جزاک اللہ خیر -
 

ارشد رشید

محفلین
جناب قبلہ قادری صاحب! مزاج بخیر۔ آپ کو بزمِ سخن میں سرگرم دیکھ کر انتہائی مسرت ہوئی ۔ امید ہے کہ آپ تادیر رونقِ محفل رہیں گے اور آپ سے گفت و شنید ہوتی رہے گی ۔ ایک دوست نے میری توجہ آپ کے ان مراسلات اور قافیے کے بارے میں اٹھائے گئے سوال کی جانب مبذول کروائی ہے ۔چونکہ آپ کی یہ گفتگو اصلاحِ سخن کے زمرے میں ہے اور بہت سارے مبتدی اور نو آموز شعرا یہاں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اس لیے میں نے مناسب جانا کہ اس مسئلے پر کچھ معروضات پیش کروں ۔
جس کا خیال دل میں ہلچل مچا رہا ہے
سالوں کے بعد مجھ کو وہ یاد آ رہا ہے
اس مطلع کے قوافی بالکل درست ہیں اور ان میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ مطلع میں افعال کو قافیہ بنانے کے بارے میں آپ کی تفہیم ٹھیک نہیں ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ "مچا" صیغۂ ماضی نہیں ہے بلکہ امر کا صیغہ ہے ۔ مچانا کا صیغۂ ماضی "مچایا" ہوتا ہے۔چنانچہ مچا کا حرفِ روی "چ" نہیں ہے بلکہ الف ہے ۔ یہ الف حرفِ اصلی ہے یعنی یہ اضافی نہیں بلکہ اصل حرف کا حصہ ہے ۔
مختصر یہ کہ مطلع میں دو افعال کو قافیہ بناتے وقت ان کے صیغۂ امر کو دیکھا جاتا ہے کہ آیا وہ ہم قافیہ ہیں یا نہیں ۔ مچانا ، آنا ،جانا،بھگانا، سجانا، کمانا، دکھانا ، لٹانا وغیرہ کے آخر سے اگر صرفی علامتِ مصدر "نا " کو ہٹادیا جائے تو ان کے صیغہ ہائے امر مچا ،آ، جا ،بھگا، سجا ، کما ، دکھا ، لٹا وغیرہ حاصل ہوں گے اور یہ سب ہم قافیہ ہیں ۔ اس بارے میں تفصیل کے لیے میرا ایک پرانا مراسلہ اس جگہ دیکھ لیجیے۔ اس کے بعد بھی اگر ذہن میں کچھ اشکالات ہوں تو حکم دیجیے گا ، میں حاضر ہوجاؤں گا ۔:):):)
سر اس ضمن میں ایک سوال ہے - آ پ نے جو لنک دیا ہے اس میں آپ نے لکھا ہے
ٌاسی طرح دیکھا اور لکھا بھی قوافی نہیں ہوسکتے کہ دیکھ اور لکھ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔ٌٌٌ
دیکھا اور لکھا کا امر دیکھ اور لکھ ہے - اس میں حرف روی کھ مفتوح ہے (بلکہ یہی پورا روی) جو کہ دونوں میں موجود ہے - تو پھر یہ قافیے کیوں نہ ہوئے ؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سر اس ضمن میں ایک سوال ہے - آ پ نے جو لنک دیا ہے اس میں آپ نے لکھا ہے
ٌاسی طرح دیکھا اور لکھا بھی قوافی نہیں ہوسکتے کہ دیکھ اور لکھ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔ٌٌٌ
دیکھا اور لکھا کا امر دیکھ اور لکھ ہے - اس میں حرف روی کھ مفتوح ہے (بلکہ یہی پورا روی) جو کہ دونوں میں موجود ہے - تو پھر یہ قافیے کیوں نہ ہوئے ؟
بھائی ، قافیہ ہم آواز الفاظ کو کہتے ہیں ۔

قافیے کی سادہ ترین اور بنیادی شکل ایک حرف اور ایک حرکت سے قائم ہوتی ہے ۔ یعنی حرفِ روی اور اس سے ماقبل کی حرکت ۔ چَل ، ڈَھل ، پاگل ، جنگل ، پیدل ہم قافیہ ہیں کہ ان میں لام سے پہلے زبر کی حرکت مشترک ہے۔ روی سے ماقبل حرف کی اس حرکت کو اصطلاحاً توجیهه كهتے هیں ۔ روی اور توجیهه دونوں كا ہر قافیے میں جوں کا توں موجود ہونا لازمی ہے ورنہ قافیہ نہیں بنے گا۔ چنانچه پاگل كا قافیه ساحل نهیں هوسكتا كیونكه ان میں روی تو مشترك هے لیكن توجیهه میں زبر اور زیر کا اختلاف هے ۔ وعلٰی ھذا القیاس ۔
اسی بات کو ایک پرانے مراسلے میں یہاں ذرا تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ اسے بھی دیکھ لیجیے ۔

حرفِ روی سے قبل اگر ساکن حرفِ علت ( الف ، ی، ے ، و) آجائے تو اسے اصطلاح میں رَدَف کہتے ہیں ۔ مثلا دار ، بیمار ، اقرار ۔۔۔۔۔۔ تیر ، ضمیر ، اسیر ۔۔۔۔۔ نور ، سرور ، غرور وغیرہ ۔
حرفِ روی کے ساتھ حرفِ ردف کی تکرار ہونا بھی ہر قافیے میں لازمی ہے ۔ حرفِ ردف سے ماقبل کی حرکت کو اصطلاح میں حذو کہتے ہیں ۔ چنانچہ حذو کی پابندی بھی لازمی ہے ۔ ۔ بہ الفاظِ دیگر تیر اور کھیر کا قافیہ سیر اور دیر نہیں ہوسکتے ۔ یعنی یائے مجہول اور یائے معروف کو ہم قافیہ نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی اصول واؤ معروف اور واؤ مجہول کےلیے بھی ہے ۔ یعنی نور اور سرور کا قافیہ شور اور جور لانا جائز نہیں ۔
چنانچہ دیکھ اور لکھ اس لیے ہم قافیہ نہیں ہوسکتے کہ دیکھ میں حرفِ روی سے قبل ردف موجود ہے جبکہ لکھ میں ردف نہیں ہے ۔ اور یہ بات ہم پہلے لکھ چکے کہ روی سے قبل اگر ردف موجود ہو تو نہ صرف ہر قافیے میں ردف کی تکرار بلکہ ردف کے ماقبل کی حرکت یعنی حذو کی تکرار بھی لازمی ہے۔
قادری صاحب ، اگر اس کے بعد بھی کوئی سوال باقی رہے تو ارشاد فرمائیے گا میں مزید تفصیل سے لکھنے کی کوشش کروں گا۔ :)
 

ارشد رشید

محفلین
سر بڑی نوازش - ان تمام اصولوں سے واقف ہوں اور ان کو مانتا بھی ہوں - بس ایک اور اصول اس میں ایسا ہے جو آپ نے نہیں لکھا اور اس کی ہی وجہ سے لکھا اور دیکھا ہم قافیہ ہوتے ہیں اور وہ اصو ل یہ ہے کہ
اگر حرف ِ روی خود ہی متحرک ہے تو وہی روی ہو گا یعنی پورا روی
-- جیسا کہ آپ نے لکھا روی ، دراصل آخری اصلی حرف اور اس سے پہلے کی آخری حرکت کا مجموعہ تو یہ اصول ساکن حرف روی کی حد تو لازم ہے مگر جب حرفِ روی خود ہی متحرک ہو جیسا کہ دیکھا اور لکھا میں ہے کہ الف ہٹا دیں تو کھَ یعنی کھ مفتوحہ بچتا ہے جو کہ حرف روی ہے تو حرکت بھی شامل ہونے کی وجہ سے وہ خود ہی پورا روی ہے - تو اس قاعدے سے لکھا اور دیکھا ہم قافیہ ہوئے -
یاد رہے کہ اصل آپ کی مثال میں الفاظ دیکھا اور لکھا تھے - ہم نے آخری الف ہٹا کے امر کا صیغہ بنایا تھا تو باقی رہ جانے والے دونوں کھ ساکن نہیں ہیں بلکہ زبر کے ساتھ ہیں یعنی باحرکت ہیں تو پھر یہی پورا روی ہوا - اور یہ روی چونکہ دونوں میں موجود ہے اس لیئے دیکھا اور لکھا ہم قافیہ ہوئے -
اگر یہ الفاظ ہوتے ہی دیکھ اور لکھ - تب تو یہ آپ ہی کے اوپر بتائے ہوئے اصول کے مطابق ہم قافیہ نہیں ہوتے -
 
۔۔۔۔۔۔۔۔1۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کا خیال دل میں ہل چل مچا رہا ہے
سالوں کے بعد ۔ملنے شاید وہ آرہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کا خیال۔ دل کو گلشن بنا رہا ہے
بن کر بہار۔ شاید وہ خود بھی آ رہا ہے

اُستادِ محترم کی رائے کاانتظار اور کرلیا جائے ۔۔۔۔۔
بہت خوبصورت شکیل بھائی
 
Top