سیما علی

لائبریرین
فخر آدم و بنی آدم کی تعمیر کعبہ میں شرکت۔۔۔

بیت اللہ کی پہلی بنیاد اس طرح رکھی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المعمور کو جو کہ یاقوت سرخ تھا نازل فرما کر کعبہ کی جگہ رکھوایا۔ پھر اس کو آسمان پر اٹھایا گیا اور اس جگہ حضرت آدم علیہ السلام نے مکان تیار کیا اور ان کے بعد ان کی اولاد نے گارے اور پتھر سے اسے تعمیر کیا۔ طوفان نوح علیہ السلام میں وہ مکان غرق ہو گیا اور اس جگہ صرف ایک ٹیلہ رہ گیا جس پر بارش و سیلاب وغیرہ کا پانی نہیں چڑھتا تھا۔ بعد ازاں حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام نے اسے تعمیر کیا ۔ اس کے بعد عمالقہ اور پھر جرہم نے سعادت تعمیر حاصل کی اور آخر میں قریش نے اس کو ازسر نو تعمیر کیا۔
سرور کائنات فخر موجودات علیہ افضل الصلوٰت والتسلیمات پینتیس سال کی عمر کو پہنچے تو قریش نے کعبہ مبارکہ کو شہید کر کے نئے سرے سے تعمیر کرنا شروع کیا، کیونکہ اس کی دیواریں سیلاب و طغیانی کی وجہ سے کمزور پڑ گئی تھیں۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام بھی ان کے ہمراہ پتھر لاتے رہے اور تعمیر میں عملی طور پر حصہ لیا۔ جب دیواریں حجر اسود کی بلندی تک پہنچیں اور اس کے نصب کرنے کا مرحلہ آیا تو باہم جھگڑا پیدا ہوا (ہر قبیلہ کی خواہش تھی کہ اسے اپنی جگہ نصب کرنے کی سعادت صرف ہمیں نصیب ہو) حتیٰ کہ جنگ و جدال اور قتل کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔
چند دن اسی طرح گزرے پھر باہم مشورہ کیا تاکہ کوئی حل تلاش کیا جائے۔ ابو امیہ بن المغیرہ نے جو قریش کا سردار تھا ، کہا کہ جو شخص پہلے پہل مسجد حرام کے دروازہ سے اندر آئے اس کو اپنا حکم اور فیصلہ کرنے والا تسلیم کر لو۔ چنانچہ سب سے پہلے جو ہستی مسجد حرام میں داخل ہوئی وہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی تھی۔ جب لوگوں نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگے ، یہ امین ہیں ہم ان کے فیصلہ پر راضی ہیں (اور قریش آپ کو نزول وحی اور دعویٰ نبوت سے قبل امین کہہ کر پکارتے تھے)۔ جب آپ پہنچے اور انہوں نے اپنے مشورہ اور فیصلہ کا آپ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا، ایک کپڑا لے آؤ۔ جب وہ لایا گیا تو آپ نے حجر اسود کو اٹھاکر اس چادر پر رکھا۔ پھر فرمایا کہ ہر قبیلہ کپڑے کا ایک کنارہ پکڑ کر اسے اٹھائے۔ جب حجر اسود کے نصب کرنے والی جگہ کے قریب تک اٹھایا گیا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے اس کو اپنی جگہ پر نصب کر دیا اور پھر باقی تعمیر پایہ تکمیل تک پہنچی (اور اس طرح رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے جنگ و جدال سے امن نصیب ہوا)۔

(الوفا باحوال المصطفےٰ ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
جزاک اللّہ خیرا کثیرا

مِرے مصطفٰے! ﷺمجتبٰے، جانِ عالَم
نہیں کوئی بھی تجھ سے بڑھ کے مکرم
تو فخرِ بنی آدم و فخرِ آدم
’’ترے درکار درباں ہے جبریل اعظم
ترا مدح خواں ہر نبی و ولی ہے‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
حجر اسود کے نصب کرنے والی جگہ کے قریب تک اٹھایا گیا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے اس کو اپنی جگہ پر نصب کر دیا

یہ جنت کا پتھر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے گناہ جذب کرنے کی عجیب تاثیر رکھی ہے، چناں چہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’نَزَلَ الْحَجْرُ الأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّة وَهو اَشَدُّ بَیَاضاً مِنَ اللَّبَنِ، فَسَوَّدَتْه خَطَایَا بَنِيْ اٰدَمَ‘‘. (رواہ الترمذی ۸۷۷، الترغیب والترہیب: ۲۷۰)
ترجمہ: جس وقت حجر اسود جنت سے اترا تو وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، پھر آدمیوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا۔
اور ترمذی شریف کی ایک روایت میں ہے کہ ’’حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم جنت کے یاقوتوں میں دو یاقوت ہیں، اگر اللہ تعالیٰ ان کی روشنی کو ختم نہ فرماتے تو یہ پوری زمین وآسمان کو روشن کردیتے‘‘۔( ترمذی شریف :۸۸۷، الترغیب والترہیب : ۲۷۰)
نیز یہ بھی مروی ہے کہ حجرِ اسود قیامت کے دن اپنے بوسہ لینے اور استلام کرنے والوں کے حق میں سفارش کرے گا اور اس دن اللہ تعالیٰ اس کو زبان اور ہونٹ عطا فرمائیں گے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’أَشْهِدُوْا هذا الْحَجَرَ خَیَراً؛ فَإِنَّه یَوْمَ الْقِیَامَة شَافِعٌ یَشْفَعُ، لَه لِسَانٌ وَشَفَتَانِ یَشْهد لِمَنْ اِسْتَلَمَه‘‘. (رواہ الطبرانی فی الاوسط عن عائشۃؓ، الترغیب والترہیب: ۲۷۰)
ترجمہ: اس حجرِ اسود کو اپنے عملِ خیر کا گواہ بنالو؛ کیوں کہ قیامت کے دن یہ سفارشی بن کر (اللہ کے دربار میں) اپنے استلام کرنے والوں کے لیے سفارش کرے گا، اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے۔
پیغمبر علیہ السلام سےحجرِ اسود کا بوسہ دیتے وقت رقت وزاری بھی ثابت ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تقبیل واستلام کو گویاکہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کرنا قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’مَنْ فَاوَضَه؛ فَاِنَّمَا یُفَاوِضُ یَدَ الرَّحْمٰنِ‘‘. (رواہ ابن ماجہ ۲۹۵۷، الترغیب والترہیب: ۲۶۸)
ترجمہ: جو شخص حجرِ اسود کو ہاتھ لگائے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کررہا ہے۔
بریں بنا حجرِ اسود کی تقبیل/ استلام کا کمالِ استحضار کے ساتھ اہتمام کرنا چاہیے، بھیڑ کا موقع نہ ہو اور سہولت سے بوسہ لینا ممکن ہو تو قریب جاکر بوسہ لیں، اور اگر بھیڑ زیادہ ہو تو دور ہی سے استلام کرلیں، اس سے بھی بوسہ کے برابر ہی ثواب ملتا ہے۔
 

الشفاء

لائبریرین
معراج مصطفےٰ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔

معراج رجب المرجب کی ستائیسویں رات کو ہوا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شب اسراء کا واقعہ یوں نقل کرتے ہیں کہ سرور انبیاء علیہ التحیۃ والثناء نے فرمایا، اس وقت جب میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا، میرے پاس ایک آنے والا آیا جو اپنے ساتھ والے کو کہہ رہا تھا " یہ ہیں وہ شخص جو دو آدمیوں کے درمیان لیٹے ہوئے ہیں"۔فرمایا، پھر وہ میرے پاس آئے اور میرے سینہ اقدس کو یہاں سے وہاں تک چیرا۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے جارود سے کہا جو کہ میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے، اس سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا کہ سینہ کے منتہیٰ سے ناف تک۔
تو اس نے میرے دل کو باہر نکالا ، پھر میرے پاس سونے کا ایمان وحکمت سے بھرا ہوا تھال لایا گیا۔ میرے دل کو دھونے کے بعد ایمان و حکمت سے بھرا گیا۔ پھر اسے اپنی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ بعد ازاں میرے پاس ایک سفید رنگت کی سواری لائی گئی جو قدوقامت میں خچر سے کم اور گدھے سے بلند تھی، جارود نے دریافت کیا کہ اے ابا حمزہ، کیا وہ براق تھا؟ انہوں نے کہا ہاں۔ وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں کہ اس کی نگاہ پہنچتی تھی۔ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں، مجھے اس پر سوار کیا گیا۔ جبریل علیہ السلام مجھے ہمراہ لے کر چلے حتیٰ کہ پہلے آسمان تک پہنچے۔ دروازہ کھولنے کے لیے کہا گیا تو پوچھا گیا ، کھٹکھٹانے والا کون ؟ انہوں نے جواب میں کہا، جبرائیل۔ دربان نے پوچھا اور تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا، محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔(دربان نے انتہائی فرحت و سرور کا اظہار کرتے ہوئے کہا) کیا ان کو آدمی بھیج کر بلایا گیا ہے ، تو جبرائیل امین علیہ السلام نے کہا ، ہاں۔ وہ پکارے،
مَرْحَبًا به، ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ۔یعنی خوش آمدید ہے اس مہمان عزیز کے لیے اور بہت ہی مبارک ہے ان کا تشریف لانا۔
تب دروازہ کھولا گیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو حضرت آدم علیہ السلام تشریف فرما تھے۔ حضرت جبرائیل امین نے کہا، یہ ہیں آپ کے باپ حضرت آدم علیہ السلام، ان کو سلام دیجیے۔ میں نے ان کو ہدیہ سلام پیش کیا۔ انہوں نے جواب عنایت فرمایا، پھر فرمایا،مَرْحَبًا بالِابْنِ الصَّالِحِ، والنبيِّ الصَّالِحِ۔ یعنی خوش آمدید ہو فرزند صالح کے لیے اور نبی صالح کے لیے۔
جبریل امین علیہ السلام دوسرے آسمان تک پہنچے، دروازہ کھولنے کے لیے آواز دی، پوچھا گیا کون؟ جواب میں فرمایا میں جبرائیل ہوں۔ دوبارہ پوچھا گیا، ساتھ کون ہیں؟ محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اس دربان نے بھی فرط مسرت سے کہا، کیا آدمی بھیج کر آپ کو بلایا گیا ہے۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں۔ آواز آئی، مَرْحَبًا به، ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ۔یعنی خوش آمدید ہے اس مہمان عزیز کے لیے اور بہت ہی مبارک ہے ان کا تشریف لانا۔ پھر دروازہ کھولا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کو موجود پایا اور وہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں۔ جبرائیل امین نے کہا ، یہ ہیں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہماالسلام ، ان کو سلام دیجیے۔ میں نے انہیں سلام دیا، دونوں نے سلام کا جواب دینے کے بعد کہا، مرحبا بالاخ الصالح والنبی الصالح۔ یعنی صالح بھائی اور نبی صالح کو خوش آمدید۔

جاری ہے۔۔۔
(الوفا باحوال المصطفٰے ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

سیما علی

لائبریرین
سبحان اللّہُ سبحان اللّہ
جزاک اللّہ خیرا کثیرا
حضرت انس ابن مالکؓ سے مروی ہے کہ : نبی کریمﷺ پر معراج کی رات پچاس نمازیں فرض کی گئیں ،پھر ان میں کمی کی گئی یہاں تک کہ پانچ نمازیں کردی گئیں پھر اللہ تعالی کی طرف سے ندا آئی کہ اے محمد! میرا فیصلہ تبدیل نہیں کیا جاتا ،اور بے شک آپ اور آپ کی امت کے لئے ان پانچ نمازوں کے ساتھ پچاس نمازوں کاثواب ہے۔

نماز کی اہمیت
اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں نماز بھی ایک اہم ترین رکن ہے ۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا

اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم کی گئی ہے، لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا ، نماز قائم کرنا ،زکوۃ ادا کرنا ،حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔
سفرِ معراج کے موقع نماز جیسی عظیم دولت اور قیمتی نعمت اللہ تعالی نے عنایت فرمائی ۔یہ آسمانی تحفہ ہے جو بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ نبی کو عرش پر بلاکر دیا گیا اور بتا دیا کہ اگر یہ امت اس کا اہتمام کرے گی تو دنیا میں بھی اور آخرت میں کامیاب ہو گی اور اپنے خالق و مالک کی نظروں میں معزز رہے گی ۔

واقعۂ معراج کے ضمن میں جہاں اس عظیم سفر کی عظمت واہمیت اور اس کی تاریخی حقیقت کو بیان کیا جاتا ہے وہیں اس رات میں دئیے جانے والے عظیم انعام نماز پر کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالی نے نماز کے لئے یہ خصوصی معاملہ فرمایا کہ اپنے محبوب کو اپنے پاس بلاکر عنایت فرمایا ورنہ تو دیگر عبادات اور احکامات ایسے ہیں، جو اسی زمین پر اتارے گئے۔
نماز کو یہ انفرادی خصوصیت حاصل ہے کہ اسے عر ش پر بلاکر اور اعزاز و اکرام کے ساتھ نوازا گیا۔


اختر شام کی آتی ہے فلک سے آواز
سجدہ کرتی ہے سحر جس کو، وہ ہے آج کی رات

رہ یک گام ہے ہمت کے لیے عرش بریں
کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات

معراج النبی ﷺ اور اللہ کا تحفہ
 

الشفاء

لائبریرین
معراج مصطفےٰ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
(گزشتہ سے پیوستہ)

پھر تیسرے آسمان تک پہنچے اور دروازہ کھولنے کے لیے کہا، پوچھا گیا ، کون؟ حضرت جبریل امین نے کہا ، میں جبریل ہوں، پوچھا گیا ، ساتھ کون ہیں؟ تو کہا محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ پھر آواز آئی، کیا ان کو آدمی بھیج کر بلایا گیا ہے؟ انہوں نے کہا ، ہاں تو دربان نے کہا، مَرْحَبًا به، ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ۔ ان کو خوش آمدید اور تشریف لانے والے بہترین تشریف لائے۔ پھر دروازہ کھولا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو ناگاہ حضرت یوسف علیہ السلام کو موجود پایا۔ جبریل امین بولے، یہ ہیں حضرت یوسف علیہ السلام، ان کو سلام دیجیے۔ میں نے ان کو سلام دیا۔ انہوں نے جواب سلام دینے کے بعد کہا، مرحبا بالاخ الصالح والنبی الصالح۔
پھر چوتھے آسمان پر پہنچے ، دروازہ کھولنے کے لیے کہا گیا تو جواب آیا، کون؟ جبریل امین نے اپنا تعارف کرایا۔ پوچھا گیا ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ تو دریافت کیا گیا ، کیا ان کے پاس کسی کو بھیجا گیا؟ انہوں نے کہا ، ہاں ۔ دربان پکارا، مَرْحَبًا به، ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ۔ دروازہ کھلنے پر اندر داخل ہوا تو حضرت ادریس علیہ السلام نظر آئے۔ جبریل امین نے کہا، یہ حضرت ہارون ہیں ان کو سلام دیجیے ، تو انہوں نے جواب سلام کے بعد کہا، مرحباً باالنبی الصالح والاخ الصالح۔
پھر جبریل امین پانچویں آسمان تک پہنچے، دربان سے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو انہوں نے پوچھا کون؟ جواب میں کہا کہ میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا، محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ تو انہوں نے پوچھا، کیا آپ کی طرف کسی کو بھیجا گیا ۔ فرمایا ہاں، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے کہا۔ مَرْحَبًا به، ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ۔ دروازہ کھلنے پر اندر داخل ہوا تو ہارون علیہ السلام نظر آئے۔ جبریل امین نے کہا ، یہ حضرت ہارون ہیں، ان کو سلام دیجیے۔ تو انہوں نے جواب سلام کے بعد خوش آمدید کہا۔ مرحباً باالنبی الصالح والاخ الصالح۔
جبریل امین مجھے ہمراہ لے کر چھٹے آسمان تک پہنچے۔ دربان سے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو پوچھا گیا ، کون ہے؟ انہوں نے اپنا تعارف کرایا تو پوچھا گیا کہ ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ، پوچھا گیا، کیا ان کی طرف کسی کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا، ہاں۔ اس دربان نے بھی خوش آمدید کہنے ہوئے کہا، مَرْحَبًا به، ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ۔ اندر داخل ہونے پر موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ کہا گیا، یہ ہیں حضرت موسیٰ ، انہیں سلام دیجیے۔ میں نے انہیں سلام دیا تو انہوں نے خوش آمدید کہتے ہوئے مرحباً باالنبی الصالح والاخ الصالح کہا۔
جب میں وہاں سے آگے گزر گیا تو حضرت کلیم روئے۔ ان سے عرض کیا گیا کہ آپ کو کون سی چیز رلا رہی ہے۔ انہوں نے جواب میں کہا، یہ نوجوان اور جواں ہمت نبی ہیں جو مبعوث تو میرے بعد ہوئے مگر ان کی امت میں سے جو افراد جنت میں داخل ہوں گے وہ ان لوگوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں جو میری امت میں سے جنت میں داخل ہوں گے۔
پھر جبریل امین مجھے ہمراہ لے کر ساتویں آسمان تک پہنچے، جب دروازہ کھولنے کے لیے کہا تو پوچھا گیا، کون؟ جواب دیا میں جبریل ہوں، پوچھا گیا، تمہارے ساتھ کون ہیں۔ انہوں نے کہا ، محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ کہا گیا ، آیا آپ کی طرف کسی کو بھیجا گیا؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس دربان نے بھی خوش آمدید کہتے ہوئے مَرْحَبًا به، ولَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ کہہ کر دروازہ کھول دیا۔ اوپر پہنچے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف فرما تھے۔ جبریل امین بولے، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، انہیں سلام دیجیے۔ میں نے ان کی بارگاہ میں ہدیہ سلام پیش کیا ، انہوں نے جواب عنایت فرمایا۔ پھر خوش آمدید کہتے ہوئے مَرْحَبًا بالِابْنِ الصَّالِحِ، والنبيِّ الصَّالِحِ کہا۔ پھر سدرۃ المنتہیٰ کو مجھ پر منکشف کیا گیا تو اس کا پھل ہجر کے بڑے مٹکوں کی مانند تھا۔ اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی مانند۔ جبریل امین نے کہا کہ یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ چار نہریں ہیں، دو باطنی اور دو ظاہر( جو سدرہ کے نیچے سے جاری تھیں) میں نے پوچھا اے جبریل، یہ کیسی نہریں ہیں۔ انہوں نے کہا جو باطنی ہیں یہ جنت کی نہریں ہیں اور جو دو ظاہر ہیں تو یہ نیل و فرات ہیں۔ پھر بیت المعمور کو میرے سامنے لایا گیا۔۔۔ میں نے بیت المعمور کو دیکھا جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہونے کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور جو ایک بار اس سعادت سے بہرہ ور ہو جائے پھر دوبارہ اس کی باری نہیں آتی۔۔۔
پھر حضور کی بارگاہ میں ایک برتن شراب کا، دوسرا دودھ کا اور تیسرا شہد کا پیش کیا گیا (اور عرض کیا گیا کہ جو پسند فرمائیں لے لیں)۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے دودھ والا برتن لیا۔ جبریل امین نے کہا ، یہ فطرت ہے، آپ اور آپ کی امت ہمیشہ اس پر قائم و دائم رہیں گے۔

(الوفا باحوال المصطفٰے ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے حالات و واقعات۔۔۔

نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کی رخصت دی تو وہ گروہ در گروہ مدینہ منورہ میں جا پہنچے اور آپ اذن خداوندی کے انتظار میں مکہ مکرمہ میں ہی قیام پذیر رہے۔ آپ کے ساتھ یا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ رہ گئے یا وہ حضرات جن کو اہل مکہ نے گرفتار کر لیا اور مختلف اذیتیں اور تکلیفیں دینا شروع کر دیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہجرت کی اجازت طلب کرتے تھے مگر حبیب پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ، جلدی نہ کرو (مجھے اجازت ملی تو اکٹھے چلیں گے)۔
جب مشرکین مکہ کو معلوم ہو گیا کہ اصحاب رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی جگہ قیام پذیر ہو چکے ہیں جہاں ان کے خلاف کاروائی نہیں ہو سکتی تو انہیں یقین ہو گیا کہ رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ضرور ان کی طرف ہجرت کر کے چلے جائیں گے۔ چنانچہ وہ دار ندوہ (مجلس مشاورت) میں جمع ہوئے اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے متعلق باہم صلاح مشورہ کرنے لگے۔ دار ندوہ قصی بن کلاب کا مکان تھا اور قریش جو بھی فیصلہ کرتے وہ اسی دار میں کرتے تھے۔
جب قریش صلاح مشورہ کے لیے جمع ہوئے تو شیطان لعین ان کے سامنے ایک بزرگ نما انسان کی صورت میں آ موجود ہوا۔ دروازے پر کھڑا دیکھ کر اہل ندوہ نے پوچھا، بزرگوار کہاں سے ہیں اور کون ہیں؟ اس نے کہا ، میں اہل نجد سے ہوں ، میں نے تمہارے باہمی عہد و پیمان اور وعد و وعید کو سنا تو حاضر ہو گیا ہوں اور تمہیں یہ امید رکھنی چاہیے کہ اس احقر سے صحیح مشورہ اور خلوص و ہمدردی ہر وقت تمہیں حاصل رہے گی۔ انہوں نے کہا پھر تو اندر تشریف لائیے۔ چنانچہ شیطان شیخ نجدی کی صورت میں مجلس مشاورت کے اندر شریک ہو گیا۔
ادھر ہر قبیلہ کے اشراف اور اصحاب رائے بھی مجتمع تھے۔ ایک دوسرے سے کہنے لگے ، پہلے تو ان (محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو معاملہ تھا وہ سب کو معلوم ہے لیکن اب ان کی جماعت اور پیروکار پھیلتے جا رہے ہیں اور ان کو معاون و مددگار بھی ہاتھ آتے جا رہے ہیں، لہٰذا ان ان کی طرف سے یہ خطرہ درپیش ہے کہ وہ اپنے متبعین کے ساتھ ہم پر حملہ آور ہو جائیں ، لہٰذا غور و فکر کے بعد متفقہ فیصلہ کرو۔ بعض نے کہا کہ ان کو لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر کمرے میں بند کر دو اور ان کے متعلق بھی اسی طرح کی ہلاکت کا انتظار کرو جیسے کہ ان جیسے شعراء کو پہلے پیش آ چکی ہے۔ شیخ نجدی نے کہا کہ یہ تو کوئی صحیح مشورہ نہیں ہے۔ اگر تم ان کو قید کر دو گے تو ان کے قید کیے جانے کی اطلاع ان کے متبعین تک جا پہنچے گی اور وہ حملہ آور ہو کر ان کے تمہارے ہاتھوں سے چھین لیں گے اور آزاد کرا لیں گے۔ دوسرا شخص بولا، ہمیں ان کو جلا وطن کر دینا چاہیے۔ شیخ نجدی نے کہا کہ یہ بھی کوئی سوچ ہے اور عقل کی بات ہے؟ دیکھتے نہیں ہو ان کا انداز گفتگو کتنا حسین ہے، کلام کتنا میٹھا اور پیارا ہے اور جو احکام وہ بیان کرتے ہیں وہ دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ اگر ان کو جلا وطن کر دیا گیا تو مجھے یہ ڈر ہے کہ وہ عرب کے جس قبیلہ کے ہاں بھی جا کر ٹھہریں گے، اپنی حسین گفتگو سے ان پر غلبہ و تسلط حاصل کر لیں گے اور ان سے بیعت لے کر تمہارے خلاف چڑھائی کر دیں گے۔

ابو جہل بولا، میری رائے اس سے مختلف ہے اور تم ابھی تک وہاں نہیں پہنچے۔ دوسروں نے پوچھا، وہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ ہر قبیلہ سے ایک نوجوان بہادر بہترین نسب والا لے لیں اور ہر ایک کے ہاتھ میں تیز دھار تلوار دیں اور وہ سب جا کر یکبارگی ان پر حملہ آور ہو جائیں اور ان کو (العیاذ باللہ) قتل کر دیں اور اس طرح ان سے چھٹکارا حاصل کریں۔ جب ہر قبیلہ کا ایک ایک فرد اس قتل میں شریک ہو گا تو ان کا خون سب قبائل پر تقسیم ہو جائے گا، لہٰذا بنو عبد مناف اپنی ساری قوم کے خلاف کاروائی کرنے سے قاصر رہیں گے اور لا محالہ دیت (خون بہا) لینے پر رضا مند ہو جائیں گے تو ہم ان کو اس مقتول کا خون بہا دے دیں گے۔ شیخ نجدی نے کہا کہ بس اصل رائے اور صحیح مشورہ تو وہی ہے جو اس شخص نے دیا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی صحیح تدبیر اور قابل قبول مشورہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس رائے پر متفق ہونے کے بعد سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔
(جاری ہے۔۔۔)

(الوفا باحوال المصطفٰے ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

سیما علی

لائبریرین
ان کا انداز گفتگو کتنا حسین ہے، کلام کتنا میٹھا اور پیارا ہے اور جو احکام وہ بیان کرتے ہیں وہ دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔
تیرے قدم پہ جبہ سا روم و عجم کی نخوتیں
تیرے حضور سجدہ ریز چین و عرب کی خود سری

تیرے کرم نے ڈال دی طرح خلوص و بندگی
تیری پیغمبری کی یہ سب سے بڑی دلیل
بھیا جزاک خیرا کثیرا
 

الشفاء

لائبریرین
مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے حالات و واقعات۔۔۔
(گزشتہ سے پیوستہ)

جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم بارگاہ مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثناء میں حاضر ہوئے اور آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ آج رات اس خواب گاہ پر آرام نہ فرمائیں جس پر پہلے آپ آرام فرمایا کرتے ہیں۔ جب تاریکی چھا گئی تو کفار قریش آپ کے در اقدس پر جمع ہو گئے اور آپ کے سونے کا انتظار کرنے لگے۔
جب آپ نے ان کو کھڑے دیکھا تو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ آج رات تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ اور میری سبز رنگ کی حضرمی چادر لپیٹ کر جاؤ اور یقین جانیے کہ ان کی طرف سے کوئی گزند اور تکلیف آپ کو نہیں پہنچ سکے گی۔ جس چادر کو اوڑھ کر سونے کے متعلق حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، یہ وہی چادر تھی جس میں حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرمایا کرتے تھے۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے آپ کے بستر پر رات گزاری اور مشرکین ساری رات اس گمان پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حراست میں لیے کھڑے رہے کہ یہ آرام فرما شخص نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ جب صبح ہوئی اور آپ بیدار ہوئے تو سبھی آپ کی طرف حملہ کرنے کے لیے بڑھے ، دیکھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ حیران ہو کر پوچھا کہ تمہارے نبی کدھر ہیں ، انہوں نے کہا مجھے کیا معلوم۔ اس طرح اللہ تعالٰی نے ان کے مکروفریب کو حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور فرمایا۔ یہاں سے ناکام ہوئے تو آپ کے نشان قدم تلاش کرتے ہوئے پہاڑ تک گئے مگر وہاں پہنچ کر ان کو التباس و اشتباہ پیدا ہو گیا۔ پہاڑ پر چڑھے ، غار سے بھی گزرے، اس کے دروازہ پر عنکبوت کا تنا ہوا جالا دیکھا تو کہنے لگے کہ اگر وہ یہاں داخل ہوتے تو تار عنکبوت کیوں کر باقی رہتے (چنانچہ وہیں سے واپس ہو گئے)۔ اور حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تین رات تک وہیں قیام فرما رہے۔

محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ جب قریش حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در اقدس پر جمع ہوئے تو آپ نکلے اور مٹھی بھر مٹی اٹھائی اور کلام مجید کے یہ کلمات طیبات تلاوت فرمائے : وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ ۔ یعنی ہم نے ان کے سامنے اور ان کے پیچھے حجاب اور پردے قائم کر دیے ہیں پس ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے لہٰذا وہ دیکھ نہیں سکتے۔ اور مٹی ان کے سروں پر پھینکی (وہ قدرت خداوندی سے اندھے ہو گئے) اور آپ نے جدھر جانا تھا، تشریف لے گئے۔ بعد میں ایک شخص آیا اور اس نے پوچھا کہ یہاں کیوں کھڑے ہو اور کس کا انتظار کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا ، محمد (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا۔ اس نے کہا کہ وہ تو ابھی تمہارے درمیان سے نکل کر چلے گئے ہیں۔ انہوں نے اندر جھانکنا شروع کیا تو اندر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضور کی چادر مبارک اوڑھے ہوئے لیٹے تھے۔

(الوفا باحوال المصطفٰے ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
غار ثور کی طرف روانگی۔۔۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول خدا علیہ التحیۃ والثناء نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے۔۔۔ ہم نے آپ کے سفر کی اچھی طرح تیاری کی۔ کھانے کا سامان مشکیزہ میں ڈالا اور اس کا منھ بند کرنے کے لیے حضرت اسماء (بنت ابوبکر صدیق) رضی اللہ عنہا نے اپنے کمربند کا ایک حصہ (پھاڑ کر) الگ کیا اور اس کے ساتھ توشہ دان کا منھ باندھا اور دوسرا حصہ بطور کمربند استعمال کیا، اسی لیے ان کو ذات النطاقین کا لقب دیا گیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غار والی رات کو بارگاہ رسالت میں عرض پیش کی کہ آپ مجھے اجازت فرمائیں ، پہلے میں غار میں داخل ہوتا ہوں، اگر اس میں کوئی تکلیف دہ اور موذی چیز ہو تو اس کی ایذا رسانی سے اور تکلیف سے آپ محفوظ رہیں اور میری جان آپ پر فدا ہو جائے۔ آپ نے رخصت دے دی۔ حضرت صدیق اندر داخل ہوئے اور ہاتھوں سے بلوں اور سوراخوں کو تلاش کرنا شروع کیا۔ جہاں کوئی بل اور سوراخ نظر آیا اپنے کپڑے پھاڑ کر اس کو بند کر دیتے۔ حتیٰ کہ زائد کپڑے ساے کے سارے ختم ہو گئے اور ابھی ایک سوراخ باقی بچ رہا تھا تو آپ نے اپنی ایڑی اس پر رکھ کر اس کو بند کر دیا۔ پھر رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم اندر تشریف لائے۔ جب صبح ہوئی تو دریافت فرمایا اے ابوبکر تیرے کپڑے کدھر ہیں؟ صورت حال عرض کی تو آپ نے دست دعا بارگاہ رب قدوس میں بلند کیے اور عرض کیا ، اللٰھم اجعل ابا بکر معی فی درجتی یوم القیامۃ۔ یعنی اے اللہ، ابوبکر کو قیامت کے دن میرے ساتھ میرے مقام میں جگہ عطا فرمانا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ آپ کی یہ دعا قبول ہو چکی ہے۔
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بخدا ابوبکر کی ایک رات اور ایک دن عمر بن الخطاب (کی زندگی بھر کی طاعات و عبادات) سے بڑھ کر ہے۔۔۔رات سے میری مراد ہجرت والی رات تھی جس میں سرور عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے پوشیدہ طور پر نکلے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے، کبھی تو آپ کے آگے آگے چلنے لگتے اور کبھی پیچھے چلتے اور کبھی دائیں جانب تو کسی وقت بائیں جانب۔ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا، اے ابوبکر ، چلنے کا یہ انداز تم نے کیوں اختیار کر رکھا ہے۔ انہوں نے عرض کیا ، کبھی مجھے یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ دشمن کہیں آگے تاک میں نہ بیٹھا ہو تو میں آگے ہو کر اپنی جان کو آپ کے لیے ڈھال بناتا ہوں اور کبھی پیچھے سے دشمن کے پہنچ جانے اور گزند پہنچانے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے تو پیچھے چلتا ہوں تاکہ جان حقیر کا نذرانہ پیش کر سکوں۔ اور کبھی دائیں بائیں کا خطرہ دامن گیر ہوتا ہے تو دائیں بائیں چلنے لگتا ہوں۔
رسول پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اس رات اقدام مبارکہ کے صدور اور اگلے حصہ کے بل چلتے تھے اور جوتا مبارک بھی پاؤں میں نہ تھا حتیٰ کہ پاؤں زخمی ہونے کو تھے اور آبلے پڑنے والے تھے۔ جب حضرت ابوبکر نے یہ حالت دیکھی تو آپ کو کندھوں پر اٹھایا اور دوڑتے ہوئے غار تک پہنچے اور آپ کو غار کے سامنے کندھوں سے اتارا۔ پھر عرض کی ، آپ کو اس ذات اقدس کا واسطہ جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، آپ اتنے وقت تک غار میں داخل نہ ہوں جب تک میں پہلے داخل ہو کر اطمینان نہ کر لوں۔ اگر کوئی تکلیف دہ چیز ہو تو مجھے تکلیف و اذیت پہنچائے، آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ غار کے اندر گئے ، اچھی طرح جائزہ لیا۔ جب کوئی چیز نظر نہ آئی تو آپ کو اٹھایا اور غار کے اندر پہنچایا۔ غار کے اندر سوراخ تھے جن میں سانپ اور اژدھے تھے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں ان سے کوئی چیز نکل کر حضور کو تکلیف نہ پہنچائے۔ لہٰذا اس کا بندوبست اور سدباب یوں کیا کہ (جو سوراخ بچ گیا تھا ) اپنا پاؤں وہاں رکھ دیا۔ وہ سانپ اور اژدھے ڈنک مارتے رہے اور زہر آپ کے بدن میں داخل کرتے رہے، آپ کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے مگر پاؤں اپنی جگہ سے نہ ہٹایا۔ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو تسلی و تشفی دیتے ہوئے فرماتے تھے۔ یا ابا بکر ، لا تحزن ان اللہ معنا۔ یعنی ابوبکر ، غمگین ہونے کی ضرورت نہیں یقیناً اللہ رب العزت ہمارے ساتھ ہے۔ تب اللہ رب العزت نے طمانیت و سکون اور سکینہ کو ابوبکر صدیق پر نازل فرمایا۔ یہ ہے ان کی وہ رات (جس کے ساتھ اہل دنیا کی کسی رات کو برابری نہیں ہو سکتی)۔

(الوفا باحوال المصطفٰے ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
غار ثور سے مدینہ منورہ کی طرف روانگی۔۔۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ ہم رات کے آخری حصہ میں نکلے ، بقیہ رات چلتے رہے اور دن بھی حتیٰ کہ دوپہر کا وقت ہو گیا۔ میں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تا کہ سایہ دار جگہ تلاش کروں جہاں آرام کر سکیں۔ ناگاہ ایک بڑی چٹان نظر آئی۔ میں اس طرف گیا تو اتفاق سے اس کا سایہ میسر آ گیا۔ میں نے اس جگہ کو ہموار کیا اور خس و خاشاک کو صاف کیا۔ پوستین بچھائی اور سرور عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ لیٹ جائیں اور آرام فرمائیں۔
میں پھر ماحول کا جائزہ لینے کے لیے نکلا تا کہ دیکھوں کہ کوئی شخص ہماری تلاش میں تو نہیں ہے۔ بھیڑ بکریوں کے چرواہے پر نظر پڑی۔ میں نے اس سے دریافت کیا ، تو کس کا غلام ہے، اس نے کہا فلاں شخص کا۔ میں نے اس کو پہچان لیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ تیری بکریوں میں کوئی شیر دار بھی ہے، اس نے کہا ، ہاں۔ میں نے پوچھا کیا مجھے دودھ نکال کر دے گا۔ اس نے کہا بصد شوق۔ میں نے اس کو بکری کے پاؤں قابو کرنے کو کہا، پھر کہا کہ اس کے پستان اچھی طرح جھاڑ تاکہ گرد و غبار اور بال وغیرہ جو جھڑ سکتے ہیں ، جھڑ جائیں۔ جب اس نے یہ کام مکمل کر لیا تو میں نے اسے کہا، اب ذرا اپنے ہاتھ اچھی طرح جھاڑ۔ اس نے ہاتھوں کو بھی اچھی طرح جھاڑا اور میرے ساتھ پانی کا ایک برتن تھا جس کے منھ پر کپڑا باندھا ہوا تھا کہ گردوغبار اور خس و خاشاک اس کو خراب نہ کرے۔ ادھر غلام نے بڑا پیالہ دودھ کا نکالا۔ میں نے اس میں ٹھنڈا پانی ڈالا حتیٰ کہ وہ دودھ اوپر سے نیچے تک ٹھنڈا ہو گیا (اور دوہتے وقت اس میں جو حرارت پیدا ہوئی تھی وہ ختم ہو گئی)۔ پھر میں حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا، یا رسول اللہ نوش فرمائیں۔ آپ نے اچھی طرح سیر ہو کر پیا حتیٰ کہ میرا دل خوش ہو گیا۔ (سبحان اللہ)۔ پھر میں نے عرض کیا کہ اب کوچ کرنے کا وقت ہو گیا ہے۔
ہم وہاں سے چلے ، قوم قریش ہمیں تلاش کرنے میں مصروف تھی مگر سوائے سراقہ بن مالک کے کوئی شخص ہم تک نہ پہنچا۔ وہ گھوڑے کو دوڑاتا ہوا جب قریب پہنچا تو میں نے رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا ، ہمیں ڈھونڈنے والے دشمن پہنچ گئے۔ آپ نے فرمایا ، لا تحزن ان اللہ معنا۔ یعنی غم نہ کریں، اللہ رب العزت ہمارے ساتھ ہے۔ حتیٰ کہ جب وہ اتنا قریب آ گیا کہ اس کے اور ہمارے درمیان تین نیزوں بلکہ دو بلکہ ایک نیزہ کے برابر فاصلہ رہ گیا تو میں نے عرض کیا ، دشمن تو ہمارے سر پر پہنچ گیا (اور سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکلیف کا احساس مجھے اس قدر تڑپانے لگا کہ ) میں رونے لگا۔
آپ نے فرمایا، ابوبکر کیوں روتے ہو؟ عرض کیا خدا کی قسم اپنی جان کے لیے نہیں روتا بلکہ آپ کو کوئی گزند اور تکلیف نہ پہنچ جائے ، اس لیے آنکھوں سے سیلاب اشک رواں ہو گیا ہے۔ تب رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور بارگاہ خداوندی میں عرض کیا، اللٰھم اکفنا بما شئت، یعنی اے اللہ ہمیں شر اعداء سے کفایت فرما جیسے بھی تو چاہے اور تجھے پسند ہو۔ نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے منھ مبارک سے جونہی یہ الفاظ نکلے، سراقہ کے گھوڑے کے چاروں پاؤں سخت ترین پتھریلی زمین میں دھنس گئے۔ وہ گھوڑے سے کود گیا اور کہنے لگا، اے محمد (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس امر کا یقین رکھتا ہوں کہ یہ حادثہ تمہاری دعا کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ اب دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے اس پریشانی سے نجات فرمائے۔ میں آپ کے ساتھ عہد کرتا ہوں (کہ خود تکلیف پہنچانے کا ارادہ فاسد تو درکنار) بخدا جن کو اس راہ آتے دیکھوں گا انہیں بھی باز رکھوں گا۔ اور یہ میرا ترکش ہے اس میں سے ایک تیر لے لیں۔ آپ کا اس راہ میں فلاں فلاں جگہ میری اونٹنیوں اور بھیڑ بکریوں پر گزر ہو گا، تو جو بھی ضرورت ہو دودھ کی یا سواری کی وہاں سے لے لینا۔ آپ نے فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں اور اس کے لیے دعا نجات و خلاص فرمائی، فوراً گھوڑا زمین سے باہر آ گیا اور وہ واپس اپنے ساتھیوں کی طرف چلا گیا۔

(الوفا باحوال المصطفٰے ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

سیما علی

لائبریرین
اے محمد (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس امر کا یقین رکھتا ہوں کہ یہ حادثہ تمہاری دعا کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ اب دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے اس پریشانی سے نجات فرمائے۔ میں آپ کے ساتھ عہد کرتا ہوں (کہ خود تکلیف پہنچانے کا ارادہ فاسد تو درکنار) بخدا جن کو اس راہ آتے دیکھوں گا انہیں بھی باز رکھوں گا۔ اور یہ میرا ترکش ہے اس میں سے ایک تیر لے لیں۔ آپ کا اس راہ میں فلاں فلاں جگہ میری اونٹنیوں اور بھیڑ بکریوں پر گزر ہو گا، تو جو بھی ضرورت ہو دودھ کی یا سواری کی وہاں سے لے لینا۔ آپ نے فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں اور اس کے لیے دعا نجات و خلاص فرمائی، فوراً گھوڑا زمین سے باہر آ گیا اور وہ واپس اپنے ساتھیوں کی طرف چلا گیا۔
سبحان اللّہ سبحان اللّہ
ڈھیروں دعائیں جیتے رہیے شاد و آباد رہیے !!!!!!
 

الشفاء

لائبریرین
ام معبد رضی اللہ عنہا کے خیمہ پر تشریف آوری۔۔۔
اس کا کچھ احوال مراسلہ نمبر 17 اور 18 میں گزرا۔

ام معبد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ چار اشخاص دو اونٹنیوں پر سوار ہم پر رونما ہوئے۔ میرے پاس اترے ، میں ایک بکری سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لائی تاکہ اسے ذبح کر کے آپ کو کھلاؤں۔ کیا دیکھتی ہوں کہ وہ دودھ سے بھرپور ہے۔ میں اسے آپ کے قریب لائی، آپ نے اس کے پستانوں کو ہاتھ لگایا اور فرمایا کہ اس کو ذبح نہ کرو۔ میں نے اسے چھوڑ دیا اور دوسری بکری لا کر ذبح کی اور گوشت پکا کر پیش کیا۔ آپ نے بھی تناول فرمایا اور آپ کے ساتھیوں نے بھی۔ اور جتنا ان کے دسترخوان میں سما سکتا تھا اور توشہ دان میں ان کے ہمراہ بھی دیا، اور جو ہمارے پاس بچ گیا وہ اتنا تھا جتنا پوری بکری کا بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
اور وہ بکری جس کے تھنوں کو رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے ہاتھ لگایا تھا، اس کی عمر میں وہ برکت پیدا ہوئی کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں رونما ہونے والے قحط جس کو عام امادہ کہا جاتا تھا یعنی ہجرت کے اٹھارہویں سال تک صحیح و سالم رہی اور ہم اس زمانہ میں بھی اس کو صبح و شام دوہا کرتے اور اس کے دودھ سے سیراب ہوا کرتے تھے جب کہ زمین میں جانوروں کو کوئی شے کھانے کی نہیں ملتی ہی نہیں تھی۔

(الوفا باحوال المصطفٰے ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
مدینہ منورہ میں تشریف آوری۔۔۔

مدینہ طیبہ میں اہل اسلام کو جب یہ خبر پہنچی کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ سے سفر فرما ہو گئے ہیں تو وہ ہر دن مقام حرہ میں صبح سویرے انتظار میں آنکھیں فرش راہ کر کے بیٹھے رہتے اور جب دوپہر کو شدید گرمی پڑنے لگتی تو گھروں کو لوٹتے۔ ایک دن بہت انتظار کیا مگر جب طلعت مقصود و محبوب سے آنکھوں کو منور نہ کر سکے تو گھروں کو لوٹے۔ اسی دوران ایک یہودی مدینہ منورہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلہ پر کوئی چیز دیکھنے کے لیے چڑھا تو حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو اور آپ کے ہمراہیوں کو دیکھا جو سفیدی اور نورانیت کی وجہ سے چمک رہے تھے اور جہاں ان کےسائے پڑ رہے تھے سراب زائل ہوتا نظر آتا تھا۔ یہودی یہ منظر دیکھ کر بے اختیار پکار اٹھا، اے معشر عرب یہ رہا تمہارا بخت و اقبال جس کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ مسلمانوں نے تیزی سے ہتھیار سنبھالے اور دوڑتے ہوئے استقبال کے لیے مقام حرا پر جا پہنچے۔ آپ ان کو لے کر راہ کی دائیں جانب بنی عمرو بن عوف میں قیام فرما ہوئے۔ سرور عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم چپ چاپ بیٹھے رہے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کے سامنے کھڑے رہے (ان کو تفصیلات سفر سے آگاہ کرتے رہے اور سوالات کا جواب دیتے رہے)۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول خدا علیہ التحیۃ والثناء کی ولادت با سعادت سوموار کو ہوئی، آپ کو منصب نبوت و رسالت بھی سوموار کو سونپا گیا اور اعلان نبوت کا حکم دیا گیا، حجر اسود کو اپنی جگہ پر نصب بھی آپ نے سوموار کو کیا، مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت بھی اسی دن فرمائی اور مدینہ منورہ کو قدوم میمنت لزوم سے مشرف بھی اسی دن فرمایا۔ اور آپ نے اسی سوموار کے دن وصال پایا، بارگاہ خداوندی کی طرف سے آپ کو بلاوا اسی دن آیا اور عالم جاودانی میں قدم رکھا تو سوموار کا ہی دن تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام اور میں مکہ مکرمہ سے چل کر مدینہ طیبہ پہنچے تو لوگ آپ کے استقبال کے لیے نکلے، کچھ پیدل اور کچھ اونٹوں پر سوار تھے اور خدام و صبیان راستوں میں دوڑ رہے تھے اور پکار رہے تھے ، اللہ اکبر جاء رسول اللہ جاء محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اللہ اکبر رسول خدا علیہ التحیۃ والثناء تشریف لے آئے، محمد (خدا و خلق کے نزدیک قابل حمد و ثناء) تشریف لے آئے۔ اہل مدینہ نے باہم اختلاف و نزاع کیا کہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کس کے ہاں اور کس جگہ قیام فرما ہوں۔ امام رسل صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، میں آج رات تو بنی النجار کا مہمان ہوں گا جو کہ حضرت عبدالمطلب کے ماموں (ننھیال) ہیں۔ اور جب صبح ہوئی تو جہاں سرکار دو عالم کو حکم دیا گیا وہاں پڑاؤ ڈالا۔۔۔ ایک قول یہ ہے کہ سعد بن خثیمہ کے ہاں قیام فرما ہوئے۔۔۔ چنانچہ آپ نے وہاں قبا میں سوموار سے جمعرات تک قیام فرمایا۔ پھر وہاں مسجد کی بنیاد رکھی اور جمعہ کے دن وہاں سے کوچ فرمایا اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہاں آپ نے دس دن سے بھی زیادہ قیام فرمایا۔ پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور اس کی مہار کو اس کی گردن پر ڈال دیا۔ جہاں سے بھی آپ کی سواری گزرتی، اس جگہ والوں کی دلی تمنا ہوتی کہ آپ ہمارے ہاں قیام فرمائیں، چنانچہ وہ عرض کرتے ، معلم یا رسول اللہ الیٰ العدد والعدۃ، یعنی آپ ایسے خدام کے مہمان بنیں جو عدد و شمار میں بھی کثیر ہیں اور سازو سامان کے اعتبار سے بھی۔ سرور انبیاء علیہ التحیۃ والثناء فرماتے، خلوا زمامھا فانھا مامورۃ۔ یعنی اس کی مہار چھوڑ دو اسے اللہ تعالیٰ نے حکم دے رکھا ہے۔ الغرض قصواء چل رہی تھی اور لوگ دیکھ رہے تھے کہ کس کا مقدر چمکتا ہے اور کون ان سعادتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ پہلے پہل اس جگہ بیٹھی جہاں اب مسجد نبوی ہے ، اس کے دروازہ والی جگہ پر بیٹھی۔ اس وقت وہاں کھجوریں سکھانے کا کھلیان تھا۔ آپ اس پر سے نہیں اترے تھے ، وہ فوراً تیزی کے ساتھ اٹھی اور تھوڑی دور جا کر پھر اپنی پہلی نشست گاہ کی طرف لوٹ آئی اور اس میں بیٹھ گئی اور اپنے حلقوم کو زمین پر رکھ دیا۔ سرور عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی پشت سے اترے اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے آپ کا سازو سامان اٹھا کر اپنی منزل میں رکھا اور جب تک مسجد شریف اور اس کے گرد حجرات مبارکہ تیار ہوئے آپ وہیں قیام فرما رہے۔

(الوفا باحوال المصطفٰے ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
سرور عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری پر اہل مدینہ کی مسرت و فرحت۔۔۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب آپ مدینہ منورہ میں وارد ہوئے تو حبشی اپنے چھوٹے چھوٹے نیزوں کے ساتھ کھیلے۔ وہ آپ کی تشریف آوری پر فرحت و مسرت کا اظہار کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی نجار کی بچیوں کے پاس سے گزرے جو گا رہی تھیں۔

نحنُ جَوارٍ من بني النجارِ
يا حبذا محمدٌ من جارِ
ہم بنی نجار کی بچیاں ہیں اور مبارک ہیں محمد عربی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے پڑوسی۔

حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اظہار عقیدت کے جواب میں فرمایا: اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں تم سے محبت رکھتا ہوں اور تم میرے الطاف و عنایات کا مرکز اولین ہو۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب آفتاب نبوت و رسالت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افق مدینہ پر طلوع فرمایا تو عورتیں ، بچے ، بچیاں یہ اشعار گا رہے تھے۔
طَلَعَ الْبَدرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیّا تِ الْودَاعٖ
وَجَبَ الشّْکرُ عَلَیْنا مَا دَ عَا لِلّٰہِ دَا عٖ
ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے بدر منیر طلوع فرما ہوا، لہذا ہم پر اللہ تعالٰی کے اس احسان عظیم کا شکریہ ادا کرنا واجب و لازم ہے۔ جب تک کوئی بھی دعا کرنے والا اللہ تعالٰی سے دعا کرتا رہے گا۔ یعنی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ادائے شکر فرض ہے۔

(الوفا باحوال المصطفٰے ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
خاتم الانبیاء علیہ الصلاۃ والسلام پر وحی کے نزول کی کیفیت۔۔۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بارہا سخت سردی کے موسم میں دیکھا کہ آپ پر وحی نازل ہوتی ، وہ حالت ختم ہوتی تو جبین اقدس سے پسینہ پھوٹ رہا ہوتا تھا۔
خارج بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ایک دن میں نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا کہ آپ پر وحی نازل ہوئی اور آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکینہ (ملائکہ رحمت اور وحی رحمانی) نے ڈھانپ لیا۔ اسی دوران آپ کی ران مبارک میری ران پر آ گئی۔ بخدا میں نے کوئی چیز بھی حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ران مبارک سے بھاری محسوس نہ کی۔ جب حالت سکر و استغراق دور ہوئی تو آپ نے فرمایا، اے زید (مجھ پر جو وحی آئی ہے) اسے لکھو۔(پھر آپ نے وہ آیات مبارکہ لکھوائیں)۔
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ سید خلق علی الاطلاق علیہ الصلاۃ والسلام کی اونٹنی عضباء کی مہار تھامے ہوئے تھیں (آپ اس پر سوار تھے) ، اسی دوران سورہ مائدہ نازل ہوئی ۔ وحی کے ثقل اور بوجھ کی وجہ سے اونٹنی کی حالت اس طرح ہو گئی کہ گویا اس کے اگلے پاؤں ٹوٹنے کو ہیں۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب سید المرسلین علیہ الصلاۃ والتسلیم پر وحی نازل ہوتی تو مزاج اقدس پر کرب و اضطراب نظر آتا اور رنگت مبارک زردی مائل ہو جاتی۔
حضرت ابو ارویٰ دوسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اس وقت آپ کو دیکھا جبکہ آپ اونٹنی پر سوار تھے اور وحی نازل ہو رہی تھی۔ اونٹنی ثقل وحی سے چنگھاڑ رہی تھی اور پاؤں کو موڑ رہی تھی اور پھیرتی تھی گویا کہ وہ ٹوٹنے کو ہیں اور وہ بچاؤ کر رہی ہے۔ بعض اوقات تو بیٹھ رہتی اور بعض اوقات کھڑی رہتی مگر پاؤں ایک ہی جگہ گڑے رہتے اور اٹھانے کی سکت اور ہمت نہیں ہوتی تھی حتیٰ کہ سرور عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ حالت جذب و استغراق دور ہوتی اور آپ کی جبین اقدس سے پسینہ کے قطرات موتیوں کی طرح مسلسل ٹپک رہے ہوتے تھے۔۔۔

(الوفا باحوال المصطفٰے ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
برکات النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔

حضرت عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ اپنے باپ ابو عمرہ رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ ہم رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ (تبوک) میں حاضر تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سخت بھوک لگی تو انہوں نے آپ سے اونٹوں کو ذبح کر کے کھانے کی رخصت طلب کی اور گزارش کی کہ کہ ہم اس گوشت کے ذریعے رمق جان باقی رکھ سکیں اور زندہ سلامت گھروں کو جا سکیں ۔ جب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ فخر دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بعض جانوروں کو ذبح کرنے کی رخصت دینے کا ارادہ فرما لیا ہے تو آپ سے عرض کیا ، یا رسول اللہ۔ ہمارا اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم دشمن کے مقابل اس حال میں جائیں گے کہ پیٹ بھی خالی ہوں گے اور سواری بھی پاس نہیں ہو گی بلکہ پاپیادہ ہوں گے ۔ لہٰذا اگر آپ اس رائے کو پسند فرمائیں تو ہم لوگوں میں اعلان کریں کہ جس کے پاس تھوڑا بہت زاد راہ ہے وہ بارگاہ محبوب خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لے آئے، جب وہ جمع ہو جائے تو آپ اس میں دعائے برکت فرما دیں ۔ اللہ رب العزت آپ کی دعا کی بدولت منزل مقصود تک پہنچنے تک کا زاد راہ عطا فرما دے گا۔ محبوب خدا علیہ التحیۃ والثناء نے (حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی عرض کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ) لوگوں کو حکم فرمایا کہ جس کے پاس جتنا زاد راہ بچا ہوا ہے وہ میرے پاس لے آئے۔ چنانچہ لوگ ایک ایک مٹھی طعام آپ کی بارگاہ اقدس میں لے آئے اور سب سے زیادہ جس کے پاس سامان خورد و نوش تھا یہ وہ شخص تھا جو ایک صاع آپ کی خدمت اقدس میں لایا۔
مالک خزائن خداوندی اور قاسم ارزاق الٰہیہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ازداد کو جمع فرمایا، پھر جو دعا اللہ تعالیٰ کی مشیت میں تھی وہ آپ کی زبان حق ترجمان پر جاری ہوئی، پھرآپ نے سب لشکر کو حکم دیا کہ اپنے اپنے توشہ دان لے آؤ اور ان کو اس جمع شدہ ذخیرہ سے بھرتے چلے جاؤ۔ چنانچہ سب اہل لشکر نے اپنے اپنے توشہ دان بھر لیے بلکہ لشکر میں کوئی ایسا برتن نہیں تھا جس کو صحابہ نے غلہ سے بھر نہ لیا ہو مگر جو پونجی جمع ہوئی تھی وہ اتنی کی اتنی ہی تھی، اس میں ذرہ برابر کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ اور اس خزائن خداوندی پر مامون و ماذون حبیب نے خزائن غیبیہ سے توشہ دان بھر دیے۔
جب آپ نے سب کی خوراک کا انتظام فرما دیا اور آپ کی شان اعجازی ،خدا داد قدرت و طاقت کا کرشمہ ظاہر ہو گیا اور دلیل نبوت و برہان حقانیت ہر ایک پر روشن ہو گئی تو آپ خوشی میں مسکرائے ، پھر ہنسے حتیٰ کہ سامنے والے دانت مبارک داڑھوں تک ظاہر ہو گئے اور آپ نے فرمایا ، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وانی رسول اللہ۔ جو عبد مؤمن یہ دونوں شہادتیں یعنی شہادت توحید اور شہادت رسالت دے کر فوت ہوگا اور بارگاہ خداوندی میں پہنچے گا تو قیامت کے دن آگ کو اس سے دور رکھا جائے گا بلکہ اس کی نگاہ سے بھی اوجھل رکھا جائے گا۔۔۔

(الوفا باحوال المصطفٰے ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
معیت و محبوبیت۔۔۔

ایک شخص بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا ، یا رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ میرے نزدیک میرے اہل و مال اور اولاد و جان سے زیادہ محبوب ہیں۔ جب آپ کی یاد مجھے ستاتی ہے تو صبر نہیں آتا۔ جب تک کہ حاضر خدمت ہو کر آپ کے جمال مبارک کو نہ دیکھ لوں۔ اور میں جب اپنی موت کو اور آپ کے رحلت فرمانے کو یاد کرتا ہوں اور یہ سوچتا ہوں کہ جب آپ جنت میں داخل ہوں گے تو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مقام اعلیٰ و گرامی تر پر فائز کیا جائے گا، اور اگر میں جنت میں گیا تو وہاں حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کیسے میسر آئے گی۔ اس پر حق تعالیٰ نے یہ آیہ کریمہ نازل فرمائی:

وَمَن يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُولَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِينَ اَنعَمَ اللّٰهُ عَلَيهم مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِينَ‌ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيقًا۔

اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کریں تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے جو انبیاء ، صدیقین ہیں اور شہداء و صالحین ہیں، اور یہ کیا ہی عمدہ ساتھی ہیں۔
(سورۃ النساء، آیت نمبر 69)
اس کے بعد حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اس شخص کو بلایا اور یہ آیت سنا کر خوشخبری دی۔
بعض مفسرین اس قصہ کو حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتے ہیں۔ ان کو حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت سخت محبت تھی۔ جب ان سے صبر نہ ہوا تو وہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت میں اس حال میں آئے کہ ان کا رنگ و روپ اڑا ہوا تھا۔ حالت شکستہ و پراگندہ تھی۔ چہرے سے اندوہ و غم نمایاں تھا۔ اس پر رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا ، کیا حلیہ بنا رکھا ہے۔ تمہارا تو رنگ ہی فق ہے۔ عرض کیا ، یا رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نہ تو مجھے کوئی بیماری ہے اور نہ کوئی درد وغیرہ ہے بجز اس کے کہ میں جب جمال جہاں آرا کو نہیں دیکھتا تو متوحش و پریشان ہو جاتا ہوں اور شدید وحشت طاری ہو جاتی ہے۔ اور جب تک حاضر ہو کر جمال جہاں تاب سے فیض یاب نہیں ہو جاتا، سکون نہیں پاتا۔ اس سے پہلے میں آخرت کے بارے میں سوچ رہا تھا اور ڈر رہا تھا کہ میں وہاں آپ کی کہاں زیارت کر سکوں گا اس لیے کہ آپ کو تو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مقام اعلیٰ پر لے جایا جائے گا اور اگر میں جنت میں داخل بھی کیا گیا تو میری جگہ آپ کے درجہ رفیعہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ نیچی ہو گی اور اگر داخل نہ ہوا تو حضور کو کبھی بھی نہ دیکھ سکوں گا۔اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔۔۔

(مدارج النبوۃ از شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
حضرت موسٰی علیہ السلام اور امت محمدیہ علٰی صاحبہاالصلاۃ والسلام۔۔۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب توریت کی تختیوں میں امت نبی آخرالزماں صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریباً ستر صفات کو پڑھا تو انہوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا ، اے خدا، اس امت کو میری امت بنا دے۔ فرمان باری آیا کہ اے موسٰی ، اس امت کو تمہاری امت کیسے بناؤں کہ وہ تو نبی آخرالزماں احمد مجتبٰی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔ حضرت موسٰی نے عرض کیا ، اے رب تو مجھے ہی امت محمدیہ میں بنا دے۔ اس حق تعالیٰ نے انہیں اپنے اس ارشاد میں دو خوبیاں مرحمت فرمائیں۔ چنانچہ فرمایا:
قَالَ يَا مُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالاَتِي وَبِكَلاَمِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ ۔​
اے موسٰی، میں نے تمہیں لوگوں پر اپنی رسالت اور اپنے کلام کے ساتھ برگزیدہ فرمایا، تو تم لو جو میں نے تمہیں دیا اور شکر گزاروں میں ہو جاؤ۔ (سورۃ الاعراف ، آیت نمبر 144)
حضرت موسٰی علیہ السلام نے عرض کیا، اے خدا میں اس پر راضی ہو گیا۔
ابو نعیم بروایت سالم بن عبداللہ بن عمر بن خطاب نقل کرتے ہیں کہ کعب احبار (یہودیوں میں توریت کے عالم جو مشرف با اسلام ہو گئے تھے) سے ایک مرد نے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ حساب کتاب کے لیے جمع ہوئے ہیں اور تمام نبیوں کو بلایا گیا ہے۔ جملہ نبی اپنی اپنی امت کے ساتھ آئے اور ہر نبی کے لیے دو نور اور ہر امتی کے لیے ایک نور جو ان کے ساتھ ساتھ چلتا تھا دیکھا گیا۔ اس کے بعد حضور اکرم احمد مجتبٰی محمد مصطفٰے علیہ التحیتہ والثناء کو بلایا گیا تو آپ کے ہر موئے تن کے ساتھ ایک ایک نور تھا اور آپ کے ہر امتی کے ساتھ دو نور تھے۔ اس پر کعب احبار نے اس مرد سے دریافت کیا کہ تم نے جو اپنے خواب کی تفصیل بیان کی ہے کیا تم نے ایسا کہیں پڑھا ہوا ہے؟ اس شخص نے کہا ، خدا کی قسم ، خواب میں ایسا دیکھنے کے سوا کہیں اور کسی جگہ ایسا نہ پڑھا۔ تو حضرت کعب فرماتے ہیں ، قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں کعب کی زندگی ہے یہ صفت محمد مصطفٰے اور ان کی امت کی ہے اور وہ صفت تمام نبیوں اور ان کی امتیوں کی ہے، یہی کتاب الٰہی میں ہے گویا کہ تونے توریت میں اس پڑھا ہے۔۔۔

(مدارج النبوۃ از شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
اسم مبارک پر نام رکھنا۔۔۔

حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم مبارک پر نام رکھنا مبارک و نافع اور دنیا و آخرت میں حفاظت میں لینے والا ہے۔ چنانچہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، بارگاہ حق میں دو بندے کھڑے کیے جائیں گے ، اس پر حق تعالٰی انہیں جنت میں داخل کرنے کا حکم فرمائے گا۔ یہ دونوں بندے عرض کریں گے کہ اے خدا کس چیز نے ہمیں جنت کا اہل اور مستحق بنایا حالانکہ ہم نے کوئی نیک عمل نہیں کیا بجز اس کے کہ تیری رحمت سے ہم جنت میں جانے کے امید وار تھے۔ اس پر اللہ رب العزت جل و علٰی فرمائے گا، تم جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اس لیے کہ میں نے اپنی ذات کی قسم اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ اسے ہر گز جہنم کی آگ میں نہ بھیجوں گا جس کا نام احمد یا محمد ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا، مجھے قسم ہے اپنے عزت و جلال کی کہ کسی ایک پر عذاب نہ کروں گا جس کا نام تمہارے نام پر ہے۔ سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ فرمایا ، کوئی دسترخوان ایسا نہیں کہ بچھایا گیا ہو اور اس پر لوگ کھانے کے لیے آئیں اور ان میں احمد یا محمد نام والے ہوں مگر یہ کہ حق تعالٰی اس گھر کو جس میں یہ دسترخوان بچھایا گیا ہے روزانہ دو مرتبہ پاک نہ فرمائے۔ اسے ابو منصور دیلمی نے روایت کیا۔
صاحب مدارج النبوۃ (شیخ عبدالحق محدث دہلوی) نے ایک مرتبہ حضور غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا کہ ان کے سامنے کھڑے ہیں۔ حاضرین مجلس نے عرض کیا کہ محمد عبدالحق (محدث دہلوی) سلام عرض کر رہے ہیں۔ حضور غوث پاک کھڑے ہو گئے اور معانقہ فرمایا اور فرمایا کہ تم پر آتش دوزخ حرام ہے۔ بظاہر یہ بشارت اسی نام رکھنے کی برکت کا نتیجہ میں ہے۔۔۔

(مدارج النبوۃ از شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)
 
آخری تدوین:
Top